وحدت نیوز (آرٹیکل) ہمارادشمن کون ہے ؟ کیا چاہتا ہے؟ اس کے مراکز کہاں ہیں؟ اس کے سرپرست کون ہیں؟ اس کی سہولتکاری کا کام کون انجام دے رہا ہے؟اس کی مدد کون کر رہاہے؟

آج دشمن مخفی نہیں آشکار ہے  اور اس کے مراکز و سہولت کار سب عیاں ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے سرکاری ادارے  ملک و قوم کے دشمنوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے سے ہچکچا رہے ہیں،  اس ہچکچاہٹ کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ  خود ہمارے  اداروں کے اندر دشمنوں کے سہولتکار براجمان ہیں۔

 بحیثیت پاکستانی ہمارے دشمن وہی لوگ ہیں جو قیامِ پاکستان کے دشمن ہیں جو آئین ِ پاکستان کے باغی اور قائداعظم محمد علی جناح کے دشمن ہیں ، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کوچہ و بازار میں ہمارا قتلِ عام کیا اور  جنہوں نے  آرمی پبلک سکول پشاور میں ننھے منھے طالب علموں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا اورکئی اساتذہ کو زندہ  آگ لگا دی ، جس کے بعد  اب آئے دن  یہ لوگ پاکستان میں تعلیمی اداروں  کو نذرِ آتش کرنے میں مصروف ہیں۔

گزشتہ دنوں  گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں دہشتگردوں نے 12 تعلیمی اداروں پر حملہ کر کے انہیں آگ لگادی۔نجی ٹی وی کے مطابق دیامر میں چلاس کے علاقے داریل اور تنگی میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے 10 تعلیمی اداروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کے بعد انہیں آگ لگادی جب کہ 2 کو تباہ کرنے کے لیے بارودی مواد بھی استعمال کیا۔

اس کے علاوہ بلوچستان کے علاقے پشین میں پاکستان کے دشمنوں  نے لڑکیوں کے دو سکولوں کو آگ لگا دی یہ واقعہ چھٹی کے بعد پیش آیا۔اسی طرح بنوں میں بھی  ایک   پرائمری سکول کو بم سے اڑانے  کی کوشش کی گئی جسے بم ڈسپوزل سکواڈ نے ناکام بنا دیا۔

شدت پسندوں کے لئے  کارروائیوں اور فرار کی راہیں فراہم کرنے والے ہی ان واقعات کے اصل ذمہ دار ہیں۔ ابھی پاکستان میں جو حالیہ انتخابات ہوئے ان میں بھی دہشت گردوں  اور شدت پسندوں کو  سیاسی میدان میں کودنے کی کھلی چھٹی دی گئی جس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو نذرِ آتش کرنے کی لہر بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں میں پاکستان کے تعلیمی اداروں پر ۸۶۷ حملے ہو چکے ہیں۔اس وقت پاکستان میں  سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 67 لاکھ سے زائد ہے، پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس میںسکولوں میں غیر معیاری نصاب تعلیم اور اسٹاف کی کمی سمیت دیگر شکایات عام ہیں،  ایسے میں تعلیمی اداروں پر حملے مزید کسی بڑے  تعلیمی بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔

تعلیم قوموں کا زیور، انسانیت کاحسن، ترقی کی شاہراہ اور افراد کی طاقت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زمینی حقائق کے مطابق شدت پسندوں کے ساتھ آہنی و قانونی ہاتھوں کے ساتھ نمٹیں۔

جو لوگ  طالب علموں کو خاک و خوں میں غلطاں کرتے ہیں، تعلیمی اداروں پر حملہ ا ٓور ہوتے ہیں، اور اساتذہ کونذرِ آتش کر تے ہیں، ایسے وحشی افراد کسی رعایت اور نرمی کے مستحق نہیں ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے اصلی دشمن ہیں۔

شدت پسندی ، پاکستان کے لئے ایک پرانا چیلنج ہے، اس کی جڑیں ہمارے سرکاری اداروں کے اندر سرطان کی طرح پھیلی ہوئی ہیں، ہمارے کسی بھی نئے وزیراعظم کے لئے سب سے کڑاچیلنج  بابائے طالبان اور شدت پسند سوچ کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔جب تک پاک سر زمین پر بابائے طالبان اور ان کے گماشتے آزاد گھومتے رہیں گے تب تک یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل)  ویژنری شخصیات کا اکھٹ دھرنوں سے لیکر سیاست تک نئے پاکستان کے نعرے اور عزم کے ساتھ کامیابی ہونے والی جماعت پی ٹی آئی وزارت عظمی کے لئے نامزد امیدوار عمران خان سے ملاقات کے لئےامریکہ کے علاوہ بہت سے قابل الذکرممالک کے سفیر وں نے ملاقات کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔بات صرف سفیر کی نہیں بلکہ اس وقت امریکی اسٹیٹ ڈیپارنمنٹ کا رویہ بھی روکھا سا ہے تو عالمی بینک سے پاکستان کے لئے ممکنہ قرضے کو لیکر پہلے سے ہی امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پیمپیو نے تحفظات دیکھانے شروع کردیے ہیں ۔بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ کی عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی ذاتی مخاصمت تو نہیں ہے جو کچھ ہے وہ اس خطے کے بارے میں امریکی نئی پالیسی اور پاکستان بعنوان ریاست کے اس پالیسی کواپنے قومی مفاد کے خلاف سمجھنا ہے ۔لیکن گذشتہ دو جماعتوں کے بارے میں اس بات کا امکان موجود تھا کہ وہ کسی نہ کسی لیول پر امریکہ کے ساتھ کمپرومائز کرسکتیں تھیں جو اب ختم ہوچکا ہے ۔عمران خان کاسلوگن پاکستان کا استحکام اور بیرونی مداخلتوں کو قبول نہ کرنا ہے جسے وہ نیا پاکستان کے نام دے دہا ہے یقینا یہ نیا پاکستان کسی بھی اعتبار سے خطے اور خاص کر افغانستان و پاکستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کے بالکل مد مقابل کھڑا ہے ۔

کہا جاسکتا ہے کہ خان کی نوخیز حکومت امریکہ کے ساتھ بچ بچاو کی پالیسی کو ترجیح دے گی نہ تو وہ مزید خلش پیدا کرنا چاہے گی اور نہ ہی امریکہ کے قریب جانا چاہے گی کیونکہ دونوں صورتوں میں نئے پاکستان کی تشکیل کا بنیادی ہدف متاثر ہوسکتا ہے ۔عمران خان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ بہت سی قیادتی خامیوں کے باوجود وہ ایک ویژنری لیڈر ہیں اور اپنے مقصد کا پچھا کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں گرچہ ان میں افراد شناسی کو لیکر بڑی خامیاں پائی جاتیں ہیں جس کا تجربہ شائد وہ اپنی نجی زندگی میں بھی کرچکے ہیں ۔خان کے ساتھ پارلیمان سے ہٹ کر دو اور دینی ایسی قیادتیں موجود رہی ہیں جو بہت سے ایشوزمیں ان کی اچھی اتحادی شمار ہوتی ہیں اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ یہ دونوں قیادتیں ملک کے مستقبل کے بارے میں ایک ویژن رکھتی ہیں ۔علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری دو الگ مسلکوں سے تعلق رکھنے والی وہ شخصیات ہیںجو خاص مسلک کی نمایندگی رکھنے کے باوجودان کا ویژن وسیع اور ہمہ گیر ہے ۔

ان شخصیات کو دھرنے کے دوران بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جو عمران خان کے ساتھ کھڑ ی تھیں اور شنید یہ بھی ہے کہ اس دھرنے کی درست مینجمنٹ اور بھونڈے اختتام سے بچانے میں ان سے ایک شخصیت کا انتہائی اہم کردار رہا ہے کہ جس کی دور رس نگاہیں کہتی تھی کہ اس کا نتیجہ سیاسی خودکشی کی شکل میں نکل آئے گا ۔علامہ قادری کے حالیہ انتخابات میں عدم شرکت اور زیادہ تر وقت بیرون ملک گذارنے کے سبب ہوسکتا ہے کہ کوئی بہت زیادہ کردار نئے پاکستان کی تشکیل میں دیکھائی نہ دے۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کہنے کو تو ایک مذہبی رہنما ہیں لیکن مذہبی رہنماوں کے بارے میں جو عام تاثر پایا جاتاہے اس سے بالکل الگ تھلگ ان کی شخصیت ہے ۔قرآن و سنت کے علوم پر وسیع اور گہری عمیق دسترس رکھنے کے علاوہ ایک دانشور اور مفکر ہیں کہ جن کی نگاہ ہمیشہ آنے والے حالات کو وقت سے پہلے پرکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ نہ صرف اس خطے کے حالات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ عالمی حالات پر بھی ان کہ گہری نگاہ ہواکرتی ہے ۔ان کا وسیع تر مطالعہ اور چار اہم زبانوں انگلش ،عربی فارسی اور اردو سے واقفیت کے ساتھ ساتھ پولیٹکل سائنس پر گرفت تو دوسری جانب تقریبا دس سالوں سے اپنی جماعت کی قیادت اور مختلف بحرانوں کے کنٹرول کی صلاحیت نے ان کی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں کردیے ہیں ۔

ان کے بارے میں مشاہدات کچھ یوں ہیں کہ وہ سوچتے ہیں تو ایک پائے کے دانشور لگتے ہیں ،بحرانوں میں ایک زبردست لیڈر دیکھائی دیتے ہیں دینی حلقوں میں ایک زبردست عالم دین اور استاد و معلم جبکہ عام سماجی تعلقات میں ایک اچھے دوست ۔اس کی جماعت کے عام کارکن انہیں مرد قلندر اور خاک نشین کہتے ہیں کیونکہ وہ تمام تر پروٹوکولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے کارکنوں میں جلد گل مل جاتے ہیں ۔گذشتہ روز دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی حمایت مظلومین کانفرنس میں جو کچھ ان اس خطےخاص کر پاکستان کے حالات کے بارے میں انہوں نے کہا وہ انتہائی قابل توجہ ہے ان کا کہنا تھاکہ جس سیاسی لیڈرشب کا پیسہ بیرون ممالک میں ہے اور ان کے مفادات ان ملکوں سے وابستہ ہیں وہ ان کی پالیسیوں کے آگے جھکنے پر مجبور ہونگے ۔’’ان کا پیسہ وہاں پر ہے یہ لوگ عالمی قوتوں کے آگے دبتے ہیں کیونکہ ان کی کمزوریاں ان کے پاس ہیں ۔ان کی کرپشن کی فائلیں ان کے پاس ہیں ،ان کے اربوں روپےوہاں پر ہیں ۔ لہذا یہ عالمی قوتوں کےnationals interest قومی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں اور اپنے ملک کے قومی مفادات کے ساتھ سودے بازی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان بحرانوں کا شکار ہے ‘‘پاکستان کے بارے میں جو کچھ انہوں نے کہا وہ موجود صورتحال میں انتہائی توجہ طلب ہے  ’’پاکستان ایشیا کا دل ہے پانچ ارب انسان کےcollectiviti  اکھٹ کا مرکز ہے ،پانچ ارب انسانوں کو آپس میں ملاتا ہے جہاں انرجی کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں اور جہاں deficiencyاور ضرورت ہے اور جہاں یہ چیز آپس میں ملتی ہے۔

ایشیا دنیا کا سب سے بڑابراعظم ہے ،وسائل کے اعتبار سے بھی آبادی کے اعتبار سے بھی تہذیبی اعتبار سے بھی ،لیبر بھی سستی ہے ۔ اہم مہارتوں کے اعتبار سے بھی اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی ایشیا میں ہیں ۔اور دنیا کے تمام بڑے مذاہب کا مرکز بھی ایشیا ہے ،یہودیت یہاں پیدا ہوئی، عیسائیت یہاں پیدا ہوئی اسلام یہاں پیدا ہوا ،ہندوازم ،بدھ ازم ،سیکھ ازم ،حتی کہ کیمونزم بھی ایشیا سے تعلق رکھتا ہے۔ ایشیا بہت امیر خطہ ہے ، طول تاریخ میں پاور ایشیا اور یورپ کے درمیان شفٹ ہوتی رہی ہے۔ اس وقت پاور کا سرکل ایشیا کی طرف آرہا ہے ۔امریکہ یورپ اور اس کے حامی اس طاقت کی منتقلی کو روکنا چاہتے ہیں۔ سست کرنا چاہتے ہیں اور اپنے غلبے کو باقی رکھنا چاہتے ہیں ۔اسی بنیاد پر ایشیا کے جو اہم حصے ہیں ان کو destabilize غیر مستحکم کررہے ہیں اور گریٹر میڈل ایسیٹ بنارہے ہیں ۔توجہ چاہتا ہوںمیں ان دنوں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں a peace to end all peaceیعنی امن پورے امن کے خاتمے کے لئے یہ David Fromkin کی کتاب ہے جو امریکی ہے جس نے 1914سے لیکر 1922تک پہلی عالمی جنگ کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے ۔جس میں وہ لکھتا ہے یورپین یہ کہتے تھے کہ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ماڈرن میڈل ایسٹ پیدا ہوگا  اور وہ افریقی ممالک سے لیکر افغانستان اور وسطی ایشیا تک تھا جو دوسری جنگ عظیم میں اسرائیل بنے پر مکمل ہوا اور مسلمان ممالک چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہوگئے ۔

آپ دیکھ لیں افریقہ کے مسلمان ممالک سے لیکر وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک یہ آبای آپس میں جڑی ہوئی ہے اور اس مسلمانوں کی طاقت کو توڑ دیا گیا ۔ان کے اندر کیمونسٹ مومنٹس شروع کی گئیں نیشنلسٹ مومنٹس شروع کیں گئی تاکہ اسلامی سوچ مرجائے اور یہ الگ الگ ہوجائیں ۔کوئی ایرانی نیشنلسٹ کوئی عراقی نیشنسلٹ کوئی ترک نیشنلسٹ کوئی عرب نیشنلسٹ ۔۔کیا کیا بن جائے دوستو اب جو گریٹر میڈل ایسٹ کی بات ہورہی ہے تو بالکل وہی علاقہ ہے جو پہلے ماڈرن میڈل ایسٹ کہلایا تھا یعنی مراکش سے لیکر افغانستان اور سنٹرل ایشیا تک اس کو reshapeتشکیل نو کرناچاہتے ہیں اور اگر وہ reshape اس کی دوبارہ تشکیل نہ کرسکے تو امریکہ ٹوٹ جائے گا ،یورپ بھی ایسے نہیں رہے گا ‘‘۔اب اہم سوال یہ ہے عمران خان نئے پاکستان کے سامنے موجود ان مشکلات کا مقابلہ کرنےکے لئے کس قسم کی ٹیم کو لیکر میدان میں اترتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ جس وقت انہوں نے ولڈکپ جیتا تھا تو ٹیم انہوں نے خود تشکیل دی تھی اور اسے ایسے کھلاڑی میسر آئے تھے کہ جنہوںنے فتح دلانے میں کردار ادا کیا تھا تو کیا اس بار میدان سیاست میں بھی وہ ایک ایسی ٹیم تشکیل دے پاینگے ؟اور کیا اس وقت ان کے پاس اس قسم کی ٹیم موجود ہے ؟اگلے چھ ماہ ہی ہمیں عملی طور پر ان سوالات کا جواب فراہم کرینگے ۔۔۔ہمیں ایک بات یاد رکھنی ہوگی کہ نیا پاکستان کسی ایک شخص یا جماعت کی بس کی بات نہیں بلکہ پوری قوم کے مل جانے سے ممکن ہوگا اسی طرح عالمی طاقتوں کی پاکستان کو لیکر مزید دباو بڑھانے اور مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوشش بھی کسی ایک شخص یا جماعت کے سبب نہیں بلکہ ریاست پاکستان کیخلاف ہے لہذا پوری ریاست ہی ان موجودہ و ممکنہ بحرانوں کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔  


تحریروتحقیق: حسین عابد

وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان جسے بعض لوگ بانجھ زمین کہتے ہیں کہ یہاں کوئی عالمی سطح کی شخصیت سامنے نہیں آئی ،ایسی شخصیت جس نے سیاسی،سماجی،اور عالمی سطح پر معاشروں کو اپنے وجود سے متاثر کیا ہو اور اپنی ذات کیساتھ اس پاک سر زمین کا نام روشن کیا ہو،ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے اس پاک سر زمین پر بہت سی شخصیات نے جنم لیا مگر عالمی مہروں اور سامراجی نیٹ ورک نے انہیں راستے کی دیوار سمجھا اور پھر کسی کے سینے میں لیاقت باغ کے جلسے میں گولی اتار دی گئی ،کسی کو لیاقت باغ کے باہر ہجوم کے درمیان نشانہ بنا یا گیا اور کسی کو کال کوٹھڑی میں پھانسی دیکر راستہ صاف کیا گیا،انہی میں ایک ایسی شخصیت بھی تھے جنہیں پشاور کے مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ میں دم فجر اجرتی قاتلوں کے گروہ سے قتل کروایا گیا،میری مراد ایک ملکوتی و کرشماتی شخصیت علامہ سید عارف حسین الحسینی رح کی ہے جو کسی بھی طور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر کے اسے حقیقی معنوں میں ایک آزاد مملکت بنانا چاہتے تھے جن کی قائدانہ خصوصیات اور مخلصانہ جدوجہد اور بلند افکار امت مسلمہ کو نئی جہت دے رہے تھی اور دنیا انہیں پاکستان میں انقلاب اسلامی کا نقیب سمجھ رہی تھی کہ 5 اگست کی فجر کی نماز کے وقت انہیں اجرتی قاتلوں کے ایک گروہ نے اس وقت شہید کر دیا جب وہ نماز کی تیاری کیلئے وضو گاہ سے نیچے اتر رہے تھے،یہ ایک قیامت خیز دن تھا ،جب ملت ایسی قیادت سے محروم کر دی گئی جو امید تھی،جو خوشبو تھی،جو روشنی تھی،جو پھولوں میں مہک کی مانند تھی،جن کا وجود سراپا نور تھا،انہیں راستے سے ہٹادیا گیا،انہیں ہم سے چھین لیا گیا۔

علامہ سید عارف حسین الحسینی رح نے تقریبا ساڑھے چار سال( 10فروری 1984 سے 5 اگست 1988 )کا مختصر عرصہ ملت جعفریہ کی قیادت و سیادت میں گذارا ہے، مگر آج 30 برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کی نورانی و معنوی شخصیت کے سحر میں پوری قوم ایسے ہی گرفتار دکھائی دیتی ہے کہ جیسے آج ہی وہ ہم سے جدا ہوئے ہوں، اور کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں موجود ہوں اور راہنمائی فرما رہے ہوں۔شہدا ء از روئے قرآن زندہ ہیں اور خدا کے ہاں سے رزق پاتے ہیں ہم اس کا شعور نہیں رکھتے،پھر کیسے ممکن ہے کہ امت کا درد لیکر میدان عمل میں اپنے خون سے اپنی پیشانی رنگین کرنے والی ہستی امت کے یہ حالات،تفرقہ و تقسیم،دہشت گردی،استعماری سازشیں،اور ارض پاک پر عالمی سازش گروں کی اس ملک کو نقصان پہنچانے اور کمزور کرنے کے منصوبے دیکھ کے انہیں آرام آ گیا ہو وہ یقیناًحق پرستوں اور مخلصان خدا و دین خدا کی نصرت و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہونگے اس کا احساس اس تحریک اور تحرک میں کئی ایک مقامات پر محسوس ہوتا ہے جب کچھ دکھائی نہیں دیتا،عقلیں فیصلے کرنے سے عاری آ جاتی ہیں تو غائبانہ امداد سے ناممکنات ممکن ہو جاتے ہیں،یہی شہدا ء ہوتے ہیں جو ایسے اوقات و مصائب کے دوران مدد فرماتے ہیں!

 علامہ سید عارف حسین الحسینی کا آنائی تعلق کرم ایجنسی کے گاؤں پیواڑ سے تھا جو افغانستان کے بارڈر کے نزدیک ہے انہوں نے 25 نومبر 1946 کی ایک سہانی فجر کوایک نجیب اور بلند مقام سادات حسینی کے فرد سید فضل حسین شاہ کے گھر میں آنکھ کھولی تھی، پیواڑ کے پرائمری اسکول سے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کرنے والے سید عارف حسین نے بعد ازاں اعلی تعلیم کے حصول کیلئے نجف و قم کی فضاؤں میں پرواز کی اور علم و عرفان کی منازل طے کیں۔ آپ بچپن سے ہی بے حد دیندار، متقی اور پرہیزگار بلکہ شب زندہ دار تھے اور یہ سب تو جیسے آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ نے پہلی بار 1967 میں نجف کا سفر کیا، تاکہ اعلی علمی مدارج کو طے کر سکیں۔ یہ وہ دور تھا جب عراق میں آقائے محسن الحکیم مجتھد اعلی تھے، سید عارف الحسینی شروع سے ہی ملکوتی صفات کے مالک تھے، جن کی کرنیں صاحبان نظر کو محسوس ہو جاتی تھیں۔

 آپ کے اساتذہ بھی آپ میں عرفانی و معنوی صفات دیکھ لیتے تھے۔ جب حضرت امام خمینی رح ایران سے جلا وطن ہو کر نجف پہنچے تو آپ ان کی محفل کے شریک بن گئے اور ہمیشہ نماز ان کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعی کرتے۔ یہ تعلق اتنا گہرا ہوا کہ عشق خمینی رہ میں تبدیل ہو گیا، اسی عشق نے آپ کو بعد میں قومی حقوق کے نگہبان اور استعمار دشمن قائدین کی صف میں لا کھڑا کیا۔عراق کے بعد آپ ایران میں قم میں بھی زیر تعلیم رہے ان دنوں انقلاب کی تحریک عروج پر تھی،آپ چونکہ بڑھ چڑھ کے انقلابی پروگراموں میں شریک ہوتے تھے لہذا شاہ کی حکومت اور ایجنسیوں کی نظر میں آ گئے اور ایران میں گرفتار ہوئے بعد ازاں انہیں ایران سے نکلنا پڑا۔پاکستان میں آ کے آپ نے جامعہ جعفریہ پاراچنار میں بطور مدرس خدمات سرانجام دینا شروع کیں،1980ء میں مفتی جعفر حسین قبلہ کی معروف و مشہور اسلام آباد تحریک میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیااور ایک بڑے وفد کیساتھ شریک ہوئے۔10 جولائی 1984 کے دن آپ کو بھکر میں قائد ملت جعفریہ منتخب کیا گیا۔

 ساڑھے چار سال کے بعد 5 اگست 1988 کی دم فجر جمعہ کے دن پشاور میں قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی رہ کو ہم سے چھین لیا گیا۔یہ مختصر عرصہ قیادت کو دیکھیں اور ان کے کاموں کی تفصیل ،ان کے ملک گیر دورہ جات،گاؤں گاؤں،سکردو گلگت سے لیکر اندرون بلوچستان کے بہت ہی چھوٹے چھوٹے دیہات اور سندھ کے گوٹھ بھی آپ کی پہنچ سے دور نا رہے،آپ ملک کے شہروں اور دیہاتوں میں جاتے تاکہ علم کی خیرات بانٹیں،شعور کی زکوٰۃ دیں،اسلام کے حقیقی پیغام جو خاتم الانبیا ء کی شکل میں امت تک پہنچا تھااور جسے وقت کیساتھ ساتھ بھلا دیا گیا تھا اسے یاد کروانے کیلئے آپ نے اپنے اوپر آرام اور چین کو حرام کر لیا تھا۔پاکستان بلا شبہ تمام اقوام اور مکاتیب فکر کی محنتوں اور قربانیوں کا ثمر ہے جس میں حکمرانوں نے اپنے اقتدار اور کرسی کی خاطر یا غیر ملکی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے فرقہ واریت اور شر پسندی کا بیج بویا جس کی وجہ سے ملکی فضا مکدر ہو چلی تو شہید قائد علامہ عار ف الحسینی نے اتحاد بین المسلمین کا علم بلند کیا اور اس پرچم کو تھام کے ملک کے گوش و کنار میں وحدت امت اور باہمی احترام و اخوت کی جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا،اس حوالے سے انہیں بانی اتحاد بین المسلمین اور داعی وحدت کا لقب دیا گیا،ان کی روش تھی کہ وہ جہاں بھی دورے پہ جاتے اہلسنت علما ء و عمائدین ان کیساتھ ہوتے،جو امت کو اتحاد و وحدت کی دعوت دیتے۔علامہ عارف الحسینی کی جہاں دیگر خوبیاں اور خصوصیات ان کی شخصیت کو روشن کیئے ہوئے ہیں وہاں ان کا سیاسی میدان میں وارد ہونا اور اس دور کے آمر کے سامنے سینہ سپر ہو کے جمہوری قوتوں کیساتھ رابطے بڑھانا نیز پہلی بار اہل تشیع کی طرف سے سیاسی اجتماعات کا انعقاد جن میں مینار پاکستان لاہور،دھوبی گھاٹ گراؤنڈ فیصل آباد،قلعہ قاسم باغ ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قرآن و سنت کانفرنسز کا انعقاد جن میں سیاسی پروگرام اور منشور کا اعلان کیا گیا،اور پھر ضیا ء کے جھوٹے وعدوں پر سخت تنقید اور ریفرنڈم کی کھل کے مخالفت سے ان کا قد سیاسی حلقوں میں بلند ہوا،آمریت کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت کے قائدین کیساتھ ان کے روابط بہت گہرے تھے اور سیاسی قائدین ان کے خلوص اور بے باک موقف ،جس کا اظہار برملا کرتے تھے نے سب کے حوصلوں کو تقویت بخشی،وہ ضیا ء کی مارشل لا ء حکومت کو غیر آئینی سمجھتے تھے اور اس کے ہر کام پر تنقید کرتے تھے ،ضیا ء الحق نے ریفرنڈم کروایا تو آپ نے اس کی شدید مخالفت کی اور اسے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا بہانہ گردانتے ہوئے مسترد کر دیا۔

وہ فکر امام خمینی کے خالص اور سچے پیرو تھے اسی لیئے شہید عارف حسین الحسینی پاکستان کو عالمی استعمار کے چنگل سے آزادی دلوانا چاہتے تھے انہوں نے اپنے ہر خطاب اور گفتگو میں اس حوالے سے عوام اور نوجوانوں کو معلومات سے نوازا اور ان کے افکار و شعور میں یہ بات بٹھا دی کہ جب تک ہم اس ملک کو استعمار اور مغرب سے آزاد نہیں کروا لیتے اور اپنے مقدر کے فیصلے اپنے ایوانوں مین نہیں کرتے ہم ترقی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔انہوں نے ایک جگہ فرمایا کہ،،تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشور ملک میں نظام اسلام کے قیام کیلئے اکٹھے ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بے شمار قربانیوں کی بدولت حاصل ہونے والی آزادی 40برس گزر جانے پر بھی کہیں محسوس نہیں ہوتی ،سامراجی آقاؤں سے حاصل ہونیوالی آزادی کے باوجود ان کے چھوڑے ہوئے نظام کی بدولت آزادی کے احساس سے ہم آج بھی محروم ہیں،،ایک اور جگہ گفتگو کرتے ہوئے علامہ عارف الحسینی کا فرمانا تھا کہدنیا میں اسلام دو طرح کے ہیں۔ ایک اسلام حضرت محمدؐ کا اسلام ہے اور دوسرا امریکہ اور روس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ہے شریعت آرڈیننس دینے والوں نے اسلام اور قرآن کی بالا دستی کی بجائے امریکی نظریات سے قریب خود ساختہ اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی سازش کی ہے کیونکہ انہیں وہ اسلام قبول نہیں ہے جس میں جذبہءجہاد ہو۔ ایک اور مقام پہ یوں رہنمائی فرماتے ہیںسیاست ہمارا راستہ:۔ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے حتیٰ کہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اس جد و جہد میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

*ہم کاسہ لیسی کی سیاست کو نہ اپنائیں گے بلکہ اپنے دینی تشخص کے ساتھ حصول مقصد کیلئے سیاست میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ ایسی سیاست جس میں مطالبات دین غالب ہوں۔ ہم کسی سیاسی جماعت کے تابع نہیں ہیں۔ *    

ہم وقار اور عزت کی زندگی کو غلامی پر ہر قیمت میں ترجیح دیں گے۔یہ علامہ عارف الحسینی ہی تھے جنہوں نے ملک کی ایک بڑی آبادی جو بکھری ہوئی تھی اور کوئی موقف نہیں رکھتی تھی ،حکمران چند گنے چنے لوگوں کیساتھ ساز باز کر کے ان کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے ان کی جدوجہد کے بعد ملکی مسائل کے بڑے فیصلوں میں اہل تشیع کی شرکت اور انہیں نظر انداز کرنے کا سلسلہ ترک کرنا پڑا،انہوں نے اپنے خلوص،جدوجہد،تحرک،للہیت،اور مسلسل عمل سے پاکستان کے چاروں صوبوں،آزاد کشمیر کی ریاست اور گلگت بلتستان تک کے اہل تشیع کو ایک لڑی میں پرو دیا اور ایک ایسی تنظیم و تحریک کی بنیادیں مضبوط کیں جس نے بعد ازاں ان کی محنتوں کا پھل ایک عرصہ تک کھایا ۔کسی بھی قوم کی قوت اور طاقت اس کے نوجوان اور طلبا ء ہوتے ہیں،علامہ عارف الحسینی کی شخصیت کی کشش ایسی تھی کہ اس دور میں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں ان کے نام پر وقف کر دیں،نوجوانوں کا ہجوم ان کیساتھ ہر جگہ ان کی گفتگو ،ان کی تقاریر،اور ان کے افکار تازہ سے معطرہونے کیلئے بیتابی سے شریک ہوتا،اجتماعات جس بھی سطح کے ہوتے نوجوان ،بلکہ علما کی کی بھی بڑی تعداد اس پر خلوص قیادت کا ساتھ دینے کیلئے موجود ہوتے۔

علامہ عارف الحسینی نے اس پاک وطن کو استعمار کے شکنجوں سے نکال باہر کرنے کیلئے اپنا تن من دھن قربان کر دیا ۔وہ پاکستان کو استعمار اور تکفیریت کی سازشوں سے آزاد کروانے کیلئے دن رات ایک کیئے ہوئے تھے،وہ حق کے پیرو تھے،سچائی و صداقت کی علامت تھے،خلوص کے پیکر تھے،ان کی عبادت و دعاؤں کی محافل اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ ایک برگزیدہ ہستی تھے،وہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں میں شمار ہوتے تھے،اللہ جنہیں اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو فرقان عطا کرتا ہے علامہ عارف الحسینی ایسی ہی ہستی کا نام ہے،ان کے کردار،عمل،روحانیت،خلوص،تقوٰی ،معرفت،فکر و شعور کوایک روشن اور واضح شکل میں ہم نے دیکھا ہے،ہم اس کے گواہ ہیں کہ وہ مستضعف اور کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کی امید تھے،ہم اس کے گواہ ہیں کہ وہ اس دھرتی کا ایک ایسا فرزند تھا جس نے اسے اسلام ناب محمدی سے متعارف کروایا اور اس کے نفاذ کی عمل جدوجہد میں ان کی شہادت ہوئی،ہم اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ وہ ہماری محافل میں ،دعا و مناجات میں گڑ گڑا کے آرزوئے شہادت کرتے تھے،وہ متمنئی شہادت تھا،اس نے اپنے پاک خون سے اپنی پیشانی کو سرخ کرنے کی تڑپ میں زندگی گذاری اور بالآخر استعمار اور اس کے آلہ کاروں نے ایک عالمی ساز کے تحت انہیں راستے سے ہٹایا،5اگست 1988ء کی فجر دم جب وہ اپنے مدرسہ میں باوضو نماز کی تیاری کر رہے تھے انہیں اجرتی قاتلوں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا،یوں پاکستان میں اسلامی انقلاب کی امید دم توڑ گئی اور ہم اپنے عزیز و عظیم قائد سے محروم کر دئیے گئے۔آپ کا خون آلود چہرہ دیکھا توآپ کی اخروی زیارت اور پر سکون ابدی نیند ہم سب کو ایک پیغام دے رہی تھی۔

 ؂ ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں
ہمیں خبر ہے عزیزو یہ کام کس کا ہے
زندگی اتنی تو غنیمت نہیں جس کیلئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں


تحریر: حجت الاسلام علامہ راجہ ناصرعباس جعفری دام ظلہ

وحدت نیوز (آرٹیکل)  عہد تمیمی کا نام گزشتہ کئی ماہ سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر گردش کرتا رہا، آخریہ عہد تمیمی کون تھی ؟ عہد تمیمی کا تعلق مقبوضہ فلسطین سے ہے کہ جہاں اس نے آنکھیں کھولیں تو ہر طرف اس کو صیہونی درندگی کا سامنا کرنا پڑا، ایک ایسی سرزمین کہ جہاں روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کو بد ترین پامالیوں سے روند ڈالا جاتا ہے ، مقبوضہ فلسطین ایک ایسی سرزمین کہ جہاں پر بچوں کو بھی جیل خانوں میں قید کیا جاتا ہے اور کئی کئی ماہ تک ان بچوں کو ان کے گھر والوں سے ملاقات کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ عہد تمیمی ایک ایسے معاشرے میں جنم لے کر آئی کہ جہاں فلسطین کے مظلوم عوام کے گھروں کو بڑے بڑے بلڈوزروں کی مدد سے کسی بھی وقت مسمار کیا جاتا ہے، حتیٰ ایسے واقعات بھی موجود ہیں کہ رات کو جب فلسطینی گھروں میں نیند کی آغوش میں ہوتے ہیں تو ان کے گھروں کو صیہونی درندوں کے بلڈوزر مسمار کرنے پہنچ جاتے ہیں اور ان واقعات میں متعدد معصوم بچے اور معذور بزرگوں کی موت ملبے تلے دب کر واقع ہوتی ہے۔عہد تمیمی ایک سولہ سال کی فلسطینی نوجوان لڑکی ہے کہ جس نے سرزمین فلسطین پر اپنی پیدائش سے لے کر اپنی زندگی کے سولہ سالوں کو غاصب صیہونیوں کی جانب سے روا رکھے گئے بدترین مظالم اور وحشت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور محسوس کیا ہے۔عہد تمیمی فلسطین کے باقی ان تمام بچوں جیسی نہیں رہی ، عہد تمیمی نے بچپن سے ہی مزاحمت کاری کے راستہ کو اپنایا اور یہ راستہ اس کو وراثت میں اس کے والدین کی جانب سے ملا ۔

آج بھی اگر انٹر نیٹ کی دنیا پر عہد تمیمی کی والد ہ ناریمان تمیمی اور والدباسم تمیمی کا نام لکھ کر سرچ کیاجائے تو ایسے درجنوں واقعات سامنے آئیں گے کہ جس میں اس خاندان کی جانب سے نہ صرف صیہونیوں کے مقابلے میں اپنے گھر کا دفاع کیا ہے بلکہ علاقے میں بسنے والے دیگر فلسطینیوں کو بھی حوصلہ دینے اور غاصب صیہونی دشمن کے مقابلے میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے میں اسی خاندان اور بالخصوص عہدتمیمی کی والدہ اور والد کا بڑا کردار رہا ہے۔واضح رہے کہ عہد تمیمی کی والدہ اور والد کو غاصب صیونی ریاست اسرائیل پہلے بھی قید و بند کی سزائیں دے چکی ہے ۔گذشتہ دنوں 29جولائی اتوار کو عہد تمیمی اور اس کی والدہ ناریمان تمیمی کو اسرائیلی جیل سے آٹھ ماہ کے بعد رہا کیا گیا ہے، عہد تمیمی کا جرم کیا تھا؟ عہد تمیمی نے بہادری اور شجاعت کی ایک ایسی مثال قائم کی تھی کہ جسے رہتی دنیا تک ہمیشہ تاریخ فلسطین اور آزادی فلسطین کی جد وجہد میں سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔عہدتمیمی نے فلسطینی عوام کے ساتھ جبر و ستم کے ساتھ پیش آنے والے ایک غاصب صیہونی فوجی کے منہ پر تھپڑ رسید کیا تھا اور اس جرم میں عہد تمیمی کو گرفتار کیا گیا اور پھر مختلف اوقات میں سنگین سزائیں اور نفسیاتی ٹارچر کیا جاتا رہا تاہم 29جولائی سنہ2018ء کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی قید سے وہ اپنی والدہ کے ہمراہ آزادی پا کر ایک مرتبہ پھر فلسطینی عوام سمیت دنیا بھر کے حریت پسندوں اور متوالوں کے لئے رول ماڈل بن گئی ہیں ۔ایک سولہ سالہ فلسطینی نوجوان بہادر لڑکی کا غاصب صیہونی فوجی کو تھپڑ رسید کرنا یقیناًایک قابل جرات اور شجاعت مندانہ عمل ہے جو ا س بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فلسطین کی نئی نسل بھی پرانی نسلوں کی طرح جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور جد وجہد کو ترجیح دے رہی ہے اور یہ نسل نو کسی بھی طرح سے غاسب اسرائیل یا اس کے مدد گار امریکہ و مغربی ممالک کی طرف سے کی جانے والی صیہونیوں کی مسلح مدد سے مرعوب نہیں بلکہ یہ نسل اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر نہتے ہی برسرپیکار رہنے کو عزت و شرف کا راستہ سمجھ کر فلسطین و القدس کے دفاع کے لئے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔

یہ عہد تمیمی اور ان جیسی سیکڑوں فلسطینی نوجوان بچیاں اور بچے گذشتہ کئی ہفتوں سے غزہ اور مغربی کنارے کے ناجائز قائم کردہ بارڈر پر حق واپسی مارچ کا حصہ ہیں اور اس پاداش میں صیہونی غاصب افواج کی جانب سے مسلسل فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ بھی جاری ہے جو تاحال اس نسل نو کا حوصلہ پست کرنے میں بری طرح سے ناکام ہے، بلکہ فلسطین کی نسل نو کے حوصلہ مزید بلند سے بلند ہو رہے ہیں اور وہ مزاحمت کاری کے عمل کو ہی اپنی بقاء اور فلسطین کی آزادی کا راستہ قرار دے رہے ہیں ، یہی کچھ دراصل فلسطین کی اس بہادربیٹی عہد تمیمی نے بھی انجام دیا۔فلسطین کی نئی نسل میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مظالم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کے خلاف جنم لینے والا جذبہ حریت اور مزاحمت دراصل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسرائیل مسلسل زوال کی طرف ہے ۔

جہاں ایک طرف صیہونی جعلی ریاست اسرائیل اپنے دفاع کی خاطر اب مختلف دیواریں بنا کر سہارا لے رہی ہے وہاں غزہ اور مغربی کنارے کے راستے کو جدا کر کے ناجائز سرحد کی تعمیر کے ذریعہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنے لئے شکست کا ایک اور باب کھول لیا ہے اور خود کو مزید محدود کر لیا ہے۔یہی اسرائیل سنہ48ء سے پہلے اور بعد میں عظیم تر اسرائیل کی بات کرتا تھا آج عہد تمیمی جیسی بہادر نوجوان نسل کے سامنے تسلیم خم ہو رہاہے اور خود کو محدود سے محدود کرنے میں مصروف ہے۔یہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کہ جو چھ مسلمان ممالک کے ساتھ ہونے والی جنگ میں چند گھنٹوں میں نتائج حاصل کر لیتا تھا او ر فتح حاصل کرتا تھا آج ایک سولہ سالہ نوجوان لڑکی کے ہاتھوں اس غاصب ریاست کے درندہ صفت فوجی تھپڑ کھا رہے ہیں اور اس پر شکست تو یہ ہے کہ آٹھ ماہ قید رکھنے کے بعد بالآخر فتح کس کی ہوئی ہے؟

اسرائیل پھر بھی شکست سے دوچار ہو اہے، جعلی ریاست اسرائیل کو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں اور فلسطینی نوجوانوں کی جد وجہد رنگ لائی ہے اور عہد تمیمی کو اس کی والدہ کے ہمراہ آزاد کرنا پڑا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ اور دنیا کی بڑی مغربی طاقتیں غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ امداد کے نام پر دے کر اسے مزید طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف اب اس جعلی ریاست اسرائیل کی حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک سولہ سال کی نوجوان لڑکی اسرائیلی غاصب فوجیوں سے نہتے ہی نبرد آزما ہے اور اپنے آہنی ہاتھوں کے تھپڑ ان صیہونی درندوں کو رسید کر رہی ہے۔یقیناًاسرائیل تاریخ میں اس سے زیادہ زوال کا شکار نہیں ہوا تھا کہ ایک پوری نسل جو کہ فلسطین میں مقبوضہ حالات میں جنم لے کر نوجوانی کی منزل گزار رہی ہے آج غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے لئے درد سر بن چکی ہے اور اسرائیل کو کسی بھی محاذ پر چین و سکون میسر نہیں آ رہا۔عرب دنیا اور خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں کی رائے میں بھی فلسطین کی اس بہادر اور شجاع نوجوان لڑکی عہد تمیمی کی رہائی فلسطینی مزاحمت کے حامیوں اور فلسطین کی نئی نسل کی ناقابل تسخیر کامیابی ہے جس پر اسرائیل کے حصے میں فقط ذلت و رسوائی کے کچھ اور نہیں رہا۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عہد تمیمی کی رہائی پر پوری پاکستانی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور فلسطین کاز کے لئے سرگرم عمل تنظیم فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے عہد تمیمی کی صیہونی قید سے رہائی کو فلسطینی عوام کی عظیم کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے فلسطین کے عوام کو مبارک باد پیش کی ہے۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

وحدت نیوز (آرٹیکل) انسان اداس ہے دوستو! انسانوں کو مختلف زاویوں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا جاتا ہے۔رنگ ، مذہب، نسل، فرقے، زبان اور علاقے کے علاوہ سہولیات کے اعتبار سے بھی انسان تقسیم ہیں۔ یہ خبر آپ تک پہنچ چکی ہوگی کہ  ایون فیلڈ ریفرنس میں جیل جانے والےمیاں نواز شریف کو خرابی طبیعت کے باعث اڈیالہ جیل سے پمز اسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا  گیا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے ڈاکٹرمشہود،ڈاکٹرذوالفقارغوری ،ڈاکٹرملک نعیم اورڈاکٹراعجازاختراور ایک سٹاف نرس پرمشتمل ٹیم نے ہفتہ کو سینٹرل جیل اڈیالہ میں میاں نوازشریف کاطبی معائنہ کیا تھا اورتقریباً سواگھنٹے تک جاری رہنے والے چیک اپ کے دوران ڈاکٹروں نے سابق وزیراعظم کی ای سی جی کی ان کی شوگرچیک کی اوربعض ٹیسٹ کیے۔

کسی بھی قومی سطح کے مجرم کے ساتھ اس سے زیادہ محبت و شفقت کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں جیلوں میں موجود قید انسانوں کی تعداد اصل گنجائش سے 57 فیصد زائد ہے،اس زائد تعداد کی وجہ سے قیدی مختلف بیماریوں کے شکار ہیں اور انہیں بدن کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مناسب مقدار میں پانی تک نہیں ملتا۔  ڈاکٹر اور دوائی کی سہولت تو چھوڑیں انہیں سونے کے لئے جگہ تک میسر نہیں ، اس کے علاوہ قیدیوں پر تشدد،کم عمر قیدیوں کو پیشہ ور مجرموں نیز بچوں کو منشیات کے عادی لوگوں کے ساتھ  رکھنا، اسی طرح  خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، لوڈشیڈنگ اور خوراک کی ناگفتہ بہ صورتحال اپنی جگہ  ایک مستقل مسئلہ ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 98 جیلیں ہیں۔ جیلوں میں 56 ہزار سے زائد قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ 78 ہزار 1 سو 60 قیدی جیلوں میں موجود ہیں۔

یہ ایسے لوگ ہیں جن کے کوئی انسانی یا جمہوری حقو ق نہیں ہیں، ان پر لکھنے یا بولنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں، کوئی انسانی حقوق کی تنظیم نہیں جو انہیں پینے کے پانی کی سہولت کے لئےہی آواز اٹھا دے ، جو  رکے ہوئے مقدمات اور منجمد فائلوں کو کھلوا دے جو سالوں سے محبوس انسانوں کے مقدمات کی پیروی کرے ۔ ان جیلوں میں بہت سارے جھوٹے مقدمات میں پھنے ہوئے ہیں اور بہت سے اتفاقی حادثات کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔

یہ اس صدی کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے اس جمہوری دور میں بھی باہر کی آزاد فضا کی شکایتیں اپنی جگہ لیکن جیلوں میں بھی انسانوں کے ساتھ عادلانہ اور منصفانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔جیلوں کی سہولیات پر بھی ایک خاص مافیا قابض ہے ،جوان سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے کارندوں کو جیلوں میں بھی گرم ہوا  تک نہیں لگنے دیتا۔

سنا ہے کہ نیا پاکستان جنم لے چکا ہے، تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آچکی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جیلوں کے اندر اور باہر بسنے والے انسانوں کے معیارِ زندگی پر بھی کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ کسی جہاندیدہ دوست کا تجزیہ ہے کہ عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں اگر اس کے پچاس فیصد پر بھی عمل ہو جائے تو اس سے بہت بڑی تبدیلی آجائے گی اور ہماری خواہش ہے کہ اس پچاس فی صد میں جیلوں کی اصلاحات بھی اگر شامل ہوجائیں تو یہ آج کے دور کے انسان کا بنی نوعِ انسان پر بہت بڑا احسان ہوگا۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) مجھے یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ تحریک پاکستان جب چل رہی تھی تو تمام مسلمان ( شیعہ و سنی) مل کر کام کر رہے تھے  اور قیام پاکستان کی  مرکزی قیادت شیعہ و سنی رہنماوں  کے ہاتھ میں تھی  جبکہ مکتب دیوبند قیامِ پاکستا ن کا کٹر مخالف اور کانگرس کا مکمل طور پر  سیاسی حلیف تھا۔

اس وقت میں دفاعِ امامت کے نام سے حال ہی میں لکھی جانے والی ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اب تعجب کی بات یہ ہے کہ تکفیریوں کی طرح  اہل تشیع میں بھی کچھ لوگ پاکستان میں جمہوریت کے مخالف  ہو چکےہیں  اور اس طرح پاکستان کو کمزور کرنے میں کوشاں ہیں۔ حالانکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ پاکستان کا پہلے سال کا بجٹ راجہ صاحب محمود آباد ایک شیعہ نے ادا کیا. پاکستان کا پہلا بنک بھی شیعہ نے بنایا. پاکستان کا پہلا اخبار بھی شیعہ نے قائد اعظم کے حکم پر شروع کیا. پاکستان پہلی ائر لائن کی بنیاد بھی شیعہ نے رکھی اور اسی طرح قیامِ پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان تک بریلوی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔

رہی بات  دیوبندی و سلفی حضرات کی تو انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی طور پر مضبوط کیا اور سرکاری اداروں میں اپنے سہولتکاروں کو بٹھایا جس کی وجہ سے آج وہ پاکستان میں اقلیت میں ہونے کے باوجود سب سے زیادہ طاقتور ہیں اور یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ  اس طاقت کے حصول کے لئے انہوں نے شیعہ و سنی  دونوں کا ڈٹ کر قتلِ عام بھی کیا ہے.

تاریخ تشیع میں علامہ شہید سید عارف حسین الحسینی وہ پہلی شخصیت ہیں کہ  جنہوں نے اہل تشیع کے ضعف کے علاج کا نسخہ سیاسی طور پر طاقتور ہونا بتایا. اور انکے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے اور انہیں سیاسی طور پر مضبوط کرنے کا عہد اور عزم کیا. اور مینار پاکستان پر لاکھوں شیعیان حیدر کرار کے اجتماع میں اعلان کیا گیا کہ اب ہمیں بھی حکومت چاھیے ، اب ہمیں بھی وزارت چاہیے. اور یہ اعلان ہی شاید انکی مظلومانہ شہادت کا سبب بنا ۔

یہ  افسوس کن امر ہے  کہ آج اہلِ تشیع میں بھی وہابیوں اور دیوبندیوں کی طرح سوچنے والے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو ایک باقاعدہ جمہوری و سیاسی عمل سے گزرنے کے بجائے کسی بھی ہتھکنڈے کے ساتھ حکومت کو ہتھیانا چاہتے ہیں اور جمہوریت و سیاست کوکفر اور شجرِممنوعہ سمجھتے ہیں۔یعنی یہ ایسے لوگ ہیں جو طالبان و داعش کی طرح حکومت تو ہتھیانا چاہتے ہیں لیکن جمہوری سسٹم کا حصہ بنے بغیر۔ گویا ایک متشدد اور تکفیری سوچ اہل تشیع میں بھی سرایت کر رہی ہے۔

یہ لوگ پہلے اپنے ذھن میں ایک مفروضہ بناتے ہیں کہ لوگوں کا عقیدہ اور ایمان یہ ہے پھر اس پر تضحیک آمیز تجزیہ وتحلیل پیش کرتے ہیں.

  پہلے ایک حقیقت خارجی کو محض ایک مفروضہ یا حقائق کے خلاف بیان کرتے ہیں پھر اس پر مفصل طولانی بحث کو  توھین وتجریح کے کلمات کے ساتھ ذکر کرتے ہیں. نہ تو انکے پاس اپنے نظریات کو عملی شکل دینے کے لئے  کوئی روڈ میپ ہے. اور نہ ہی وہ کوئی  عملی قدم اٹھاتے ہیں . خود میدان سیاست میں آتے نہیں اور دوسروں کی حوصلہ شکنی اور ان پر نکتہ چینی اور تنقید کرتے ہیں.بالکل داعش، القائدہ اور طالبان کی طرح چاہتے ہیں کہ ایک بنی بنائی حکومت ان کے ہاتھ میں آجائے۔ یہ لوگ  دوسروں کو کم عقل اور اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں ۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاست اور الیکشن میں حصہ لینے والے شیعہ،  نظامِ امامت و ولایت پر ایمان و یقین نہیں رکھتے۔

ہمارا ان سے سوال ہے کہ آپکو کس نے کہا کہ سیاست اور الیکشن میں حصہ لینے والے  یعنی آپ کے علاوہ سب پاکستانی شیعہ علماء ہوں یا غیر علماء وہ نظام ولایت وامامت کو قبول نہیں کرتے؟کیا آپ نہیں جانتے کہ امامت و ولایت ہی تشیع کی اساس ہے!؟

یہ لوگ  خود حکم ثانوی کے تحت حزب اللہ کو تو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ فرانس کے بنائے ہوئے فرسودہ نظام اور جسے معاہدہ طائف کے تحت دوبارہ لبنان حزب اللہ کی شراکت سے چلایا جارھا ہے اس کا حصہ بنیں اور انتخابات میں شرکت کریں.  کیونکہ سیاسی طور پر طاقتور ہوئے بغیر نہ تو حزب اللہ اپنے وجود کا دفاع کر سکتی ہے اور نہ ہی اسرائیل کا مقابلہ کر سکتی ہے.

ہمارا ان سے دوسرا سوال ہے کہ کیا پاکستان میں جب شیعہ و سنی  سیاسی طور پر کمزور ہونگے تو اس کا انہیں مزید کوئی نقصان نہیں ہو گا اور اس سے تکفیریت، وہابیت اور دیوبندی مکتب کو مزید طاقت نہیں ملے گی؟

اگر پاکستان کے شیعہ و سنی سیاسی طور پر مضبوط ہوتے تو کیا انتخاباتی مہم کے دوران تکفیری عناصر انہیں اس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹ سکتے تھے!؟ اور کیا کسی کویہ کی جرات ہو سکتی تھی کہ وہ  پاکستان کو کافرستان ، پاک فوج کو ناپاک فوج اور قائد اعظم کو کافراعظم کہے!؟

 ہمارا  ان لوگوں سے سوال ہے کہ  قیام پاکستان کے دشمنوں کے لئے میدانِ سیاست خالی کر دینا عقلمندی ہے یا بیوقوفی!؟

ہم ان لوگوں کو یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ عددی نسبت کے لحاظ سے لبنان میں شیعوں کی تعداد پاکستان کے شیعوں سے زیادہ ہے اور ملک کو اسرائیل کے قبضے سے بھی شیعوں نے اپنی مقاومت سے آزاد کروایا ہے.  اگر پاکستان میں  الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والے شیعہ حضرات انکی جگہ لبنان میں  ہوتے تو کیا شراکت اقتدار قبول کرتے یا وھاں پر نظام ولایت وامامت قائم کرتے اور جمھوری اسلامی ایران کا لبنان کو ایک صوبہ بناتے.

ان لوگوں کے  افکار کے کی ترجمان کتاب "دفاع امامت" کو آج ص نمبر 105 سے ص نمبر 124 کو دو بار پڑھا. جس سے پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ ان کی معلومات بہت محدود اور سطحی  ہیں انہیں چاہیے کہ  حزب اللہ کے بارے میں مطالعہ کریں اور حزب اللہ کو تخیلاتی افسانے کے بجائے حقیقت کے قالب میں ویسا سمجھیں جیسی کہ حزب اللہ حقیقت میں ہے۔

انہوں نے حزب اللہ کے بارے میں ص 115 پر لکھا ہے :

" اسی طرح معاشی نظام انکا اپنا ہے. کاروبار انکا اپنا ہے. تجارت انکی اپنی ہے. تعلیمی سسٹم انکا اپنا ہے. تمام چیزیں انکی اپنی ہیں اور تمام چیزوں میں خود کفیل ہیں. ان تمام چیزوں میں وہ حکومت کے اسیر نہیں ہوتے. حکومت کے فیصلوں میں انکے تابع نہیں ہیں. حکومت کے معین کردہ نظام کے مطیع نہیں ہیں. ان تمام امور کے اندر حکومتی ڈھانچے کے اتباع کرنے والے نہیں ہیں. "

 اس پیرا گراف  میں یا تو بالکل سفید جھوٹ  بولا گیا ہےاور یاپھر مصنف کی معلومات بالکل صفر ہیں ، زمینی حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ کا لبنانی شیعوں کے لئے کوئی مستقل معاشی نظام نہیں ہے.  ویلفیئر کے بعض ادارے ہیں جن سے بعض حاجتمند استفادہ کرتے ہیں. لیکن عوام کی معیشت ملکی نظام سے جڑی ہوئی ہے حکومت کے سب اداروں میں لوگ نوکریاں کرتے ہیں اور حکومتی خدماتی اداروں بلدیات سے وزارتوں تک  سے خدمات حاصل کرتے  ہیں ۔

حزب اللہ کی اعلی قیادت سے راقم الحروف نے  بالمشافہ سنا ہے کہ نہ تو ہماری تنظیم کی کوئی تجارت ہے اور نہ ہی کاروبار  اور آپ خود بھی مختلف ذرائع سے تصدیق کر سکتے ہیں.

اسی طرح  لبنان کے شیعوں کا  کوئی مستقل تعلیمی سسٹم نہیں  ہے. لبنانی شیعوں کی اکثریت قاطع حکومتی اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتی ہے. بہت سے مشرقی ومغربی پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں اور حزب اللہ کا بھی ایک المھدی اسکولز سسٹم ہے جس کے تحت چند علاقوں میں اسکولز قائم ہیں اور ایک تعداد بچوں کی ان اسکولوں میں پڑھتی ہے اور یہ ادارے بھی رجسٹرڈ ہیں. امریکن یونیورسٹی بیروت میں شیعہ جوان کافی تعداد میں پڑھتے ہیں اور اعلی تعلیم کے لئے فرانس امریکا جرمنی اور دنیا کے مختلف ممالک میں اعلی تعلیم کے لئے جاتے ہیں.  سوریہ کی یونیورسٹیوں میں بھی کافی تعداد میں لبنانی  نوجوان تعلیم حاصل کرتے ہیں.

اسی  کتاب میں ص115  پر لکھا ہے:

"اگر کوئی یہ کہے کہ حزب اللہ طاغوتی نظام کا حصہ ہے تو اسے استغفار کرنا چاہئے.  اسے نہ نظام امامت کی ابجد کا پتہ ہے اور نہ حزب اللہ کی حیثیت کا علم ہے."

میرا مصنف سے سوال ہے کہ  کیا لبنان کا نظام حکومت طاغوتی  نہیں!؟  یا کیونکہ حزب اللہ اس میں جب عملی طور پر پارلیمنٹ ، وزارت اور ریاست ہر چیز میں شریک ہے تو اس نے اس طاغوتی نظام کا استحالہ کر دیا ہے. ؟

اس "دفاع امامت" کتاب میں جو تھیوری اور آئیڈیالوجی حزب اللہ کے عنوان کے تحت ان مذکورہ صفحات میں پڑھی یہ کافی حد تک اس تھیوری اور آئیڈیالوجی سے مطابقت رکھتی ہے جسکا پروپیگنڈہ آجکل حزب اللہ مخالف اور دشمن العربیہ ، الجزیرہ یا دیگر انٹرنیشنل میڈیا کر رھا ہے.

. اور جس ویڈیو خطاب کا حوالہ دیا اسی کی بنیاد پر دشمن بھی پروپیگنڈا کر رھا ہے اور حزب اللہ کی لیڈرشپ اپنے دسیوں بیانات اور خطابات میں اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ہمارا اصل ھدف کیا ہے اور اس تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے اور واضح بیان کر چکے ہیں جب تک ملک کی اکثريت ہمارے سیاسی نظام کو قبول نہیں کرتی ہم اپنی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھیں گے.  اور ملک کے نظام کو معاھدہ طائف اور موجود نظام کے مطابق دوسروں کے ساتھ ملکر چلائیں گے. اس انتخابات میں حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے سیکورٹی رسک کی پرواہ کئے بغیر الیکشن کمپین کی خود سربراہی کی ہے. اور اعلان کیا کہ ہم نئی حکومت میں کرپشن کے خاتمے پر بھرپور توجہ دیں گے.

اس نہج پر سوچنے والے افراد عوام کو پاکستان سے مایوس کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی بھی تکفیریوں اور پاکستان کے دشمنوں کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے چونکہ شاید یہ اُن کے ہم مشرب ہیں اور ان کا ایجنڈہ مشترکہ ہے۔اہل تشیع کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی سازشوںمیں آکر ملک و قوم سے مایوس ہونےکے بجائے میدانِ سیاست میں آکر اپنا فعال کردار ادا کریں۔

سیاست سے علیحدگی کا  تجربہ صدام حسین کے دور اقتدار سے پہلے عراق کے  شیعہ علماء نے کیا تھا اور سیاسی نظام سے علیحدگی کی پالیسی اختیار کی تھی. اس کے بعد انہیں 35 سال تک صدام کی آمریت کا دور دیکھنا پڑا.

جب لوگوں کو جمہوریت اور عوامی طاقت سے مایوس کردیا جاتا ہے تو پھر ان پر آمریت مسلط کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ہماری شیعانِ پاکستان سے یہ درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے شیعہ و سنی کی تفریق مٹا کر سیاسی میدان میں فعال ہوں اور  مایوسی و تھکاوٹ کے مارے ہوئے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ یہ ملک ہم سب نے مل کر بنایا تھا اور اس ملک کو ہم سب نے مل کر ہی سنوارنا ہے۔

تحریر:  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree