وحدت نیوز(آرٹیکل) اس کالم کو لکھنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں خواتین کی عزت و عظمت اور آبرو سمیت ان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہوں بلکہ یہ کالم اس لئے لکھ رہا ہوں تا کہ پاکستان میں عورت آزادی مارچ کے نام پر یا خواتین کے حقوق کے نام پر جو کچھ ننگ مارچ یا بے حیائی کا کلچر عام کرنے کی مغربی کوشش کی جا رہی ہے ا سکا کسی نہ کسی طرح راستہ روکا جائے اور ایوان حکومت تک کم سے کم کمزور ہی سہی آواز تو پہنچے۔آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی جانب سے اعلان کردہ ’’عالمی یوم خواتین‘‘ منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا جو مقصد اقوام متحدہ نے یا یوں کہہ لیجئے کہ اس دن کو قرار دلوانے والی استعماری حکومتوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ خواتین کو آزادی دینے سمیت خواتین کو مردوں کے برابر لانے کی بات کرتے ہیں یعنی ایک عورت اور مرد برابر ہوں ۔بظاہر تو یہ نعرے دل کو لبھانے والے ہیں ۔اور ان نعروں کو زیادہ اثر خود مغربی ممالک کے بجائے ہمارے مشرقی اور ایشیائی ممالک میں زیادہ نظر آیا ہے کیونکہ یہاں کی عورتوں نے اگر کسی کو اپنا آئیڈیل بنا رکھا ہے تو وہ مغرب کی عورت کو کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک کی خواتین نے اپنی ثقافت اور مذہبی روایات و رسوم کو فراموش کر دیا ہے اور مغرب کے دل لبھانے والے نعروں کی زد میں آ کر یہاں بھی آزادی آزادی کے نعرے لگانے شروع کر دئیے ہیں۔

آٹھ مارچ سنہ2019ء کو مغربی استعماری قوتوں کی پیروی کرتے ہوئے خواتین کا عالمی دن بھی منایا گیا اور اس میں سب سے نمایاں کام ’’عورت آزادی مارچ‘‘ تھا جو ملک کے مختلف بڑے شہروں میں دیکھنے میں آیا ۔اس عورت آزادی مارچ کو ننگ مارچ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گاکیونکہ یہاں شریک خواتین کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈز اور بینر ز آویزاں تھے ان پر بے شمری و بے حیائی پر مبنی ایسے نعرے درج کئے گئے تھے کہ جنہیں زباں بیان کرنے سے قاصر ہے۔عورت آزادی مارچ کے نعروں سے مقاصد واضح ہو چکے ہیں کہ در اصل ان کا ایجنڈا پاکستان میں بے حیائی اور فحاشی کا کلچر عام کرنا ہے۔گذشتہ برس بھی اس طرح کے بے ہودہ اور فرسودہ نعروں کا استعمال کیا گیا تھا تاہم اس برس بات حد سے آگے نکل چکی ہے اور صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ خواتین نے ہی اس خواتین مارچ کو مسترد کر دیا ہے اور اس وقت سوشل میڈیا پر خواتین کی بہت بڑی تعداد اس عورت آزادی مارچ یا ننگ مارچ پر شدید تنقید کر رہی ہیں کیونکہ کوئی بھی باعزت اور غیرت مند عورت اس طرح کی توہین کو برداشت نہیں کر سکتی ۔

آخر مغرب کو کیا ضرورت پیش آئی ہے کہ انہوں نے عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کیا اور دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کی عورتوں کو اس کے جھانسہ میں لے کر انہیں اس قدر ورغلایا ہے کہ اب یہ خواتین اپنی آزادی کے نام پر بے حیائی کے کلچر کو عام کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔مغرب اور استعمار گر قوتیں ہمیشہ سے تیسری دنیا کے ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں رہی ہیں اور اس کام کے لئے انہوں نے جنگوں سمیت نت نئے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا ہے جس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔اب جدید دنیا میں انہوں نے سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کو اس کام کے لئے ایک مشن کے طور پر استعمال کیا ہے ۔بہر حال مغرب کا آزادئ نسواں کا یہ نعرہ جہاں مشرق کے دیگر ممالک میں پھیلا ہے وہاں اس نے مسلمان آبادی والے ممالک میں براہ راست اسلام کی خواتین سے متعلق حقوق اور فکر کو بھی حملہ کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ دراصل مغربی استعماری ممالک کا بنیادی ہدف بھی تھا۔آخر یہ مغرب کی بتائی ہوئی آزادی کس طرح کی آزادی ہے ؟ کیا مغرب کی طرح جس طرح عورت کا استحصال کیا جاتا ہے کیا اسی طرح کی آزادی پاکستان میں بھی مانگی جا رہی ہے ؟ کیا پاکستانی معاشرے کی عورت یہی چاہتی ہے کہ جس طرح مغرب میں عورت کو جنسی ہوس اور بھوک کے لئے استعمال کیا جا رہاہے اسی طرح کی آزادی یہاں بھی ہونا چاہئیے ؟ کیا پاکستانی معاشرے کی عورت واقعی یہی چاہتی ہے کہ مغرب و یورپ کی طرح پیدا ہونے والی اولادیں جن کو اپنے حسب نسب کی شناخت نہیں ہوتی اسی طرح کی اولادیں یہاں بھی آزادی کے نام پر پیدا ہوں ؟ یا یہ کہ جس طرح مغربی او ر یورپی ممالک نے عورت کو سرمایہ دارانہ نظام کی تقویت اور ترقی کے لئے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کام کے لئے وہاں کی عورت کو جو کچھ کرنا پڑے وہ اس کو ننگ و عار نہیں سمجھتی تو کیاپاکستان مین بسنے والی خواتین بھی اسی طرح ایک آلہ کار بن کر استعمال ہونے کو ترجیح دیں گی؟۔میرا اپنا ذاتی خیال یہی ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے کی عورت اس طرح کی آزادی لینے سے بہت خود کو اس سے دور رکھنا ہی بہت عافیت جانے گی ۔لیکن کیا کریں کہ کچھ مغرب زدہ پاکستانی خواتین نے مغرب اور یورہپ کے ناپاک عزائم کو بڑھاوا دینے کے لئے آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر فحاشی اور بے حیائی کو عام کرنے کا بیڑہ اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور اس طرح کی بے حیاء خواتین کو ان کی اپنی کلاس میں ماڈرن یا پھر آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے ۔

حالانکہ اگر یہی پاکستانی معاشرے کی مسلمان عورت اسلام کی بنیادی تعلیمات کو مطالعہ کرے اور اس کے بارے میں ادراک و فہم حاصل کرے تو اس کو اندازہ ہو گا کہ دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی ایسی فکر یا سوچ موجود ہی نہیں ہے کہ جس نے سب سے زیادہ حقوق خواتین کے لئے دئیے ہیں، شاید آج کی مغرب زدہ پاکستانی عورت یہ بھول چکی ہے کہ یہ اسلام ہی تھاکہ جب آیا تو بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا ورنہ زمانہ جاہلیت میں اور مغرب کے افکار آزادئ نسواں میں کوئی فرق نہ تھا۔اسلام نے خواتین کے حقوق اور عظمت کو اجاگر کیا ہے لیکن آج کی مغرب زدہ عورتیں اپنی عزت کو خود چند نعروں کے عوض کھلے بازاروں میں تاراج کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔اسلامی تعلیمات نے عورت کو معاشرے کا عظیم فرد قرار دیا ہے جبکہ مغرب عورت کو پست ترین کردار کے طور پر پیش کر رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ چند مغرب زدہ خواتین مغرب کے اس بہلاوے میں اپنی عظمت کو تاراج کر رہی ہیں۔اسلامی تعلیمات میں معاشروں کی پرورش کی ذمہ داری عورت کے کاندھوں پر ہے اور کہا جاتا ہے کہ عورت کی آغوش میں ہی اصل معاشرہ ترویج پاتا ہے اب اگر یہی عورت مغرب کے آزادی نسواں کے نعرے کا شکار ہو کر ننگ و بے حیائی کو پروان چڑھائے گی تو پھر پاکستانی معاشرہ میں پروان چڑھنے والی نئی نسلوں کا کیا ہو گا؟دنیا میں کئی ایک انقلاب آئے جن میں سے اسلامی دنیا میں آنے والا انقلاب ایران میں آیا جس کے بارے میں اس انقلاب کے بانی امام خمینی نے کسی صحافی کو سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میری فوج ماؤں کی گو دمیں ہے ۔کیونکہ آپ جانتے تھے کہ عورت کی آغوش ہی ایک اچھے اور یا پھر برے انسان کو پروان چڑھا سکتی ہے۔اسلامی تعلیمات کہتی ہیں کہ عورت کی ذمہ داری مرد پر ہے اور مرد کا کام ہے کہ وہ محنت ومشقت کرے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے رزق کی تلاش میں محنت کرے جبکہ ایک عورت بھی گھر کی چار دیواری اور چادر کا تقدس رکھتے ہوئے گھر میں مشقت کرتی ہے یعنی وہ گھر کے کام کاج سمیت معاشروں کو اچھے انسان دینے کے لئے تربیت کرتی ہے۔اب اسلام کی تعلیمات کی رو سے دیکھا جائے تو مرد گھر سے باہر مشقت کرتا ہے تو عورت گھر کے اندر رہ کر مشقت کرتی ہے دونوں کی برابر مشقت ہے اور دونوں کے مشترکہ جدوجہد سے ایک خوبصورت معاشرہ پروان چڑھتا ہے اور عورت کو اپنے تحفظ کا احساس بھی رہتا ہے جبکہ پاکستان میں موجود چند ایک مغرب زدہ عورتیں شاید یہ سمجھ رہی ہیں کہ ننگ مارچ کر کے اور بے حیائی کے نعروں کو پلے کارڈز پر نشر کرکے شاید پاکستان کی یا اپنے گھرانے کی کوئی خدمت کر رہی ہیں تو انہیں جان لینا چاہئیے کہ مستقبل قریب میں ان کو اس بے حیائی اور فحاشی کے پروان چڑھانے کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی اسکالر شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ کے اصطلاحی معانی میں سے ایک خاندان نبوت و رسالت کے ساتھ محبت و دوستی ہے اور آیات و روایات میں اس بات کی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بےشمار احادیث ایسی ہیں جن میں  حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے، یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ سیوطی آیت کریمہ "وَلَتَعْرِفَنَّ هُمْ فىِ لَحْن ِالْقَوْل" اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے، کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ آیت کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے۔(1) اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے، "ما کنا نعرف المنافقین علی عهد رسول الله(ص) الا ببغضهم علی ابن ابی طالب(ع)" ۔(2) پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔

نسائی (متوفی 303ھ) نے خصائص امیرالمومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرار دیا ہے اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے تین  حدیثیں نقل کرتے ہیں، جن میں آپ ؐفرماتے ہیں، امیر المومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نہیں کرتا (اسی طرح) منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نہیں کرتا ہے۔(3) خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں تقریبا تیس حدیثیں نقل کی ہیں۔(4) جن کے مضامین اس طرح  کے ہیں:
1۔ انی افترضت محبة علی ابن ابی طالب علی خلقی عامة۔ حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے۔
2۔ لو اجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار۔ اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلامکی محبت پر متفق ہو جاتے، تو خداوند جہنم کو خلق نہ کرتا۔
3۔ اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلام کی اس عمر کے برابر (جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری) عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفا و مروہ  کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے لیکن (حضرت) علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

4۔ (من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی) جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی گویا اس نے رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی گویا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے۔
5۔ (ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء) ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے۔
6۔ (من زعم انه امن بی و بما جئت به و هو یبغض علیا فهو کاذب لیس بمومن) جو شخص پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہو مگر علی ابن ابی طالبعلیہ السلام سے دشمنی رکھتا ہو تو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے۔
 اسی طرح شبلنجی شافعی  نے نور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیا ہے:
1۔ مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے، (والذی فلق الحبة و برا النسمة انه لعهد النبی الامی بانه لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق) خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کے سوا کوئی مجھ سے بغض نہیں کرتا۔
2۔ ترمذی ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں، (کنا نعرف المنافقین ببغضهم علیا)۔ (5) ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بےشمار حدیثیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں۔(6) کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھے گرچہ خواہشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت  رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کو نفاق کا معیار سمجھا گیا۔ اس صورتحال میں پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیر المومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیتے تھے۔ گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے نزدیک آپ  سب سے زیادہ عزیز تھے، کیونکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی۔

ان کے علاوہ آپ ؑکی افضلیت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں۔ آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ (7) کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا گیا ہے، حالانکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لہٰذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط و خصوصیات کا حامل ہونا چاہیئے۔ محمد بن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر۔ ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے۔ اس کے بعد آیت مباہلہ  کی تلاوت کی اس کے بعد کہا، پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کے مانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔(8) اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ اس نے جواب دیا، ابو بکر، عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتے ہیں۔ عبداللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے، علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا  سکتا ۔(9)

پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے، اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتا ہے۔ "ان زوجک خیر امتی اقدمه اسلاما و اکثرهم علما و افضلهم حلما"(10) اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ (11) جابر بن عبداللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، "انه اولکم ایمانا معی، واوفاکم بعهد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیة و اقسمکم بالسویة و اعظمکم عند الله فریة" حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الٰہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتا ہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیادہ برتر ہے۔

جابر اس کے بعد کہتے ہیں کہ آیت شریفہ "إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرْ الْبرَيَّة" حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے "قد جاءخیر البریة" (12) اس سلسلے میں اور بھی حدیثیں موجود ہیں لیکن یہاں سب کو بیان نہیں کر سکتے۔
خلاصہ یہ کہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں توحید اور نبوت کے مسائل پیش کرتے تھے وہی امامت کے مسئلے کو بھی بیان کرتے تھے اور اپنے عمل و بیان سے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو سب پر ظاہر کر دیتے تھے، اسی بنا پر اس زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا شیفتہ ہوا تھا اور مسلمانوں کے درمیان وہ شیعہ علی علیہ السلام کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ اس گروہ کی ستایش کرتے رہتے تھے اور انہیں قیامت کے دن کامیاب و کامران ہونے کی بشارت دیتے تھے۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
2۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
3۔ خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام،ص 155 – 157 ۔
4۔ المناقب ،خوارزمی، ص 64 – 79۔
5۔ نور الابصار ،ص 160،منشورات الرضی قم۔
6۔ الریاض النضرۃ  ،محب الدین طبری ،و قادتناکیف نعرفھم ،ج1 ،آیۃ اللہ میلانی ۔
7۔ آل عمران 61۔
8۔ البیہقی ،المحاسن ج1 ص 39،الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1 ،ص 574۔
9۔ طبقات الحنابلۃ ،ج2 ،ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1،ص 575۔
10۔ خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
11۔ خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
12۔ خطیب خوارزمی ،المناقب حدیث 120 ،ص 111 – 112۔

عزت چاہیئے یا ذلت؟

وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، کسی کو دشمنوں کے جنگی طیارے گرا کر عزت ملتی ہے اور کسی کو اپنوں پر ٹینک چڑھا کر تمغے ملتے ہیں۔ ہر تمغہ عزت کا باعث نہیں بنتا، کبھی کبھی ذلت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ آیئے! آج دو بھولی بسری کہانیاں سنیں۔ ایک عزت کی کہانی ہے، دوسری ذلت کی کہانی ہے۔ پہلی کہانی فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم کی ہے۔ پاکستان ایئر فورس کے اس بہادر شاہین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنی مہارت اور بہادری سے نہ صرف بھارت بلکہ اسرائیل کے جنگی طیارے بھی مار گرائے۔ 1965ء میں وہ پی اے ایف بیس سرگودھا میں تعینات تھے۔ بھارت کیساتھ جنگ کے دوران بھارتی ایئر فورس کا جنگی طیارہ مار گرانے پر انہیں ستارۂ جرأت ملا۔ اگلے ہی سال انہیں اردن بھیج دیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی طیاروں نے اردن پر حملہ کیا تو سیف الاعظم نے دو اسرائیلی جہاز تباہ کر دیئے۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں عراق بھیج دیا گیا اور وہاں بھی انہوں نے دو اسرائیلی طیارے تباہ کئے۔ اردن کے حکمران شاہ حسین نے سیف الاعظم کو فوجی اعزازات تو دیئے، لیکن وہ سیف الاعظم کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر عمان کی سڑکوں پر گھومنا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔

سیف الاعظم کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو وہ بنگلہ دیش ایئر فورس کا حصہ بن گئے اور 1979ء میں گروپ کیپٹن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ دوسری کہانی بریگیڈیئر ضیاء الحق کی ہے۔ وہ 1970ء میں پاکستان کی طرف سے اردن بھیجے گئے۔ ستمبر 1970ء میں شاہ حسین نے تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) کو اردن سے نکالنے کیلئے ایک فوجی آپریشن کیا، جس میں ٹینک بھی استعمال ہوئے۔ اس آپریشن کی قیادت بریگیڈیئر ضیاء الحق نے کی۔ اس آپریشن کے دوران پی ایل او اور اردن کی فوج میں شدید لڑائی ہوئی، جس میں بہت سے بے گناہ فلسطینی مہاجرین بھی مارے گئے۔ اس آپریشن کی کامیابی پر شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو بھی ایک تمغہ دیا، لیکن یہ تمغہ ضیاء الحق کیلئے کبھی عزت کا باعث نہ بن سکا۔ فلسطینیوں کے خلاف ان کے آپریشن پر احمد ندیم قاسمی نے ’’اردن‘‘ کے نام سے اپنی نظم کو ان الفاظ پر ختم کیا؎
جو ہاتھ ہم پہ اٹھے
ہمارے ہی ہاتھ تھے
مگر ان میں کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس کے خنجر تھے؟
کس سے پوچھیں؟
چلو، چلیں آئینوں سے پوچھیں
آئینوں سے کیا پوچھتے؟

یہی بریگیڈیئر ضیاء الحق 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر براجمان ہوئے تو پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات نے کہا کہ افسوس اردن میں فلسطینیوں پر ٹینک چڑھانے والا پاکستان کا حکمران بن گیا۔ ضیاء الحق نے فلسطینیوں کیساتھ جو کیا، اسے پاکستانی قوم بھول چکی ہے، لیکن فلسطینی کبھی نہیں بھولیں گے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پی اے ایف کے ایک اور بہادر شاہین عبدالستار علوی نے شامی ایئر فورس کے مگ 21 کے ذریعے اسرائیلی طیارہ مار گرایا اور پاکستان کیلئے عزت کمائی۔ مجھے لبنان اسرائیل جنگ کے دوران لبنان اور شام میں کافی وقت گزارنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں مجھے مصر کے راستے غزہ جانے کا اتفاق بھی ہوا اور میں نے اپنی آنکھوں سے ننھے فلسطینی سنگ بازوں کو اسرائیلی ٹینکوں کے فائر سے خون میں نہاتے دیکھا۔ بیروت سے غزہ تک اور دمشق سے قاہرہ تک، میں جہاں بھی گیا عربوں کو پاکستان کے پائلٹ یاد تھے۔ وہ پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں کی تحسین کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی ساتھ جنرل ضیاء الحق کی مذمت کرنا نہیں بھولتے تھے۔

یہ مت دیکھئے کہ عرب ممالک کے حکمران پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا کہتے ہیں۔ یہ دیکھئے کہ عرب ممالک کے عوام پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ آج پاکستان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے جائیں تو اسرائیل اور بھارت کا پاکستان کیخلاف اتحاد ختم ہو جائیگا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کیساتھ دوستی کا مشورہ کون دے رہا ہے؟ کیا اس مشورے کے پیچھے پاکستان کا مفاد ہے یا کسی اور کا مفاد ہے؟ 2018ء میں امریکی صحافی باب ووڈ وارڈ کی نئی کتاب Fear یعنی ’’خوف‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر ایران کو عراق، شام، لبنان اور یمن سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے امریکہ نے سعودی عرب اور کچھ دیگر خلیجی ریاستوں کا اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل سعودی صحافی داہام الانازی نے عربی اخبار ’’الخلیج‘‘ میں ’’ریاض میں اسرائیلی سفارتخانہ کیلئے ہاں‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا کہ سعودی عرب کو مغربی یروشلم میں اپنا سفارتخانہ کھولنا چاہیئے اور اسرائیل کو ریاض میں سفارتخانہ کھولنا چاہیئے، کیونکہ یہودی تو ہمارے کزن ہیں جبکہ ایرانیوں اور ترکوں سے تو ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ عرب میڈیا میں یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات قائم ہونے چاہئیں یا نہیں؟ سعودی حکومت اس معاملے پر فی الحال خاموش ہے، لیکن یہ صاف نظر آرہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان طاقت کی رسہ کشی میں اسرائیل کو سعودی عرب کے اتحادی کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں، کیونکہ مسلم ممالک کی بڑی اکثریت نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کئے۔

ان ممالک میں انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، افغانستان، الجزائر، صومالیہ، سوڈان، شام، ایران، یمن، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، تیونس اور دیگر ممالک شامل ہیں، لہٰذا پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل سے دوستی کر لو، تاکہ باقی مسلم ممالک کو بھی یہ مشکل کام کرنے میں آسانی ہو۔ پاکستان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینے سے اسرائیل اور بھارت کا پاکستان دشمن اتحاد ختم ہو جائیگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان کو ایران کے خلاف تشکیل دیئے جانیوالے ایک نئے اتحاد میں شامل کرنے کی تیاری ہے۔ کیا پاکستان کا یہ اقدام ہمارے آئین کی دفعہ 40 کی خلاف ورزی نہیں ہوگا، جو پاکستانی ریاست کو اسلامی اتحاد اور عالمی امن کے فروغ کیلئے کام کرنے کا پابند بناتی ہے؟ ہمیں پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے یا کرائے کا گوریلا بننا ہے۔؟

کوئی مانے یا نہ مانے، آج پاکستان کو اسرائیل کی نہیں، اسرائیل کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے لئے یورپ میں حمایت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ 28 یورپی ممالک میں سے 9 یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں۔ اسپین، فرانس اور آئرلینڈ بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کو نہیں مانتی۔ یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے، کیونکہ دنیا پر یہ واضح ہو رہا ہے کہ مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر انتہا پسندی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر حریمی کاربن کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل جیوش اینٹی زیاونسٹ نیٹ ورک (آئی جے اے این) کے نام سے یہودیوں کی ایک عالمی تنظیم امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں اسرائیل کیخلاف سرگرم ہے اور اسرائیلی ریاست کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیتی ہے۔

اس تنظیم کی بانی برطانوی مصنفہ سیلما جیمز خود یہودی ہیں۔ آج اسرائیل کیلئے سیلما جیمز اور نوم چومسکی جیسے دانشور دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل نیدر لینڈز کی حکومت نے دنیا بھر کے یہودیوں سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کے ظلم پر آواز اٹھائیں، اس صورتحال میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے تو فائدہ کسے ہوگا؟ پاکستان کو عالمی برادری کے ساتھ مل کر مسئلۂ فلسطین کے حل کیلئے موثر کردار ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ مسئلۂ فلسطین کا حل مسئلۂ کشمیر کے حل کی راہیں کھولے گا۔ پاکستان کو کسی عالمی طاقت کے دبائو یا چند ارب ڈالر کے عوض مشرقِ وسطیٰ میں وہ غلطی نہیں کرنا چاہیئے، جو 1970ء میں بریگیڈیئر ضیاء الحق نے اردن میں کی تھی۔


تحریر: حامد میر
"بشکریہ روزنامہ جنگ"

وحدت نیوز (آرٹیکل) بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے حالیہ دنوں ابو ظہبی میں او آئی سی کی وزرائے کارجہ کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور اس خطاب کے لئے ان کو خصوصی دعوت ابو ظہبی اور سعودی حکمرانوں کی طرف سے دی گئی تھی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ او آئی سی کے فورم پر کسی غیر مسلم ملک یا غیر ممبر ملک کی وزیر خارجہ نے خطاب کیا ہو۔اس خطاب سے متعلق سب اہم بات اس کے وقت کا تعین تھا۔پاکستان کے عرب دوست ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو ایسے وقت میں مدعو کیا کہ جب چند روز قبل ہی پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی خبریں آنا شروع ہوئی تھیں جو بڑھتے بڑھتے پھر بھارتی فضائیہ کی پاکستانی علاقوں کی حدود کی خلاف ورزی اور بمباری جیسی خبروں تک جا پہنچی جس کے جواب میں پاکستان فضائیہ نے بھی ایک کاروائی میں بھارتی فضائیہ کے ایک مگ اکیس طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا تھا جسے دو روز بعد امن مقاصد کے خاطر واپس بھارت کو دے دیا گیا۔ان تمام باتوں سے ایک طرف کشمیر کی صورتحال بھی ہے کہ جہاں ویسے تو ستر برس سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والی مظلوم کشمیر قوم ہے تو حالیہ چند ماہ میں یہ ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنا بھاری افواج کا معمول بن چکا ہے، پاکستانی حدود میں بھارت کی شیلنگ اور اس کے نتیجہ میں معصوم شہریوں کی شہادت بھی روزانہ کی خبروں کا حصہ بن چکا ہے، تاہم ایسے ایام میں کہ ایک طرف پاک بھارت کشیدگی کے باعث دونوں ممالک میں تناؤ کی کیفیت اور اس حد تک کہ دونوں ممالک کی فضائی حدود کو ہر قسم کی پروازوں کے لئے بند کر دیا گیا تھا تو دوسری طرف اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا اجلاس منعقد ہوا جو یقیناًپہلے سے طے شدہ تاریخ کے مطابق تھا۔او آئی سی اجلاس کی انوکھی اور منفرد بات یہ ہوئی کہ پاکستان کے دوست عرب ممالک نے بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ آ کر خطاب کریں،۔

دوسری طرف اس پوری صورتحال میں پاکستان کا نقطۂ نظر ٹھوس اہمیت کا حامل تھا کہ اگر بھارت کو اسلامی ممالک کے بین الاقوامی فورم پر بلانا ہی ہے تو پھر مسئلہ کشمیر کا کیا ہوگا؟ کیا پاکستان مسئلہ کشمیر کو فراموش کر دے ؟ یا کشمیریوں کی ستر سالہ جد وجہد کو صرف نظر کرے؟ بہر حال اس قسم کے متعدد سوالات اس بات کا موجب بنے ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے معذرت ہی کر لی جس پر سیاسی ماہرین کی جانب سے تنقید اور تعریف بھی کیجا رہی ہے ان تمام باتوں سے بالا تر ہم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے خطاب سے چند سوالات اخذ کرتے ہیں ۔سشما سوراج نے اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں افتتاحی خطاب کیا اور انہیں عرب ممالک کی طرف سے کافی اہمیت دی گئی،سشما نے جہاں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد اور ان کی ثقافت کی بات کی وہاں انہوں نے یہ پیغام دیا کہ سب کو اپنے مذہب کے مطاب رہنا چاہئیے کسی کو حق نہیں کوئی کسی پر زور زبردستی کرے، لیکن سشما جی یہاں پر یہ بتانا بھول گئی تھیں کہ یہ بھارت ہی ہے اور ان کے وزیر اعظم ہی ہیں کہ جن کو ’’گجرات کا قصاب‘‘کا لقب دیا گیا ہے کیونکہ ان کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ کارناموں کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور آج جب وہ بھارت کے وزیر اعظم بھی ہیں تب بھی مسلم کش پالیسی سے باز نہیں آتے تو سشما جی سے گذارش ہے کہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں پھر او آئی سی یا کسی بین الاقوامی فورم پر آ کر یہ درس دیں تو اچھا لگے گا۔سشما سوراج نے اپنی گفتگو میں سعودی عرب اور بنگلہ دیش کو خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جبکہ شیخ عبد اللہ بن زید کو سشما سوراج کو اس کانفرنس میں خطاب کی دعوت دینے کے لئے زبردست شکریہ کے کلمات ادا کئے اور ان کو اپنا بہتری دوست قرار دیا اور کہا کہ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں ۔

انہوں نے لوگوں کی آزادی، عزت وشرافت، یکجہتی اور عدل و انصاف کے نقاط پر بھی زور دار گفتگو کی۔بات صرف یہاں تھمی نہیں بلکہ انہوں نے مزید تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے موضوعات کو بھی زیر بحث لاتے ہوئے گفتگو کی اور مسلم دنیا کو باور کروایا کہ بھارت ان ممالک کے ساتھ مل کر یہ سب کام انجام دینا چاہتا ہے تاہم یہاں پر ایک مرتبہ پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما جی یہ بھول چکی تھیں کہ کشمیر آج بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے اور شاید جب وہ خطاب کر رہی تھیں تو عین اس وقت ممکن ہے کشمیر میں کوئی مظلوم بھارتی جارح افواج کے مظالم کا نشانہ بن رہا ہوگا۔سشما سوراج نے آزادی اور عزت و عظمت سمیت انصاف کی بات کی تو آئیں ان سے پوچھ لیتے ہیں کہ آٹھ ہزار کشمیری لوگوں کا کیا قصور ہے جن کو آپ کی افواج اور ایجنسیوں نے لا پتہ کر رکھا ہے؟ان بچوں کا کیا قصور ہے جن کی آزادی آپ نے سلب کر رکھی ہے؟ ان ماؤں اور بہنوں کا کیا قصور ہے کہ جن کی عزت و شرافت کو آپ نے تاراج کیا ہے ؟کیا سشما سوراج کے اس فورم پر اس طرح کی بات کرنے سے بھارت کے تمام جرائم اور مظالم جو کشمیر میں روا رکھے گئے ہیں ان کو معافی دے دی جائے گی ؟ کیا یہ مسئلہ فلسطین کی طرح امریکی سرپرستی میں عرب حکمرانوں کی کوئی سازش تونہیں کہ فلسطین کی طرح کشمیر پر بھی سودے بازی کر لی جائے ؟بہر حال سشما جی کو سوچنا چاہئیے کہ ان باتوں کا کیا مقصد تھا؟سشما سوراج نے اسلامی ممالک کی تنظیم کے معزز اراکین کو یہ بھی نہیں بتایا کہ تعلیم ، صحت اور خوشحالی کے ہمارے نعرے مقبوضہ کشمیر میں روزانہ اس وقت دم توڑ جاتے ہیں جب ہم کشمیری عوام سے ان کا جینے کا بنیادی حق بھی چھین لیتے ہیں۔سشما سوراج چونکہ عرب حکمرانوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں تو انہوں نے پوری کانفرنس میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کی معاشی حالت بہت مضبوط ہے تا کہ مسلم دنیا میں اپنی جگہ بنائی جائے۔انہوں نے خلیج ممالک کو بھارت کی سب سے بڑی مارکیٹ قرار دیا اور کہا کہ 8ملین بھارتی شہری ان ممالک میں موجود ہیں۔سشما سوراج نے ایک بات ایسی کہہ دی جوشاید عرب دنیا کے چند حکمرانوں کو ناگوار گزری ہو، سشما نے کہا کہ ہم فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ اسی اجلاس میں موجود ایسے عرب حکمران موجود تھے کہ جو ماضی میں فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیتے آئے ہیں لیکن شاید یہ حکمران اس لئے بھی برداشت کر گئے ہوں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ بھارت اسرائیل کا ہم نوالہ و ہم پیالہ بھی ہے۔

سشما سورا ج نے دہشت گردی کے مسئلہ پر بھی اظہار خیا ل کیا اور کہا کہ اس وقت خطر ناک ترین دہشت گردی کا سامنا ہے ۔یہاں انتہائی مہارت کے ساتھ انہوں نے تمام مسلمان ممالک پر زور دیا کہ وہ سب کے سب بھارت کے ساتھ مل کر اس دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے ساتھ دیں ۔انہوں نے اس عنوان سے دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے منسلک کرنے کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی مقدس آیات بیان کیں،سکھوں کے روحانی پیشوا گرو نانک کے خیالات بیان کئے،سنسکریت مذہبی کتاب ،سوامی وویکنندا اور بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر عبد الکلام آزاد کے چند جملوں کو بیان کرکے یہ تاثر دیا کہ بھارت شدت پسندی اور دہشت گردی کا مخالف ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام کتابوں ، فلسفیوں اور روحانی پیشواؤں کے نظریات جو کانفرنس میں سشما سوراج نے بیان کئے کیان ان تمام کتابوں یا افراد نے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی اور قتل و غارت کرنے کا بھی درس دیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بھارت کی ریاستی دہشت گردی ستر سال سے کشمیر کے مظلوموں کو کیوں کچل رہی ہے؟خلاصہ یہ ہے کہ سشما سوراج نے وہی کہنا تھا جو اس نے کہہ دیا لیکن گھر تو ہمارا بھی صاف نہیں ہے۔جب او آئی سی کے رکن ممالک کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو اور انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ان ممالک کی جمعیت کس قدر اثر رکھتی ہے، اقوام متحدہ میں ایک چوتھائی سے زیادہ اکثریت انہی رکن ممالک کی ہے ، اگر یہ باتیں ان کو معلوم ہوتیں اور اپنی اہمیت کا اندازہ ہوتا تو قاتلوں کے لئے اسٹیج فراہم نہ کرتے۔مزید یہ کہ یہ کیسا اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کا فورم ہے کہ جہاں چند خلیجی عرب ملکوں کی اجارہ داری کے باعث مسلمان ممالک شام اور یمن شریک نہیں ہوسکتے ۔جہاں قطر ، ایران اور ترکی کے خلاف محاذ آرائی کی جاتی ہے۔بس اتنا کہوں گا کہ او آئی سی میں موجود خلیجی عرب ممالک اور دیگر کا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا انہیں اس قابل ہی بناتا ہے کہ کشمیریوں کے قاتل اور بالخصوس سشما سوراج ان جیسوں سے خطاب کرے۔

 

 

 تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی اسکالر شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل)1- 2014 میں سیپیک کے منصوبے پر اتفاق پاکستان اور چائنہ نے دستخط کئے.  (نواز شریف حکومت).
2- خلیجی ممالک نے اسے اپنے مفادات کے لئے خطرہ قرار دیا اور انڈیا اور امارات نے ہم زمان اسے خطرناک اور انکے مفادات کے لئے نقصان دہ قرار دیا.
3- امریکہ نے کہا کہ چین کی اقتصادی ترقی ہمارے قومی مفادات کے لئے ایک خطرے کی علامت ہے.
4- اچانک کیا ہوا کہ کہا جا رھا ہےکہ سعودی وخلیجی سیپیک کا حصہ بن گئے ہیںاور اسے منی سیپیک کا نام بھی دیا جا رھا ہے.
5- کہا جا رھا کہ چائنہ کو کاونٹر کرنے کے لئے سعودیہ،  امارات اور قطر کو شامل کیا جارھا ہے اور امریکہ اور دیگر ممالک بھی سرمایہ گزاری کریں گے.
6- ایک مرتبہ روس کو کاونٹر کرنے کے لئے بھی اسی ٹیم کو پاکستان میں افغانستان پالیسی کے نام سے وارد کیا تھا. جس کے نقصانات فقط ہم نہیں پورا خطہ اٹھا رھا ہے.
7- اگر چائنہ کے تسلط اور قبضے کا خطرہ تھا تو نئے پاکستان والوں کو مہاتیر محمد والا قدم اٹھانا چاہیے تھاکہ جس طرح سعودی ایجنٹ عبدالرزاق کے تمام معاھدے جو ملیشیاء کے قومی مفادات سے ٹکراتے تھے اور مھاتیر محمد نے صدر بنتے ہی چائنا جاکر انہیں ختم کر دیا تھا. پاکستان بھی سعودی ایجنٹ نواز شریف کے ایسے سارے معاھدے جو ہمارے قومی مفادات کے خلاف تھے ہمارا وزیراعظم بھی جرات دکھاتا اور چائنا جا کر بات کرتا اور ختم کرنے کا اعلان کرتا. نہ کے کاونٹر پالیسی بنا کر ملک کو تناقضات کی دلدل میں دھکیلتا.
8- یوں لگتا ہے کہ نئے کیپسول میں پرانی دوا پاکستانی قوم کو پلائی جا رہی ہے.
9- امریکہ ، اسرائیل ، سعودیہ اور انکے حلفاء 2016 سے مسلسل ذلت ورسوائی اور شکست در شکست کا سامنا کر رہے ہیں. شام وعراق کی پسپائی اور یمن میں رسوائی کے بعد نئی اسٹریٹجی پر کا شروع ہو چکا ہے.
10- خطے کی ان جنگوں میں پاکستان کو اپنا شریک بنانے میں نا کام رہے ہیں. لیکن لگتا ایک بار پھر پاکستان کو فرنٹ رول دینے کا منصوبہ تیار ہے. -

 نئی اقتصادی اور امنیتی جنگ۔

1- چائنا کے اقتصاد کو کاونٹر کرنا.
2- ایران کے نظام کو گرانے یا کمزور کرنے کے لئے اس کا محاصرہ کرنا.

 11- پہلے ھدف کے حصول کے لیے تو کھل کر میڈیا میں زمینہ سازی اور کمپین چل رہی ہے.
 12- دوسرے ھدف پر امریکہ اسرائیل اور سعودیہ تو کھل کر کام کر رہے ہیں لیکن پاکستان ابھی شاید اس کا متحمل نہیں.
 13- عراق کی تقسیم اور کرد مستقل اسٹیٹ کے پلان کی نا کامی کے بعد ایک میٹنگ اربیل میں ہوئی تھی جس میں جس میں سعودی عرب نے داعش کی قیادت اور دھشتگردوں کو افغانستان منتقل کرنے کے لئے تمام تر بجٹ ادا کرنے کی زمہ داری لی تھی میڈیا سورسز کے مطابق پاکستانی بھی شریک تھے.
14- 2017  میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کھل کر اعلان کیا کہ وہ جنگ کو ایران میں داخل کریں گے. اور ایرانی نظام کو گرانے کا پورا پلان بتایا.
 15- جب ایران وترکیا وشام کے باڈر پر عراق کی تقسیم اور مستقل کرد اسٹیٹ کے ذریعے ہمسایہ ممالک کو نا امن بنانے کا امریکی منصوبہ نا کام ہوا تو عراق میں سعودی عرب کے توسط سے داعش کی پشت پناہی کرنے والوں کو گذشتہ الیکشن میں پارلیمنٹ پہنچایا گیا. اور سرمایہ گزاری کے نام پر کرد علاقوں میں سیکڑوں ایکڑ اراضی  زراعتی منصوبوں کے نام پر سعودیہ نے حاصل کی.
 16- 2018 میں سعودی عرب نے اپنے اتحادیوں کی نیابت میں پاکستان سے ایران کے باڈر کے علاقے میں ملٹری اپریشن سیل بنانے کے لئے بلوچستان میں زمین مانگی تاکہ وھاں سے وہ امریکی وسعودی نواز دہشتگرد تنظیموں کی پشت پناہی کر سکیں. پاکستان نے اس قسم کے مرکز کے لئے زمین دینے سے انکار کر دیا.
 17- 2018 کے الیکشن کے بعد جب نئی حکومت آئی تو اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج خالی خزانہ ہی نہیں واجب الادا سود اور قرضے بھی تھا. حکومت سابقہ حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی اور بے تحاشہ کرپشن کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی.
 18- پاکستان کی اس کمزوری کو غنیمت جانتے ہوئے امریکی پشت پناہی اور سرپرستی سے خلیجی ممالک بالخصوص سعودیہ کو سیپیک اور اقتصادی سرمایہ گزاری اور مالی امداد کے ذریعے ایک بار پھر اپنے قدم جمانے کا موقع ملا.
 19- وہ زمین جو بلوچستان میں ملٹری اپریشن سیل کے لئے دینے سے پاکستان نے انکار کیا تھا اسے آئل ریفائنری اور دیگر اقتصادی یونٹ کے نام پر سعودیہ نے حاصل کر لیا.  اور سیپیک کے کھلے مخالف امریکہ و امارات نے بھی سعودیہ وقطر کے ساتھ سرمایہ گزاری میں دلچسپی کا اظہار کر دیا. کہ سعودیہ 20 بلینز، امارات 10 بلینز ، قطر 10 بلینز اور امریکہ بھی 20 بلینز کی سرمایہ گزاری کریں گے. البتہ یہ داری سرمایہ گزاری اقتصادی ہو گی یا ایران کے مخالف  عسکریت پسندوں کی پشت پناہی ہو گی. یہ وقت ہی بتائے گا.
20- سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے وقت کا انتظار کئے بغیر پاکستان کی سرزمین سے ایران کے خلاف ایک نئی جنگ کا طبل بجا دیا. اور ایران پر بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کی ہے اور فقط ایران نہیں پورے مقاومت کے بلاک کو نشانہ بنایا ہے.
21- ہر ایک جانتا ہے کہ آج دنیا میں ہونے والی جنگ دو بلاک کے ما بین ہے. ایک طرف امریکی بلاک ہے کہ جس میں امریکا کے علاوہ  ، اسرائیل ، سعودی عرب ، تکفیری دھشتگرد داعش ، جبھۃ النصرۃ وغیرہ اور
دیگر بعض مغربی اور خطے کے ممالک ہیںاور دوسری طرف مقاومت کا بلاک ہے کہ جس میں روس ، چین ، ایران ، عراق وشام اور حزب اللہ وانصار اللہ ہیںاور پاکستان کے قومی مفاد میں ھرگز نہیں کہ امریکی بلاک میں جائے. اگر مقاومت کے بلاک کا حصہ نہیں بن سکتا اور ہمسایہ ممالک روس ،چین اور ایران سے اسٹریٹیجک تعلقات قائم نہیں کر سکتا تو اسے امریکی بلاک کا بھی حصہ نہیں بننا چاھیے.
22- ابھی تو ابتداء ہے ، پاکستان ابھی بھی پورے خطے میں تباہی پھیلانے والے، آباد ممالک کو برباد کرنے والے  اور ممالک کو تقسیم کرنے اور عوام کو آپس میں لڑانے پر کام کرنے والے ان ظالموں اور انسانیت کے دشمنوں سے اپنے آپ کو الگ کر لے. وگرنہ اس بار اگر شیطان اکبر امریکہ اپنے ابلیسوں کے ساتھ دوبارہ گھس آیا تو پھر خدا ہی جانتا ہے کہ اس کا مستقبل کیا ہو گا.


ڈاکٹر سید شفقت حسین  شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل)عرب دنیا کے حکمرانوں اور اسرائیل کی قرابت میں آئے روز ہونے والا اضافہ جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی بے مثال جدوجہد کو سبوتاژ کر رہا ہے وہاں ساتھ ساتھ اسرائیل کے لئے خطے میں کھلم کھلا بدمعاشی اور دہشت گردی کے راستے بھی کھول رہا ہے اور یہ دہشت گردی بالآخر خطے میں موجود اسرائیل کے قرابت دار عرب حکمرانوں کو بھی اپنی آگ میں لپیٹ لے گی۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور بادشاہ اپنے انجام اور عاقبت سے بے خبر امریکہ و صہیونی کاسہ لیسی میں غرق ہو چکے ہیں۔سابق اسرائیلی سفارتکار دورے گولڈ کاکہنا ہے کہ اسرائیل عرب تعلقات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے اسرائیل کی مشکلات میں کمی ہونے کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔انہوں نے عرب دنیا اور اسرائیل کے مابین ملاقاتوں اور تعلقات کے راز کو افشا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ ملاقاتیں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کئی برسوں کا تسلسل ہے اور اس طرح کی ملاقاتیں اسرائیل کے لئے کامیابی کی کنجی ہے۔اس تجزیہ نگار کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے حکمران اب ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ماضی میں کوئی بھی قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔سابق اسرائیلی سفارتکار کے تجزیہ کے مطابق عرب خلیجی حکمرانوں کی اسرائیل کے قریب آنے کی ایک وجہ اسرائیل اور ان عرب ممالک کا ایران مخالف ہونا ہے۔یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران پر قابو رکھنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ بھی خلیج میں امریکی اتحادیوں اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کی زبردست حامی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں فلسطین اور اس کے عوام شدید خطرات سے لاحق ہو رہے ہیں، القدس خطرے میں ہے۔خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں، نئے اتحادوں اور صدر ٹرمپ کے اس وعدے کے بعد کہ وہ اسرائیل عرب تنازعے کو ختم کرنے کے لیے اس ’صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘ کرانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، فلسطینیوں کی فکرمندی میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔

فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اْن پر دباؤ بڑھانے کے لیے سعوی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقائی ریاستوں کی جانب دیکھ رہی اور یہ امریکی انتظامیہ فلسطینیوں کو ایک ایسے امن معاہدے پر مجبوراً رضامند کرانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے ان کے دیرینہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔فی الحال صرف مصر اور اردن ہی وہ عرب ممالک ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کا عمل بہت پہلے رک چکا ہے لیکن گزشتہ سال اسے ایک اور دھچکا لگا۔وہ فلسطینی عوام جو مقبوضہ بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانے چاہتے ہیں انھوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے اسے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے اقدام کو مسترد کر دیاہے۔انھوں نے یہ کہہ کر واشنگٹن سے اپنے تعلقات ختم کر لیے کہ یہ قدم تصفیہ کرانے والے کسی منصف کا نہیں ہو سکتا۔لیکن اس کے باوجود مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے ایلچی جیسن گرین بلاٹ اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم کے عمان کے دورے کے حوالے سے پرجوش بھی ہیں۔اپنی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدم ہماری امن کی کوششوں کے لیے نہ صرف مدد گار ہے بلکہ اسرائیل، فلسطین اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان استحکام اور خوشحالی کی فضا قائم کرنے کے لیے ضروری بھی ہے۔‘دوسری طرف عرب دنیا کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امن مذاکرات کی بحالی میں سعودی عرب کو جو کردار دیا گیا تھا وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شکوک کا شکار ہو گیا ہے۔اس بیان میں بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگرچہ خاشقجی کی ہلاکت ایک ’ہولناک" خبر تھی لیکن اس سے سعودی عرب کے اندر عدم استحکام پیدا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل اور بڑا مسئلہ ایران ہے۔

بحرین نے اسرائیل کی جانب سے اس ’واضح موقف‘ کو اسی طرح سراہا ہے جیسا اس نے گذشتہ دنوں عمان کو اسرائیلی وزیر اعظم کی آمد پر سراہا تھا۔اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ عرب ممالک جلد ہی اسرائیل کو پوری طرح گلے لگا لیں گے، اس لیے فی الحال ہمیں دونوں فریقوں کے درمیان ایسے دعوت ناموں اور پرجوش انداز میں ہاتھ ملانے کے مناظر کو ہی کافی سمجھنا پڑے گا جن کے بارے میں ہم کل تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔اس تمام تر صورتحال پر اثر اب پاکستان پر بھی پڑنا شروع ہو چکا ہے کہ جو ماضی میں پاکستانی حکمرانوں کی اسرائیلی عہدیداروں کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں خفیہ ملاقاتوں کی صورت میں سامنے آیا تھا تاہم دور حاضر میں تل ابیب سے پرواز کر کے آنے والا طیارہ کی اسلام آباد میں لینڈنگ ہو اور دس گھنٹے قیام ہو یا پھر سابق جنرل کا اسرائیل حمایت میں لیکچر یا پھر حکومتی جماعت کی رکن قومی اسمبلی کی طرف صہیونیوں کی حمایت اورا سرائیل کے لئے راہ ہموار کرنے جیسے بیانات اور تقریریں ہوں سب کے سب ریکارڈ پر موجود ہیں اور ایک نئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ایسے حالات میں خبریں یہ بھی آ رہی ہیں کہ اب پاکستان نے جن ممالک کیلئے ویزا پالیسی کا اعلان کیا ہے اس میں اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کو بھی پاکستانی ویزا دیا جائے گا یہ انتہائی خطرے کی بات ہے اور پاکستان کے آئین اور نظیاتی بنیادوں سمیت بانیان پاکستان کی اساس سے انحراف کے مترادف ہے۔چونکہ پاکستان کی سیاست اور آنے والی حکومتوں کے حکمران عام طور پر امریکہ کے بعد سعودی عرب اور امارات کو اپنا سب سے بڑا پیشوا اور مسیحا مانتے ہیں تاہم اس مریدی میں یقیناًپاکستان پر انہی عرب ممالک کی طرف سے یہ دباؤ بھی ضرور ہو گا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کو نرم کیا جائے۔بہر حال خلاصہ یہی ہے کہ حالیہ دور میں فلسطینی اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ مثالی ہے جبکہ عرب دنیا کے حکمران اسرائیل کے ساتھ قربتیں پیدا کر کے جس طرح سے نہ صرف فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپا جا رہاہے اور اس صورتحال سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے لئے مسلم دنیا اور عالم انسانیت کا خطر ناک دشمن صہیونی جعلی ریاست اسرائیل ہے جو عنقریب ان عرب قرابت داروں کو بھی اپنے شکنجہ میں دبوچ ڈالے گی اور اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔مقالہ کے اختتام پر سابق پاکستانی جنرل غلام مصطفی کی بات کو دہراتا ہوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان تل ابیب میں بیٹھ کر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی چوکیداری بھی کر لے تب بھی یہ اسرائیلی پاکستان کو نہیں چھوڑے گا اور موقع ملتے ہی پاکستان کے خلاف اپنا ہر قسم کا وار کرے گا۔ اب پاکستان سمیت تمام عرب دنیا کے حکمرانوں کو چاہئیے کہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئیے۔ختم شد

تحریر: صابر ابو مریم   
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر
، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

Page 11 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree