وحدت نیوز(آرٹیکل)  قرآن تمام مذاہب اسلامی کا مشترکہ منبع ہے جو سب کے نزدیک قابل قبول اور قابل احترام ہے ۔شیعہ امامیہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے قرآن کریم کو پہلا اور اہم ترین منبع سمجھتا ہے جو عقائد ،معارف اور احکام کا سر چشمہ ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{ان الله تبارک و تعالی انزل فی القرآن تبیان کل شی حتی والله ، ماترک الله شیاءً یحتاج الیہ العباد حتی لا یستطیع عبد یقول لو کان هذا انزل فی القرآن ، الا و قد انزلہ الله فیہ}1۔اللہ تعالی نے ہر شےٴ کو قرآن کریم میں بیان کیاہے اور جس چیز کے بندے محتاج تھے ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑا ۔کوئی یہ  کہنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ یہ چیز بھی قرآن کریم میں نازل کی جاتی ، آگاہ ہو کہ خدا نے قرآن کریم میں اس کو ضرور نازل کیا ہے۔ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں:{ما من امر یختلف فیہ اثنان الا و لہ اصل فی کتاب الله عزوجل ، و لکن لا تبلغہ عقول الرجال}2 ۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس میں دو آدمی اختلاف کریں اور اس کےبارےمیں قرآن میں حکم نہ ہو لیکن لوگوں کی عقلیں ان تک نہیں پہنچتیں ۔لہذا قرآن کریم کی تفسیر کے لئے ایک توانمند مفسر کی ضرورت ہے جو حقائق قرآن کو جانتا ہو ۔

آئمہ اہلبیت علیہم السلام کی نظر میں قرآن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ احادیث کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ وہ قرآن کریم کے مطابق ہو اور اگر کوئی حدیث قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو وہ مردود ہے ۔جیسا کہ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: {ما وافق کتاب الله فخذوہ و ما خالف کتاب الله فدعوہ}3۔جو حدیث کتاب خدا کے موافق ہو اسے لے لو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں :{ما لم یوافق من الحدیث القرآن فہو زخرف}4۔جو حدیث قرآن کریم کے موافق نہ ہو وہ باطل ہے ۔
کتب آسمانی میں دو طرح کی تحریف ممکن ہے ایک تحریف لفظی اور دوسرا تحریف معنوی ۔تحریف لفظی سے مراد آسمانی کتابوں کی آیتوں اور عبارتوں میں کمی و بیشی کرنا ہے جبکہ تحریف معنوی سے مراد آسمانی کتابوں کی آیتوں اور عبارتوں کی غلط تفسیر و تاویل کرنا جسے اصطلاح میں تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیتوں میں اضافہ نہ ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔شیعوں کی اکثریت کا نظریہ ہے کہ قرآن کریم میں تحریف لفظی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا اور مسلمانوں کے درمیان موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو خدا وندمتعال نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا تھا۔

شیعہ امامیہ کے بزرگ علماء، متکلمین،مفسرین اور فقہاء ۵نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے قدیم زمانے سے آج تک قرآن مجید کے تحریف سے محفوظ ہونے کی وضاحت کی ہے ان میں سے مندرجہ ذیل شخصیتوں کانام لیا جاسکتا ہے ۔  جیسے شیخ صدوق، شیخ مفید، سید مرتضی ،شیخ طوسی ، امین الاسلام طبرسی ، علامہ حلی،محقق کرکی، شیخ بہائی ، ملا محسن فیض کاشانی ،شیخ جعفر کاشف الغطا،شیخ محمدحسین کاشف الغطا،علامہ سید محسن امین ، شرف الدین عاملی ،علامہ امینی ، علامہ طباطبائی،امام خمینی اور آیت اللہ خوئی وغیرہ نے قرآن کریم کے تحریف سے محفوط ہونے{ اعم از کمی وبیشی}کی تصریح کی ہے ۔

شیخ صدوق اپنی کتاب اعتقادات میں تحریر فرماتے ہیں :ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن وہی ہے جو مسلمانوں کے درمیان موجود ہے اور اس سے زیادہ نہیں ہے اور جو ہماری طرف یہ منسوب کرتا ہے کہ ہم اس سے زیادہ والےقرآن کو مانتے ہیں وہ جھوٹا ہے ۔6۔امام خمینی ؒاس بارے میں لکھتے ہیں : جو بھی قرآن کریم کی حفظ ،قرائت ،کتابت اور نگہداری کے بارے میں مسلمانوں کی خصوصی توجہ اور اہتمام سے آشنا ہو وہ تحریف کے غلط خیال سے آگاہ ہو سکتا ہےکیونکہ جن روایتوں سے قرآن کریم کے تحریف ہونے کو ثابت کیا جاتاہے یا سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جس کی وجہ سے ان سے استد لال نہیں کیا جا سکتا یا  یہ جعلی اور گھڑی ہوئی ہیں۔ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مل بھی جائے تو وہ قرآن کریم کی تاویل اور تفسیر میں تحریف ہونے کو بیان کرتی ہے نہ کہ تحریف لفظی کو ۔7۔ امام خمینی کی عبارت میں دو چیزوں پر خصوصی توجہ ہوئی ہے ،ایک یہ کہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے اوردوسرا  تحریف قرآن کے قائلین کے لئےجواب یہ ہے کہ مسلمان قرآن کریم کی حفاظت میں خصوصی اہتمام کرتے تھےیہاں تک کہ عصر خلفاء میں جمع و تدوین قرآن کے وقت جب عمر بن خطاب نے کسی آیت کو آیت رجم کے نام سے پیش کیا تو مسلمانوں نے اسے قبول نہیں کیا کیونکہ کسی نے بھی اس کی تائید نہیں کی 8۔ تحریف قرآن  کے منکرین ہمیشہ اسی بات پر توجہ دلاتے رہے  جیسا کہ سید مرتضی  تحریرفرماتے ہیں :{ان العنایۃ اشتدت والدواعی توفرت علی نقلہ وحراستہ ..فکیف یجوز ان یکون مغیرا او منقوصا مع العنایۃ الصادقۃو الضبط الشدید}9۔مسلمان قرآن کریم کو نقل کرنے اور اس کی حفاظت میں خاص توجہ رکھتےتھے پس یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر شدیدمحبت اورسخت حفاظت کے ساتھ قرآن میں کمی وبیشی ہو ۔

 یہاں عدم تحریف قرآن کے بارے میں کچھ دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن مجید میں تحریف واقع ہو جائے جبکہ خداوند متعال نے خود اس کی حفاظت کی ضمانت لی ہے جیسا کہ ارشاد ہو تا ہے :{ إِنَّانحَنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَوَإِنَّا لہُ لحَافِظُون}10۔ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
2 ۔خداوند متعال نے قرآن کریم میں ہر قسم کے باطل کے داخل ہونے کی تردید کی ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{لَّایاْتِيہِ الْبَاطِلُ مِن بَين يَدَيْہِ وَ لَا مِنْ خَلْفہ تَنزِيلٌ مِّنْ حَکِيمٍ حَمِيد}11۔اس کے قریب ،سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم وحمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔ خداوند متعال نےقرآن مجید میں جس باطل کے داخل ہونے کی تردیدکی ہے اس کا مطلب اس قسم کا باطل ہے جو قرآن کی توہین کا باعث بنے چونکہ قرآن کے الفاظ میں کمی و بیشی کرنا اس کی بے احترامی و توہین ہے لہذا اس مقدس کتاب میں ہر گز کسی قسم کی کمی یازیادتی واقع نہیں ہوتی ہے ۔
3۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان قرآن کی تعلیم اوراس کو حفظ کرنے میں انتہائی دلچسپی دکھاتے تھے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں عربوں کے درمیان ایسے قوی حافظ موجود تھے جو صرف ایک بار طولانی خطبہ سننے کے بعد اسے یاد کر لیتے تھے ،اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے قاریوں کے ہوتے ہوئے قرآن مجید  میں کسی قسم کی تحریف ہوئی ہو ۔
4۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام چند مسائل میں خلفاء سے اختلاف نظر رکھتے تھے اور اپنی مخالفت کو مختلف مواقع پر منطقی طور سے ظاہر بھی کرتے تھے جس کا ایک نمونہ خطبہ شقشقیہ اور ان کے دفاعیات ہیں ۔اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ اسلام نے
اپنی پوری زندگی میں ایک حرف بھی تحریف قرآن کے بارے میں نہیں فرمایا ہے اگر نعوذاباللہ قرآن مجید میں تحریف ہوتی تو آپ علیہ السلام کسی بھی صورت خاموش نہ رہتے اس کے بر عکس آپ علیہ السلام ہر وقت قرآن میں تدبر کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔12۔
تحریف قرآن کے قائلین کچھ حدیثوں سے استدلال کرتےہیں جو ظاہراً ان کے نظریہ پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا جواب یہ ہے کہ
 اولا:یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جس کی وجہ سے ان سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
ثانیا:یہ احادیث جعلی یا گھڑی ہوئی ہیں ۔
ثالثا :اگر کوئی صحیح حدیث بھی ہوتو وہ قابل توجیہ و تاویل ہے کیونکہ یہ تحریف معنوی کو بیان کرتی ہیں ۔اس حقیقت کوجو شیعوں کی اکثریت کا نظریہ ہے اہل سنت محققین نے بھی بیان کیا ہے ۔اور وہ مذہب شیعہ کو تحریف قرآن جیسے اتہامات سے مبراء اور منزاء سمجھتے ہیں ۔ شیخ رحمت اللہ ہندی اپنی اہم کتاب اظہار الحق میں تحریر کرتے ہیں :علماء شیعہ کی اکثریت کا نظریہ ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کی تحریفات سے محفوظ ہے اور جو لوگ قرآن کریم میں کمی کا نظریہ رکھتے ہیں اس کو وہ غلط سمجھتے ہیں۔13۔
شیخ محمد مدنی لکھتےہیں :شیعہ قرآن کریم کی آیات یا کسی سورے میں کمی ہونے کے قائل نہیں ہیں اگرچہ اس طرح کی روایتیں ان کی احادیث کی کتابوں میں اسی طرح ہیں جس طرح ہماری کتابوں میں ہیں لیکن شیعہ و سنی محققین ان حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتے اور جو بھی سیوطی کی اتقان کا مطالعہ کرے اسے اس طرح کی روایات ملیں گے جن کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔شیعوں  کے نامور علماء قرآن مجید کے تحریف سے مربوط روایات کو باطل اورغلط سمجھتے ہیں ۔14۔
بنابرین اگر کوئی ان روایتوں کے مطابق تحریف قرآن کے قائل ہوں تو ان کی باتوں کو ان کے  مذہب کے عقیدے کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہیے ۔وہابی  اورتکفیری گروہ ہمیشہ شیعوں کی طرف تحریف قرآن کی نسبت دیتے ہیں اور ہمیشہ انہیں باتوں کے ذریعےعام لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ لوگ قرآن کریم کے عدم تحریف پر موجودشیعہ علماء کے صریح اقوال سے چشم پوشی کرتے ہوئے انصاف کے راستے سےخارج ہو کر دشمنی کے راستے کو طے کرتے ہیں۔15۔

 

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

 

 

حوالہ جات:
1۔صول کافی ،ج1، باب ،الرد الی الکتاب السنۃ ،حدیث 1۔
2۔اصول کافی ،ج1 ،باب ،الرد الی الکتاب السنۃ ،حدیث 6 ،ص60۔
3۔اصول کافی ،ج1 ،باب ،الاخذ  بالسنۃ و شواہد الکتاب،ج1 ۔
4۔صول کافی ،ج1، باب ،الاخذ  بالسنۃ و شواہد الکتاب،ج1 ،حدیث 4۔
5۔عقائد امامیہ ،آیۃاللہ جعفر سبحانی، ص204۔
6۔الاعتقادات فی دین الامامیہ،ص 59۔
7۔تہذیب الاصول ،ج2،ص 165۔
8۔سیوطی ،الاتقان فی علوم القرآن ،ج1 ،ص 244۔
9۔جمع البیان،ص15۔
10۔حجر۔ 9
11۔فصلت :42
12۔عقائد امامیہ ،آیۃاللہ جعفر سبحانی ،ص 207 – 208۔
13۔الفصول المہمۃ،ص 175۔
14۔صیانۃ القرآن من التحریف ،ص84۔مجلہ رسالۃ الاسلام کے نقل کے مطابق ،چاپ قاہرۃ ،شمارہ 44۔ ص 382۔
15۔ مراجعہ کریں: المیزان فی تفسیر القرآن ،ج12 ،ص 114۔ البیان فی تفسیر القرآن، ص 197 – 235۔آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن ،ص 17 – 29۔

وحدت نیوز (آرٹیکل)  الیکشن پر بحث جاری ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار، نگران وزیر اعظم جسٹس ناصرالملک سمیت الیکشن کمیشن کا یہ کہنا ہے کہ الیکشن 25جولائی ہی کو ہوں گے۔ میں نے 25جولائی کو الیکشن نہ ہوسکنے کی وجوہات پچھلے کالم میں بیان کردی تھیں، اب دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ تازہ باتیں ہیں، پہلے ان تازہ باتوں کا تذکرہ ہو جائے۔ سوائے سندھ کے ابھی تک باقی صوبوں میں نگرانوں کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ اس سے ہمارے سیاستدانوں کی فیصلہ سازی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ویسے تو اٹھارہویں ترمیم کے تحت یہ قانون ہی عجیب بنایا گیا تھا کہ صرف دو شخصیات یعنی لیڈرآف دی ہائوس اور لیڈر آف دی اپوزیشن بیٹھ کر کسی نگران کا فیصلہ کردیں اسی لئے تو پچھلے سالوں میں مک مکا کی حکومتیں رہیں، اسی لئے تو بھرپور اپوزیشن نہ ہو سکی، اسی لئے تو ملک قرضوں تلے چلا گیا، اسی لئے تو عمدہ حکمرانی نہ ہوسکی۔ دو روز پہلے آپ نے منظر نہیں دیکھا کہ جو شہباز شریف اپنے کارنامے گنواتے نہیں تھکتا تھا، اسے سپریم کورٹ میں خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے چیف جسٹس کے سامنے کرپشن کی داستانوں کی کہانیوں میں چھپے کرداروں کی وارداتیں تک یاد نہ رہیں۔ اسے افسران کے نام بھی بھول گئے۔ چیف جسٹس صاحب کو کہنا پڑا..... ’’کہاں گئے آپ کے کارنامے، ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے۔‘‘ بہت افسوس ہوا کہ جو وزیر اعلیٰ نیب کو کرپشن کا گڑھ قرار دیتا رہا، خود اس کی اپنی پوری حکومت کرپشن کی داستانوں سے لبریز رہی۔ اسے یہ تک پتا نہیں کہ اس کی حکومت میں افسران کو بھاری تنخواہوں پر کیوں رکھا گیا؟ نہ وہ مجاہد شیردل کی خوبی بتا سکے اور نہ ہی کیپٹن عثمان کا کوئی وصف گنوا سکے۔ برہمی ہوئی، قطار اندر قطار برہمی، ایسا طرز حکومت سوائے ندامت کے کچھ نہیں۔

مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں میں فیصلہ سازی کی قوت نہیں۔ نگرانوں ہی کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ آج کل دو ہی لوگوںکا رش نظر آرہا ہے یا ٹکٹوں کے حصول کے لئے سیاسی پارٹیوں کے لوگ کوششیں کر رہے ہیں یا پھر ریٹائرڈ جج اوربیوروکریٹس نگرانوں میں جگہ بنانے کے لئے لابنگ کر رہے ہیں۔ ہر پانچ سال کے بعد ریٹائرڈ ججوں اوربیوروکریٹس کے لئے بہار کے یہ چنددن آتے ہیں کہ وہ وزیر، وزیراعلیٰ یا پھر وزیر اعظم بننے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ایک طویل عرصے سے پاکستانی سیاست میں انتخابات، الیکشن سے پہلے اور بعد میں نگرانوں کی حالت، الیکشن کمیشن کے دعوے اور پھر دھاندلی کے مناظر الیکشن ٹربیونلز، ان کے فیصلے اور ان فیصلوں کے لٹکتے ہوئے مناظر، نتائج پر دھاندلی کا شور، پولنگ ڈے پر مارکٹائی اور پھر پولنگ ڈے کی شام، شام میں ابتدائی نتائج اور پھر رات ساڑھے دس گیارہ بجے کسی کا اکثریت مانگنا، یہ سب کچھ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔اس دکھ کے مداوے کے لئے ظاہر ہے ہمیں اپنی حکومتوں ہی کی طرف دیکھنا پڑتاہے۔ ہمارے ہاں حکومت سازی پرکبھی عمدہ انداز میں توجہ ہی نہیں دی گئی، حالت تو یہ ہے کہ ہم اپنا انتخابی نظام بھی ابھی تک درست نہیں کرسکے۔ ابھی تک اس میں دھونس، دھاندلی کا راج ہے۔ ابھی تک انتخابی شفافیت قائم کرنے میں ناکامی ہماری ہے کسی اور کی نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا انتخابی نظام چوروں اورلٹیروں سے جان نہیں چھڑوا سکا اور اب تو انہوںنے نامزدگی کے فارم ہی کو ’’برقع‘‘ پہنوا دیا ہے تاکہ کسی کوکچھ پتا ہی نہ چل سکے کہ برقعے کے اندر دہشت گرد ہے یا کوئی عورت ہے؟

آج کل سخت گرمی کے دنوں میں رمضان المبارک کے باوجود اگلےاقتدار کے حصول کے لئے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی اکثریت دن رات مصروف ہے۔ سب کو الیکشن جیتنے کی فکر ہے مگر ایک سیاستدان ایسا بھی ہے جسے سب سے زیادہ پاکستان کی فکر ہے۔ یہ حالیہ دنوں کی ایک رات کا قصہ ہے۔ دس بارہ لوگوں کی محفل تھی۔ مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس پاکستان کی اہمیت بتارہے تھے۔ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات پر تبصرہ کر رہے تھے۔ میرے لئے حیرت تھی بلکہ سب کے لئے حیرت تھی کہ جس شخص کوہم صرف ایک مذہبی جماعت کا سربراہ سمجھتے تھے، وہ تو ایک دانشور سیاستدان ہے۔ اسے صرف مذہب کا علم نہیں اسے تو عالمی حالات کی بہت خبرہے۔ وہ تو دنیا بھر کی جنگی اور معاشی حکمت ِ عملیوں سے آگاہ ہے۔ اسے سازشوں کی خبر بھی ہے اورحالات سدھارنے کا ادراک بھی۔رات سحری کی طرف بڑھ رہی تھی اور وہ شخص بول رہا تھا جس کے والدسانحہ ٔ مشرقی پاکستان کی خبر سن کر زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ اس پیارے وطن کے نقصان کا سننا ہی موت کا سبب بنا۔ جس کا والد پاکستان کی محبت میں چلا گیا تھا اور وہ خود ایک چھوٹا سا یتیم بچہ رہ گیا تھا۔ رات کے آخری پہر میں وہی یتیم بچہ اور آج کامعتبرسیاستدان علامہ راجہ ناصر عباس حب الوطنی سے بھرپور گفتگو کر رہا تھا۔

 ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔ ہمارے ہاں ایسے ادارے ہی نہیں بنے جو حکومت سازی میں رہنمائی کرسکیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی یہ سوچ نہیں بلکہ وہ تو ایسے افراد کو وزیر خارجہ لگا دیتی ہیں جنہیں خارجہ امور کا پتا نہیں ہوتا۔ زراعت کے وزیرکو یہ خبر نہیں ہوتی کہ دنیامیں زرعی ترقی کی اصلاحات کون سی ہیں۔ صحت والا وزیر اپنے محکمے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ معیشت والوں کا حال سامنے ہے کہ انہوں نے ملک کو قرضوں تلے دے ڈالا۔ ہم نے نیشن بلڈنگ کے ادارے ہی نہیں بنائے، نہ ہمارے ہاں حکومت سازی کے ادارے ہیں اور نہ ہی ہمارے ہاں ملت سازی کے ادارے۔ ہماری نوجوان نسل کی رہنمائی کےلئے کچھ بھی نہیں۔ ہم بطور قوم آگے نہیںبڑھ رہے بلکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہیں۔ کہیں صوبائی تعصب کے نام پر تو کہیں لسانی بنیادوں پر، ہماری یہ تقسیم دشمن کی چال ہے۔ ہم کہیں ذاتوں اور قبیلوں میں تو کہیں فرقوں میں تقسیم ہیں حالانکہ یہ ہمارے چھوٹے چھوٹے سے اختلافات ہیں، انہیں مدھم کیاجاسکتاہے۔ قوم اور ملک کی محبت اس سے اوپر کی چیزیں ہیں لیکن ہم ملک و قوم کا سوچتے ہی نہیں۔ مجھے اس دن بہت افسوس ہوا جب تین دفعہ کے وزیراعظم نے اپنی ہی فوج پر تنقید شروع کی۔یہی دشمن کی چال ہے۔ہمیں اس وقت ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم کو اپنی فوج کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہمیں پاکستانی بن کر ہی بڑا کردار اداکرنا چاہئے۔علامہ راجہ ناصر عباس کی باتیں درست ہیں مگر ہم سوچتے کہا ں ہیں؟ منیرنیازی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ

وہ جو اپنا یار تھا دیر کا، کسی اور شہر میں جا بسا


تحریر۔۔۔۔مظہربرلاس،بشکریہ روزنامہ جنگ

وحدت نیوز (آرٹیکل)  جنگیں عام طور پر مال واقتدار کے لئے لڑی جاتی ہیں. جسے عموما ڈپلومیسی اور میڈیا کی زبان میں لفظ مفادات سے تعبیر کیا جاتا ہے. انٹرنیشنل ریلیشنز میں انہیں مفادات ( مال واقتدار )کو بنیادی حیثیت حاصل ہے. انھیں کی حفاظت کی خاطر قربتیں اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں. آج انہیں کے تحفظ کی خاطر  مختلف حیلے بہانے ، نرمیاں سختیاں ، جان ومال اور آبرو سب کچھ داو پر لگائی جاتی ہے. اسی ہدف کے حصول کے لئے دین ومذہب ، قوم وقبیلہ ہر چیز کو استعمال کیا جاتا ہے. مال واقتدار کے سوداگر دنیا کے سامنے ہمیشہ اپنی سیاہ کاریوں کو خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر پیش کرتے ہیں. اور ادب ولغت وصحافت کے میدان کے کھلاڑی پرکشش اصطلاحوں اور تعبیرات وتفسیرات کے دامن میں بھیانک نتائج کی عفونت وبدبو کو چھپاتے ہیں. اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ وہ عرف عام میں سچ میں تبدیل ہو جاتا ہے. اور اگر زمانے کی روش کے بالعکس اگر کوئی سچ بولنے کی جرات کرے تو سب اسے جھوٹا اور انتہا پسند یا فتنہ پرداز جیسے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں.

جب امریکا نے 70 کی دھائی میں کیمونسٹ پیش رفت کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے اخوان المسلمین سے تعاون مانگا چنانچہ  اسامہ بن لادن کو میدان میں اتارا گیا. دوسری طرف پاکستانی اخوان المسلمین  یعنی جماعت اسلامی اور انکی ہم فکر دینی وقومی جماعتوں کے تعاون سے جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا اور اخوانی فکر کا حامی فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آیا.  اوریوں ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو  پر بے دین اور کیمونسٹ ہونے کا الزام لگا اور اسے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا.اس طرح  کیمونزم کا مقابلہ کرنے کے بہانے سلفی ووھابی نرسریاں اگانے کے لئے  پورا ملک سعودی عرب کو ٹھیکے پر دے دیا گیا.

ہم نے پاکستان تو سعودی عرب کو جہادی ٹھیکے پر دے دیا لیکن دوسری طرف  اس حقیقت سے آنکھیں بند کئے رہے کہ افغانستان کی آبادی تین بڑی قومیتوں پر مشتمل ہے. 1- ازبک ، 2- ہزارہ اور 3- پختون . افغان پالیسی مرتب کرتے وقت پاکستان کے قومی مفاد کو نظر انداز کیا گیا اور متوازن پالیسی نہیں بنی بلکہ سعودی و امریکی  تعصب کی بنا پر پالیسی بنائی گئی.

جب پاکستان نے  سعودی  و امریکی ایما پر فقط پختون قومیت کے متعصب دینی فکر ایک بڑے طبقے کو اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر بنایا تو  ایسے میں انڈیا نے اپنی توجہ پختونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں پر دی اور بالخصوص تاجک قوم کو اپنے قریب کیا.  جب طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو پاکستان کے اسٹریٹیجیکل پارٹنر اور ایسٹس پختونوں کی بھی ایک بڑی تعداد میں انڈیا کی گود میں جا بیٹھے. ہمیں تاجک اور ہزارہ کو دور رکھنے کے نقصان کا اندازہ اس وقت ہوا جب افغانستان میں بننے والی نئی حکومت میں وہ لوگ اوپر آئے جنکی انڈیا سے قربتیں اور تعلقات تھے.

 جس افغانستان کے لئے ہم نے اپنے ملک کا امن واقتصاد داو پر لگایا تھا  اس  افغانستان میں ہمارا دشمن پوری طاقت کے ساتھ  ابھر کر برسرِ اقتدار آگیا تھا. لیکن ہم نے اس حقیقت سے اپنی عوام کو غافل اور ثانوی مسائل میں الجھائے رکھا. ہم اب قوم کو کیسے بتاتے کہ ہم نے فقط ایک تہائی کے بھی ایک حصے پر اعتماد کیا تھا اور دو تہائی کو تو یکسر نظر انداز کیا تھا اور اب وہ ایک تہائی بھی ہمارے دشمن کے اثر ونفوذ کا شکار ہے. بلکہ دشمن انہیں کے ذریعے آج ہمارے ملک کے امن کو تباہ کر رہا ہے. وہ  ایک تہائی جنہیں ہم نے گلے لگایا تھا اب وہی ہمارے ملک میں ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے کرتے ہیں اور جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی جیسی  اخوانی فکر رکھنے والی تنظیمیں ان کی سہولتکار بنی ہوئی ہیں۔

انٹرنیشنل میڈیا میں شایع ہونے والی رپورٹس اور خبروں کے مطابق آج کل  افغانستان کی اہم شخصیات سعودی عرب کے خصوصی دورے کر رہی ہیں اور گذشتہ سال سعودی وفود بھی کردستان عراق کے خفیہ دورے کر چکے ہیں.

میڈیا ذرائع کے مطابق افغانستان سیکورٹی کونسل کے مشیر حنیف اتمر نے  سعودی عرب کا رسمی دورہ کیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی. سعودی اخبار الشرق الاوسط سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف اتمر نے کہا کہ اس دورے کا مقصد دوطرفہ برادرانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے اور خطے میں امن قائم کرنے میں سعودیہ کا بنیادی کردار ہے. افغانستان اس وقت دہشتگردی کا شکار ہے. اور دھشتگردی کے خلاف جنگ میں سعودیہ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے. امت مسلمہ میں ایک سربراہی کردار  کی حیثیت سے ہم امیدوار ہیں کہ سعودیہ افغانستان میں قیام امن اور دھشتگردی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا. خدا کرے یہ بات صحیح ہو لیکن جو چھپایا گیا ہے وہ کہیں زیادہ ہے.

انٹرنیشنل میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب ایک سال سے داعش کو عراق سے افغانستان منتقل کرنے میں بالخصوص شمال افغانستان منتقل کرنے میں مصروف ہے تاکہ کہ یہ خبریں پھیلنے نہ پائیں .

 اوکو بلنٹ روسی سائٹ نے رپورٹ نشر کی تھی کہ گزشتہ سال دیوان ملکی سعودیہ کے مشیر ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالعزیز بن محمد الربیعہ نے کردستان عراق کا دورہ کیا اور مسعود بارزانی سے ملاقات کی. اس کے بعد ایک اجلاس ہوا جس میں اربیل میں سعودی کونسلر عبدالمنعم عبدالرحمن محمود ، کردستان سیکورٹی کے مشیر مسرور بارزانی پاکستانی وزارت دفاع کے سیکرٹری جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن شاہ اور سعودی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے سربراہ کے نائب میجرجنرل احمد حسن عسیر نے شرکت کی.

 یہ اجلاس جو بتاریخ 2/5/2017 کو کردستان سکیورٹی کونسل کے مرکز میں منعقد ہوا. اور اس  کا ایجنڈا پاکستان ، کردستانی اور سعودی انٹیلیجنس کے تعاون سے داعش کو موصل سے شمال افغانستان منتقل کرنے کا پروگرام تشکیل دینا تھا.

سعودیہ نے اس منصوبے کی تکمیل کے لئے 80 ملین ڈالرز کا بجٹ فراہم کیا اور اس اجلاس میں طے پایا کہ 1800 داعشی موصل سے شمال افغانستان بھیجنے کے لئے پہلے عراق کے اربیل ائرپورٹ سے پاکستان بھیجے جائیں گے اور وہاں سے افغانستان منتقل کئے جائیں گے.

رپورٹس میں آیا ہے کہ اخوانی فکر کے حامل لیڈرز  عبد رب الرسول سیاف اور گلبدین حکمتیار  بھی حنیف اتمر سے پہلے سعودی مسئولین کی رسمی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں اور اہم شخصیات بالخصوص محمد بن سلمان سے ملاقات کر چکے ہیں.

عرب میڈیا کے مطابق حکمت یار اور سعودی مسئولین کے مابین طے پایا ہے کہ جبھۃ النصرۃ (القاعدہ) اور جیش العدل کی لیڈرشپ کو افغانستان منتقل کیا جائے گا. اس منصوبے کے تحت  تکفیری دہشتگردوں کو دو مرحلوں میں منتقل کیا جائے گا.  پہلے مرحلے میں ان دونوں گروہوں کے لیڈروں کو امریکی طیاروں کے ذریعے افغانستان منتقل کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں انکے عام دہشتگردوں کو تاجکستان اور پاکستان کی سرحدوں سے افغانستان بھیجا جائے گا.

عبدالرسول سیاف نے سعودی فرمانروا ملک سلمان کے دینی امور کے  مشیر عبداللہ مطلق اور صالح السیحیباتی سے بھی ملاقات کی. سیاف شمال افغانستان کا ایک تاجک جنرل اور عسکری راہنما ہے اور حکمتیار افغانستان میں اخوانی فکر اور حزب اسلامی (جماعت اسلامی) کا رہنما ہے.

 تاجک قومیت کے پرانے اور پختون قومیت کے انڈیا سے نئے تعلقات اور ہزارہ قبیلے پر  پاکستان وافغانستان میں آئے دن حملے پاکستان کے امن واستقلال  کے لئے ایک بنیادی تھریڈ ہیں. اس وقت پاکستان کے خلاف امریکی ، اسرائیلی ، سعودی ، افغانی اور انڈین گٹھ جوڑ اور پاکستان کی کالی بھیڑوں کی شرکت  ہمارے وطن کی سلامتی کے لئے نیا چیلنج ہے.

 اس وقت پاکستان کے افق پر سیاہ گھٹائیں گردش کر رہی ہیں. ایسے حالات میں پاکستانی عوام کو صحیح حالات اور صورتحال سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے. ملک کے حکمرانوں اور مقتدر اداروں کے مابین افہام وتفہیم کی فضا قائم کرنا اور ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ اسٹریٹجی تیار کرنا اور اس کا میکنزم بنانا اور حکومت ومحب وطن عوام اور مسلح افواج کے مابین انسجام سے ہی یہ مرحلہ عبور کیا جا سکتا ہے. دنیا میں دوست ممالک بالخصوص ہمسایہ قابل اعتماد برادر ملکوں سے قریبی تعلق وتعاون وقت کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ امریکہ واسرائیل اور انکے اتحادی ، لیبیا وعراق وشام کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے بعد اب  انکے منحوس قدم پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں .پاکستان اور چین کا باھمی اقتصادی تعاون ان سے برداشت نہیں ہو رہا. ٹرامپ و حکمتیار ایک ہی طرز کے بیانات داغ رہے ہیں.

 30 جنوری 2018 کو ایرانی سپریم لیڈر نے خبر دار کیا تھا کہ امریکا افغانستان میں اپنے عسکری وجود کو باقی رکھنے کے جواز کے طور پر عراق اور شام میں شکست کے بعد داعش کو افغانستان منتقل کر رہا ہے اور اس سے پہلے اور بعد کئی ایک ایرانی اور روسی مسئولین بھی  اس بات کا اظہار کر چکے ہیں  اور یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ خطے کے امن کے لئے داعش کی اس منتقلی کو روکا جائے۔

پاکستان کی قومی سلامتی کے ضامن اداروں اور عوام کو اپنے ملک کے خلاف ابھرتے ہوئے نئے خطرات کو بروقت محسوس کرتے ہوئے مناسب جوابی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔


تحریر :  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل)  حضرت خدیجہ (س)کا شمارتاریخ انسانیت کی ان عظیم خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانیت کی بقاء اور انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئےاپنی زندگی قربان کر دی تاریخ بشریت گواہ ہے کہ جب سے اس زمین پر آثار حیات مرتب ہونا شروع ہوئے اور وجود اپنی حیات کے مراحل سے گزر تا ہوا انسان کی صورت میں ظہور پذیر ہوا اور ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام اولین نمونہ انسانیت اور خلافت الہیہ کے عہدہ دار بن کر روئے زمین پر وارد ہوئے اور پھر آپ کے بعد سے ہر مصلح بشریت جس نے انسانیت کے عروج اور انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اس کو اس کے خالق حقیقی سے متعارف کرانے کی کوشش کی، کسی نہ کسی صورت میں اپنے دور کے خود پرست افراد کی سر کشی اور انانیت کا سامنا کرتے ہوئے مصائب و آلام سے دوچار ہوتا رہا دوسری طرف تاریخ کے صفحات پر ان مصلحین بشریت کے کچھ ہمدردوں اور جانثاروں کے نام بھی نظر آتے ہیں جو ہر قدم پر انسانیت کے سینہ سپر ہوگئے اور در حقیقت ان سرکش افراد کے مقابلے میں ان ہمدرد اور مخلص افراد کی جانفشانیوں ہی کے نتیجے میں آج بشریت کا وجود برقرار ہے ورنہ ایک مصلح قوم یا ایک نبی یا ایک رسول کس طرح اتنی بڑی جمعیت کا مقابلہ کر سکتا تھا جو ہر آن اس کے در پئے آزارہو یہی مٹھی بھر دوست اور فداکار تھے جن کے وجود سے مصلحین کے حوصلے پست نہیں ہونے پاتے تھے مرور ایام کے ساتھ پرچم اسلام آدم (ع) و نوح (ع) و عیسیٰ و ابراہیم علیہم السلام کے ہاتھوں سربلندی وعروج حاصل کرتا ہوا ہمارے رسول کے دست مبارک تک پہونچا اور عرب کے ریگزار میں آفتاب رسالت نے طلوع ہو کر ہر ذرہ کو رشک قمر بنا دیا،ہر طرف توحید کے شادیانے بجنے لگے از زمین تا آسمان لا الہٰ الا الله کی صدائیں باطل کے قلوب کو مرتعش کرنے لگیں، محمد رسول الله کا شور دونوں عالم پر محیط ہوگیا اور تبلیغ الٰہی کا آخری ذریعہ اور ہدایت بشری کے لئے آخری رسول رحمت بنکر عرب کے خشک صحرا پر چھاتا ہوا سارے عالم پر محیط ہو گیا دوسری طرف باطل کا پرچم شیطان و نمرود ، فرعون و شداد کے ہاتھوں سے گذرتا ہوا ابولہب ، ابو جہل اور ابوسفیان کے ناپاک ہاتھوں بلند ہونے کی ناپاک کاوشوں میں مصروف ہوگیا۔ـ رسول پاک ﷺکے کلمہ توحید کے جواب میں ایذا رسانی شروع ہوگئی اور حق و باطل کی طرح برسر پیکار ہوگئے ایسے عالم میں کہ ایک طرف مکہ کے خاص و عام تھے اور دوسری طرف بظاہر ایک تنگ دست اور کم سن جوان جس کے اپنے اس کے مخالف ہو چکے تھے ـ لیکن پیغام الٰہی کی عظمت، مصائب کی کثرت پر غالب تھی اور ہر اذیت کے جواب میں رسول اللهﷺ کا جوش تبلیغ اور زیادہ ہوتا جاتا تھا ـ ایسے کسمپر سی کے عالم میں جہاں ایک طرف آپ کے چچا ابوطالب ؑنے آپ کی ہر ممکنہ مدد کی وہیں دوسری طرف آپ کی پاک دامن زوجہ حضرت خدیجہ (س)نے آپﷺ کی دلجوئی اور مدارات کے ذریعہ آپﷺ کو کفار مکہ سے پہچنے والی تمام تکالیف کو یکسرہ فراموش کرنے پر مجبور کر دیا ـ حضرت خدیجہ(س) نے آپﷺ کی زبان سے خبر بعثت سنتے ہی اٰمنا وصدقنا کہہ کر آپﷺ کی رسالت کی پہلے ہی مرحلے میں تائید کردی جناب خدیجہ کا یہ اقدام رسول اکرم ﷺکے لئے بہت حوصلہ افزاء ثابت ہوا ۔ـ آپ(س) کی اسی تائید و تعاون کو رسول اکرم ﷺآپ(س) کی وفات کے بعد بھی یاد فرماتے رہتے تھے اور اکثر و بیشتر آپﷺ کی زبان اقدس پر حضرت خدیجہ (س)کا تذکرہ رہتا تھا (1) حضور کی ایک زوجہ نے جب آپ ﷺکے اس فعل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ خدیجہ(س) ایک ضعیفہ کے سوا کچھ نہیں تھی اور خدا نے آپ کو اس سے بہتر عطا کر دی ہے ( اس حضور ﷺکی بیوی کا اشارہ اپنی طرف تھا ) تو حضورﷺ ناراض ہو گئے (2 ) اور غضب کے عالم میں فرمایا کہ خدا کی قسم خدا نے مجھ کو اس سے بہتر عطا نہیں کی وللٰہ لقد اٰمنت بی اذکفر الناس واٰوتینی اذرفضنی الناس و صدقتنی اذکذبنی الناس (3) خدا کی قسم وہ (خدیجہ ) اس وقت مجھ پر ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہو ئے تھے اس نے مجھے اس وقت پنا ہ دی جب لوگوں نے مجھے ترک کردیا تھا اور اس نے میری اس وقت تصدیق و تائید کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے۔

 خاندان و نام ونسب :
شجر اسلام کی ابتدائی مراحل میں آبیاری کرنے والی اور وسطی مراحل میں اس کی شاخوں کو نمو بخشنے والی یہ خاتون قریش کے اصیل و شریف گھرانے میں پید ا ہوئی روایات میں آپ(س) کی ولادت عام الفیل سے پندرہ سال قبل ذکر ہوئی اور بعض لوگوں نے اس سے کم بیان کیا ہے ـ آپ کے والد خویلد ابن اسد بن عبد العزی بن قصی کا شمار عرب کے دانشمندوں میں ہوتا تھا اور آپ(س) کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن رواحہ ہیں (4) آپ(س) کا خاندان ایسے روحانی اور فداکار افراد پر مشتمل تھا جو خانہ کعبہ کی محافظت کے عہد یدارتھے ـ جس وقت بادشاہ یمن ”تبع “نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے یمن منتقل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت خدیجہ (س)کے والدکی ذات تھی جنہوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جس کے نتیجہ میں مجبور ہوکر ”تبع “کو اپنے ارادہ سے منصرف ہو نا پڑا ـ(5) حضرت خدیجہ(س) کے جد اسد بن عبد العزی پیمان حلف الفضول کے ایک سرگرم رکن تھے یہ پیمان عرب کے بعض با صفا وعدالت خواہ افراد کے درمیان ہو ا تھا جس میں متفقہ طور پر یہ عہد کیا گیا تھا کہ مظلومین کی طرف سے دفاع کیا جائے گا اور خود رسول اکرمﷺ بھی اس پیمان میں شریک تھے (6) ”ورقہ بن نوفل “ (حضرت خدیجہ(س) کے چچا زاد بھائی )عرب کے دانشمند ترین افراد میں سے تھے اور ان کا شمار ایسے افراد میں ہوتا تھا جو بت پرستی کو نا پسند کرتے تھے (7) اور حضرت خدیجہ(س) کو چندین بار اپنے مطالعہ کتب عہدین کی بنا پر خبر دار کرچکے تھے کہ محمدﷺ اس امت کے نبی ہیں ـ(8) خلاصہ یہ کہ اس عظیم المرتبت خاتون کے خاندان کے افراد، متفکر ، دانشمند اور دین ابراہیم کے پیروتھے ـ۔

 تجارت:
تجارت ایسے با عظمت افراد کی آغوش عاطفت کی پروردہ خاتون کی طبیعت میں اپنے آبا و اجداد کی طرح رفق ودانشمندی کی آمیزش تھی جس کے سبب آپ نے اپنے والد کے قتل کے بعد ان کی تجارت کو بطریقہ احسن سنبھال لیا اور اپنے متفکر اور زیرک ذہن کی بنا پر اپنے سرمایہ کو روز افزوں کرنا شروع کردیا ـ آپ کی تجارت با تجربہ اور با کردار افراد کے توسط سے عرب کے گوشہ وکنار تک پھیلی ہوئی تھی روایت کی گئی ہے کہ ”ہزاروں اونٹ آپ کے کار کنان تجارت کے قبضہ مین تھے جو مصر ،شام اور حبشہ جیسے ممالک کے اطراف میں مصروف تجارت تھے“ (9) جن کے ذریعہ آپ نے ثروت سرشار حاصل کر لی تھی ـ آپ کی تجارت ایسے افراد پر موقوف تھی جو بیرون مکہ جاکر اجرت پر تجارت کے فرائض انجام دے سکیں چنانچہ حضرت ختمی مرتبت ﷺکی ایمانداری ، شرافت ، او ردیانت کے زیر اثر حضرت خدیجہ (س)نے آپﷺ کو اپنی تجارت میں شریک کر لیا اور باہم قرار داد ہوئی اس تجارت میں ہو نے والے نفع اور ضرر میں دونوں برابر شریک ہوں گے ـ(10) اور بعض مورخین کے مطابق حضرت خدیجہ (س)نے آپﷺ کو اجرت پر کاروان تجارت کا سربراہ مقرر کیا تھا ـ (11)لیکن اس کے مقابل دوسری روایت ہے جس کے مطابق رسول اللهﷺ اپنی حیات میں کسی کے اجیر نہیں ہوئے ـ (12) بہر کیف حضرت کاروان تجارت کے ہمراہ روانہ شام ہوئے حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھا ـ(13) بین راہ آپ سے کرامات سرزد ہوئیں اور راہب نے آپ ﷺمیں علائم نبوت کا مشاہدہ کیا اور ”میسرہ“کوآپ کے نبی ہونے کی خبر دی ـ (14)تمام تاجروں کو اس سفر میں ہر مرتبہ سے زیادہ نفع ہوا جب یہ قافلہ مکہ واپس ہوا تو سب سے زیادہ نفع حاصل کرنے والی شخصیت خود پیام اکرم کی تھی جس نے خدیجہ کو خوش حال کردیا اس کے علاوہ میسرہ (غلام خدیجہ ) نے راستے میں پیش آنے والے واقعات بیان کئے جس سے حضرت خدیجہ(س) آن حضرتﷺ کی عظمت و شرافت سے متاثر ہوگئیں ۔

 ازدواج :
حضرت خدیجہ(س) کی زندگی میں برجستہ و درخشندہ ترین پہلو آپ کی حضرت رسالت مآبﷺ کے ساتھ ازدواج کی داستان ہے ـ جیسا کہ سابقہ ذکر ہوا کہ ” حضرت خدیجہ(س) کی تجارت عرب کے ا طراف و اکناف میں پھیلی ہوئی تھی اور آپ کی دولت کا شہرہ تھا چنانچہ اس بنا پر قریش کے دولت مند طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد چندین بار پیغام ازدواج پیش کر چکے تھے ، لیکن جن کو زمانہ جاہلیت میں ”طاہرہ“ کہا جاتا تھا (15) اپنی پاکدامنی اور عفت کی بنا پر سب کو جواب دے چکی تھیں ـ حضرت جعفر مرتضیٰ عاملی تحریر فرماتے ہیں ”ولقد کانت خدیجہ علیہا السلام من خیرة النساء القریش شرفا واکثر ہن مالا واحسنہن جمالا ویقال لہا سیدةالقریش وکل قومہا کان حریصا ًعلی الاقتران بہا لو یقدر علیہا (16)الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج2/ص107) ”حضرت خدیجہ(س) قریش کی عورتوں میں شرف و فضیلت ، دولت و ثروت اور حسن و جمال کے اعتبار سے سب سے بلند و بالاتھیں اور آپ(س) کو سیدہ قریش کہا جاتا تھا اور آپ کی قوم کا ہر افراد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے کا خواہاں تھا“ حضرت خدیجہ(س) کو حبالئہ عقد میں لانے کے متمنی افراد میں ”عقبہ ابن ابی معیط “” صلت ابن ابی یعاب “”ابوجہل“اور ”ابو سفیان “جیسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اور با حیثیت لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا(17) لیکن حضرت خدیجہ(س) با وجود اپنی خاندانی اصالت ونجابت اور ذاتی مال و ثروت کی بناپر بے شمار ایسے افراد سے گھری ہوئی تھیں جو آپ سے ازدواج کے متمنی اور بڑے بڑے مہر دے کر اس رشتے کے قیام کو ممکن بنانے کے لئے ہمہ وقت آمادہ تھے ہمیشہ ازدواج سے کنارہ کشی کرتی رہتی تھیں ـ کسی شریف اورصاحب کردار شخص کی تلاش میں آپ کا وجود صحراء حیات میں حیران وسرگرداں تھا ایسے عالم میں جب عرب اقوام میں شرافت و دیانت کاخاتمہ ہو چکا تھا، خرافات و انحرافات لوگوں کے دلوں میں رسوخ کر کے عقیدہ و مذہب کی شکل اختیار کر چکے تھے خود باعظمت زندگی گذارنا اور اپنے لئے کسی اپنے ہی جیسے صاحب عز و شرف شوہر کا انتخاب کرناایک اہم اور مشکل مرحلہ تھا ، ایسے ماحول میں جب صدق و صفا کا فقدان تھا آپ کی نگاہ انتخاب رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر آکر ٹھہر گئی جن کی صداقت و دیانت کا شہرہ تھا، حضرت خدیجہ نے کم ظرف صاحبان دولت و اقتدار کے مقابلے میں اعلی ظرف ، مجسمہ شرافت و دیانت اورعظیم کردار کے حامل رسول کو جو بظاہر تنگ دست ، یتیم اور بے سہارا تھے ترجیح دے کر قیامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے دیا کہ دولت و شہرت اور اقتدار کی شرافت ، عزت اور کردار کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہےـ المختصر برسر اقتدار افراد کو مایوس کرنے والی ”خدیجہ “ نے باکمال شوق و علاقہ ازطرف خود پیغام پیش کر دیا (18) اور مہربھی اپنے مال میں قرار دیا جس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑھنے کے بعد فرمایا ”لوگوں گواہ رہنا“”خدیجہ “ نے خود کو محمدصلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کیا اور مہربھی اپنے مال میں قرار دیا ہے اس پر بعض لوگوں نے ابوطالب علیہ السلام پر طنز کرتے ہوئے کہا یاعجباہ!ا لمہر علی النساء للرجل (تعجب ہے مرد عورت کے مال سے مہر کی ادائیگی کرے )جس پرحضرت ابوطالبؑ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے غضب کے عالم میں فرمایا، ”اذاکانوا مثل ابن اخی ہذاطلبت الرجل باغلی الاثمان وان کانوا امثالکم لم یزوجوا الابالمہر الفالی“ (19)(اگرکوئی مردمیرے اس بھتیجے کے مانند ہوگا توعورت اس کوبڑے بھاری مہر دے کرحاصل کرینگی لیکن اگر وہ تمہاری طرح ہوا تواسکو خود گراںو بھاری مہر دیکر شادی کرناہوگی )ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ﷺنے اپنامہر (جو بیس بکرہ نقل ہواہے) خود ادا کیا تھا (20) اور ایک روایت کے مطابق آپ ﷺکے مہر کی ذمہ داری حضرت علی ؑنے قبول کر لی تھی ، حضرت کی عمر کے سلسلے میں تمام مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خدیجہ (س)سے آپ ﷺنے پہلی شادی 25/سال کی عمر میں کی لیکن خود حضرت خدیجہ (س)کی عمر کے بارے میں کثیر اختلاف وارد ہوا ہے چنانچہ 25،28،30اور 40 سال تک بہت کثرت سے روایات وارد ہوئی ہیں (21) لیکن معروف ترین قول یہ ہے کہ آپ کی عمر شادی کے وقت 40 سال تھیـں (22)

آیاحضرت خدیجہ (س) رسول اللہ ﷺسے قبل شادی شدہ تھیں ؟:
 اس مسئلہ میں کہ آیا رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد میں آنے سے قبل حضرت خدیجہ دوسرے افراد کے ساتھ بھی رشتہ مناکحت سے منسلک رہ چکی تھیںیا نہیں تاریخ کے مختلف اوراق پر متعدد راویوں کے اقوال میں کثیر اختلاف واقع ہوا ہے چنانچہ بعض راویوں کے نزدیک رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے قبل حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اور سابقہ شوہروں سے آپ(س) کی اولاد یں بھی ہوئیں تھیں تاریخ کے مطابق آپ کے سابق شوہروں کے نام بالترتیب ”عتیق بن عایذبن عبد اللهفخروی “ اور ”ابوہالہ تمیمی“ ہیں (23) اس کے علاوہ خود آنحضرت ﷺکے بارے میں روایت وارد ہوئی ہے کہ ”عائشہ“ کے علاوہ آپﷺ نے کسی کنواری خاتون سے شادی نہیں کی تھی (24) لیکن یہ تمام روایات جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ حضرت خدیجہ شادی شدہ تھیں اور رسول سے قبل بھی دوسرے کی شریک حیات رہ چکی تھیں ،دلائل اور دوسری روایات معتبرہ کی روشنی میں صحیح نظر نہیں آتیں ، بلکہ تمام تاریخ کو سیاست کے ہاتھوں مسخ کئے جانے کی ناکام کوششوں میں سے ایک کانتیجہ ہیں۔

حضرت خدیجہ(س) کا گھر تجزیہ وتحلیل:
 1) ابن شہر آشوب کا بیان ہے کہ ”مرتضیٰ شامی میں اور ابوجعفر تلخیص میں رقم طراز ہیں کہ ”ان النبی تزوج وکانت عذراء“ (25) نبی اکرمﷺ نے آپ سے شادی کی درحالیکہ آپ کنواری تھیں“ اس کے علاوہ اسی مطلب کی تائید اس روایت سے بھی ہوئی ہے جو ثابت کرتی ہے”ان رقیہ و زینب کانتا ابتی ہالہ اخت خدیجہ (26)رقیہ اور زینب خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں(نہ کہ خدیجہ (س)کی)

2)ابوالقاسم کوفی کابیان ہے کہ ”خاص و عام اس بات پر متفق ہیں کہ تمام اشراف سر بر آوردہ افراد حضرت خدیجہ سے ازدواج کے آرزومند تھے لیکن خدیجہ کے بلند معیار کے سامنے ان کی دولت کی فراوانی اور شان و شوکت ہیچ نظر آتی تھی یہی وجہ تھی کہ حضرت خدیجہ نے سب کے رشتوں کو ٹھکرا دیا تھا لیکن زمانے کی حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب اسی خدیجہ نے عرب کے صاحبان مال و زر اور فرزندان دولت و اقتدار کوٹھکرا کر حضرت رسالت مآب سے رشتہ ازدواج قائم کر لیا جن کے پاس مال دنیا میں سے کچھ نہ تھا اسی لئے قریش کی عورتیں خدیجہ سے تحیر آمیز ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کر بیٹھیں کہ اے خدیجہ ! تو نے شرفا و امراء قریش کو جواب دے دیا اور کسی کوبھی خاطر میں نہ لائی لیکن یتیم ابوطالب ؑ کو جو تنگ دست و بے روزگار ہے انتخاب کرلیا اس روایت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت خدیجہ (س)نے مکہ کے صاحبان دولت و ثروت کو رد کر دیاتھا اور کسی سے بھی شادی کرنے پر آمادہ نہیں تھیں ، دوسری طرف اس روایت کی رو سے جوپہلے ذکر ہوئی آپ کے ایک شوہر کانام ”ابوہالہ تمیمی “ ہے جو بنی تمیم کا ایک اعرابی تھا، عقل انسانی اس بات پر متحیر ہوجاتی ہے کہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی اشراف کے پیغام کوٹھکرا دے اور ایک اعرابی کو اپنے شریک حیات کے طور پر انتخاب کرلے ،علاوہ بر ایں اس سے بھی زیادہ تعجب کا مقام یہ ہے کہ خدیجہ کے اشراف کو نظر انداز کرکے رسول اکرم ﷺ کو (جو خاندانی اعتبار سے بلند مقام کے حامل تھے ) انتخاب کرنے پر تو قریش کی عورتیں انگشت نمائی کرتی نظر آئیں لیکن ایک اعرابی سے شادی کے خلاف عقل فعل پر، سخن زمانہ ساکت رہ جائے (الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ج/2ص/123)اس دلیل کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت خدیجہ نے رسول سے قبل کوئی شادی نہیں کی تھی اور اگر کی ہوتی تو زمانے کے اعتراضات تاریخ میں محفوظ ہوتے۔

 3)بعض لوگوں نے حضرت خدیجہ (س)کے شادی شدہ ہونے پر ا س روایت سے استدلال کیاہے کہ”راہ اسلام کا اولین شہید حارث بن ابی ہالہ فرزند حضرت خدیجہ ہے (27) مذکورہ بالا روایت کے مقابلے میں دوسری روایات جن کی سند یں معتبر ہیں ”ابو عمار اور ام عمار“کو اسلام کے پہلے شہید کی صورت میں پیش کرتے ہیں ”ان اول شہید فی الاسلام سمیہ والدہ عمار “ (28) (اسلام کی راہ میں پہلی شہید ہونے والی سمیہ والدہ عمار ہیں )اورابن عباس اورمجاہد کی روایت کے مطابق ”قتل ابوعماروام عماراول قتیلین قتلا من المسلمین“ (29) اسلام کی راہ میں شہید ہونے والے پہلے افراد ابوعمار اور ام عمار ہیں ـ ان روایات سے کاملاً رد ہوتی ہے کہ یہ شخص جس کو حضرت خدیجہ کے بیٹے کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر مرقوم کر دیا گیا ہے اسلام کی راہ میں قربان ہونے والا پہلا شہید تھا، لہٰذا معلوم نہیں ہے کہ اس شخص کا وجود خارجی تھابھی یا نہیں چہ جائیکہ حضرت خدیجہ کا فرزند ہونا پائے ثبوت کو پہنچے۔

 4)،روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ کی ایک بہن تھیں جنکانام ’ہالۂ تھا اس ہالہ کی شادی ایک فخروی شخص کے ساتھ ہوئی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کانام ”ہالہ“ تھا ،پھر اس ہالہ اولی (خواہرخدیجہ (ع))سے ایک بنی تمیم سے تعلق رکھنے والے شخص نے شادی کرلی جو ابوہند کے نام سے معروف ہےـ اس تمیمی سے ہالہ کے ایک بیٹاپیدا ہوا جس کانام ہند تھا اوراس شخص ابوہند تمیمی(شوہر خواہرخدیجہ ) کی ایک اور بیوی تھی جس کی دو بیٹیاںتھیں ’رقیہ ٔ اور ”زینب“ کچھ عرصے کے بعد ابو ہند کی پہلی بیوی جو رقیہ اورزینب کی ماں تھی فوت ہو گئی اور پھر کچھ ہی مدت کے بعد ”ابوہند “بھی دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس کابیٹا”ہند “ جوہالہ سے تھا اور دو بیٹیاں جو اس کی پہلی بیوی سے تھیں جن کا نام تاریخ ،رقیہ اور زینب ذکر کرتی ہے ”خدیجہ “کی بہن کے پاس باقی رہ گئے جن میں سے ہند اپنے باپ کی موت کے بعد اپنی قوم بنی تمیم سے ملحق ہوگیا اور”ہالہ “(حضرت خدیجہ کی بہن )اور اس کے شوہر کی دونوں بیٹیاں حضرت خدیجہ کے زیر کفالت آگئے ،اور آنحضرتﷺ سے آپ کی شادی کے بعد بھی آپ ہی کے ساتھ رہیں اورآپ ہی کے گھر میں دیکھا گیا تھا اس لئے عرب خیال کرنے لگے کہ یہ خدیجہ ہی کی بیٹیاں ہیں اورپھر ان کو حضرت سے منسوب کر دیا گیا لیکن حقیقت امر یہ تھی کہ رقیہ اورزینب حضرت خدیجہ کی بہن ”ہالہ “کے شوہر کی بیٹیاں تھیں ـ (الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ج/2ص/126) مذکورہ بالادلائل کی روشنی میں یہ بات پائے ثبوت کو پہنچی ہے کہ حضرت خدیجہ حضرت رسولﷺ کے حبالئہ عقد میں آنے سے قبل غیر شادی شدہ تھیں اور آپ کے شوہروں اورفرزندوں کے نام جو تاریخ میں نظر آتے ہیں یا تو کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں یا سیاست کے ہاتھوں عظمت رسولﷺ کو کم کرنے کی ایک ناکام کوشش ، مذکورہ دلائل کے علاوہ بھی حلّی اور نقضی جوابات دئے گئے ہیں جو تاریخ کی اس حقیقت سے پردہ اٹھانے والے ہیں لیکن یہ مختصر مضمون ان تمام دلائل اور روایات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے، آپ کی اولاد میں حضرت فاطمہ زہرا کے علاوہ کوئی فرزند زندہ نہیں رہا ۔

رسول اکرمﷺکی بعثت اورحضرت خدیجہ (س)کاایمان لانا :
حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد عورتوں میں جس شخصیت نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائی وہ حضرت خدیجہ(س) کی ذات گرامی ہے (30) طبری نے واقدی سے روایت کی ہے کہ ”اجتمع اصحابنا علی ان اول اہل القبلة استجاب لرسول الله خدیجہ بنت خویلد (31) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی حضرت خدیجہ کی ذات گرامی ہے ) خود رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ”و الله لقد امنت بی اذ کفر الناس و اویتنی اذ رفضنی الناس و صدقتنی اذ کذبنی الناس (32)خداکی قسم وہ (خدیجہ )مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دی جب لوگوں نے مجھے ترک کر دیا تھا اور اس نے ایسے موقع پر میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ـ لم یجمع بیت واحد یومئیذ فی الاسلام غیر رسول الله وخدیجہ وا نا ثالثہا (33)وہ ایسا وقت تھاجب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اور میں ان میںکی تیسری فرد تھا )ابن اثیر کابیان ہے :ـاول امراء ةتزوجہا واول خلق اللہ اسلم بالاجماع المسلمین لم یتقد مہاوجل ولاامراء ة“ (34)حضرت خدیجہ پہلی خاتون ہیں جن سے آنحضرتﷺ نے رشتئہ ازدواج قائم کیااوراس امر پر بھی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ آپ سے پہلے نہ کوئی مرد ایمان لایا اورنہ کسی عورت نے اسلام قبول کیا)

آنحضرت کی حضرت خدیجہ(ع) سے محبت وعقیدت :
حضرت خدیجہ کی آنحضرت کی نگاہ میں محبت و عقیدت اورقدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی زندگی میں آنحضرت نے کسی بھی خاتون کو اپنی شریک حیات بنانا گوارہ نہیں کیا (35) آپ کے بارے میں حضرت کاارشاد ہے کہ ”خدیجہ اس امت کی بہترین عورتوں میں سے ایک ہے (36)آپ کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ آپ کو یاد فرماتے رہے (37) عائشہ کا بیان ہے کہ مجھے رسولﷺ کی کسی زوجہ سے اتنا حسد نہیں ہوا جتنا خدیجہ (س)سے ہوا حالانکہ خدیجہ کی وفات مجھ سے قبل ہو چکی تھی اور اس حسد کا سبب یہ تھا کہ آنحضرت آپ کا تذکرہ بہت زیادہ فرماتے تھے (38) چنانچہ یہی سبب ہے کہ دوسر ی جگہ عائشہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ ”ایک روز رسول اکرم ﷺ خدیجہ کی تعریف فرما رہے تھے مجھے حسد پیدا ہوا اور میں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی جو مرگئی اور خدا نے آپﷺ کو اس سے بہتر عطا کردی ہے (عائشہ کااشارہ اپنی طرف تھا) رسول پاک ﷺ یہ سن کر ناراض ہو ئے(39) اورغضب کے عالم میں فرمایا ”لاوالله ماابد لنی اللہ خیر امنہااٰمنت بی اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس وواستنی بہالہااذحرمنی الناس ورزقنی منہاالله ولدادون غیرہامن النساء“(40)خدا کی قسم خدانے مجھکو اس سے بہتر عطانہیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئےتھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھکو جھٹلارہے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطافرمائی اورمیری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیارسول اکرم ﷺ کے اس جواب سے آنحضرتﷺ کی حضرت خدیجہ کیلئے محبت اورعقیدت واحترام کااندازہ ہوتاہے ـخدیجہ کااسلام کیلئے اپنااورسب کچھ قربان کرکے بھی اسلام کی نشرواشاعت کاجذبہ ہی تھاجس نے اسلام کودنیاکے گوشہ وکنار تک پہنچنے کے مواقع فراہم کئے اوریہی سبب تھاکہ ”حضرت رسول خداﷺنے آپ کوخداکے حکم سے جنت کی بشارت دیدی تھی “عائشہ سے مسلم نے روایت نقل کی ہے کہ ”بشر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم بنت خویلد ببیت فی الجنۃ“(حضرت رسول اکرم ﷺ نے خدیجہ سلام الله علیہاکو جنت کی بشارت دی تھی ) (41) حضرت خدیجہ اور ابوطالبؑ رسول اللہﷺ کے دو ایسے مدافع تھے جن کی زندگی میں کفار قریش کی طرف سے آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا لیکن رسول کے یہ دونوں جانثار ایک ہی سال بہت مختصر وقفہ سے یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہو گئے اور روایات کے مطابق رسول پر دونوں مصیبتیں ہجرت سے تین سال قبل اور شعب ابی طالب سے باہر آنے کے کچھ روز بعد واقع ہوئیں (42)رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا(43) اور یہ مصیبت رسول ﷺکے لئے اتنی سخت تھی کہ رسولﷺ خانہ نشین ہو گئے اور آپ ﷺنے حضرت خدیجہ(س) اور ابوطالبؑ کی وفات کے بعد باہر نکلنا بہت کم کردیا تھا(44)ایک روز کسی کافر نے آپ ﷺکے سر پر خاک ڈال دی رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں گھر میں داخل ہوئے آپ کی زبان پر یہ کلمات تھے ”مانالت منی قریش شیا اکرہہ حتی مات ابوطالب“(45) قریش ابوطالبؑ کی زندگی میں مجھکوکوئی گزند نہیں پہنچا سکے) آپﷺ حضرت ابوطالبؑ اورخدیجہ(س) کی زندگی میں اطمینان سے تبلیغ میں مصروف رہتے تھے ـ خدیجہ گھر کی چہار دیواری میں اور ابوطالب مکہ کی گلیوں میں آپ کے مدافع تھے ۔ حضرت خدیجہ جب تک زندہ رہیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رہیں دن بھرکی تبلیغ کے بعد تتھ کر چور اور کفار کی ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ہوجانے والا رسول جب بجھے ہوئے دل اور پژمردہ چہرے کے ساتھ گھر میں قدم رکھتا تو خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراہٹ رسول کے مرجھائے ہوئے چہرے کوپھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی تھی ، خدیجہ(س) کی محبتوں کے زیر سایہ کشتی اسلام کا ناخدا عالمین کے لئے رحمت بن کر دنیا کی ایذا رسانیوں کوبھلاکر ایک نئے جوش و جذبے اور ولولے کے ساتھ ڈوبتے ہوئے ستاروں کا الوداعی سلام اورمشرق سے سر ابہارتے ہوئے سورج سے خراج لیتا ہوا ایک بار پھر خانہ عصمت وطہارت سے باہر آتا اور باطل کو لرزہ بر اندام کرنے والی لاالہ الاالله کی بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے در و دیوار ہل کر رہ جاتے کفارجمع ہوتے رسول پر اذیتوں کی یلغار کر دیتے لیکن انسانیت کی نجات اور انسانوں کی اصلاح کا خواب دل میں سجائے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم خوشاآیند مستقبل کے تصور میں ہر مصیبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے رہے اورآپ کے اسی صبر و تحمل اورآپ کی پاکدامن زوجہ کے تعاون اور جانثاری سے آج ہم مسلمانان جہان پرچم توحید کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے آپ کے اس آخری جانشین کے انتظار میں سرگرداں ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کردے گا۔

منابع و مآخذ
صحیح مسلم /44/76/2435، ترمذی کتاب مناقب حدیث /3901، کنز العمال ح/ 13/ص/693 2ـ اسد الغابہ ج/5 ص / 438 ، مسلم فضائل صحابہ / 3437 ، البدایہ و النہایہ ج/ 3 ص / 158 3ـ بحار ج/ 16 ص/ 12 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 439 4ـ طبقات ابن سعد ج/ 1 ص /88 5ـسیرة ہشام ج/ 4 ص / 281 ، الاصابہ ج / 4 ص / 281،طبری ج / 3 ص / 33 6ـالبدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 262 7ـ سیرة حلیہ ج / 1 ص / 131 ، طبقات ابن سعد ج/ 1 ص / 86 ، حیات النبی و سیرتہ ج / 1 ص / 60 8ـ سیرة ہشام ج/ 1 ص / 259 9ـ البدایہ و النہایہ ج/ 2 ص / 362 ، سیرة ہشام ج / 1 ص / 338 10ـ بحار ج / 16 ص / 22 11ـ البدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 258 12ـ البدء و التاریخ ج / 2 ص / 47 13ـ تاریخ یعقوبی ج / 1 ص / 376 14ـ بدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 358 ، طبری ج / 2 ص / 204 15ـ الکامل فی التاریخ ج/ 1 ص / 472 ، دلائل النبوة ج / 2 ص / 66 16ـ سیرة حلبیہ ج / 1 ص / 135 ، البدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 358 ، الکامل فی التاریخ ج / 1 ص / 472 17ـ السیرة النبویہ (دحلان ) ج / 1 ص/ 92 18ـبدایہ والنہایہ ج/ 2 ص / 358، بحار الانوار ج/ 16 ص / 22 19ـبحار الانوار ج/ 16 ص / 22 20ـ سیرة حلبیہ ج / 1 ص /140 ، طبری ج/ 2 ص / 205 21ـ الصحیح من سیرة النبی ج / 2 ص / 112 ـ113 ، بحار الانوار ج / 16 ص / 14 22ـسیرہ ہشام ج / 1 ص 227 23ـالبدایہ و النہایہ ج / 2 ص / 360 ، البدء و التاریخ ج/ 2 ص / 48 24ـسیرہ حلبیہ ج / 1 ص /140، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ 2 ص / 115 25ـفروغ ابدیت ج/ 1 ص / 198 26ـ سیرہ حلبیہ ج / 1 ص/ 140 27ـ طبری ج / 3 ص / 36 28ـمناقب آل ابیطالب ج / 1 ص / 206 ، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج / 2 ص / 122 29ـمناقب آل ابیطالب ج / 1 ص / 26 30ـ الاصابہ ج / 1 ص / 293 31ـ الاصابہ ج / 4ص /335 ، اسد الغابہ ج / 5 ص / 481 ، حیاة النبی ج /1 ص / 121 32ـ الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج/ 2 ص 125 33ـ الانساب الاشراف ج / 2 ص / 23 ، الاصابہ ج / 8 ص /99 ، سیرة ہشام ج / 1 ص / 277، طبری ج/ 2 ص / 232 ـ 221 34ـ تاریخ طبری ج / 2 ص / 232 35ـبحار الانوار ج / 16 ص / 12 ، اسد الگابہ ج / 2 ص / 439 36ـ نہج البلاغہ ( خطبہ قاصعہ ) 37ـ اسد الغابہ ج / 5 ص / 434 38ـ البدء و التاریخ ج / 2 ص / 48 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 360 39ـ الاصابہ ج / 8 ص /101 ، اسد الغابہ ج/5 ص /431 ، سنن ترمذی کتاب مناقب/ 3886۔

ترتیب وتدوین : ظہیرالحسن کربلائی

دو مجرم طبقے

وحدت نیوز(آرٹیکل)  بزرگ ہونا اور بزرگ تراشنا دو مختلف چیزیں ہیں، سب لوگ اپنے بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں ، بزرگ لوگ کسی بھی خاندان ، قوم  اور قبیلے کی آبرو ہوتے ہیں۔ بزرگ جو کہتے ہیں وہی جوانوں کے لئے  آئین اور قانون بن جاتا ہے،چنانچہ  جوانوں کی نسبت بزرگوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔   یہ تو طے شدہ بات ہے کہ کمان سے نکلے ہوے تیر اور زبان سے نکلی ہوئی بات  کی واپسی محال ہے۔البتہ اگر کبھی کسی بزرگ شخصیت سے کوئی ایسی بات سرزد ہوجائے جو ان کے شایانِ شان نہ ہوتو اس کے ازالے کی کوشش کرنا عین دانشمندی ہے۔

دوطرح کے لوگ ایسے ہیں جو کسی کی غلطی کا ازالہ نہیں ہونے دیتے خصوصا اگر کسی بزرگ شخصیت سے غلطی ہوجائے تو اُس کے ازالے اور تلافی کے لئے سوچنے کو گناہ سمجھتے ہیں اور یوں غلطی پر غلطی کرنے کا زمینہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ  دوطرح کے لوگ ایک خوشامدی قصیدہ گو اور دوسرے ماہر رفوگر ہیں ۔خوشامدی قصیدہ گو حضرات اپنے بزرگوں کی باتوں پر صرف واہ واہ کرتے ہیں اور عوام کو تجزیہ و تحلیل نہیں کرنے دیتے ، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ سوچے سمجھے بغیر ہی بزرگوں کی باتوں پر  واہ واہ ہی کرتے جائیں اور کوئی سوال و جواب یا  تجزیہ و تحلیل نہ ہو، وہ ایک ایسا ماحول بناتے ہیں کہ جس میں لوگ سوچنا  اور پوچھنا چھوڑ دیتے ہیں،  لوگ  صرف  بزرگوں کی باتیں سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔

یہ جو کچھ لکھتے ہیں اس میں صرف واہ واہ ہوتی ہے ، ان کی تحریروں میں کہیں نظریاتی  تقابل یا  حقائق و واقعات کا موازنہ نہیں ہوتا،یہ سوچنے اور پوچھنے والوں کو بے ادب، گستاخ، نااہل، جاہل، ان پڑھ  اور کبھی کبھی گمراہ ، مشرک و کافر تک کہہ دیتے ہیں۔

ان کا شعبہ ہی خوشامد ، قصیدہ گوئی اور قصیدہ نگاری ہے، غلطی جتنی بڑی ہوگی یہ اتنا ہی لمبا قصیدہ لکھیں گے ، حتیٰ کہ اگر کوئی بزرگ شخصیت مڑ کر اپنی بات کی تصحیح  کرنا بھی چاہے تو یہ قصیدہ گو حضرات اس کی گنجائش نہیں چھوڑتے ، اس طرح کی متعدد مثالیں میرے اور آپ کے سامنے موجود ہیں۔

مثلا میاں نواز شریف  نے جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا ، وہ سب کے سامنے ہے لیکن ان کے قصیدہ خوانوں کی زبانیں مسلسل قصیدہ خوانی میں مشغول ہیں۔

دوسرا گروہ رفوگر حضرات  کا ہے، رفوگری یوں تو پھٹے ہوئے کپڑے کو ٹانکا لگانے کا فن ہے ، لیکن اب یہ  بزرگ شخصیات کے کلام سے پیدا ہونے والے خلا کو پُرکرنے کا فن ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی کسی بزرگ شخصیت کی سبقتِ لسانی سے کوئی خلافِ توقع بات نکلتی ہے تو یہ رفوگروں کا لشکر کاغذ پنسل لے کر تاویلیں کرنے بیٹھ جاتا ہے اوراتنے خوبصورت ٹانکے لگاتا ہے کہ خود وہ بزرگ بھی حیران ہوجاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے کہا کہ کل صبح میں نے ایک ہرن کو گولی ماری جوایک  ہی وقت میں  اس کی ٹانگ اور سر کو لگی۔اس پر قصیدہ گو حضرات نے واہ واہ کرکے کے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ البتہ کسی گستاخ درباری نے  اٹھ کر اعتراض کر دیا۔ قصیدہ گو حضرات قصیدے تو  پڑھتے رہے کہ ظلِ الٰہی ماہر نشانہ باز ہیں لیکن دلیل نہیں دے سکے ، چنانچہ بادشاہ نے ایک وزیر کی طرف اشارہ کیا جو رفوگری کا ماہر تھا۔ اس نے اٹھ کر کہا کہ بات در اصل یہ ہے کہ اس وقت ہرن ٹانگ کے ساتھ سر کو کھجلا رہا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر دربار واہ واہ سے گونج اٹھا۔

آج آپ دیکھ لیں وہ عمران خان ہوں یا نواز شریف یا کوئی اور سب کو قصیدہ گووں اور رفوگروں نے گھیر رکھا ہے۔ یہی دو طبقے اس ملت کی بدحالی کے مجرم ہیں۔یہ عوام کو تحقیق، باز پرس اور سوال و جواب نہیں کرنے دیتے اور اسی سے قوموں میں عقب ماندگی، اندھی عقیدت، ذہنی پسماندگی اور بے شعوری جنم لیتی ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل )  انسان دیگر موجودات سے بہت مختلف ہے، دوسروں کی بات کو سمجھنا اور اپنی بات کو سمجھا نا انسان کی جبلت ہے۔ افہام و تفہیم کے بغیر انسانی سماج کا تصور ممکن نہیں۔انسانوں کے برعکس جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈال کر کھینچا جاتا ہے۔ جانوروں کے جہان میں افہام و تفہیم کی وہ اہمیت نہیں جو انسانوں کے ہاں ہے۔ہمارے ہاں سیاست دانوں سے ناامید ہونے کے بعد لوگ مذہبی رہنماوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں،  لیکن مذہبی رہنما خود ہر مسئلے پر تقسیم ہیں۔ کچھ علما پاکستان کے آئین کو اسلامی کہتے ہیں تو کچھ غیر اسلامی، کچھ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کہتے ہیں اور کچھ کافرستان، کچھ  علما ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے کو عالمِ اسلام کے لئے بہت بڑی  خوشخبری قرار دیتے ہیں اور کچھ  علمائے کرام ایم ایم اے کو عالم اسلام کی تمام تر مصیبتوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، کچھ علمائے دین ایم ایم اے کے قائد کواپنے قائد کا بھی قائد قرار دیتے ہیں اور کچھ ایم ایم اے کے قائد کو پاکستان کے تمام بنیادی مسائل کا سبب گردانتے ہیں۔

 کچھ کے نزدیک پاکستان کے انتخابات میں حصہ لینا شرعی ذمہ داری ہے اور کچھ کے نزدیک انتخابات میں حصہ لینا کفر و شرک کا موجب ہے۔المختصر یہ کہ اگر اُس طرف جنابِ شیخ ہیں تو اس طرف بھی جنابِ شیخ ہی ہیں۔ ہر کسی کا یہی دعویٰ ہے کہ وہی  انقلاب کا علمبردار ، بصیرت کا مینار اور  سیرت کا پیروکار ہے۔ ہر کو ئی اپنے عمل کے لئے آیات و روایات کا سہارا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس زمانے میں فلاں امامؑ کی سیرت پر عمل کر رہا ہوں۔ ظاہر ہے جب ہر طرف سے انالحق کی صدا آنے لگے  تو عوام پر حق مشتبہ اور مبہم ہو جاتا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات  لوگوں کی گردنوں میں افکارو نظریات کو پٹے کی صورت میں ڈال کر  زبردستی کھینچا جاتا ہے  اور مخالفت کرنے والے کی تکفیر تک کی جاتی ہے۔ یعنی عام آدمی سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب کر لی جاتی ہے اور اسے کہاجاتا ہے کہ بس فلاں نے کہہ دیا ہے لہذا فلاں کی بات پر ہی عمل کرو ، صرف یہی حق کا راستہ ہے ورنہ گمراہ ہو جاو گئے۔ پتہ نہیں ہم کب یہ سمجھیں گے کہ نظریا ت و افکار ٹھونسنے  اور پوجنے کے لئے نہیں بلکہ  سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سوچ و بچار کے بجائے نظریات و افکار کو بھی عقیدت کے ساتھ منوانے کی سعی اور کوشش کی جاتی ہے۔ لوگوں کو تحقیق اور موازنہ  کرنے کی ترغیب  دینے کے بجائے ان سے   اطاعتِ محض کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں لکھنے والا ایک ہی نکتہ نظر کو لکھتا ہے، بولنے والا ایک ہی بات دہراتا رہتا ہے اور سننے والا ہر وقت سر دھنتا رہتا ہے۔ صرف واہ واہ اور چاپلوسی کرنے والوں کی کبھی نہ ماضی میں کمی تھی اور نہ آج ہے۔ لیکن اب دنیا بہت ترقی کرچکی ہے، افکار و نظریات کے طوق نماٹھیلوں کی رونق ماند پڑتی جا رہی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے سوچنا ، سمجھنا اور پرکھنا شروع کر دیا ہے۔

اب جان لیجئے کہ  تسبیح کے دانے جتنے بھی ہوں ، تسبیح کا گھمانا بھی ایک فن ہے، لوگ مذہبی رہنماوں کے  ہاتھوں کی حرکات، چہرے کے تاثرات، زبان کی لکنت اور بیان کی روانی سے بھی بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ لوگوں کی گردنوں میں عقیدت کا پٹہ ڈال کر انہیں زبردستی کھینچا جائے ، اب   تحقیق اور جستجو کا زمانہ ہے  لہذا ہمارے مذہبی حلقوں کوبھی چاہیے کہ وہ  عوام کی شہ رگ سے تکفیر کا خنجر ہٹائیں، لوگوں کو  سیاسی و قومی مسائل  کی گہرائی میں اترنے دیں، بال کی کھال اتارنے دیں ، مکالمے کو رواج پکڑنے دیں، افکارونظریات پر مناظرات ہونے دیں۔ جب تک مکالمہ نہیں ہوگا، بحث نہیں ہوگی تب تک کھرے اور کھوٹے میں جدائی نہیں ہو سکتی۔ ضروری ہے کہ تمام مسائل میں قصیدہ گوئی کے بجائے تجزیہ و تحلیل اور تقابلی جائزہ پیش کیا جائے اور مختلف سیاسی و نظریاتی  آرا و نظریات کا باہمی موازنہ کیا جائے۔ تجزیہ و تحلیل کے دوران شخصیات اور تنظیموں کی تعریفوں کے پُل باندھنے کے بجائے ہمیں  ہر مسئلے پر طرفین کا موقف بیان کر کے موازنہ کرنا چاہیے۔

پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے یا نہیں، پاکستان کے انتخابات میں عوام کو حصہ لینا چاہیے یا نہیں، اور ایم ایم اے  کا اتحاد پاکستان کی سلامتی کے لئے کس قدر مفید اور ضروری ہے !ان سوالات کا  گہراتعلق پاکستان کی سلامتی کے ساتھ ہے۔لہذا پاکستان کی سلامتی کے لئے  یہ ضروری ہے کہ کسی کی قصیدہ گوئی کے بجائے حق گوئی کی روش اپنا ئی جائے چونکہ دلیل کے بدن پر تاویل کا پتھر رکھنے سے سچائی مر نہیں سکتی اور حق گوئی کے بجائے واہ واہ کرنے اور قصیدہ نگاری سے قوم کی حالت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اب یہ ذمہ داری بنتی ہے ہمارے لکھنے  اور بولنے والوں کی کہ وہ لکھتے اور بولتے وقت  مذہبی رہنماوں  کے بیانات اور اقدامات  کی تاویلات پیش کرنے کے بجائے ملکی مسائل پر مختلف آرا کو  سچائی کے ساتھ ویسے بیان کریں جیسا کہ بیان کرنے کا حق ہے۔ورنہ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یُوں بھی ہے اور یُوں بھی

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree