وحدت نیوز(آرٹیکل) دہشت گردی کا ناسور اس خطہ ء ارضی سے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا،بس تھوڑا وقفہ ہوتا ہے اور پھر کوئی بڑی واردات سب کو ہلا بلکہ جگا دیتی ہے،پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کو اضلاع میں بدل دیا گیاہے مگر ابھی تک اس پہ بہت کام ہونا باقی ہے ابھی تو ابتدائی مراحل ہیں،اسی لیئے ہم ان کو ایجنسی کے طور پہ ہی لے رہے ہیں،اورک زئی ایجنسی جو ضلع کوہاٹ اور ہنگو سے منسلک ہے اس میں میں اہل تشیع کے ایک مدرسہ و مرکز کے ساتھ جمعہ بازار میں ہونے والے بم دھماکے نے ایک بار پھر یہ بتلا دیا کہ دہشت گردی کا جن ابھی تک بوتل سے باہر ہے اور جو دعوے کیئے جاتے ہیں وہ بس اخباری و کاغذی کاروائی سمجھی جائے،اورک زئی ایجنسی واحد قبائیلی ایریا ہے جس کی سرحد افغانستان سے نہیںملتی،عمومی طور پہ ہم نے دیکھا ہے کہ کسی بھی قبائلی ایریامیںہونے والے بم دھماکوں سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد ہمسایہ ملک یعنی افغانستان سے حملہ آوار ہوئے ،یہاں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ،یہاں کسی بھی طرف سے سرحد افغانستان سے نہیں ملتی ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس ایجنسی میں بھی دوسری ایجنسیز کی طرح اس مائنڈ سیٹ کی حمایت اور سہولت کاری موجود ہے جو پاکستان بھر میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے،ہماری مراد طالبان ہیں جو کسی بھی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں کبھی طالبان تحریک کے نام سے تو کبھی کسی اور گروہ کے نام سے ،حقیقت میں ان کا کام ہی ان کی پہچان ہے اور وہ ہے بے گناہوں کا قتل عام اور اس ملک کے در و دیوار کو ہلا کے رکھ دینا،اس کے اداروںکو کمزور ثابت کرنا اور ریاست پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پہ سامنے لانا تاکہ دنیا اس ایٹمی ملک کو پریشرائز کر سکے کہ وہ ایک کمزور اور غیر ذمہ دار ریاست ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کاہونا دنیا کو خطرات سے دوچار کر سکتا ہے ۔

اورک زئی ایجنسی کے علاقے کلایہ کے جمعہ بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں 35کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں دو ہندو بھی شامل ہیں،جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی پچاس کے لگ بھگ ہے جن میںکچھ کی حالت نازک بھی ہے ،یاد رہے کہ کلایہ کی اس جگہ جہاں بم دھماکہ ہوا ہے ایک مدرسہ انوار اہلبیت ؑ ہے جہاں جمعہ کا اجتماع ہوتا ہے اور جمعہ کے بعد بڑی تعداد میںلوگ خریداری کرتے ہیں،یہ بازار اور مدرسہ کافی قدیم ہیں،راقم الحروف کو پہلی بار یہاں 1988ء میں جانے کا اتفاق ہوا تھا اور ہم ایک ماہ تک ادھر ایک دینی تربیتی ورکشاپ کے سلسلہ میں مقیم رہے تھے اس وقت صرف مدرسہ ہوتا تھا اور بعد ازاں تو مدرسہ سے منسلک اسکول بھی بنایا گیا،یہ شیعہ اکثریتی علاقہ ہے ،اور یہیں سے علامہ عارف الحسینی کے بزرگوں نے ہجرت کی اور کرم ایجنسی میں جا کے آباد ہوئے ،اب بھی یہاں ان کا خاندان نمایا ںمقام و احترام رکھتا ہے ،جبکہ اورک زئی کے اسی علاقے میں علامہ عارف الحسینی کے بڑے بزرگ معروف عرفانی و ادبی شخصیت میاں انورشاہ کا بھی مزار ہے جو اہلسنت کی آبادی والی طرف ہے ،شائد اس وقت اس کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے۔اورک زئی ایجنسی میں اس سے قبل بھی شدت پسند عناصر کی طرف سے مختلف حملے کیئے جاتے رہے ہیں اور دیگر ایریاز کی طرح یہاں پر بھی طالبان نے اپنے قبضہ کی پوری کوشش کی ہے یہاں سے سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو اغوا اور بے دخل کیا گیا جو یہاں کے قدیمی رہائشی تھے،اسی طرح اہل تشیع پر بھی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اہل تشیع کی گاڑیوں کو روڈ سائیڈ بم دھماکوں سے اڑایا گیا۔جبکہ انہی عناصر نے کوہاٹ اور ہنگو میں بھی دہشت گردی کے ذریعے اہل تشیع کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ،مگر یہاں کے غیرت مند قبائل نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں ان کے ارادوں میں ناکامی سے دوچار کیا۔

جس دن اورک زئی ایجنسی میں نمازیوں اور غریب قبائلیوں کو نشانہ بنایا گیا اسی دن کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بھی ایک دہشت گردانہ حملہ کیا گیا،فائرنگ اور بم دھماکوں میں دو پولیس اہلکار،دو کوئٹہ سے آئے باپ بیٹا اور تین مسلح دہشت گرد مارے گئے،یہ حملہ اس حوالے سے ہولناک اور خطرناک رہا کہ پہلی بار بلوچ علیحدگی پسندوں نے فدائی سٹائل میں کاروائی کی ،اور دہشت گردوں کی باقاعدہ فلم بنا کر نشر کی بالکل داعش اور طالبان حملہ آوروں کی طرح انہیں تیار کیا گیا اور ان کی ٹریننگ کی ویڈیو بھی جاری کی گئی،کسی کو شک نہیں ۃونا چاہیئے کہ اس حملے کے مقاصد کیا تھے اور اس کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہو سکتی ہیں، بلوچ علیحدگی پسند بھارت اور مغربی ممالک میں کھلے عام پھرتے ہیں ،کچھ افغانستان میں بھی پناہ لیئے ہوئے ہیں ان کا مقصد پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب کرنا اور سی پیک جس سے پاکستان کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں کو نقصان پہنچانا ہے،بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی این ڈی ایس اس وقت پاکستان کے خلاف مشترکہ منصوبوں پہ کام کر رہی ہیں ،یہ کاروائی بھی دراصل انہی کی کارستانی ہے جو کسی بھی صورت میں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ۔

کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں دہشت گردی اسلحہ و منشیات کی ریل پیل دراصل اٖفغان پناہ گزینوں کی دین ہیں جن کی بدولت پاکستان گذشتہ چالیس برس سے عذاب بھگت رہا ہے،پاکستان نے روسی حملے کے بعد اسی کی دہائی کے شروع میں افغانوں کو برادر ہمسایہ مسلم ملک کے مہاجرین کے طور پہ قبول کیا چالیس لاکھ افغان پاکستان میں پناہ گزین ہوئے اور آج تک ہمارے حکمران انہیں اپنے ملک اور وطن بھیجنے میں ناکام نظر آتے ہیں ان افغانوں نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر کاروبارا ور شادیاں کر رکھی ہیں اور اب ان کی اگلی نسلیں یہاں کی شہریت کی حامل ہو چکی ہیں،ان کو واپس بھیجنا تقریبا ناممکن ہو چکاہے ،کے پی کے اور بلوچستان کے پختون قبائل کو ان کے ووٹس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے لہذا وہ کسی بھی طور ان کو واپس بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں ان کا تعلق دینی جماعتوں سے ہو یا قوم پرستوں سے  اس مسئلہ میںسب کی ایک ہی بات ہے اس مسئلہ میں سب یک جان ہیں،لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے ان افغانوں سے جان چھڑوانے کا مطالبہ اب زور پکڑ چکا ہے،پاکستان کے گوش و کنار میں ہونے والی دہشت گردی کے پس پردہ بھی انہی عناصر کا ہاتھ ہے ہمارے خفیہ اداروں نے کتنے ہی کیسز میں ان کی نشاندہی کی ہے اور دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے ملا ہے،چاہے وہ آرمی پبلک سکول پشاور کی دلخراش داستان ہو یا پاکستان کے خلاف برسر پیکار نام نہاد کمانڈرز اور طالبان قیادت کے قیام و طعام کا بندوبست ہو،سب ہی افغانستان میں بیٹھ کے پاکستان پہ حملہ آوار رہے،اس وقت بھی عالمی طاقتیں پاکستان اور اس خطے کو سبوتاژ کرنے کیلئے داعش کی سرپرستی کر رہی ہیں،داعش کو افغانستان میں لا کے بٹھایا اور بنایا گیا ہے اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ ان کے کیمپ قائم کیئے گئے ہیں ،اورک زئی ایجنسی میں ہونے والے حملے کو بھی داعش کے نام سے قبول کیا گیا ہے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کاروائی عالمی ایجنڈے کا حصہ تھی،وہ قوتیں جو داعش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں انہی کی طرف سے کلایہ بم دھماکہ( جسے خود کش کہا جا رہا ہے )کیا گیا ہے اور کراچی میں ہونے والی چینی قونصلیٹ کی دہشت گردی سے بھی ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مسلح بلوچ علیحدگی پسند اور نام نہاد مذہبی و فرقہ وارانہ دہشت گرد اپنے اصل آقا کی چھتری تلے جمع ہو چکے ہیں اور پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہیں،ہمارے سیکیورٹی اداروں اورحکمرانوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے پس پردہ در اصل ایک ہی دشمن ہے جو کہیں بلوچوں کو استعمال کر رہا ہے تو کہیں اسلام کے نام پر بد ترین دھبہ سفاک دہشت گردوں کو ،انکا نام بی ایل اے ہو یا داعش،لشکر جھنگوی ہو یا طالبان سب ایک ہی تھالی کے کچے چھٹے ہیں ان کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے اور ملک کو ان کے شر سے بچایا جائے،ہمارا پیارا ملک اور اس کے باسی ایک عرصہ سے امن،شانتی،سکون اور شادمانیوں کو دیکھنے کو ترس گئے ہیں،ان بجھے چہروں پر خوشی و مسرت کی علامات نظر آنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں،اب اس پاک دھرتی سے شر اور فساد کا خاتمہ ہو جانا چاہیئے اس کیلئے ردالفساد کے نام سے میدان سجایا جائے یا ضرب عضب کے نام سے،دہشت گردی کا خاتمہ ہمارے اداروں اور حکومتوں کی پہلی ترجیح ہونا چاہیئے ورنہ ہم اسیطرح مارے جاتے رہینگے۔

 تحریر: ارشادحسین ناصر
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) استاد نے بچے کو کلاس سےنکال دیا، والدین پریشان ہوئے، استاد سے استفسار کیا تو استاد نے کہا کہ آپ کا بچہ مزید تعلیم کے قابل نہیں رہا، وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کے دماغ کی سوئی ایک جگہ اٹک گئی ہے۔استاد نے سوئی اٹکنے کی دلیل یہ دی کہ یہ ہر موضوع پر ایک ہی طرح کا مضمون لکھتا ہے۔ مثلا میں نے اسے آم پر مضمون لکھنے کو کہا تو اس نے اس طرح سے لکھا کہ آم پھلوں کا بادشاہ ہے، لیکن یہ عرب میں نہیں پایا جاتا ، یہ عرب کے بدو کیا جانیں کہ آم کیا ہوتا ہے ۔ یہ غیر مہذب عرب  آج بھی۔۔۔

پھر میں نے اسے اونٹ پر مضمون لکھنے کو  کہا تو اس نے لکھا کہ اونٹ عرب میں پائے جاتے ہیں، عرب کے بدو اونٹوں پر سواری کرتے ہیں اور اونٹوں کی طرح کینہ رکھتے ہیں، یہ غیر مہذب عرب  آج بھی۔۔۔

پھر میں نے اسے قلم  پر مضمون لکھنے کو کہا تو اس نے لکھا کہ قلم میں بڑی طاقت ہے لیکن عرب اس طاقت سے غافل ہیں، یہ غیر مہذب عرب  آج بھی۔۔۔

پھر میں نے اسے علم پر مضمون لکھنے کو دیا تو اس نے اس طرح سے مضمون باندھا کہ  علم نور ہے، علم روشنی ہے لیکن عرب اس روشنی کے بجائے عیاشی کے پیچھے لگے ہیں، یہ غیر مہذب عرب  آج بھی۔۔۔یہ بچہ ہر مسئلے کو موڑ کر اپنے من پسند موضوع میں ڈھال دیتا ہے۔

یاد رہے کہ سوئی کے اٹک جانے کا باعث اندھے تعصب کے علاوہ معلومات کی کمی بھی ہے۔اگر آپ توجہ فرمائیں تو  ہمارے ہاں اکثر لوگوں کی سوئی اٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ حکمرانوں کی  کرپشن کی بات کریں  تو وہ فوراً کہیں گے کہ لوگ بھی تو چور ہیں، آپ کرایوں میں اضافے کی بات کریں تو وہ آگے سے پھر کہیں گے لوگ بھی تو چور ہیں، آپ مہنگائی کی بات کریں تو پھر یہی جواب ملے گا کہ لوگ بھی تو چور ہیں۔۔۔یہ مسائل کو گھما کر لوگوں کی طرف لے جائیں گے۔

اسی طرح بعض لوگوں کی سوئی شیعہ سنی فساد پر اٹکی ہوتی ہے، آپ میانمار کی بات کریں یہ شیعہ سنی مسائل کو ابھارنا شروع کر دیں گے ، آپ ملک میں اسلامی اقدار کی بات کریں انہیں شیعہ سنی جھگڑے یاد آجائیں گے، آپ جہان اسلام میں اتحاد کی بات کریں یہ شیعہ سنی مناظروں پر اتر آئیں گے۔۔۔یہ ہر مسئلے کو گھسیٹ کر شیعہ سنی جھگڑوں کے ساتھ جوڑیں گے۔

اسی طرح کچھ لوگوں کی سوئی اپنے علاقائی مسائل پر اٹک جاتی ہے، آپ کہیں اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کر رہا ہے یہ  بغیر کسی موازنے اور تجزیے کے کہیں گے کہ ہم بلوچی بھی تو مظلوم ہیں، انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ  اسرائیل کے مظالم کی نوعیت کیا ہے اور فلسطینیوں کی مظلومیت کی انتہا کیا ہے۔یہ سارے مسائل کو بلوچستان کے مسائل کے ساتھ منسلک کریں گے۔

اسی طرح اگر آپ کہیں کہ کشمیر میں ہندوستان ظلم کر رہا ہے تو یہ کہیں گے کہ ہم سندھی بھی تو مظلوم ہیں، یہ کشمیر میں ہندوستان کے مظالم سے یا تو بے خبر ہوتے ہیں اور یا پھر علاقائی تعصب میں اندھے۔یہ کشمیر کےمسائل کو بھی سندھ کے گرد گھمائیں گے۔

اگر آپ کہیں کہ  یمن میں ظلم ہو رہا ہے تو یہ کہیں گے ہمارے خیبر پختونخواہ میں بھی ظلم ہو رہا ہے، کیا آپ بھول گئے کہ اے پی ایف میں کیا ہوا تھا! یہ لوگ یمن پر ہونے والے ظلم کو یا تو جانتے نہیں اور یا پھر علاقائی تعصب نے انہیں اندھا کر رکھا ہوتا ہے۔یہ سارے مسائل کی جڑیں خیبر پختونخواہ میں ڈھونڈتے ہیں۔

اگر آپ کہیں کہ سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مسلمانوں کو لڑواکر کمزور کرنے میں غیر مسلم طاقتوں کا ہاتھ ہے تو یہ  لوگ مختلف  فرقہ پرست مولویوں کی اشتعال انگیز تقریریں اکھٹی کر کے لے آئیں گے کہ غیر مسلموں کا کوئی ہاتھ نہیں بس یہ مولوی ہی کرتا دھرتا ہیں۔

حتی کہ اگر آپ  یہ دعویٰ کریں کہ دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان سائنسدانوں کو اسرائیل  کی خفیہ ایجنسی موساد نے قتل کیا ہے تو یہ چونک کر کہتے ہیں نہیں یہ ممکن ہی نہیں مسلمانوں کو تو فقط تکفیری قتل کرتے ہیں۔۔۔

آپ لاکھ کہیں کہ تکفیری عناصر کی فکری تربیت اور مالی اعانت را اور موساد جیسی  ایجنسیاں کرتی ہیں لیکن ان کے نزدیک تکفیریت کی نشونما میں را اور موساد کا کوئی ہاتھ ہی نہیں۔

اگر آپ یہ کہیں کہ موساد کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی ایک مختصر رپورٹ یہ ہے  کہ 21 اپریل 2018 کو کوالامپور میں فلسطینی راکٹ انجنیئر کو قتل کیا گیا۔ 13 فروری کو حسن علی خیرالدین نامی پی ایچ ڈی انجنئر کو کینیڈا میں قتل کیا گیا۔ 28 فروری کو لبنان سے تعلق رکھنے والے فزکس کے طالب علم کو فرانس میں قتل کیا گیا۔ 25 مارچ کو فلسطینی نوجوان سائنسدان کو اسرائیلی فوجیوں نے قتل کیا۔ موساد کی جانب سے مسلمان سائنسدانوں کے قتل کا سلسلہ پرانا ہے۔ ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں۔ حسن رمال فزکس کے میدان کے مانے ہوئے سائنسدان جنہیں 1991میں قتل کیا گیا۔

سعید بدیر میزائل ٹیکنالوجی میں ماہر تھے انہیں 1989 میں قتل کیا گیا۔ سمیر نجیب نامی مصری سائنسدان ایٹمی ٹیکنالوجی میں معروف تھے انہیں 1967 میں قتل کیا گیا۔ سلوی حبیب نامی محققہ جو کہ صہیونی سازشوں کو بے نقاب کرتی تھیں، انہیں اپنے ہی فلیٹ میں بیدردی سے ذبح کیا گیا۔ حسن کامل الصباح لبنانی سائنسدان جنہیں عرب کا ایڈیسن کہا گیا انہیں امریکہ میں قتل کیا گیا۔ مصطفیٰ مشرفہ نامی ماہر فزکس کو زہر دیکر فرانس میں قتل کیا گیا۔

 ڈاکٹر نبیل القلینی نامی سائنسدان جن کا تعلق مصر سے انہیں 1975 میں اس طرح جبری لاپتہ کیا گیا کہ آج تک ان کا سراغ نہ مل سکا۔ ڈاکٹر سامعیہ میمنی نامی ڈاکٹر کہ جن کی تحقیق نے دل کے آپریشن کے زاویے ہی بدل دیئے، انہیں 2005 میں قتل کرکے ان کے ایجاد کردہ آلے اور علمی تحقیقاتی مسودات کو بھی چرالیا گیا۔ یحییٰ المشدنامی جوہری سائنسدان کو فرانس میں قتل کیا گیا۔ سمیرہ موسیٰ نامی سائنسدان کہ جنہوں نے ایٹمی توانائی کے طبی مقاصد میں استعمال سے متعلق ایجادات اور تحقیق کی، انہیں بھی قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایران کے متعدد سائنسدان بالخصوص دفاعی ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد کو موساد کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود وہ کوشش کریں گے کہ یہ ملبہ بھی کسی نہ کسی طرح تکفیریوں پر ہی ڈال دیا جائے۔

جب تک ہم  فرقوں کی منافرت، مقامی مسائل، گلی محلے کی لڑائیوں اور انتقامی سوچ سے باہر نہیں نکلتے ، تب تک ہم استشراق، دشمن کے جاسوسی اداروں اور استعمار و استکبار کی سازشوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ عصر حاضر میں امت مسلمہ کا دشمن کون ہے!اس کی تاریخ کیا ہے؟ اس کے اہداف کیا ہیں، اس کا طریقہ واردات کیا ہے؟دشمن کس طرف مورچہ زن ہے ؟ اور دشمن کی سپلائی لائن کہاں ہے؟ ان سب باتوں کو سمجھے بغیر  دشمن کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔


تحریر:نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) {وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ} روز ہفتہ 11جمادی الثانی 597 ھ کو بوقت طلوع آفتاب ساتویں صدی کی حکمت و ریاضی کا منور ترین چراغ سرزمین طوس پر جلوہ گر ہو گیا ۔ اس کا نام محمد کنیت ابوجعفر ،لقب نصیر الدین محقق طوسی ،استاد البشرتھے۔خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنا بچپن و نوجوانی طوس میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم عربی و فارسی قواعد،معانی بیان اور کچھ منقول علوم اپنے روحانی باپ سے حاصل کیا۔والد نے بیٹے کو منطق ،حکمت ،ریاضی و طبیعیات کے نامور استاد نور الدین علی ابن محمد شیعی کے سپرد کر دیا جو خواجہ نصیر الدین کے ماموں بھی تھے۔مدت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایسا لگا کہ انکے علم کے کی پیاس ماموں نہیں بجھا سکتے اسی بنا پر وہ ریاضی کے مستند ماہر محمد حاسب سے متوسل ہوئے ۔خواجہ نصیر الدین روحانیت کا مقدس لباس زیب تن کرتے ہی نصیر الدین کا لقپ پاتے ہیں ۔

خواجہ نصیر الدین نےطوس میں مقدمات ومبادیات کی تحصیل کے بعد والد کے ماموں کی نصیحت و باپ کی وصیت پر عمل کرتےہوئے تحصیل علم کے لئے نیشاپور کا سفراختیار کرتے ہیں ۔مدرسہ سراجیہ نیشاپورمیں خواجہ نصیر امام سراج الدین کے دروس فقہ و حدیث اور رجال میں شرکت کرتے ہیں ۔فرید الدین داماد نیشاپوری جن کا شماراپنےزمانے کےبزرگ ترین استادوں میں ہوتا تھا مدرسہ نظامیہ میں درس دیتے تھے خواجہ نصیر ان کے [اشارات ابن سینا] کے درس میں شرکت کرتے ہیں ۔استاد وشاگرد میں علمی مباحثے کا سلسلہ بڑھا تو فرید الدین نے نصیر الدین کی استعداد علمی اور تحصیل علم میں شوق کو دیکھتے ہوئے ایک اور دانشمند قطب الدین مصری شافعی سے ملائی جو فخرالدین رازی کے شاگرد تھے اور علم طب کی مشہور کتاب [قانون ابن سینا] کے بہترین شارحین میں سے تھے۔

طوسی شہررے اور قم کے علاوہ اصفہان تک جاپہنچے لیکن کوئی استاد ایسا نہیں پایا جو طوسی کےعلمی پیاس کو بجھا سکے اس بنا پر وہ عراق کا سفر کرتے ہیں ۔ اور 619ھ میں معین الدین سے اجازۃروایت لینے میں کامیاب ہو گئے۔محقق طوسی نےعراق میں فقہ علامہ حلی سے سیکھی اور علامہ حلی نے بھی حکمت کی تحصیل خواجہ نصیر الدین سےکیں۔نصیر الدین موصل میں کمال الدین موصلی کی خدمت سے علم نجوم وریاضی کا حصول کیا۔خواجہ نصیر الدین  عراق میں تعلیم مکمل کرنے میں مشغول تھے کہ سر زمیں ایران پر مغلوں کا حملہ ہوتا ہے ۔ان کادل بھی ہم وطن اور خاندان کے افراد کے لئے بےحد مضطرب ہو گئے دوسری طرف عراق میں انکی  علم و دانش سے فائدہ اٹھانے والے بھی بہت کم نظر آتے تھے اس لئےوطن کی طرف واپس آنے کا قصد کرتے ہیں۔

طوسی اپنے خاندان سے ملاقات کے لئے شھر قائن پہنچتے ہیں اور وہاں اپنی ماں و بہن سے ملاقات کرتے ہیں اور اہل شہر کے اصرار پر امام جماعت  ہو کر لوگوں کومسائل سے آگاہ کرتے ہیں ۔ماں کی رضامندی سے 628 ھ میں فخر الدین نقاش کی بیٹی [نرگس خانم] کو اپنا شریک حیات بنا لیتے ہیں ۔خواجہ نصیر الدین چند ماہ تک قائن میں رہے اور شادی کے بعد قہستان کے [محتشم ناصر الدین عبد الرحیم بن ابی منصور جو مرد فاضل و کریم تھے] نے انہیں بلا بھیجا انکی بیوی راضی ہو گئی اور دونوں نے اسماعیلوں کے قلعے کی راہ لی ۔چونکہ اس زمانے میں ہر شہر مغلوں کے حملےسے سقوط کر رہے تھے توقلعہ بہترین اور محکم ترین جگہ تھی۔جس زمانےمیں طوسی قلعہ قہستان میں رہتے تھے بڑے احترام سے زندگی بسر کرتے تھے انہوں نے ناصر الدین کی فرمائش پر [طہارۃ الاعراق ]ابن مسکویہ کو عربی سےفارسی میں ترجمہ کر کے میزبان کے نام  اسے اخلاق ناصری سے موسوم کرتے ہیں ۔

خواجہ ناصر الدین کا مذہب اسماعلیوں سے میل نہیں رکھتے تھے ۔طوسی نے ایک مدح عباسی خلیفے کے نام لکھ دی اور مدد طلب کیں لیکن طوسی اپنے پہلے سیاسی اقدام میں شکست کھا گئے جس کے بعد طوسی کو دوبارہ قلعوں میں رہنا پڑا۔26 سال طوسی نے اسماعیلی قلعوں میں زندگی بسر کیں اور اس مدت میں متعدد کتابوں کی تالیف کی جن میں شرح اشارات ابن سینا،اخلاق ناصری ،رسالہ معینیہ ،مطلوب المومنین،روضۃ القلوب، رسالۃ تولا و تبرا ،تحریر اقلیدس ،روضۃ التسلیم قابل ذکر ہیں۔

مغلوں کے فتوحات کے بعد ہلاکو خان نے طوسی کے علم و فضل کی وجہ سے اپنے بزرگان میں شامل کئے اور جہاں جاتے طوسی کو ساتھ لے جاتے تھے ۔طوسی نے جوینی کی مدد سے قلعہ الموت کی فتح کے بعد حسن بن صباح کے عظیم کتاب خانے کو آتش زنی سے بچایا۔ابن ابی الحدید اور انکا بھائی موفق الدولۃ فتح بغداد کے بعد مغلوں میں قید تھے اور قتل کئے جانے والے تھے ابن علقمی طوسی کے پاس انکی سفارش کرتے ہیں اور طوسی نے ان دونوں کی شفاعت کر کے موت کےمنہ سے ان دونوں کو رہائی دی۔طوسی نے مراغہ میں رصدگاہ کی تعمیر اور ایک بڑے مکتب علم ، دانش کی بنیاد رکھ دیں ۔

مشہور مستشرق رونالڈس لکھتے ہیں : طوسی نے مراغہ میں ہلاکو خان سے کہا کہ فاتح حاکم کو صرف غارت گری پر اکتفا نہیں کرنے چاہیے۔اس مغل نے طوسی کا مطلب بھانپ لیا اور حکم دیا کہ مراغہ کے شمالی پہاڑ پر ایک عظیم رصد گاہ بنائی جائے اور کام شروع کئے اور بارہ سال کی مدت میں مکمل ہو گئے اس کے بعد بہت بڑا کتاب خانہ بھی بنایا گیا جس میں تمام کتابوں کو اکٹھا کر دیا گیا جو بغداد کے کتابخانوں کی غارتگری سے بکھر گئی تھیں۔

مراغہ کی رصدگاہ 656ھ میں بننا شروع ہوا اور خواجہ نصیر الدین طوسی کی وفات کے سال 672ھ میں مکمل ہوئی۔ اس تعمیر میں فلسفہ و طب اور علم ودین حاصل کرنے والے طالب علموں کے لئے الگ الگ مدارس و عمارتیں بنائی گئی تھیں جہاں  فلسفہ کے طالبعلم کو روزانہ تین درہم اور طب پڑھنے والوں کو دو درہم اور فقیہ کے لئے ایک درہم اور محدث کے لئے روزانہ نصف درہم مقرر کر لیا گیا تھا۔ اس علمی کام میں جن علما ء و دانشمندوں نےطوسی کا ساتھ دیا ان میں  چند اعلام کا ذکر کیا جاتا ہے ،نجم الدین کابتی قزوینی وفات 675 ھ صاحب کتاب منطق شمسیہ ،موید الدین عرضی  650-664،صاحب کتاب شرح آلات رصدیہ ،فخرالدین خلاصی 587-680 ھ ،محی الدین مغربی ،فرید الدین طوسی ،وغیرہ۔

مراغہ کا رصد خانہ اسلام میں پہلا رصد خانہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی کئی رصدگاہیں موجود تھیں ۔طوسی کے عظیم کارناموں میں سے ایک مراغہ کی  رصدگاہ کے نزدیک کتابخانے کی تعمیر تھیں یہاں تک کہ اس کتابخانے میں چار لاکھ کتابوں کا ذخیرہ ہو گئے۔ محقق طوسی بے پناہ علم و دانش اور مختلف فنون میں ید طولی رکھنے کے ساتھ بہترین اخلاق و صفات حسنی کے حامل تھے جسکابیان تمام مورخین نےکیاہے ۔ طوسی کو
صرف قلم وکتاب والے  دانشمندوں میں شمارنہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے علمی و فلسفیانہ کارناموں کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا تھا بلکہ انکے ہاں علم کو اخلاق و معرفت پر سبقت حاصل نہیں تھی چناچہ جہاں بھی انسانیت و اخلاق و کردار کی بات آتی وہ اخلاق اور تمام انسانی اسلامی قدروں کو کلام و مفہوم بےروح پر ترجیح دیتے تھے۔علامہ حلی جو علمائے تشیع میں بزرگ ترین عالم کےطور پر جانے جاتے ہیں طوسی کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ علامہ حلی اپنےاستاد کے فضائل اخلاقی کا تذکرہ یوں بیان کرتے ہیں :خواجہ بزرگوار علوم عقلی و نقلی میں بہت زیادہ تصنیفات کے مالک ہیں ،انہوں نے مذہب شیعہ کے دینی علوم پر بھی کتابیں لکھی ہیں ،میں نے جتنے دانشمندوں کو دیکھا ان میں شریف ترین شخص وہی تھے۔خدا انکی ضریح کو منور کرے میں نے  ان کی خدمت میں الہیات شفا ابن سینا اور علم ہیئت میں تذکرہ کا درس لیا جو خود انکی ایسی تالیفات میں سے ہے کہ جب تک یہ دنیا رہے گی اس کی تابانی رہے گی۔{مفاخر اسلامی ،علی دوانی ج4 ص136}
مورخین اہل سنت میں سے ابن شاکر نے اخلاقی طوسی کی تعریف اس عبارت میں کی ہے۔[خواجہ نہایت خوش شکل و کریم و سخی برباد،خوش معاشرت اور حکیم تھے ان کا شمار اس عہد کے سیاست مداروں میں ہوتا تھا ۔[؛فوات الوفیات،ابن شاکر ج۲ ص۱۴۹؛ ] خواجہ طوسی کے شاگردوں میں علامی حلی ،ابن میثم بحرانی ،قطب الدین شیررازی ،ابن فوطی ،سید رکن استر آبادی وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ کئی سو سال گزر گئے ہیں مگرآج بھی طوسی کے آثارعلم و دانش سے استفادہ جاری و ساری ہے۔طوسی بہت سے عصری علوم بالخصوص فلسفہ و ریاضی میں صاحب نظر تھے اور کلام،منطق ،ادبیات ،تعلیم و تربیت ،اخلاق ،فلک شناسی و رمل وغیرہ میں ایک مقام رکھتے تھے۔مخالفین و غیر مسلمین نے انکی جو تمجید و تعریف کی ہے وہ لائق توجہ اور خواجہ کے وسعت علمی کا ثبوت ہے ۔

جرجی زیدان اس موضوع پر لکھتے ہے[ اس ایرانی کے ذریعےحکمت و علم مغلوں کی سلطنت کے ہر دور داراز علاقوں میں یوں پہنچ گئے کہ رات کی تاریکی میں نور تاباں تھے۔[آداب الغۃ العربیہ ،فوائد الرضویہ] نصیر الدین کی جامعیت ایسی ہے کہ ہر علم و فن میں انکا نام نظر آتا ہے شاید خواجہ نصیر ان کم نظیر ترین انسانوں میں سے ہےیں جنہوں نے علم کے متعدد شعبوں میں اپنے قلم کی مہارت دکھائی ہیں ۔ اختصار کے طور پر خواجہ کے تصانیف کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔تجرید العقائد ،شرح اشارات ،اوصاف الاشراف،قواعد العقائد،اخلاق ناصری،آغاز و انجام ،تحریر مجسطی،تحریر اقلیدس،تجرید المنطق،اساس الاقتباس ،زیج ایلخانی۔۔۔۔۔۔ وغیرہ

18ذی الحج 673 ھ کو بغداد کےآسمان کا رنگ دگرگوں تھا گویا کوئی ایسا اتفاق واقع ہونے والا ہے جس سے اس شہر کا سکون ختم ہو جائے گا اور لوگ سوگوار ہو جائیں گے۔ایک ایسا مرد بستر بیماری پر پڑا ہوا تھا جس کی پر شکوہ زندگی سراسر حادثات سے بھر پور تھی جس نے سالہا سال تلوار و شمشیر کا نظارہ کیا اور ایک ہھر سے دوسرے شہر کی طرف ہجرت و اسیری کا تجربہ بھی تھا ۔ طوسی کی تمام زندگی میں تلوار کا منحوس سایہ اس کے سر پر رہے اور اسی بربریت کے سایہ تلے اس نے مکتب کے عقائد و افکار نشر کئے اور اپنی یاد گار بے شمار کتابیں چھور گئے۔ تاریخ نقل کرتے ہے کسی نے خواجہ سے وصیت کرنےکےلئے کہے ؛ کہ آپ کو مرنے کے بعد  جوار قبر امیر المومنین علیہ السلام  میں دفن کیاجائے۔خواجہ سراپا ادب تھے جواب میں بولے [مجھے شرم آتی ہے کہ مروں تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے جوار میں اور اسکا آستانہ چھوڑ کر کہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی گفتگو کے بعد آنکھ بند کر کے اہل علم و دانش کو غم و عزا میں بٹھا دیے ۔بغداد سراسر غرق ماتم ہو ئے ،خواجہ کی تشیع
جنازہ میں بچے ،جوان ،بزرگ ،مردو عورت باچشم گریاں شریک تھے۔ انکی میت کو آستان مقدس امام کاظم و امام جواد علیہم السلام کے روضے لے گئے جس وقت قبر کھودنا چاہا تووہاں پہلے سے تیارقبر کا سراغ ملتے ہے ،عجیب بات یہ ہے کہ خواجہ کی تاریخ ولادت اور اس قبر کی تیاری ایک تاریخ کو ہوئی تھی ،کہا جاتا ہے کہ جس دن خواجہ نے طوس میں آنکھ کھولی اسی دن امام کاظم علیہ السلام نے ان کے لئے اپنے پاس جگہ مہیا کیں چونکہ خواجہ بھی تمام عمر مغلوں کے اسیر و زندانی رہے اور زندان میں ایک لحظے کے لئے بھی  شیعی اعمال و مناجات کو ترک نہیں کیں۔
طوسی کو کاظمین میں سپرد خاک کئے گئے اور انکی قبر پر آیت شریفہ{وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ}نقش کر دی ۔خواجہ اگرچہ اس دنیا سے کوچ کر گئے لیکن افکار و قلم ہمیشہ ہمیشہ محبین کے گھروں میں باقی رہے ،صدیاں گزر گئے لیکن انکا نام علم و دانش کے میناروں سے چمکتے رہے اور رہینگے ۔


 
تحریر : محمد لطیف مطہری کچوروی


منابع :
1۔تخفۃ الاحباب ،محدث قمی
2۔ روضات الجنات ،قصص العلمائ ،مرزا محمد تنکابنی
3۔شرح اشارات ،شیخ عبد اللہ نعمہ
4۔ سرگذشت و عقائد فلسفی نسیر الدین طوسی ،محمد مدرسی زنجانی
5۔ فوات الوفیات ابن شاکر
6۔فلافہ شیعہ ،شیخ عبد اللہ نعمہ
7۔الوافی بالوفیات ،ابن صفدی رکنی
8 ۔ الاقاب ،محدث قمی
9۔مفاخر اسلامی ،علی دوانی
10۔آداب اللغۃ العربیہ ،محدث قمی       
11  ۔خواجہ نصیر یاور وحی و عقل،عبد الوحید وفائی ،مترجم حسن عباس فطرت   
  12  ۔احوال و آثار خواجہ نصیر الدین،محمد تقی مدرس رضوی۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) اسرائیل جو کہ ایک نسل پرست صہیونی ریاست ہے اور اس کا وجود چونکہ صہیونیوں نیبوڑھے استعمار برطانیہ کی مدد سے عالم اسلام کے قلب فلسطین پرغاصبانہ طور پر سنہ1948ء میں قائم کیا تھاتاہم ستر برس کے اس غاصبانہ قبضہ اور تسلط کے نتیجہ میں آج بھی صہیونیوں کے اندر خوف اور شکست کا خطرہ پہلے کی نسبت زیادہ پایا جا تا ہے اور اس بات کا ثبوت صہیونیوں کی بڑھتی ہوئی بوکھلاہٹ اور فلسطین کے علاقوں میں بڑھتے ہوئے مظالم اور خطے میں دہشت گرد گروہوں کی پیداوار سمیت ان کی مدد کرنا جیسے معاملات ہیں۔جس کا مقصد صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے۔

دوسری طرف صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرست ریاست امریکہ ہے کہ جس کا ہر حکمران اسرائیل کے تحفظ اور بقاء کو اپنے ایمان اور امریکی دستور کا کلیدی حصہ سمجھ کر صہیونیوں کے تمام جرائم کی سرپرستی کرتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ ان جرائم کی انجام دہی کے لئے اربوں ڈالرز کا اسلحہ بھی امداد کے نام پر دیا جاتا ہے جبکہ فلسطینی قوم جو کہ نہتے اور پا برہنہ ہیں ہر طرح سے ان تمام مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس بات پر قائم ہیں کہ اپنے وطن اور سرزمین سے کسی طور پر بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔امریکی سرپرستی میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا پہلا ہدف یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح فلسطینیوں کو فلسطین سے دستبردار کر ڈالے۔اس کام کو انجام دینے کے لئے ماضی میں بھی فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر جبری طور پر ہجرت کروائی گئی تھی اور یوم نکبہ کو سات لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے ہی وطن سے آوارہ کر کے نکال دئیے گئے تھے جو پڑوسی ممالک بشمول لبنان، شام، اردن اور مصر میں پناہ گزین کیمپوں میں جا کر آباد ہوئے اور آج ان کی تیسی نسل وہاں پر جوان ہو رہی ہے۔اسرائیل گذشتہ ستر برس سے یہی کوشش کر رہاہے کہ ظلم وجبر اور استبداد کے ذریعہ ملت فلسطین کو اپنے ہی وطن اور گھر سے بے گھر کر دے اور پورے فلسطین پر قابض ہو کر اسے ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کا حصہ بنا لے۔

امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم سمیت تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے باوجود بھی فلسطینی قوم بالخصوص نوجوانوں اور بالعموم بزرگوں اور ہر طبقہ فکر کے فلسطینی باشندوں کے دلوں سے ان کے وطن کے محبت اور لگن کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں تاہم اب امریکی شیطان اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے حالیہ دور میں نیا ہتھکنڈا جو اپنایا ہے اس میں خطے میں موجود عرب حکمرانوں اور ریاستوں کو اسرائیل کا دوست بنانے کا کام کیا جا رہاہے تا کہ ان عرب بادشاہوں کی مدد سے فلسطینیوں کی باقی ماندہ زمین اور علاقوں پر شب خون مارا جا سکے۔عرب دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں کہ جو پہلے خفیہ تھے لیکن اب کافی حد تک اعلانیہ بھی ہو چکے ہیں ۔صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ ایک ایسی زمین پر قائم ہوا ہے کہ جس کے باشندے اپنی زمین کو چھوڑنے پر رضا مند نہیں ہیں اور ستر سالوں سے اسرائیل کے مقابلہ پر کھڑے ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل ایسی صورتحال کے تسلسل میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا ہے ۔لیکن گزشتہ چند ایک سالوں میں اور بالخصوص گذشتہ دو برسوں میں جس طرح سے عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے مابین قربتیں بڑھنے لگی ہیں ایسا لگتا ہے کہ شاید اب صہیونیوں کا خیال ہے کہ کچھ خطرات کم ہو رہے ہیں لیکن اس کے برعکس فلسطینی مسلسل اپنی جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ جد وجہد نہ تو کسی عرب ملک کے حاکم کے کہنے پر شروع ہوئی تھی اور نہ ہی کسی عرب ملک کے بادشاہ کے کہنے پر ختم کی جا سکتی ہے۔

فلسطین کے عوام اپنے حقوق کی بقاء اور اپنے دفاع کی جنگ اپنے حوصلہ اور جذبہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں ۔گذشتہ برس کے آخری چند ماہ میں اسرائیلی حکام کی عرب حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں کافی اہم رہی ہیں، اور اس بات کی دلیل ہیں کہ سنہ1948ء کے بعد سے جس طرح سے عرب ممالک کے حکمرانوں نے اسرائیل کو ناجائز تصور کیا تھا اب شاید اس تصور نے منحرف ہو رہے ہیں۔اسرائیلی تجزیہ نگار دورے گولڈ کے مطابق عرب اسرائیل تعلقات کی اہم پیشرفت میں گزشتہ چند ماہ میں عمان اورعرب امارات میں ہونے والے واقعات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ان کے مطابق اسرائیلی اور عرب دنیا کے تعلقات میں ایک نئی اور گہرء پیشرفت وجود میں آ چکی ہے۔اکتوبر2018ء کے آخری دنوں میں صہیونیوں کے وزیرا عظم نیتن یاہو نے اچانک ہی عمان کا دورہ کیا اور اس دورے میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ یہ گذشتہ دو عشروں سے زیادہ عرصے میں اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات تھی۔سلطان کے ہاں نہایت پرتکلف دعوت اور روایتی عمانی موسیقی سے تواضع کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ سلطان سے ان کی ’بات چیت بہت اچھی‘ رہی اور یہ وعدہ بھی ہوا ہے کہ آئندہ ایسی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم کی درج بالا بات بالکل درست ثابت ہوئی۔کیونکہ جب اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کو عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں خوش خبری سنائی تو اس موقع پر کھیلوں اور ثقافت کی اسرائیلی وزیر میری رجا متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں موجود تھیں جہاں وہ جوڈو کے بین الاقوامی مقابلے دیکھ رہی تھیں۔

ان مقابلوں میں اسرائیل کی ایک کھلاڑی نے طلائی تمغہ جیتا تو اس موقع پر عرب امارات کے دارلحکومت میں اسرائیلی ترانہ کی دھن بھی بجائی گئی یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔اس موقع پر صہیونی جعلی ریاست کی وزیر کھیل و ثقافت قومی ترانہ کی دھن سن کر آب دیدہ ہو گئیں۔ جزیرہ نما عرب کی سرزمین پر یہ منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔اسی طرح اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ ریلوے لائن بچھانے کی منصوبہ بندی کو بھی حتمی شکل دے چکا ہے۔یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا جب سرکاری سطح پر عمان یا متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات موجود ہی نہیں ہیں۔جاری ہے۔۔۔


تحریر: صابر ابو مریم
 پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

نظامِ تعلیم یا ناسور

وحدت نیوز(آرٹیکل) آپ سکول کھولئے، اچھا کاروبار ہے،ساتھ  یہ مشہور کر دیجئے کہ آپ کے سکول میں امریکن و انگلش نظام تعلیم ہے، یہ مشہور کرنے سے آپ کے سکول کی  اوقات بڑھ جائے گی،طلبا کارش زیادہ ہوجائےگا اور والدین کی واہ واہ بھی  سننے کوملے گی۔

بلاشبہ  امریکہ و مغرب کے تعلیمی نظام کا تصور ہمارے ہاں بہت مقبول ہے،لیکن کیا کبھی ہم نےاس نظام تعلیم کے نتائج پر بھی غور کیا ہے ، بعنوان مثال غصے میں  آکر انسان کا انسان کو قتل کردینا، یا مشتعل ہوکر کسی کو زدوکوب کردینا ایک افسوس ناک امر ہے لیکن مغربی اور امریکی دنیا میں انسان کے انسان کو قتل کرنے یا زدوکوب کرنے  کے لئے غصے  میں آنے  یا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔امریکی و مغربی نظام تعلیم کا اثر یہ ہے کہ وہ غصے یا اشتعال کے بجائے قہقہے لگاتے ہوئے انسانوں کا قتل ِ عام کرتے ہیں۔

  امریکہ و مغرب میں انسان  کو جو تعلیم دی جاتی ہے اس کا تجربہ آپ اس وقت کیجئے جب وہ آپ کو یہ پیغام دیتے ہیں  کہ ہم  نے فلاں ملک       پر   اپنے مفادات کی خاطر حملہ کرنا ہے، آپ یا تو ہمارے ساتھ اس ظلم کو انجام دینے میں شریک ہوجائیں اور یا پھرآپ بھی ظلم سہنے کے لئے تیار ہوجائیں۔اگر آپ کو یاد ہو تو  یہی وہ  پیغام  تھا جواسی مفہوم مگر مختلف عبارت کےساتھ  امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرتےہوئے پاکستان کو بھی دیا تھا۔

دوسری طرف اسلام کا پیغامِ تعلیم  یہ ہے کہ جو ظلم کرے وہ بھی قابلِ مذمت ہےاورجو ظالم کا مدد کرنے والا ہے وہ بھی مذموم ہے  اور  ظلم کو سہنا بھی ایک قبیح فعل ہے۔ یعنی اسلامی تعلیمات کی رو سے ظلم کرنا ، ظالم کی مدد کرنا اور ظلم سہنا یہ تینوں قابلِ مذمت افعال ہیں۔

اگر آپ مزید امریکہ ومغرب کے نظام تعلیم کے کرشموں کو باریک بینی سے دیکھنا چاہیں تو ابوغریب اور گوانتامو کی جیلوں میں مقیدقیدیوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں کہ جہاں کوئی شخص ،مشتعل ہوکر اور غصےمیں آکر  کسی انسان کے بدن میں ڈرل مشین سے سوراخ نہیں کرتا بلکہ ایک پڑھا لکھا انسان، استری شدہ پینٹ اور کوٹ میں ملبوس، بہترین پرفیوم لگائے ہوئے، قہقہے لگاتے ہوئے اورمسکراتے ہوئے بے چارے قیدیوں کو پکڑ کر ان کے جسم کا قیمہ بناتاہے اور انہیں برہنہ کر کے ان   پر بدترین تشدد کرتا ہے۔

امریکی و مغربی نظام تعلیم و تربیت سے گزرے ہوئے لوگوں کو کسی پر ظلم کرنے کے لئے  قطعا مشتعل ہونے یا غصے  میں ا ٓنے کی ضرورت نہیں  پڑتی بلکہ ظلم اور تشدد ان کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے۔ جہاں ان کا مفادپورا نہیں ہوتا وہاں ان کی تعلیم و تربیت اپنا اثر دکھا تی ہے۔

آپ ایک طرف ان کے انسانی حقوق کے نعرے دیکھئے اوردوسری طرف کشمیر اور فلسطین    کے    مسائل  کو  ہی لیجئے ،یہ دونوں مسئلے یورپ اور امریکہ کے پیدا کردہ ہیں اور  اگر کہیں ایک اسرائیلی  فوجی مارا جائے تو سارا یورپ اور امریکہ غمزدہ ہوجاتا ہے لیکن فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کیے جانے پر یورپ و امریکہ کے ایوانوں میں کسی قسم کا زلزلہ نہیں آتا، ان کے ہاں ایک سلمان رشدی کی جان کی اتنی اہمیت ہے کہ سارے کشمیریوں کی اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔

امریکہ و یورپ کے نظامِ تعلیم و تربیت کو سمجھنے کے لئے اس  بات کو سمجھئے کہ دنیا میں جہان بھی کوئی مسئلہ ہے وہاں امریکہ و  یورپ کی مداخلت ہےاور جہان بھی قتل وغارت اور خون ریزی ہے وہاں انہوں نے داعش، القاعدہ، طالبان اورلشکر جھنگوی جیسے مزدور پال رکھے ہیں۔الغرضیکہ ہمارے تھانوں اور کچہریوں کا نظام بھی  اسی  استعمار کا دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہاں بھی لوگو ں کو انصاف مہیا کرنے کے بجائے  رقم بٹوری جاتی ہے۔

یہ مغرب اور امریکہ  کی مفاد پرستی   ہی ہے جو مغربی و امریکی نظام تعلیم کی بنیادیں فراہم کرتی ہے اور جس کے بعد پیسہ کمانے کے لئے  بڑے بڑے شاندار ہسپتال تو تعمیر کئے جاتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی فیسیں اتنی بھاری ہوتی  ہیں کہ لوگ علاج کے بغیر ہی مر جاتے ہیں۔بلکہ بعض مقامات پر پیسے کے پجاری لوگوں کے گردے تک نکال کر بیچ دیتے ہیں۔

امریکہ  و مغربی تعلیم یافتہ لوگ غلطی سے ایک آدمی کو بھی قتل  نہیں کرتے بلکہ  اپنے مفادات کے لئے مکمل پلاننگ اور منصوبہ بندی سے ممالک میں داخل ہوتے ہیں، حکومتوں میں نفوز کرتے ہیں، اداروں کو استعمال کرتے ہیں اور انسانی جانوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔آپ کے سامنے شام ، عراق ، افغانستان اور یمن کی صورتحال ہے، آپ خود  دیکھ لیجئے کہ یہ جہاں داخل ہوئے  انہوں نے  وہاں کے  بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو کس  حال میں پہنچا دیا ہے۔

ان کے سامنے کوئی اصول، کوئی ضابطہ اور کوئی قاعدہ نہیں، حتی کہ ان کے ہاں جمہوریت بھی ایک ایسی لونڈی کی حیثیت رکھتی ہے کہ جو  ان کے مفادات  کے لئے کام کرتی ہے ورنہ یہ بادشاہت و آمریت کے سرپر ہی دستِ شفقت رکھ دیتے ہیں، جیساکہ انہوں نے عرصہ دراز تک صدام کے سرپر دستِ شفقت رکھا اور آج کل عرب ریاستوں کے سروں پر ان کا دستِ شفقت ہے۔ان کی آشیر باد سے سفارتخانوں میں صحافی قتل ہوتے ہیں اور یمن میں ایک گھنٹے کے اندرایک بچہ بھوک سے  مرجاتا ہے۔

کشمیر و فلسطین  کو تو اب رہنےہی دیجئےاور امریکہ ومغرب کے بارے میں اپنی معلومات کو وسعت دینے کے لئے ان گزشتہ چند سالوں میں یوگوسلاویہ، بوسنیا،  فلوجہ، یمن  اور کوفہ میں امریکیوں و مغربیوں کے ہاتھوں بلواسطہ یا بلاوسطہ  مسلمانوں کے قتلِ عام کی تاریخ کی تحلیل کیجئے اور دیکھئے کہ کس بے دردی سے انہوں نے ان چند سالوں کے اندر اپنے مفادات کے حصول کے لئے انسانی جانوں کو قربان  کیا ہے۔

ہم آپ کو فقط اتنا یاد دلاتے ہیں کہ جنگ ِعراق کے دوران عراق کے شہر فلوجہ پر ریاستہائے متحدہ امریکا نے 2003ء کومحاصرہ کر کے قبضہ کر لیا تھا۔ اس حملے میں غیر قانونی ہتھیاروں کے استعمال سے امریکی فوجیوں نے عام  شہریوں کو نشانہ بنایا  جس کے طبی اثرات وہاں پیدا ہونے والے بچوں میں آج بھی موجود ہیں۔

امریکی و مغربی ثقافت ا ور تعلیمی نظام سے متاثر ہونے کا  نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی صرف پیسہ ہی  لوگوں کی زندگیوں کا ہدف بن گیا ہے۔پولیس اور ایف سی جن کا  فلسفہ وجودی ہی قانون کی حفاظت ہے وہ بھی رشوت لیتے ہیں ، اسی طرح دیگر اداروں میں بھی عوام کی خدمت کے بجائے عوام کو  لوٹنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور ادارے لوگوں کو ماورائے قانون اغوا کر لیتے ہیں۔یہ سب ناقابلِ اصلاح نہیں بلکہ قابلِ اصلاح ہے۔

اگر ہم اصلاحِ احوال چاہتے ہیں تو  نظامِ تعلیم کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ،نہ صرف یہ کہ امریکہ و مغرب کا نظام تعلیم انسانیت کے لئے زہرِ مہلک ہے بلکہ  ایسا نظام تعلیم  بھی  جس میں امریکہ و یورپ کی تاریخی و ثقافتی منافقت اور دوغلے پن کو اسلامیات کے ساتھ مخلوط کر کے  بچوں کو پڑھایاجاتا ہے  وہ بھی انسانیت کے لئے سمِ قاتل ہے۔ ہمیں ایک ایسے نظامِ تعلیم  کی ضرورت ہے کہ جس میں اسلامی متون  کے اندراجتہاد کر کے ایک مکمل نظامِ تعلیم کی بنیادڈالی جائے تاکہ ہمارے طالب علم، دینِ اسلام کو ایک فطری اور معقول دین سمجھ کر قبول کریں اور مال و مفاد نیز  پیسے کی دوڑ میں لگنے  کے بجائے علم اور ٹیکنالوجی  کے ذریعے  سے مظلوم انسانیت، مٹتی ہوئی عدالت، دم توڑتے ہوئےانصاف اور مضطرب سماج کی  خدمت کرسکیں۔

انسان معاشرے میں اور معاشرہ تاریخ میں رشد کرتا ہے۔ آپ تاریخی تجربے کی روشنی میں آج اپنے  جدیدنظام تعلیم کو اسلامی اجتہاد  کی بنیادوں پر اسوار کیجئے ، اگلے چند سالوں میں آپ کا معاشرہ تبدیل ہوجائے گا۔


تحریر: نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

زمین پر سجدہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) سجدہ خداکی بارگاہ میں خضوع کا اظہار کرنا ہے اور یہ مقصد دوسری چیزوں کی نسبت خاک پر سجدہ کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے لیکن سجدہ کے لیے سب سے زیادہ باارزش، قیمتی اور حائز اہمیت چیز خاک کربلا ہے۔روایات کے مطابق انسان سجدہ کی حالت میں دیگر حالات کی نسبت خداسے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔ مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ نماز گزار کو نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے بجا لانا چاہیے لیکن جن چیزوں پر سجدہ صحیح ہے اس میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے ۔

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ حالت نماز میں زمین پر یا ایسی چیز پر جو زمین سے اگتی ہو بشرطیکہ وہ چیز کھانےاور پہننے میں استعمال نہ ہوتی ہو سجدہ کرنا چاہیے اور اختیاری حالت میں ان دو چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز پر سجدہ کرناجائز نہیں ہے لیکن اہل سنت لباس اور فرش وغیرہ پربھی سجدہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔اس حکم کےبارے میں شیعوں کا مستند ائمہ اہلبیت علیہم السلام سےنقل شدہ احادیث ہیں ۔البتہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب کی سیرت بھی اس بات کی تائید کرتی ہے ۔

جناب ہشام کہتےہیں :میں نے امام جعفر صادق علیہ السلا م سے سوال کیا کہ کن چیزوں پر سجدہ کیا جاسکتا ہے اورکن چیزوں پر سجدہ نہیں کیا جا سکتا ۔امام ؑنے جواب میں فرمایا:(السجودلا یجوز إلاعلی الارض أوعلی ما أنبتت من الارض إلا ما أکل أو لبس) 1 سجدہ جائز نہیں ہےمگر زمین پر یا ان چیزوں پر جو زمین سےاگتی ہیں سوائے کھانے اور پہننے والی چیزوں کے ۔جناب ہشام نے جب اس حکم کی حکمت کےبارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:(لان السجود خضوع لله عزوجل فلاینبغی أن یکون علی ما یؤکل و یلبس لان أبنا الدنیا عبید مایاکلون و یلبسون و الساجد فی سجودہ فی عبادۃ الله عزوجل فلاینبغی أن یضع جبہتہ فی سجودہ علی معبود أبناء الدنیا الذین اغتروا بہا)2

اس لئے کہ سجدہ خداوند متعال کےحضور خضوع کا نام ہے لہذا کھانے اورپہننے والی چیزوں پر سجدہ جائز نہیں ہےکیونکہ دنیا کی پرستش کرنے والے کھانے اور پہننےوالی چیزوں  کےبندے ہیں پس جو سجدہ کرتاہے وہ سجدہ کی حالت میں خدا کی عبادت میں مشغول ہےلہذا مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنی  پیشانی کوایسی چیز پر رکھے جو دنیا کی پرستش کرنے والوں کا معبود ہے جو دنیا کے زرق و برق پر فریفتہ ہیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:(والسجودعلی الارض افضل لانہ ابلغ للمتواضع والخضوع لله عزوجل)3 سجدہ زمین پر افضل ہے اس لئےکہ یہ خدا کےسامنے تواضع اور خشوع کو بہترپیش کرتا ہے ۔

عبد الوہاب شعرانی (اہل سنت کےبزرگ فقیہ و عارف ﴾)کہتے ہیں :سجدہ خدا کی بارگاہ میں خضوع کا اظہار کرنا ہے۔انسان اپنےبدن کے عزیز ترین حصے کو جو کہ پیشانی ہے زمین پر رکھے۔یہ کام انسان سےغرور و تکبر کو ختم کر دیتا ہے اور انسان کے اندر خدا کے حضور شرفیاب ہونےکی لیاقت پیدا کرتا ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں فرماتے ہیں:(لایدخل الجنۃ منفی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر)4جس کےدل میں ذرہ برابر تکبر ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔” پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث میں ذکر ہوا ہے :(جعلت لی الارض مسجدا و طہورا )5زمین کو میرے لئے سجدہ اور پاک کرنےکی جگہ قرار دی گئی ہے۔ کلمہ (طہور)جو تیمم پر دلالت کرتا ہے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ (ارض)سے مراد پتھر ،مٹی اور ان چیزوں کےمانند ہیں ۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانےمیں مسلمان مسجد کی زمین پر سجدہ کرتے تھے جو سنگ ریزوں سے مفروش تھی جب گرمی کی شدت کی وجہ سے سنگریزے گرم ہو تے تھے اور ان پر سجدہ کرنا مشکل ہوجاتا تھا تو  انہیں ہاتھ میں اٹھاتے تھے تاکہ سرد ہو جائیں پھر ان پر سجدہ کرتے تھے جیسے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری کہتےہیں :میں نماز ظہر کو پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں ادا کر رہاتھااور مٹھی بھر سنگریزوں کو ہاتھ میں لے کر ایک ہاتھ سےدوسرےہاتھ میں پھیر لیتا تھا تاکہ سرد ہوجائیں پھر نماز کی حالت میں ان پر سجدہ کرتا
تھا ؏۔6

گرمی کی شدت کی وجہ سے مسجد کےسنگریزے (جو مفروش تھے اورظاہراً مسجد بھی بغیر چھت کی تھی)گرم ہو تے تھے بعض اصحاب گرمی سےبچنےکےلئے اپنی پیشانیوں کےنیچے  لباس رکھتے تھے ۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس کام سےمنع فرمایا ۔ان لوگوں نے آپ ؐ سے گرمی کےبارے میں شکایت کی لیکن آپ ؐ نے اس کی پروا  نہ کی اور  انہیں لباس پر سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی  ۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت الہی کے پیکر تھے ۔آپ ؐلوگوں کی مشکلات کی وجہ سے پریشان ہو تے تھے اورآپؐ ان مشکلات کوحل کرنے کی کوشش کرتے تھےچنانچہ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے :(لَقَدْ جَاءَکمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکمْ عَزِيزٌ عَلَيْہ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْکُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيم)7

بتحقیق تمہارےپاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیاہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لئے نہایت شفیق و مہربان ہے۔

اگر لباس اور اس طرح کی چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح ہوتا تویقیناپیغمبراسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلممسلمانوں کو لباس وغیرہ پر سجدہ کرنے کی اجازت دیتےاور انہیں لباس وغیرہ پر سجدہ کرنے سے منع نہیں فرماتے ۔اصحاب سے جو روایات نقل ہوئی ہیں ان کے مطابق پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعدمیں حصیر اور چٹائی پربھی سجدہ کرنے کی اجازت دی تھی ۔ ام المومنین میمونہؓ سے مروی ہے :(ورسول الله یصلی علی الخمرۃ فیسجد)رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھتے اور اسی پر سجدہ کرتے تھے۔8
البتہ مشکلات کے وقت لباس وغیرہ پربھی سجدہ کرنا جائز ہےچنانچہ بعض احادیث اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ انس بن مالک کہتے ہیں:(کنا اذا صلینا مع النبی فلم یستطع أحدنا أن یمکن جبہتہ منالارض طرح ثوبہ ثم سجدعلیہ)9

ہم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے ۔اگر ہم میں سے کوئی زمین پر اپنی پیشانی رکھنے سے معذور ہوتا تو  اپنے لباس پر سجدہ کر لیتاتھا ۔ اس حدیث میں لباس پر سجدہ کرنے کو زمین پر سجدہ نہ کرسکنے کے ساتھ مقید کیا ہے اور یہ قیددوسری روایات کے اطلاقات کو بھی مقید کر دیتا ہے  ۔

سجدہ کےبارے میں اہل سنت کی احادیث سے کچھ نکات حاصل ہوتے ہیں :
1۔ابتداء میں مسلمان صرف پتھر اور مٹی پر سجدہ کرتے تھے ۔
2۔دوسرے مرحلے میں چٹائی اور زمین سے اگنی والی چیزوں پر بھی سجدہ کرنے کو صحیح قرار دیا گیا ۔
3۔اضطراری حالت میں  لباس وغیرہ پر بھی سجدہ کرنا جائز ہے ۔
ان احادیث سے جو نکات حاصل ہوتے ہیں وہ شیعوں کے عقائد سے مکمل طورپر مطابقت رکھتےہیں ۔ اہل سنت کے فقہاء لباس وغیرہ پر سجدہ کرنے کو عام حالتوں میں بھی جائز قرار دیتے ہیں۔

پتھر اور مٹی {مسجود علیہ}ہیں نہ {مسجود لہ }ان پر سجدہ ہوتا ہےنہ ان کو سجدہ کیا جاتا ہے۔بعض اوقات غلط بیان کیا جاتا ہے کہ شیعہ پتھر کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ وہ دیگر مسلمانوں کی طرح صرف خدا کے لئے سجدہ کرتےہیں اور خدا کی بارگاہ میں خضوع  کے ساتھ پیشانی کو خاک پر رکھتے ہیں ۔علاوہ ازیں بعض مورخین کے نقل کے مطابق سابقہ لوگ{سلف}بھی گلاب کے خشک حصے کو ساتھ رکھتےاور اس پر سجدہ کرتے تھے۔چنانچہ ابوبکر بن ابی شیبۃ ،مسروق بن اجدع {متوفی 62ھ جو تابعین میں سے تھے}نقل کرتا ہے کہ وہ سفر میں ہمیشہ گلاب کے خشک حصے کو ساتھ رکھتے تھے تاکہ اس پر سجدہ کر سکے ۔10

شیعہ مٹی  کے ایک ٹکڑے کو  بطور سجدہ گاہ اپنے پاس رکھتے ہیں یہ اس لئےہےکیونکہ ممکن ہے کہ ہر جگہ ایسی چیزیں موجود نہ ہو جن پر سجدہ  کرناصحیح ہو ۔دوسری بات یہ کہ زمین پر سجدہ کرنا دوسری چیزوں کی نسبت زیادہ مناسب ہے کیونکہ سجدہ خداکی بارگاہ میں خضوع کا اظہار کرنا ہے اور یہ مقصد دوسری چیزوں کی نسبت خاک پر سجدہ کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے لیکن سجدہ کے لیے سب سے زیادہ باارزش، قیمتی اور حائز اہمیت چیز خاک کربلا ہے۔ تمام ائمہ اطہارعلیہم السلام نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ حتی المقدور سجدہ، خاک کربلا پر کیا جائے اور وہ خود بھی ہمیشہ سجدہ خاک شفا پر کیا کرتے تھے۔ معاویۃ ابن عمار کا کہنا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے پاس زرد رنگ کا ایک رومال تھا جس میں خاک شفا رکھی ہوئی تھی اور جب نماز کا وقت آتا تھا تو آپ اسی پر سجدہ کرتے تھے۔خاک کربلا پر سجدہ کرنا امام زین العابدین علیہ السلام کی سنت ہے تاریخ میں ہے کہ جب آپ نے سید الشہداءعلیہ السلام کو دفن کر دیا تو آپ کی قبر مبارک سے ایک مٹھی خاک اٹھا لی اور اس کی سجدہ گاہ بنا کر اپنے پاس رکھ لی اور ہمیشہ اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ آپ کے بعد دیگر ائمہ بھی ہمیشہ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام سوائے خاک کربلا کے کسی چیز پر سجدہ نہیں کرتے تھے۔11

تربت امام حسین علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رکھتی ہے امام رضا علیہ السلام نے لباس کا ایک صندوقچہ ایک آدمی کی طرف بھیجا اس میں کپڑوں کے ساتھ تھوڑی سی خاک کربلا بھی رکھ دی۔ اس شخص نے تحقیق کی کہ کیوں امام ؑنے کپڑوں کے ساتھ خاک کربلا کو بھجوایا ہے تو معلوم ہوا کہ کہ تربت کربلا انسان کو ہر طرح کے خطروں سے امان میں رکھتی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا: امام حسین علیہ السلام کی قبر کی خاک میں شفا بھی ہے اور ہر خوف سے امان بھی۔12

حوالہ جات:
1۔وسائل الشیعۃ ،ج3،باب 1،حدیث اول،ص 591۔
2۔ایضاً۔
3۔علل الشرایع ،ج2ص341۔
4۔الیواقیت و الجواہر فی عقائد الاکابر ،ج1،ص164۔ الاعتصام بالکتاب و السنۃ،ص74۔
5۔صحیح بخاری ،ج1،ص91،کتاب تیمم ،حدیث 2۔
6۔مسند احمد ،ج3،حدیث 327۔
7۔توبہ،128۔
8۔مسند احمد،ج6،ص321۔
9۔مسند احمد ،ج2، ص198 ۔الاعتصام بالکتاب و السنۃ ،ص81 ۔
10۔صحیح بخاری،ج2،ص64،کتاب الصلوۃ ۔المصنف ،ج1،ص400،الاعتصام بالکتاب و السنۃ،ص86۔
11۔بحار الانوار، ج۱۰۱، ص۱۵۸۔
12۔ کامل الزیارات، ص۲۷۸، باب ۹۲،حدیث ۱۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

Page 12 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree