وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک خاتون سہمی ہوئی ہے، ویڈیوکلپ میں وہ کہہ رہی ہے کہ میں ڈر رہی ہوں، وہ ڈرتے ہوئے اربعین واک کی طرف جاتی ہے،اس کا کہنا ہے کہ مجھے محتاط ہوکر ریکارڈنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ہم یہاں ان الزامات کی حقیقت جاننے آئے ہیں کہ چند مذہبی شخصیات مذہب کی آڑ میں عورتوں کو  جسم فروشی کیلئے تیار کر رہے ہیں،حتّی کہ چند پر دلالی کا بھی الزام ہے،  اس کے بعد  پسِ منظر میں کربلا میں لوگوں کے ہجوم کامنظر اور سکرین پر یہ عبارت لکھی ہوئی نظر آتی ہے کہ “شیعہ اسلام کے سب سے مقدس مقامات پر ہم نے کچھ علما کو اختیارات کا ناجائز استعمال اور قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے پایا۔ وہ کم عمر لڑکیوں سے نکاحِ متعہ کرانے کے پیسے لیتے رہے،  یہاں پر شادی کے نام پر سیکس پر سخت پابندی سے بچنے کیلئے نکاح متعہ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پسِ منظر میں کربلا کے مختلف گلی کوچوں میں لوگوں کو چلتے پھرتے دکھایاجاتا ہے اور ایک شخص مدہم سی آواز میں کسی سے عربی میں بات چیت کرتا ہے جسے سکرین پر ان الفاظ میں لکھا ہوا دکھایاجاتا ہے،اس عالم سے ایک ۱۳ سالہ لڑکی سے نکاحِ متعہ کے بارے میں پوچھا گیا،بہتر ہے ایک دن کیلئے کر لیں، اگرآپ بھٹک جائیں ۔۔۔۔

مذکورہ ویڈیو کے علاوہ بھی استعماری نشریاتی داروں کی کارستانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔یہ انسانوں کے درمیان  تخریب کا کام تعمیر کے نام پر، گمراہی کا کام آگاہی کے نام پر، اختلافات کا کام تحقیق کے نام پرانجام دیتے ہیں۔مذکورہ بالا ویڈیو میں خاتون کو اسلامی حجاب میں دکھایا گیا ہے، یعنی جیسا دیس ویسا بھیس جوکہ مستشرقین کا طریقہ واردات ہے، اس کے بعد جو کچھ وہاں لوگوں سے پوچھا گیا اور سکرین پرلکھا ہوا دکھایا گیا اس کا اربعین واک سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ نکاحِ متعہ کو اس کی شرائط کے ساتھ فقہ جعفری میں جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے اس کو آپ چاہے کسی شیعہ عالمِ دین سے سے پاکستان میں پوچھیں یا امریکہ میں، سعودی عرب میں پوچھیں یا عراق میں وہ اس کا ایک ہی جواب دے گا کہ ہاں متعہ کرنا جائز ہے۔اب ان سوالات کو چہلمِ امام حسینؑ کے موقع پر کربلا میں پکچرائز کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ چہلم کے موقع پر لوگ جنسی تسکین کیلئے کربلا میں جمع ہوتے ہیں، ساتھ ہی اس جھوٹ کو گاڑھا کرنے کیلئےا یک لڑکی کے کردار کوبھی فلمایا گیا کہ وہ کہہ رہی ہے کہ  عقدِ متعہ سے اس کے خلاف سوئے استفاد کیاجاتا ہے۔

عقل و فہم رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ نکاح چاہے دائمی ہو یا عقدِ متعہ دونوں سے سوئے استفادہ ممکن ہے، اور اس سوئے استفادے کو  کسی بھی لحاظ سے بھی امام حسینؑ کے چہلم کے ساتھ  ایک خاموش ربط دینا استعمار کی ایک مکارانہ چال کے سوا اور کچھ  بھی نہیں۔

بی بی سی کی اس چال کو ہم مندرجہ زیل مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً حج کے تقدس کو پامال کرنے کیلئے،  کوئی مستشرق سعودی عرب جائے،  وہاں کے نائٹ کلبوں، عیاشی کے مراکز  اور وہاں ہونے والی جنسی بے راہروی کے بارے میں چند شاکی افراد سے بات چیت کر کے ایسا کلپ تیار کرے جس کی بیک گراونڈ میں مکے اور مدینے کی سڑکیں، خانہ کعبہ، مسجد نبوی، حاجی لباسِ احرام میں طواف کرتے ہوئےاور وہاں کے  باشندےشکایات کرتےدکھائی دیں۔جس سے غیر محسوس انداز  میں انسان کے لاشعورمیں یہ پیغام پہنچ رہا ہو  کہ نعوذباللہ حج کے موقع پر یہ سب کچھ ہوتا ہے، حالانکہ حقیقت میں ان نائٹ کلبوں، عیاشی کے مراکز   اور جنسی بے راہروی کا حاجیوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔

چہلمِ امام حسینؑ کے موقعے پر بی بی سی کا یہ پروپیگنڈہ بالکل ویسا ہی ہے کہ جیساکہ  ہمارے بچپن میں مائیں اپنے بچوں کو دس محرم کو بازار نہیں جانے دیتی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ اس دن شیعہ حضرات لوگوں کا خون نکال کر پیتے ہیں، لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں، تھوڑے بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ شیعوں کا جلوس دیکھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے، پھر پتہ چلا کہ شیعہ نمازِ جنازہ کی پانچویں تکبیر میں میت پر لعنت بھیجتے ہیں، پھر پتہ چلا کہ شیعوں کے گھروں میں چالیس پاروں کا قرآن ہے اور ان کا قرآن اہلِ سنت کے قرآن کے علاوہ ہے، صرف یہی نہیں بلکہ  بعض لوگ بی بی سی کی طرح کہتے تھے  کہ ہم نے خود امام بارگاہوں میں جاکر دیکھا ہے کہ  شامِ غریباں کو شیعہ مردوخواتین باہم مخلوط ہوکر جنسی اختلاط کرتے ہیں۔شامِ  غریباں سے اربعینِ امام حسینؑ تک ہر طرف  وہی  پست فکر اور غلیظ پروپیگنڈہ ہے ۔یہ پروپیگنڈہ اس لئے کیا جا رہا ہے چونکہ اس وقت امریکہ و یورپ کے تھنک ٹینکس  ایرانی حکومت کی  بصیرت اور مقاومت سے  خوفزدہ ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کی سیاسی و مذہبی طاقت شیعت کا علمی و دینی مرکز ہونے کی وجہ سے ہےاور وہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ  شیعیت کی طاقت کااظہار چہلم امام حسینؑ کے موقع پر کربلا میں ہوتا ہے۔چونکہ ساری دنیا کے لوگ حضرت امام خمینیؒ، شیعہ مراجع کرام، ولی فقیہ سید علی خامنہ ای اور حزب اللہ لبنان کی برجستہ شخصیات خصوصا سید حسن نصراللہ کی وجہ سے شیعہ علما کی بصیرت، پرہیزگاری اور دوراندیشی سے بھی متاثر ہیں لہذا ایسے کلپس میں شیعہ علما کے چہرے کو بھی منفی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

استعمار یہ بھی جانتا ہے کہ  چہلمِ امام حسینؑ صرف شیعیت کی طاقت کا مظہر نہیں بلکہ  پورے عالم اسلام کی وحدت کا مظہر ہے اور اس وقت شیعہ علما صرف اہل تشیع کے دفاع کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ پورے عالمِ انسانیت اور خصوصا مظلوم اہل سنت کی بقا  اور حقوق کی جنگ لڑنے میں مشغول ہیں، آج بھی وہ کشمیر ہو یا فلسطین  یہ ایران کے شیعہ علما ہی ہیں جنہوں نے  آج تک ان مظلوموں کا ساتھ دینے کا حق ادا کیا ہے اور سید حسن نصراللہ نے  دنیا میں  صرف شیعوں کی ہی نہیں بلکہ سارے عالمِ اسلام  کی خاص کر عربوں کی آبرو قائم رکھی ہوئی ہے۔

بہر حال جو استعماری آلہ کاروں کا کام ہے اسے تو ہم نہیں روک سکتے البتہ ہمیں اپنے طور پر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسےچہلمِ امام حسینؑ کے موقع پر ہونے والے اس عظیم اجتماع کو عالمِ اسلام کیلئے مفید بنا سکتے ہیں!؟ ہم کیسے اس اجتماع میں شریک ہونے والے لاکھوں مسلمانوں کو کشمیر اور فلسطین جیسے اہم مسائل کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں!؟ ہم کیسے اس اجتماع  سےتمام اسلامی ممالک پاکستان، ایران، سعودی عرب، افغانستان، عرب امارات۔۔۔ کے درمیان وحدت اور بھائی چارے کیلئے استفادہ کر سکتے ہیں اور ہم کیسے اس اجتماع کی وساطت سے تمام اسلامی مذاہب مالکی، حنفی، شافعی، جعفری حتّی کہ سلفی ، دیوبندی، اہلحدیث کے درمیان  موجود غلط فہمیوں کو ختم کر سکتے ہیں!؟

جب استعمار ہمارے  اہم ایّام کے موقع پر ہمارے  مذہبی و فقہی اختلافات کو ہمارے ہی خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرتا ہے  تو ہمیں بھی ان ایّام میں اپنے مذہبی و فقہی مشترکات کو استعمارکے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرنا چاہیے۔

آخر میں ہم اپنے قارئین کی اطلاع کیلئے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ چہلمِ امام حسینؑ کے خلاف  صرف استعماری نشریاتی اداروں نے ہی ان ایّام میں مہم نہیں چلائی بلکہ  انہی دنوں میں عراق میں مرجع عالیقدر آیت اللہ سیستانی   اور ایران میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی  کے قتل کے منصوبے کو بھی  عملی کرنے کی کوشش کی گئی اس کے علاوہ ان ایّام میں عراق میں عوامی تصادم اور خونریز فسادات کی کوشش بھی کی گئی ، اگرچہ عراق میں ہونے والے مظاہروں کا سبب اقتصادی ناہمواری اور سیاسی خلفشار ہی ہے لیکن انہی ایّام میں ان فسادات کا شدت سے رونما ہونا ،  اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کیلئے ان فسادات کو  میڈیا میں بڑھا چڑھا کر کوریج دینا، یہ سب چیزیں پسِ پردہ استعماری  محرکین کا پتہ دیتی ہیں۔

اگلی قسط میں ہم ان شااللہ ان وجوہات کو بیان کریں گے جن کی وجہ سے بی بی سی سمیت استعمار کے تمام نشریاتی اور جاسوسی ادارے  اربعین واک سے خوفزدہ ہیں۔

 

تحریر: نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)عطیہ سعد بن جنادہ عوفی جو بعض تاریخی کتابوں کے مطابق 36سے 40 ہجری کے درمیان کوفہ میں پیدا ہوئے۔ بعض تحقیقات کے مطابق چونکہ ان کی پرورش کوفہ میں ہوئی اس لئے انھیں کوفی کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض کے مطابق وہ کوفہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کا والد سعد بن جنادہ  کوفہ کا رہنے والا نہیں تھا۔ عطیہ عرب کے معروف و مشہور  بکالی خاندان میں پیدا ہوا ۔ بکالی خاندان قبیلہ بنی عوف بن امر القیس  سے تعلق رکھتے تھےاور عرب قبائل میں اس قبیلہ کوایک خاص مقام و منزلت حاصل تھا چونکہ وہ بنی عوف قبیلے سے تعلق رکھتاتھا ، اس لئے اسےعطیہ عوفی کہا جاتاہے۔1۔ جنادہ مشہور روایوں میں سے ہیں جنہوں نے بہت ساری روایتوں کو نقل کیا ہے۔وہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امام علی علیہ السلام کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے اورآپ کے ساتھ بہت سے جنگوں  میں شرکت کی اوراس بارے میں بہت سی روایات  ان سےنقل ہوئی ہیں۔

مشہور مورخ ابن سعد کہتے ہیں: سعد بن محمد ابن الحسن، عطیہ کا بیٹا نقل کرتا ہے: سعد بن جنادہ کوفہ میں امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کہا:یا امیر المومنین علیہ السلام: مجھے ایک بیٹا پیدا ہوا ہے ، آپ اس کے لئے کوئی مناسب نام انتخاب کریں۔ امام نے فرمایا: یہ بیٹا اللہ تعالی کی طرف سے ایک عطا اور ہدیہ ہے ۔ پس وہ عطیہ کے نام سے مشہور ہوا اس کی والدہ اہل روم تھیں۔2۔
زیارۃ اربعین  کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے  کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: مومن کی نشانیوں میں سے ایک زیارۃ اربعین  کی تلاوت کرناہے۔3۔جب بھی  زیارت اربعین اورچہلم امام حسین علیہ السلام  کا ذکر ہو  وہاں حتما ان دو ہستیوں یعنی جابر اور عطیہ کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہستیاں  اسلامی تاریخ کی معروف شخصیات میں سے ہیں۔ لیکن جو چیز انہیں دوسری شخصیات اورافراد سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا شمار امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائروںمیں ہوتا ہے۔

بعض  افراد عطیہ عوفی کوجابر بن عبد اللہ انصاری  کا غلام تصور کرتے ہیں  جبکہ یہ بات صحیح نہیں ہےکیونکہ کسی بھی مستند منابع میں اس بات کا ذکر نہیں ہوا ہے بلکہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بزرگ صحابی کا قابل اعتماد شاگرد رہا ہے ۔عطیہ عوفی اور جابر بن عبد اللہ انصاری 20 صفر61ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہونے والے پہلے زائر تھے جو شہدائے کربلا کے چہلم  کے موقع پر   کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی مرقد پر پہنچے ۔

عطیہ عوفی بہت بڑے  عالم ،محدث، مفسر اور سماجی اور سیاسی معاملات میں متحرک مسلمان تھے۔ عطیہ تابعین میں سے تھے جنہوں نے رسول خدا کو درک نہیں کیا وہ امام علی علیہ السلام کے اصحاب اور ان کے بعد باقی ائمہ علیہم السلام کے بھی اصحاب تھے انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کے زمانے کو بھی درک کیا۔عطیہ نے اپنے استاد سے حدیث غدیر کے علاوہ زیارت اربعین کو بھی نقل کیا ہے۔ جابر بن عبد اللہ انصاری پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے  قریبی اصحاب میں سے ہیں جنہیں رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ امام باقر علیہ السلام کو ان کا سلام پیش کرنا ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو یہ بشارت دی  تھی کہ وہ زندہ رہیں گے اور پانچویں امام سے ملاقات کریں گے۔عطیہ عوفی نے  برجستہ استادوں سے تربیت حاصل کی جن میں سب سے مشہور جابر بن عبد اللہ انصاری اور عبد اللہ ابن عباس ہیں جبکہ بعض کتابوں میں ان کے آٹھ استا تید کا  نام ذکر کیا ہے۔عطیہ نے پانچ جلدوں پر مشتمل قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے۔4

عطیہ اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے عالم دین تھےاور علمی اعتبار سے ان کو اتنا مقام حاصل تھا کہ اہل سنت علماء بھی ان پر اعتماد کرتے تھے ۔ عطیہ کے علمی آثاراہل سنت علماء کے درمیان بھی معتبر  تھے  خاص کر طبری اورخطیب بغدادی جیسی عظیم شخصیات نے اس عظیم عالم کے علمی آثار سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ عطیہ کو قرآن اور علوم قرآنی سے اس قدر محبت تھی کہ خود  ایک روایت میں نقل کرتا ہے: میں نے   ابن عباس سے قرآن پاک کی تین دورہ تفسیر سیکھا ہے  اور سترمرتبہ قرآن اس کے پاس پڑھا  ہے۔5۔

عطیہ نے بھی بعض افراد کی  تربیت کی،جن میں سے بعض کے نام کتاب تھذیب التھذیب میں ذکرہے۔ اس کےمہم ترین شاگردوں میں مشہورراوی اعمش  اور اس کے  اپنےتین بچے حسن ، عمرو اور علی شامل ہیں۔6۔

عطیہ  عالم ،مفسر قرآن اور ایک عظیم محدث ہونے کے علاوہ ایک سماجی اور سیاسی کارکن بھی تھے جیسے:
1۔عطیہ نے حدیث ثقلین،حدیث ائمہ اثنا عشر،حدیث سفینہ نوح حدیث غدیر ،حدیث منزلت ، حدیث سد الابواب وغیرہ اوروہ احادیث جو سیاسی اعتبار سے بھی زیادہ اہم  سمجھے جاتے تھے، نقل کیا ہے اسی طرح آیہ تطہیر کی تفسیر بیان کی ہے۔

2۔  عطیہ جابر کے ساتھ  اس انتہائی حساس اور خطرناک صورتحال میں  امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ، کیوں کہ امام حسین کی علیہ السلام شہادت کے بعد  یزید اپنے آپ کو  فاتح کربلاسمجھتاتھا اور اپنے ظلم و ستم اورجنایتوں کے لئے کسی کو مانع نہیں سمجھتا تھا  اور ہمیشہ اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے ذریعہ، قیام عاشورا کو اپنی جائز حکومت کے خلاف بغاوت قرار دیتاتھا۔ اس صورت حال میں جناب جابر اور جناب عطیہ کا  مدینہ سےامام حسین علیہ السلام کی زیارت کا قصد کر کے کربلاجاناور اس مقدس مرقد پر عزادری کرنا حقیقت میں آپ کے  حقیقی فتح کی ترجمانی کرناتھا۔

3۔عطیہ قیام مختار میں شریک ہوئے اور مختار کے حکم پر عبد اللہ بن زبیر کے ہاتھوں سے بنی ہاشم اور محمد بن حنفیہ کو بچانے کے لئے  ابو عبد اللہ  جدلی کی سربراہی میں مکہ روانہ ہوگئے۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچے تو ابوعبداللہ جدلی نے عطیہ کو آٹھ سو فوجیوں کی کمان دے کر شہر  روانہ کیا۔  یہ گروہ مکہ میں تکبیر کی آواز بلند کرتے مکہ میں وار ہوگئے ۔ عبد اللہ بن زبیر نے جب یہ آوازسنا تو بھاگ کر دار الندوہ  میں داخل ہو گئے ۔ بعض کے مطابق عبد اللہ بن زبیرنے کعبہ کےغلاف سے پکڑ کر پناہ لی اور کہا کہ میں خدا کی پناہ میں ہوں۔

عطیہ کہتے ہیں: ہم ابن عباس اور ابن حنفیہ کے پاس گئے ، جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھروں میں قید تھے جن کے چاروں طرف اس طرح سے لکڑی کی دیواریں بنائی گئی تھی کہ اگر کوئی اسے آگ لگا دے تو  وہ سب جل جائیں۔ ان افرادکو بچانے کے بعد ہم نے ابن عباس اور محمد بن حنفیہ سے اجازت طلب کی کہ وہ عبداللہ بن زبیر  کے نجس وجود کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے اجازت دیں لیکن انہوں نے خانہ کعبہ کے وقار کی وجہ سے اس  بات کی اجازت نہیں دی۔7

4۔ تاریخ ان کی سیاسی جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ تاریخی منابع  میں  ان کے بارے میں کچھ اس طرح ذکر ہیں:کوفہ میں ظالم و جابر حکومتوں کے خلاف بے شمار تحریکیں وجود میں آئی ہیں جن میں سے ایک عبدالرحمٰن ابن محمد اشعث کی تحریک تھی۔ یہ تحریک خراسان سے شروع ہوئی تھی ، اور عراق کے کچھ بڑے دانشمند اور قاریان ، جیسے سعید بن جبیر ، ابراہیم نخعی  اور عطیہ عوفی بھی عبدالرحمٰن کے ساتھ اس تحریک میں شامل تھے۔ جب عبدالرحمٰن کو شکست ہوئی اور اسے گرفتار کرلیا گیا تو عطیہ فارس بھاگ جانے میں کامیاب ہوا۔ حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم ثقفی کو ایک خط لکھا اور  یہ حکم دیا کہ وہ عطیہ کو  اپنے پاس بلا لیں اور اسے کہ دیں کہ وہ علی بن ابی طالب پر لعنت بھیجیں۔ اگراس نے اس عمل کو انجام دیا تو ٹھیک ہوا ورنہ  اسے چار سو کوڑے مار نا اور اس کے سر کے بال اورداڑھی کومنڈوانا۔

چنانچہ اس نے عطیہ کو طلب کیا اور حجاج کے خط کو پڑھ کراسے سنایا۔عطیہ نے اس کی اطاعت  سے انکار کردیا ، اور اس نے بھی حجاج کے حکم پر عمل کیا اور اس پر چار سو کوڑے مارا اور اس  کے سرکے بال اورداڑھی کو منڈوا لیا ۔ جب قتیبہ بن مسلم نے خراسان کی گورنری سنبھالی تو ، عطیہ اس کے پاس چلا گیا اور خراسان میں رہا یہاں تک کہ عمر بن ہبیرہ نے عراقی حکومت کا اقتدار سنبھال لیا۔ اس وقت ، عطیہ نے اسے ایک خط لکھ کر کوفہ واپس آنے کا مطالبہ کیا تو ہبیرا نے اسے کوفہ  آنےکی اجازت دی۔ عطیہ کوفہ واپس آئے اور 111 ہجری میں وفات پانے تک کوفہ میں مقیم رہے۔8

عطیہ سےمنقول روایات:
1۔ حدیث غدیر:
ابن مغازلی نے اپنی کتاب میں عطیہ عوفی سے روایت  نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عطیہ نے کہا:میں نے ابن ابی اوفی کو اس کے گھر کے پاس  دیکھا جب وہ نابینا ہو چکا تھا۔ میں نے اس سے حدیث غدیر کے بارے میں پوچھا  تو  اس نے کہا: اے کوفہ کے رہنے والو :کس قدر تم بد بخت ہو ۔وائے تمہاری  اس حالت پر۔ میں نے کہا: خدا تمہارے کام کو آسان اوراصلاح کرے ، میں کوفہ سے نہیں ہوں اور  تجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ میں کوفہ کا رہنے والانہیں ہوں۔ اس نے پوچھا: تمہاری مراد کونسی حدیث ہے؟ میں نے کہا  حدیث غدیر کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روز غدیر علی ابن علی طالب کے بارے میں فرمایا تھا۔وہ کہتا ہے کہ حضور  اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خم کے میدان میں غدیر کے دن علی ابن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے اس طرح مخاطب ہوا:

 اےلوگو! کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنین سے زیادہ  ان کے جسموں پر تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں اے رسول خدا۔ اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فرمایا: جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی ابن ابی طالب بھی مولا ہے ۔9۔علامہ مجلسی لکھتے ہیں:حافظ ابونعیم نے اپنی کتاب (مانزل من القرآن فی علی )میں اعمش (عطیہ عوفی  کا شاگرد)سے اور اعمش، عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ اس آیہ شریفہ (یا آیھا الرسول بلغ  ما انزل الیک من ربک)10۔کی شان نزول کے بارے میں کہتا ہے کہ : (نزلت ہذہ الآیہ علی رسول اللہ فی علی بن  ابی طالب) یہ علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ 11

2۔خطبہ فدک: عطیہ کا دوسرا لازوال کام حضرت زہراسلام اللہ علیہا کاخطبہ فدکیہ ہے۔ آپ نے یہ خطبہ مسجد نبوی میں دیا تھا۔ عطیہ
نے اسے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے فرزند عبد اللہ بن مثنی کو نقل کیا  اور اس  طرح  یہ خطبہ ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ایک یاد گار کے طور پر ثبت ہوا۔

3۔حدیث زیارت اربعین
طبری  اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی  علیہ السلام  کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادرپہنا ، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اوراپنے آپ کو  اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم  اٹھانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ حسین ابن علی کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابرنے کہا : میرا ہاتھ قبر حسین پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسین پر رکھا  ۔ اس نے قبر حسین ابنی علی کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا ۔ جب  میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں  آیا۔

 اس نے تین مرتبہ یا حسین کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبہ)کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھرجابر خود جواب دیتا ہے "آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس کو جسم سے جدا کیا گیا ہے ؟میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا  کے فرزند ہیں اورآپ اس طرح کیوں نہ ہو ، کیونکہ خدا کے رسول  نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے  اگرچہ مومنین آپ  کی شہادت سے محزون  ہیں ۔خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسول خدا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو  ایسی  شہادت نصیب ہوئی  جیسےیحیی بن زکریا  کو نصیب ہوا تھا۔

اس کے بعد جابر نے سید الشہداء  علیہ السلام کے اطراف میں موجود  قبروں کی طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو آپ  لوگوں پر اے پاکیزہ   ہستیاں کہ آپ  لوگوں نے حسین  ابن علی علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰ ۃ ادا کیا اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے  حضرت محمد مصطفی کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا ہم  بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں ۔

عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے پوچھا: ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوسکتے ہیں  جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے ۔نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لیا ہے  نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہےلیکن  ان لوگوں کےسروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے۔ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اوران کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں ؟جابر نے مجھے جواب دیا  اےعطیہ! میں نے اپنے محبوب رسول خدا سے  یہ کہتے ہوئے سنا ہےکہ اگرکوئی  کسی گروہ کو چاہتا  ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور  ہوں گے ، اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نےمحمد مصطفی کو مبعوث کیا  ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کو ارادہ  بھی  وہی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کا تھا ۔پھر اس  کے بعد جابرنے کہا:میرا ہاتھ پکڑ و اور مجھے  کوفہ کی طرف لے چلو۔

جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے:  اے عطیہ! کیا  تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں ۔ اے عطیہ! آل محمد کے چاہنے والوں سے محبت کرو  جب تک کہ وہ آل محمد سے محبت  اور دوستی کرتے ہیں۔  آل محمد کے دشمنوں سے عداوت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے دشمنی کرتےہیں گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہواور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمد کےچاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آجاو کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کی  بوجھ کو برداشت نہ کر سکے تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمد کی محبت کی وجہ  سےمضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک  آل محمد کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔ 12


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوالہ جات:
1۔سفینۃ البحار،ج۶،ص۲۹۶۔
2۔شيخ عباس قمي، سفینۃ البحار، ج 6، ص 296 بہ نقل از تنقیح المقال۔
3۔وسائل الشیعہ جلد10، صفحہ 373۔
4۔ شيخ عباس قمي، سفینۃ البحار، ج 6، ص 296 بہ نقل از تنقیح المقال۔
5۔ریحانۃ الادب،ج۴،ص۲۱۸۔
6۔ شيخ عباس قمي، سفینۃ البحار، ج 6، ص 296 بہ نقل از تنقیح المقال۔
7۔ الطبقات الکبری، ج‌۵، ص:۷۵۔
8۔ شيخ عباس قمي، سفینۃالبحار، ج 6، ص 296 بہ نقل از تنقیح المقال۔
9۔ محمدباقر مجلسي، بحارالانوار، ج 37، ص 185 بہ نقل از الطرائف۔
10۔ مائدہ، آیۃ 67۔
11۔بحارالانوار، ج 37، ص 190۔
12۔عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارۃ المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،‌ح 62۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) مسئلہ فلسطین کی ابتداء کو آئندہ ماہ ایک سو دو برس مکم ہو جائیں گے۔ تاریخ میں عام طور پر مسئلہ فلسطین کی ابتداء 1948ء سے کی جاتی ہے جب غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا ناپاک وجود قیام عمل میں آیا تھا تاہم اگر دقیق نگاہ سے ا س مسئلہ کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کی ابتداء تو اسی دن ہو گئی تھی جب بوڑھے استعمار برطانیہ کے اعلیٰ عہدیدارجیمز بالفور نے ایک اعلان نامہ کے ذریعہ فلسطین کی تقسیم صہیونیوں کے حق میں کرنے کے لئے حکومت برطانیہ کو خط لکھا تھا۔ اس اعلان کو اعلان بالفور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ 2نومبر سنہ1917ء کی بات ہے کہ جب پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے فوری بعد صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کی ٹھان لی تھی۔اقوام متحدہ جو اس وقت لیگ آف نیشن کے نام سے کام کر رہی تھی،فلسطین کا مقدمہ پیش کیا گیا تو عالمی طاقتوں کی ایماء پر اس مقدمہ کو صہیونیوں کے مقابلہ میں زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہو پائی۔سنہ1922ء کے بعد 1947ء میں نئی اقوام متحدہ نے قرار داد نمبر 181کے ذریعہ فلسطین کی ناجائز تقسیم کا اعلان کر ڈالا۔نتیجہ میں دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے صہیونیوں کے لئے جعلی ریاست اسرائیل سنہ1948ء میں قیام عمل میں آ گئی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین ہمیشہ بنیادی مسائل کی فہرست میں ٹاپ پر رہا ہے اور اس عنوان سے اقوام متحدہ نے کئی ایک قرار دادیں منظور کی ہیں جن کو بعد ازاں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی جانب سے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا رہاہے۔

بہرحال ہم بات کرتے ہیں اقوام متحدہ کے 74ویں سالانہ اجلاس کی کہ جو فلسطین پر صہیونیو ں کے غاصبانہ تسلط کے 72سال مکمل ہو نے پر ہو رہا ہے۔اس اجلاس کی تمام تر روئیداد کو دیکھنے اور طائرانہ نظر دوڑانے پر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر دنیا کے سب سے اہم ترین اور پہلے مسئلہ کی طرف کسی نے توجہ مبذول کروائی ہے تو ایران اور ترکی تھے کہ جن کے سربراہان مملکت نے اپنی تقاریر میں فلسطین پر صہیونیوں کے غاصبانہ تسلط کے خلاف بات کی اور فلسطینیوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

ایران کی اگر بات کریں تو ایران، سنہ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت فلسطینیوں کی تحریک آزادی اور فلسطین کی آزادی کا سب سے بڑا خواہاں ہونے کے ساتھ ساتھ عملی طور ر فلسطین کاز کا مدد گار بھی ہے، حتیٰ کہ ایران کے دستور میں فلسطین سمیت دنیا کے تمام مظلوموں کی حمایت بنیادی اصولوں کی دستاویز کے طور پر درج بھی ہے۔لہذا ایران کے صدر روحانی نے اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے بھی فلسطین کاز کی حمایت کو اقوام متحدہ کے فورم پر بیان کیا اور فلسطین کا مقدمہ پیش کیا ہے۔

دوسری طرف ترکی کے سربراہ مملکت رجب اردگان ہیں کہ جو ایران کے ہمسایہ بھی ہیں۔ماضی میں بھی فلسطین کا زکی حمایت میں پیش پیش رہے ہیں حالانکہ حکومتی سطح پر ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات موجودہیں لیکن اردگان حکومت نے گاہے بہ گاہے فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ترکی کے صدر کے طرز حکومت اور دنیا کے بدلتے سیاسی حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔حالانکہ شروع شروع میں ترکی شام کے خلاف سرگرم تھا اور یہی اردگان کہتے تھے کہ بشار الاسد کی حکومت کو جانا ہو گا لیکن اب ان کا موقف تبدیل ہو چکا ہے اور یہ سمجھ چکے ہیں کہ شام سمیت عراق کو غیر مستحکم کرنے کا امریکی منصوبہ جہاں شام و عراق کو تباہ کر دیتا وہاں ساتھ ساتھ ترکی بھی اس کا شکار بنے بغیر نہ رہتا۔

بات کرتے ہیں اقوام متحدہ کے حالیہ سالانہ اجلاس کی اور اس میں فلسطین کا مقدمہ پیش کرنے کی تو ایران کے بعد ترک صدر تھے کہ جنہوں نے فلسطین کا زکی کھل کر حمایت کی اور صہیونی جرائم کو آشکار کرتے ہوئے صہیونیوں کی مکاریوں اور ظلم و ستم کی داستانوں کو بیان کیا۔اردگان کی تقریر کے تاریخی جملوں میں قابل ذکر جملے یہ تھے کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ نا انصافی فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہی ہے۔ آج مقبوضہ فلسطین صہیونی مظالم کی زدمیں ہے اور سب سے زیادہ ناانصافی فلسطینی عوام کے ساتھ ہو رہی ہے جبکہ غاصب اسرائیل کہ جو سنہ1947ء سے پہلے کوئی وجود نہ رکھتا تھا آج تک ظلم و ستم کے ساتھ مقبوضہ فلسطین پر قابض ہے اور فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی داستانیں رقم کر رہاہے۔یہاں اردگان کے جملوں کو تاریخی جملے کہنے کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ انہوں نے صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کی اصل حقیقت کی قلعی کھول دی ہے اور بتایا ہے کہ سنہ1947ء سے پہلے اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہ تھی، اس کا واضح مطلب یہی بنتا ہے کہ اردگان نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے فلسطین کی آزاد ریاست کہ جس کی بنیاد سنہ1948ء سے قبل کی ہے اس کی حمایت کی ہے جس میں اسرائیل نام کی کوئی ریاست وجود نہیں رکھتی۔

اردگان نے اسرائیل کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے اقوام عالم سے سوال کیا کہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ جولان کی پہاڑی علاقوں کو جعلی ریاست اسرائیل دنیا کی آنکھوں کے سامنے اپنے اندر ضم کر لے جیسا کہ پہلے بھی اسرائیل نے فلسطینی علاقوں کو مقبوضہ بنا رکھا ہے۔یعنی اس عنوان سے اردگان کا موقف شام کی حمایت میں بھی سامنے آیا ہے جو بہت بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔

اردگان کی تقریر میں اہم ترین بات جو غاصب صہیونیوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کو زائل کرنے کے لئے کافی تھی وہ اردگان کا تقریر کے دوران ہاتھوں میں مقبوضہ فلسطین کا نقشہ اٹھا کر اقوام عالم کو دکھانا تھا۔اردگان کے ہاتھوں میں موجود فلسطین کا نقشہ در اصل صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ان جھوٹے اور منفی پراپیگنڈوں کا جواب بھی تھا کہ جس میں وہ گذشتہ برس ہاتھوں میں ایسی من گھڑت تصاویر لے کرآئے تھے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات اور دیگر بتا رہے تھے تاہم اس مرتبہ اردگان کے ہاتھوں میں فلسطین کا نقشہ صہیونی ریاست کے وجود کی نفی کے ساتھ بہترین حربہ تھا جس پر اب تک صہیونی ذرائع ابلاغ میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔

اسرائیل کی تکلیف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیتن یاہو کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے ترک صدر کو فلسطین کے حقائق بیان کرنے اور صہیونی ریاست کی نفی کرنے کو جھوٹ کا پلندا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اردگان نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی نفی کے معاملے میں جھوٹ بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ اردگان نے کہا تھا کہ سنہ1947ء سے قبل دنیا میں کسی بھی جگہ اسرائیل نام کی کوئی ریاست وجود نہ رکھتی تھی۔یقینا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے تاہم صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو اس بات پر شدید برہم ہیں۔نیتن یاہو نے ساتھ ساتھ ترک صدر کو کرد عوام کا قاتل بھی قرار دیا ہے۔

نیتن یاہو کے جواب میں ترک صدر کے ترجمان ابراھیم کالن نے نیتن یاہو کی باتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک صدر کی جانب سے تاریخی حقائق بیان کرنے پر لگتا ہے کہ نیتن یاہو کا دماغی توازن خراب ہو چکا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے حالیہ سالانہ اجلاس میں مسلم دنیا کے 57ممالک میں سے صرف ایران اور ترکی ہی واضح طور پر فلسطین کی حمایت میں کھڑے نظر آئے ہیں جبکہ امید یہ کی جا رہی تھی کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اپنی تقریر میں کشمیر کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے اولین مسئلہ فلسطین کو بھی اجاگر کریں گے۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل) صہیونی ذرائع ابلاغ پر اس طرح کے تجزیات گردش میں ہیں اور اندرون خانہ بھی یہ خطرہ محسوس کیا جا رہاہے کہ اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی جانب سے کسی بھی وقت اسرائیل کے حساس مقامات کو آرامکو طرز کے حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

گذشتہ دنوں یمن کی متحدہ افواج نے سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل تنصیبات کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد خطے کی صورتحال شدید متاثر ہوئی تھی۔ شروع شروع میں سعودی حکومتی ذرائع نے ان حملوں کا الزام ایران اور عراق پر عائد کیا تاہم بعد ازاں حقائق اور شواہد نے ثابت کیا کہ یہ حملہ یمن کے اندر سے ہی کیا گیا تھا اور اس کا مقصد سعودی حکومت کو یمن میں جارحیت کو روکنا تھا۔


یمنی افواج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کی افواج نے یہ کارروائی سعودی عرب کے اندر موجود کچھ خیر خواہوں اور سعودی حکومت کے قریبی ذرائع جو یمن پرامریکی و سعودی جارحیت کے خلاف ہیں، ان کی مدد سے انجام دیا ہے، انہوں نے مزید تفصیلات میں بتایا تھا کہ یمنی افواج نے اس کارروائی میں دس ڈرون طیارے استعمال کئے جو خود کش حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ٹھیک ہدف پر کامیابی کے ساتھ نشانہ بنائے گئے تھے۔

ان حملو ں کے نتیجہ میں سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل فیلڈ آرامکو کو شدید نقصان پہنچا او ر اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے تاحال امدادی ٹیمیں کاموں میں مصروف ہیں۔
یمنی افواج کے اس حملہ سے جہاں دنیا میں تیل کی آمد و رفت اور خرید و فروخت متاثر ہوئی وہا ں سب سے اہم بات امریکہ اور سعودی حکومتوں کی وہ مشترکہ سیکورٹی ہے جو اس حملہ کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

ماہرین سیاسیات جہاں ایک طرف معاشی اعتبار سے اس حملہ کے نقصان کا جائزہ لے رہے ہیں وہاں دنیا کے دفاعی تجزیہ نگاروں کے نزدیک حقیقت میں آرامکو پر ہونے والا حملہ امریکی سیکورٹی سسٹم کو ناکام بنا کر کیا گیا ہے۔یمنی افواج نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ کی جدید ترین سیکورٹی آلات اور اربوں ڈالر ک اسلحہ برائے نام ہے اور سعودی حکومت کی حفاظت نہیں کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ سعودی حکومت نے امریکہ کے ساتھ مل کر چار سال قبل یمن کے خلاف زمینی،، فضائی اور سمندری جنگ کا آغاز کر رکھا ہے جس کے نتیجہ میں دسیوں ہزار معصوم انسانی جانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے جبکہ یمن کے بعض علاقو ں میں وبائی امراض کے ساتھ ساتھ قحط کا مسئلہ بھی درپیش رہا ہے۔ اس اثنا میں امریکی حکومت نے نہ صرف سعودی اتحادیوں کی ہر طریقہ سے مدد کی ہے بلکہ سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا اسلحہ بھی دیا ہے جس کا بے دریغ استعمال تاحال یمن کے علاقوں میں کیا جا رہا ہے۔

آرامکو پر ہونے والے یمنی افواج کا حملہ جہاں سعودی حکومت کے لئے ایک بڑا اور واضح پیغام تھا وہاں ساتھ ساتھ دنیا کے ان تمام ممالک کیلئے بھی پیغام تھا کہ جو یمن کے خلاف جنگ میں امریکی و سعودی اتحاد کا حصہ ہیں۔اسی طرح ان حملوں نے امریکہ کے دفاعی نظام کی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔
اس تمام صورتحال کے بعد اب سیاسی ماہرین کاکہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ان تمام پیغامات کے ساتھ ساتھ یمنی افواج کی جانب سے اسرائیل کے لئے بھی ایک سخت پیغام ہو۔

کیونکہ اگر سعودی تیل تنصیبات کی دفاعی صلاحیت کو ناکام بنا کر اتنا بڑا حملہ کیا جا سکتا ہے تو پھر اسرائیل پر بھی اس سے بڑے حملے ہو سکتے ہیں جو مقبوضہ فلسطین کے قریبی کسی بھی ممالک سے انجام دئیے جا سکتے ہیں یا پھر شاید یمنی افواج ہی اس صلاحیت کی حامل ہو ں کہ مستقبل قریب میں امریکہ کے ایک اور بڑے شیطان اتحاد ی اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنا ڈالیں۔

کچھ عرصہ قبل حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو متنبہ کیا تھا کہ اسرائیل لبنان کے ساتھ کسی بھی قسم کی جنگ آزمائی کرنے سے پرہیز کرے ورنہ جوابی کارروائی میں اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا یا جائے گا جس کے نتیجہ میں غاصب صہیونی ریاست میں بسنے والے صہیونی سب سے پہلے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔سید حسن نصر اللہ نے اس موقع پرصہیونی آباد کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا وزیراعظم نیتن یاہو ان کو جھوٹ بولتا ہے اور حقائق سے آگاہ نہیں کرتا ہے تاہم صہیونی آباد کاروں کو چاہئیے کہ اپنے اپنے وطن میں واپس لوٹ جائیں کیونکہ اگر اسرائیل نے لبنان یا حزب اللہ سمیت اسلامی مزاحمت کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی تو جواب بہت سخت ہو گا اور پھر اسرائیلی قابض ریاست کا وزیر اعظم سب سے پہلے انہی صہیونی آباد کاروں کو جنگ کا چارہ بنا دے گا۔

حالیہ دنوں یمنی افواج کی جانب سے آرامکو پر ہونے والے کامیاب حملہ کے بعد غاصب صہیونی اور جعلی ریاست اسرائیل کے تجزیہ نگاروں نے اس بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ اگر سعودی آرامکو کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو پھر اسرائیل کی اہم تنصیبات بشمول ایٹمی تنصیبات کی سیکورٹی کو بھی توڑا جا سکتا ہے۔صہیونی ذرائع ابلاغ پر اس طرح کے تجزیات گردش میں ہیں اور اندرون خانہ بھی یہ خطرہ محسوس کیا جا رہاہے کہ اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی جانب سے کسی بھی وقت اسرائیل کے حساس مقامات کو آرامکو طرز کے حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

اسرائیل کے دفاعی ماہرین نے پہلے ہی گذشتہ دنوں حزب اللہ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں سات کلو میٹر اندر داخل ہو کر کی جانے والی اسرائیل مخالف کارروائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کا دفاعی نظام کمزور ترین ہو چکا ہے تاہم انہی ماہرین کا کہنا ہے کہ آرامکو پر ہونے والے حملوں کے بعد اب بعید نہیں ہے کہ اسی طرز کی کاروائی اسرائیل کے حساس مقامات کے خلاف بھی کی جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام ظالم و جابر قوتیں وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کے وعدوں کے مطابق سر نگوں ہو رہی ہیں، دنیامیں جہاں کہیں بھی مظلوم ہیں اوت صبر و استقامت کا مظاہر کر رہے ہیں یقینا الہی وعدوں کے مطابق سرخرو ہو رہے ہیں۔کشمیر، یمن، عراق، افغانستان، عراق، لبنان، شام، فلسطین ہرسمت مظلوموں کا ایک اتحاد ابھرتا ہو نظر آ رہاہے جو دنیا کے سامراجی وشیطانی نظام و اتحاد کے بالمقابل سیننہ سپر ہے اور اسی پائیدار استقامت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج یمن کے پا برہنہ مجاہدین نے دشمن کے خلاف عظیم کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دی ہیں اور ان کامیابیوں کے دور رس نتائج یہ ہیں کہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو اپنی بقاء کے لئے سوال اٹھا یا جا رہا ہے اور صہیونیوں کے دلوں میں خوف بیٹھ چکا ہے کہ اب آرامکو کے بعد اسرائیل کے حساس مقامات کو نشانہ بنایا جائے گا، اور اس بات میں کسی کو کوئی شک بھی نہیں ہونا چاہیے۔

یہ الہی وعدہ ہے کہ ظالمو ں کو نابود ہونا ہے اور مستضعفین کی حکومت قائم ہونی ہے چاہے یہ بات خدا کے دشمنوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔


تحریر: صابر ابو مریم

وحدت نیوز(آرٹیکل) یوں تو پاکستان کی تاریخ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی بھی سطح پر قائم کرنے کی خواہاں نظرا ٓتی ہے۔ان تعلقات میں کبھی بھی برابری کا عنصر نہیں پایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو غیر اہم سمجھا اور وقت آنے پر اپنے مفادات کے لئے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے والے حکمرانوں کے ذریعہ اپنا ایجنڈا مکمل کیا۔امریکہ اور پاکستان کے مابین اس نوعیت کے تعلقات اسلئے بھی زور پکڑتے چلے گئے کیونکہ امریکی حکومت نے براہ راست پاکستان کے مختلف اداروں کے ساتھ بڑی بڑی ڈیلز کرنا شروع کر دیں اور بعد ازاں افراد کو امریکی مفادات کی خاطر مال ومتاع اور مراعات کے عوض استعمال کیا جاتا رہاہے۔یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور ایسے حالات میں ملک کی پالیسیوں کو کسی سمت چلانا اور کوئی ایسی حکمت عملی وضع کرنا کہ جس کا امریکی مفادات سے ٹکراؤ ہو انتہائی مشکل ہے۔

بہر حال، ماضی کے بعد اب کچھ بات حال کی کرتے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے کچھ عرصہ قبل امریکہ کا دورہ کیا اور اس دورہ کو بہت گرمجوش دورہ قرار دیا جا رہا تھا اور پھر حکومتی رویہ میں بھی اس قدر تیزی دیکھنے کو آئی کہ جیسے اندھے کو دو آنکھیں مل جاتی ہیں۔یعنی وزیر اعظم سمیت ملک کے تمام ادارے اور اعلیٰ عہدیداروں نے امریکہ سے ایک مرتبہ پھر لولگا لی تھی کہ چلو اچھے دنوں کا آغاز ہو گا۔حکومت شاید اس بات پر بھی زیادہ خوش دکھائی دیتی تھی کہ امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی بات کی ہے چلو اب تو مظلوم کشمیریوں کا مسئلہ حل ہو ہی جائے گا۔مجموعی طور پر پاکستان کا سوفیصد جھکاؤ امریکہ کی طرف چلا گیا جیسا کہ امریکہ ہی کا ئنات کا خدا ہے اور سب کو روٹی دینے والا ہے۔دنیا کے متعدد ممالککی حکومتیں شاید امریکہ کو خدا ہی کا درجہ دیتی ہیں۔لیکن پاکستان جیسے بڑے ملک کو اپنے وقار اور عزت کا خود پاس رکھنا چاہئیے یا کم سے کم بولیویا جیسے چھوٹے ملک سے ہی سبق حاصل کرنا چاہئیے کہ جس نے امریکہ کو خدا نہیں مانا ہے۔

مسئلہ کشمیر پر امریکی حکومت کی ثالثی کے بیان کے بعد حکومت پاکستان نے اپنی تمام تر توجہ کامرکز امریکی صدر کو بنالیا۔لیکن یہاں حکومت میں موجود سیاست مداروں سے کوئی یہ سوال تو کرلیتا کہ کیا امریکہ صدور نے آج تک مسئلہ فلسطین کا حل نکال لیا؟ کیا یہ بات درست ہے کہ دنیا کی باعزت اقوام کی تقدیر کے فیصلے امریکی صدور کریں؟ کیا امریکہ واقعی انسانی حقوق کا پاسدار ہے اگر ہے تو پھر امریکہ کی تاریخ میں ہیرو شیما، ناگا ساکی سمیت ویت نام،افغانستان اور عراق کے بد نما داغ کیوں ہیں؟ کیا امریکی حکومت بھارت اور اسرائیل کو ایک جیسی مسلح ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی حکومت نہیں ہے؟اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جو پاکستان کے تعلی ادارو ں میں تعلیمی نشو نما حاصل کرنے والے نوجوانوں کے اذہان میں ابھررہے ہیں؟ آج مسئلہ کشمیر پر حکومت کی ناکام پالیسیوں پر پورے ملک کی سیاسی جماعتیں آواز اٹھا رہی ہیں۔ان کی اس آواز کو صرف یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ اپوزیشن سیاست کررہی ہے لیکن میں یہ سمجھتاہوں کہ ان کی باتوں میں ستر فیصد صداقت اور شاید تیس فیصد سیاسی عزائم ہیں۔

تاہم حکومت کا یہ کام ہے کہ وہ امریکہ کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے پاکستان کے عوام کو بالخصوص کشمیری سوالیہ نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں، کشمیریوں کو جواب دے اور بتائے کہ پاکستان نے مسئلہ کشیر پر کیا اقدامات انجام دئیے ہیں اور پاکستان کی عالمی سطح پر سفارتکاری کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ اس عنوان سے ذمہ دار افراد کا تعین کیا جائے اور ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔محترم وزیر اعظم صاحب! آپ کے پڑوس میں ایک ملک ایران بھی موجود ہے جو امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کے بغیر ترقی کے کئی میدانوں میں کئی ایک ممالک سے آگے نکل چکا ہے،مشکلات اور مصائب کے باوجود عزت ووقار پر کوئی سودے بازی قبول نہیں کر رہا۔میں آپ کی خد مت میں اسی پڑوسی ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی ایک تقریر کا جملہ یہاں پیش کئے دیتا ہوں،”امریکہ پر کسی صورت اعتماد نہیں کیا جا سکتا،امریکہ جھوٹ او مکاری میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا“۔اس جملہ میں بہت بڑا سبق موجود ہے۔

پس ضرورت اس امرکی ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق امریکی وعدوں پر یقین اور تکیہ کرنے سے مسئلہ کشمیر کبھی حل ہونے والا نہیں ہے اور ابھی اقوام متحدہ کے اجلاس کے لئے بھارتی وزیر اعظم کے نیو یارک پہنچنے پر امریکی صدر کی جانب سے انکے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور امریکی تاریخ میں کسی بھی غیر ملکی سربراہ کے لئے منعقدہ جلسہ جوکہ سب سے بڑا جلسہ قرار دیا جا رہاہے یہ سب باتیں آپ کو متنبہ کرنے کے لئے ہیں کہ اب بھی وقت ہے امریکی غلامی کا طوق گردنوں سے نکال پھینکیں۔ٓآج پاکستان سے کمزور معیشت رکھنے والے اور چھوٹے ممالک امریکہ کے ساتھ بغیر تعلقات کے ترقی کر رہے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت پاکستان سعودی عرب کے نا تجربہ کار شہزادہ محمد بن سلمان کی باتوں میں آ کر بذریعہ سعودی عرب امریکی غلامی کا طوق اپنی گردنوں کی زینت بنانے کو ترجیح دے رہی ہے۔

آج امریکہ سے اربوں اور کھربوں ڈالرز کا اسلحہ خریدنے والا سعودی عرب اپنا دفاع خود نہیں کر سکتا ہے اور پاکستان جیسا ایک بڑا اسلامی ملک حیرت کی بات ہے کہ آل سعود حکمرانوں کے ذریعہ امریکہ تک پہنچنے کو اپنی عزت وحمیت سمجھتاہے؟خلاصہ یہ ہے کہ لومڑی کی صحبت میں رہنے سے شیر بھی لومڑی بن جاتاہے اور اگر لومڑی شیر کی صحبت اختیار کرے تو لومڑی بھی شیر بن جاتی ہے۔اب یہ فیصلہ وزیر اعظم صاحب کو ہی کرنا ہے کہ وہ کس صحبت کو اختیار کریں گے؟ آج دنیا کی سیاست کا محور تبدیل ہو چکا ہے،امریکہ سپر پاور ہو اکرتا تھا اب نہیں ہے۔

اگر پاکستان خطے میں مضبوط کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو پھر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنا ناگزیرہیں،آج جنوبی ایشیاء کے سیاسی افق پر ایران، روس، چین واضح طور پر نظر آ رہے ہیں اور انکا نقش عالمی سیاسی افق پر بھی دیکھا جا رہاہے۔آج یہی امریکی صدرکہ جس سے ہمارے حکمران ملنے کے لئے ترس رہے ہوتے ہیں، یہ امریکی صدر ٹرمپ آج ایران کے صدر روحانی نے ملنے کو تڑپ رہا ہے۔اپنا فون نمبر تک ان کو دے رہاہے کہ ایک فون ہی کر لو، جاپان کے وزیر اعظم کے ذریعہ خط بھیج رہا ہے لیکن جواب میں اس خط کو کھولا ہی نہیں جاتا اور کوئی جواب دینا گوارا نہیں کیا جاتا۔کاش میرے وطن کے حکمرانوں کو بھی یہ بات سمجھ آ جائے کہ امریکہ قابل اعتبار نہیں ہے۔

 

تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ناکامی یا غلطی کو تسلیم کرنے والے لوگ بہادر کہلاتے ہیں۔ ناکامی پر بہانے تراشنے اور ناکامی کو چھپانے کیلئے جھوٹ بولنے والے لوگ صرف بزدل نہیں بلکہ ناقابل اعتبار بھی ہوتے ہیں۔

پاکستانی قوم سے بھی ایک بہت بڑی ناکامی کو چھپایا جا رہا ہے۔ جو بھی اس ناکامی کی وجہ جاننے کیلئے سوال اٹھائے گا اسے غدار، کرپٹ اور نجانے کیا کیا کہا جائے گا لیکن سوال تو اٹھے گا اور اس مرتبہ غدار اور کرپٹ اہل صحافت کو میڈیا ٹربیونلز سے ڈرانے والوں کو جواب بھی دینا پڑے گا۔

سوال یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنیوا میں یہ دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان نے پچاس سے زیادہ ممالک کی حمایت سے ایک مشترکہ بیان پیش کر دیا ہے جس میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے۔بھارت نے فوری طور پر شاہ محمود قریشی کے اس بیان کو مسترد کر دیا اور کہا کہ پچاس سے زائد ممالک کی حمایت کا دعویٰ جھوٹ ہے۔

اگلے دن 12ستمبر کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان کی جانب سے پیش کئے گئے بیان کو 58ممالک کی حمایت حاصل ہے اور عمران خان نے ان تمام ممالک کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔بھارت نے اس بیان کی بھی تردید کر دی لیکن پاکستانی قوم کو یہی بتایا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو زبردست سفارتی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اور 27ستمبر کو وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نریندر مودی کو بے نقاب کر دیں گے۔

پاکستان کو اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں 19ستمبر تک بھارت کے خلاف ایک قرارداد پیش کرنا تھی تاکہ اس قرارداد کی روشنی میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر کونسل کا خصوصی اجلاس بلایا جا سکے۔ اس قرارداد کو پیش کرنے کیلئے پاکستان کو کونسل کے 47میں سے صرف 16رکن ممالک کی حمایت درکار تھی۔19ستمبر کو دوپہر ایک بجے کی ڈیڈ لائن تھی۔ میں نے صبح سے اسلام آباد کے دفتر خارجہ اور جنیوا میں اہم لوگوں سے رابطے شروع کئے تاکہ پاکستان کی قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک کے نام پتا چل سکیں۔

پہلے کہا گیا فکر نہ کریں تھوڑی دیر میں قرارداد جمع ہونے والی ہے پھر نام بتائیں گے۔جب ڈیڈ لائن گزر گئی تو کہا گیا کہ قرارداد تو جمع ہی نہیں ہوئی۔ یہ سُن کر میں نے پوچھا کہ ہمارے وزیر اعظم نے 58ممالک کی حمایت کا دعویٰ کیا تھا آپ کو تو صرف 16ووٹ درکار تھے پھر قرارداد جمع کیوں نہ ہوئی؟ کہا گیا شاہ محمود قریشی صاحب سے پوچھئے۔ تو جناب سوال بڑا سادہ ہے۔اگر آپ کے پاس 16ممالک کی حمایت نہیں تھی تو آپ نے 58ممالک کی حمایت کا دعویٰ کیوں کیا اور اگر آپ کے پاس مطلوبہ حمایت موجود تھی تو آپ نے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں قرارداد کیوں جمع نہ کرائی؟

 کیا چکر چل رہے ہیں اور کون کس کو چکر دے رہا ہے؟میرے سادہ سے سوال کا جواب یہ نہیں ہے کہ تم غدار ہو، تم بلیک میلر ہو، تم کرپٹ ہو۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے 47ارکان میں چین شامل ہے، سعودی عرب، قطر، بحرین، عراق، نائیجیریا، تیونس اور صومالیہ شامل ہیں۔ان مسلم ممالک کے علاوہ اس کونسل میں ٹوگو، برکینا فاسو، سینی گال اور کیمرون بھی شامل ہیں جو او آئی سی کے رکن ممالک ہیں۔پاکستان ان مسلم ممالک کی حمایت کیوں حاصل نہیں کر سکا؟ اس کونسل میں افغانستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔

ان دونوں مسلم ممالک کے عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں لیکن حکومتیں بھارت کے ساتھ ہیں لیکن کیا پاکستان نے ڈنمارک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کا حامی ہے؟اگر 16ممالک کی حمایت نہیں مل سکی تو یہ اس لئے ایک بڑی ناکامی ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل خود اپنی حالیہ رپورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے لہٰذا اس معاملے کو خصوصی اجلاس میں زیر بحث لانے کیلئے 47میں سے 16ممالک کی حمایت حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔

چلیں اگر 16ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ گیا تو کوئی بات نہیں، لیکن ناکامی کو چھپانے کیلئے 58ممالک کی حمایت کا دعویٰ کیوں کیا گیا؟کیا پاکستانی قوم کے ساتھ جھوٹ بول کر آپ کشمیر کے مقدمے کو مضبوط کر رہے ہیں یا کمزور ؟اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کا اجلاس 27ستمبر کو ختم ہو جائے گا۔ اس دن نیویارک میں وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا ہے۔ہمیں یہ تو نہیں بتایا جا رہا کہ 19ستمبر کو پاکستان نے جنیوا میں قرارداد کیوں پیش نہ کی؟ ہمیں بار بار کہا جا رہا ہے کہ 27ستمبر کو عمران خان جنرل اسمبلی میں مودی کے پرخچے اڑا دیں گے۔

 اس جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ کوئی پاکستانی وزیراعظم مسئلہ کشمیر نہیں اٹھائے گا۔میں نے اس جنرل اسمبلی میں 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر سنی تھی جس پر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے بھارتی صحافیوں کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔2016ء میں نواز شریف نے اسی جنرل اسمبلی میں کشمیری مجاہد برہان وانی کو خراجِ تحسین پیش کیا تو پورے بھارت میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ یقیناً عمران خان بھی جنرل اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کریں گے لیکن کشمیریوں کو صرف تقریروں کی نہیں عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔

اگر آپ بھارت سے جنگ نہیں کر سکتے تو کم از کم جنیوا میں 16ممالک کی حمایت سے ایک قرارداد تو پیش کر سکتے تھے لیکن افسوس کہ قرارداد پیش کرنے کے معاملے میں پاکستانی قوم کیساتھ دھوکہ کیا گیا۔اگر ہم کشمیر کے معاملے پر اپنوں کیساتھ سچ نہیں بولیں گے تو دنیا کو کیا سچ بتائیں گے؟ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ کشمیر کی لڑائی میڈیا نے لڑنا ہے کیونکہ میڈیا فرنٹ لائن آف ڈیفنس ہے۔یہ لڑائی ہم نے پہلے بھی لڑی تھی، آئندہ بھی لڑیں گے۔ میڈیا ٹربیونلز کی زنجیریں پہن کر بھی لڑیں گے۔ان زنجیروں کو بھی توڑیں گے اور کشمیریوں کی زنجیروں کو بھی توڑیں گے لیکن خدارا کشمیر کے نام پر دھوکہ دہی بند کی جائے۔ اپنی سیاسی و معاشی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے کشمیر کے نام پر شور نہ مچایا جائے۔کشمیر کا مسئلہ صرف گرجنے سے نہیں بلکہ برسنے سے حل ہو گا کیونکہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔


تحریر: حامد میر

23 ستمبر ، 2019

Page 7 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree