وحدت نیوز(آرٹیکل) کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے،اگر کوئی علمی و فکری طور پرکمزور ہو تو  وہ اپنے گلی محلےوالوں کی  غیبت میں ہی سارا دن صرف کردیتا ہے، جیسے جیسے انسان کی سوچ کاافق وسیع ہوتا جاتا ہے ،اسکے دوستوں اور دشمنوں کی سطح بھی مختلف ہوجاتی ہے، ہم عموماًاپنے ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال میں پھنسے رہتے ہیں اور یا پھر دوسرے ممالک کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کے بیانات تک محدود رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے دشمن کی دشمنی ہماری حکومتوں یاسرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ   دشمن تمام اسلامی ممالک، اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب و تمدن سے بر سر پیکار  ہے۔

بدقسمتی سے ہم انتہائی محدود سوچ اور کمزور اطلاعات کی بنیاد پر  تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جبکہ ہمارے مخالفین تاریخی تناظر کے ساتھ تجزیہ  اور پلاننگ کرتے ہیں۔۱۱ستمبر ۲۰۰۱ کے واقعات کے بعد دنیا ابھی حالات کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی تو ۱۶  ستمبر ۲۰۰۱کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نےوائٹ ہاوس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ   اس صلیبی جنگ (crusade)، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجنے جا رہا ہے۔ اور امریکی عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میں بھی صبر کا مظاہرہ کروں گا۔ لیکن میں امریکی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ثابت قدم ہوں، اور پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔

اس دور میں ہم جب وقتی حالات کے تحت قومی فیصلے کر رہے تھے   تو  اس وقت مغربی و امریکی اقوام، تاریخی پسِ منظر کے ساتھ ، ہمیں مسلمان سمجھ کربحیثیت مسلمان ہمارا تعاقب کر رہی تھیں۔مذہبی و  دینی بنیادوں پر ہمارا تعاقب اس بات کی دلیل ہےکہ دشمن صلیبی جنگوں کو تسلسل کے ساتھ لڑ رہاتھا، یہ لڑائی کسی اسلامی حکومت تک محدود نہیں   تھی بلکہ اس لڑائی  میں ممالک  کو کھنڈرات  میں تبدیل  کیا گیا، قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا گیا،نوجوانوں کو  منشیات کا عادی بنایا گیا،تعلیمی ا داروں کوتباہ کیا گیا ، سول شہریوں کو  یرغمال بنایا گیا ۔اب تک صرف افغانستان میں سول شہریوں پر ٹنوں کے حساب سے بارودی مواد گرایا گیا۔شام و عراق میں انفرااسٹریکچر کو تباہ کرنے کے بعد آثار قدیمہ تک کو منہدم  کر دیا گیا ، صلیبی جنگوںمیں اس سے پہلے دشمن نے ہم پر ہر طرح کاحربہ ازمایا تھا ، حتی کہ ایک صلیبی جنگ  صرف بچوں کے ساتھ  ہی مسلمانوں کے خلاف لڑی گئی تھی۔
"بچوں
تاریخی اسناد کے مطابق 1212ء میں مسلمانوں خلاف کی صلیبی جنگ" لڑی گئی۔ مسیحی راہبوں کا کہنا تھا کہ بڑی عمر کے افراد گنہگار ہوتے ہیں اس لئے ہمیں مسلمانوں پر فتح نصیب نہیں ہورہی  ، جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں ،انہوں نے معصوم بچوں پر مشتمل  37 ہزار کا ایک لشکر بنایا جو فرانس سے روانہ ہوا۔ یہ   لشکر بیت المقدس پہنچنے سے پہلے ہی نیست و نابود ہوگیا۔

اس طرح کے تجربے کرنے کے بعد اب دشمن ہمارے خلاف اپنے بچوں کے لشکر ترتیب نہیں دیتا بلکہ  اب تو ہمارے ہی بچوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ دے کر ہمارے اوپر خود کش حملےکرواتا ہے اور اب مسلمانوں کے خلاف جو لشکر ترتیب دئیے جاتے ہیں ان کے ہاتھوں میں صلیب نہیں  بلکہ   ایسا پرچم ہوتا ہے جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔

دشمن قدیمی صلیبی جنگوں کے ذریعے تو ہم سے بیت المقدس کو نہیں لے سکا تھا لیکن بعد ازاں نئی حکمت عملی کے ساتھ  بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین چکا ہے۔ اس وقت اسرائیل کاوجود صلیبی ممالک کی حمایت کا ہی مرہون منت ہے۔

مسلمان ایک طرف  طالبان ، القائدہ،داعش اور لشکر جھنگوی سے نبرد ازما ہیں اوردوسری طرف، اسرائیل   اور  بھارت  جیسے ممالک سے پنجہ ازمائی کر رہے ہیں جبکہ صلیبی طاقتیں دونوں محازوں  پر مسلمانوں کے خلاف کھل کر اسلام دشمن ممالک اور تنظیموں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ حتی کہ اگر یمن میں ایک گھنٹے میں ایک بچہ بھوک سے مر جاتا ہے تو یہ سب بھی صلیبی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

اس وقت مشرقی ممالک کا اقتصاد،کرنسی،  سیاست، معدنی ذخائر، فوجی نقل و حرکت اور  آبی وسائل ان سب پر امریکہ و مغرب کاکنٹرول ہے، اور یہ  مکمل کنٹرول انہوں  نے  صلیبی جنگوں کے تجربات کے بعد حاصل کیاہے۔لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی آج مکمل طور پر اسلامی دنیا پر حاکم ہے اورافسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہاہے کہ مسلمان دانشمند اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔

امریکہ ومغرب کا انداز تفکر یہ ہے کہ وہ  ساری دنیاکے مالک ہیں، اور ساری دنیاانکی غلام ہے،لہذا غلاموں کے لئے وہ کسی احترام یا اخلاق کے قائل نہیں ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کے پھینکے گئے بم اس کی واضح دلیل ہیں اور اس کے علاوہ انہوں نے کس بے دردی سے فلسطینیوں کو بے گھر کیا ہے، شام کو کھندرات میں تبدیل کیاہے، عراق کو تہس نہس کیا ہے اور افغانستان کو برباد کیا ہے یہ سب کسی سے ڈھکاچھپا نہیں۔

امریکہ و مغرب کا کینہ حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ ملتوں تک پھیلاہوا ہے،یہ جب کسی ملک  میں داخل ہوتے ہیں تو صرف اس کی  حکومت کو ختم نہیں کرتے بلکہ اس کی ملت کو بھی تباہ کرتے ہیں اور ملتوں کی تباہی کے لئے ، فرقہ واریت، باہمی نفرت، علاقائی تعصب ،فحش فلموں،  اخلاقی فساد، جنسی بے راہروی ، کلاشنکوف کلچر، اغوا برائے تاوان ، اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ نیز منشیات تک کے حربے استعمال کرتے ہیں۔

امریکہ ومغرب کے حالیہ کنٹرول سے نجات کے لئے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ گلی کوچے کی دوستی و دشمنی سے باہر آئیں اور عالمی اسلامی برادری  کے تصور کےمطابق اپنے نفع و نقصان کا تعین کریں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسجد سےمسجدکے خلاف فتوے، مسلک سے مسلک کے خلاف کتابیں لکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے کے بجائے باہمی فاصلوں کو  مٹانے، مشترکہ دشمنوں کو پہچاننے،  اور آپس میں اخوت و رواداری کے فروغ کا خلوص دل سے قصد کریں۔

ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ  ہم بین الاقوامی آمریت کے دور میں جی رہے ہیں، ایسی آمریت جس میں  واضح طور پر یہ پیغام دیاجاتا ہے کہ  ہماری اطاعت کرو، ہمارا ساتھ دو نہیں تو ہم  تمہیں کھنڈرات میں تبدیل کر دیں  گے۔اس زمانےکا آمر جدیدتعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور وہ کمزور اقوام کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت کرنے پر آمادہ نہیں،ایسے میں اگر ہمارے دانشمند  صرف اپنے اوپر ہی غصہ نکالتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو کوستے رہیں گے تو دشمن مزید طاقتور ہوتا جائے گا۔ہمیں دشمن کی علمی و فکری طاقت کو سامنے رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مقابلے کی تیاری کرنی چاہیے۔

ہماری تمام مسلمانوں خصوصاً علمائے  اسلام سے اپیل ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ کو پہچانیے،مسلمانوں کے تاریخی دشمنوں پر ایک نگاہ ڈالئے،دشمنوں کی سازشوں پر لبیک کہنے کے بجائے ، تجزیہ و تحلیل کےذریعے سازشوں  کو بے نقاب کیجئے،  عالم اسلام کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیجئے، اور  مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو ابھارنے کے بجائے  وحدتِ اسلامی  کے سورج کو طلوع ہونے دیجئے ، اسی میں پورے عالم بشریت کی بھلائی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے،اگر کوئی علمی و فکری طور پرکمزور ہو تو  وہ اپنے گلی محلےوالوں کی  غیبت میں ہی سارا دن صرف کردیتا ہے،ہمیں اب گلی محلے کی سطح سے اوپر آنے  کی ضرورت ہے۔


تحریر: نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

جابر بن حیان

وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر ابن حیان دنیا کے عظیم دانشمندوں میں سے ایک ہے جو علم کیمیاء میں نہ فقط عالم اسلام میں بلکہ غیر مسلموں کے درمیان بھی مشہور  ہے۔وہ نہ فقط علم کیمیاء میں فوق العادہ تھے بلکہ فلسفہ ،منطق اور طب ،نجوم ریاضیات اور فلکیات اور دوسرے علوم میں بھی صاحب نظر تھےلیکن انہیں زیادہ شہرت علیم کیمیاء میں ملا۔برتعلیموجابر کے بارے میں کہتے ہے: جابر بن حیان کا علم کیمیا میں مقام وہی ہے جو مقام ارسطو کو منطق میں ہے ۔سارتون ان کو ایک عظیم دانشمند قرار دیتے ہے جس کی شناخت قرون وسطی میں علم کے میدان میں ہوئی  ۔جابر نے علم کیمیا میں جدید اسلوب استعمال کر کے نئے علوم میں اضافہ کر دیا اور اس کو علم موازین کہلائے ۔ بہت سارے اختراعات اور کشفیات کی جابر کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔جابر کی ولادت اوررحلت کی تاریخ جابر کے زندگی کے دوسرے زاویوں کی طرح مبہم رہ گیا ہے۔لیکن 158 سے 198کے درمیان جابر اس دنیا سے چلے گئے جو نقل ہوئی ہے ۔جابر کی محل ولادت اور وہ جگہ جہاں جابر نے بچپن گزاری ہے اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض اس کو کوفی اوربعض خراسانی سمجھتے ہے۔ابن ندیم کہتے ہے: کہ جابر ذاتا خراسانی تھا ۔ویل دورانت کہتے ہے:جابر کوفہ کے کسی داروساز کا بیٹا تھا اور وہ طبابت میں مشغول رہتا تھا اور اپنے اکثر اوقا ت تجربہ گاہ میں گزار تا تھا۔مذہب کے اعتبار سے جابر مکتب تشیع سے تعلق رکھتا تھااور وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے خاص روابط رکھتے تھے۔ہولیمارد اس کے بارے میں کہتے ہے:جابر امام صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد اور قریبی دوستوں میں سے تھے اور انکی راہنمائی میں  جابر نے علم کیمیا کوجو اسکندریہ کے زمانے میں ایک افسانے کی طرح مقید تھے آزاد کرا دیے۔اور اس راستے میں کماحقہ اپنے مقصود تک پہنچ گئے اسی لئے جابر کانام ہمیشہ اس فن کے بزرگان جیسے بویل،پریستلی،دلاویز اور دوسرے مشہور دانشمندوں کے ساتھ لئے جاتے  ہے۔جابر اپنے اکثر کتابوں میں اس بات کی یقین دہانی کی ہے کہ  اس نےاپنے علوم  امام صادق علیہ السلام سے حاصل کئے ہیں۔چوتھی صدی کی ابتداء ہی میں جابر کے وجود کے بارے میں شک و تردید کرنے لگے اور بعض نے سرے سے جابر کی وجود سے انکار کرنا شروع کیا۔ابن ندیم جو چوتھی صدی کے درمیانی عرصے میں زندگی کی ہے جابر کے بارے میں کہتے ہے:بعض اہل علم اور کتاب بیجھنے والے [جو اہل علم تھے]کہتے ہیں کہ جابر کا  کوئی اصل اور حقیقت نہیں ہے ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر جابر کا وجود فرض بھی کر لیں تو کتاب  الرحمۃکے علاوہ اور اسکی کوئی تصنیف نہیں ہے اوردوسرے جتنے بھی تصنیفات ہے وہ دوسروں نے لکھی ہے لیکن جابر کی طرف کی نسبت دی گئی ہے۔لیکن  وہ خود ایک استدلال کے ذریعے ان باتوں کو رد کر تاہے۔وہ لکھتےہیں : کون  حاضر ہے کہ سخت محنت و کوشش کرے اور  دو ہزار صفحوں  پر مشتمل ایک کتاب لکھے جس کے لئے وہ اپنی ساری توانائی صرف کرے اور تمام زحمتیں اٹھائے اور اس کے بعد کتاب کی نسبت کسی اور شخص کی طرف دے ۔چاہے دوسرا شخص وجود رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔بہر حال یہ عمل ایک قسم کی جہالت ہے اور کوئی بھی  عاقل اس کام کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔جیسے پل کرواس مستشرق ا تریشی جابر کے وجود کے میں بارے میں شک کرتے ہے۔لیکن جابر کا نام قدماء کے کتابوں میں آیا ہے جیسے ابن ندیم ،حسن بن بسطام بن شاپور،ابوبکررازی،محمد بن علی شلمغانی،ابوحیان توحیدی وغیرہ۔ان سب کے کتابوں میں جابر کا نام دیکھنے کو ملتا ہے جو خود جابر  کے وجود کی دلیل ہے ۔ کہ جابر نامی ایک شخص موجود تھا جوفاضل اور دانشمند تھا۔جس نےدوسری صدی میں حکومت عباسی کے عہد سلطنت میں زندگی کی ہے ۔مکتب تشیع میں سے دوازدہ امامی جابر کو دوازدہ امامی قرار دیتے ہے جب کہ اسماعلیہ اسے اسماعیلی سمجھتے ہے ۔
سید ابن طاووس[م664]کتاب مفرج المہموم میں بعض شیعہ افراد کا نام لیتے ہے جو علم نجوم سے آگاہی رکھتے تھے لکھتےہیں: کہ ان میں سے ایک جابر ابن حیان ہے کہ امام صادق علیہ السلام کاخاص صحابی تھا۔شیعوں کے درمیان مسلمات میں سے ہے کہ جابر شیعہ اور دازدہ امامی تھا۔سید امین اعیان الشیعہ و آقای بزرگ تہرانی کتاب الذریعۃ فی تصانیف الشیعۃ میں جابر کا باقاعدہ نام لیتے ہیں اور انکی تصنیفات کا ذکر کرتے ہیں۔لیکن کچھ ایسے شواہد بھی ہے جو جابر کو اسماعیلی قرار دیتاہے۔جیسے سید ہبہ الدین شہرستانی کتاب الدلایل و المسائل میں کہتے ہے کہ جابر اسماعیل کی امامت کا قائل تھا۔لیکن انہوں نے اپنے اس ادعا  پر دلیل پیش نہیں کیا ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ جابر نے اپنے کتابوں میں ظاہر وباطن اور عدد سات کا استعمال کیا ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جابر اسماعیلی تھالیکن اسماعیلیہ مذہب اپنے مبانی کو جابر کی وفات سے نصف صدی بعد آغاز کیا ہے ۔بنا برین یہ بات صحیح نہیں ہے۔اندیشہ اسماعلیان دوسری صدی ہجری میں یعنی عصر جابر میں ایک سادہ اندیشہ تھا۔لیکن یہ بات کہ ان کے کلام میں ظاہر و باطن موجود ہے اس طرح کے تاویلات سے اس کے عقیدہ کو اسماعیلی قرار نہیں دے سکتا چونکہ ان میں سے بعض تعابیر قرآن کریم میں بھی موجود ہے ۔
جابر کی بہت ساری تصانیفات ہے جو تقریباتین ہزار نو سو کے لگ بھگ ہے ۔جابر کی کتابوں میں سے کتاب الجمع،کتاب الاستتمام کتاب الاستیفاد وکتاب التکلیس کا لاتین میں ترجمہ ہو اہے اور مغربی مفکرین اس سے استفادہ کر رہے ہیں اور بعض کتابیں جو چھپ چکی ہے وہ یہ ہے کتاب الاسطقس،الکمال،البیان،النور الاوجاء،الشمس ،الایجاح،اور کتاب الملک وغیرہ ہے۔
ابتداء میں مسلمانوں کی توجہ الکیمی یعنی مصنوعی سونا بنانے یا سونے کے لئے اکسیر حاصل کرنےکی طرف تھی۔اس میں جدید کیمیاء کا علم ظاہر ہوا ۔حقیقت بھی یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں کیمیاء گری محض سونا بنانے تک محدود نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ ادویہ سازی ،معدنیات ،ارضیات اور دفاعی صنعتوں میں علم کیمیاء کے استعمال کی سخت ضرورت لاحق ہوتی تھی ۔اس لئے مسلمان کیمیاء دان زیادہ تر زورعموما علم کیمیاء پر دیتے تھے۔
لاطین میں جس کیمیاء دان کو گیبر کہا گیا ہے وہ یہی جابر ابن حیان  ہے اسے تجربی کیمیاء کا بانی مانا جاتا ہے ۔وہ کیمیاء کے تمام تجرباتی عملوں سے واقف تھے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ کیمیاء میں سب سے زیادہ ضروری شئے تجربہ ہے جوشخصاپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا وہ ہمیشہ غلطی کرتا  ہے ۔پس اگر کیمیاء کا صحیح علم حاصل  کرنا چاہتے ہو تو تجربوں پر انحصار کرو اورصرف اس علم کو صحیح جانو جو تجربے سے سچ ہو جائے ۔ایک کیمیاء دان کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیا پڑھا ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے سے ثابت کیا ہے ۔
اس لحاظ سے جابر پہلا کیماء دان ہے جس نےمادے کو عناصر اربعہ کے نظریے سے نکالا ۔قدیم عرب میں گندھک پارہ اور نمک تین بنیادی عناصر قرار دئے جاتے تھے ۔گندھک مادے کی ایسی خصوصیت مانی جاتی تھی جن سے اس میں بارودی کیفیات پیدا ہو جاتی ہے ۔نمک
سے عربوں کے ذہن میں عناصرکی وہ خصوصیت تھی جس کی بنا پر چیزیں آگ سے محفوظ رہتی تھی ۔نمک اس شئے کو بھی کہتے تھے جو مختلف عناصر کوپھونکنے ،جلانے اور کشتہ بنانےکے بعد پاقی رہ جاتی ہے یعنی نمکیات موجودہ سالٹس تھے ۔پارہ دو دہاتوں کی انفرادی خصوصیت کو واضح کر نے کے لئے استعمال ہو تا تھا ۔مثلا سونےمیں انتہائی خالص پا رے کی مقررہ مقدار شامل ہوتی ہے ۔
جابر ابن حیان  نے اس کے متعلق کہا کہ تمام دھاتوں کے بنیادی اجزاء وہی ہے جو جس کی مناسبت سے سونا وجود میں آتا ہے۔اگر کسی معمولی دھات کو سونے میں تبدیل کرنا ہو تو یہ ضروی ہے کہ اسے غیر مطلوبہ آمیزشوں سے پاک کیا جائےاور چند جزی اجزاء کو شامل کیا جائے تو سوناوجود میں آتا ہے ۔جابر کے اس نظریے کا تصور اس زمانے میں خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ نظریہ آج بھی اسی طرح تابندہ ہے کہ تمام دھاتوں کے بنیا دی اجزاء جوھر یا ان کے ذرات وہی ہے جو سونے کے ہیں ۔اگرچہ اس زمانے میں کیمیاء دان سونا بنانے کےجنون میں مبتلا تھے لیکن جابر اس حقیقت کاقائل تھے کہ تجرباتی طور پر تانبے کو سونے میں تبدیل کرنا محض وقت ضایع کرانا ہے ۔اسی کا عقیدہ تھا کہ مادی دنیا میں ایک ضابطہ کار فرما ہے اس لئے ہر شئے کی نوعیت ایک مخصوص مقدار کی تابع ہے ۔چنانچہ اس نے ایک کتاب المیزان لکھی ہے۔
جابر ابن حیان پہلا شخص تھا جس نے موادکے تین حصوں میں درجہ بندی کی،نباتات ، حیونات اور معدنیات ۔بعد از آں معدنیات کو بھی تین گروہوں میں تقسیم کیا پہلے گروہ میں بخارات بن جانےوالی اشیاء رکھیں اور انہیں روح یا عرق کا نام دیا ۔دوسرے گروہ میں آگ پر پگھلنے والی اشیاء مثلا دھاتیں اور تیسرے گروہ میں ایسی اشیاء جو گرم کرنےپر پھٹک جائیں اور سرمہ بن سکتی تھی ۔ پہلے گروہ میں گندھک ،سنکھیا ،پارہ،کافور اور نوشادر شامل ہے ۔عربی میں نوشادر[امونیم کلورائیڈ]کا نام پہلی بار جابر کی تصنیفات میں دیکھا گیا ہے۔جابر کیمیاء کے متعدد امور پر قابل قدر نظی و تجربی معلومات رکھتے تھے ۔اس کا  یہ نظریہ کہ زمین پر وجود میں آنے والی اشیاء ستاروں اور سیاروں کے اثر کا نتیجہ ہے ،آج بھی نیا اور اچھوتا ہے ۔جابر نے کئی کیمیائی مرکبات مثلا بنیادی لیڈکار بونیٹ،آرسینگ سلفائیڈ اور انیٹیمینس سلفائیڈاور الکحل کوخالص کرنا ،شورے کے تیزاب[نائیٹرک ایسڈ]نمک کے تیزاب[کلورک ایسڈ]اور فاسفورس سے دنیا کو پہلی بار روشناس کرایا اوراس نے دو عملی دریا فتیں بھی کیں  ایک تکلیس کشتہ کرنا یعنی آکسائیڈ بنانا اور دوسرا تحلیل یعنی حل کرنا ۔
کیمیاء کے فنی استعمالات پر اس کے بیانات بہت اہم ہے ۔مثلا فلزات کی صفائی ،فولاد کی تیاری ،پارچہ بافی اورجلد  کی رنگائی ،وارنش کے ذریعے کپڑے کو ضد آب بنانا ،لوہے کو زنگ لگنے سے محفوظ رکھنا ،شیشے کو مینگا نیز ڈائی آکسائیڈ  سے رنگین بنانا ،آئرن پائرٹ سے سونے پر لکھنا اورسرمے سے ایسٹک ایسڈبنا نا وغیرہ ۔
امریکی سائنس دان پروفیسر فلپ جابر ابن حیان کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہے: کیمیاء گری کے بے سود انہماک سے جابر نے اپنی آنکھیں خراب کر لی لیکن اس حکیم اور عظیم دانشور نے کئی چیزیں ایجاد کی اور اصل کیمیاء کی بنیاد رکھی ۔اس کا گھر تجربہ گاہ بنا ہو اتھا ۔


حوالہ جات:
۱۔ کتاب الخلدون العرب،ص ۱۶،۱۷۔
۲۔ایضا،ص۱۹۔
۳۔اعیان الشیعہ  ج۱۵،ص۱۱۵۔تاریخ تمدن ،ج۱۱،ص۱۵۹۔تاریخ الاسلام السیاسی،ص ۲۶۱، الفھرست ص۵۰۰۔
۴۔ الفہرست،ص ۵۰۔تاریخ تمدن،ج۱۱،ص۱۵۹۔
۵۔ ملھم الکیمیاء،تلخیص ص ۳۳،۴۲۔
۶۔الفہرست،ص ۴۹۹
۷۔ایضا
۸۔معجم الادبار،ج۵،ص۶۔
۹۔  اعیان الشیعہ،ج۱۵،ص۱۱۸۔الذریعہ ج۵،ص۲۰۔
۱۰۔تاب الامام صادق[ع]،ابو زھرہ،ص ۱۰۱۔
۱۱۔تناظرات اسلامی ساءنس۔ڈاکٹر عطش درانی.
۱۲۔ اسلام کے عظیم سائنس دان۔حفیظ  اللہ منظر.


تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی

بے بسی اور بے حسی

وحدت نیوز(آرٹیکل) دسمبر کی سردی، کینٹین کی مسحور کن فضا، اور اس  میں ہر میز پر گرم چائے، چائے سے اٹھتا ہوا دھواں اور پھر گرما گرم بحث، لیکن  نجانے کیوں یہاں ہر شخص اپنی بات ادھوری چھوڑ دیتا ہے، ایک صاحب کے بقول یمن کی خانہ جنگی میں 85 ہزار بچے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں جبکہ عالمی برادری چپ سادھے ہوئے ہے ، ایک سروے کے مطابق یمن میں ہر گھنٹے میں ایک بچہ بھوک سے دم توڑ دیتا ہے ۔

اتنے میں کسی نے بی بی سی کا  حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ خبر اپنے گھر کی بھی لیں،کراچی میں بچوں کی گمشدگی پر  پولیس ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔[1] اس سال کراچی سے 146 بچے لاپتہ ہو چکے ہیں، جبکہ 2013ء میں 2,736 بچے لاپتہ ہوئے تھے۔[2] گفتگو میں پاکستان سے بچوں کو اغوا کرکے اعضا فروخت کرنے کیلئے تھائی لینڈ سمگل کرنے کا انکشاف بھی کیا گیا۔[3]

اتنے میں کسی نے کہا کہ ممکن ہے اس دھندے میں کچھ اوپر کی سطح کے  لوگ بھی شامل ہوں  جیسا کہ دوسال پہلے  سابق سیکشن افسرعمر شہاب کو گرفتار کیا گیا تھا جو  بچوں کے گردے، جگر اور دیگر اعضاء نکال کر بھارت فروخت کرتا تھا اوروہ کویت میں پاکستانی سفارتخانے میں تعینات رہ چکا تھا۔[4]

ابھی بات آدھی ہی تھی کہ کسی نے  پاکستان میں قائم میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم ایک ایوارڈ یافتہ تنظیم فریڈم نیٹ ورک کا ذکر چھیڑ دیا، فریڈم نیٹ ورک (ایف این) نے میڈیا کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پریس آزادی بیرومیٹر 2018 کے تحت یکم مئی، 2017 سے یکم اپریل 2018 کی نگرانی کی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق  میڈیا کے خلاف کم از کم 157حملوں اور خلاف ورزیوں کے واقعات چاروں صوبوں، اسلام آباد اور قبائلی علاقوں میں ریکارڈ کیے گئے۔ “یہ ایک ماہ میں اوسط خلاف ورزیوں کے تقریبا 15 واقعات ہیں۔یعنی ہر دوسرے دن ایک حملہ۔

اسلام آباد کے بعد صحافیوں کے لیے دیگر خطرناک علاقوں میں دوسرے نمبر پر پنجاب رہا جہاں سترہ فیصد حملے، سندھ میں سولہ فیصد، بلوچستان میں چودہ فیصد اور خیبرپختونخوا میں دس فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سب سے کم حملے یعنی آٹھ فیصد ریکارڈ کئے گئے۔ یہاں مجموعی 157 میں سے محض تیرہ واقعات ریکارڈ ہوئے۔[5]

یہ سوچا جانا چاہیے کہ وہ یمن میں بچوں کی شہادتیں ہوں یا کراچی میں بچوں کی سمگلنگ ہو یا اسلام آباد میں صحافیوں کا قتل، اس کے پیچھے عالمی برادری کی خاموشی  کا کیا کردار ہے  لیکن درد کی یہ زنجیر یہیں نہیں ٹوٹتی بلکہ  اگست ۲۰۱۸ کی یہ خبر بھی پڑھ لیجئے کہ   لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ارکان پارلیمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے  کہ پارلیمنٹ نے آج تک لاپتا افراد کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی۔[6]یعنی ابھی تک مسنگ پرسنز کے حوالے سے قانون سازی کا پہلو تشنہ ہے۔

کہنے والوں نے یہ بھی کہا  کہ لاپتہ ہونے والوں میں سکول ٹیچر، ریڑھی بان، دکاندار، ادیب ، صحافی ، پروفیسرالغرض ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں، اب کس کے پاس وقت ہےکہ وہ جائے اور گنتی کرے کہ کس طبقے کے کتنے لوگ لاپتہ ہیں،اس کے لئے بھی باقاعدہ ایک ایسےقومی سطح کے ادارے کی ضرورت ہے جوہر طرح کے دباو سے آزاد ہو،  اور اگر کوئی یہ سارا ڈیٹا جمع کربھی لے تو اسےخاطر میں کون لائے گا!؟ اور پھر اس ساری محنت کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

اتنے میں ایک صاحب نے مشتاق  احمد کاملانی کا قصہ چھیڑا اور بولے ۱۹۸۰ میں مشتاق کاملانی  کاشمار معروف کہانی نویسوں اور ادبا میں ہوتا تھا، مشتاق کاملانی کو سندھی ، پنجابی، اردو اور انگلش پر عبور تھا، انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں جو حیدرآباد ریڈیو کے ساتھ ساتھ بھارت کی ریڈیو سروس ’آکاش وانی‘ سے بھی نشر ہوئیں ، انہوں نے  ضیاالحق کے دور میں "گھٹی ہوئی فضا" کے عنوان سے ایک کہانی لکھی ،کہانی چھپ گئی جبکہ ان کا ناول ابھی پریس ہی میں تھا، جب انہیں اپنی کہانی کے لیے حیدرآباد میں ادبی دوستوں نے بلایا اور انہیں ایک ریڈیو انعام میں دیا۔ابھی کاملانی صاحب حیدرآباد سے لوٹ ہی رہے رہے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ دوسرے دن اس پریس پر چھاپہ پڑا، جہاں سے ان کا نیم چھپا ہوا ناول “رولو” ضبط کیا گیا اور اس پریس کو بھی بند کروادیا گیا….!!اس کے بعد لوگوں نے جب کاملانی کودیکھا تو مسٹر کاملانی پاگل ہوچکے تھے۔

چائے کی میز پر مختلف باتیں ہو رہی تھیں، ان سب باتوں میں انسان کی بے بسی اور سماج کی بےحسی قدرِ مشترک تھی، اور باتوں کے بیچ میں جو بات بار بار اٹھائی جارہی تھی وہ یہ تھی کہ دنیا کے نقشے پرمظلوم بکھرے ہوئے ہیں اور ظالم متحد ہیں، ملک کوئی سا بھی ہو مظلوم جتنا بے بس ہوتا جاتا ہے مقتدر ادارے اتنے ہی بے لگام اور بے حس ہوتے جاتے ہیں۔مظلوموں کی موثر ترجمانی  کے لئے کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے!؟ اور ہماری کوششوں کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟

اتنے میں ایک صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ آپ بھی کچھ بولئے، میں نے کہا دوستو! ہم مانیں یانہ مانیں، یمن کا المیہ،مسنگ پرسنز،گمشدہ افراد، لاپتہ بچے اور صحافیوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا حقیقی حصہ ہے ۔ایک محقق، کالم نگار، ادیب یا صحافی کبھی بھی اس کرب سے آنکھیں نہیں چرا سکتا جو کرب شہید یا لاپتہ ہونے والے بچوں، قتل ہونے والے صحافیوں یا مسنگ پرسنز کے لواحقین کو لاحق ہوتا ہے۔

اگر آپ ادیب ہیں  اور معاشرے کی نبض کو دیکھنے کے ماہر ہیں، اگر آپ محقق ہیں اور سماج کے اتار چڑھاو کو سمجھتے ہیں، اگر آپ قلمکار ہیں  اور درد کو الفاظ میں ڈھالنے کاہنرجانتے ہیں،اگرآپ کی بات میں دم ہے اور آپ کے نکات میں وزن ہے   تو پھر کوئی آمر ، کوئی ڈکٹیٹر اور کوئی دشمن  آپ کی تحریر کو اشاعت سے نہیں روک سکتا اور اگرمعاملہ اس کے برعکس ہے  تو پھر کسی کی سفارش یا رشوت آپ کو محقق یا ادیب نہیں بنا سکتی۔

ادیب اور محقق کا قلم معاشرے کی نبض ہوتا ہے، ہمارے ارد گرد اس وقت بے بسی اور بے حسی کے درمیان لڑائی جاری ہے،ایک طرف بے بس عوام ہیں اور دوسری طرف بے حس حکمران،  اگر ادیب اور محقق بے حسی سے  آنکھیں چرائے اور بے بسی کو بیان کرنے سے کترائے تو   گویا اس نے اپنی ذمہ داری  کو ادا نہیں کیا۔ بے بسی اور بے حسی کی اس  لڑائی میں  آپ اپنی ذمہ داری  کو ادا کیجئے اور نتیجہ خدا  پر چھوڑ یے۔


تحریر: نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) مسئلہ فلسطین کی ستر سالہ تاریخ کا ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود سنہ1948ء میں قائم ہوا جس کی پشت پناہی سنہ1917ء میں برطانوی سامراج نے اعلان بالفور نامی خط کے ذریعے کی تھی تاہم یہ کہنا درست ہو گا کہ فلسطینی عربوں کے ساتھ ہونے والی اس خیانت کو ایک سو سال یعنی ایک صدی بیت چکی ہے اور فلسطینی عوام تاحال اپنے حقوق کی جد وجہد کر رہے ہیں اور مسلسل غاسب صہیونی ریاست اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کی پائمالی کی مرتکب ہو رہی ہے ۔ درا صل دیکھا جائے تو روز اول سے ہی فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی میں استعماری قوتوں کا باقاعدہ کردار رہاہے جہاں ایک طرف برطانوی سامراج نے فلسطین سے اپنی کفالت کو ختم کرنے سے قبل صہیونیوں کو فلسطین میں آباد کیا اور بعد میں یہاں ایک غاصب جعلی ریاست بنام اسرائیل قائم کی وہاں امریکہ جیسی شیطان استعماری طاقت بھی برطانوی سامراج کی جرائم میں کسی طور پیچھے نہ رہی اور دنیا میں سب سے پہلے جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دیگر یورپی ممالک پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کی پشت پناہی کروانے کے لئے اپنا کردار ادا کیا اور تاحال ایک سو سالوں سے امریکی سیاست کا مرکز و محور صہیونیزم کے دفاع اور اس کی بقاء پر استوار ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام ہمیشہ سے حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے آئے ہیں کہ آخر امریکی عوام کے ٹیکسز کا پیسہ صہیونیوں کو کیوں دیا جا رہاہے اور اس پیسہ سے بالآخر صہیونی فلسطین میں عربوں کا قتل عام صرف اور صرف نسل پرستی کی بنیاد پر کر رہے ہیں ، واضح رہے کہ فلسطینی عرب کی جب بات ہوتی ہے تو ا س سے مراد فلسطینی قومیت کے حامل وہ تمام فلسطینی مسلمان، عیسائی اور یہودی سمیت دیگر چھوٹے مذاہب کے لوگ شامل ہیں کہ جو فلسطین کے باسی تھے اور ہیں اور جنہوں نے ہمیشہ سے فلسطین پر قائم ہونے والی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو یہودیوں کی ریاست تسلیم نہیں کیا۔اس حوالے سے خود امریکہ میں دسیوں ہزار یہودی اور ان کی تنظیم نووی کارٹا موجو دہے کہ جس کا نعرہ آزادی فلسطینی ریاست ہے اور ایسی فلسطینی ریاست کہ جس کا دارلحکومت یروشلم یعنی بیت المقدس ہے۔

جہاں تک امریکہ کی فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرنے کی بات ہے تو دنیا بہت اچھی طرح سے واقف ہے کہ امریکہ کی جانب سے فلسطین میں قائم جعلی ریاست اسرائیل کے لئے امداد کے نام پر اربوں ڈالرز جاری کئے جاتے ہیں اور اس رقم کے علاوہ اسرائیل کو امریکی ساختہ جدید اسلحہ اور بھارتی جنگی سازو سامان کے ساتھ ساتھ جدید جنگی ٹیکنالوجی بھی فراہم کی جاتی ہے جس کا استعمال غاصب صہیونی ریاست مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف کرتی ہے اور نہ صرف فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستیں بھی صہیونی ریاست کے ناپاک عزائم اور جنگی شر انگیزیوں سے محفوظ نہیں رہتے ہیں ۔ اس کی چند ایک مثالیں شام، لبنان، اردن اور مصر جیسے ممالک ہیں کہ جن کی پہلے ہی کچھ زمینیں غاصب صہیونی ریاست اپنے تسلط میں لے چکی ہے اور اس کے علاوہ لبنان پر جنگیں مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور مختلف علاقوں میں بمباری کرتی رہی ہے۔

امریکہ کی اسرائیل کی دی جانے والی مسلح امداد سے ہمیشہ فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوتا رہاہے۔ سنہ1982ء میں جب صہیونیوں نے لبنان میں فوجی اتاریں تو صابرا اور شاتیلا کے کیمپوں میں انسانیت کا قتل عام صہیونی درندوں کے ہاتھوں امریکی اسلحہ سے کیا گیا جس پر نہ تو امریکہ کے ایوانوں میں انسانی حقوق کی دفاع کا شور و غل سننے میں آیا اور نہ ہی کسی اور مغربی ملک نے فلسطینیوں کے اس بہیمانہ قتل عام پر انسانی حقوق کے بارے میں واویلا کیا ۔لیکن جب بات امریکی مفادات کے بر خلاف ہو رہی ہو تو امریکہ کو ہر دوسرے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی نظر�آتی ہے لیکن امریکہ کو کبھی یہ نظر نہیں آتا ہے کہ امریکی امداد کے نام پر اسرائیل جیسی جعلی صہیونی ریاست کو دیا جانے والا بھاری اسلحہ اور جنگی ساز و سامان غز ہ میں محصور مظلوم اور نہتے فلسطینی عربوں کیخلاف استعمال کیا جا رہاہے۔امریکی سرکار کو کبھی یہ نظر نہیں آتا ہے کہ فلسطین میں بسنے والے فلسطینی عرب انسان ہیں بلکہ شاید استعماری قوتوں کے نزدیک فلسطینیوں کو انسان قرار ہی نہیں دیا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے حقوق کے بارے میں بات کرتے وقت امریکہ سمیت تمام استعماری قوتیں گونگی اور بہری ہو جاتی ہیں اور جبکہ فلسطینیوں کی جانب سے اپنے دفاع میں اگر ایک پتھر بھی غاصب صہیونی فوجیوں کی طرف پھینکا جائے تو دنیا میں سب سے بڑی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے ، اسی طرح اگر ایک نوجوان فلسطینی لڑکی اپنے گھروں اور اپنے لوگوں کے دفاع کی خاطر صہیونی فوجی کو تھپڑ مار دے تو یہ دنیا کے تمام قوانین کی توہین قرار پاتی ہے اور اس جرم میں اس نوجوان لڑکی کو کئی ماہ صہیونیوں کی جیل میں قید رہ کر مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کے لئے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔

ان تمام باتوں سے بالا تر امریکہ نے دنیا بھر میں اسرائیل کی دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے نت نئے ناموں سے دہشت گرد گروہ قائم کئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسی حکومتوں کو مدد و تعاون فراہم کیا ہے جو ان دہشت گردوں کی طرح کام انجام دیں، اس حوالے سے داعش، النصرۃ، القاعدہ ، طالبان سمیت نہ جانے کئی ایک نام موجود ہیں کہ جنہوں نے پاکستان سمیت افغانستان، عراق، ایران، لبنان ، لیبیا اور دیگر مقامات پر امریکی و صہیونی مفادات کے خاطر قتل عام کیا اور دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دی ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ امریکہ نے جہاں فلسطینیوں کا قتل عام کرنے میں صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرستی کی ہے اسی طرح اب ایک مرتبہ پھر امریکہ نے اپنا سفارتخانہ القدس شہر میں منتقل کر کے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پامال کئے ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں، اسی طرح فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ایک نیا راستہ جو امریکہ نے اختیار کیا ہے وہ مسئلہ فلسطین سے متعلق نام نہاد راہ حل ہے کہ جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ کا نام دیا ہے جس کا لب لباب کچھ اس طرح سے ہے کہ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال دو اور صہیونیوں کو پورا فلسطین دے دو۔اب اس کام کے لئے امریکہ دنیا کے تمام تر قوانین اور انسانی حقوق کی اقداروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے مکمل طورپر نکالنے پر تلا ہو اہے اور اس کام کے لئے عرب ممالک کی ملوکیت کو رام کر لیا گیا ہے تاہم فلسطینیوں نے اس ڈیل کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے کا اراد ہ کر رکھا ہے اور کسی صورت بھی فلسطین سے بے دخلی کو قبول نہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے جس کا ایک نمونہ ہمیں گذشتہ دنوں غزہ میں ہونے والے اسرائیلی حملوں او ر جنگ کے نتیجہ میں دیکھنے کو ملا ہے کہ جہاں فلسطینیوں نے پائیدار مزاحمت کے نتیجہ میں اسرائیل کو دو روز میں ہی پسپائی پر مجبور کر دیا تھا۔بہر حال امریکہ فلسطینی تاریخ میں فلسطینیوں کے حقوق کا ایک سو سال سے دشمن اور حقوق کو پامال کرنے والی ایک شیطان قوت کے طور پر سامنے آیا ہے جسے یقیناًآئندہ تاریخ میں نسلیں اسی عنوان سے ہی یاد رکھیں گی کہ امریکہ فلسطینیوں کے حقوق کا دشمن ہے۔

تحریر:  صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

وحدت نیوز(آرٹیکل) شروع کرتا ہوں اُس ذات اقدس کے بابرکت نام سے جو نہایت رحمان و رحیم ہے، وہ مالک و خالق ہے جس کی قدرت میں ہماری جان ہے اور یہ تمام کائنات اُسی کی بنائی ہوئی ہے وہ عالمین کا رب ہے۔ سورہ حمد میں ہم ہر روز ہر نماز میں اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ "ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے"۔ اس خالق نے کائنات کو ایسے ہی خلق نہیں فرمایا ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا قادر، دانا و حکیم ہے اور حکیم کبھی کوئی بے فائدہ کام انجام نہیں دیتا، اُس نے اس عالم کو خلق کیا ہے تو ایک خاص مقصد اور ہدف کے ساتھ خلق کیا ہے، اس کائینات میں موجود ہر چیز چاہے وہ جاندار ہو یا بےجان بےفائدہ نہیں ہیں۔ وجود کائینات کے بارے میں مختلف نظریات موجود ہیں کوئی اس کو ایک حادثہ قرار دیتے ہیں تو کوئی انسانوں کو بندروں یا ان جیسی نسلوں سے قرار دیتے ہیں لیکن انسان جو اس دنیا کی تمام چیزوں سے افضل اور قیمتی شی ہے بلکہ یوں کہیں کہ دنیا بنی ہی انسانوں کے لئے ہے اور انسانوں کو جو چیز باقی سب سے ممتاز کرتی ہے وہ اُس کی عقل ہے۔ آج ہم خلقت کائنات کے حوالے سے مختلف نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ یہ دنیا بے فائدہ اور ہدف سے خالی نہیں ہے اس صورت میں فقط نظریہ اسلامی ہی ہے جو انسانوں کے اس شبہ کو دور کرتا ہے اور انسانوں کے قلوب کو تسکین واقعی پہنچاتا ہے۔

تو ہم ذکر کر رہے تھے دانا و حکیم خالق کا کہ اُس نے انسانوں کو ہدف کے بغیر خلق نہیں فرمایا بلکہ ایک خاص ہدف کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور حکیم جو کام کرتا ہے اُسے سلیقے کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ اُس نے انسانوں کو خلق کیا ہے پھر ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے بھی ایسے انسانوں کو خلق فرمایا جو کہ ہمارے ہی جنس سے ہیں لیکن وہ ایمان کے اعلی درجہ پر فائز ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خداوند عالم کی طرف سے تربیت یافتہ ہوتے ہیں تاکہ انسانوں کو اپنے اصلی ہدف کی طرف رہنمائی کرسکیں اور ان کو اس دنیا کی رنگینیوں سے نکال کر صراط مستقیم کی راستے پر چلا سکیں۔

ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو پیغمبر آخرزمان کے امتی کہلاتے ہیں جودنیا میں رب عالمین کی طرف سے آخری پیامبر ہیں اور ان پر نازل ہونے والی کتاب آخری کتاب آسمانی ہے اور تمام آسمانی کتب میں سے جامع ترین کتاب ہے جو قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے ہدایت و معجزہ بن کر نازل ہوئی ہے۔

ربیع لاول کا مہینہ مسلمانوں کے لئے خوشی کا مہینہ ہے اس ماہ مبارک میں خداوند عالم کے پیارے اور محبوب نبی، سردار انبیاء رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ص دنیا میں تشریف لائے۔ تاریخ ولادت پیامبر کے حوالے سے اھل سنت حضرات اور اھل تشیع میں اختلاف ہے، اھل سنت کی نظر میں آپ کی ولادت ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی اور اھل تشیع ۱۷ ربیع الاول کو روز ولادت مانتے ہیں۔ لیکن کچھ سالوں سے اس ہفتہ کو "ہفتہ وحدت" کے طور پر مناتے ہیں جوکہ اتحاد امت مسلمہ کے لئے ایک اچھی کاوش ہے۔

ہمارے نبی ص وہ عظیم پیامبر ہے کہ جس کے بارے میں سورہ الانبیاء کی آیت نمبر ۱۰۷ میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے " اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے۔"

رحمت کا معنی بخشش و مھربانی ہے یعنی پیغمبر ص کی ہر رفتار و گفتار انسانوں کی اصلاح کے لئے ہے ان کا اٹھنا بیٹھنا، ان کا جہاد ان کی قضاوت، ان کے اصول ان کے فرامین غرض ان کی ہر ہر حرکت رحمت سے خالی نہیں ہے بس صرف سمجھنے کی دیر ہے۔مگر ہم ان چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں ہمارے میموری میں اتنی کیپسٹی بھی نہیں ہوتی کہ ہم ان کے افکار کو سمجھ سکیں بشرطیکہ ہم غوروفکر کریں۔ ہم جب بھی بازار سے کوئی نئی چیز خریدتے ہیں تو سب سے پہلے اس کے ہدایت نامہ کو پڑھتے ہیں تاکہ اس چیز کے چلانے کے طریقے کو صحیح سمجھ سکیں اور اس کی حفاظت کر سکیں لیکن افسوس کہ آج کے دور میں ہم سب سے آسان اسلام کو سمجھتے ہیں جس کے بارے میں تلاش و تحقیق تو کوئی نہیں کرتا لیکن نظریہ دینے کے لئے سب تیار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں نااتفاقی، انتشار، فساد کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ یہی ہے۔ ہم صرف خاندانی مسلمان ہیں لیکن تحقیقی کوئی نہیں ہے اسی لئے ہم فوری دوسروں کے بہکاوے میں آجاتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو پہنچتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک جگہ چار دوست رہا کرتے تھے ان میں سے ایک ترکی، ایک عربی، ایک رومی اور ایک پاکستانی تھا۔ ایک دن وہ لوگ پیشے جمع کر کے میوہ فروش کے پاس میوہ خریدنے جاتے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر ان کے درمیان لڑائی شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ ان چاروں کا ایک میوہ پر اتفاق نہیں ہوتا، پاکستانی بولتا ہے مجھے انگور خریدنا ہے، عربی کہتا ہے مجھے عنب چاہئے، ترکی بولتا ہے مجھے اُزوم چاہئے اور رومی بولتا ہے مجھے استنابیل خریدنا ہے۔ اتنی دیر میں ایک شخص وہاں پہنچتا ہے جس کو ان چاروں زبانوں پر عبور حاصل تھا وہ اس مسئلہ کو سمجھتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ پیسے مجھے دو میں تمھارے مسئلہ کو حل کرتا ہوں۔ وہ شخص ان چاروں سے پیسے لیتا ہے اور میوہ فروش سے کہتا ہے کہ بھائی ان کو انگور دے دو، جب وہ انگور دیتا ہے تو چاروں خوشی خوشی اسے لے کر چلے جاتے ہیں۔ ان چاروں کا ہدف ایک ہی ہوتا ہے یعنی انگور لیکن چاروں اپنی اپنی زبان میں بول رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے وہ لوگ لڑ رہے تھے۔

میری نظر میں مسلمانوں کی اختلافات کا ایک سبب ہمارے پاس دین اسلام کے بارے میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ دین اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جس میں انسانوں کے لئے مکمل ہدایت و رہنمائی موجود ہے۔ انسان کی ذاتی زندگی، عائلی زندگی، معاشرتی زندگی، معاشی زندگی، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، حقوق والدین، حقوق زوجین، حقوق ہمسائگی، طریقہ جہاد، دشمنوں کے ساتھ سلوک، مجرموں کے ساتھ سلوک، حقوق بشر کوئی ایسی چیز نہیں جس کا ذکر اسلام نے نہ کیا ہو۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ تمام برائیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں کیونکہ ہم نے اسلام کو صرف زبان کی حد تک محدود رکھا ہوا ہے کبھی اسلام کے اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی۔ اسلام کے اصولوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن ، روایات، احادیث و تفاسیر کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔

ہمیں اپنی اصلاح کے لئےکس کو اپنا نمونہ عمل بنانا چاہئے؟ اسی بارے میں سورہ احزاب آیہ نمبر ۲۱ میں خداوند ارشار فرماتا ہے "مسلمانو، تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔" جس دن ہم نے اپنا آئیڈیل رسول اکرم ص کو بنایا، سمجھیں اس دن ہم کامیاب ہوجائیں گے پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں راہ راست سے نہیں ہٹا سکتی نہ ہی ہمارے درمیان فتنہ و فساد پیدا کر سکتی ہے۔ ہمارا جس فرقے سے بھی تعلق ہو ہم سب کا اصل اثاثہ پانچ چیزوں پر مشتمل ہے۔ اول توحید، دوسرا عدل، تیسرا نبوت، چوتھا امامت، پانچواں قیامت ہے جس پر تمام مسلمانوں کا عقیدہ اور ایمان ہے۔ بس ہمارے درمیان کچھ اختلافات ہیں جس کو دور کرنے کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح اوپر مثال میں چار دوستوں کا ذکر کیا جن کے ہدف ایک تھے لیکن وہ لوگ ایک دوسرے کی باتوں کو سمجھ نہیں پارہے تھے لیکن ایک عالم و دانا شخص نے ان کے اختلاف کو ختم کیا۔ اسی طرح ہم سب بھی اگراپنے فرائض کو صحیح انجام دیں تو دین اسلام کی نشوونما اور حقیقی اسلام کو دنیا تک پہنچانے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی اور ہمارے اختلاف بھی ختم ہونگے ساتھ ہی عالم اسلام کے دشمنوں کے ناپاک عزائم بھی خاک میں مل جائیںگے۔

لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کی اس ہفتہ کو ہفتہ وحدت کے طور پر منائیں اوراس پلیٹ فارم سے  اپنے مشترکات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں اور اتحاد امت کے لئے اپنی کوششوں کو برروی کار لائیں، اور اسلام کے حقیقی چہرہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ اسلام کے خلاف مغربی اور ان کے آلہ کاروں کے پروپگینڈوں کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔


تحریر: ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) تعریف کے بعد تطبیق کا  مرحلہ ہے، علمی دنیا میں جب کوئی محقق اپنے سکول آف تھاٹ کے مطابق کسی چیز کی علمی تعریف کر دیتا ہے تو اس کے بعد اس تعریف کو خارج میں تطبیق  دینے ، اس کی انواع و اقسام کو دریافت کرنے اور علمی انکشافات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

ہم نے  ایک کالم سےمستشرقین کی بحث کا آغاز کیا تھا، اس بحث کے آغاز کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں جھانکنے اور ان کی فکری بنیادوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔چونکہ کہیں پر بھی  نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خود کش دھماکوں کی نوعیت قدرتی آفات یعنی زلزلے اور سیلاب کی مانند نہیں ہے۔بلکہ  جہاں پر بھی نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خود کش دھماکے ہوتے ہیں ان کے پیچھے ایک فعال، مدبر اورمنصوبہ ساز انسانی دماغ اپنا کام کر رہا ہوتا ہے۔

موجودہ ملکی صورتحال کے تناظر میں  گزشتہ کالم میں ہم نے اپنے مکتب (School of Thought ) کےمطابق  مستشرقین کی تعریف میں یہ کہا تھا کہ  ہر وہ غیر مسلم جو اسلام کے بارے میں تحقیق کرتا ہے، اسے مستشرق کہتے ہیں۔

 اس تعریف کے بعدقارئین  کے ذہنوں میں یہ سوالات ابھر سکتے ہیں کہ عصر حاضر میں مستشرقین  کہاں کہاں پائے جاتے ہیں ؟ مستشرقین کی کون کون سی انواع و اقسام ہیں؟ کیا مغربی ممالک اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوںمیں بھی مستشرقین موجود ہیں؟ کن شعبوں میں مستشرقین کا کیا کردار ہے؟وغیرہ وغیرہ

ہم نے اپنے قارئین کی اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا اورمستشرقین کے بارے میں تحقیق کرنے والے ادارے  گروہ قرآن ومستشرقان (امام خمینیؒ یونیورسٹی قم)سے اس بارے میں مزید سوالات کئے، اس کے علاوہ قبلہ ڈاکٹر مجتبی زمانی اور ڈاکٹرمحمد جواد اسکندرلو سے بھی اس طرح کے سوالات پوچھے تاکہ اس موضوع کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی اپنے قارئین تک پہنچائی جا سکے۔

محقیقین کی تحقیقات اور ماہرین کی آرا کے مطابق  مغربی ممالک اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے وہ کارندے جو اسلامی ممالک کو کمزور کرنے نیز مسلمانوں میں فرقہ واریت اور شدت پسندی ایجاد کرنے  کے لئے اسلامی ممالک  اور مسلمانوں کی معلومات کی جمع آوری  اور جاسوسی کرتے ہیں اور ان  کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ سازی کی جاتی ہے ،انہیں مستشرقین سیاسی واستعماری اور اس شعبے کو استشراق ِ سیاسی  و استعماری کہتے ہیں۔

اگر قارئین کو یاد ہوتو گزشتہ کالم میں ہم نے مستشرقین کی تقسیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ  مجموعی طور پر تین طرح کے مستشرقین ہیں:

1۔ عیسائی مبلغین

2۔ مختلف حکومتوں کے جاسوس

3۔ سچائی کی کھوج لگانے والے

یہ جو دوسرے نمبر پر مختلف حکومتوں کے جاسوس ہم نے ذکر کئے ہیں انہیں مستشرقین سیاسی و استعماری کہتے ہیں۔ایسے مستشرقین، میڈیا، انٹرنیٹ، سفارتخانوں، خفیہ ایجنسیوں،ریڈیو، ٹیلی ویژن، نیوز ایجنسیز اور اخبارات و مجلات کے ذریعے اپنی فعالیت انجام دیتے ہیں۔ان کی فعالیت کے بارے میں مصری محقق محمد غزالی اپنی کتاب دفاع عن العقیدہ  والشریعۃ ضد مطاعن المستشرقین کے صفحہ ۳ پر لکھتے ہیں کہ  جس طرح توپ خانہ، دور سے  گولہ باری کرکے پیادہ فوج کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے، اسی طرح یہ مستشرقین ،  اسلامی معاشرے کے اذہان کو  استعمار کے  داخلے و نفوذ کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔

ہم آپ کو یہ بھی یاد دلاتے چلیں کہ گزشتہ ہفتے برادر اسد عباس نے اپنے کالم میں مغربی ذرائع ابلاغ کے بارے میں لکھا تھا کہ    مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے انداز کو سمجھنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ وہ لوگ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنی خبروں کو ایسا رنگ دیتے ہیں، جس سے ادارہ خبر دیتا ہوا ہی محسوس ہوتا ہے، تاہم وہ رائے عامہ کے استوار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہمارے معاشروں میں نفوذ کے سبب اب جنگ فقط ہتھیاروں کی جنگ نہیں رہ گئی۔ یہ جنگ، جنگ نرم میں بدل چکی ہے۔

اسی حقیقت کو حضرت امام خمینی ؒ نے اس طرح بیان فرمایا تھا:

امریکہ یہاں پر فوجی نہیں لائے گا،امریکہ یہاں لکھاری لے کر آئے گا، امریکہ بات کرنے والے اور بولنے والے لے کر آئے گا، امریکہ ہمارے ملک کو درہم برہم کرنے کے لئے ان لوگوں کو بھیجے گا کہ جن کی اس نے کئی سال تربیت کی ہے۔ امریکہ فوجیوں سے بدترین لوگوں کویہاں  بھیجے گا، یہ فوجیوں سے بدترین ہیں۔ [1]

مندرجہ بالا سطور سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ استشراقِ سیاسی و استعماری  ایک معاشرتی ناسور ہے جس کا مقابلہ  اس کی شناخت اور اس کے بارے میں علم و آگاہی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Page 13 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree