وحدت نیوز(آرٹیکل )اسلامی تعلیمات کے مطابق نعمت پر شکر ادا کرنا اور اس کی قدر کرنا ضروری ہے، کیونکہ شکر نعمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے، اور پہلے سے عطا شدہ نعمتوں کی بقاء کی ضمانت بھی ہے

اس وقت اللہ تعالی کے فضل لامتناہی سے ہمارے درمیان ایک ایسی شخصیت وجود رکھتی ہے جو بہت سی خوبیوں کا ایک حسین مرقع ہے۔

اگر ان کی علمی زندگی پہ نظر کریں، تو انہوں نے قم المقدسہ سرزمین قیام وانقلاب پر تحصیلات علوم آل محمد کے لئے تقریبا اٹھارہ سال کا عرصہ گزارا اور حوزہ علمیہ کے عظیم علماء وفقہاء سے کسب فیض کیا. صرف بحث خارج جیسے عمیق، مفید اور انتہائی اہم درس میں تقریبا دس سال مسلسل شرکت کی، اور جن مجتہدین سے کسب فیض کیا، وہ اپنے زمانے کے بہترین استاد شمار ہوتے ہیں، جن میں آية الله العظمى المرحوم مرزا الشيخ جواد تبريزي قدس سرہ ، آية الله الشيخ وحيد خراساني، آیۃ اللہ العظمی الشیخ مکارم شیرازی  اور العلامة استاذ الشیخ اعتمادی (جو درس وتدریس میں اپنا ثانی نہیں رکھتے) شامل ہیں۔

جبکہ عرفان وتفسیر جیسے عظیم علوم میں، آیة اللہ العظمی الشیخ جوادی آملی و آیۃ اللہ العظمی حسن زادہ آملی سے فیض حاصل کیا جو کسی تعریف کے محتاج نہیں۔

عربی ادب جو دینی تعلیم میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس علم کو اپنے زمانے کے بہترین استاد علامہ الشیخ مدرس افغانی سے حاصل کیا، اور بلا شبہ مدرس افغانی صاحب، عربی ادب میں ید بیضا کے مالک تھے

اور جب تک قم میں رہے، ہمیشہ درس وتدریس میں مشغول رہے، اور یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ وہ علمیہ قم کے ایک نمایاں محصل واستاذ اور مدیر حوزہ تھے.

بلاشبہ اگر اجتماعی ذمہ داری کی وجہ سے پاکستان نہ آتے، تو آج درجہ اجتہاد پر فائز ہوتے

۔جہاں تک محور مقاومت سے وابستگی کا تعلق ہے، تو یہ وابستگی پچھلے 35 سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، یہ اس زمانے میں قم رہے، کہ جب محور مقاومت کے اعلی سطح کے رہنما وہیں قم میں موجود تھے، اور ان سے ہمیشہ رابطہ میں رہے، سید حسن نصر اللہ اور شہید محراب آیۃ اللہ السید باقر الحکیم ان رہنماؤں میں سرفہرست ہیں، یہ نعمت ان کے علاوہ شاید بہت کم پاکستانی علماء کو میسر ہوئی ہے۔امام خمینی ، فرزند امام شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینى اور رھبر معظم انقلاب اور ان کے خط سے وابستگی انقلاب کی ابتداء سے رہی اور آج تک قائم ودائم ہے۔قائد شہید کے زمانے میں تحریک کے ایک فعال اور نہ تھکنے والی شخصیت کے طور پر سامنے آئےاور شہید مظلوم بھی ان سے کافی لگاؤ رکھتے تھےاور انکی قیادت کے زمانے میں تحریک قم کے روح رواں تھے۔

معاشرے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا امام علی (علیہ السلام) کے ان ارمانوں میں سے ہے، جن کی خاطر آپ کوفہ کے ویرانوں میں روتے رہے، اس مقدس فریضے کے انجام دینے کے لئے ان کی خدمات کسی سے چھپی نہیں۔ان کے تربیت یافتہ طلبہ اس وقت حوزہ قم، نجف اشرف اور دمشق (راقم الحروف کے علاوہ) کے بہترین طلبہ شمار ہوتے ہیں، ان میں سے کئی ایک اسلامک یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ ہیں، یہ طلبہ اچھی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ عالمی حالات پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ جو کہ ایک دینی طالب علم کے لئے انتہائی ضروری ہے

عزاداری جو کہ ہمارے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے وہ خود ایک بہت بڑے عزادار اور مجالس عزاء کے بانی ہیں. اس کے علاوہ اس کے معیار کو بلند کرنا، اسے صحیح جہت دینا، اس سلسلے میں ان کی کوششیں قابل قدر ہیں، باقی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اچھے، پڑھے لکھے اور درد رکھنے والے خطباء تیار کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں بھی ہمیشہ صف اول میں نظر آئے

ذاکرین امام حسین (علیہ السلام) کی تاثیر معاشرے پر کسی سے چھپی ہوئی نہیں، ان سے رابطہ رکھنا، انہیں صحیح جہت دینا، انہیں قریب کرکے ان کی بعض غلطیوں کی انتہائی اچھے انداز سے اصلاح کرنا ہمیشہ سے ان کی ترجیح رہی، اور پڑھے لکھے نئے ذاکروں کی تربیت (جو ذاکری کو ہدایت خلق کا وسیلہ سمجھتے ہیں) بھی کر رہے ہیں۔

جس زمانے میں اجتماعی وسیاسی امور کی قیادت سنبھالی وہ ایک پر آشوب اور تشیع پاکستان کے لئے ایک کٹھن دور تھا. سب ذمہ دار افراد جانتے ہیں کہ وہ زمانہ اندورنی اور بیرونی دونوں حوالوں سے انتہائی مشکل اور حساس زمانہ تھا، مشکلات کے پہاڑ اور انہیں حل کرنے کے لئے ایک ایسے رستے سے گزرنا جہاں سوائے خاردار جھاڑیوں کے کچھ بھی نہ ہولیکن جہاں صرف بھروسہ اللہ پہ ہو، اور عزم و ارادے کی پختگی انتہاء پہ ہو، اخلاص اور بصیرت وفہم و فراست کی بیساکھی ہاتھ میں لئے، انہوں نے قوم کی بکھری ہوئی طاقت کو اندرون ملک کے ساتھ ساتھ  بیرون ملک بھی تسبیح کے دانوں کی طرح پھر سے یکجا کرکے، بہت سارے قومی مسائل حل کرنے میں مدد کی، جس کے نتیجے میں  ہم ایک دفعہ پھر ایک سیاسی اور اجتماعی قوت کے طور پر سامنے آئیں، اور جیسے پہلے آپ کو یکسر نظر انداز کیا جاتا تھا، اب نہیں کیا جاتا

اس زمانے میں انہوں نے قوم کی آواز کو صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچانے کی کوشش کی جہاں ایک طرف بیرونی مخالفین کی جانب سے سخت دباو اور مشکلات کا سامنا تھا، تو دوسری جانب اندورنی طور پر انتخابات اور دیگر مسائل کو کچھ اس طرح سے پیچیدہ کرکے پیش کیا گیا کہ اس میں شرکت گویا دین خدا کے خلاف اعلان جنگ کی مانند ہے، لیکن ان سب مشکلات کے باوجود، سب طعن وتشنیع کے باوجود انہوں نے بھر پور انداز میں، انتخابات میں شرکت کی، اور حالیہ حکومت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ کے بعد جو کہ ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا آپکی جماعت ایک پر امن، سنجیدہ، قومی مسائل پر حل اور مشورہ دینے والی اور ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی

بعض دفعہ مذہبی جماعتیں یا مذہبی رہنما اپنے مذہبی ہونے اور وطن سے محبت کرنے میں توازن نہیں پیدا کر پاتے، لیکن یہ ان کی فہم وفراست اور حکمت و دانشمندی کی وجہ ہے کہ خود بھی وطن سے محبت کرنے والوں میں سرفہرست رہے، اور وطن کی ترقی کو بھی ہمیشہ اولین ترجیح سمجھا۔

اتحاد بین المسلمین جہاں ہمارا انسانی، اخلاقی، دینی اور مذہبی فریضہ ہے وہاں یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس سلسلے میں ان کی کوششیں آپ سب کے سامنے ہیں، چاہے وہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی جماعت کے ساتھ دھرنوں میں شرکت ہو، یا دوسرے اہل سنت رہنماؤں اور پارٹیوں کے ساتھ انتہائی اچھے انداز سے تعلق قائم رکھنا ہو۔

بین الاقوامی سطح پر ان کی وابستگی اور تعلق ایسے افراد یا جماعتوں سے ہے جو اس وقت نہ صرف عالمی استکبار اور ظلم و ستم کے علمبرداروں سے نبرد آزما ہیں بلکہ ہمارے مملکت خداد پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے متمنی بھی ہیں۔(طوالت کے لئے معذرت چاھتا ھوں لیکن یقین رکھیں  اس وقت ہمارے اندر بے پناہ صلاحیتیں رکھنے والے ایک انتہائی مخلص شخصیت موجود ہیں، جو علم وعمل کے ساتھ ساتھ، عالمی حالات سے نہ صرف باخبر بلکہ گہری نظر رکھنے والے ایک مضبوط سیاسی بصیرت کے حامل وطن سے محبت کرنے والے اپنی قوم کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں،میں اپنے مربی واستاد اور ایک شفیق روحانی باپ مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی بات کر رہا ہوں، اللہ ان کی توفیقات خیر میں اضافہ کرے اور انہیں صحت وسلامتی کے ساتھ طولانی عمر عطا کرے۔)


محمد اشفاق۔23/7/2019۔

ناصران ولایت کانفرنس

وحدت نیوز(آرٹیکل)5 اگست پاکستان کی تاریخ کا وہ دردناک دن ہے کہ جس روز مکتب عشق و ولایت کے حقیقی پیرو،فرزند امام خمینی، محروموں و مظلوموں کی آواز، اسلام حقیقی (ناب محمدی) کے علمبردار قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے اپنے اباؤ اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کربلا کی سرخ تاریخ کا حصہ بن گئے۔ شہید قائد نے مکتب کربلا میں عصر کے بت شکن امام خمینی رح کے ہاتھوں تربیت پائی تھی اس لیے شہید کی تحریک میں کربلا سے انس اور نائب امام زمان(ع) ولی فقیہ کی اطاعت کا پہلو سب سے نمایاں تھا شہید سراپا اخلاص و معنویت، مہر و محبت، شعور و بصیرت اور شجاعت کا پیکر تھے۔ وطن عزیز میں جہاں شہید قائد نے شرق و غرب کے عالمی کفر کے خلاف مزاحمت کی بنیاد رکھی وہاں نائب امام زمان(ع) امام خمینی رح کے ساتھ اپنی تحریک کو متصل کیا۔

 شہید قائد نے مزاحمت کے شجرہ طیبہ کی آبیار ی اپنے لہو سے کی اور یہ اعلان کیا کہ اجتماعی جدو جہد کا سر چشمہ اور کربلا سے وابستہ ہونے کا راستہ شہادت اور نائب برحق امام زمان(ع) ولی فقیہ کی پیروی ہے۔ شہید قائد کی شہادت پر امام خمینی نے ملت پاکستان کے نام ایک اہم ترین پیغام میں یہ فرمایاتھاکہ:“ یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی مکتب اور نظریے میں دو متضاد اور ایک دوسرے کے مخالف طرز فکر موجود ہوں۔

تمام علماء کی زمہ داری ہے کہ ان دو طرز فکر کو واضح کر کے حقیقی اسلام کو استعمار کے شیطانی گماشتوں سے نجات دلائیں۔“آج عالمی سطح پر ایک بار پھر استعمار کی عالم اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں اپنے عروج پر ہے لیکن اللہ کی سنت ہے کہ ہر فرعون کے لیے ایک موسی، ابوجہل کے لیے محمد ص اور یذید کے لیے حسین ع کی طرح آج امام مہدی ع کے نائبین ولی امر مسلمین و دیگر مراجعین کی شکل میں پوری معنویت و الہیٰ نصرت کے ساتھ انکے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا رہے ہیں۔

 نیل کے ساحل سے فرات تک کے گریٹر اسرائیل کے خواب چکنہ چور ہورہے ہیں۔ آج نائب برحق امام زمان ع، ولی امر مسلمین کی شخصیت پوری دنیا میں حق پسندوں اور انسان دوستوں کا اسم استعارہ ہیں جو باطل اور ظالم قوتوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں۔ آج کے وقت کا یزید اس نتیجے پرپہنچا ہے کہ و ہ حق کے اس قافلے کوسامنے سے شکست نہیں دے سکتا اس لیے اسے اندر سے کمزور کرے،اسے نظام ولایت سے کاٹ دے اور رہبر مسلمین و مراجعین سے دور کر دے۔

 آج دشمن چاہتا ہے کہ وہ ان رہبران کی شخصیت کشی کے نشتر چلائیں اسلیے وقت کا تقاضا ہے کہ راہیان کرب وبلا، منتظرین امام مہدی یزید وقت کے تیروں کو اپنے سینے پر لیں اور عاشق ولایت، ناصر ولایت قائد شہید کی برسی کے اس اجتماع میں شرکت کر کے پوری دنیا بالخصوص امریکہ اسرائیل اور انکے گماشتوں کو یہ پیغام دیں کہ ہم:▪ ولی امر مسلمین رہبر جہان اور دیگر مراجعین کی عزت وحرمت پر اپنی جان قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے اور انکی رہبر ی میں استعمار کی تمام سازشوں کو اپنی وحدت بصیرت اور جدوجہد کے زریعے ناکام بنا ئیں گے۔▪  شام، عراق، فلسطین،یمن، کشمیر میں آل یہود،آل سعود اور آل ہنود کے مظالم کے خلاف آوازحق بلند کرتے رہیں گے۔▪

 عاشقان وناصران ولایت، شہید قائد کے خط پر اپنی اجتماعی جدو جہد جاری رکھیں گے اور شہید قائد کے افکار کی تبلیغ و ترویج کے لیے اپنا تن من دھن سب قربا ن کریں گے۔▪  امام زمان عج کے ظہور کی زمینہ سازی کریں گے اور انکی غیبت میں انکے جانشین و نائب ولی امر مسلمین جہان اور  مراجعین کی پیروی سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔▪  پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور شہداء پاکستان کے لہو کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔


تحریر : نثارعلی فیضی

صدی کی ڈیل ناکام ہو گی

وحدت نیوز (آرٹیکل) صدی کی ڈیل جس کا بانی امریکہ اور اسرائیل ہیں ، اس ڈیل کے بارے میں اس سے قبل مقالہ جات میں قارئین کی خدمت میں حقائق بیان کئے جا چکے ہیں ۔ کس طرح امریکہ اور اسرائیل مل کر خطے کی چند عرب ریاستوں کے ہمراہ فلسطین کا سودا کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ غرب ایشیاء کے ممالک میں اپنے پنجوں کو گاڑھنے کے لئے امریکہ و اسرائیل نے داعش کے قیام و مدد کے بعد اب نیا راستہ اختیار کر لیا ہے جس کو صدی کی ڈیل کہا جا رہاہے ۔

 اس ڈیل کا چرچہ گذشتہ ڈیڑھ برس سے گونج رہا ہے اور عنقریب اب یہ ڈیل اپنے مقرر کردہ منصوبہ کے تحت بحرین کے دارلحکومت منامہ میں جون کے آخری ہفتہ میں سنائی جائے گی اور پھر تمام مسلمان و عرب ممالک سے اس پر دستخط کرنے کو کہا جائے گا ۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ صدی کی ڈیل ناکام ہو گی تو یہ بات کوئی معمولی بات نہیں ہے مگر دوسری طرف حقیقت یہی ہے کہ صدی کی ڈیل کو مزاحمت کا سامنا ہے ۔

یہ مزاحمت فلسطین کی مزاحمت ہے لہذا اگر اب یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ صدی کی حقیقت ڈیل نہیں بلکہ فلسطینیوں کی مزاحمت ہے جو دنیا کی سپر طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے ۔ فلسطینیوں کا مسلسل حق واپسی احتجاج اور مارچ اس ڈیل کو ناکام کرنے کے لئے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ امریکہ اس ڈیل کے تحت یہی چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کا واپسی کا حق ختم کر دیا جائے اور فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کئے گئے فلسطینی اپنے مقبوضہ علاقوں میں واپسی کا مطالبہ نہ کریں ۔

 دوسری طرف پوری دنیا میں اس وقت فلسطینیوں کے حق واپسی کی گونج سنائی دے رہی ہے اور یہی بات امریکہ اور اس کے شیطان حواریوں کے لئے پریشانی کا باعث بن رہی ہے ۔ اگر فلسطین کی سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کی بات کی جائے تو سب کے سب ایک ہی صفحہ پر نظر آ رہے ہیں ۔ فلسطینی اتھارٹی کہ جس کے فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ اختلافات موجود ہیں لیکن صدی کی ڈیل کے معاملہ پر فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او نے بھی واضح موقف اپنا رکھا ہے اور کہا ہے کہ صدی کی ڈیل کو مسترد کرتے ہیں اوع امریکہ فلسطین کی با غیرت اورشجاع قوم کو پیسوں سے خرید نہیں سکتا ۔ فلسطین کے عوام نے ستر سالہ جد وجہد صرف اس لئے کی ہے کہ فلسطین آزاد ہو اور یہاں بسنے والے عرب فلسطینی اپنے وطن اور گھروں کو واپس آ سکیں ۔

 اسی طرح فلسطین کے پڑوس میں موجود اردن کی حکومت نے بھی امریکہ کے اس فارمولہ کو مسترد کر دیا ہے ۔ تاحال رسیدہ اطلاعات کے مطابق چند ایک اور ممالک بھی اسی فہرست میں شمار ہوتے ہیں کہ جنہوں نے صدی کٰ ڈیل کو مسترد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ، ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے کہ جس نے صدی کی ڈیل کو مسترد کیا ہے ۔

 البتہ چند ایک عرب ریاستیں جن میں سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، اور دیگر صدی کی ڈیل کی مکمل حمایت میں مصروف عمل ہیں ۔ صدی کی ڈیل کی ناکامی کے بارے میں خود اب امریکی عہدیداروں نے بھی اعتراف کر نا شروع کر دیا ہے جو کہ خو دامریکہ کی سب سے بڑی شکست کے مترادف ہے ۔

 خود امریکہ کے احمق ترین صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے ایک بیان میں کہہ چکا ہے کہ امریکی وزیر ریاست صدی کی ڈیل کی کامیابی سے متعلق شک وشبہات کا شکار ہیں اور انکو ایسا لگتا ہے کہ صدی کی ڈیل ناکامی کا شکار ہو جائے گی ۔ واشنگٹن پوسٹ نامہ امریکی جریدے میں شاءع ہونے والی ایک رپورٹ میں بیان ہو اہے کہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں امریکی وزیر ریاست پومپیو اور اسرائیلی عہدیداروں کے مابین ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ کے منظر عام پر آنے سے صدی کی ڈیل کی کامیابی مزید مشکوک ہو گئی ہے ۔

 اس آڈیو میں سنا گیا ہے کہ امریکی عہدیداران اسرائیلی عہدیداروں سے کہہ رہے ہیں کہ یہ منصوبہ یعنی صدی کی ڈیل قابل قبول نہیں ہے اور اس کا نفاذ ناممکن ہو گا اور یہ شدت کے ساتھ مسترد کر دی جائے گی ۔ اسی طرح امریکن سی آئی اے کے سابق چیف نے بھی اپنے خیالات میں کہا ہے کہ یہ ڈیل کسی صورت قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس میں اگر دو باتیں اچھی ہیں تو نو باتیں خراب بھی موجو دہیں لہذا اس طرح کے کسی بھی فارمولہ کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی ۔

 واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اسی اجلاس میں اعلیٰ سطحی سفارتکاروں اور عہدیداروں کے مابین ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ کے منظرعام پر آنے کے بعد یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ امریکی حکام نیتن یاہو کی حکمت عملیوں اور عام انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت بنانے میں ناکامی سے بھی شدید پریشان اور مایوس ہیں اور ان باتوں کا اظہار صہیونی جعلی ریاست کے عہدیداروں سے اسی اجلا س میں کیا گیا ہے ۔

 خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان، ایران سمیت قطر اور اردن ایسے ممالک ہیں کہ جنہوں نے غرب ایشیاء کے لئے امریکہ کے نام نہاد فارمولہ صدی کی ڈیل کو اس لئے مسترد کیا ہے کیونکہ اس منصوبہ میں فلسطین کا سودا کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ جہاں اس ڈیل میں عرب دنیا کے کئی شہزادوں کو مستقبل میں بادشاہ بنانے کے خواب دکھائے گئے ہیں اور کئی افراد کو پچاس پچاس سال کے اقتدار اور بادشاہت کی امریکی ضمانت دی گئی ہے وہاں اسی منصوبہ میں فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق پر شب خون بھی مارا گیا ہے اور تاریخ کی ایسی بھیانک سازش رچائی گئی ہے کہ جس کے نتیجہ میں اصل ریاست فلسطین کو ختم کر کے اس کی جگہ صہیونیوں کی جعلی ریاست کو حتمی شکل دینے کی بات کی گئی ہے ۔

صدی کی ڈیل کے معاملہ پر فلسطینی عوام اور سیاسی دھڑوں سمیت مزاحمتی دھڑے سب کے سب متحد ہو کر ایک آواز ہیں کہ اس ڈیل کو مسترد کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کی یہ آواز اس بات کا باعث بن رہی ہے کہ اب بالآخر صدی کی ڈیل کو ناکامی کا سامنا ہے جس کا اعتراف خود اس ڈیل کو بنانے والے امریکی عہدیدار کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلم دنیا کے وہ ممالک اور حکمران جو امریکی کاسہ لیسی میں مصروف عمل ہیں وہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے فلسطین کے ساتھ ہونے والی اس خیانت کا حصہ اور شراکت دار نہ بنیں کیونکہ یقینا اس خیانت کاری پر مبنی صدی کی ڈیل کو مسترد اور ناکام ہونا ہے ۔ عنقریب یہ ہونے والا ہے اور خدا کا وعدہ تو یہی ہے کہ وہ مظلوموں کی مدد کرتا ہے ظالموں کے مقابلے میں ۔

 

 تحریر: صابر ابو مریم سیکرٹری
جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی اسکالر ، شعبہ سیاسیات ، جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل) لفظ اطاعت کا لغوی معنی لفظ اطاعت "طوع" سے ہے اور طوع ؛ کرہ کی ضد  ہے کہ جس کا معنی حکم ماننا اور  اختیار کے ساتھ کسی کے سامنے  سرتسلیم خم کرنا ہے۔ کلمہ والدین، اسم فاعل  اور تثنیہ کا صیغہ ہے کہ جس سے مراد ماں باپ ہیں۔ دینی اصطلاح  میں والدین کی اطاعت دینی تعلیمات کے مطابق،  والدین کی اطاعت سےمراد،  اللہ تعالی کے اوامر کے ترک کرنے  اور اللہ تعالی کی حرام کی گئی  چیزوں کے انجام دینے کے علاوہ  زندگی کے تمام مسائل میں ماں باپ کا حکم ماننا ہے۔ اطاعت والدین کا متضاد عقوق والدین یعنی والدین کے حکم کی نافرمانی۔

قرآنی آیات کی روشنی میں والدین کی اطاعتوالدین کے ساتھ نیکی اور اچھائی کےساتھ پیش آنے کا واضح ترین مصداق، ماں باپ کی اطاعت کرنا ہے۔ ہر فرزند کا وظیفہ بنتا ہے کہ پروردگارکی رضا کے حصول کے لئے والدین کی اطاعت کرے اور ان کی نافرمانی ، اللہ تعالی کے ناراض ہونے کا موجب بنتی ہے۔ ماں باپ، ہر فرد کی زندگی میں دلسوز ترین اور خیر خواہ ترین افرادہیں کہ جو اس کی بھلائی ، ترقی اور سربلندی کی طرف رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں۔

پس اولاد کو چاہیے کہ وہ  اللہ کی رضا  حصول  کے لئے ان کی فرمانبرداری کریں تاکہ اللہ تعالی اور  والدین کی خوشنودی  کے اسباب فراہم ہو سکیں۔  قرآن مجید میں اللہ تعالی کی اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین  کی اطاعت اور تکریم کو بیان کیا گیا ہے، یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کا حق بزرگترین حقوق میں سے ہے اور ہر چیز پر مقدم ہے۔اللہ تعالی، والدین کی اطاعت کے بارے میں فرماتا ہے:

  «وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ،﴿۱۴﴾ وَ إِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛﴿15﴾   اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔ اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو (ہر معاملہ میں) میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔ تو (اس وقت) میں تمہیں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

صاحب مجمع البیان اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: «وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ؛ اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا ۔ یہاں پر چونکہ خداتعالی نے اپنی نعمتوں کے شکر بجا لانے کا امر فرمایا ہے، اس لئے اشارہ کے ساتھ اس بات کا  تذکر دیتا ہے کہ ہر منعم کا شکر واجب  اور لازم ہے ، اسی وجہ سے ماں باپ( اپنے فرزند پراحسان کرتے ہیں) والدین کا ذکر کیا ہے اور ہمارے پر واجب کیا ہے کہ والدین کی اطاعت کرتے ہوۓ ان کا شکریہ ادا کریں اور ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ سلوک کریں۔ اللہ تعالی نے اپنی شکر گذاری کے بعد والدین کی شکر گزاری کا شکر اس لئے کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم،  انسان کا خالق ہے اور والدین اس کی خلقت  اور حفاظت کا  وسیلہ ہیں۔

روایات معصومین (ع) کی روشنی میں والدین کی اطاعتآئمه معصومین(علیهم السلام) نے بہت سی روایات میں مسلمانوں کو  اپنے والدین کی اطاعت کی سفارش کی ہے کہ ان میں سے چند احادیث بہ طور مثال ذکر کرتے ہیں:۱ـ رسول خدا ( صلّی الله علیه و آله ) نے فرمایا: «العبدُ المطیعُ لوالدیهِ و لرّبه فی أعلی علّیین؛ وہ شخص کہ  جو اپنے خدا اور والدین کا مطیع ہو گا ، (قیامت کے دن) اس کا مقام اعلی علیین میں ہوگا۔  ۲ـ امام علی ( علیه السّلام ) نے  فر مایا:حقّ الوالِدِ أن یُطیعَهُ فی کلّ شئٍ الاّ فی معصیهِ اللهِ سبحانَهُ؛اولاد پر والدین کا حق ہے یہ کہ معصیت خدا کے علاوہ تمام موارد میں ان کی اطاعت کریں۔

  ۴ـ عَنِ النَّبِیِّ(ص) أَنَّهُ قَالَ: ثَلَاثَهٌ لَا یَحْجُبُونَ عَنِ النَّارِ الْعَاقُّ لِوَالِدَیْهِ وَ الْمُدْمِنُ لِلْخَمْرِ وَ الْمَانُّ بِعَطَائِهِ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا عُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ قَالَ یَأْمُرَانِ فَلَا یُطِیعُهُمَا؛  ترجمہ: رسول خدا (ص) نے فرمایا: تین قسم کے لوگ جہنم سے نہیں بچ سکتے 1۔ والدین کے عاق 2۔ دائمی شراب خور 3۔ صدقہ دے کر جتلانے والا، کہا گیا : یارسول اللہ! عاق والدین سے کیا مراد ہے؟

رسول خدا (ص) نے فرمایا: والدین اپنے فرزندکو کسی کام کرنے کا حکم دیں اور وہ ان کی اطاعت نہ کرے۔۵ ـ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُ الْوَالِدِ قَالَ أَنْ تُطِیعَهُ مَا عَاشَ فَقِیلَ وَ مَا حَقُّ الْوَالِدَهِ فَقَالَ هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لَوْ أَنَّهُ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ وَ قَطْرِ الْمَطَرِ أَیَّامَ الدُّنْیَا قَامَ بَیْنَ یَدَیْهَا مَا عَدَلَ ذَلِکَ یَوْمَ حَمَلَتْهُ فِی بَطْنِهَا؛ پیامبر اکرم (ص)سے کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ! باپ کا کیا حق ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا:جب تک تم زندہ ہو اس کی اطاعت کرو۔ پھر سؤال کیا: ماں کا کیا حق ہے؟حضرت (ص) نے فرمایا: ھیہات، ھیہات ؛ بہت دور ہے ، بہت دور ہے(کہ اس کا کوئی حق ادا کرے! پھر فرمایا: اگر کسی شخص کی عمر بیابان  اور ریگستان کے ذروں اور  بارش کے قطروں  کے برابر ہو اور وہ اپنی ماں کی خدمت کرتا رہے  تب بھی یہ تمام  خدمت، حمل کے دوران ایک دن کی اٹھائی گئی تکلیف کے برابر نہیں ہو سکتی۔

صحیفہ سجادیہ میں اطاعت والدینامام سجاد (ع) نے صحیفہ سجادیہ کی 24ویں دعا کی ابتدا  میں درود وسلام کے بعد اپنے ماں باپ  کے حق میں دلنشین اور بہت پیارے انداز میں  اللہ تعالی سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں ان کا مطیع اور فرمانبردار بنادے:  : «أللَّهُمَّ اجْعَلْنی أهَابَهُما هَیبَهَ السُّلْطانِ العَسُوفِ وَ أبوَّهُمَا بِوَّ الأمَّ الرَّؤوفِ، وَاجعَلْ طَاعَتِی لِوالدَی وَ بِرّی بِهِما أقرَّلعَینی مِنْ وَقدهِ الوَسنانِ، وَأثْلَجَ لِصَدری مِنْ شَوبَهٍ الظَّمْآنِ حَتَّی أوثِرَ عَلَی هَوای هَواهُمَا، وَأقدَّمَ عَلَی رضای رَضاهُمَا، وَأسْتَکثَرَ برَّبَهُمَا بِی وَ إنْ قَلَّ وَأسْتَقِلَّ بِرّی بِهِما وَ إنْ کثُرَ؛

خدایا! مجھے توفیق دے کہ میں اپنے ماں باپ سے اس طرح ڈروں جیسے کسی جابر سلطان سے ڈرا جاتا ہے اور ان کے ساتھ اس طرح مہربانی کروں جس طرح ایک مہر بان ماں اپنی اولاد کے ساتھ مہربانی کرتی ہے۔ اور پھر میری اس اطاعت کو اور میرے اس نیک برتاؤ کو میری آنکھوں کے لئے اس سے زیادہ خوشگوار بنا دے جتنا خواب آلود آنکھوں میں نیند کا خمار خوشگوار ہوتا ہے اور اس سے زیادہ باعث سکون بنا دے جتنا  پیاسے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ باعث سکون بنتا ہے تاکہ میں اپنی خواہش کو ان کی خواہش پر مقدم کروں اور ان کی رضا  کو اپنی رضا پر ترجیح دوں۔ ان کے مجھ پر کیے گئے احسانات کو زیادہ سمجھوں، چاہے وہ قلیل ہی کیوں نہ ہوں  اور اپنی خدمات کو قلیل تصور کروں چاہے وہ کثیر ہی کیوں نہ ہوں۔

حضرت امام زین العابدین(علیه السلام)ایک دعا میں خداوند متعال سے درخواست کرتے  ہیں کہ ان کی اولاد کو اپنے والدین کا مطیع قرار دے دے اور فرمایا: « وَ اجْعَلْهُمْ لِی مُحِبِّینَ، وَ عَلَیَّ حَدِبِینَ مُقْبِلِینَ مُسْتَقِیمِینَ لِی، مُطِیعِینَ ، غَیْرَ عَاصِینَ وَ لَا عَاقِّینَ وَ لَا مُخَالِفِینَ وَ لَا خَاطِئِین ؛ ترجمہ: خدایا! انہیں میرا  چاہنے والا اور میرے حال پر مہربانی کرنے والا اور میری طرف توجہ کرنے والا اور میرے حق میں سیدھا اور اطاعت گذار بنا دے ، جہاں نہ معصیت کریں نہ عاق ہوں ، نہ مخالفت کریں اور غلطی کریں۔

 تحریر: ساجد محمود
جامعہ المصطفی العالمیہ قم

جنت البقیع

وحدت نیوز(آرٹیکل) معاشرتی نظام اسلام میں انسانی تاریخ کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے۔ جس سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہمارے درمیان سے تاریخ کو ہٹا دیا جائے تو ہمارے درمیان ایک ایسا زمانی اور مکانی خلا واقع ہو جائے گا ایک نسل سے دوسری نسل سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ ایسی صورت حال سے مستقبل کے درمیان کی مسافت طے کرنا ایک ناگزیر عمل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ انسان اپنے ماضی کے آثاروباقیات کے خط مستقیم سے ہی حال اور مستقبل کی مسافت کا تعین کرتا ہے۔خاص کر جب کوئی شخص کسی مذہب یا قوم کی تہذیب و ثقافت کا تجزیہ کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس قوم اور مذہب کے اتحاد کا ہی جائزہ لیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی شخص کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کی سچائی حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے لہذا اس زمین پر آباد ہونے والی قوموں کی سب سے بڑی وراثت ان کے ماضی کی تہذیب و ثقافت ہی ہوتی ہے۔

اگر کسی قوم یا مذہب کے وجود کو ختم کرنا مقصود ہو تو اس کے ماضی کے تمام آثار کو ختم کر دیا جائے تو وہ قوم خود بخود اپنی شناخت سے محروم ہو جائے گی۔اسلام کی سب سے بڑی شناخت اس کے ماضی کی تاریخ کے دامن میں موجود اس کے آثاروباقیات ہیں۔ جس کی وجہ سے آج عالمی سطح پر اسلام کی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔ عالمی استعمار کی سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ اسلام کی اس عظیم الشان تاریخ کو اس طریقه سے مسخ کر دیا جائے کہ آنے والی نسلیں اپنی اصل پہچان سے محروم ہوجائیں۔ موجوده عهد میں مشرقی وسطیٰ میں برپا ہونے والی جنگ استعماری طاقتوں کے مختلف سیاسی و سماجی مقاصد کے حصول کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف یہ بھی ہے کہ اسلام کے مقدس آثار و شعائر کو ختم کردیا جائے۔ اسلام دشمنوں کا یہ وہ درینہ خواب ہے جسے وہ کسی بھی صورت میں شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں مستقل شکست آمیز ذلت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسلام کے ساتھ یہ سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ ابتدائے اسلام سے ہی مسلمان سامراجی طاقتوں کا آلہ کار بنے ر ہے اور ان استعماری طاقتوں نے مسلمانوں کو اسلام کے خلاف کھڑا کردیااور اسلام اور مسلمان دونوں ایک دوسرے سے ہمیشہ مزاحم رہے۔

تاریخی پس منظر

تاریخ میں بقیع کے انہدام کا ذکر دو بار ملتا ہے۔ پہلی بار اس مذموم سازش کا ارتکاب سن 1803 میں ہوا جب وہابیوں نے حجاز پر قبضہ کی غرض سے حملہ کیا۔ ان کا لشکر طائف کو فتح کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف بڑھا اور وہاں کے مقدسات و گنبد کو گرادیا۔ ان میں وہ گنبد بھی شامل تھا جو زم زم کے مقام پر تعمیر کیا گیا تھا۔ سن 1805 میں اس فعل کو دہراتے ہوئے مدینہ منورہ کی مساجد بشمول جنت البقیع کو منہدم کیا گیا۔قریب تھا کہ روزہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گرا دیا جاتا۔لیکن خوش قسمتی سے یہ سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بقیع کی تمام قبور کی اونچائی اور نشانات کو ختم کر دیا گیا۔ اور زیارت قبور پر آنے والے زائرین کے لیے سخت سزا مقرر کی گئی۔

مسلمان مکہ ومدینہ کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے خلافت عثمانیہ کے قیام کی حمایت کی اور محمد علی پاشا نے حملہ کر کے مکہ اور مدینہ پر قبضہ حاصل کر لیا۔ سن1818 میں عثمان خلیفہ عبد المجید اور عبدالحمید نے تمام مقامات مقدسہ کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا اور یہ سلسلہ سن 1860 تک جاری رہا۔

مغربی طاقتوں کی ایماء پر خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے بعد وہابی دوبارہ حجاز میں داخل ہوئے۔اس مرتبہ بھی انہوں نے روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام تاریخی ورثہ کو مسمار کر دیا۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں واقع قبرستان جنت المعلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آبائی گھر کو بھی گرا دیا۔ اس قبیع فعل کے ردعمل میں تمام اسلامی دنیا نے صدائے احتجاج بلند کی۔ متحدہ ہندوستان میں آل سعود کے مذکورہ اقدام کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ ایران ,عراق , مصر ,  انڈونیشیا ,  افغانستان اور ترکی میں مظاہرے ہوئے۔ مکہ مکرمہ میں جن محترم بزرگ ہستیوں کی قبور کو منہدم کیا گیا ان میں حضرت بی بی آمنہ,حضرت خدیجہ بنت خویلد حضرت ,ابو طالب علیہ السلام اور, حضرت عبد المطلب علیہ السّلام شامل ہیں۔جبل اوحد پر حضرت حمزہ علیہ السلام اور دوسرے شہداء اور جدہ میں  حضرت بی بی حوا کی قبریں بھی آل سعود کے عقیدے کا نشانہ بنیں۔ اس کے علاوہ بنو ہاشم کے مخصوص افراد کے گھر بھی گرا دیئے گئے جن میں حضرت علی علیہ السلام سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت حمزہ علیہ السلام کے گھر شامل ہیں۔ مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع میں دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے روضوں کو منہدم کیا گیا۔ فرزند رسول حضرت ابراہیم علیہ السلام ازواج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا حضرت ام البنین سلام اللہ علیها حضرت حلیمہ سعدیہ سلام اللہ علیہا اور دوسرے صحابہ کرام کی قبور کی انچائی کو بھی ختم کر دیا گیا۔ موجودہ جنت البقیع میں قبریں دور سے مٹی کے ٹیلے دکھائی دیتی ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے پتھر بکھرے ہوئے ہیں۔ زائرین کو قبور کے پاس جانے اور فاتحہ خوانی کی اجازت نہیں کیوں کہ آج بھی حجاز{ سعودی عرب} پر آل سعود قابض ہیں۔

آل سعود کی سرپرستی میں مقدسات کے انہدام کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کی وجہ حج و عمرہ کی کمائی سے حاصل ہونے والا منافع ہے۔ ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیاد حجاج کرام اور زائرین کو رہائش فراہم کرنے کی غرض سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے آس پاس تعمیرات جاری ہیں۔ دور نبوی کے کنویں اور پل ختم کر دیے گئے ہیں۔ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کے گھر کی جگہ مکہ ہوٹل تعمیر کیا گیا ہے۔ دیگر صحابہ کرام اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو گرا کر ہوٹلز کو تعمیر کیا گیا ہے۔ جن کی آمدنی سے سعودی حکمران امریکہ سےمزید ہتھیار خرید سکیں آل سعود نے مکہ مکرمہ کو اقوام متحدہ کے ادارے کو تاریخی ورثہ عمارات میں بھی اسی وجہ سے شامل نہیں کیا تاکہ دنیا کو پتہ نہ چل سکے یہاں کے تاریخی مقامات کو کتنی تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے۔

موجودہ دور میں ایک بار پھر دنیا نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیا کہ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے ٹکڑوں پر پلنے والی دہشت گرد تنظیموں نے وہی عمل انجام دیا جو آل سعود نے اپنے حکومت کے قیام کے بعد دیا تھا۔ شام اور عراق میں موجود عالم اسلام کی بزرگ شخصیتوں کے مزارات کو کس طرح سے داعش اور جبہۃ النصرہ جیسی تنظیموں نے شرک وبدعات کے نام پر شہید کیا۔ کسی سے پوشیدہ نہیں یہاں تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور صحابی جناب حجر بن عدی کی قبر کو توڑ کر ان کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کی۔ ایسا جرم کوئی قوم اپنے اکابرین اور بزرگ ہستیوں کے ساتھ نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ کچھ سلفی دہشت گردوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر جو کربلا میں موجود ہے اسے توڑنے کی کوشش کی لیکن انہیں بری طرح ذلت اور شخص کا منہ دیکھنا پڑا۔  اس طرح کے غیر اسلامی کام صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی میں انجام دیئے جا رہے ہیں۔یہ کون سے مسلمان ہیں اور ان کا کیسا اسلام ہے۔ جو اس طرح کے اخلاقی اور غیر اسلامی فعل کو انجام دینے میں ایک لمحہ بھی انتظار نہیں کرتے۔ انہیں دنیا کے دیگر قوموں  سے سبق لینا چاہیے کہ وہ اپنے عظیم لوگوں کی یادگار کا کس طرح تحفظ کرتی ہیں۔ صرف اس لئے کہ آنے والی نسلیں یہ دیکھ کر اپنی قوم پر فخر کر سکیں جن کی قوم میں ان عظیم ہستیوں نے جنم لیا تھا۔ جو آج ہمارے لیے فخر کا مقام ہے۔ اس لیے کہ اگر ساری قومیں اپنے بزرگوں کے آثار اور ان کے کارناموں کو فراموش کردیں گی تو ان کا نام تاریخ سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ لہذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ عالم اسلام میں گزرنے والی عظیم ہستیوں کے آثاروباقیات کا تحفظ کریں۔ اور ان کے نشانات کو محفوظ کریں جنھیں ساری طاقتیں مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا تو آنے والی نسلیں اپنے ماضی کی ان عظیم باقیات و آثار سے محروم ہوجائیں گی۔


تحریر۔۔۔۔۔۔ظہیر عباس جٹ
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) ایران کی مضبوط دفاعی صلاحیت اور ایرانی قیادت وعوام کی جرآت واستقامت کے مشاہدے کے بعد ظاہری طور پر یہی نظر آ رھا ہے کہ امریکہ ، اسرائیل اور اسکے عرب اتحادیوں میں ہمت نہیں کہ وہ حملہ کرنے کی غلطی کریں.  اگر انہیں اس حملے کے مثبت نتائج ملتے نظر آتے تو قطعا دیر نہ کرتے. لیکن اس وقت ایران اور محور مقاومت جس دفاعی پوزیشن پر ہے دشمن میں حوصلہ نہیں.  امریکی تاریخ میں پہلی بار نظر آرھا ہے کہ ایرانی فورسسز کے خوف سے دنیا کو خوفزدہ کرنے والے امریکی بحری بیڑے خلیج فارس سے نکل کر 500 کلومیٹر دور جا کر رکے ہیں. دشمن کا پلان نمبر ایک بری طرح ناکام ہو چکا ہے اور امریکہ اور استکباری طاقتوں کو شرمناک ذلت کا سامنا ہے. نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آج ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف خطے میں اسکے اتحادی ایران سے مذاکرات کرنے کے راستے تلاش کر رہے ہیں. آیا مذاکرات ہوتے ہیں یا نہیں یا کن شرائط پر بات چیت آگے بڑھتی ہے ان سوالات سے ہٹ کر اور موجودہ سیناریو میں ایک بہت اہم سوال جنم لیتا ہے کہ اس تازہ ترین صورتحال کے پیش امریکہ ، اسرائیل اور انکے اتحادیوں کا پلان B کیا ہو سکتا ہے؟

فلسطینی خبر پریس سائٹ پر اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس  کے سربراہ جنرل تامیر ھایمن کے آخری خطاب پر معروف صحافی بسام ابوشریف نے تبصرہ کرتے ہوئے چند اہم نکات بیان کئے ہیں جن سے اس پلان B  کو سمجھنے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔

جنرل ھایمن نے اپنے آخری خطاب میں بیان کیا کہ اسرائیل کی نئی اسٹریٹجک پالیسی دو اہم ستونوں پر استوار ہے ۔

ا  - اسرائیل کے سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے بڑھتے ہوئے تعلقات کہ جنکی بناء پر اسرائیل ایران اور محور مقاومت کے خلاف کھلی جنگ کی زمینہ سازی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

 ب -  دوسرا اسرائیلی فضائی طاقت کہ جس کی بناء پر اسے شام پر عسکری لحاظ سے فوقیت ہے. اب اسرائیل مقاومتی جماعتوں کو اپنا نشانہ بنائے گا جوکہ خطے میں ایران کے مضبوط بازو ہیں۔

اس نے مزید کہا کہ " اب اسرائیل ایران پر نہیں بلکہ ایران کے اتحادیوں یعنی محور مقاومت پر حملے کرے گا. کیونکہ ایران کی طاقت اس خطے میں مقاومت کرنے والے اس کے اتحادی ہیں. "مذکورہ پوائنٹ بالکل واضح طور پر پلان B کی وضاحت کر رھا ہے کہ

 1- اب جنگ پہلے مرحلے میں ایران کے اتحادیوں کے ساتھ ہے. اسرائيل کی کوشش ہو گی کہ محور مقاومت کو کمزور کرنے کے لئے مقاومتی جماعتوں اور گروھوں کی لیڈرشپ کو ٹارگٹ کرے.

2- اس طرح پورے خطے میں اور بالخصوص شام وایران عراق ولبنان میں اسرائیل اور اسکے ایجنٹوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر  ٹارگٹ کلنگ شروع کرنے اور اھم شخصیات کو نشانہ بنانے کا امکان ہے۔

 3- اور ان جماعتوں اور شخصیات کی جاسوسی اور اھداف کی نشان دہی کے لئے اسرائیل اپنے  ایجنٹوں کی تقویت کرے گا۔

 4- دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے کی مہم میں بھی تیزی آئے گی۔

5- پورے خطے میں داعشی گروھوں کو تقویت ملے گی.  اور دہشتگردی کا بازار گرم ہو گا۔

6- عراق وشام کی حکومت اور فوج کو مزید متعدد جبہات پر مصروف کرنے اور کمزور کرنے کے لئے بحران ایجاد کئے جائیں گے اور سیاسی وعسکری داعشیوں کو وسیع  میدان دینے کی کوشش کی جائے گی۔
"نفسیاتی نفسیاتی جنگ کا حربہ استعمال کرتے ہوئے اسرائیل نے  ایک خبر لیک کی ہے کہ ہم نے پرانے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو فارغ کر کے ایک نئے جاسوسوں اور ایجنٹوں کی فوج تیار کر لی ہے۔
"اس اس میں کتنی حقیقت ہے یا نہیں لیکن اسرائیل ، امریکا اور اسکے اتحادی اس وقت مشکلات میں بری طرح پھنس چکے ہیں . اپنی پوری تاریخ میں کبھی اتنے بے بس اور کمزور نہیں تھے جتنے اب کمزور ہو اور بے بس ہیں.  امریکہ فتح سے تو مفادات حاصل کرتا ہی ہے لیکن اب وہ اپنی  شکست سے بھی مفادات حاصل کرنے اور اپنے خسارے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا ہے. اور پسپائی کے بعد اب پیچھے قدم رکھنے کی بھی قیمت وصول کرنے کے راستے تلاش کر رھا ہے. لیکن اسرائیل کی نابودی کے آثار نمودار ہو چکے ہیں۔

خطے کا مستقبل1
- ایران اور محور مقاومت کی گذشتہ دو دھائیوں میں  شام وعراق ولبنان کی فتوحات اور غزہ ویمن میں استقامت ومقاومت کی عالیشان
تاریخ رقم کرنے کے بعد اب یہ خطہ امریکہ کے ھاتھ سے نکل چکا ہے. جبھۃ استکبار کی دیواریں کھوکھلی ہو چکی ہے اور بس ایک جھٹکے کا انتظار ہے کہ پھر جس کے بعد امید یہی کی جا سکتی ہے کہ نہ اسرائیل رہے گا اور نہ ہی خطے میں عوامی ارادے کے خلاف طاقت کے بلبوتے پر قبضہ کرنے والے ممالک  اور نہ خلیجی بادشاہتیں رہیں گی  اور نہ ہی مخصوص اشرافیہ کا اکثریتی عوام کے استحصال کا ظالمانہ نظام کہ جس پر امریکہ کا انحصار تھا۔

 2-اس کے بعد تکفیریت اور دھشگردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ ہو گی . اور یہودی صہیونی ، کرسچین صہیونی اور مسلم صہیونیوں پر زمین تنگ ہو گی۔

3- اس خطے کے ممالک کے عوام آزاد ہو کر بغیر کسی بیرونی مداخلت کے اپنے ممالک کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

4- استعمار کے بنائے ہو جعلی مذاھب اور امریکی وبرطانوی مذاھب کو چھوڑ کر لوگ واپس اپنے حقیقی محمدی اسلام کی طرف آئیں گے۔

 5- یمن کی فتح کامیابی اور آل سعود کی بربادی کے بعد یمن میں زیدی، سنی وشافعی، شیعہ واسماعیلی سب مسلمان عوام متحد ہو کر اپنے ملک کے مستقبل فیصلہ کریں گے. اور انہیں ترکیبی عناصر پر مشتمل سعودی عرب اور گرد ونواح کے ممالک میں بھی حکومتیں قائم ہونگی۔


تحریر: ڈاکٹر سيد شفقت حسین شيرازی

Page 9 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree