وحدت نیوز (آرٹیکل)  مہدی موعود{عج} کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی  کے نزدیک مسلم ہے ۔اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فردقیام کرے گا جو آپ ؐکا ہم نام ہوگا اوراوراس کا لقب مہدی  ہو گا جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔ امام مہدی {عج}کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف شیعہ حضرات ہی نہیں رکھتے بلکہ اہل سنت کےبہت سےمشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ{عج} کی ولادت باسعادت سےمتعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں جیسے: ابن حجر ہیثمی { الصواعق المحرقہ}سید جمال الدین{روضۃ الاحباب}ابن صباغ مالکی {الفصول المہمۃ}سبط ابن جوزی{تذکرۃ الخواص }۔۔۔۔۔ وغیرہ۔امام زمانہ{عج}کی غیبت کےمنکرین کا اعتراض ہے کہ امام غائب کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے امام کاان کے درمیان موجود ہوناضروری ہے تاکہ امام تک لوگوں کی رسائی ہو ۔

 ہم یہاں منکرین غیبت امام زمانہ عج کے اعتراض کا  اجمالا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
پہلا جواب:امام زمانہ{عج}کی غیبت اور آپ{عج}کا شیعوں  کے امور میں تصرف نہ کرنے کےدرمیان کوئی ملازمہ نہیں ہیں ۔  قرآن کریم انسان  کے اولیاء خدا سےبہرہ مند ہونے کی داستان کو حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے ۔ بنابریں عصرغیبت میں بھی امام زمانہ{عج}کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ {عج}کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ {عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی  چیزمانع نہیں ہے ۔ امام زمانہ {عج} کالوگوں کےامور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں جو آپ {عج}کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں  ہیں ۔محقق طوسی  تجرید الاعتقاد میں لکھتےہیں :{وجودہ لطف و تصرفہ لطف آخر و عدمہ منا}امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا  ایک اور لطف اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے ۔ {یعنی امام زمانہ {عج}بھی حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں انہیں بھی کوئی نہیں پہچانتا تھا لیکن پھربھی وہ امت کے لئے فائدہ

مند ہیں}

دوسراجواب: امام{عج} کے پیروکاروں کا امام{عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے کےلئے ضروری نہیں کہ آپ{عج}تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ہو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ{عج}کےساتھ رابطہ قائم کر سکتا ہو اور وہ آپ{عج}کےوجود سےفیض حاصل کرے تو دوسرے لوگ بھی ان افرادکے ذریعے آپ{عج} کےوجودکے تمام آثار و برکات سےبہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہ مطلب شیعوں کے بعض نیک اورشائستہ افراد کی آپ{عج }کےساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے ۔

تیسرا جواب: امام اور پیغمبر کے لئے حتی ان کے ظہور کے وقت بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت براہ راست اوربلا واسطہ انجام دیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعےسے یہ کام انجام دیتے تھے ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے دور میں دوسرے شہروں کے لئے اپنےنمائندے معین فرماتے تھے جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا کام انجام دیتے تھے۔اور یہ روش صرف رہبران الہیٰ  کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا ۔ اسی وجہ سے امام زمانہ{عج}بھی اپنے نمائندوں کے ذریعہ لوگوں کی رہبری کرتےہیں جیساکہ غیبت صغری کے زمانے میں آپ {عج} نواب اربعہ {نیابت خاصہ}کے ذریعے اور غیبت کبری کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقہاء و مجتہدین {نیابت عامہ}کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتےہیں۔

چوتھا جواب: شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الہیٰ ہے اور اس سے مرادیہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔بے شک یہ اعتقاد{ کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں گرچہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں پہچانتےلیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں نیز آپ {عج} کسی وقت بھی ظہور کرسکتے ہیں کیونکہ آپ{عج} کے ظہور کا وقت معلوم نہیں ہے }  انسان کی ہدایت و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
پانچواں جواب:امامت کے اہداف میں سےایک ہدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ہدایت ہے ۔امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنےوالے افراد کو اپنی طرف جذب کر کے انہیں کمال تک پہنچاتے ہیں۔واضح ہے کہ انسان کا اس طرح  ہدایت سے ہمکنار ہونےکے لئےضروری نہیں کہ وہ  امام کے ساتھ ظاہری رابطہ برقرار کرے  ۔ گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ {عج}کو بادل کے پیچھے پنہان روشن آفتاب سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے ۔اگرچہ بادل کے پیچھے پنہان سورج سے انسان مکمل طور بہرمند نہیں ہوتا ہےلیکن اس کا ہرگزمطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتاہے ۔بہر حال امام زمانہ{عج} کے وجود کے آثاروبرکات سے بہرہ مند نہ ہونےکا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کافراہم نہ کرنا ہے  جس کی وجہ سےلوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام،کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سےاس سلسلے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔

خواجہ نصیر الدین طوسی آپ {عج} کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں:{واما السبب غیبتہ فلایجوز ان یکون من الله سبحانہ و لا منہ کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظہوریجب عند زوال السبب} لیکن یہ جائزنہیں کہ امام زمانہ{عج} کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ{عج} کی طرف سے ہوجیسا کہ آپ جان چکے ہیں پس اس کی وجہ خود عوام {لوگ }ہیں کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرناہی اس کا سبب ہےاور جب بھی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی توظہور واجب ہو جائے گا ۔ گذشتہ بیانات امام زمانہ{عج}کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثا رتھےلیکن حجت الہیٰ کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ہونا ہے۔ یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں ۔اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بے معنی ہے۔ اسی بنا پر روایات میں موجودہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر ایک لحظہ کےلئےبھی زمین حجت خدا سے خالی ہوتووہ اپنے اہل سمیت  نابود ہو جائے گی۔ {لو لا الحجۃ لساخت الارض باہلہا}یہاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہےجو کہ بعض دعاوٴںمیں موجود ہے:{بیمنہ رزق الوری و بوجودہ ثبتت الارض و السماء}امام زمانہ{عج}کے وجود کی برکت

سے ہی موجودات رزق پا رہے ہیں
اورآسمان و زمین بر قرار ہیں ۔  

 امام اور حجت خدا واسطہ فیض الہیٰ  ہیں ،خدا اور بندگان کے درمیان واسطہ ہیں ،جن برکات و فیوض الہیٰ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی ہیں امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوںتک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔لہذا امام زمانہ{عج}کی طولانی عمر اور ظہور سے صدیوں قبل آپ{عج} کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہےکہ اس طویل مدت میں کبھی بندگان خدا الطاف الہیٰ سے محروم نہ رہیں اور امام کے وجود کے جو برکات ہیں وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتے رہیں ۔

تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی


حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد ،بحث امامت ۔
   2۔کمال الدین ،شیخ صدوق ،باب 45۔ حدیث 4 ،ص485۔
   3۔الرسائل،سید مرتضی،ج2،ص297 – 298۔
   4۔اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ۔
   5۔اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ۔
   6۔نوید امن و امان،آیۃ اللہ صافی گلپایگانی،ص 148 ۔

وحدت نیوز (آرٹیکل)  طعنے کلیجہ کھا جاتے ہیں،جملے انسانوں کو مار دیتے ہیں اور الفاظ کردار کو نگل جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ انسانیت کے دشمن اپنے دفاع کے لئے ایسے جملے استعمال کرتے ہیں جن سے لوگ مایوس اور اولاِ آدم ناامید ہو جاتی ہے، کبھی کہاجاتا ہے کہ  اب تو زمانہ ہی برا ہے، کبھی کہاجاتا ہے کہ سب ایک جیسے ہیں کبھی کہاجاتا ہے کہ یہاں کون پاک صاف رہ گیا ہے۔۔۔ یہ جملے نہیں بلکہ شیطان کےترکش کے تیر ہیں، جب تک اس دنیا میں ظلم ہوتا رہے گا ، اس وقت تک مظلوم قیام کرتا رہے گا، یہ دنیا کی  کسی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک کے مندر میں آ صفہ کے ساتھ ریپ ہو یا دنیا کی کسی  اسلامی جمہوریہ  کے کسی تہہ خانے میں کسی  زینب کے ساتھ درندگی ہو،  یمن میں ننھے بچوں کا دانہ پانی بند کیا جائے ،  شام میں نوجوان نسل پر زبردستی دہشت گردوں کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور یا پھر کابل میں ایک ووٹر رجسٹریشن سنٹر کے باہر خود کش حملہ کر کے ستاون افراد کو ہلاک کر دیا جائے ، یہ سب  انسانیت کے خلاف جرائم ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ مجرموں کو باقاعدہ کچھ ممالک نے اپنی ضرورت کے لئے ٹریننگ دی ہے اور کچھ مجرم وقتی طور پر کسی  منفی جذبے کے تحت جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مجرموں کو مجرم مانا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے  کہ جس طرح ہندوستان کے کسی مندر میں کسی بچی کے ساتھ ریپ کرنا جرم ہے اسی طرح یمن کے بچوں پر جارحیت بھی جرم ہے، جس طرح پاکستان کے کسی تہہ خانے میں زینب نامی بچے کے ساتھ درندگی کرنے والا وحشی درندہ ہے اسی طرح  افغانستان، عراق اور شام میں بھی داعش اور طالبان کا  عزّت دار اور پر امن خاندانوں پر شب خون مارنا اور ناموس کی دھجیاں بکھیرنا بھی قابلِ مزمت ہے۔ ہمیں چند لمحوں کے لئے مشرق و مغرب کی تقسیم اور فرقوں کی حدود سے اوپر آکر یہ سوچنا ہوگا کہ سعودی عرب نے امریکہ و اسرائیل کے ساتھ مل کر اب تک پاکستان و افغانستان و عراق و شام و یمن میں مسلمانوں کے لاشیں زیادہ گرائی ہیں یا کسی عالمی جنگ میں کسی  کافر ملک نے  اس قدر مسلمانوں کا قتل عام کروایا ہے!؟ اسی طرح  طالبان، القاعدہ، داعش، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسے دہشت گردوں کی سعودی عرب نے سرپرستی کی ہے یا کسی کافر ریاست نے!؟

تفصیلات کے مطابق  کابل میں ہونے والے حالیہ خوفناک  خود کش دھماکے میں ستاون سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور  زخمیوں کی تعداد 119  سے عبور کر چکی ہے ، جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے-اس واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔ فرض کریں کہ اگر اس حملے میں ہلاک ہونے والے سب لوگ کافر بھی ہوں تو کیا داعش بنانے والوں کو اس قتلِ عام کا ثواب پہنچ رہا ہے!؟ یہ حقیقت اب کسی سے  ڈھکی چھپی نہیں کہ اب نئی حکمت عملی کے تحت  اس وقت داعش ، القاعدہ اور طالبان بنانے وا لے لبرل لوگوں کے لشکر تیار کرنے نکلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو کام داعش اور القاعدہ کا ہے ویسا ہی یونیورسٹیوں کے طالب علموں سے بھی لیا جانے لگا ہے ۔ ملکی سلامتی، علاقائی امن اور خطے کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لئے قریبی تعلقات قائم کرے اور اس منطقے کے سارے ممالک ایک مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردی اور انسانیت سوز جرائم کا توڑ کریں۔

پاکستان و افغانستان کو اپنے ہمسایہ ممالک سے مل کر عربی اور غربی دہشت گردی کا توڑ کرنا ہوگا۔ مغربی اور عربی ممالک نے افغانستان و پاکستان میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ  دہشت گردی کا بیج بویا ہے،  اب اس دہشت گردی کے مقابلے کے لئے پاکستان و افغانستان کو مقامی سطح پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر ایک بلاک تشکیل دینا چاہیے جو اس دہشت گردی کا مقابلہ کرے۔ یہ سوچنا کہ  اب تو زمانہ ہی برا ہے، یا  سب ایک جیسے ہیں یا یہ کہنا  کہ یہاں کون پاک صاف رہ گیا ہے۔۔۔اس طرح کی باتیں  لوگوں کی ہمت اور حوصلے کو کم کرنے کے حربے ہیں۔پاکستان و افغانستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر آج بھی   اپنے درمیان   حائل خلیج کو عبور کر سکتے ہیں اور عربی و غربی طاغوت کو دندان شکن شکست دے سکتے ہیں۔ بے شک انسانوں کو ناامید کرنا اور شیاطین کے چنگل سے نکلنے کے لئے  جدوجہد سے منحرف کرنا یہ شیطانوں کا ہی کام ہے۔

دنیا میں جب تک سورج طلوع ہوتا رہے گا، خیر و شر ، حق و باطل اور انسانیت و شیطانیت کے درمیان معرکہ جاری رہے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس گروہ میں شامل ہیں، لوگوں پر ظلم کرنے اور  انہیں ناامیدکرنے والے گروہ میں یا مظلوموں کی ہمت بڑھانے اور انہیں حوصلہ دلانے والے گروہ میں۔

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  حدیث ثقلین ان متواتراحادیث میں سےایک ہے جسے اہل تشیع و اہل تسنن دونوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ اس معروف حدیث کا متن یہ ہے :{یاایہا الناس انی تارک فیکم الثقلین ،کتاب الله و عترتی ، اہل بیتی ماان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا و انہما لن یفترقا حتی یرداعلی الحوض ،فانظروا کیف تخلفونی فیہما }1پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے لوگو:میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔اگر تم ان کےساتھ تمسک کئے رہو گے توکبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ان میں سے ایک کتابخداہے اور دوسری میریعترت۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں ۔تم خود سوچو کہ تمہیں ان دونوں کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہیے ۔

حدیث ثقلین کی سند کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ حدیث ایک سو سے زیادہ مرتبہ اور تقریبا 35 اصحاب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے ۔2یہ حدیث، حدیث ثقلین کے نام سے مشہور ہے، ثقلین، تثنیہ کا صیغہ ہے کہ جو دو پر دلالت کرتا ہے،اور لغت میں ثقل سے مرادوہ چیز ہے کہ جو مسافر اپنے ساتھ سفر پر لے کر جاتا ہے۔

کتاب القاموس المحیط کے مطابق ثَقَل سے مراد مسافر کا سامان اور ہر وہ قیمتی و نفیس شئی ہے جسے چھپا کر محفوظ طریقے سے رکھا جاتا ہے۔3 ابن منظور اس بارے میں لکھتاہے:{سمیا ثقلین لان االاخذ بہما ثقیل و العمل بہما ثقیل ، قال : و أصل الثقل أن العرب تقول لکل شیء نفیس خطیر مصون ثقل ، فسماہما ثقلین إعظاما  لقدرہما و تفخیما لشانہما}کتاب خدا اور عترت کو ثقلین کہا جاتا ہے، کیونکہ ان دو سے تمسک کرنا اور ان دو پر عمل کرنا، سنگین و وزنی ہے، اور اسکے علاوہ عرب ہر قیمتی اور مہم چیز کو ثقل کہتے ہیں۔ پس قرآن اور اہل بیت کو ثقل کہنا، ان دونوں کے بلند و بالا مقام کی وجہ سے ہے۔4

لفظ ثقل کا لغوی معنی، حدیث ثقلین کے ساتھ زیادہ مناسب ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر آخرت پر جانے سے پہلے دین خدا کی بقاءاور امت کی ہدایت اور نجات کی خاطر دومہم ترین چیزیں چھوڑ ے جا رہے ہیں ۔اپنی امت کو یہ وصیت کرتے ہیں کہ ان دونوں سے  ہمیشہ متمسک رہنا اور ان سےدور نہ ہونا، کیونکہ لوگوں کی ابدی ہدایت و نجات ان دونوں کی پیروی اور اتباع کرنے میں ہے۔ یہ حدیث قرآن اور اہل بیت کی بغیر کسی قید و شرط کے مطلق پیروی و اتباع کو ہر انسان پر واجب قرار دیتے ہیں، لہذا اس حدیث سے اہل بیت کی امامت و خلافت بھی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ مطلق اطاعت اور امامت و خلافت کے درمیان ناقابل انکار تلازم و رابطہ موجود ہے۔

اہل بیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو امت اسلامی کی ہدایت اور رہبری کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی خطا، گناہ اور گمراہی سے پاک اور دور ہیں۔ ثقل اکبر یعنی قرآن بھی ایسی ہی صفات کے حامل ہے اور امت اسلامی کی نجات، ہدایت اور سعادت کا ضامن ہے، لیکن غیر معصوم افراد  قرآن کے ساتھ ذکر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے علاوہ بر این تمام امت اسلامی کی ہدایت اور راہنمائی کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔بنابرین حدیث ثقلین میں اہل بیت سے مراد، وہ افراد ہیں جنہیں خداوند نے سورہ احزاب ، آیت 33 میں ہر ناپاکی اور گناہ سے پاک و منزہ قرار دیا ہے۔

حدیث ثقلین مندرجہ ذیل نکات پر دلالت کرتی ہے:
1۔اہل بیت پیغمبرعلیہم السلا م کی اطاعت واجب ہے اوروہ دینی معارف و احکام میں مرجعیت کا مقام رکھتےہیں کیونکہ کتاب و سنت سے تمسک سے مراد ان کے فرامین پر عمل کرنا  ہے ۔ اہل بیت پیغمبرکی عصمت اور مرجعیت علمی پربھی اس حدیث کی دلالت واضح ہے کیونکہ اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ تمسک ،قرآن کے ساتھ تمسک کی طرح گمراہی سے نجات کا باعث ہے۔ لہذا جس طرح  قرآن کریم خطا و انحراف سے محفوظ ہے { لَّایاتِيہِ الْبَاطِلُ مِن بَينْ يَدَيْہِ وَ لَا مِنْ خَلْفِہ}5{جس کے قریب ،سامنے یا پیچھے ،کسی طرف سے باطل نہیں آ سکتا }اسی طرح اہل بیت علیہم السلام کے اقوال و اعمال بھی خطا اور انحراف سے منزہ ہیں اور ان دونوں کی عدم جدائی اس چیز کو بیان کرتی ہے کہ قیامت تک قرآن کے ساتھ ساتھ اہل بیت علیہم السلام کے فرامین پر بھی عمل کرنا چاہیے یعنی قیامت تک اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہبری موجود رہےگی اور یہ خصوصیت ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی اورپرمنطبق نہیں ہوتی کیونکہ خاندان پیغمبرمیں ائمہ اطہار علیہم السلام اور حضرت زہراءسلام اللہ علیہاکے علاوہ کسی نےبھی مقام عصمت کا دعوی نہیں کیا ہے ۔اس نکتے کو اہل سنت کے علماءنےبھی بیان کیا ہے جیسا کہ سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں :{ الا تری انہ{ص}قرنہم بکتاب الله تعالی فی کون التمسک بہما منقذا من الضلالۃ ولا معنی للتمسک بالکتاب الا الا خذ بما فیہ من العلم و الہدایۃ فکذا فی العترۃ }6  کیا تم نے نہیں دیکھا کہ حضرت ؐنے اہل بیت کو قرآن کا قرین و مصاحب قرار دیا اور حکم دیا کہ کہ ان دونوں کے ساتھ تمسک اور وابستگی گمراہی سے بچانے والی ہے ۔ قرآن کے ساتھ تمسک کرنے کے معنی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس سے علوم ومعارف اور ہدایت حاصل کئےجائیں اور یہی معنی عترت کے ساتھ تمسک کرنے کے ہیں۔
2۔اہل بیت پیغمبرعلیہم السلا م تمام گناہوں سے منزہ اورمعصوم ہیں کیونکہ اولاً:اہل بیت پیغمبرعلیہم السلا م کو  قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح قرآن کریم ہر قسم کے انحرافات اور باطل امورسے محفوظ ہےاسی طرح اہل بیت علیہم السلام بھی تمام خرابیوں سے منزہ ہیں ۔
ثانیاً: اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام سے تمسک بغیرکسی شرط و قید کے گمراہی سے نجات دلاتا ہے جس طرح قرآن کریم گمراہی سے نجات دلاتا ہے ۔واضح ہے کہ اگر اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام کے گمراہ ہونے کا احتمال ہوتو وہ ضلالت اور گمراہی سے نہیں بچا سکتے۔

ثالثا: یہ لوگ قرآن سے کبھی جدا نہیں ہوں گے چونکہ قرآن کریم میں کوئی انحراف نہیں ہے لہذا عترت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی کوئی انحراف نہیں ہے۔

3۔ اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام کے کسی فرد کا  ہر زمانے میں بعنوان امام و رہبر ہونا ضروری ہے ۔آپ ؐنے فرمایا کہ عترت کبھی قران سے جدا نہیں ہوں گے لہذا قرآن کریم بھی عترت کے بغیر ہرگز موجود نہیں ہوگا ۔لہذا اس حدیث کی روشنی میں قیامت تک ہر زمانے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے کسی نہ کسی فرد کا ہونا ضروری ہے جوآج امام زمانہ عج ہیں7،کیونکہ خاندان پیغمبر میں گیارہویں امام کے بعد آپ ؑکے علاوہ کوئی عصمت کے درجے پر فائز نہیں ہے ۔ا س بات کا اعتراف مشاہیر علماء اہل سنت نے بھی کیا ہے جیسے سمہودی لکھتے ہیں :اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت طاہرہ علیہم السلام میں سے وہ لوگ جو تمسک کے اہل ہیں ان کا وجود ہر ایک زمانہ میں تاقیام
قیامت رہے گا اور اسی صورت میں اس کے ساتھ تمسک کرنے کا حکم صادق آئے گا جس طرح قرآن قیامت تک باقی رہے گا ،لہذا یہ لوگ زمین والوں کے لئے امان ہیں اور اگر یہ دنیا سے اٹھ جائیں تو ان کے ساتھ ہی اہل زمین بھی ختم ہو جائیں گے ۔8

۴۔ حدیث ثقلین کے بارے میں مختلف شواہد موجود ہیں جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیاسی رہبری پر دلالت کرتی ہیں ۔پہلا شاہد یہ ہے کہ حدیث ثقلین کی بعض عبارتوں میں جوکہ مختلف ذرائع سے نقل ہوئی ہیں لفظ {خلیفتین} استعمال ہواہے جیسے:{انی تارک فیکم خلیفتین: کتاب الله،حبل ممدود من السماء ﺇلی الارض،وعترتی،اہل بیتی، فانہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض}9میں تم میں دو خلیفہ و قائم مقام چھوڑے جاتا ہوں کتاب خدا ، جو آسمان سے زمین تک لٹکی ایک رسی کی مانندہیں اور دوسری میری عترت یعنی اہلبیت اور یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔

دوسرا شاہد یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاس حدیث کوبیان کرنے سے پہلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی اور آپ ؐنے فرمایا:{یوشک أن یاتینی رسول ربی فاجیب}عنقریب میرے پروردگار کا پیغام رسان میرےپاس آئے اور میں اس کا جواب دوں۔ واضح ہے کہ جب بھی کوئی رہبر اپنی موت کے بارے میں لوگوں کو خبر دیتا ہے اور لوگوں کو کسی فرد یا افراد کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو یقینا اس سے مراد معاشرے کی سیاسی رہبری ہے ۔ علاوہ از ایں  مسلم 10کے نقل  کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین کو غدیر کے دن بھی ارشاد فرمایاجیساکہ بعض نسخوں میں یہ جملہ {من کنت مولاہ فعلی مولاہ} بھی موجود ہے جبکہ اس جملے کو پیغمبراسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن فرمایا ہے ۔ بنابریں غدیر خم کے دن دو مطالب بیان ہوئے:الف: حضرت علی علیہ السلام کی امامت بطورخاص بیان ہوئی  ب:باقی ائمہ اطہار علیہمالسلام کی امامت بطور عام بیان ہوئی ۔

یہاں اگر ہم اس فرض کو بھی قبول کریں کہ حدیث ثقلین ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی علمی رہبری ا ورمرجعیت کو بیان کرتی ہے  تب بھی تمام مسائل میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے نظریے پر عمل کرنا چاہیے ۔حتی  امت کی رہبری اور امامت کےبارے میں بھی ان کی رائے معیار ہونا چاہیے جبکہ ائمہ علیہم السلام ہمیشہ اموی و عباسی حکمرانوں  کےخلافت کوناجائز قرار دیتےتھے اور اپنی حقانیت پر تاکید فرماتے تھے۔1 1 اصولی طور پر خلفاء کی خلافت کے زمانے میں بھی علمی مرجعیت عملا حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھی اور شرعی مسائل و اختلافات ،آپ ؑکے ذریعے حل ہوتے تھے۔ حقیقت میں جس دن اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کو امت کی قیادت و رہبری سے جدا کیاگیا،اسی دن سے فرقہ گرائی بھی شروع ہوئی اور یکے بعد دیگرے کلامی فرقے وجود میں آتے گئے۔12


 تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی


حوالہ جات:
1۔حدیث ثقلین مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے لیکن مذکورہ عبارت مشہور نقل کے مطابق ہے ۔
2۔  عبقات الانوار ،جلد حدیث ثقلین ،غایۃ المرام ،ص 211۔
3۔فیروز آبادی القاموس المحیط: ج3 ص353، المؤسّسۃ العربیہ ـ بیروت
4۔محمد بن مکرم بن منظور الأفریقی المصری، الوفاۃ: 711 ، ج 11 ص 88، دار النشر : لسان العرب دار صادر - بیروت ، الطبعۃ : الأولی.
5۔ فصلت،42۔
6۔ شرح المقاصد،ج5، ص 303،منشورات الشریف الرضی قم ۔
7۔نفخات الازہار فی خلاصۃ عبقات الانوار ،ج2 ،ص247 – 269۔
8۔نور الانوار ترجمہ عبقات الانوار، ج2 ،ص33۔جواہر العقدین، ج2 ،ص94۔
9۔مسند احمد بن حنبل ،ج5 ،ص122۔
10۔ صحیح مسلم،ج4،ص1873،باب فضائل علی ابنابی طالب ،حدیث 2408۔
11۔ دلائل الصدق،ج12،ص 477۔
12۔ عقا ئد امامیہ ،جعفر سبحانی،ص226۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)  ابھی ذیشان اشرف بٹ کا خون تازہ ہے، مقتول صحافی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ شیخوپورہ میں سیوریج کے منصوبے میں مبینہ طور پر غیر معیاری مواد استعمال ہونے کی کوریج کرنے والے ڈان نیوز کے رپورٹر پر تشدد کے بعد انہیں غیر قانونی طور پر مقامی جنرل کونسلر کے دفتر میں بند بھی کردیا گیا۔ ڈان نیوز کے مطابق  شیخوپورہ پریس کلب کو شکایتی خط موصول ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ گَھنگ روڈ کا سیوریج نظام تباہ ہوچکا ہے، جبکہ جنرل کونسلر کی ہدایات پر شہر کے چند علاقوں میں ہونے والے ترقیاتی کام میں استعمال ہونے والا مواد غیر معیاری ہے۔ جب رپورٹر اور ان کی ٹیم گھنگ روڈ پہنچی اور فوٹیج ریکارڈ کرنا شروع کی تو کونسلر رائے محمد خان اپنے عملے کے ہمراہ وہاں پہنچے اورصحافیوں پر تشدد شروع کر دیا کیمرہ مین اپنی جان بچاتے ہوئے جائے وقوع سے فرار ہونے میں کامیاب رہا جبکہ کونسلر ،بلال شیخ کا موبائل فون چھین کر انہیں گاڑی میں اپنے ڈیرے (دفتر) لے گئے۔ڈیرے پر بھی ڈان نیوز کے رپورٹر پر گنے سے تشدد کیا گیا اور بلدیاتی چیئرمین امجد لطیف شیخ کے دفتر میں محصور کر دیا گیا۔

یہ اس ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے، یہ سچ بولنے کی قیمت ہے ، یہ بے لاگ صحافت کا اجر ہے، یہ حق اور حقیقت کی خاطر قلم اٹھانے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جب صحافی حضرات کے ساتھ یہ برتاو ہو رہا ہے تو آپ خود اندازہ کیجئے کہ  عام عوام کے ساتھ مختلف اداروں میں  کیسا  سلوک کیا جا رہا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں صحافیوں پر تشدد اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں صحافیوں پر مختلف حلقوں کی جانب سے تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔سال ۲۰۱۷ سے لے کر اب تک ان گنت صحافیوں کو ملک کے اطراف و کنار میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اس تشدد کے جواب میں  بعض اوقات چند روز احتجاجی جلسےجلوس ہوتے ہیں اور پھر معاملہ ٹھپ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ سلسلہ اب رکنے میں نہیں آتا۔

صحافیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اب ایک منظم احتجاج کی ضرورت ہے۔دوسری طرف یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ایک انسان کی زندگی کے لئے جس طرح ہوا اور پانی  کی ضرورت ہے اسی طرح ایک معاشرے کی زندگی کے لئےآزادی رائے، آزادی صحافت ،جمہوریت اور انسانی حقوق  کی ضرورت ہے۔اگر معاشرے میں صحافت کا گلا گھونٹ دیا جائے گا، صحافیوں کو گولیاں ماری جائیں گی، انہیں اغوا کیا جائے گا اور ان پر تشدد کیا جائے گا تو ایسے معاشرے سے زندگی کی رمق بھی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں آزادی رائے کوایک منظم لابی مسلسل کچل رہی ہے۔ عصرِ حاضر کے فرعون معاشرے کو غلام رکھنے کے لئے معاشرے کی اجتماعی سوچ کو مسل رہے ہیں، معاشرتی ڈکٹیٹر  ایک طرف تو معاشرے میں کرپشن اور دیگر  برائیوں کو خود رواج دیتے ہیں اور  دوسری طرف اگر کوئی صحافی ان کی نقاب کشائی کرتا ہے تو جواب میں کہتے ہیں کہ سارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔

 سارے معاشرے کو برا کہنا درا اصل برے لوگوں کو بچانے کی  ایک عمدہ چال ہے۔ ہمارے ہاں کچھ چالاک لوگوں نے عوام  کو سیاسی  بصیرت ، معاشرتی  رواداری ا ور اخلاقی اقدار کے بجائے  نعروں، ووٹوں اور سیٹوں کے پیچھے لگا رکھا ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی کو عوامی رائے اور اپنے حقوق کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہوجانے کا نام ہی  جمہوریت اور ووٹ ڈالنے کا نام  ہی آزادی رائے ہے۔  لوگوں کو ذہنی طور پر اتنا محدود اور چھوٹا کر دیا گیا ہے کہ وہ حق اور سچ  کہنے کے بجائے، پارٹیوں ، برادریوں ، مسالک اور شخصیات کی پرستش کرتے ہیں۔لوگ الیکشن میں بھی ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو انسانوں سے زیادہ اپنے کتوں سے پیار کرتے ہیں اور جو انسانیت اور شرافت کے بجائے بدمعاشی اور دھونس پر فخر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے پڑھے لکھے اور دانشمند طبقے کو اس حقیقت کو سمجھنے اور آگے سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کبھی بھی ایک منظم لشکر اور مرتب سوچ یعنی ایک مستقل لابی کا مقابلہ ایک پراگندہ لشکر اور منتشر سوچ کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ الیکشن میں زیادہ سیٹیں لینے اور زیادہ

ووٹ لینے سے کسی کی انسانیت ، آدمیت اور شرافت میں اضافہ نہیں ہو جاتا، بلکہ  معاشرے میں انسانیت، آدمیت اور شرافت کی حاکمیت کے لئے ضروری ہے کہ ہم تمام مسائل  میں فاسق و فاجر لوگوں کی مخالفت کریں ۔ جولوگ اپنے ،ماں باپ ، اپنے ہمسایوں اور اپنے عزیزو اقارب سے زیادہ اپنے کتوں اور پالتو  بدمعاشوں سے محبت کرتے ہیں وہ ہمیں کیا جمہوری اقدار سکھائیں گے اور ہمارے ساتھ کیا بھلائی کریں گے اور وہ ہمیں کیا آزادی رائے دیں گے! عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ عوام خود اپنے ساتھ بھلائی کرے، بھلے اور نیک  لوگوں کا ساتھ دے اور بھلائی کے کاموں میں آگے بڑھنے سے قطعاً نہ کترائے۔ ہاں اس راستے میں ذیشان اشرف بٹ کی طرح ہماری جان بھی جا سکتی ہے اور  بلال شیخ کی طرح  کسی کو اغوا کر کے اس  پر تشدد بھی کیا جا سکتا ہے لیکن یاد رکھیں حق اور سچ کے راستے میں جولوگ ڈٹ جاتے ہیں وہی تاریک راتوں میں روشنی کے ستارے بن کر چمکتے ہیں اور جو بِک یا ڈر جاتے ہیں وہ اپنے پیچھے سیاہ رات چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

آج بحیثیت قوم ہمارے ایک طرف وہ لوگ ہیں جو قوم کو مغرب کی طرز پر معاشرتی آزادی، آزادی رائے اور آزادی صحافت دینے کے دعوے کرتے ہیں جبکہ عملا ً عوام کو مصر کے فرعونوں  کی نگاہ سے دیکھتے ہیں  اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو عوام کی دینی رہبری اور قیادت کے دعویدار ہیں لیکن  معاشرے میں آزادی رائے اور آزادی صحافت کی بھینٹ چڑھنے والے بے گناہ لوگوں کے خون سے لا تعلق رہتے ہیں۔ اب ملک ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے کہ جہاں ہم نے خود ہی اپنے معاشرے کی زندگی یا موت کا فیصلہ کرنا ہے،ہمارے دانشمند حضرات خواہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں یا دینی مدارس سے ، انہیں اپنے ملک میں معاشرتی آزادی، سماجی عدالت، عوامی حقوق اور رائے عامہ کی آزادی کے حوالے سے سکوت اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

خصوصاً اگر دینی اداروں کے دانشمند معاشرے کی تعریف، معاشرتی آزادی، اظہارِ رائے ، رائے عامہ اور صحافت کے خدوخال کو علمی و عملی قالب میں عوام کے سامنے نہیں رکھیں گے اور ملی آزادی اور اظہار رائے کا تحفظ نہیں کریں گے تو رائے عامہ خود بخود غیروں کے آگے مسخر ہوتی چلی جائے گی۔ دینی اداروں کو چاہیے کہ آزادی صحافت کو وہ بھی اپنا مسئلہ سمجھیں اور صحافیوں کے بہنے والے خونِ ناحق  کا نوٹس لیں، جس طرح ملک کی جغرافیائی سرحدوں پر لڑنے والے اس قوم کے مجاہد ہیں اسی طرح اس ملک میں کرپشن، بدعنوانی ، فراڈ اور دھوکہ دہی کو بے نقاب کرنے والے صحافی بھی عظیم مجاہد ہیں۔لہذا دینی حلقوں کی طرف سے صحافیوں پر ہونے والے تشدد پر خاموشی بلاجواز ہے۔

آئیے وطن عزیز سے کرپشن اور بدعنوانی کی سیاہ رات کے خاتمے اور آزادی رائے کی خاطر قربانیاں دینے والے صحافیوں کے حق میں ہر پلیٹ فارم سے  آواز بلند کریں اور  متحد ہوکر حکومت وقت سے مطالبہ کریں کہ وہ  صحافیوں پر تشدد اور حملے کرنے والے مجرمین کو قرار واقعی سزا ئیں دے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ معاشرہ تو زندہ ہو لیکن صحافت مردہ ہو، ہمیں اس معاشرے میں صحافت کو زندہ رکھنے کے لئے  عوام و خواص کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنی ہوگی اور تمام پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کو معاشرتی دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا۔یاد رکھئے !صحافت معاشرے کا دل اور دماغ ہے، صحافت زندہ رہے گی تو معاشرہ بھی زندہ رہے گا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

یہ وقت بیداری ہے

وحدت نیوز (آرٹیکل)  اس وقت مشرق وسطی کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے ہزاروں ٹھوکریں کھانے کے باوجود ابھی تک کوئی سبق حاصل نہیں کیے ہیں۔کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے شام میں امریکی نئے پروپگینڈے اپنے عروج پر ہیں جو اس سے پہلے بھی کئی بار آزما چکے ہیں۔جب سے مغربی پشت پناہی میں شامی حکومت کے ساتھ لڑنے والی دہشت گردوں کو شکست ہوئی ہے امریکہ و اسرائیل سخت پریشان ہیں اور شامی حکومت پر بے بنیاد الزامات لگارہے ہیں۔ اوپر سے اسرائیل بھی امریکہ کے اشارے پر شام اور فلسطین میں اپنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہیں اور حال ہی میں ایک شامی ائربیس پر بھی میزائل داغے گئے ہیں۔مشرق وسطی میں جاری سیاسی کشمکش ایک طرف،لیکن مجھے تعجب اُن مسلمان حکمرانوں پر ہے جنہوں نے ظاہری طور پر اسلام کا بیڑا اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوئے ہیں جن میں سعودی عرب سر فہرست ہیں۔ در حال کی جزیر ۃالعرب مسلمانوں کا مقدس ترین سرزمین ہے جہاں سے اسلام کی ابتداء ہوئی، کعبہ ، مسجد نبوی، مسجد الحرام غرض ہمارے سارے مقدس مقامات اسی سرزمین میں ہی موجود ہیں جس کی وجہ سے تمام مسلمان اس سرزمین سے خاص لگاو رکھتے ہیں ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ سعودی بادشاہت جو اپنے آپ کو خادم الحرمین شریفین کہتے ہیں ان کے ذاتی اور سیاسی اقدامات کی وجہ سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصانات اٹھانے پڑرہے ہیں۔مغربی طاقتیں خصوصا امریکہ و برطانیہ نے مسلمانوں کو جو نقصانات پہنچائے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، امریکہ کی تاریخ بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگین اور سیاہ ہے امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں جو مستقیم اور غیر مستقیم طریقے سے مداخلت یا حملے کئے ہیں ان میں اب تک ایک اندازہ کے مطابق چودہ ملین افراد موت کے منہ جا چکے ہیں لیکن نہ کوئی ان کے خلاف بولتا ہے اور نہ کوئی ان کو دہشت گرد کہتا ہے کیونکہ ہمارے ذہنوں میں مغربی حوالے سے ایک افسانوی خاکہ غالب آچکا ہے کہ امریکہ سپر پاور ہے اور وہ جو کچھ کہتا ہے کرسکتا ہے، اور وہ جو کرتا ہے صحیح کرتا ہے، پھر کچھ اندرونی طور پر ڈالروں کی چمک دھمک اور مفادات بھی خاطر نظر ہوتی ہے۔ بعض مسلمان سعودی عرب کے خلاف مقدس مقامات کی وجہ سے کچھ سننے کو تیار نہیں ، لیکن مسلمانوں کے اس اعتقاد کا احترام اپنی جگہ لیکن دوسری جانب ہم زمینی حقائق سے چشم پوشی بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

مسلمانوں نے جس طرح آل سعود حکمرانوں کو قابل اعتماد سمجھے ہوئے تھے جس کا جواب انہوں نے حالیہ کچھ دنوں میں کچھ اس طرح دیا ہے کہ جس نے تمام دنیا میں موجود مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جن میں سے تین اہم واقعہ یہ ہیں، پہلا غاصب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا گویاعالم اسلام کے قلب میں خنجر مارنے کی مانند ہے، دوسرا بھارتی مسافر بردار جہاز نے پہلی بار اسرائیل جانے کے لئے سعودی فضائی حدود کا استعمال کیا اور یوں آل سعود نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ روابط کا سلسلہ بھی شروع کردیا ، پہلے تو سعودی اسرائیلی تعلقات کی کہانی پشت پردہ ہوا کرتی تھی لیکن اب محمد بن سلمان نے کھل کر اسرائیل سے تعلقات کو آشکار کیا ہے جس نے عالم اسلام میں مخصوصا فلسطین کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی نئی لہر ایجاد کی ہے۔تیسرا:سعودی عرب کا امریکہ ،برطانیہ اور فرانس سے اسلحہ کی خریداری۔آج دنیا کے مسلمانوں کایہ ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والی اندورونی تبدیلیاں ، آل سعود کا روشن ہوتااصل چہرہ اور امریکہ، برطانیہ ، فرانس سے بلینز ڈالرز کی اسلحہ کی خریداری!آخر یہ سب کیوں اور کس لئے؟، کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ اسلام کا اصل دشمن امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ ہے دوسری طرف خادم الحرمین اسلام کے دشمنوں سے دوستی اور ان سے جنگی وسائل خرید رہے ہیں اوریہ امر باعث تعجب ہے کہ آخر سعودی عرب نے ان اسلحوں کو کہاں استعمال کرنا ہے؟ آیا یمن کے نہتے غریب عوام پر استعمال کرنا ہے یا شام ، عراق، لیبیا، افغانستان میں موجود تکفیریوں کو سپلائی کرنا ہے؟ یا کسی اور اسلامی ملک کے خلاف؟ ہرصورت میں نقصان مسلمان ممالک اور دین اسلام کاہے اور فائدہ صرف اور صرف اسلام دشمن عالمی استعماری طاقتوں کو ہیں۔اسلام کے مقابلے میں اسلام دشمن عناصر سے جو دوستی کرتے ہیں جیسے آل سعود انہی کے بارے میں قرآن کریم میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہیں: "آپ ان میں سے بیشتر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ (مسلمانوں کے مقابلے میں) کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ اپنے لئے آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے"۔ سورہ مائدہ آیت 80

بعض لوگ اس کو سیاست کا بھی نام دیتے ہیں لیکن سیاست ٹھیک ہے ہمیں ہر وقت اپنی دشمنوں سے جنگ نہیں کرنی چاہئے کبھی سیاسی اور دوسرے طریقوں سے بھی مسائل کا حل نکالنا چاہئے لیکن اس سیاسی ڈیلنگ کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں، کیونکہ ہم جو بھی کام انجام دیں یہ کبھی بھی ہم سے خوش نہیں ہونگے جب تک کہ ہم اپنے دین اور ایمان سے ہاتھ نہ اٹھالیں، سورہ بقرہ میں خداوند متعال فرماتا ہیں: "اور آپ سے یہود و نصاری اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں۔ کہہ دیجٗے یقیناًاللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اگر اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آچکا ہے آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لٗے اللہ کی طرف سے نہ کوئی کار ساز ہوگا اور نہ مددگار"۔ بقرہ: ۱۲۰کبھی ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ شاید عالمی طاقتوں سے دوستی میں ہی ہماری بقاء ہے اور اس دوستی میں ہم اپنی حدین پار کر دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اب دوستی نبھانے کی باری اُن کی ہے تو "ڈو مور" کا مطالبہ سنے میں آتا ہے۔ اب پچھتائے کیا جب چڑیا چک گئی کھیت،خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب دودھ دینے والی گائے ہیں جب تک دودھ ہے اس کوکامل دھولو یعنی جب دودھ ختم ہوجائے تو صدام ، قذافی کی طرح ان کا کام تمام کردو ۔ ابھی اگر امریکہ و مغربی طاقتیں آل سعود کی پذیرائی کر رہے ہیں تو یہ ان کی شخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اور صرف ان کے مال و ثروت اور قدرتی وسائل کی وجہ سے ہیں اسی طرح گر کسی دوسرے اسلامی ملک کو ااہمیت دے رہا ہے تو وہ بھی صرف اپنی مفادات کی خاطر ہیں،لیکن افسوس کہ ہم ابھی تک خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے ہیں۔اسلام کے دشمن کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا یہ لوگ فقط ہمیں اپنی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں، جس طرح روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں مسلمانوں کو استعمال کیاگیا اور اس سے پاکستان سمیت عالم اسلام کو جو نقصان پہنچا اس سے ہم سب باخبر ہیں ۔

 مگر ہم نے بھی قسم کھائی ہوئی ہے کہ کبھی تجربہ اور تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرنا ہے۔آج شام میں عالمی طاقتیں مسلمانوں کے ساتھ وہ کھیل کھیل رہی ہیں کہ اگر اب بھی مسلمان بیدار نہ ہوئے اوراس ناپاک عزائم کو نہ سمجھیں تو اس کا خمیازہ ہماری اگلی نسلوں کو اٹھانا پڑے گا۔ اس کو سمجھنے کے لئے زیادہ دقت کی بھی ضرورت نہیں بس صرف امریکہ ، اسرائیل اور برطانیہ کی تاریخ کو سامنے رکھ کر حالات حاضرہ پر رنگ و نسل، جذبات اور مفادات کی عینک اتار کر انسانیت اور مسلمانیت کی عینک سے دیکھیں تو حقیقت کو جانے میں مشکل نہیں ہوگی ۔ شام کے حالات سے عالم اسلام اور عالمی حالات پر گہرا اثر پڑے گا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بصیرت کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کی ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہئے اور کس کے ساتھ دینا چاہئے۔ قرآن کریم سورہ النساء میں خداوند متعال ارشار فرماتا ہیں:"جو ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں کیا یہ لوگ ان سے عزت کی توقع رکھتے ہیں؟ بے شک ساری عزت تو خدا کی ہے"۔ النساء: 139


تحریر: ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل)  کہنے کو تو ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں جس میں آزادی، جمہوریت اور مساوات جیسےخوبصورت اور دل فریب نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو یہ سب دکھاوا ہے۔ عملی میدان میں صرف طاقت کی زبان چلتی ہے۔ جس کے پاس طاقت ہو وہ اپنے آپ کو حق، اپنے آپ کو سچ اورmاپنے آپ کو غالب اور باقی سب کو محکوم، مغلوب اور کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتے ہیں۔اس کی تازہ مثال امریکہ، برطانیہ اور فرانس ٹرائیکا کا شام پر حملہ ہے۔ اس حملے میں 100سے زیادہ میزائل شام کے مختلف فوجی اور غیر فوجی مقامات پر فائر کئے گئے۔ روس کی طرف سے فراہم دفاعی سسٹم کے ذریعے شامی فضائیہ اکثر میزائل روکنےمیں کامیاب رہی۔ دمشق کے باسیوں پر کل رات بہت باری گزری۔ بچے، بوڑھے ، خواتین میزائلوں کے بھاری آوازوں میں سہمے رہے۔

 لیکن صبح ہوتے ہی شامی عوام، حکومت اور فوج کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے اور ان کے حق میں نعرے بلند کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ شامی فضائیہ کی کارکردگی کو سراہتے رہے۔اقوام متحدہ ، سیکیورٹی کونسل اور  عالمی رائے عامہ  یہ سب مغربی ممالک کے نزدیک محض ڈرامہ ہیں۔امریکہ اور اس کے حواریوں نے سیکیورٹی کونسل سے شام پر حملے کی قرارداد پاس کرنے میں ناکامی کے باوجود تمام تر بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے ایک خود مختار اور آزاد اسلامی ملک پر حملہ کیا ہے۔ اور پھر بہانہ کیا ہے؟ شام کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں۔امریکہ میں موجود روسی سفیر نے نہایت اچھی بات کی ہے: جس امریکہ کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ کیمیائی اسلحہ ہے اس کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ وہ کسی اور ملک کو کیمیائی اسلحے سے منع کرے۔اس سے پہلے عراق پر بھی اس بہانے سے حملہ کیا تھا کہ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار  ہیں۔

 لیکن سب کچھ جھوٹ نکلا۔ جو خود سب سے زیادہ ایٹمی اور کیمیائی  اسلحہ رکھتا ہو وہ دوسروں کو ایٹمی اور کیمیائی  اسلحے سے منع کرتا نظر آتا ہے۔ یہ وہی طاقت اور بدمعاشی کی زبان نہیں تو اور کیا ہے؟بنیادی سوال یہاں یہ ہے: اسلامی ممالک کہاں ہے؟ سوائے ایران کے کسی اور ملک کا رسمی طور پر کوئی بیان ابھی تک سننے کو نہیں ملا۔ کہاں ہے او آئی سی؟ کہاں ہیں عرب ممالک؟  کیا تمام اسلامی ممالک کو شرم کے مارے ڈوب نہیں مرنا چاہیے؟ ایک اسلامی ملک پر دشمن آکر حملہ کر کے چلا جاتا ہے اور تمام اسلامی ممالک خاموش ہیں ۔ مذمت کے دولفظ اور احتجاج کے دو بول تک بولنے کو آمادہ نہیں۔ یہ شاید سمجھتے ہیں آج شام ہے۔  ان کی باری نہیں آئے گی۔ یہ ان کی بھول ہے۔ کل عراق اور افغانستان کو تباہ کیا ہے تو آج لیبیا اور شام کو ۔ لہذا دوسرے اسلامی ممالک کی باری آنے میں دیر نہیں لگے گی۔کچھ اطلاعات کے مطابق سعودی ولی عہد نے مغربی طاقتوں کو شام پر حملے کے لیے اکسایا تھا اور تمام تر خرچہ اٹھانے کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔ سعودی عرب کو اس بات کا غم کھائے جارہاہے کہ اس کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو شامی فوج نے  دوما شہر سے انتہائی ذلیل اور رسوا کر کے نکال باہر کیا ہے۔ سعودی عرب سات سال کے دوران اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود بشار الاسد کو گرانے میں ناکام رہا ہے۔

 اب یہ آخری کوشش ہے کہ کسی طرح برارہ راست حملہ کروا  کر  بشار اسد کو جھکنے کو مجبور کیا جائے۔ لیکن یہ ان کی بھول ہے۔ رات کے حملے کے باوجود بشار اسد صبح معمول کے مطابق اپنے آفس "قصر جمہوری" پہنچے ہیں اور شیڈول کے مطابق اپنے کام میں مصروف ہوگئے ہیں۔ شامی عوام بھی اپنے معمول کی مصروفیات میں مشغول ہیں۔امریکہ شاید اپنی دھاک اور ہیبت بٹھانہ چاہتا تھا۔ اتنی ساری دھمکیوں کے باوجود کچھ میزائل نہ مارتا  تو اسے خفت کا سامنا ہوتا ۔ لہذا اس نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ ایک تو اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی ہے، اور دوسرا یہ کہ اسی بہانے سعودی عرب سے  خوب ڈالرز بطور خرچہ وہ لے گا۔مقاومتی بلاک روز بروز طاقتور کے ہونے سامنے آرہا ہے۔ جس طرح سے عراق اور افغانستان میں  امریکہ ذلیل اور رسوا ہوا ہے اسی طرح شام سے بھی رسوا اور بے آبروہو کر نکلے گا۔ دنیا بھر کے ۴۰ سے زیادہ ملکوں سے دہشت گرد جمع کرنے کے بعد ان کو تمام تر جدید اسلحے اور تربیت فراہم کرنے کے باوجود  اور سات سال کی مسلسل دہشت گردی کے ذریعے شام کو جھکانے میں ناکام رہے۔ اب یہ ان کی بھول ہے کہ چند میزائل مارنے سے شام جھک جائے گا۔


تحریر۔۔۔۔سید عباس  حسینی
(مدرستہ الولایہ مقیم قم )

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree