وحدت نیوز(آرٹیکل) دور حاضر میں مسئلہ فلسطین نت نئے پیچیدہ سیاسی نشیب و فراز کا شکار ہے۔ایک طرف عالمی سامراجی حکومت شیطان بزرگ امریکہ ہے کہ جس نے صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام سے تاحال اس جعلی ریاست کی بے پناہ پشت پناہی کی ہے اور فلسطین پر ناجائز تسلط کا دفاع کیا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ نے صہیونیوں نے فلسطین میں عرب فلسطینیوں کا قتل عام کرنے اور ان کو کچلنے کے لئے کھربوں ڈالر کا اسلحہ صرف امداد کے نام پر فراہم کیا ہے جس کے نتیجہ میں صہیونیوں نے گذشتہ ستر برس سے فلسطین کے مظلوم عوام کا خون پانی کی طرح بہایا ہے۔صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل نے صرف فلسطین کے عوام کا قتل عام ہی نہیں کیا بلکہ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے اپنی گھروں سے بھی نکال باہر کیا ہے۔

آج فلسطینیوں کی زمینوں پر صہیونی بستیاں آباد ہیں جبکہ اس زمین کے اصل باسی مہاجر اور پناہ گزین بن کر دنیا کے مختلف ممالک میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی حکومتوں نے جہاں اسرائیل جیسی جعلی ریاست کے تحفظ کے لئے براہ راست سالانہ بنیادوں پر اسرائیل کو کھربوں ڈالر کی امداد اور اسلحہ فراہم کیا ہے وہاں دوسری طرف اسی غاصب و جعلی صہیونی ریاست اسرائیل کے تحفظ کے لئے خطے میں عدم استحکام پھیلانے اور خطے کی ریاستوں کو اسرائیل کے سامنے تسلیم کرنے کے لئے سات ٹریلین ڈالرز گذشتہ چند ایک سالوں میں شام، عراق اور لبنان جیسے ممالک میں دہشت گرد تنظیم داعش اور اس کے ہمنواؤں کے لئے خرچ کئے ہیں اور اس بات کا اعتراف امریکی حکومت کے موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ خود اپنی ایک تقریر میں کر چکے ہیں۔

آج مسلمان دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے اہم ترین مسئلہ فلسطین کا ہے۔ مسلم دنیا کے تمام مسائل کی فہرست میں فلسطین کا مسئلہ پہلے نمبر پر موجود ہے اور اس کے حل کے لئے اگر کوئی آسان اور موثر طریقہ اپنایا جا سکتا ہے وہ صرف اور صرف مسلما ن ممالک کی حکومتوں اور عوام کا باہمی اتحاد اور وحدت ہے کہ جو نہ صرف دنیائے اسلام کے سب سے بڑے اور اہم ترین مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے کارگر ثابت ہو گا بلکہ دنیائے اسلام کے دیگر تمام مسائل جو دشمن کی جانب سے صرف اسلئے پیدا کئے گئے ہیں کہ مسلمان حکومتوں کو ان میں الجھا کر رکھا جائے تا کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل محفوظ ہو جائے۔

یہا ں پر مجھے ایک واقعہ یا د آ رہا ہے کہ جب گذشتہ سالوں میں ایران اور یورپی ممالک کے پانچ ممالک کے مذاکرات یعنی پی فائیو پلس ون جاری تھے اور پھر ایک اہم ترین معاہدے پر پہنچے تھے تو اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک تقریر کے دوران کہا کہ اسرائیل آئندہ پچیس برس کے لئے مسلمان دنیا کے خطرے اور بالخصوص اسرائیل کے دشمن ایران سے محفوظ ہو گیاہے لیکن دوسری جانب ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای کا ایک بیان سامنے آیا تھا کہ جس میں انہوں نے ہمیشہ کی طرح فلسطین کے عوام کے حقوق کا دفاع کرنے اور فلسطین کی آزادی کو یقینی اور حتمی ہونے کے ساتھ ساتھ وعدہ الہی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اسرائیل ان شاء اللہ آئندہ پچیس سال نہیں دیکھ پائے گا۔

اس بیان کے بعد عرب دنیا میں بالخصوص اور یور پ میں مسلمان نوجوانوں میں جوش اور جذبہ کی نئی لہر دوڑ گئی تھی اور فلسطین کی آزادی کی تحریکیوں حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ نے اس بات کا خیر مقدم کرتے ہوئے عزم کیا تھا کہ خطے میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ناپاک عزائم کو ہر سطح پر ناکام بنایا جائے گا۔بہر حال یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ دنیائے اسلام کے سب سے اہم مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے اسلامی دنیا کا اتحاد او آئی سی کی رسمی کاروائیوں سے بڑھ کر ہونا چاہئیے۔اس عنوان سے مسلمان و اسلامی حکومتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ فلسطین سمیت دنیائے اسلام کے تماممسائل کے حل کے لئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔

حالیہ دنوں ہی ذرائع ابلاغ پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے دنیا بھر سے ایران میں جمع ہونے والے اسلامی دنیا کے مایہ ناز مفکروں، مفتیان کرام، خطباء عظام اور اسکالروں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کیا اور فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کے نابودی کو یقینی قرار دیتے ہوئے عالم اسلام کی سربلندی کو حتمی و خدا کا وعدہ قرار دیا۔انہوں نے مسلم دنیا کے اسکالروں اور مفتیان کرام سمیت سیاسی ومذہبی شخصیات سے گفتگو کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل اور امت اسلامی کے اتحاد پر زور دیا اور کہا کہ مسلمان حکومتوں کو چاہئیے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اپنی متحدہ اور مشترکہ کوششوں کو سرانجام دیں اور باہم اتحاد اور وحدت کو عملی بنانے کے لئے کم سے کم درجہ کا اتحاد یہ ہے کہ مسلمان و اسلامی ممالک کی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت یہی ہے کہ مسلم دنیا کے مشترکہ دشمن کو پہچانا جائے۔آج امریکہ جن مسلم ممالک کی پشت پناہی کرتے ہوئے مسلمان ممالک کو باہم دست و گریباں کرنے میں مصروف ہے کل یہی امریکہ ان مسلمان حکومتوں اور ملکوں کے خلاف بھی کسی قسم کے اقدامات سے گریز نہیں کرے گا۔

لہذا مسلمانوں کی نجات باہمی اتحاد میں ہے اور مسئلہ فلسطین کے درست راہ حل کے لئے مسلمانوں کا کم سے کم اتحاد یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کریں اور اتحاد کا بلند ترین مرتبہ یہ ہے کہ تمام مسلمان حکومتیں اپنے علم و تمد ن سے ایک دوسرے کی مدد کریں اور ترقی کی راہیں ہموار کریں۔خلاصہ یہ ہے کہ اگر آج مسلمان حکومتیں اتحاد و یکجہتی کے کم سے کم درجہ کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائیوں کو عالم اسلام و انسانیت کے سب سے اہم ترین مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے اور فلسطین سمیت دنیا کے مظلوموں کی مدد کے لئے خرچ کریں تو یقینا یہ بات درست ہو گی کہ اسرائیل کی جعلی ریاست آئندہ پچیس برسوں میں دنیا کے نقشہ پر نہیں ہوگی۔آج مسلم دنیا میں فلسطین، کشمیر، یمن، عراق، افغانستان، برما اور دیگر کئی ایک مقامات پر مسلمان اقوام صرف اور صرف عالم اسلام کے کم سے کم درجہ کے اتحاد یعنی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے پرہیز کرنے کے متمنی ہیں۔


 تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

سیاست :عبادت یاخیانت

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان کے مختلف شہروں میں جانے کااتفاق ہوا اور کچھ موضوعات پہ تبادلہ خیال ہوا۔ اور اسی طرح گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا اور مختلف لوگوں سےملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ملے جلے اظہار خیال سے۔اور آج اپنے بچپن کے محلے کے ایک استاد سے" جوبہت کچھ اخلاقیات سیکھایاکرتے تھے " ان کی دکان پہ ملاقات ہوئی اور حالات حاضرہ پرتفصیل سے بات چیت ہوئی۔ لوگوں کی گفتگو' مختلف پارٹیوں کے چہل پہل 'سوشل میڈیاپرتشہیری مھم اور  (لوٹوں کے پارٹیاں بدلنے کے انداز) نے مجھے بھی کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔ اور قلم اٹھایا اور مندرجہ بالاموضوع پے لکھناشروع کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جب بھی کوئی سیاست کالفظ سنتاہے تو اس سے مراد لوٹ مار 'کرپشن'، اپنوں کو ٹھیکوں اور نوکریوں سے نوازنے اور اجارہ داری قائم کرلینے " کے معنوں میں لیتا ہے۔ سیاست مدار بھی انہی  خامیوں اور گالیوں کے بل بوتے پر ذندہ رہتا، اورسیاست دان رہتا ہے۔ نتیجہ آج سیاست کا لفظ ایک گندا ترین لفظ تصورکیاجاتاہے۔جب کی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یعنی سیاست ایک مقدس اور پاکیزہ لفظ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاست کامفہوم اورمعنی کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کوتلاش کرنے کے لئے ہمیں کچھ تفصیل میں جانا ہوگا اور سیاست کے لفظ کی گہرائی میں جاناہوگا۔تاکی سیاست کامفہوم ہم پرواضح ہواوراس کی پاکیزگی ہم پرعیاں ہوتاکی معاشرے کاہرفرداس مقدس عبادت میں مشغول ہو۔لھذاپہلے ہمیں سیاست کے لفظی ولغوی معنی پھراس کے اصطلاحی معنی سے اشنا ہونا ہوگا۔ اہل لغت کے بقول  "سیاست" کا لفظ ,ساس' سے مشتق ہے سیاسۃ البلاد تولی امورھا وتسییراعمالھاالداخلیۃ والخارجیۃ وتدبیرشوونھا۔سیاسۃ الامرالواقع ای التسلیم بماھوواقع وکذالک سیاسی مشتق من سوس :الذی یعنی بشوون السیاسۃ 'الحقوق السیاسۃ "حقوق کل مواطن فی ان یشترک فی ادارۃ بلادہ اوممارسۃ اعمالہ الوطنیہ کالانتخاب ونحوہ : سیاست کالفظ ساسۃ سے مشتق ہے جس کالغوی  مطلب  تدبیرکرنا'انتظام کرنا'نظم ونسق پیداکرنا۔جبکی اصطلاح میں اس کامفھوم :ساسۃ البلاد تولی امورھا وتسییر اعمالھا الداخلیۃ والخارجیۃ وتدبیر شوونھا یعنی سیاست کامطلب ملک کے امورکی سرپرستی کرنا'ملک کے داخلی اور خارجی پالیسی کواسان اورملک کے مفاد میں  بنانا اورریاست کے امورکی بہترین تدبیرکرنا۔جبکی اصطلاح میں سیاست کامطلب یعنی اپنے گھر'محلے اورملک کی بہترین تدبیرکرنا 'ریاست کے ان  امورکی تدبیرکرناجس کے مرتب کرنے میں اور اس کےفائدے میں تمام شہری شریک ہوں۔جیسے انتخاب وغیرہ۔یعنی ریاست کے وہ امور جس میں بلاواسطہ تمام شہری شریک ہوں اورریاست کے جملہ امورکےفوائدمیں بھی تمام لوگ مشترک ہوں۔

لغوی اوراصطلاحی مفھوم سے ہی پتہ چلاکہ سیاست سے مراد گھرکی تدبیر'علاقے کی تدبیراورریاست اورملک کی تدبیر ہے۔اس کا مطلب یہ ہواکہ سیاست ہرگھرمیں ہو جس گھرمیں سیاست نہیں وہ ناکام ترین  گھرانہ ہوگا۔سیاست ہرمحلے میں ہوجس محلے میں سیاست نہیں ہے  وہ ناکام ترین محلہ ہوگا ۔سیاست ہرمسجد میں ہوجس مسجد میں سیاست نہیں ہےوہ مسجد'مسجدضرارکی طرح کی کوئی مسجدہوگی مسجد نبوی ص کی طرح کی کوئی مسجد نہیں ہوگی اورہرعالم کوسیاسی ہوناچاہئے اس لئے کے ہر دین ہررکن میں سیاست کاپہلوپایاجاتاہے لہذاسیاست کانہ انافخرنہیں بلکی نااہلی ہے۔ سیاست ہرملک میں ہوجس ملک میں سیاست نہیں ہے وہ ملک ناکام ترین ملک ہوگا۔ اسی لئے کہاجاتاہے کہ السیاسۃ لاتنفک عن الاسلام :کہ اسلام عین سیاست ہے ۔سیاست اسلام سے جدانہیں ہے۔پس اگر گھر کی تدبیر'محلے کے امور کی تدبیراورریاستی معاملات کی تدبیر کرناسیاست ہے تویہ عبادت ہے اور یہ عبادت ہرایک پر فرض اورضروری ہے "مگرملک پاکستان کاسب سے بڑاالمیہ یہ رہاہے اوررہے گاکہ اہل علم میدان ساست سے مکمل لاتعلق ہے، اورمیدان سیاست کوخالی چھوڑاہے۔ مگر جو میدان خالی ھوگااس نے تو پر ہونا ہی ہے، یا وہ میدان اچھے اوراہل لوگوں  سے پرہوگا یا برے اور نا اہل لوگوں  سے پر ہوگا۔  "چونکہ میدان سیاست اور حکومت ایک اہم ترین رکن اساسی ہے مملکت میں، جس کی وجہ سے رب کائنات نے قران کریم میں بھی جابجا واضح انداز میں سیاست حکومت اورحکام کے فرائض کوتفصیل سے بیان فرمایاہے جس کی تفصیل بعد میں بیان ہوگی  ۔اسی طرح پیغمبراکرم ص نے بھی ایساطرزحکومت وسیاست اپناکے دیکھادیاہے۔اب ریاستی امورکی تدبیرکے لئے مدبر کا ہونا ضروری ہے اورمدبرہرکوئی تونہیں ہوسکتاہے بلکی ایک عالم 'فاضل اورملکی اوربین الاقوامی حالات پرمکمل گرفت رکھنے والاہی مدبرہوسکتاہے کیونکہ جس ملک کے چھوٹے سے چھوٹامعاملہ بھی بین الاقوامیں حالات سے جڑاہواہواس ملک میں ہرکوئی تدبیرنہیں کرسکتاہے۔ بلکہ تدبیر امور کے لئے ایک بین الاقوامی حالات پر یدطولی رکھنے والاعالم 'فاضل 'نظریاتی اورخوف خدارکھنے والے شخص کاہونا ضروری ہے ۔

حقیقت تویہ ہے کہ :گھرکےامور کوبھی چلانے کے لئے ایک ماھر 'حازق اوربہترین فردکا انتخاب کیاجاتاہے اوراس ماھر کے بغیر گھرکانظام نہیں چل سکتاہےاسی  طرح محلے  کے لئے بھی ایک ماھرفردکاانتخاب کیاجاتا ہے تاکی نظام بہتراندازمیں چل سکے۔ارے ایک ٹیم میدان میں اچھے کپتان کے بغیرمیچ کھیل نہیں سکتی ہے   ۔اب گھراورمحلے کانظام ماھرکے بغیرنہیں چل سکتا ہے توملک کا نظام ایک نالائق'ان پڑھ اورخائن کے ذریعے کیسے چل سکتاہے ۔اسی لئے کہاجاتاہے کہ ووٹ ایک امانت ہے جوکسی امین کو ملنا چاہئے۔اورمیدان سیاست کے لئےبھی ایک بہترین مدبرا' ماھرترین اورلائق فردکاانتخاب کرناضروری ہے تاکی بہترین انتظام وانصرام کے ذریعے سے ملک کومادی اوروحانی ترقی کی راہ پےگامزن کرسکے۔

اس کامطلب یہ ہواکی سیاست ہر گھر'علاقہ اورملک کاجز لاینفک  ہے جس کے بغیر گھر اور علاقے کانظام چل نہیں سکتاہے۔ اسی طرح سیاست کے بغیر ملک کانظام بھی چل نہیں سکتاہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ نظام مملکت کوچلانے کے لئے لوگ کس قسم کے فردکاانتخاب کرتے ہیں ۔اہل کاانتخاب کرتے ہیں یانااہل کا انتخاب کرتے ہیں ۔اب دوسراسوال یہ پیداہوتاہے کہ اہل سے کیامرادہے؟اس کاجواب بھی بلکل واضح ہے کہ :ملک کے معاملات کوچلانے کے لئے 'داخلہ اورخارجہ پالیسی مرتب کرنے کے لئے اورعوام کی فلاح وبہبود کے لئے فردکاانتخاب کیاجاتاہے تواس کے لئے اہل فردکاانتخاب کیاجائے۔اوریہاں اہل سے مراد پڑھالکھا، بین الاقوامی حالات پرگہری نظر رکھنے والا اور معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والاہو تاکی یہ منتخب اہل فردپانچ سال سیرسپاٹے میں مغرور ہوکے نہ گزارے بلکی انے والی نسلوں سے جڑے اوربین الاقوامی معاملات سے جڑے ہوئے مسائل کاحل نکالے اورعوام کی بھرپورخدمت کرے تاکی اگلے پانچ سال پھرخدمت کی بنیاد پر دوبارہ جیت جائے اور اس کی جیت یقینی ہو۔

لھذا اگر سیاست کامطلب مذکورہ بالامعنی میں لیاجائے توعبادت ہے اور اگرسیاست کامطلب ملک میں رائج طریقہ لیاجائے، یعنی سیاست سے مراد سیاست دان کی اجارہ داری 'کرپشن 'لوٹ مار'اقرباپروری'کمیشن خوری  اوراپنوں کوٹھیکوں اورنوکریوں سےنوازنا ہے توسیاست عبادت نہیں ہے خیانت ہے۔اب اتے ہیں بلتستان میں مروجہ سیاست پے  جہاں گذشتہ کئی سالوں سے مختلف نشیب وفرازدیکھااور مختلف علاقوں اورسیاست مداروں  کوپڑھنے 'سمجھنے اورحالات کو بغور دیکھنے کاموقع ملاجس کے بعدپورے یقین واثق سے کہہ سکتاہوں کہ بلتستان میں سیاست دان عبادت نہیں خیانت کرتے ہیں کیونکہ یہاں سیاست دان کامحورتھیکہ دارہوتاہے اورتھیکہ دارکا محور سیاست دان ہوتاہے نتیجہ ٹھیکہ دارکےپورے کاپوراھم وغم ٹھیکہ ہی ہوتاہے جس کی بناپرہواکے رخ کے ساتھ ہی اپنارخ بھی بدل دیتاہے جس کی ضمیرکی قیمت بس ٹھیکہ ہی ہوتی ہے جس کاثبوٹ گذشتہ پی پی پی اور اج نون لیگ کے دورحکومت میں دیکھاجاسکتاہے اوراب مفاد پرست ٹولے کارخ پی ٹی ائی کی طرف ہوگیاہے۔کچھ خیانت کارتووہ ہے جوکمیشن 'ٹھیکہ اوراثررسوخ کے بل بوتے پرہی سیاست کرتے ہیں اورکچھ تو وہ ہیں جوٹھیکوں کی خریدوفروخت میں مشغول ہیں اگرسکردوشہر کے منصوبوں پرایمانداری سے پیسہ خرچ کیاجائے اورذیادہ بچت کی فکر نہ ہو تو سکردو جیسا چھوٹا سا شہرایک بے مثال شہربن سکتا ہے کسی ضلع کے نمائندہ کو%30 اے ڈی پی دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔اب محترم قاری خودفیصلہ کرے کہ پاکستان میں بالعموم اور بلتستان  میں بالخصوص  سیاست عبادت ہے یاخیانت۔

تحریر : شیخ فدا علی ذیشان
سکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان (ضلع سکردو بلتستان )

عراق کے حالات پر ایک نظر

وحدت نیوز(آرٹیکل)عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں روز بہ روز شدد آرہی ہے اور تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ کرپشن اور اقتصادی مشکلات کے خلاف اٹھنے والی یہ مظاہرے اب عوام کے ہاتھوں سے نکل کر تیسری قوتوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں۔ تقریبا دو ماہ سے جاری ان مظاہروں میں اب تک چار سو کے قریب جانیں ضائع ہوئی ہیں اور ہزاروں کے تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اس کے علاوہ سرکاری تنصیبات اور عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

اس وقت سب سے اہم بات مظاہرین کا اپنے اصل ہدف سے دور ہونا اور تشدد کی جانب بڑھنا ہے۔ خصوصا مذہبی حلقوں اور حشد الشعبی کے خلاف قدم اٹھانا ہے جنہوں نے ان کو داعش کے شر سے نجات دلایا تھا۔

معاملہ اب کرپشن اور اقتصاد کے دائرے سے باہر ہے اور حالات ایسے ہی برقرار رہے تو خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ مظاہرین کے درمیان سازشی عناصر نے نفوذ پیدا کیے ہیں اور وہ مظاہرین کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان سازشی عناصر کو حکومت نے تیسری قوت قرار دیا ہے۔ تیسری قوت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عراقی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ قوتیں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ہیں جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ان مظاہروں کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر جگہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا کیوں نام آتا ہے مظاہرے تو عراقی کر رہے ہیں وہ بھی اپنے ہی مطالبات کے حق میں تو یہاں امریکہ کا کیا کام؟ جواب یہ ہے کہ جہاں امریکی مفادات ہوتے ہیں وہاں پر مستحکم حکومت کبھی امریکہ کے مفاد میں نہیں ہوتا، یہ بات ہم افغانستان سے لیکر افریقہ تک جہاں جہاں امریکہ ہے باخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر حکومت مستحکم ہوں اورعوام باشعور ہوں تو پھر امریکہ کے کالے کرتوت کھل جاتے ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس وقت روس اور چین کے بڑھتے اثرورسوخ اور ایران سمیت مقاومتی بلاک کا مشرق وسطی میں بڑھتی کامیابی نے امریکی سپر پاور ہونے کے دعوے کو للکارا ہے اور شام، عراق اور لبنان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو منہ کی کھانی پڑی ہیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ عراق میں مظاہرین کا روخ تشدد کی جانب مڑ نا، ایرانی کونسل خانے کو جلانا اور عراقی مذھبی شخصیات کے دفاتر پر حملہ کرنا یہ عام عراقی عوام نہیں کرسکتے ہیں۔

امریکہ کو عراق کے مذھبی حلقوں سے شکایت کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک بات بتاتا چلوں کہ امریکہ جس ملک میں بھی اپنا اڈہ بناتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلاتا ہے، سقوط صدام کے بعد داعش کا سر اٹھانا امریکی پلانگ کا حصہ تھا داعش کے ذریعے امریکہ نے بیک وقت شام اور عراق دونوں میں خانہ جنگی شروع کروادی تھی اور اسی بہانے امریکہ نے یہاں رہنا تھآ اور ان کے قدرتی وسائل پر ڈاکہ ڈالنا تھا۔ اب آئیں جواب کی طرف امریکہ کو دھچکہ اس وقت لگا جب عراق کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت آیت اللہ سیستانی نے داعش کے خلاف جنگ کا فتوی دیا جس کا اثر یہ ہوا کی لاکھوں کی تعداد میں عراقیوں نے لبیک کہا اور امریکی و داعشی عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ جس کا براہ راست نقصان امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو ہوا کیونکہ داعش کو بنانے ان کی تربیت کرنے اور ان کو فنڈنگ کرنے میں ان تین ممالک کا مستقیم ہاتھ تھآ۔

اب امریکہ عراق میں میں ناکام ہوچکا تھآ اُس نے جس مقصد سے داعش کو بنایا تھا اس کا سو فیصد ثمر اس کو نہیں ملا بلکہ اس کے برعکس عراق میں آیت اللہ سیستانی کے فتوی کی وجہ سے ایک ایسی قوت  حشد الشعبی کے نام سے ابھر آئی جنہوں نے نہ صرف داعش کو شکست دی بلکہ امریکیوں کو بھی عراق چھوڑنے کا حکم دیا، دوسری طرف عراق کے رضاکار فورسیز نے اسرائیل کو بھی آنکھیں دیکھائی جس کے جواب میں اسرائیل نے ایک دو بار عراق میں حشد الشعبی سے متعلق ملٹری بیس پر فضائی حملے بھی کئے۔ عراق میں حشد الشعبی کی بڑھتی مقبولیت اور عراق ایران کے بہتر ہوتے تعلوقات امریکہ اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔

دوسری جانب عراقی الیکشن میں امریکہ مخالف پارٹیوں کی کامیابی بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ جب عوام حکومت سے اقتصادی اصلاحات کا مطالبہ لئے سڑکوں پر نکل آئے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے یہ ایک بہترین موقع ثابت ہوا اور انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عوام میں یہ باتیں پھیلانا شروع کیا کہ عراق کی اقتصادی بحرانوں کا اصل سبب حشدالشعبی، مقاومتی بلاک اور ایرانی اثرورسوخ ہے جسکی وجہ سے آج عراقی مظاہرین کا ہدف تبدیل ہوا ہے۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس وقت بد امنی پھیلانے والوں کی اکثریت کا تعلق امریکہ اور داعش حمایتی افراد سے ہیں جو اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ابھی بھی عراقی باسی اور قبائلی افراد آیت اللہ سیستانی کی جانب دیکھ رہے ہیں تاکہ ان کے حکم سے ملک میں بدامنی پھیلانے والوں کا سر کچل سکے۔ مگر آیت اللہ سیستانی، مقتدا الصدر، عمار الحکیم سمیت اہم سیاسی و مذہبی شخصیات نے پُر امن مظاہرے کی حمایت اور حکومت سے فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے ساتھ ہی پُر تشدد واقعات کا سختی سے مذمت کی ہیں اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پر امن رہیں۔

اس وقت عراق کی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ عوام عوام کے خلاف برسرپیکار ہے جن کو قابو کرنا حکومتی بس کی بات نہیں ہے اور آخر میں ان تمام مشکالات کا حل مراجع اور مذھبی شخصیات ہی نکال سکتی ہیں۔ امید ہے کہ اس دفعہ پھر امریکہ اور اس کے اتحادی ناکام ہونگے اور انکے ناپاک عزائم خاک میں مل جائینگے، ساری دنیا کی نظریں آیت اللہ سیستانی پر ہیں اور مرجع تقلید حالات کی بہتری کی جانب پُر امید نظر آتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ انشااللہ آئندہ جلد عراق کے حالات بہتری کی طرف لوٹ آئنگے۔


تحریر: ناصر رینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) آیت اللہ سید علی خامنہ ای جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کے آئینی رہبرِ اعلی ہیں وہیں عالم تشیع کے فقیہ اور مرجع تقلید بھی ہیں۔ ایرانی نظامِ حکومت میں ملک کا سب سے بڑا منصب ولی فقیہ کا ہے جس پر ایک جامع الشرائط مجتہد بلواسطہ منتخب کیا جاتا ہے۔ (اہل علم کے درمیان ولی فقیہ کے انتخاب کے حوالے سے دو علمی نظریات پائے جاتے ہیں لیکن ہر دو صورت میں عملی نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب 88 رکنی مجتہدین کی شورای اکثریت رائے سے ایک جامع الشرائط مجتہد کو ولی فقیہ کے عہدے کے لیے چنتی ہے)۔ آیت اللہ خامنہ ای کی بطور ایک سیاسی رہنما خصوصیات کے علاوہ ان کی علمی حیثیت اور تقویٰ و پرہیز گاری بطور خاص دنیا بھر خصوصاً عالم اسلام اور خصوصاً عالم تشیع میں ان کی مقبولیت اور محبوبیت کی بنیادی وجہ ہے۔ یعنی آیت اللہ خامنہ ایک دینی مرجع تقلید اور جامع الشرائط مجتھد ہونے کے ناطے بھی دنیا بھر کے مسلمانوں میں خاص قدر و منزلت کے حامل ہیں۔

گزشتہ چند دن سے کچھ پاکستانی اخباروں اور سوشل میڈیا کی خبروں میں آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں سے متعلق ایک خبر زیرِ گردش ہے۔ اس خبر کے مطابق ایران کے رہبرِ اعلی آیت اللہ خامنہ ای 2 کھرب ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ اس خبر میں بتایا جا رہا ہے کہ بظاہر سادگی اور کفایت شعاری کی تلقین کرنے والے آیت اللہ خامنہ ای کے کل اثاثے ملکی قرضوں سے دوگنا اور مجموعی ملکی برآمدات سے زیادہ ہیں۔ اس خبر کا ذریعہ بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے سے جاری اعداد و شمار بتایا جارہا ہے۔ پہلی نظر میں یہ خبر انتہائی پریشان کن ہے کہ ایک دینی رہنما اور فقیہ کے اتنے اثاثے کیسے اور کیونکر ہوسکتے ہیں؟۔ اسی پریشانی اور تشویش کیوجہ سے صبح سے متعدد احباب رابطہ کرکے تفصیلات پوچھ اور اس پر چند معلومات جمع کر کے ارسال کرنے کا تقاضا کر چکے ہیں۔ اسی تقاضے کے پیشِ نظر اس حوالے سے چند معلومات آپ عزیزوں کے سامنے رکھتے ہیں۔

بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے نے 25 اپریل سنہ 2019 کو اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ کے ذریعے یہ بیان دیا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای کے کل اثاثے 2 کھرب امریکی ڈالر ہیں جبکہ ایران میں بہت سارے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ فیس بک کی اس پوسٹ کے مطابق کرپشن نے ایرانی نظام کو جکڑ رکھا ہے اور یہ نظام کے ہر حصے تک سرایت کر چکی ہے۔ بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے کی جانب سے آیت اللہ خامنہ ای پر اس الزام کی دلیل کیا تھی؟۔ اس کی بنیاد کس ادارے کی کونسی تحقیقات تھیں؟ عراق میں قائم سفارت خانے کی جانب سے ایک تیسرے ملک کے سربراہ کے بارے ایسے بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ وغیرہ وغیرہ جیسے سوالات سے فی الحال صرف نظر کرتے ہیں اور اس حوالے سے اسی قوی احتمال پر اکتفاء کرتے ہیں کہ یہ امریکی سفارت خانے کا ایک سیاسی بیان تھا جس کی بنیاد کسی قسم کی حقیقی تحقیقات نہیں تھیں۔ ورنہ وہ تحقیقات ضرور سامنے لائی جاتیں تاکہ اہل علم و دانش اس کی صحت پرکھ سکتے۔ عراق کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے اسی وقت امریکی سفارت خانے کی جانب سے آیت اللہ خامنہ ای پر اس الزام کو بے بنیاد اور دینی مرجعیت کی توہین قرار دیا اور اس کی شدید مذمت کی تھی۔

اس سے قبل دسمبر 2018 میں امریکی وزارت خارجہ نے اپنے ایک ٹوئٹر بیان کے ذریعے آیت اللہ خامنہ ای پر کھربوں ڈالر اثاثوں کا الزام لگایا تھا۔ قبل ازیں نومبر 2013 میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں کے عنوان سے 12 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں آیت اللہ خامنہ ای کے تحتِ اختیار ایک مالی اور فلاحی ادارے "ستاد اجرائی فرمان امام خمینی رح" کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس ادارے کے کل اثاثے 95 ارب ڈالر ہیں اور یہ ادارہ فردِ واحد آیت اللہ خامنہ ای کی ملکیت ہے۔ کیا یہ ادارہ آیت اللہ خامنہ ای کی ذاتی ملکیت ہے اور وہ اس سے ذاتی مفاد لیتے ہیں؟۔ اس سوال کے جواب کے لیے اس ادارے کی قانونی حیثیت اور عملی فعالیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ایرانی دستور کی دفعہ 49 کے مطابق "حکومت پر لازم ہے کہ وہ ربا، غصب، رشوت، فراڈ، چوری، اموات کے اموال کی فروخت سے حاصل، موقوفات کے غلط استعمال کے ذریعے ہتھیائی اور سرکاری عہدوں کے غلط استعمال سے کمائی جانے والی دولت کو لیکر اس کے حقدار تک پہنچائے اور اگر مال کا کوئی مالک نہ ہو تو وہ مال بیت المال کو منتقل ہو جائے گا۔ اور یہ کام قانونی تشریفات اور تحقیقات اور شرعی قانونی ثبوتوں کی بنا پر انجام دیا جائے گا۔" شیعہ مکتبِ فکر کے علمی نظریے کے مطابق بیت المال کے تصرف کا اختیار صرف حاکمِ شرع کو حاصل ہے اور ایرانی نظام حکومت میں ولی فقیہ کو حاکم شرع کی حیثیت حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 49 پر عملدرآمد کے لیے ایران کی منتخب پارلیمنٹ کے قانون کے مطابق چار طرح کے اموال ولی فقیہ سے متعلق ہیں۔ 1) حکمِ حکومتی سے حاصل کئے گئے اموال، 2) آئین کے آرٹیکل 49 پر عملدرآمد کے ذریعے حاصل ہونے والے اموال، 3) مجہول المالک، بلا صاحب اموال اور ارث بلا وارث، 4) خمس اور اہل ذمہ سے حاصل ہونے والے اموال۔

دنیا بھر کی طرح ایران میں بھی ان اموال کی جمع آوری اور مصرف کے لیے ایک قانونی میکانیزم ایجاد کیا گیا ہے۔ اس میکانیزم کو نافذ کرنے کے لیے جو ادارہ بنایا گیا ہے اس کا نام "ستاد اجرایی فرمان امام خمینی" ہے جو عہدے کے لحاظ سے سپریم لیڈر کے تحتِ اختیار ہے۔ اس ادارے کے سربراہ کو رہبر معظم انقلاب منصوب کرتے اور یہ ادارہ آئینی لحاظ سے انہی کی زیرِ نگرانی چلتا ہے۔ ستاد اجرایی فرمان امام خمینی دو مختلف فیلڈز معاشی اور فلاحی شعبوں میں فعالیت کرتا ہے۔ معاشی شعبوں میں فعالیت کے لیے ملکی قانون کے مطابق 37 کے قریب معاشی کمپنیاں بنائی گئی ہیں جو ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دواسازی، تعمیرات، بینکنگ و چند دیگر شعبوں میں فعالیت کرتیں اور ملکی قوانین کے مطابق حکومت کو ٹیکس ادا کرتیں ہیں۔ ان کمپنیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سینکڑوں فلاحی شعبوں میں خرچ کی جاتی ہے۔ ستاد اجرایی فرمان امام خمینی مالی امور کے لحاظ سے عدلیہ سے وابستہ شعبہ احتساب کے سامنے جبکہ اندرونی طور پر سپریم کورٹ کے چند (ر) ججوں پر مشتمل نگران کونسل کے سامنے جوابدہ ہے۔

ستادِ اجرایی فرمان امام خمینی (رح) سپریم لیڈر کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اور نہ ہی اب تک سپریم لیڈر کی جانب سے اس ستاد سے کوئی ذاتی مالی فائدہ اٹھانے کا ثبوت سامنے آیا ہے بلکہ یہ ستاد عہدے کے لحاظ سے سپریم لیڈر کے زیر اختیار ایک عام المنفعہ ادارہ ہے جس کے ذریعہ بیت المال میں شامل اموال کو ریگولائز کیا جاتا ہے۔ روئٹرز کی رپورٹ میں ایک عام المنفعہ ادارے کی ثروت کا حساب کتاب کر کے اسے آیت اللہ خامنہ ای کی ذاتی ملکیت قرار دئیے جانے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ ایسے ہی جیسے ہم کسی وزارت خانے کے مجموعی اثاثوں کا تخمینہ لگا کر انہیں وزیر کی ذاتی ملکیت قرار دے دیں۔ قاری کی توجہ حاصل کرنے اور رپورٹ کو معتبر دکھانے کے لیے بعض جگہوں پر حقیقت کا اعتراف بھی کیا گیا ہے بطور مثال اس رپورٹ میں ایک جگہ پر کہا گیا ہے کہ "ستادِ اجرایی فرمان امام خمینی رح کے اثاثوں سے آیت اللہ خامنہ ای کے ذاتی استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے" جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ اثاثے آیت اللہ خامنہ ای کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں کیونکہ اگر ذاتی ہوتے تو وہ ان کا ذاتی استعمال کرتے۔ اس رپورٹ کے تناقض اس رپورٹ کو ناقابلِ اعتبار بنانے کے لیے کافی ہیں۔ اسی طرح روئٹرز کی رپورٹ میں متعدد دوسری جگہوں پر بھی غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔

پاکستانی اخباروں کے لیے خبر جعل کرنے والے نے فیس بک کی ایک مبہم پوسٹ کو بنیاد بنا کر ایک دینی رہبر اور عالم تشیع کے مرجع تقلید پر الزام لگایا ہے جو باعث افسوس اور صحافتی اقدار کے خلاف ہے کہ ایک اہم بین الاقوامی شخصیت پر بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے اتنا بڑا الزام لگا دیا جائے۔ یہ خبر جعل کرنے والے کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں کی مالیت ملکی قرضوں سے دوگنا ہے یعنی بقول اس کے آیت اللہ خامنہ ای کے اثاثوں کی مالیت 2 کھرب ڈالر ہے تو ایران پر 1 کھرب ڈالر قرضہ ہونا چاہیے جبکہ بین الاقوامی اداروں کے آخری اعداد و شمار کے مطابق ایران کا ملکی قرضہ صرف 10 ارب ڈالر ہے۔ خبر بنانے والے نے یہاں بھی غلط بیانی سے کام لیا جو اس کی بدنیتی کی دلیل ہے۔

ایران سمیت ہر ریاست کے حکمران قابلِ تنقید اور قابل اعتراض ہیں۔ اس سے کفر صادق آتا ہے نہ کوئی بین الاقوامی یا قومی جرم سرزد ہوتا ہے لیکن کسی رہنما کے بارے خصوصاً ایک دینی رہبر اور فقیہ کے بارے بات کرتے ہوئے پیشہ وارانہ اصولوں اور اقدار کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لیکن پیسے اور شہرت کی لت نے ہمارے معاشرے سے اصولوں اور اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کا حقیقی اثاثہ ان کی علمی حیثیت، پرہیز گاری اور دنیا کے کروڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دل میں ان کی محبت اور ان سے عشق ہے جو کسی خبر رساں ادارے کے تخمینوں میں آسکتا ہے نہ چھینا جاسکتا ہے۔ کچی دیواروں کے دو کمروں کے گھر میں رہنے والا یہ درویش سید ریاست کا منتخب آئینی سربراہ ہونے کے باوجود خزانہ داری سے تنخواہ لیتا ہے نہ کسی قسم کی مراعات۔ ذاتی زندگی کے اخراجات وجوہات شرعیہ سے بھی نہیں لیتا۔ لگژری گاڑی، کوٹھی یا بنگلہ تو دور کی بات اس کے پاس تو ذاتی سائیکل بھی نہیں ہے۔ چند چاہنے والوں کی طرف سے بھیجے گئے ہدیہ جات سے ذاتی زندگی کے اخراجات چلاتا ہے۔ چاہنے والوں کی طرف سے ملنے والے قیمتی تحفے اگر مالیاتی حیثیت میں ہوں تو بیت المال کو اور نوادرات کی شکل میں ہوں تو امام علی موسیٰ ابن رضا علیہ السلام کے حرم کے میوزیم کو ہدیہ کر دیتا ہے۔ ناجانے اس بوڑھے درویش سید پر کھربوں ڈالر کے اثاثوں کا الزام لگا کر دشمن کس کے ذہن میں کیا ڈالنا چاہتا ہے جبکہ ان کی زندگی آئینے کی طرح شفاف اور واضح ہے جس کا کئی بار دشمن بھی اقرار کر چکے ہیں کہ آیت اللہ خامنہ ای کے دامن پر ذاتی زندگی کے حوالے سے کوئی داغ نہیں ہے۔

 

تحریر: ڈاکٹر سید ابن حسن

اسلام وایمان میں فرق

وحدت نیوز (آرٹیکل) دین اسلام پورے کا پورا امن وآشتی، الفت و محبت سے عبارت ہے جس کی واضح دلیل اسلام "سلم " اور "ایمان" امن سے نکلا ہے، اور دونوں کا لفظی مطلب امن اور سکون ہے۔ اسلام کے امن اور سلامتی کا دائرہ بہت وسیع اور ہمہ جھتی ہے۔ کیونکہ اسلام کے امن واشتی کا تصور اتنا وسیع ہے کہ انسان کو بدگمانی کی زرہ برابر اجازت نہیں ہے۔ اور بدگمانی کو صریحا حرام قرار دیا اور قانون دیا کہ فعل المسلم یحمل علی الصحۃ۔ کہ فعل مسلم کی توجیہ کرے مگر کوئی بدگمانی نہ کرے۔ یعنی اسلام کا تصور امن و سلامتی اتنا وسیع ہے کہ کسی مسلم کو اتنی بھی اجازت نہیں ہے کی کوئی کسی پر اپنے ذھن اور خیال میں بھی تہمت کے تیر پھینکے۔ جب اسلام نے تہمت کے تیر پھینکے کو حرام قرار دیا ہے تو ناحق کسی کی جان کوقتل کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ جوکچھ دنیا میں ہو رہا ہے یہ کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کی دنیامیں اسلام کے نام پر جو کچھ دہشت گردی اور انتہاء پسندی  ہو رہی ہے اس کا اسلام سے کوسوں دور کا بھی واسطہ نہیں ہے مگر استکباری، سامراجی اور عالم طاقتوں نے اسلام کے مقدس دین اور آئین سے دور رکھنے اور پوری دنیا پر تسلط اورحکومت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے جس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ اسلام تھا، کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔

یہاں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اور ایمان میں نمایاں فرق کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ:  اسلام کا ایک دائرہ ہے اور ایمان کا دوسرا دائرہ۔ اسلام ایک ظاہری شکل وصورت کا نام ہے جبکہ ایمان ایک باطنی کیفیت اور صورت کا نام ہے۔ اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے لئے اسلام کے بنیادی  عقائد کا اظہار زبان سے کافی ہوتا ہے۔ اور اسلمنا کہنا کافی ہوتا ہے جبکہ ایمان ایک باطنی کیفیت کا نام ہے جس کا اظہار صرف زبان سے ناکافی ہوتا ہے بلکہ: دل سے ایمان، زبان سے اقرار اور عمل سے اظہار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا اسلام سے مسلم بنتا ہے اور ایمان سے مومن بنتا ہے۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونا آسان ہے جبکہ دائرہ ایمان میں داخل ہونا سخت اور مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہر مومن مسلم ہوتا ہے مگر ہر مسلم مومن نہیں ہوتا ہے۔ جس طرح قران کریم  میں ارشاد ہوتا ہے کہ: قالت الاعراب امنا، اعراب نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں کہہ دیں تم ایمان نہیں لائے ہیں بلکہ کہہ دو   اسلمنا: ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے۔ (سورہ حجرات ۔) اس آیت سے اسلام اور ایمان کا فرق واض ہو رہا ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق مسلم ہونا نا کافی ہے بلکی مومن ہونا ضروری ہے ۔مسلم ہونے کے لئے ارکان خمسہ کا اظہار ضروری ہے جس طرح صحیح مسلم کی روایت ہے کہ :قال الرسول ص بنی الاسلام علی خمس :علی شہادۃ ان لاالہ الااللہ وان محمد اعبدہ ورسولہ و اقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وصوم رمضان وحج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔  اس حدیث مبارکہ میں اسلام کے پانچ ارکان بیان ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ :اسلام کی بنیاد کلمہ شہادتین، اقامت صلاۃ، زکات کی ادائیگی، ماہ رمضان کا روزہ اور حج بیت اللہ ہیں۔ کلمہ شہادتین سے مراد خدا کی وحدانیت کا اقرار اور رسول اللہ ص کی رسالت اور عبدیت کا اقرار ضروری ہے۔ اقامت صلاۃ کا مطلب پانچ اوقات کی نماز بھی ضروری ہے۔ اسی طرح صاحب نصاب پر زکات جبکہ صاحب  استطاعت (مستطیع) پر زندگی میں ایک بار حج واجب اور باربار حج کی سعادت حاصل کرنا سنت موکدہ اور مستحب عمل ہے۔

یہ تو ارکان اسلام ہیں۔ مگر قرآنی آیات میں اور احادیث مبارکہ میں ارکان ایمان مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف بیان ہوئے ہیں۔ جب ایمان کے بارے میں رسول اکرم ص سے پوچھا حدیث جبرئل ع میں تو آپ ص نے فرمایا کہ: ایمان دل سے معرفت ذبان سے اظہار اور اللہ، رسل، کتب، ملائکہ اور آخرت پر یقین سے عبارت ہے۔ اسی طرح  پوچھا گیا حضرت علی ع سے کہ :یا علی ما الایمان؟ توحضرت علی ع نے فرمایا کہ الایمان علی اربع دعائم :علی الصبروالیقین والعدل والجھاد :یعنی ایمان کے چارستون ہیں اور وہ صبر، یقین، عدل اور جھاد ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے چار چار اجزاء ہیں۔ صبر کے چار اجزاء شوق، شفق، زھد اور ترقب (انتظار موت) ہیں۔ جس نے جنت کا اشتیاق پیدا کیا اس نے خواہشات کو بھلا دیا اور جسے جہنم کا خوف حاصل ہوا اس نے محرمات سے اجتناب کیا۔دنیا میں زھد اختیار کرنے والا مصیبتوں کو ہلکا تصور کرتا ہے اور موت کا انتظار کرنے والا نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے۔ یقین کے چار اجزاء ہیں:ہوشیاری کی بصیرت، حکمت کی حقیقت رسی، حکمت کی نصیحت اور سابق بزرگوں کی سنت گویا یقین کی چار بنیادیں ہیں۔ اپنی ہر بات پر مکمل اعتماد رکھتا ہو۔ حقائق کو پہچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دیگر اقوام کے حالات سے عبرت حاصل کرے اور صالحین کے کردار پر عمل کرے ایسا نہیں ہے تو انسان جہل مرکب میں مبتلا ہے اور اس کا یقین فقط وھم و گمان ہے یقین نہیں ہے۔ عدل کے بھی چار اجزاء ہیں : تہہ تک پہونچ جانے والی سمجھ ، علم کی گہرائی، فیصلہ کی وضاحت اور عقل کی پائیداری۔ اسی طرح جھادکے بھی چار شعبے ہیں: امر با لمعروف، نہی عن المنکر، ہر مقام پرثبات قدم اور فاسقوں سے نفرت و عداوت۔ گویا جھاد کا انحصار بھی چار میدانوں پر ہے۔ امر با لمعروف کا میدان، نھی عن المنکر کا میدان ، قتال کا میدان اور فاسقوں سے نفرت و عداوت کا میدان۔ ان چاروں میدانوں میں جھاد کا حوصلہ نہیں ہے تو تنہا امر و نھی سے کوئی کام چلنے والا نہیں ہے اور نہ ایسا انسان واقعی مجاھد کہے جانے کے قابل ہے۔ اس کا مطب یہ ہوا کہ جھاد کے چاروں میدانوں میں اگر کوئی کام کرے تو جھاد کا حق ادا ہوگا وگرنہ تنہا امرونہی سے نہ کوئی مجاھد بنتا ہے اور نہ کوئی مبلغ اسلام۔

 میرا سوال ان مبلغان سے ہے جوصرف امر و نھی کو ہی جھاد اور اپنا فریضہ سمجھتے ہیں جبکہ باقی دو میدان کو مکمل نظر انداز کرتے ہیں ۔حقیقت  یہ ہے کی تنہا امرونہی میں کوئی مشکل اور پریشانی نہیں ہے جبکہ قتال اور فاسقوں سے نفرت و عداوت کے میدان میں جان کی بازی لگانا اور فاسقوں سے نفرت کے میدان میں ہر ایک کی دشمنی مول لینا پڑتا ہے نتیجتا مبلغان دین اور مفتیان اسلام تنہا امرونھی کرنے میں ہی اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ اور تنہا امرونھی کا فائدہ اتنا نہی ہوتا جتنا باقی دومیدانوں میں (قتال وفاسقوں سے نفرت)کے میدان کا فائدہ ہوتا ہے۔ قتال اور فاسقوں سے نفرت وعداوت کے میدان کوترک کرنے کی وجہ سے انسانی معاشروں میں فاسق وفاجرکی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔اور اگر فاسقوں  سے نفرت کے قرانی اور نبوی نسخے پر عالم اسلام کے مسلمان اور علمائے اسلام عمل پیرا ہوں تو انسانی معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔ اور انسانی معاشرے میں جرائم و کرائم میں نمایاں کمی واقع ہوجائے۔ وگرنہ صرف مزمتی بیان یا جمعے کے خطبوں میں تذکرہ کرنے سے نہ کوئی مجاھد بنتا ہے اور نہ کسی کی ذمہ داری ادا ہوتی ہے۔  مگر ان دو میدانوں میں کودنے کے لئے پیغبراکرم ص جیسا دل اور سینہ، اخلاص اور کردار چاہئے۔ حضرت علی ع جیسا حاکم اور مبلغ کی ضرورت ہے۔ پس اسلام اور ایمان میں یہ فرق ہے کہ اسلام ظاہری شکل اور زبانی اقرار کا نام ہے جبکہ ایمان دل کی ایک باطنی کیفیت کا نام ہے اسی وجہ سے حکیم امت نے فرمایا تھا:

زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
 دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

 اب ہر مسلمان کو دیکھنا ہوگا کہ وہ صرف مسلم ہے یا مومن بھی ہے۔


تحریر : شیخ فدا علی ذیشان
(سکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم ضلع سکردو)

تاریخ کے مجبور کردار

وحدت نیوز (آرٹیکل) گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں، غلطی جس کی بھی تھی، دونوں کے ڈرائیور آپس میں الجھے، ڈرائیور بھی کوئی ان پڑھ نہیں تھے، پڑھے لکھے تھے، دونوں نے ایک دوسرے کو زدوکوب کیا، لوگوں نے آکر چھڑوایا،  لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے کو مارنے کیلئے اچھل رہے تھے، ایسے واقعات ہم میں سے کون ہے جس نے نہ دیکھے ہونگے، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بچپن سے یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ اگر کو ئی حادثہ ہو جائے تو اس کے بعد فریقِ مخالف کے ساتھ کیسے برتاو کرنا چاہیے!؟

ہم بحیثیت قوم حادثہ ہوجانے کی صورت میں اتنا صبر نہیں کرسکتے کہ متعلقہ ادارے اس معاملے کو حل کریں، حادثے صرف سڑکوں پر نہیں ہوتے، بلکہ گھروں، تنظیموں اور پارٹیوں  میں بھی ہوجاتے ہیں، اتفاق سے وہ حادثے جو ہمارے گھروں، ، تنظیموں اور پارٹیوں  میں ہوتے ہیں وہ ٹریفک حادثات سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہوتے ہیں، اگر گھروں، تنظیموں اور پارٹیوں کے لوگ غیر متوقع  واقعات اور حادثات سے نمٹنا نہ جانتے ہوں  تو  بعض اوقات کسی کی ایک غلطی سے گھر، تنظیم یا پارٹی کا شیرازہ ہی بکھر جاتا ہے۔

اسی طرح دی کی دنیا میں بھی حادثات رونما ہوتے ہیں، بعض اوقات ایک اچھا خاصا معتبر انسان  بھی دین کے اساسی اور بنیادی عقائد کے بارے میں ایسی بات کرجاتا ہے کہ جس سے عوام النّاس گمراہ ہو جاتے ہیں۔ گمراہی کو معاشرہ نہیں روک سکتا، چونکہ ہمارا معاشرہ ابھی تک ہمیں گاڑی کی ٹکر کے بعد جو کرنا چاہیے وہ بھی نہیں سکھا سکا وہ ہمیں عقائد کیا سکھا ئے گا۔

لوگوں کو گمراہی سے بچانا اور انہیں درست عقائد سمجھانا یہ  معاشرے کا نہیں بلکہ خواص یعنی متخصصین کا کام ہے۔ ایک آدمی جس نے علمِ کلام اور عقائد کو تخصص کے ساتھ حاصل نہیں کیا تو یہ واضح ہے کہ وہ عقیدے کی دنیا میں ایک غیر ماہر شخص ہےاور غیر ماہر ہونے کے لحاظ سے ایک نومولود اور ستر سال کے آدمی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔دونوں غیرماہر ہونے کے اعتبار سے ایک جیسے ہوتے ہیں، بلکہ عقائد کے سلسلے میں بالکل کورے جاہل کی نسبت ایک نیم حکیم زیادہ مضر اور مہلک ہوتا ہے۔

جب ہم عقیدے کی منبر پر کسی غیر متخصص اور غیر ماہر کو بٹھا دیں گے تو وہ اپنی عدم مہارت کے باعث اپنی محبوب شخصیات کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا کہ غلو، شرک اور کفر کا مرتکب ہوگا اور اپنی ناپسندیدہ شخصیات کے بارے میں ایسی گالی گلوچ اور لعن طعن سے کام لے گا کہ دین کے ساسی حکم وحدتِ اسلامی کو ہی پامال کر دے گا۔

ایسا شخص چونکہ مطلوبہ علم میں مہارت نہیں رکھتا ، اس لئے وہ غلو اورشرک کی حدوں کو نہیں پہچانتا اور اسی وجہ سے وہ اکتلافاتی ابحاث میں بھی کسی حدومرز کی شناخت اور منطقی و کلامی استدلال سے عاری ہوتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اب علوم اس حد تک زیادہ ہو چکے ہیں کہ کسی بھی علم میں متخصص کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔اس دور میں قرآن مجید کی یہ آیہ مجیدہ ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ شدت کے ساتھ ہمیں جھنجوڑ رہی ہے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔[1]

البتہ یہ ایک عقلی مسئلہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں  ایک باشعور اور عقلمند انسان اپنے دل  کے آپریشن کیلئے کسی ان پڑھ یا نیم حکیم کے پاس نہیں جاتا چونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی زندگی ختم ہو جائے گی۔جسمانی زندگی کے حوالے سے ہمارا معاشرہ اتنا بالغ ہوچکا ہے کہ وہ کسی غیر متخصص یا نیم حکیم سے علاج کروانے کو قبیح سمجھتا ہے۔لیکن  ابھی تک ہمارا معاشرہ  اس بات کو نہیں سمجھا کہ  ایک مسلمان کیلئے  جسم کی زندگی کی طرح اس کے عقیدے کی زندگی بھی ضروری ہے۔

جس طرح انسان کے دل کے ساتھ اگر کوئی نالائق آدمی چھیڑ چھاڑ کرے تو اس سے بدن کی موت واقع ہو جاتی ہے اسی طرح اگر مسلمان کے عقیدے کے ساتھ کوئی ان پڑھ چھیڑخانی کرے تو  اس سے عقیدے کی موت واقع ہو جاتی ہے جس سے انسان مشرک اور کافر ہوجاتا ہے۔

آج اسلامی معاشرے میں کو غلو، کفر، شرک ،مقصریت اور ناصبیت کا سکہ چل رہا ہے ، اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ منبر پر ان پڑھ اور نیم حکیم حضرات کا غلبہ ہے، اور یہ  ایک حقیقت ہے کہ اہلِ زر اپنی ہوا و ہوس کی تسکین کیلئے جید اور ماہر علمائے کرام کو نہیں خرید سکتے بلکہ وہ غیرمتخصص اور نیم حکیم  افراد کو خرید لیتے ہیں۔ اورجب بِکے ہوئے، نیم حکیم منبر پر بیٹھتے ہیں تو وہ غلو اور شرک کوغلط سمجھتے ہوئے بھی اس کا ظاہری طور پر دفاع کرتے ہیں چونکہ یہ ان کی مجبوری ہے۔

یہی تو تاریخ کے وہ مجبور کردار ہیں، جن کے بارے میں امیرالمومنین ؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے (زبردستى ) اپنا نام عالم ركھ ليا ہے حالانكہ وہ عالم نہيں ہے، اس نے جاہلوں اور گمراہوں سے جہالتوں اور گمراہيوں كو بٹور ليا ہے ،اس نے لوگوں كے لئے مكر و فريب كے پھندے اور غلط سلط باتوں كے جال بچھا ركھے ہيں، قرآن كو اپنى رائے  اورحق كو اپنى خواہشوں کے مطابق بیان کرتا ہے ۔

یہ بڑے سے بڑے جرائم كا خوف لوگوں كے دلوں سے نكال ديتا ہے اور كبيرہ گناہوں كى اہميت كو كم كرتا ہے ۔كہتا تو يہ ہے كہ ميں شبہات ميں توقف كرتا  ہوں حالانكہ انہيں ميں پڑا ہوا ہے۔

اس كا کہنايہ ہے كہ ميں بدعتوں سے الگ تھلگ رہتا ہوں حالانكہ انہى ميں اس كا اٹھنا بيٹھنا ہے ۔صورت تو اس كى انسانوں كى سى ہے اور دل حيوانوں كا سا ۔نہ اسے ہدايت كا دروازہ معلوم ہے كہ وہاں تک آسكے اور نہ گمراہى كا دروازہ پہچانتا ہے كہ اس سے اپنا رخ موڑ سكے۔يہ تو زندوں ميں (چلتى پھرتى ) لاش ہے۔[2]

 
تحریر: نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.


 

[1] هَلْ یسْتَوی الذینَ یعْلَمُونَ والذینَ لَا یعْلَمُونَ۔زمر ۹

[2] نهج البلاغه ، خطبه نمبر ۸۵ ، ص:

Page 5 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree