وحدت نیوز (آرٹیکل) ریاض ، سعودی عرب کا دارلحکومت ہے، جی ہاں یہ وہی مقام ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے مسٹر ٹرمپ اور شاہ سلمان نے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص کیا تھا،گزشتہ روز  انصاراللہ یمن نے ریاض پر متعدد بیلسٹک میزائل داغے،انصار اللہ کے مطابق  تمام میزائل ہدف پر لگے جبکہ سعودی ذرائع کے مطابق حملہ ناکام بنا دیا گیا، ہم جانتے ہیں کہ حالتِ جنگ میں اس طرح کی متضاد اطلاعات معمول کی بات ہیں۔

 انصاراللہ  کے زیرکنٹرول المثیرہ ٹی وی کے مطابق میزائلوں نے اپنے اہداف کودرستگی کے ساتھ نشانہ بنایا ہے ۔ اسی طرح برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق ریاض کے اوپر فضامیں  زبردست روشنی کے ساتھ چھ زوردار دھماکے ہوئےاور متعدد مقامات سے دھواں بھی اٹھتے ہوئے دکھائی دیا۔یاد رہے کہ یہ دسمبر ۲۰۱۷سے اب تک  ریاض پرہونے والا چھٹا  میزائل حملہ ہے۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہ  میزائل حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب  یمن کی مغربی بندرگاہ الحدیدہ پر متحدہ  عرب امارات کی قیادت میں سعودی اتحاد کا ایک بڑا حملہ جاری ہے اور اس حملے کو سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے۔ تیرہ جون ۲۰۱۸سےالحدیدہ پر جاری  اس حملے میں ابھی تک سعودی اتحاد سوائے انسانی جانوں کے زیاں کے اور کوئی  ہدف پورا نہیں کر سکا لیکن دوسری طرف انصاراللہ کے میزائل ریاض کی فضاوں میں پھٹ چکے ہیں، عرب ٹی وی کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیرمملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش  نے حوثیوں کے اسلحہ اور ان کے ماہر نشانہ بازوں کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹس کے بعد ٹوئٹر پر جو متعدد ٹویٹس کئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت سعودی اتحاد کے اوسان خطا ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب نے اب تک شام، عراق، بحرین اور یمن میں جہاں بھی مداخلت کی ہے وہاں عمارتوں کے  کھنڈرات اور انسانی  لاشوں کے سوا کسی مقصد کو  حاصل نہیں  کیا ہے یا بنی نوعِ انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سعودی عرب کے تیار شدہ القاعدہ ، طالبان  اور داعشی ٹولے بری طرح ناکام اور پسپا ہو چکے ہیں۔

سعودی اتحاد اپنی سابقہ شکستوں کی روشنی میں یہ بخوبی جانتا ہے کہ وہ یمن پر اپنا تسلط کسی صورت بھی قائم نہیں کر سکتا تاہم مغرب اور خصوصاً امریکہ کو مطمئن کرنے کے لئے   اس نے اس  وقت یمن کو تختہ مشق بنا رکھا ہے۔

دوسری طرف اب امریکہ و مغرب کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ سعودی اتحاد کی کارروائیوں سےکوئی کامیابی حاصل ہونے والی نہیں۔چنانچہ یمن پر حملے کے حوالے سے خود امریکہ و مغرب پر بھی مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔

سعودی عرب کے سامنے مندرجہ زیل اہم اہداف ہیں جو جنگ کے ذریعے کسی طور بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے:

۱۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرز مین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے

۲۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے

۳۔خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے

۴۔یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے

اربابِ دانش جانتے ہیں کہ جنگ مزید تباہی و بربادی تو پھیلا سکتی ہے لیکن اس سے سعودی اتحاد کو کوئی کامیابی ملنے والی نہیں، اب سعودی عرب ایک ایسی مشکل میں گرفتار ہے کہ  وہ نہ ہی تو یمن میں آسانی کے ساتھ ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی یمن سے باعزت طور پر نکل سکتا ہے، سعودی عرب اگر دیگر ممالک کی طرح یمن سے بھی شکست خوردہ ہو کر نکلتا ہے تو ساری دنیا خصوصاً امریکہ و مغرب کی نگاہوں میں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی اور دوسرا مسئلہ جو کہ اس سے بھی بڑا ہے ، وہ یہ ہے کہ اب  سعودی عرب کے پیچھے ہٹنے سے انصاراللہ رسماً پورے یمن کی مالک بن جائیگی اور سعودی اتحاد کے مقاصد کے بر عکس منطقے میں ایران اور حزب اللہ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔

ریاض کی فضاوں میں پھٹتے ہوئے میزائل جہاں سعودی عرب کی شکست پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں وہیں اقوامِ عالم کو بھی اپنا فریضہ انجام دینے کی یاد دہانی کراتے ہیں۔

سعودی اتحاد کی اس رسوائی اور پسپائی کے عالم میں عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یمن میں بسنے والے دوکروڑ  سے زائد انسانوں کی حفاظت کے لئے آواز بلند کرے۔یمن میں اس وقت جو انسانیت سوز حالات ہیں ان کے پیشِ نظر عالمی برادری کو  یا تو بھرپور احتجاج کرنا چاہیے  اور یا پھر یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ یمن میں کوئی انسان نہیں رہتا۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  پاکستان مسلسل امتحانات سے گزر رہا ہے، اس سے پہلے2012 سے2015تک کے عرصے میں بھی پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں موجود تھا۔ اس لسٹ میں شامل ہونے سے پاکستان کو عالمی امداد کے حصول، قرضوں اور پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے سلسلے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایف اے ٹی ایف سےمراد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہے۔ اس ٹاسک فورس میں خلیج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن سمیت137راکین شامل ہیں۔  پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معیشت پر  اس ٹاسک فورس کی پابندیوں سے سخت منفی اثر پڑتا ہے۔

پاکستان کا جرم دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنا بتایا جاتا ہے،فروری  2018میں پاکستان کو موثر اقدامات کرنے کے لئے تین ماہ کی مہلت دی گئی تھی تاہم پاکستان اس سلسلے میں ٹاسک فورس کو مطمئن نہیں کر سکا اور بالاخر اس کا نام گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا جس کے بعد بلیک لسٹ میں شامل کئے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو واچ لسٹ پر ڈالنے سے جب بھی کوئی پاکستانی بینک، دنیا میں کسی پاکستانی کے لئے کوئی رقم منتقل کرنا چاہے گا تو   تمام مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کے باوجود اس سےکسی تھانے یا  ایئر پورٹ پر پوچھے جانے والے سوالات اب بینکوں میں بھی پوچھے جائیں گے۔

اسی طرح  اب  پاکستان کے لئے عالمی مارکیٹ تک  رسائی  اور تجارت کئی گنا زیادہ مشکل ہو جائے گی اس کے ساتھ ساتھ  ایل سی ،، جو کہ  لیٹر آف کریڈٹ ہے اس کا   اوپن کروانا بھی آسان نہیں رہے گا ،باہر سے مال منگوانا یا باہر کو مال بھیجنا یہ سب نیز کہیں سےبھی  قرضہ لینا اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ یعنی ہمارے ساتھ بھی  ایتھوپیا ،ایران ، عراق ،شمالی کوریا ،  شام  اور یمن  جیسا برتاو کیا جائے گا۔ اے ٹی ایف کا یہ اجلاس پیرس میں ہوا ، اگرچہ اس میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اپنی ٹیم کے ذریعے عالمی برادری کو منی لانڈرنگ، دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے اقدام سے آگاہ تو کیا لیکن شایدنا تجربہ کار ٹیم کے باعث وہ کسی کو بھی مطمئن نہ کر سکیں۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں امریکہ، سعودی عرب ،برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی کوششوں، حمایت اور ووٹوں سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ڈالے جانے کی ایک اہم وجہ حافظ سعید کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کا نہ ہونا بھی ہے۔ پاکستان نے حافظ سعید کی تنظیم کو نام بدل کر ایک اور نام سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازات بھی دے رکھی ہے، ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس ستمبر۲۰۱۸ میں ہوگا ، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستان اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں پر آہنی ہاتھ ڈالے گا اور ان سے سختی کے ساتھ نمٹے گا یا پھر پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہے گا اور اس کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ اس وقت پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کو رکوانے کے لئے دباو ڈالنے والے ممالک خود ہی دہشت گرد ٹولوں کے اصلی موجد ہیں اوران کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے خود پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کو فروغ دینے والے اصلی ممالک اب  اپنی نئی حکمت عملی کے تحت  اور بھارت سے تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لئے  پاکستان پر خواہ مخواہ کا دباو ڈال رہے ہیں۔ اس وقت بھارتی میڈیا پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے پر بغلیں بجا رہا ہے۔ لہذا پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ عالمی برادری کے مطالبات کو سنجیدگی سے لے اور بین الاقوامی فورمز پر  لائق ، سنجیدہ اور تجربہ کار افراد کے ساتھ اپنی  ترجمانی کرے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں کم و بیش ایک سو سالہ تاریخ میں امریکی حکومتیں دنیا کی سب سے بڑی ظالم اور شیطانی حکومتیں ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی بد ترین دشمن حکومتیں نظر آتی ہیں، امریکہ کی انسانی حقوق سے متعلق پائمالیوں کی ایک سو سالہ تاریخ کو قارئین کے لئے پہلے ہی متعدد کالمز میں بیان کیا جا چکا ہے جس میں تفصیل کی ساتھ امریکہ کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں در اندازی سمیت فوجی مداخلت اور حملوں کی داستانیں اور اس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے ان درجن بھر سے زائد ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی پائمالیوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ جہاں انسانیت کی بد ترین دھجیاں بکھیری گئیں۔

اگر کسی کو ایک جملہ میں سمجھنا ہو تو اتنا ہی کافی ہے کہ امریکی حکومتیں گذشتہ ستر برس سے فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کی سرپرستی میں ملوث ہے اور آج کی دنیا میں بچہ بچہ بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل ایک جعلی ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف فلسطین بلکہ خطے کی دیگر ریاستوں میں بھی دہشت گردانہ کاروائیوں کے باعث انسانی حقوق کی بد ترین پائمالیوں کا مرتکب ہو تا آیا ہے اور حالیہ دنوں بالخصوص جب فلسطین کے عوام دنیا کے سامنے اپنے حق واپسی سے متعلق مطالبہ کر رہے ہیں تو ایسے ایام میں بھی امریکی امداد کے نام پر اسرائیل کو دیا گیا اربوں ڈالر کا اسلحہ فلسطینیوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا اورجس کے نتیجہ میں سیکڑوں معصوم اور نہتے فلسطینی شہید جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے اور متاثر ہونے والوں میں بچے، بوڑھے اور خواتین سمیت صحافی برادری اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے اراکین وغیرہ بھی شامل ہیں۔بہر حال امریکی حکومتوں کی انسانی حقوق سے متعلق پامالیوں اور خلاف ورزیوں کے بارے میں یوں تو دنیا بھر میں ثبوت موجود ہیں لیکن فلسطین میں امریکی سرپرستی میں اسرائیلی درندگی اور فلسطینیوں کے حقوق کی پائمالیوں کی داستان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اعلانیہ ثبوت ہے۔امریکہ کی ہمیشہ سے یہی عادت رہی ہے کہ جب بھی کسی ملک یا حکومت کا تختہ الٹنا ہو اور وہاں پر اپنی من پسند حکومت لانا ہو تو سب سے پہلے ان ممالک کے خلاف امریکی راگ الاپنے کا انداز انسانی حقوق کا نعرہ ہی ہوتا ہے اور ایسے تمام ممالک جہاں جہاں امریکہ نے فوجی دخل اندازی اور حملے کئے اور متعدد مقامات پر دہشت گرد گروہوں کو جنم دیا اور ان کی مالی و مسلح معاونت کی ، ان تمام کیسز میں ہمیں ایسا ہی نظر�آتا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہانہ بنا کر ان ممالک پر فوجی چڑھائی کی گئی اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ ہیرو شیما ہو کہ ناگا ساکی، ویت نام ہو یا افغانستان، عراق ہو کہ شام، لیبیا ہو یا یمن، دنیا کے ہر اطراف میں امریکی اسلحہ اور حکومت انسانی حقوق بلکہ پوری انسانیت کی دھجیاں بکھیرنے میں سرفہرست نظر�آئی ہے۔حالیہ دنوں امریکی حکومت اور پالیسیوں کا مکروہ چہرہ ایک مرتبہ پھر سے ایسے وقت میں عیاں ہوا ہے کہ جب خود امریکی حکومت اور حکمرانوں کے ہاتھوں میں لاکھوں عراقی و شامی ، فلسطینی و کشمیری، افغانی و لیبی، اور یمن سمیت دیگر مظلوم اقوام و عوام کا خون ہے ۔

دنیا کے ان تمام خطوں میں امریکی سرپرستی میں جاری یا تو دہشت گرد گروہوں کی دہشت گردانہ کاروائیاں تھیں یا پھر بھارت جیسی بدمعاش حکومتوں کی کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی اور اس پر امریکی آشیرباد۔ایسے حالات میں دوسری طرف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل UNHRC میں فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے امریکی سرپرستی میں ہونے والی انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کی قلعی کھولنے کا وقت آیا تو امریکی حکومت نے سب سے پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے سے خود کو نکال کر جہاں ایک طرف اقوام متحدہ میں نمائندگی کرنے والے دنیا بھر کے ممالک کی اقوام کی تذلیل کی وہاں ساتھ ہی ساتھ دنیا کو یہ کھلا پیغام بھی دیا ہے کہ وہ(امریکہ) اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور انسانیت کے خلاف جاری دہشت گردانہ عزائم اور خطے میں جاری فلسطینیوں کے قتل عام پر کسی قسم کی شرمندگی یا اپنے کاندھوں پر بوجھ محسوس نہیں کرتا ہے۔در اصل امریکی حکومت کی یہ تاریخ رہی ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی مظلوم اقوام سے تعلق رکھنے والے اقوام کو انسانیت کے زمرے میں سمجھا ہی نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ خود امریکہ کے اندر بھی تارکین وطن شہریوں کی اولادوں کو ان سے جدا کیا جانا بھی امریکی پالیسیوں کی انسانی حقوق کی کھلم کھلا مخالفت کی دلیل ہے۔تاریخ گوا ہ ہے کہ جب کبھی کسی عالمی ادارے یا بالخصوص انسانی حقوق سے متعقل فورمز پر فلسطین کے عوام کے حقوق کی بات کی گئی ہے تو یہ امریکی شیطانی حکومت ہی ہے کہ جس نے سب سے پہلے فلسطینیوں کے حقوق کی مخالفت کی ہے اور نہ صرف مخالفت بلکہ فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والی ، فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے جبری بے دخل کرنے والی، فلسطینی عوام پر ظلم و بربریت روا رکھنے والی انسانیت دشمن جعلی ریاست اسرائیل کی مدد کے نام پر اربوں ڈالرز کا اسلحہ بھی دیا ہے جسے اسرائیل نے امریکہ کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے ایک لائسنس کے طور پر استعمال کیا ہے۔حالیہ دنوں امریکہ نے خود کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل سے خود کو نکال کر دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ امریکہ ہی ہے جو دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا دشمن اور شیطان ہے ۔دوسری طرف فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام ہیں جو تیس مارچ سے اب تک غزہ اور مقبوضہ فلسطین پر قائم کی جانے والی صیہونی جبری بارڈر اور رکاوٹوں کو ختم کروانے سمیت اپنے بنیادی حقوق کے حصول کا عالمی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں لیکن جواب میں امریکی اسلحہ اور گولہ بارود اسرائیلی درندہ افواج کے ہاتھوں فلسطینیوں پر برسایا جارہاہے جس کے نتیجہ میں اب تک ایک سو پچاس سے زائد فلسطین شہید جبکہ دس ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، بہر حال فلسطینیوں کا حق واپسی فلسطین کا نعرہ ایک ایسا نعرہ ہے کہ جس کے سامنے اب امریکہ بھی بے بس ہو کر شکست خوردہ ہو چکا ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے سے امریکی حکومت کا نکل جانا یا فرار کرنا امریکی پالیسیوں کی خطے میں شکست کا واضح ثبوت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر امریکی و اسرائیلی کاسہ لیسی ترک کرتے ہوئے فلسطینیوں کی پشتبانی کریں اور قبلہ اول بیت المقدس کے دفاع و تحفظ کی خاطر عملی جد وجہد کاآغاز کریں۔

 

تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

وحدت نیوز (آرٹیکل)  محل وقوع کے اعتبار سے یمن سعودی عرب کے جنوب میں،عمان کے مغرب میں، بحیرہ احمر کے مشرق میں اور خلیج عدن کے شمال میں واقع ہے۔یہ مغربی ایشیا میں مشرقِ وسطیٰ کا  دو کروڑ آبادی پر مشتمل انتہائی اہم ملک ہے۔

موجودہ صدی میں  مصر کے جمال عبدالناصر نے  بھی ۱۹۶۲ میں یمن پرحملہ کرکے وسیع پیمانے پر انسانی قتلِ عام کیا تھا لیکن وہ تو ہمارا ہیرو ٹھہرا لہذا ہم کیوں اس کے خلاف بولتے، اسی طرح ۱۹۹۴ میں شمالی اور جنوبی یمن  کے درمیان زبردست کشت و کشتار ہوئی لیکن عالمی برادری کو اس سے کیا غرض ہو سکتی ہے۔

یمن کے رہنے والوں کا قصور یہ ہے کہ یمن کی پٹرول اور گیس سے لبریز ۱۸۰۰ کلو میٹر سرحد سعودی عرب کے ساتھ ملتی ہے۔اس کے علاوہ باب المندب  کا دریائی  علاقہ  جنوب کی طرف سے دریائے احمر کو  خلیج عدن اور اوقیانوس ہند سے جوڑتا ہے یوں سعودی عرب، افریقا اور مصر کی شہ رگ اس کے کنٹرول میں ہے۔

یہ کوئی وہابی و شیعہ یا دیوبندی و زیدی یا نجدی و حوثی کا مسئلہ نہیں بلکہ معدنی ذخائر کی خاطر  مضبوط ممالک کی ایک کمزور ملک پر جارحیت ہے۔یمن میں آبادی کے لحاظ سے ۵۰فی صد شافعی اہل سنت ہیں جبکہ ۴۰ فی صد شیعہ ہیں اور اس کے علاوہ  اسماعیلی اور صوفی مسلک کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔

حوثیوں کی تحریک کا آغاز ۱۹۹۰ میں سید حسین الحوثی کے ہاتھوں سے ہوا۔۲۰۰۵ میں حکومت یمن نے اس تحریک  پر کاری ضرب لگائی اور اس کے بانی کو شہید کردیا، اس کے بعد سید حسین الحوثی کے والد بدرالدین حوثی نے اپنے بیٹے کے راستے پر سفر جاری رکھا اور اپنی وفات تک اس پر کاربند رہے، ان کی وفات کے بعد سید حسین کے بھائی سید عبدالمالک حوثی نے اس زمہ داری کو سنبھالا ۔

یاد رہے کہ ماضی میں سعودی عرب یمن کو  قطر کی طرح اپنی بغل بچہ بادشاہت  کےطور پر دیکھتا  تھا ۔سعودی عرب کا منصوبہ تھا  کہ داعش اور القاعدہ کے اسٹریکچر کو یمن میں مضبوط کیا جائے، جیسے ماضی میں افغانستان و روس کی جنگ  میں پاکستان کی سرزمین اور لوگوں کو استعمال کیا گیا تھا۔بالکل اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں یمن کو بھی استعمال کرنے کا ارادہ تھا،  سعودی عرب کے اس منصوبے کو  یمنی حکومت نے تو قبول کر لیا لیکن حوثیوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور اپنے ملک کو غیروں کے لئے استعمال نہ ہونے دینے پر اصرار کیا۔

یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے  سعودی عرب کا دورہ کیا اور ملک عبداللہ کو درپیش مشکلات سے آگاہ کیا چنانچہ حوثیوں کو کچلنے کے لئے سعودی عرب نے القاعدہ کے لشکر یمن بھیجے اور یوں یمن میں ایک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

 بعد ازاں اس خانہ جنگی سے سعودی عرب کو اپنے مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آئے تو سعودی عرب مستقیماً اس جنگ میں کود پڑا ۔یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح  ۱۹۹۷۸میں یمن کے صدر بنے ، انہوں نے ایسے وقت میں یمن کی صدارت سنبھالی کہ جب ان سے پہلے یمن کے دو صدور ایک سال سے بھی کم عرصے میں دہشت گردی کے شکار ہو گئے تھے۔

 علی عبداللہ صالح نے تمام تر مشکلات کے باوجود ۲۳ سال تک  یمن پر حکومت کی۔۱۹۹۰سے پہلے وہ صرف شمالی یمن کے صدرتھے ،تاہم انہوں نےشمالی اور جنوبی یمن کو متحد کرنے میں کامیابی حاصل کی اور ۱۹۹۴میں یمن کی داخلی جنگ کو آسانی سے نمٹانے میں بھی  کامیاب ہو گئے،  اس کے بعد ۱۹۹۹ کے انتخابات میں  متحدہ یمن کے پہلے  صدر منتخب ہوئے۔۲۰۱۱ میں عوامی جلسوں اور احتجاجات  کے پیشِ نظر انہوں نے اپنی صدارت سے استعفیٰ دے دیا،   انہوں نے کچھ عرصہ اپنے تعلقات حوثیوں کے ساتھ بھی اچھے رکھےلیکن  ۱۹۹۰ کے بعد انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے شروع کر دئیے۔

۔ موصوف نے  ایک سیاسی چال کے طور پر عبدربه منصور هادی کے مقابلے میں کچھ عرصہ  انقلابیوں کی زبانی حمایت بھی  کی لیکن پھر کھلم کھلا  سعودی عرب کو ہی  اپنا سیاسی قبلہ بنا لیا  اور انقلابیوں کی مخالفت شروع کر دی۔بعد ازاں ۴ دسمبر ۲۰۱۷ کو انہیں قتل کردیا گیا۔

اس وقت یمن پر سعودی حملے کے مندرجہ زیل اہداف ہیں:

۱۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرز مین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے

۲۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے

۳۔خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے

۴۔یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے

یہ جنگ کسی طور پر بھی دینی و مذہبی نہیں ہے بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف استعماری  مفادات کی تکمیل کے لئے  ننگی جارحیت ہے۔ جب تک دنیا ، استعمار کے خلاف رد عمل نہیں دکھاتی یہ جنگ جاری رہے گی۔ جو اقوام آج خاموشی کے ساتھ یمن کا تماشا دیکھ رہی ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ  استعمار کا پیٹ کسی ایک ملک کو ہڑپ کرنے سے نہیں بھرتا ، آج اگر یمن پر بارود کی بارش ہو رہی ہے تو کل کو کسی اور کی باری آئے گی۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہم فتنوں کے دور میں جی رہے ہیں اور اس دور میں دین و آخرت کی بھلائی کے ساتھ جینے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے جینے کا طریقہ کار درست ہو۔رسول اللہ صلی الله عليه وآلہ وسلم سے روایت ہے :

"ليغشين من بعدي فتن كقطع الليل المظلم ، يصبح الرجل فيها مؤمناً ويمسي كافرا ، ويمسي مؤمناً ويصبح كافراً ، يبيع أقوام دينهم بعرض من الدنيا قليل " (كنز العمال ، ج11 ، ص 127)

ترجمه: " میرے بعد اندھیری رات کی طرح فتنے اٹھیں گے. صبح کے وقت ایک شخص مؤمن ہوگا تو رات کے وقت کافر اور اسی طرح  رات کے وقت مؤمن ہو گا تو صبح کے وقت کافر ہو گا. قومیں اپنے دین کو تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے عوض بیچ دیں گی. "

*فتنے کے لغوی معنی:*  فتنہ عربی زبان کا لفظ ہے اور ابتلاء وامتحان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. اس کے علاوہ گناہ ، کفر ، قتال ،پریشانی ، لوگوں میں اختلاف رائے اور آگ میں جانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے.

قران مجید میں سورۃ العنکبوت میں خدا وند ارشاد فرماتا ہے.

((الم * أ حسب الناس ان يتركوا ان يقولوا آمنا وهم لا يفتنون * ولقد قتنا الذين من قبلهم فليعلمن الله الذين صدقوا وليعلمن الكاذبين *))" کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب کہیں گے کہ ہم ایمان لائے کیا انکا امتحان نہیں لیا جائے گا * ہم نے جو قومیں ان سے پہلے آئیں انکی بھی آزمائش کی تاکہ معلوم ہو سکے کہ کون سچے اور کون جھوٹے  ہیں ."

*فتنوں کی اقسام*

*الہی فتنے*

امتحان : اللہ تعالیٰ نہیں چاھتا کہ ہم کفر اختیار کریں ، بلکہ وہ تو پسند کرتا ہے کہ ہم ایمان والے ہوں. لیکن ہمارا ایمان سچا ، برھان ودلیل اور یقین کے ساتھ ہو. اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور برگزیده بندوں کا بھی امتحان لیا. اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان کے دعویداروں  کا بھی امتحان لیتا ہے اور چھانٹی کرتا ہے اور چھاننی لگا کر سچے ایمانداروں کو جھوٹے ایمان کے دعویداروں سے علیحدہ علیحدہ اور جدا کرتا ہے.

*شیطانی فتنے*

انسان کا کھلا دشمن شیطان اور اسکی جماعت  ہے. لیکن انسان جب  ان  سے غافل ہو جاتا ہے تو وہ اسے دھوکہ دے کر گمراہی کے راستے پر لگا دیتے ہیں. اللہ تعالیٰ سورة الاعراف 27 نمبر آیت میں ارشاد فرماتا ہے  (( لا يفتننكم الشيطان كما اخرج ابويكم من الجنة )) " شيطان کو موقع نہ دو کہ تمہیں دھوکہ دیکر گمراہ کر دے جیسے اس نے تمھارے والدین ادم وحوا کو دھوکہ دے کر جنت سے نکالا تھا."

سب سے خطرناک فتنہ

. مقتدر قوتیں اور جابر حکمران لوگوں پر ظالمانہ اور جابرانہ تسلط قائم کرنے کے لئے ایسے آرڈر جاری کرتے ہیں اور ایسی قانون سازی کرتے ہیں جو لوگوں کے عقیدے اور ایمان سے مطابقت نہیں رکھتی. ایسی صورتحال میں اگر تو وہ ان قوانین اور احکام کا انکار کرتے ہیں تو انہیں اذیت پہنچائی جاتی ہے. لوگوں کے عقیدے و ایمان اور افکار ونظریات کو طاقت اور قدرت کے استعمال سے تبدیل کرنے کا فتنہ سب سے خطرناک فتنہ ہے. اور اسی فتنے کو قران مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے .

((والفتنة اشد من القتل )) کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ اور شدید نقصان دہ ہے. کیونکہ آزادی انسان کی انسانیت کا جوھر اور اسکا بنیادی حق ہے. جب انسان سے ایمان واعتقاد اور افکار ونظریات کی آزادی کا حق چھینا جاتا ہے گویا اس سے اسکی انسانیت چھین لی جاتی ہے.

 آزادی کے بغیر تو کوئی انسانیت نہیں بچتی. انسانوں کو جبری طور پر انکے عقیدے وایمان وافکار ونظریات تبدیل کروانا انہیں قتل کرنے سے زیادہ سخت ہے اور جس قوم وملت کی آزادی افکار ونظریات اور آزادی عقیدہ وایمان سلب ہو جاتی ہے وہ قوم زندہ نہیں مردہ ہو جاتی ہے. اور مردہ اقوام کبھی آزاد وخود مختار اور فلاحی  مملکت نہیں بنا سکتیں.

آج امریکا اور اسکے اتحادیوں کی سیاست ہمارے سامنے اس قسم کے فتنے کو سمجھنے کی بہترین مثال ہے. پاکستان میں جب سے امریکی اور اسکے اتحادی سعودیہ کی مداخلت شروع ہوئی اسی وقت سے پاکستان کے شہریوں پر  درہم و دینار وڈالرو  ریال اور طاقت  کے بل بوتے پر لوگوں پر متشدد عقائد زبردستی  مسلط کئے جا نے لگے.

چنانچہ گزشتہ چند سالوں میں  حکومتی سرپرستی اور امریکی وسعودی مدد سے وھابیت اور تکفیریت کی ترویج کی گئی اور جس نے اختلاف رائے کا حق استعمال کیا اس پر پہلے فتوے جاری ہوئے اور پھر کسی ٹارگٹ کلنگ یا بم دھماکے سے اسے اڑا دیا گیا  اور حکومتیں ایسے مجرمین کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں اور نام نہاد لیڈر انکی پشت پناہی کرتے رہے.

ملک پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے. اب ٹی وی چینلز کے ذریعے نت نئے فتنے ایجاد کرنے پر کام جاری ہے.یاد رہے کہ کہیں پر بھی  دشمن حملہ آور ہونے سے پہلے فتنوں کو ھوا دیتا ہے اور اس ملک کے عوام کے  اجتماعی روابط توڑ کر اجتماعی وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے.

پاکستان میں سنی و  شیعہ مذھب اور نئے فتنے

صدر اسلام سے مسلمانوں میں دو بڑے مکتب فکر اور مذھب پائے جاتے ہیں. ایک شیعہ مذھب اور ایک اھل سنت اور پورے جہاں پر نگاہ ڈالی جائے تو  آپکو یہ مذاھب ملیں گے.  لیکن انکے مابین فتنے ایجاد کرنے کی جو ہوا پاکستان میں چالیس سال سے چل رہی ہے آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی. حالانکہ ان مذاہب کی تاریخ 1400 سال پرانی ہے ۔شیعہ مذھب کے اپنے عقائد ونظریات ہیں اور سنی مذھب کے اپنے. ان دونوں کے اکثر عقائد ونظریات مشترک ہیں اور بعض جگہوں پر  آپس میں فرعی  اختلاف  پایا جاتاہے.

تاریخی طور پر بھی دونوں فرقوں کے درمیان ٹھوس اختلافات پائے جاتے ہیں، جیسے جنگ جمل و صفین   وغیرہ کی جزئیات میں دونوں فرقوں  کے نکتہ نظر میں آج تک  بھرپوراختلاف ہے۔البتہ محقیقین ان اختلافات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

ختمِ نبوت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور اس کے بعد  امامت کے مسئلے پر اختلاف شروع ہو جاتا ہے، دونوں مسالک کے درمیان امامت کے مسئلے پر تھوڑا بہت اختلاف ہے ، جیسا کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے بعد بارہ خلیفہ یا بارہ امام ہونے پر شیعہ و سنی دونوں مسالک کا اتفاق ہے ،  البتہ وہ بارہ امام کونسے ہیں اس میں  اختلاف ہے۔شیعہ  بارہ اماموں کو معصوم مانتے ہیں  اور امامت کو ایک  الہی منصب سمجھتے ہیں جبکہ اہل سنت کے ہاں امامت کے لئے عصمت کی قید نہیں ہے۔

اسی  طرح شیعہ و سنی علما  حضرت امام علیؑ کے مناقب، فضائل اور تفضیل کے قائل ہیں اور اس ضمن میں طرفین نے بہت کچھ لکھا ہے البتہ  اہل سنت امام علیؑ کو چوتھا خلیفہ راشد مانتے ہیں جبکہ شیعہ رسول اسلامﷺ کے بعد خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں۔

اب پاکستان میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف ڈالنے کا کام منبروں کے بعد ٹیلی ویژن چینلوں سے لیاجانے لگا ہے، بظاہر کہا تو یہ جاتا ہے کہ دینی پروگراموں سے اتحاد اور وحدت کے فروغ کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ عملا  اختلاف و انتشار کو ہوا دی جاتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ اتحاد اور ادغام میں فرق کیا ہے!؟

۔اتحاد ووحدت کا حقیقی مفہوم

اتحاد اور وحدت ہی فقط وہ راستہ ہے جس سے ملک بھی محفوظ رہ سکتا ہے  اور شہریوں کے جان ومال اور ناموس کی حفاظت بھی ہو سکتی ہے. شیعہ اور سنی دونوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ  اتحاد کے اعتباد سےافراط وتفریط کے شکار ہیں. کچھ لوگ  سرے سے ہی اتحاد کے مخالف ہیں اور پرانے فتنوں کو ہوا دینا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں   اور کچھ  ان سے بھی خطرناک ہیں جو اتحا ووحدت کے نام پر اتحاد ووحدت کو سبوتاژ کرتے ہیں۔

 یہ گروہ اتحاد کے یا تو مفہوم سے واقف نہیں یا کسی لالچ ، خوف یا ڈر یا  پھر کسی سیاسی مصلحت کے تحت اپنے ہی  مذھب کے اصولوں اور مسلمہ عقائد سے دستبرداری کا اظہار کرتا ہے، ایسی دستبرداری  جسے نہ تو اسکے مد مقابل مذھب کے لوگ قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اسکے اپنے مذھب کے پیروکار اس موقف کو مانتے ہیں. اور پھر ایک ھیجان اور بےچینی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہےجیسا کہ  آجکل ہو رہاہے.

ہم یہاں پر اتحاد اور ادغام میں فرق کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

*اتحاد اور ادغام میں فرق*

اتحاد کا مطلب  یہ ہے کہ اپنے عقائد کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو نہیں۔ یعنی  شیعہ کا جو بھی عقیدہ ہے وہ اپنے عقیدے اور نظریات پر باقی رہتے ہوئے اور دوسری  جانب سنی بھی اپنے عقیدے اور نظریات پر باقی رہتے ہوئے مل کر  اپنے مشترکہ دشمن کے مقابلے میں متحد ہو جائیں ۔

ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہمارے حکمران اپنے سیاسی مفادات کے لئے اسرائیلیوں اور یہودیوں کے ساتھ مشترکات ڈھونڈ کر اتحاد کر سکتے ہیں تو کیا اسلام کے دفاع اور حفاظت کی خاطر  شیعہ اور سنی علمائے کرام مل بیٹھ کر متحد نہیں ہو سکتے۔

اب رہا ادغام تو  ادغام یہ ہے کہ شیعہ اور سنی  ایک دوسرے کے ڈر سے یا  کسی سیاسی و دنیاوی مفاد کی وجہ سے اپنے ہی مسلمہ  عقائد کو چھوڑ کر یہ تاثر دیں کہ وہ دوسرے فرقے میں ضم ہو گئے ہیں جبکہ  ایسا ادغام چاپلوسی  جھوٹ اور منافقت  پر تو منتہج ہو سکتا ہے لیکن  اتحادِ اسلامی کا ترجمان نہیں ہو سکتا۔اس سے کوئی تیسرا فرقہ تو جنم لے سکتا ہے لیکن وحدتِ اسلامی کی بنیاد نہیں پڑ سکتی۔اتحاد اسلامی کی درست نہج یہی ہے کہ تمام مسلمان  اپنے اپنے عقائد پر آزادانہ عمل کریں اور ایک دوسرے کے عقائد کا دل سے احترام کریں۔


تحریر:ڈاکٹر شفقت شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل)  انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی امنگ۔ ہر حال میں  انسان اپنی معلومات میں افزائش اور  کچھ کرنے کی اپنی استعداد میں اضافے کا متمنی ہے۔ایک عاقل ، ہوشیار اور بیدار انسان کبھی بھی اپنی ان دو خواہشوں سے دستبردار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چاہے کسی بھی دین و مذہب اور نظریے سے تعلق رکھتے ہوں باقی دنیا کے بارے میں جاننا اور اس دنیا میں کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھنا ہی ہماری سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ یہی خواہش ہے جو انسان کو خلاوں میں لے کر گھوم رہی ہے ، فضاوں میں اڑا رہی ہے اور سمندروں کی تہوں میں اتار رہی ہے۔ اگر انسان سے یہ دو خواہشیں چھین لی جائیں تو انسان کا انسان ہونا خطرے میں پر جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ذمہ دار اور سرکردہ افراد ہمیشہ کچھ جاننے اور کچھ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔انسانی معاشرے میں انسان جدید معلومات اور نئے حالات سے لاتعلق ہو کر نہیں رہ سکتا۔اس وقت ہمارے ارد گرد کی دنیا میں  بڑی تیزی سے سائنسی، سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتیں نت نئی تھیوریز اور ایجادات کے ساتھ کمزور اقوام پر جدید تجربات کر رہی ہیں۔  یعنی ہماری دنیا میں طاقتور اقوام ، کمزور اقوام کو اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔

ایک نئے مشرق وسطیٰ کا تجربہ امریکہ کو مہنگا تو پڑا لیکن اس کے نتیجے میں چاندہ چہرہ ممالک کھنڈر بن گئے، ممالک کو کھنڈرات بنانے کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور اس وقت   امریکی ایما پر سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ’عرب اتحاد‘  نے یمن کی مرکزی بندرگاہ الحدیدہ  پر دھاوا بول رکھا ہے۔ یہ اتنی مصروف اور اہم بندرگاہ ہے کہ یمن کی ستر فی صد در آمدات اسی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ ۲۰۱۵ سے جاری اس جنگ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔اس حملے کو سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے اور اس کی ابتدا میں ہی   انصار اللہ نے امارات کے  فرسٹ نیول سارجنٹ خلیفہ سیف سعید الخاطری، علی محمد راشد الحسانی، سارجنٹ خمیس عبداللہ خمیس الزیودی اور العریف حمدان سعید العبدولی جیسے متعدد افراد  کو موت کے گھاٹ اتار کر حملہ آوروں کے دانت کھٹے  کر دیے ہیں۔

اس سنہری فتح  نامی حملے کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ  کچھ دن پہلے  اقوام متحدہ نے برملا اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر الحدیدہ پر دھاوا بولا گیا توانسانی جانوں کی  خوفناک تباہی ہوگی۔بہر حال ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اقوامِ متحدہ  کے واویلے پر کسی نے کان نہیں دھرے اور حملہ کرنے والوں نے حملہ کر کے ایک مرتبہ پھر اقوامِ عالم کو یہ پیغام دیا ہے کہ  طاقتور اقوام کے سامنے انسانی حقوق، اقوامِ متحدہ اور انسانی زندگیوں کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے۔

یہاں پر لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے کہ وہ میڈیا جو  شام کے کسی علاقے میں داعش کے درندوں کے محصور ہونے پر تو انسانی ہلاکتوں کا واویلا کرتا ہے لیکن  اس وقت الحدیدہ میں ہونے والے انسانی المیے پر چپ سادھے ہوئے ہے۔

یعنی  میڈیا کے نزدیک یمن میں مارے جانے والے انسان گویا انسان ہی نہیں ہیں۔

  عالمی برادری کو اس حقیقت سے نظریں نہیں چرانی چاہیے کہ الحدیدہ اس جنگ کا آخری مرحلہ نہیں ہے، امریکہ اور سعودی عرب ایک طولانی ایجنڈے کے تحت پوری دنیا میں سرگرمِ عمل ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں کے پیچھے ان دونوں ممالک کا ہی ہاتھ ہے۔  

انسانی ہمدردی کے ناتے ہی یہ ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم الحدیدہ میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں پر غم کا اظہار کریں اور  جارحین کی مذمت کریں۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر مناطق کی طرح الحدیدہ سے بھی جارحین زلیل و رسوا ہو کر نکلیں گے لیکن اس جارحیت کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر انسانی و مالی نقصان کا احتمال ہے جس کے تدارک کے لئے عالمی برادری کو سامنے آنا چاہیے۔

انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی امنگ۔الحدیدہ کے حوالے سے ہمیں زیادہ سے زیادہ  حقائق کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور الحدیدہ پر ہونے والی جارحیت کی مذمت  کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔

 اگر ہم الحدیدہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور کچھ نہیں کرتے تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ حق و باطل کے معرکے میں غیر جانبدار ہوجانا یا خاموش ہوجانا در اصل باطل کی ہی مدد ہے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree