The Latest

شام کےمنظر نامے میں اب کیا بچا ہے ؟

وحدت نیوز( امور خارجہ )ابھی کل ہی یوں لگ رہا تھا کہ امریکہ اور اسکے اتحادی بس اگلے چند گھنٹوں میں حملہ کر رہے ہیں یہ صرف ایک تجزیہ نہیں تھا بلکہ خود امریکی اور ان کے اتحادیوں کے بیانات بتارہے تھے اور گرونڈ میں ہونے والی انکی تیاری بتارہی تھی پھر کیا ہوا کہ اب جنگ کی باتیں دنوں سے ہفتوں میں بدل گئیں آخر عالمی منظرنامے میں یہ اچانک کی تبدیلی کیوں ؟
دور کی نظر رکھنے والے جانتے تھے کہ حملہ کی دھکمیاں اور عمل میں کچھ فاصلہ ضرورہوا کرتا ہے اور اگر مقابلے میں بیٹھے لوگ عاقل اور سمجھدار ہوں تو اسی فاصلے میں کایا پلٹ دیتے ہیں ویسے ایران کے رہبر اعلی کا ایک جملہ سوشل میڈیا میں بڑا چلتا رہا ہے کہ وہ فرماتے ہیں ’’امریکہ کی مثال اس کتے کی ہے جس کے سامنے ڈٹ جاو تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے ‘‘یوں لگتا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی حالت کل سے آج تک کچھ ایسی ہی ہوئی ہے ۔
میں یہاں چاہونگا کہ معروف تجزیاتی خبروں کی سائیٹ العہد میگزین میں چھپنے والے ایک آرٹیکل کے اقتباسات کو کوڈ کروں جیسے مشہور تجزیہ کار ہ فاطمہ سلامۃ نے لکھا ہے فاطمہ لکھتیں ہیں کہ’’کل امریکی وزیر جنگ چیک ہیگل کہتا تھا کہ ہم حملے کے لئے تیار ہیں جبکہ آج اوباما کہہ رہا ہے کہ شام پر حملہ کرنے کے بعد بھی مسائل حل نہیں ہونگے اور نہیں طویل عرصے سے جاری اندرونی بحران کے لئے اچھا ثابت ہوگاکل برطانیہ تین دن سے کہہ رہا ہے سیکوریٹی کونسل میں جائے بغیر ہی شام پر حملہ کیا جانا چاہیے لیکن آج وہ کہتا ہے کہ پہلے پارلیمنٹ سے اجازت لینی ہوگی ،گذشتہ رات فرانس کی وزارت خارجہ کہتی ہیں کہ بس ابھی ہمیں شام کی جانب بڑھنا چاہیے لیکن آج فرانس کے صدر کہتے ہیں کہ سیاسی حل کی خاطر جدوجہد ہونی چاہیے ‘‘

فاطمہ کا خیال ہے کہ یہ بدلتے ہوئے بیانات ان لوگوں کی مزاجی تبدیلیوں کے عکاس نہیں ہیں بلکہ ان بدلتے بیانات کا راز ان کے مقابلے میں ایران کا سخت ہوتا ہوا موقف اور سیکوریٹی کونسل میں روس اور چین کاولب ولہجہ جس نے ان کی کمر پر کاری ضرب لگادی ہے ۔

فاطمہ معروف عرب رائٹر اور امریکی امور کے ماہر حسن حمادی کی بات کو نقل کرتیں جو کہتا ہے کہ ایران کے سخت سے سخت تر ہوتے ہوئے موقف نے روس اور چین کوسیاسی میدان میں شہ دی جس کے سبب منظر نامہ کچھ بدل گیا حمادی کا خیال ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی یہ سمجھ گئے ہیں کہ اگر وہ عسکری حملے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو سیاسی میدان میں کامیابی ان کی نہیں ہوگی ۔

دوسری جانب امریکیوں کو روس چین ایران کے سخت موقف نے اس بات پر بھی خوفزدہ کردیا کہ شام کا معاملہ شام سے نکل کر ایک عالمی جنگ کی شکل اختیار کرجائے گا ۔
عالمی حالات پر ہماری نظر ہے اور دنیا کے ڈھائی سو سے زائد ٹی وی چینلز سینکڑوں اخبارات تجزیوں تبصروں پر گہری نظر ہے دیکھنا یہ ہے ہوتا کیا ہے لمحہ بہ لمحہ بلدتے حالات میں ہماری کوشش ہوگی کہ اردو قارئین کو اپڈیٹ رکھیں ۔

قارئیں مزید معلومات کے لئے ہمارے سوشل میڈیا پیج کو وزٹ کر سکتے ہیں
https://www.facebook.com/mwmpak.FA
https://twitter.com/MWMPakFA

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک ) حضرت علامہ مفتی جعفرحسین نے١٩١٦ء میں گوجرانوالہ کے ایک علمی اورمذہبی گہرانے میں آنکھ کھولی ان کے والدگرامی کانام حکیم چراغ علی تھااوروہ حکمت کاکام کیاکرتے تھے،مفتی صاحب نے اپنی ابتدای تعلیم مکمل کرنے کے بعدگلستان،بوستان،اخلاق محسنی اور حلیةالمتقین جیسی کتابیں اپنے دادحکیم شہاب الدین احمدکے پاس پایہ ای تکمیل تک پہنچائیں،اس کے بعداسی گردونواح میں مشہور

اطباء سے طبابت کی میزان الطب،طب اکبر اورمفرح القلوب جیسی کتابوں کی تعلیم حاصل کی اوراسی طرح اھل سنت کے دینی مدرسہ دارالعلوم میں علم منطق میں قطبی،فلسفہ میں سعدیہ اورادبیات میں سبعہ معلقہ اورمقامات حریری تک زیورعلم سے مالامال ہوئے اوراسکے بعدمزیدعلمی پیاس بھجانے کے لئے ١٩٢٨ء میں مہدعلم وادب لکھنو ٔ کے لئے روانہ ہوئے اورصدرالافاضل کی سند حاصل کی اوراسی طرح لکھنویونورسٹی سے فاضل ادب اورفاضل حدیث جیسی سندیں حاصل کیں، لکھنوکے اندرجن مایہ نازعلمی شخصیات سے کسب فیض حاصل کیاچندایک کے نام اس طرح سے ہیں .
١۔ حجةالاسلام سرکارعلامہ نجم الملت سیدنجم الحسن اعلیٰ اللہ مقامہ
٢ ۔حجةالاسلام سرکارعلامہ سیدظہورحسن بارہوی اعلیٰ اللہ مقامہ
٣۔ (حضرت آیةاللہ سیدعلی نقی نقن کے والدگرامی) حجةالاسلام سرکارعلامہ سید ابولحسن اعلیٰ اللہ مقامہ
٤۔حجةالاسلام سرکارعلامہ سیدسبط حسن جونپوری اعلیٰ اللہ مقامہ
٥۔حجةالاسلام سرکارعلامہ مفتی سید محمدعلی اعلیٰ اللہ مقامہ
٦۔حجةالاسلام سرکارعلامہ مفتی سیداحمدعلی اعلیٰ اللہ مقامہ
مرحوم مفتی صاحب کے اندرعلمی تشنگی کا احساس مزیدبڑھااورلکھنوسے فارغ التحصیل ہونے کے کچھ عرصہ بعداعلیٰ تعلیم کے لئے ١٩٣٥ ء میں باب العلم کے جوار،نجف اشرف کے لئے روانہ ہوئے اوروہاںعرصہ پانچ سال تک شہرعلم وتقویٰ کے مایہ نازاساتذہ من جملہ
١۔ حضرت آیةاللہ شیخ عبدالحسین رشتی اعلیٰ اللہ مقامہ
٢۔ حضرت آیةاللہ شیخ میرزاباقرزنجانی اعلیٰ اللہ مقامہ
٣۔ حضرت آیةاللہ شیخ جوادتبریزی اعلیٰ اللہ مقامہ
٤۔ حضرت آیةاللہ شیخ ابراہیم رشتی اعلیٰ اللہ مقامہ
٥۔ حضرت آیةاللہ سیدعلی نوری اعلیٰ اللہ مقامہ وغیرہ سے کسب فیض کرتے رہے اور١٩٤٠ء کو اپنے وطن واپس پلٹ آئے اوراپنے صدواجب الاحترام استادسرکارعلامہ نجم الملت صاحب کے حکم پرمدرسہ باب العلوم نوگانوان سادات،مرادآبادمیں بعنوان مدرس تعلیم وتعلم کاسلسلہ شروع کیا.گوجرانوالہ میں مدرسہ جعفریہ کے قیام کے بعد آپ اپنے آبائی شہرواپس پلٹ آئے اوراپنے آپ کوہمیشہ کے لئے قوم کی مذہبی واجتماعی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔اجتماعی امورمیں حصہ لینے کے علاوہ آپ اپنے مذہب کو اجاگرکرنے میں بھی پیش قدم تھے اس سلسلہ میں ان کی چندایک اہم تالیفات بھی ہیں زیورطبع سے آراستہ ہیں۔
١۔ترجمہ نہج البلاغہ
٢۔ترجمہ صحیفہ کاملہ سجادیہ
٣۔سیرت امیرالمومنین علی علیہ السلام(٢جلد)

وحدت نیوز ( جامشورو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ ضلع جامشورو کی تنظیم نو کے سلسلے میں ایک تقریب منعقد کی گئی  جس میں   برادران وحدت نے شہید علامہ الطاف حسین الحسینی کے فرزند برادر کاشف حسین الحسینی کوضلع جامشورو کا  نیا سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا۔ ضلعی شوریٰ کے اراکین کی اکثریت رائے سیکریٹری جنرل منتخب ہو نے کے بعد   صوبائی سیکریٹری تنظیم سازی برادر یعقوب حسینی نے برادر کاشف حسینی الحسینی سے ان کی ذمہ داری کا حلف لیا۔

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین لاہور کے زیراہتمام کربلا گامے شاہ لاہور میں قائد ملت اسلامیہ علامہ مفتی جعفر حسین کی برسی منائی گئی، برسی کی تقریب ان کے مزار کربلا گامے شاہ میں ہوئی جس میں مرحوم قائد کے سینکڑوں عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس تھے جبکہ مرحوم کے مزار پر دعائے کمیل کا خصوصی اہتمام کیا گیا اور علامہ احمد اقبال رضوی نے دعا ئے کمیل کی تلاوت کی۔ اس موقع مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی بھی موجود تھے۔

 

برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ نے مرحوم قائد کی ملت کے لئے بے مثال خدمات پر روشنی ڈالی۔ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ بظاہر نحیف اور کمزور نظر آنے والے مفتی جعفر حسین چٹان سے بھی مضبوط ارادے کے مالک تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں واحد طاقتور ترین قائد مفتی جعفر حسین ہی تھے جنہوں نے اسلام آباد میں ضیاءالحق جیسے آمر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج مفتی جعفر حسین ہم میں ہوتے تو ہماری ملت ان مسائل اور پریشانیوں کا شکار نہ ہوتی، انہوں نے اپنی محنت، ولولے اور مصمم ارادے سے پوری ملت تشیع پاکستان کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔

 

راجہ ناصر عباس نے کہا کہ دشمن نے ہماری ملت کے خلاف سازش کی اور ہماری بہادر، خوددار اور غیرت مند ملت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا گیا، لیکن آج مجلس وحدت اپنے مرحوم قائد مفتی جعفر حسین کے افکار پر عمل پیرا ہے اور آج بھی مجلس وحدت بکھری ہوئی ملت کو ایک لڑی میں پرونے کیلئے مصروف عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ ہم ملت کو متحد کرنے میں کافی زیادہ حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور آج ہمارے ماتمی نوجوان، ہمارے ذاکرین عظام، ہمارے جید اور دردمند علما کرام، ہمارے صالح اور باشعور نوجوان ہمارے ساتھ ہیں اور ہم سب ایک پلیٹ فارم پر متحد ہیں۔

 

راجہ ناصر عباس نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کوئی جماعت یا گروپ نہیں بلکہ ایک پلیٹ فارم ہے جس پر ہم نے ملت کو متحد کرنا ہے، اس حوالے سے ہم تمام زعما ملت، عمائدین، بزرگان سے رابطے میں ہیں اور انشاءاللہ وہ دن تاریخ کی یہ بوڑھی آنکھیں دیکھیں گی جب ملت تشیع پاکستان ویسے متحد ہو گی جیسے مفتی جعفر حسین نے اسے متحد کیا تھا اور شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے اسے بام عروج پر پہنچایا تھا۔ علامہ راجہ ناصر عباس نے نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ملت کے تمام افراد کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے کردار ادا کریں، ملت تشیع کی بقا اتحاد میں ہے، دشمن نے ہمیں گروپوں میں تقسیم کر کے ہماری قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا، ہم تقسیم تھے اس لئے اسے اپنی جارحیت کے ارتکاب کا موقع ملا لیکن اب نہیں، اب ملت جعفریہ پاکستان بیدار ہو چکی ہے اور دشمن کے عزائم جان چکی ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ مفتی جعفر حسین کی برسی کے تقریب میں ملت کی اس کثیر تعداد میں شرکت سے ثابت ہو گیا ہے کہ لوگ آج بھی مفتی جعفر حسین کے افکار کی عملی تعبیر چاہتے ہیں، اور مجلس وحدت انشاءاللہ مرحوم قائد مفتی جعفر کے افکار کی روشنی میں ملت کو بام عروج پر پہنچائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں مفتی جعفر حسین اور علامہ شہید عارف حسین الحسینی جیسے قائدین نصیب ہوئے ہیں، ہم ملت کو اتحاد اور وحدت کا درس دیتے ہوئے ایک باعزت قوم بنائیں گے، ہم ملت کو ایسی قوم بنائیں گے جس کا دشمن اس پر وار کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔

وحدت نیوز (پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کی جانب سے ملک کے معروف اہلحدیث عالم دین مولانا اسحاق مدنی کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہے۔ اس سلسلے میں وحدت ہاوس پشاور میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہوا، جس میں مرحوم مولانا اسحاق مدنی کی مغفرت کیلئے دعا کی گئی۔ اس موقع پر ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ مولانا اسحاق مدنی صرف اہل حدیث مسلک میں ہی  نہیں بلکہ پاکستان میں بسنے والے ہر مسلمان کیلئے قابل احترام شخصیت تھے۔ مرحوم نے اتحاد بین المسلمین کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے ہر موقع پر امت مسلمہ کے مفادات کو ترجیح دی اور حق بات ببانگ دہل کہی۔ مجلس وحدت مسلمین مولانا اسحاق مدنی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔ اور ان کی وفات پر اہلخانہ کے غم میں برابر کی شریک ہے۔

وحدت نیوز (آزادجموں کشمیر) قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی برسی کا عظیم الشان اجتماع دفاع وطن کنونشن کے عنوان سے 8ستمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہو گا، پورے ملک کی طرح آزاد کشمیر کے تمام اضلاع سے محب وطن کارکنوں کے قافلے شریک ہوں گے، شہید حسینی ملت جعفریہ کے وہ عظیم قائد تھے جنھوں نے اپنی جان وطن عزیز کی نظریاتی و فکری سرحدوں اور آئین و قانون پاکستان کے تحفظ کے لیئے قربان کر دی، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل سید سرفراز حسین کاظمی و مجلس وحدت مسلمین میرپور کے سیکرٹری جنرل سید محمد رضا شاہ بخاری نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ شہید قائد صیح معنوں میں اتحاد بین المسلمین کے داعی اور انقلاب اسلامی کے لیئے کوشاں تھے ، آپ کی خواہش تھی کہ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے تصور کے مطابق اسلامی فلاحی مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرے، اس کے لیئے انہوں نے ہمیشہ اور ہر سٹیج پر آواز اُٹھائی ، پاکستان میں بڑھتے ہوئے امریکی اثرونفوذ کے خلاف علم بلند کرنے کی وجہ سے ضیاء الحق نے طاغوت اور استعمار کی خوشنودی کے لیئے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے آپ کو شہید کروا دیا، سید سرفراز کاظمی نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ مجلس وحدت مسلمین شہید حسینی کے افکار کے مطابق ان کے مشن کی تکمیل کے لیئے کوشاں ہے، اب جب کہ وطن عزیز دہشتگردی ، فرقہ واریت ، علاقائی و لسانی تعصبات، بھتہ مافیا جیسی موذی امراض کا شکار ہو چکا ہے، ایسے میں دفاع وطن کنونشن وقت کی اہم ضرورت اور وطن کی آواز ہے، سید محمد رضا شاہ بخاری نے کہا کہ ہم مرکزی اور ریاستی قائدین کی ہر کال پر لبیک کہتے ہوئے دفاع وطن کنونشن میں ضلع میرپور سے بڑے قافلے کے ساتھ برسی کے پروگرام اور دفاع وطن کنونشن میں شرکت کریں گے۔

وحدت نیوز (گلگت ) بھکر میں رونما ہونے والے حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، حکومت خود کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ رنا ثناءاللہ اور کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ بھکر میں حالات خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے صوبائی سیکرٹری جنرل شیخ نیر عباس مصطفوی نے اپنے ایک خباری بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھکر میں بے گناہ علماء اور مومینن کو گرفتار کیا گیا، جبکہ دہشت گرد بھکر کے حالات خراب کرنے میں مصروف تھے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ حکومت ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے سنیجدہ نہیں ہے، جس کے باعث آئے روز ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اگر ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے تو پھر دہشتگردوں کیخلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی۔
 
ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری جنرل نے شام کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام کے خلاف امریکہ کا حملہ امریکہ کی بربادی کی طرف اشارہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شام میں دہشت گردوں کو امریکی منصوبے کے تحت لایا گیا، مگر اب امریکہ کی بربادی قریب ہے۔ شام میں مزارات اقدس کی حفاظت کرنا ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔ گلگت بلتستان کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقامی حکومت اور انتظامیہ دہشتگردوں کی آمد کی خبریں دیتے ہیں، مگر دہشتگردوں کو گرفتار کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں اُٹھاتے، جس کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نانگاہ پربت اور چلاس میں آرمی کے جوانوں کی شہادت کے بعد اگر حکومت کوئی ٹھوس اقدامات اٹھاتی اور دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرتی، تو آج گلگت شہر میں پولیس کے جوان اور بے گناہ شہری قتل نہ ہوتے۔ انکا مزید نے مزید کہنا تھا کہ حکومت اور انتظامیہ کی غلط پالیسی کی وجہ سے آئے روز حالات خراب ہو رہے ہیں۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک ) شام مشرق وسطٰی میں فلسطین پر ناجائز اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلمانوں کی جنگ میں فرنٹ لائن ہے۔ لبنانی شیعوں کی جماعت حزب اللہ اور فلسطینی سنی مسلمانوں کی تنظیم حماس دو ایسی قوتیں ہیں جو اسرائیل کے وجود کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں ہونے والی بے عزتی کا بدلہ برطانوی سامراج نے یہودی سرمایہ داروں کی مدد سے خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے کرکے لیا۔ سلاطین ترکی کی بادشاہت کے خاتمے میں سعود اور آل خلیفہ خاندان نے برطانوی سامراج کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔ عالم اسلام کی مرکزیت ختم ہوگئی اور مسلم دنیا ٹکڑوں میں بٹ گئی، جس کے نتیجے میں فلسطین پر یہودی قابض ہوگئے۔ اس وقت سے ناجائز صہیونی ریاست عالم اسلام میں سامراجی مفادات کی محافظ بن گئی۔ دنیا کی اہم گذر گاہوں، تجارتی رستوں، گرم پانیوں اور تیل کی دولت سے مالا مال علاقوں پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے ناجائز اسرائیلی ریاست کا وجود امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ عالم عرب اسرائیلی افواج کے ساتھ جنگ میں کئی بار شکست کھا چکا ہے۔ مصر کے آمروں سے لیکر خلیجی ممالک کے شہنشاہوں تک اسرائیل سے سمجھوتہ کرچکے ہیں۔

عرب خطے میں فقط حزب اللہ اور حماس ایسی طاقتیں ہیں جو بار بار اسرائیلی افواج کو ہزیمت سے دوچار کرچکی ہیں۔ لبنان اور فلسطین کے شیعہ سنی مسلمانوں کے ہاتھوں اپنی حلیف اور مفادات کی محافظ قوت کو زوال پذیر دیکھ کر مغربی طاقتیں مایوسی اور بے چینی کا شکار ہیں۔ پچھلی نصف صدی میں امریکہ کی حلیف خلیجی ممالک میں عرب شہنشاہتیں مسلسل استعماری بلاک کا حصہ رہنے کی وجہ سے فلسطینی مسلمانوں کی حمایت سے دست کشی اختیار کرچکی ہیں۔ اپنے غیر جمہوری اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے امریکہ کا سہارا لینی والی ان مسلمان ریاستوں کی باگ ڈور مکمل طور پر مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ جس کا سارا فائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں براہ راست اسرائیل کی حامی اور مدد گار ہیں، لیکن شام کے علاوہ تمام عرب ممالک حماس اور حزب اللہ کے مخالف ہیں۔ حماس اور حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف کامیاب جنگوں میں کسی عرب ملک کا ہاتھ نہیں۔ اقوام متحدہ کے ذریعے لبنان کے سیاسی راہنما رفیق حریری کے قتل میں شامی حکومت کو ملوث کرنے کی کوشش اس لیے کی گئی تھی کہ شام نے حماس اور حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف جنگوں میں کھل کر مدد کی۔ جزب اللہ اور حماس کے لیے شام کی سرحدیں ہر وقت کھلی رہتی ہیں۔ لبنان اور فلسطین کے مجاہدین شام کو اپنا ہی گھر تصور کرتے ہیں۔

امریکہ کی حلیف خلیجی ریاستوں اور امریکی بالادستی کی مخالف ایران کی مذہبی حکومت کے دو الگ الگ بلاک بن گئے، لیکن اس اختلاف کو ہمیشہ عرب ایران مخاصمت کے پیرائے میں دیکھا جاتا رہا۔ شام میں امریکہ کو عرب حکومتوں کے علاوہ ترکی نئے حلیف کے طور پر شامی حکومت کے خلاف اہم کردار کر رہا ہے۔ خلافت اور مسلمانوں کے لیے مرکزیت کی علامت رہنے والا ترکی اس وقت جماعت اسلامی طرز کی اسلامی پارٹی کے کنٹرول میں ہے۔ ترکی اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کا اہم مستقر ہے۔ ترکی نے کبھی عسکری طور پر فلسطینی مجاہدین کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی فلسطینیوں کو ترکی میں رہنے کے لیے مہاجرین کے کیمپ قائم کرنے دیئے، البتہ شام کے خلاف جب بھی بغاوت ہوئی ترکی نے باغیوں کی ہر ممکن امداد کی۔ شام میں باغیوں کو مدد فراہم کرنے کے علاوہ ترکی کے القاعدہ اور عرب ریاستوں کے ساتھ کبھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے۔ اسی طرح اردگان پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت ترکی کو ایک خالص اسلامی ملک بنانا چاہتی ہے اور مغربی طاقتوں کے دباو کو خاطر میں لائے بغیر سیکولر ترکی کو مذہبی شناخت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ، عرب ممالک اور مغربی طاقتوں کے ساتھ ترکی کا شام مخالف اتحاد صاف دلی اور نیک نیتی کی بجائے فقط عارضی بنیادوں پر قائم ہے۔

شام اسرائیل کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والی قوتوں کی پشت پناہی کرنے والی واحد عرب ریاست ہے۔ اسرائیل کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مغربی طاقتیں شام میں حزب اللہ مخالف حکومت قائم کریں۔ چاہے وہ عرب شہنشاہتوں کی طرح غیر جمہوری حکومت ہو یا کوئی فوجی آمرانہ حکومت ہو۔ عرب دوستوں کے تعاون سے امریکی انتظامیہ نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر عراق میں صدام حکومت کو ختم کر دیا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کی گرفتاری کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ آج طالبان کے ساتھ امریکہ مذاکرات کر رہا ہے اور افغانستان سے واپس جانا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امریکیوں کو زبردست نقصان سے دوچار کرنے والی قوتوں کے ساتھ اوبامہ انتظامیہ کی بات چیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت کا ہدف طالبان نہیں تھے، بلکہ امریکہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ نشانہ بنائے اور اسامہ بن لادن طالبان حکومت کے ذریعے ریاستی طاقت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکیں، اور اسکے ساتھ ہی ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے پاکستان اور اٖفغان علاقوں میں جاسوسی کی سرگرمیاں جاری رکھی جاسکیں۔ عراق میں امریکی مداخلت کا ہدف بھی ایران اور شام کو کا گھیراؤ تھا۔

اوبامہ انتظامیہ نے مشرق وسطٰی اور افریقی عرب ممالک میں تبدیلی کی لہر کے ساتھ ہی شام پر حملوں کے لیے پر تولنا شروع کر دیئے تھے۔ شامی حکومت کا موقف ہے کہ امریکی میزائل حملوں کا مقصد شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو سپورٹ فراہم کرنا ہے۔ سمندر میں مستقر بحری بیڑوں سے امریکی میزائل داغیں گئے اور شام کی سرزمین پر موجود باغی عناصر اپنے حامی غیر ملکی جنگجووں کے ساتھ مل کر شامی افواج کے خلاف حملے تیز کریں گے۔ لیکن دوسری طرف شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ سلفی جنگجووں کی ممکنہ کامیابی کے خوف کی وجہ سے امریکہ نے شام میں براہ راست مداخلت کا قدم اٹھایا ہے، تاکہ سیکولر عناصر کو تقویت دی جاسکے۔ حالات جو بھی رخ اختیار کریں، شام سمیت دنیا بھر میں امریکی استعمار کی جارحیت کا مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے اور مشرق وسطٰی میں اسرائیل کی سکیورٹی، امریکی مفادات کی فہرست میں سب سے پہلی ترجیح ہے۔ شام اسرائیل دشمن ملک ہے اور القاعدہ کی چھتری تلے جمع ہونے والے غیر ملکی جنگجو شامی حکومت کے دشمن ہیں۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ القاعدہ شام کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر اسرائیل کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

اس وقت سب سے اہم سوال خطے میں حزب اللہ کے کردار کا ہے کہ مشرق وسطٰی کی طاقت ور ترین سیاسی و عسکری قوت کا ردعمل کیا ہوگا۔ حزب اللہ کا موقف ہے کہ شام ہمارا حامی ملک ہے اور ہمارے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل گذشتہ چند ماہ میں کئی بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ حزب اللہ کا عسکری ونگ مکمل طور پر شامی افواج کی مدد کر رہا ہے۔ حزب اللہ کے مدمقابل فری سیرین آرمی کے علاوہ القاعدہ کی چھتری تلے جمع ہونے والے عرب، ترکش، یورپی، افغانی اور پاکستانی عسکریت پسند گروہ ہیں۔ عسکری تجزیہ نگاروں کو اس بات پر اختلاف ہے کہ اسرائیلی بمباری اور میزائل حملوں کا بھرپور جواب دینے والی حزب اللہ امریکی میزائل حملوں اور القاعدہ کے زمینی حملوں کا مقابلہ کر پائی گی یا نہیں؟ بی بی زینب(س) کے مزار پر راکٹ حملوں اور لبنانی سرحد پر شیعہ نشین علاقوں میں القاعدہ کی جارحیت نے شام کی خانہ جنگی میں فرقہ وارانہ چھاپ کو گہرا کر دیا ہے۔ لبنانی، عراقی اور غیر عرب شیعہ قوتوں کا موقف ہے کہ کربلا اور دمشق ہمارے لیے جان سے عزیز مقامات ہیں اور ان دونوں مقامات کے تحفظ کے لیے حزب اللہ کسی رکاوٹ کی پروا نہیں کرے گی۔ فرنٹ لائن پر حزب اللہ شیعہ لڑاکا دستوں کی قیادت کر رہی ہے۔ القاعدہ چونکہ سنی العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل عسکری گروہوں کی جماعت ہے، جو فقط سلفی اور برصغیر کے دیوبندی مسلک والوں کو مسلمان سمجھتی ہے، لیکن شیعہ مجتہدین نے کبھی القاعدہ کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا، جس کی وجہ سے عرب دنیا سمیت تمام اسلامی ممالک میں عوامی رائے عامہ ہمیشہ حزب اللہ اور حماس کے حق میں رہی ہے اور انہیں اسرائیل کے خلاف عربوں کے ہیرو ہونے کا درجہ حاصل ہے۔

القاعدہ کے پکڑے جانے والے جنگجووں کی تفتیشی رپورٹوں میں اس بات کو تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ سوڈان میں اسامہ بن لادن کے قیام کے دوران حزب اللہ کے آپریشنز کی منصوبہ بندی کرنے والے شیعہ گوریلا لیڈر عماد مغنیہ کی ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور ایسی خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ امریکہ کے خلاف جہاد کا دعویٰ کرنے والی القاعدہ قیادت کو عماد مغنیہ نے اسرائیل کے خلاف جہاد کی دعوت دی، لیکن سوڈان میں اسامہ کی رہائش گاہ پر امریکی میزائل حملوں کی وجہ سے القاعدہ قیادت افغانستان میں منتقل ہوگئی۔ افغانستان میں طالبان اسامہ بن لادن کے میزبان بنے۔ حزب اللہ اور القاعدہ قیادت کے درمیان ہونے والی بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہی ختم ہوگئی۔ سوڈان حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے والی حماس قیادت نے بھی القاعدہ کو اسرائیل کے خلاف مشترکہ جہادی کارروائیوں کی دعوت دی، لیکن حماس کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے بعد حماس نے محسوس کیا کہ القاعدہ قیادت اپنا مستقر افغانستان کو ہی بنانا چاہتی ہے اور بلاد حرمین یعنی مکہ اور مدینہ کو کفار سے پاک کرنے کا نعرہ لگانی والی القاعدہ قیادت کو اسرائیل کے خلاف جدوجہد سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جس سے حزب اللہ اور حماس کے حلقوں میں یہ تاثر مضبوط ہوا کہ القاعدہ کی ذہنیت یہ ہے کہ پہلے مسلم ممالک کی حکومتوں کے خلاف تخریبی کارروائیوں اور پروپیگنڈہ کے ذریعے شورش برپا کی جائے اور کسی نہ کسی ملک میں ریاستی طاقت حاصل کی جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوتا گیا کہ اسرائیل کے خلاف جہاد کی حمایت القاعدہ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

فرقہ وارانہ رنگ غالب آجانے کی وجہ سے حزب اللہ، شامی حکومت، عراق، ایران اور عرب و غیر عرب شیعہ قوتوں میں مثالی طور پر مقصد کی یکسوئی اور اشتراک عمل پایا جاتا ہے، جس کی بنیاد ایک عقیدہ ہے اور شیعہ مسلک کے عقیدے کی بنیاد نظریہ امامت ہے اور شیعوں کے نزدیک آخری امام کا ظہور ہوگا، جس میں شام کے خطے کا اہم کردار ہوگا، جن کے ساتھ مل کر ان کے حامی یہودیوں اور دنیا کی باطل طاقتوں سے جنگ کریں گے اور کربلا میں مدفون امام حسین، شیعوں کے آخری امام کے جد امجد ہیں، اس لئے شیعہ عقیدے کے مطابق کربلا اور دمشق کی حفاظت کرنا اور ان علاقوں کی آزادی برقرار رکھنا، دنیا میں سچی اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ شیعہ مسلک کے تمام مسلمان امام حسین اور اپنے آخری امام کو نبی آخرالزامان کے اہلبیت ہونے کی وجہ سے اپنی جانوں سے زیادہ عزیز مانتے ہیں اور پوری دنیا سے کروڑوں کی تعداد میں کربلا اور دمشق میں حاضری دیتے ہیں۔ پوری دنیا کے شیعہ مسلمان عقیدے کے لحاظ سے کربلا اور دمشق کے تحفظ کے لیے حزب اللہ، لشکر مہدی اور شام میں حکومت کی طرف سے جنگ کرنے والے شیعہ عساکر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ شیعہ مسلک کے مسلمان حزب اللہ کو آخری امام کی فوج سمجھتے ہیں اور انکی تائید و حمایت انکا مذہبی فریضہ ہے۔ ایسے میں حزب اللہ کے عسکری ونگ کو شیعہ نشین ملکوں کے سنگم پر واقع دمشق اور کربلا کی آزادی برقرار رکھنا آسان ہے، بہ نسبت اس کے متفرق العقیدہ اور ایک دوسرے کی تکفیر کے قائل القاعدہ عناصر امریکی عسکری ماہرین کی کمانڈ میں شام کو فتح کرلیں۔ القاعدہ کے لیے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اردن، سعودی عرب اور ترکی شامی حکومت کی تبدیلی تو چاہتے ہیں، لیکن تینوں ممالک ایران کی شیعہ حکومت کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کرسکتے اور نہ ہی القاعدہ کی حمایت میں زبان کھول سکتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سعودی عرب، سیرین فری آرمی، امریکہ اور القاعدہ کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہونا ناممکن ہے ۔

حزب اللہ عربوں کی تجربہ کار عسکری طاقت ہے، جنہیں سنی العقیدہ عرب قوتوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے، جیسا کہ فلسطین میں حماس نے حزب اللہ مخالف سلفی گروہوں کا صفایا کیا اور مصر کے تحریر اسکوائر میں حسن نصراللہ کی تقریریں سنی جاتی رہی ہیں، حماس اور اخوان المسلمون جب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے تو لبنان کے شیعہ مجتہدین نے انہیں سہارا فراہم کیا۔ حالیہ رمضان میں سید حسن نصراللہ نے حماس اور فلسطین کے تمام راہنماوں کو افطار کی دعوت دی اور برملا طور پر القاعدہ عناصر کو چیلنج کیا کہ وہ اکٹھے ہو کر شام آجائیں، ہم انہیں واپس نہیں جانیں دیں گے، نہ غیر ملکی مداخلت کو باقی رہنے دیں گے، لیکن القاعدہ کے جنگجو گروپوں کو عقیدے کی بنیاد پر دنیا میں کہیں بھی حمایت حاصل نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے کسی مسلک کے جید علماء نے آج تک القاعدہ کے وجود، مقاصد اور طریقہ کار کی تائید کی ہے، بلکہ القاعدہ ایک بے گھر گروہ ہے، جو اسامہ بن لادن کی اپنے ہی ملک سعودی عرب میں ان کی شہریت ختم ہو جانے کی وجہ سے انتقامی جذبے کے تحت وجود میں آیا۔ اس وقت شام میں القاعدہ کی چھتری تلے جمع ہونے والے سب گروہ غیر ملکی ہیں، لیکن حزب اللہ کے لیے جغرافیائی طور پر شام اور لبنان میں کوئی فرق نہیں۔ القاعدہ اور امریکہ شامی باغیوں کی حمایت کے لیے شام آ رہے ہیں، لیکن حزب اللہ لبنان، فلسطین اور شام کو تحفظ دے رہی ہے۔

شام مخالف دھڑوں کی سپورٹ میں امریکہ کی حلیف سعودی سلفی حکومت القاعدہ پر پابندی لگا چکی ہے، لیکن یہی سعودی حکومت اسرائیل کو اپنے علاقوں سے نکالنے اور پہلی بار شکست سے دوچار کرنے کی خوشی میں حزب اللہ کے ہزاروں جنگجووں کو سرکاری مہمان کی حیثیت سے مکہ اور مدینہ میں بلا چکی ہے۔ عرب ممالک اور ساوتھ ایشاء کے مسلم ممالک کی رائے عامہ شعوری طور اس سوچ کی حامل ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے تمام گروہ امریکہ کے حلیف رہ چکے ہیں، کیونکہ وہ امریکہ کی تخلیق ہیں، لیکن حزب اللہ کی تخلیق کا مقصود ہی لبنان سے امریکہ سمیت تمام استعماری طاقتوں کی افواج کا انخلاء تھا، جس کی خاطر تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکی میرینز کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ القاعدہ سے منسلک گروہ اپنے ہی ملکوں کی افواج سے بر سرپیکار ہیں اور عام مسلمان آبادیوں میں معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس حزب اللہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی اور لبنانی عوام کی سکیورٹی کے لیے صہیونی افواج پر حملے کرتی ہے۔

شام میں حزب اللہ ریاستی طاقت کا ساتھ اس لئے دے رہی ہے کہ اسرائیل کے خلاف اہم حلیف عدم استحکام کا شکار نہ ہو، لیکن القاعدہ صرف مسلکی اختلاف کی بنیاد پر خطے میں طاقت کا توازن اس طرح بدلنا چاہتی ہے، جس کا نتیجہ صرف امریکی اور اسرائیلی بالادستی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں مسلکی تعصب کی وجہ سے شامی حکومت کی مخالف ہیں، لیکن تمام مذہبی جماعتیں پاکستانی طالبان یا شام میں لڑنے والے القاعدہ عسکریت پسندوں کی حمایت سے کترارتی ہیں، جس کے برعکس حزب اللہ کو پوری دنیا میں اعتدال پسند مذہبی جماعتیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ القاعدہ نے ہمیشہ کسی نہ کسی غیر ملکی طاقت کی سرپرستی میں اپنے حلیفوں اور سرپرستوں کے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کرایے کے دہشت گردوں کا کردار ادا کیا ہے اور پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک میں دہشت پسند کارروائیاں کی ہیں۔ پاکستان کی دیوبندی اور سلفی قوتیں مسلسل القاعدہ سے لاتعلقی پر اصرار کرتی ہیں۔ حزب اللہ نے پاکستان سمیت کسی اسلامی ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ حزب اللہ ایک عسکری قوت ہونے کے ساتھ پختہ ترین سفارتی مہارت رکھنے والی مضبوط جمہوری قوت ہے۔

پاکستان میں مغربی دنیا اور امریکہ سے دوستی کا دم بھرنے والے عربوں کے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے سمجھوتوں کی بنیاد پر یہ دلیل قائم کرتے ہیں کہ پاکستان کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لینے میں کوئی عار نہیں، لیکن عربوں کے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتوں کے باوجود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا اسرائیل کے حوالے سے یہ موقف کہ اسرائیل مغرب کی ناجائز اولاد ہے، پاکستانی خارجہ پالیسی کے لیے بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملت پاکستان بابائے قوم کے راستے پر قائم ہے، حزب اللہ پاکستانی عوام میں ایک ہیرو کے طور پر مقبول ہے۔

امریکہ اور اسرائیل ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں حزب اللہ کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں، جبکہ القاعدہ ایسے عالمی مفرورں پر مشتمل ہے جو مختلف جرائم میں اپنے اپنے ملکوں کو مطلوب ہیں۔ حزب اللہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس اور اپنے مقابلے میں سینکڑوں گنا بڑے دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کی کامیاب جنگی تاریخ کی حامل ہے۔ القاعدہ نے ہمیشہ دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں فراریوں کی فوجیں تیار کی ہیں۔ حزب اللہ لبنان اور شام میں کسی کی پناہ میں نہیں بلکہ علاقے کے استحکام کی ضمانت، خطے میں عالمی طاقتوں کی بالادستی کے خلاف ایک مزاحمتی علامت کے طور پر موجود ہے۔ پوری دنیا کے امن پسندوں کو سید حسن نصراللہ کے وعدے پر یقین ہے کہ جلد ہی شام کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا جائے گا اور امریکی حملے شام میں آنے والے شرپسندوں کی گردنیں ذوالفقار کی ضرب سے بچا لئے جانے میں بے سود ثابت ہوں گے، کیونکہ حزب اللہ جرائم پیشہ عناصر اور اغواء برائے تاوان کو تجارت سمجھنے والوں کا گروہ نہیں اور شام افغانستان نہیں بلکہ امریکہ کا قبرستان ثابت ہوگا۔

وحدت نیوز ( لاہور) صوبائی وزارت داخلہ پنجاب نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ، مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ امین شہیدی ،صوبائی سیکریٹری جنرل پنجاب علامہ عبد الخالق اسدی اور بھکر کے رہائشی صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ اصغر عسکری پر اپنے ہی شہربھکر میں داخلے پر 30یوم تک کے لئے مضحکہ خیز پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔تفصیلات کے مطابق گذشتہ دنوں بھکر میں اہل تشیع آبادی پر ہو نے والے تکفیری دہشت گردوں کے حملے اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی و صوبائی قیادت کے فعال کردار سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر صوبائی وزارت داخلہ نے ایم ڈبلیو ایم کی چار مرکزی شخصیات پر بھکر میں داخلے پر پابندی کے احکامات جاری کر دیئے ہیں ،وزارت داخلہ نے متعلقہ افسران کو ہدایات جاری کیئے ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین کے مندرجہ بالا رہنماؤں کے بھکر میں داخلے پر پابندی کے احکامات پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے ۔

 

واضح رہے کہ بھکر کے علاقے کوٹلہ جام ، پنجگرائیں اور دریا خان میں مسلم لیگ ن کے صوبائی وزیر قانون کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کے پشت پناہ رانا ثناء اللہ کی ایماء پر تکفیریوں کے حملے اور چار مومنین کی شہادت کے بعد مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ امین شہیدی اور علامہ عبدالخالق اسدی فوراً بھکر پہنچ گئے تھے اور شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت کے ساتھ ساتھ عوامی اجتماع سے خطاب کیا تھا ، جس کے نتیجے میں مقامی مومنین کے جذبہ استقامت میں اضافہ ممکن ہوا تھا ، جب کہ شہداء کے سوئم کے موقع پر صوبائی ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور بھکر کے رہائشی علامہ اصغر عسکری نے اسلا م آباد سے خصوصی شرکت کی تھی جس کے بعد انہیں بھکر میں دیگر مومنین کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا تھا ، بیگناہ گرفتار اسیروں کی رہائی کے لئے مجلس وحدت مسلمین نے صوبائی حکومت کو 24گھنٹے کی ڈیڈلائن دی تھی اور تمام بڑے شہروں میں علامتی دھرنے دیئے تھے جس کے نتیجے میں اسیروں کی رہائی ممکن ہو ئی تھی ۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی عراق، لیبیا اور افغانستان کے بعد اب شام میں نیا محاذ کھولنے جارہے ہیں جس کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہونگے، اور یہ جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، اگر شام پر حملہ ہوا تو یہ جنگ اسرائیل کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی اور اس کے بعد جنگ کو روکنا امریکہ کے بس میں نہیں رہے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جی نائن سیکٹر کراچی کمپنی میں دفاع پاکستان کنونشن کے حوالے سے آرگنائزنگ کمیٹی کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ، کویت، اور اردن مصر میں ایک جمہوری حکومت کے خاتمے اور ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرانے کے بعد اب شام میں یہ عمل دہرانا چاہتے ہیں جو قابل مذمت ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک پر حملے کیلئے اپنی سرزمین دینے میں ترکی، اردن اور قطر پیش پیش ہیں۔ گذشتہ آٹھائیس ماہ سے سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک نے شام میں باغیوں کو اسلحہ اور مالی تعاون فراہم کیا لیکن وہ بشارالاسد کی حکومت گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اب یہ ممالک عالمی بدمعاش امریکہ کے ساتھ ملکر شام میں جنگ لانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا یہ ممالک اپنے ملکوں میں اس طرح کی مداخلت برداشت کریں گے۔ اس حوالے سے بندبن سلطان کے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس میں مسلسل رابطے اس بات کا ثبوت ہیں کہ خطے میں امن کو تہہ بالا کرنے میں ان عرب ممالک کا ہاتھ ملوث ہے۔انہوں نے حکومت پاکستان مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور اس حوالے سے اپنے موقف کا اعلان کرے اور اس جنگ کو روکوانے میں عالمی سطح پر کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایک ایک کرکے تمام مسلمانوں ملکوں میں جنگ میں دھکیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والا دفاع پاکستان کنونشن پاکستان کی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس دن بھارت سمیت امریکہ کو بتادیں گے کہ پاکستان کے عوام اپنے ملک کے دفاع میں اپنی افواج کے ساتھ ہیں اور اس مادروطن پر ہلکی آنچ بھی نہیں آنے دیں گے۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے ایل او سی پر حالیہ واقعات اور بھارتی آرمی چیف کے بیانات کی سخت مذمت کی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree