وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان ہمیشہ سے ایک بہترین نظام حکومت کی تلاش میں ہے، کبھی اس نے آمریت کو بہترین نظامِ حکومت جانا اور اس پر عمل پیرا ہوا، پھر اس نے بادشاہت کو منتخب کیا اور ایک بڑے عرصے تک اسے ہی بہترین نظام ِ حکومت سمجھتا رہا  پھر اس نے  جمہوریت کو اختیار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ تو end of the history ہے، یعنی اس سے بہترین نظام ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے لئے دینِ اسلام نے کس نظامِ حکومت کو مثالی قرار دیا ہے۔

قرآن مجید میں ارشادِ مبارک ہے :

وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أنَّ الارضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ

اور البتہ تحقیق ہم ذکر (تورات)کے بعد زبور میں لکھ چکے ہیں کہ بے شک زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید سے پہلے والی کتابوں میں بھی  خدا نے بنی نوعِ انسان سے وعدہ کیا ہے کہ زمین کے وارث اس کے نیک بندے ہی ہونگے۔مقامِ فکر یہ ہے کہ ان نیک بندوں کو آیا خود بخود حکومت مل جائے گی یا انہیں کچھ کرنا بھی پڑے گا۔

 چنانچہ  دینِ اسلام کی معتبر کتابوں میں آیا ہے کہ  اگر دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ نہ رہ جائے تو بھی خدا وندِ عالم  اس ایک دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ حضورﷺ کے اہل بیت سے ایک شخص مبعوث ہوگا کہ جس کا اسم گرامی نبی آخرالزماں ﷺ کا اسم ہی ہوگا  اوروہ شخص زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کردے گا جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی۔

مندرجہ بالا سطور سے پتہ چلتا ہے کہ دینِ اسلام انسانوں کو ایک  ایسے انسان کا  سراغ بتا رہا ہے ، جس کی حکومت  قائم ہو کر رہے گی اور اس کی حکومت میں ہر طرف عدل  ہی عدل ہوگا۔

یقیناً  ایک  خوشحال اور عادل حکومت ہی ہر انسان کو پسند ہے اور  وہی حکومت انسان کے لئے بہترین حکومت ہے جس میں کسی پر کسی بھی قسم کا ظلم نہ ہو  اور ہر طرف عدل و انصاف کی حاکمیت ہو ۔

سنن ترمذی میں ارشادِ نبوی ہے کہ  یہ دنیا اپنے اختتام کو نہیں پہنچے گی مگر یہ کہ  ایک مرد میرے اہلِ بیت سے  عرب پر حکومت کرے گا،  وہ میرا ہم نام ہو گا۔

سنن ابی داود میں ہے کہ المهديّ من عترتي من ولد فاطمه ، مہدی ؑمیری آل میں سے اور فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے کہ امام مہدیؑ  ، اہلِ بیت رسولﷺ سے ہونگے۔

مفہومِ مہدویت

اس زمین پر حضور نبی اکرم ﷺ کی آل میں سے امام مہدی ؑ نامی  ایک شخص کی  عادلانہ اور مثالی حکومت کا قیام

مہدوی حکومت کے خدو خال

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کی ایسی خصوصیات کیا ہونگی کہ  جن کی وجہ سے لوگ اس کے شیدائی ہونگے اور عوام میں مقبولیت کے باعث  وہ حکومت ایک مثالی حکومت کہلائے گی۔اس حکومت کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہوگا کہ دیگر حکومتیں اس میں ضم ہوتی چلی جائیں گی۔

۱۔ اسلامی تعزیرات کا نفاذ

اس حکومت کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہوگی کہ اس حکومت میں مکمل طور پر اسلامی تعزیرات نافذ ہونگی اور کسی  کو نہ ہی تو چھوٹ دی جائے گی اور نہ ہی کسی پر ظلم کیا جائے گا۔  یعنی اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ قوانین کا بھرپور طریقے سے اجرا کیا جائے گا اور امام مہدیؑ لوگوں کو اپنے جد نبی اکرم ﷺ کی مانند دینِ اسلام کی طرف شفاف دعوت دیں گے اور دینِ اسلام کا نفاز کریں گے۔

۲۔ہر دلعزیز حکومت

یہ حکومت مال و دولت  والوں  اور  ثروت و طاقت والوں  کے بجائے اسلامی اخلاق و اطوار  والوں کی حکومت ہو گی ، اس حکومت میں  جو جتنا دیندار ہوگا وہ اتنا ہی عزت دار اور محترم شمار ہوگا۔ لوگوں میں عزت و وقار  کا پیمانہ دینداری اور اخلاق ہو گا۔پیغمبر اسلامﷺ کا ارشاد ہے کہ تم لوگوں کو قریش کے ایک فرد مہدیؑ کی بشارت دیتا ہوں کہ جس کی خلافت سے زمین و آسمان والے راضی  ہونگے۔  ہمارے نبی اکرم ﷺ کی ہی حدیث ہے کہ  حضرت امام مہدیؑ کے قیام سے تمام اہلِ زمین و آسمان ، پرندے ، درندے اور سمندر کی مچھلیاں شاد و خوشحال ہونگی۔  اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک اور حدیث ہے کہ میری امت کا ایک شخص قیام کرے گا جسے زمین و آسمان والے دوست رکھیں گے۔

۳۔علم و آگاہی کا دور دورہ

اس دور میں  طبقاتی نظامِ تعلیم نہیں ہوگا اور نہ ہی تعلیم پر چند خاندانوں کا قبضہ  نہیں ہوگا  بلکہ  تعلیم و شعور کی دولت عام ہو گی ، عام انسانوں حتیٰ کہ گھریلو خواتین کے فہم و شعور کی سطح بھی  بہت بلند ہوگی   اور لوگ اپنے علم و شعور کی بنیاد پر نظام زندگی  اور معاشرتی تعلقات کو استوار کریں گے۔ ہر طرف علم و حکمت کے چشمے جاری ہو نگے اور مکار اور شعبدہ باز افراد  لوگوں کی جہالت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔

۴۔زمین کے خزانوں سے انسانیت کی خدمت

آج کل کے دور کی طرح زمین کے خزانوں پر استعمار اور طاغوت کا قبضہ نہیں ہوگا اور استعماری طاقتیں مختلف بہانوں سے دیگر اقوام کے معدنی وسائل پر ہاتھ صاف نہیں کر سکیں گی۔  یعنی اس  زمانے میں معدنی وسائل اور معیشت پر محدود لوگوں کا قبضہ نہیں ہو گا بلکہ زمین کے خزانوں کے منہ عام انسانوں کے لئے کھلے  ہوئے ہونگے اور عام لوگ اپنی صلاحیت ، استعداد اور ضرورت کے مطابق زمین کے ذخائر سے بھرپور اور عادلانہ استفادہ کریں گے۔

رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت سے مہدیؑ ظہور کریں گے ، خدا انہیں انسانوں کا ملجا بنا کربھیجے گا اور اس زمانے میں لوگ نعمت و آسائش میں زندگی گزاریں گے۔

۵۔اختراعات و ایجادات کا دور

علم و شعور کے عام ہونے کے باعث یہ اختراعات و ایجادات کا دور ہو گا، انسان نت نئی ایجادات کے ذریعے انسانی معاشرے کی خدمت کریں گے اور پورا انسانی معاشرہ امن و سکون اور خوشحالی کی نعمت سے مالا مال ہوگا۔علم اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہونگے اور انسان علوم و فنون سے انسانی معاشرے کی تعمیر کریں گے۔

حضرت امام جعفر صادقؑ کی حدیث ہے کہ علم و دانش کے ۲۷ حروف ہیں، اور اب تک جو کچھ پیغمبروں نے پیش کیا ہے وہ دو حروف ہیں اور باقی پچیس حروف سے لوگ آشنا نہیں ہیں، لیکن جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو باقی پچیس حروف کو بھی لے آئیں گے اور پھر پورے ستائیس حروف لوگوں کے درمیان رائج ہوں گے۔

 رسول خدا ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ تمہارے بعد ایسی اقوام آئیں گی جن کے پاس طی الارض یعنی  قدموں تلے زمین سمٹنے کی صلاحیت ہوگی  اور دنیا کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے، زمین کی مسافت ایک پلک جھپکنے سے پہلے طے ہو جائے گی، اس طرح سے کہ اگر کوئی مشرق کی سیر کرنا چاہے تو ایک گھنٹے میں ایسا ممکن ہو جائے گا۔

۶۔ظلم و جور کا خاتمہ

ظلم چاہے اقتصادی ہو، معاشی ہو، عسکری ہو یا جارحیت اور شب خون کی صورت میں ہو ، اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ چونکہ ظلم ہمیشہ جہالت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، جب جہالت ختم ہو جائے گی تو ظلم خود بخود ختم ہو جائے گا اور دوسری طرف نظام ِ عدل بھی پوری طرح فعال ہوگا لہذا دنیا ہر طرح کے ظلم سے پاک ہو جائے گی۔ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور مجرم پیشہ افراد کے ساتھ سخت  قانونی برتاو کیا جائے گا۔ کسی بھی قسم کی رشوت یا سفارش کسی بھی ظالم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔

حدیث میں ہے کہ جب امام مہدیؑ ظہور کریں گے تو کوئی ایسا مسلمان غلام نہیں رہ جائے گا جسے امام خرید کر راہِ خدا میں آزاد نہ کر دیں نیز کوئی مقروض ایسا نہیں  بچے گا  جس کے قرض کو امام ؑ ادا نہ کر دیں۔

 رسولِ خداﷺ فرماتے ہیں کہ جب عیسیٰ ابن مریم ؑ آسمان سے زمین پر آئیں گے تو  چرواہے اپنے مویشیوں سے کہیں گے کہ فلاں جگہ چرنے کے لئے جاو اور اس وقت لوٹ آو، گوسفندوں کے گلے دو کھیتوں کے درمیان ہونگے لیکن ایک خوشے کو بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور ایک شاخ تک اپنے پیروں سے نہیں روندیں گے۔

۷۔انسان کی قدر دانی

وہ انسانیت کی معراج کا دور ہوگا۔ اس دور میں علم و شعور اور آگاہی کے باعث ایک انسان دوسرے انسان کی خدمت کرنے کو عبادت اور شرف سمجھے گا اور کوئی بھی انسان دوسرے کے حقوق کو پائمال نہیں کرے گا بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور دوسرے انسانوں کی خوشحالی کے لئے کام کرنے کو اللہ سے قرب کا وسیلہ سمجھا جائے گا اور ایک مومن دوسرے مومن کی مدد کرنے کو واجب سمجھے گا۔

 اس طرح معاشرے میں انسانوں کی درمیان کسی قسم کی کوئی طبقاتی ، جغرافیائی ، لسانی یا ذات پات کی کوئی تفریق اورفاصلہ نہیں ہوگا۔ سب آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔پیغمبرِ اسلام ﷺ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگوں کے دلوں سے کینہ اور دشمنی ختم ہو جائے گی۔

۸۔ میرٹ کی حاکمیت

انسان اس دور میں بھی اپنا کام کاج کریں گے اور ہر انسان کو میرٹ کے مطابق اس کا حصہ ملے گا،  ہر طرح کی رشوت اور سفارش ختم ہو جائیگی اور بغیر کسی رشوت اور سفارش کے لوگ اپنی استعداد کے مطابق  اپنے لئے کام کاج کا انتخاب کریں گے۔تمام تر اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر افارد کا انتخاب ہوگا اور تمام تر فیصلے بھی میرٹ کی بنیاد پر ہونگے۔

میرٹ کی حاکمیت کے باعث، برادری ازم، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ، دھونس دھاندلی اور مکر و فریب کا خاتمہ ہو جائے گا۔

حدیث میں ہے کہ آپ اس طرح مال تقسیم کریں گے کہ آپ سے پہلے کسی نے اس طرح تقسیم نہیں کیا ہو گا۔

۹۔غربت و افلاس کا خاتمہ

عدالت ، علم اور میرٹ کے باعث دنیا میں کوئی شخص فقیر اور نادار نہیں رہے گا حتیٰ کہ لوگ ذکواۃ دینے کے لئے فقرا اور نادار حضرات کو ڈھونڈتے پھریں گے لیکن انہیں کوئی فقیر یا نادار شخص نہیں ملے گا۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ فرماتے ہیں کہ ناامیدی اور فتنوں کے زمانے میں مہدیؑ نامی شخص ظہور کرے گاجس کی بخشش اور عطا لوگوں کی خوشحالی کا باعث ہوگی۔

ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ ، ملاوٹ اور بخل و کنجوسی جیسی برائیوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا جس کی وجہ سے معاشرے کے عام لوگ بھی مطمئن اور ثروت مندانہ زندگی بسر کریں گے۔

پیغمبر ﷺ کی حدیث ہے کہ مہدی ؑ میری امت میں ہونگے ، ان کی حکومت میں مال و دولت کا ڈھیر لگ جائے گا۔

۱۰۔ نبی آخرالزماںﷺ کی سنتوں کا احیا

اس زمانے میں ہر طرف حضور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کا دور دورہ ہوگا اور لوگ اپنے شب و روز کو سرکارِ دوعالم کی سنتوں سے مزین کریں گے۔پورا انسانی معاشرہ صدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح  محبت ، اخوت اور رواداری کی مثال بن جائے گا۔اگر کسی کو کوئی نعمت میسر ہوگی تو وہ سب سے پہلے اپنے ہمسایوں اور عزیزو اقارب میں اسے تقسیم کرنے کو سعادت سمجھے گا، اسی طرح ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کے لئے دعا اور طلبِ مغفرت کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مدد بھی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ گویا پوری عالمی برادری ایک بڑے خاندان میں تبدیل ہو جائیگی۔

حضورﷺ فرماتے ہیں کہ قریش سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو لوگوں کے درمیان مال تقسیم کرے گا اور اپنے نبیﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا۔

۱۱۔ صحت و علاج

مہدوی حکومت میں سب کے لئے یکساں طور پر صحت اور علاج کی سہولتیں میسر ہونگی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ امیر لوگ اچھے اہسپتالوں میں جائیں یا بیرون ملک علاج کے لئے جائیں اور غریب ایڑیاں رگڑتے رہیں  بلکہ تمام انسانوں کے لئے معیاری علاج کی سہولتیں عام ہونگی جس کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں کی عمریں بھی طویل ہونگی۔یہانتک کہ بعض عام افراد کی عمریں ہزار سال تک بھی پہنچ جائیں گی۔

۱۲۔ امام مہدیؑ کا اپنے سپاہیوں کے ساتھ عہد وپیمان

۱۔میدان جنگ سے فرار نہیں کرو گے

۲۔ چوری نہیں کرو گے

۳۔ناجائز کام نہیں کرو گے

۴۔حرام کام نہیں کرو گے

۵۔برے اور قبیح اعمال انجام نہیں دو گئے

۶۔سونا چاندی ذخیرہ نہیں کرو گے

۷۔کسی کو ناحق نہیں مارو گے

۸۔جو اور گیہوں ذخیرہ نہیں کرو گے

۹۔کسی مسجد کو خراب نہیں کرو گے

۱۰۔ناحق گواہی نہیں دو گے

۱۱۔کسی مومن کو ذلیل و خوار نہیں کرو گے

۱۲۔سود نہیں کھاو گے

۱۳۔سختی و مشکلات میں ثابت قدم رہو گے

۱۴۔خداپرست و یکتا پرست انسان پر لعنت نہیں کر وگے

۱۵۔ شراب نہیں پیو گے

۱۶۔ سونے کے تاروں سے بنا لباس نہیں پہنو گے

۱۷۔ حریر و ریشم کا لباس نہیں پہنو گے

۱۸۔بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کرو گے

۱۹۔ محترم خون نہیں بہاو گے

۲۰۔کافر و منافق پر انفاق نہیں کرو گے

۲۱۔ خز کا لباس نہیں پہنو گے

۲۲۔ مٹی کو اپنا تکیہ بناو گے

۲۳۔ ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرو گے

۲۴۔نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے

اس وقت آپ کے اصحاب کہیں گے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہم اس پر راضی ہیں اور آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں، اس وقت امامؑ بیعت کے طور پر ہر ایک سے مصافحہ کریں گے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ  آج  کا انسان ایسی مثالی حکومت کے قیام سے لا تعلق اور محروم کیوں ہے!؟

بات یہ ہے کہ در اصل اسلامی معاشرے نے ہی مہدویت کے تصور کو  دنیا بھر میں متعارف کروانا تھا  لیکن  مہدویت کے حوالے سے خود یہی معاشرہ مختلف غلط فہمیوں کا شکار ہو گیا ہے  جس کی وجہ سے مہدوی حکومت کی تشکیل کا خواب پورا نہیں ہو پا رہا اور دنیا مہدویت کو  بطورِ حکومت ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔

اسلامی معاشرے میں مہدویت کے حوالے سےغلط تصورات

مسلمانوں کے ہاں مہدویت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر اور ازالہ ضروری ہے:

۱۔ صرف انتظار

مسلمانوں کے ہاں عام طور پر ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حضرت امام مہدیؑ کا انتظار کیاجائے۔ حالانکہ جب بھی کسی حکومت کے قیام کے لئے انتظار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جاتا بلکہ اس حکومت کے لئے باقاعدہ  کمپین اور مہم چلائی جاتی ہے تب جاکر وہ حکومت قائم ہوتی ہے۔

۲۔ اپنی ذمہ داریوں سے نا آشنائی

مسلمانوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ  اسے ایک مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے کیاکرنا چاہیے، یعنی عام مسلمان اس حوالے سے یہ نہیں جانتا کہ اس کی کیا زمہ داری بنتی ہے؟!

۳۔ مہدویت کے بارے میں عدم شعور

بہت سارے مسلمان مہدویت کے بارے میں تفصیلی طور پر کچھ بھی نہیں جانتے ،  بلکہ یوں تو جمہوریت و آمریت اور بادشاہت کے بارے میں تو ہماری معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کی نسبت مہدویت کے بارے میں ہم سطحی سے معلومات بھی نہیں رکھتے ، جس کی وجہ سے مہدویت کی حکومت کی تشکیل میں مشکلات حائل ہیں۔

۴۔ مہدویت بغیر نصاب کے

ہمارے ہاں مسلمان ہونے کے باوجود مہدویت ہمارے نظامِ تعلیم میں شامل نہیں ، جس کی وجہ سے ہم نسل در نسل مہدویت سے نا آشنا ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت محض ایک یا کچھ معجزات سے قائم ہو جائیگی۔ ضرورت اس ا مر کی ہے کہ مہدویت کو تمام تر تفصیلات کے ساتھ نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے تا کہ لوگ مہدویت کو اچھی طرح سمجھیں اور امام مہدیؑ ہونے کے جھوٹے دعویداروں کو بھی  پہچانیں۔

۵۔  مہدویت بدونِ نظامِ حکومت

ہمارے ہاں اگر مہدویت پر بات کی بھی جاتی ہے تو بطورِ نظامِ حکومت نہیں کی جاتی، بلکہ مہدویت کو قیامت کی نشانیوں اور آخرت کی علامات سے جوڑ کر اس بحث کو ختم کر دیا جاتا ہے۔

مہدوی حکومت  کی تشکیل کے لئے درست لائحہ عمل

۱۔ جمہوریت سے مہدویت کی خدمت

سب سے پہلے جمہور کو مہدویت سے آشنا کیا جائے اور عوام النّاس میں ایک مہدوی حکومت کے قیام کی تڑپ پیدا کی جائے، لوگوں کو  قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ سمجھایا جائے  کہ ان کے تمام تر مسائل کا حل مہدوی حکومت کی تشکیل میں پو شیدہ ہے تاکہ لوگ کسی تشنہ شخص کی طرح مہدویت کی تشنگی کو محسوس کریں۔

۲۔ مہدویت شناسی کے لئے اداروں کا قیام

ہر عمر، ہر مذہب اور ہر دین کے شخص کو مہدوی حکومت سے آشنا کرنے کے لئے مخصوص اداروں اور ریسرچ سنٹرز کی ضرورت ہے۔ ایسے سنٹرز میں محقیقین مخاطب شناسی کر کے مخاطبین کی زہنی سطح کے مطابق  مہدویت کو تبیین کریں۔

۳۔اپنی ذمہ داریوں کا تعین

اس دنیا کو بدبختی، فقر، جہالت اور ظلم سے نجات دلانے کے لئے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے، مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مہدوی حکومت کی خصوصیات کیا ہیں!؟  مثلا ً مہدوی حکومت کی ایک خصوصیت  علم و ااگاہی کا دور دورہ ہے تو ہمیں دنیا میں علم و ااگاہی کو عام کرنے کے لئے کمربستہ ہو جانا چاہیے ، اسی طرح اگر مہدوی حکومت کی ایک اور خصوصیت  ظلم و جور کا خا تمہ ہے تو ہمیں جہاں بھی ہوں ظلم و جور کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، ہم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ جس حال میں ہے وہاں سے کس مہدوی خصوصیت کو عملی کر سکتا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط کے مطابق مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کا کام شروع کر دے تو یہ معاشرہ خود بخود مہدوی حکومت کی طرف بڑھنے لگے گا۔

۴۔ انتظار کا درست مفہوم

عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کا بس انتظار کیا جائے اور یوں خود بخود وہ حکومت قائم ہو جائے گی۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری یہ دنیا اسباب اور مسبب کی دنیا ہے، اگر ہم خود مہدوی حکومت کے اسباب فراہم نہیں کریں گے تو اسی طرح  مختلف انواع و اقسام کی حکومتیں ہمارا استحصال کرتی رہیں گی۔ لہذا  جس طرح ہم دیگر حکومتوں کے قیام کے لئے  کمپین اور مہم چلاتے ہیں اسی طرح ہمیں مہدوی حکومت کے لئے بھی کمپین اور مہم چلانی چاہیے، ہماری تحاریر و تقاریر میں جابجا مہدویت کا ذکر ملنا چاہیے اور لوگوں کو  مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کی تلقین کی جانی چاہیے۔

۵۔ مہدوی حکومت اور انقلاب

ظاہر ہے دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی کہ ظلم کی جگہ عدل لے لے، تاریکی کی جگہ نور لے لے، کفر کی جگہ اسلام آجائے، شر کی جگہ خیر سنبھال لے،  رشوت کی جگہ میرٹ کا بول بالا ہو یہ سب کچھ  بیٹھے بٹھائے ہونے والا نہیں ہے ، اس کے لئے  ایک بہت بڑی انقلاب اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ انقلاب اور تبدیلی لوگوں کے سرکاٹنے سے ممکن نہیں بلکہ اس نقلاب اور تبدیلی کے لئے لوگوں کے افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔  اگر لوگوں کا باطن تبدیل  ہوجائے اور لوگ عقلی طور پر ظلم و ستم، کرپشن اور دھاندلی ، فقر اور ناداری نیز جبر و استحصال سے  نفرت کرنے لگیں تو باہر کی دنیا خود بخود تبدیل ہو جائے گی۔

ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دور کا انسان ابھی تک  اچھائی اور برائی کو تشخیص دینے میں گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے، یہ بے چارہ یہ تو چاہتا ہے کہ دوسرے غلط کام  نہ کریں لیکن اگر اسے موقع مل جائےتو یہ خود وہی کام کرنے لگتا ہے جن سے دورسوں کو منع کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے  دور کے انسان کی تربیت ابھی اس سطح کی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے لئے بھی وہی پسند کرے جو دوسروں کے لئے پسند کرتا ہے۔

تربیت پر توجہ کی ضرورت

کسی بھی انقلاب کے لئے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، حضرت امام مہدیؑ کے انقلاب کے لئے بھی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے، وہ ایسے افراد ہونے چاہیے کہ جو سب سے پہلےخود  مہدویت کی خصوصیات سے مزین ہوں اور دوسرے لوگ ان کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر مہدوی بننے کی تمنّا کریں۔ اگر ایسے اخلاق و کردار کے حامل افارد کی تربیت نہیں کی جاتی تو ظاہر ہے کہ پھر مہدوی حکومت کے قیام میں بھی بہت تاخیر ہو سکتی ہے۔یہ تربیت بھی دوطرح کی ہونی چاہیے:

تربیت عمومی  اور تربیت خصوصی: تربیت عمومی کے طور پر تمام انسانوں کو خیرو بھلائی اور دین اسلام پر عمل کرنے کے دعوت دی جانی چاہیے اور تربیت خصوصی کے طور پر ایسے افراد کی خصوصی تربیت کی جائے جو مہدویت کے عمیق مسائل کو قرآن و سنت سے بطریقِ احسن استخراج کر کے لوگوں تک مہدویت کا پیغام عملی طور پر پہنچائیں۔

جس نظریے کے پاس تربیت یافتہ افراد نہ ہوں وہ نظریہ کوئی انقلاب یا تبدیلی نہیں لا سکتا لہذا ایک مہدوی انقلاب کے لئے افراد کی نظریاتی و عملی تربیت ضروری ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام مہدیؑ کے حکومتی اہلکاروں میں حضرت عیسیٰؑ، اصحاب کہف، مومن آل فرعون جیسی عظیم ہستیوں کے نام بھی آتے ہیں۔

نتیجہ:۔

دینِ اسلام اللہ کا آخری دین ہے، یہی دین انسانوں کی سعادت و خوشبختی کا بھی ضامن ہے، اس دین میں فقط انسانوں کے لئے  اخلاق و طہارت  اور عبادات کے احکام نہیں بیان کئے گئے بلکہ انسانوں کی خوش بختی کے لئے ایک مکمل نظام حکومت کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اس دینی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کریں جس کا کتاب و سنت میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔

جب تک مسلمان ایک الٰہی اور عالمی حکومت کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کریں گے تب تک خود بخود مسلمانوں کی عالمی حکومت قائم نہیں ہو جائے گی۔اس عالمی اور عادل حکومت کا نام مہدویت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں ، مہدویت کے حوالے سے تحقیق کریں اور مہدوی حکومت کے قیام کے لئے ممکنہ راہ حل سوچیں اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دیں۔

فہرست منابع

1.         قرآن مجید

2.        احقاق الحق  مكتبة المرعشي النجفي. مكان چھاپ: قم‌

3.        ارشاد مفید  كنگره شيخ مفيد قم

4.        سنن ابي داود دارالرائد العربی، بیروت

5.        سنن ترمذي دارالرائد العربی، بیروت

6.        عقدالدرر دارالکتب الاسلامیه قم

7.        غیبہ النعمانی  دارالرائد العربی، بیروت

8.        کمال الدین  دارالکتب الاسلامیه قم

9.         مستدرک حاکم انتشارات دار الکتب العلمیه، چھاپ بیروت

10.        مصنف عبد الرزاق انتشارات دار الکتب العلمیه، چاپ بیروت

11.        معجم رجال الحدیث  وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چھاپ اول، تهران

12.       ینابیع  المودّۃ  دار العراقیۃ الکاظمیۃ، و انتشارات محمّدی، قم، چھاپ ہشتم

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) طول تاریخ میں ہمیں امریکہ کی سیاست اور حکومت کی ایک ایسی بد ترین مثال نظر آتی ہے کہ جو زبان سے تو انسانیت اور انسانی حقوق کا واویلا کرتی نظرآتی ہے لکن عملی طور پر امریکی سیاست و حکومت دنیا کی اقوام کے لئے نہ صرف ایک بدی اور برائی کے طور پر ثابت ہوئی ہے بلکہ اقوام عالم کی بد ترین دشمن کے طور پر سامنے آئی ہے۔امریکی سیاست کا ہمیشہ سے وتیرہ ہی رہا ہے کہ امریکی مفادات یعنی امریکہ کے چند ایک سیاستدان جو کہ بذات خود اب صیہونیوں کے زیر اثر ہیں، ان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے دنیا کے کسی بھی گوش وکنار میں کتنا ہی قتل عام کیوں نہ کرنا ہو کرتے رہو، چاہے نت نئے دہشت گرد گروہ ہی کیوں نہ بنانے پڑیں ، چاہے اسرائیل جیسی خونخوار جعلی ریاست کو اربوں ڈالر کا اسلحہ دے کر نہتے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام ہی کیوں نہ کرنا پڑے، چاہے یمن میں امریکی اسلحہ کی کھیپ کی کھیپ سعودی حکمران خاندان کو پہنچا کر یمن کے عوام کا قتل عام اور ان پر زندگی تنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے ، چاہے کشمیر میں بھارتکی جارحیت کی حمایت اور مظلوم کشمیریوں کے قتل عام پر خاموشی ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے، اسی طرح چاہے عراق و افغانستان میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام، ویت نام میں انسانیت کی دھجیاں اڑانا، ہیرو شیما ناگا سا پر ایٹم بم گرانا اور اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بالخصوص پاکستان میں ڈروں حملوں کے ذریعہ اور کبھی دہشت گرد گروہوں کا قیام عمل میں لا کر ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسی ہزار پاکستانیوں کو موت کی نیند سلانا پڑے، چاہے فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دینا پڑے، چاہے لسانیت کو پھیلانا پڑے، شام میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرنا اور اسلحہ پہنچانا ،چاہے کسی ملک پر معاشی شکنجہ لگانا پڑے تولگاؤ، ایران و ترکی جیسے ممالک جو حالیہ دنوں امریکہ کی معاشی دہشت گردی کا شکارہیں، اس طرح کے متعدد دیگر مسائل کو پیدا کرنا پڑے امریکہ یہ سب کرتا آیا ہے اس اس عنوان سے امریکہ ایک ایک سو سالہ تاریخ دہشت گردی کے سیاہ ترین ابواب سے تاریک تر ہو چکی ہے۔حالیہ دور میں ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکی سیاست کا دارومدار صرف اور صرف غاصب صیہونیوں کے تحفظ کی خاطر دنیا کے امن کو داؤ پر لگائے ہوئے ہے، وہ غاصب صیہونی کہ جنہوں نے پہلے امریکہ وبرطانیہ کی مدد سے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کر کے ایک جعلی ریاست اسرائیل کو وجود میں لائے اور پھر فلسطینیوں کا ستر برس سے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں، لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال چکے ہیں، اسی طرح پوری دنیا میں ان صیہونیوں کے مفادات کی خاطر انسانیت کے ساتھ عجب مذاق کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجہ میں فلسطین سے کشمیر تک مظلوم انسان اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کئے جا رہے ہیں اور نہ جانے کب تک مزید قتل عام جاری رہے گا۔

رواں ماہ امریکہ کے شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس منعقد ہو اہے ، در اصل اقوام متحدہ کے کردار پر بھی ایک تفصیلی بحث کی جا سکتی ہے کہ آیا آج تک اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام کیوں رہاہے ہے؟ مزید یہ کہ اس ناکامی کے ساتھ ساتھ عالمی دہشت گرد قوتوں اور قاتلوں کو بھی اس ادارے کی سرپرستی کہہ لیجئے یا پھر خاموش حمایت کیوں حاصل رہی ہے۔خیر یہ ایک طویل بحث ہے جس پر کسی اور مقالہ میں تفصیلی گفتگو پیش کیجائے گی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں دنیا کے متعدد ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں سمیت وزرائے خارجہ نے خطاب کیا ہے اور اگر ان سب کے خطابات کا خلاصہ نکال لیا جائے تو افریقہ و یورپ سمیت ایشیاء و آسٹریلیا تک اور لاطینی امریکائی ممالک تک، تمام کے تمام اقوام امریکی ظلم اور ستم ظریفی کو براہ راست اور بالواسطہ بیان کرتے رہے ہیں، چین کی بات کریں تو چین نے بھی امریکی شیطانی سیاست پر سخت اعتراض کیا، افغانستان ، عراق، شام تو پہلے ہی امریکی ناپاک سازشوں کو بھگت ہی رہے ہیں، فرانس و جرمنی نے بھی امریکی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، ایران نے بھی امریکہ کو دوٹوک الفاظ میں اس کی شیطانی سیاست پر آئینہ دکھایاہے، ترکی نے بھی کھری کھری سنا دی ہیں، اسی طرح لاطینی امریکا کا ایک چھوٹا سا ملک بولیویا نے بھی امریکی سازشوں اور دہشت گردانہ سیاست کو مسترد کیا ہے، ونیزویلا، شمالی کوریا، روس، پاکستان سمیت متعدد ممالک کے رہنماؤں نے امریکا کی غلط اور دہشت گردانہ پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

یعنی اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں امریکی سیاست و حکومت کے کارناموں پر جس طرح سے دنیا بھر کی اقوام کے نمائندوں سے اظہار خیال کیا ہے یہ اس بات کی کھلی دلیل اور ثبوت ہے کہ امریکہ اور اس کی سیاست دنیا کے اقوام کی بد ترین دشمن ہے جیسا کہ ایک سو سالہ تاریخ میں امریکہ کے ہاتھوں پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے گناہوں کا خون ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کی پالیسی کے باعث نہ صرف امریکی عوام کی نظروں میں اپنا معیار کھو چکی ہے بلکہ دنیا کی دیگر مہذب قومیں بھی امریکی حکومت کی ایسی پالیسیوں کو کہ جس کے تحت امریکا ہر دہشت گردی کے اقدام کی حمایت کرتا ہے ، سخت مخالف کر رہے ہیں، مثال کے طور پر ، فلسطین، یمن، لبنان، شام، عراق، افغانستان، لیبیا، پاکستان، کشمیر، برما و دیگر ممالک میں جہا ں جہاں دہشتگردی ہے سب امریکی حمایت یافتہ دہشت گردگروہوں کے مرہون منت ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب امریکی حکومت کی حالت اس قدر نا گفتہ بہ ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی صدر کی انتھک کوششوں کے باوجود ایران کے خلاف کسی بھی ایک ملک نے ووٹ نہیں دیا اور امریکی صدر کو تنہا ئی کا سامنا کرنا پڑا جو کہ خود امریکی سیاست اور حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔دنیا بھر میں امریکی مداخلت کے باعث آج ہر ذی شعور یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ امریکہ دنیا کی واحد حکومت ہے کہ جو دنیا بھر کی اقوام کی بدترین دشمن ہے۔


 تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

وحدت نیوز(آرٹیکل) سیاسی و مذہبی رہنما اپنے نظریات کی بنا پر مخصوص طبقات کو اپنا گرویدہ کرتے آئے ہیں۔دنیا کے قدیم مذاہب اور ان کے پیشوا ؤں کی تعلیمات کے اثرات میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہی۔ عرب کی سرزمین پر جب کفر و شرک اور جہالت عروج پر تھی۔اللہ تعالی نے ان لوگوں کی رہنمائی کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھیجا۔نبی کریم ﷺ نے بعثت کے بعد تیئس سالہ زندگی میں کفار کی جانب سے دی جانے والے تکالیف اور مشکلات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی عزت و تکریم اور مرتبہ سے بھی امت کو آگاہ کیا۔تمام مسلک کی مستند کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے کہ ’’حسینؑ مجھ سے ہیں اور میں حسینؑ سے ہوں‘‘ اسی طرح نماز کے دوران نبی کریم ﷺ کے کاندھوں پر امام عالی مقام کا سوار ہونا اور حسنین کریمن علیہم السلام سے ہر موقع پر بے پناہ محبت کا اظہار کرناسبط پیغمبر ﷺکے مقام کو واضح کرتا ہے۔رسول ﷺ کی رحلت کے بعد اہل بیت علیہم السلام کو کہیں آزمائشوں سے گزرنا پڑا ۔

سانحہ کربلا ان کٹھن امتحانات میں سے ایک تھا۔جب نواسہ رسولﷺ اور ان کے جانثاروں پر باطل کی بیعت نہ کرنے پر پانی بند کردیا گیا۔میدان کربلا میں امام ؑ نے جب حل من ناصر ینصرنا کی صدا بلند کی تب امام ؑ کوتلواروں کی نہیں بلکہ مقصد کی مدد مانگ رہے تھے امامؑ کی نصرت ان کے مقصد کی پیروی سے حاصل ہوتی ہے۔ حسینیت ظالم کے خلاف ڈٹنے کا نام ہے۔امام حسینؑ کے گرویدہ محض اہل اسلام ہی نہیں بلکہ ہراہل ضمیر ہے۔امام عالی مقامؑ کے محبان دنیا کے ہر کونے اور ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ غیر مسلم رہنماؤں نے بھی امام حسینؑ کے حوالے سے اپنے نظریات بیان کیے ہیں۔

نیلسن مندیلا کہتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی زندگی کے بیس سال قید میں گزارے ،پھر ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ حکومت کی تمام شرائط کو تسلیم کرلوں لیکن اچانک میرے خیال میں امام حسینؑ اور تحریک کربلا آئی جس نے مجھے آزادی اور آزاد ی کے لیے ڈٹ جانے کی طاقت مہیا دی‘‘مہاتماگاندھی اپنی قوم کو کامیابی کا راستہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’’اگر انڈیا کامیاب ملک بننا چاہتا ہے تو ،اسے امام حسینؑ کی پیروی کرتے ہوئے آپؑ کے نقش قدم پہ چلنا ہوگااور اگر میرے پاس امام حسینؑ کے بہادر سپا ئیوں کی طرح کے بہترسپاہی ہوتے تو میں چوبیس گھنٹوں میں انڈیا کے لیے آزادی کی جنگ جیت جاتا‘‘ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ’’میں نے امامؑ سے سیکھا کہ ایک مظلوم کس طرح فتح یاب ہوتا ہے‘‘۔

امام حسینؑ کی قربانی کا ذکرکرتے ہوئے مہاتما گاندھی کہتے ہیں’’یہ میرا یقین ہے کہ اسلام کی ترقی کا انحصار اس پر ایمان رکھنے والوں کی شمشیر کے استعمال پر نہیں بلکہ یہ حسینؑ کی بہترین قربان کا نتیجہ ہے‘‘۔

ڈاکٹر راجندرا پراساد (انڈیا کے پہلے صدر) کہتے ہیں کہ’’امام حسینؑ کی قربانی محض ایک ملک یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ تمام انسانیت کے لیے اخوان المسلمین کی وراثت ہیں‘‘ ہندو مذہب کے روحانی پیشوا سوامی شنکراچاریا کا کہنا ہے کہ’’ یہ امام حسینؑ کی قربانی تھی جس نے اب تک ،سلام کو زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ دنیا میں کوئی شخص بھی اسلام کا نام لینے کے لیے باقی نہ رہتا‘‘

شام کے معروف مصنف اینٹائن بارہ نے اپنی تصنیف145145Imam Hussain (a.s) in the Indelogy of Christan146146 میں امام عالی مقام حضرت حسینؑ کو زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسی جرات و استقامت اور حق گوئی کی تاریخ مین مثال نہیں ملتی۔

برطانیہ کے ممتاز مصنف و نقاد ’’چارلیس ڈکنز‘‘کے الفاظ حسینؑ کی جنگ اگر دنیاوی خواہشات کے حصول کے لیے ہوتی تو آپؑ کے اہل خانہ قطعاََ آپؑ کے ہمراہ نہ جاتے ۔یہ ہم رکابی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام حسینؑ کی قربانی خالصتاَ اسلام کے لیے تھی۔اپنے والد کے متعلق کہتے ہیں کہ’’کسی شخص نے بھی میرے والد کو ماہ محرم میں مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا اور دسویں محرم(روز عاشور) تک ان کی اداسی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا اور روز عاشورہ ان کے لیے دکھ اور گریہ کا دن ہوتا۔‘‘

یونانی مورخ اور مضمون نگار تھومس کارلائل نے کہا کہ’’ سانحہ کربلا سے جو بہترین سبق میں نے حاصل کیا وہ یہ ہے کہ امام حسینؑ اور ان کے پیروکار اللہ تعالی پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے ، ان کے نزدیک حق اور باطل کے معرکے میں عددی برتری کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ کم تعداد کے باوجود حسینؑ کو فتح حاصل ہوئی۔‘‘

گورو نانک (سکھوں کے عظیم رہنما)نے امام حسینؑ کے متعلق کہا ہے کہ’’امام حسینؑ کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں ،بلکہ ہر اس شخص سے ہے جو ضمیر رکھتا ہوا‘‘۔دیگرمذاہب کے لوگوں نے امام حسینؑ کی قربانی کے ساتھ ساتھ ان کے مقصدکو سمجھتے ہوئے اپنی زندگیا ں باوقار انداز میں گزاریں ۔دنیا میں آج بھی حق و باطل نظریے کے لوگ موجود ہیں۔امام حسینؑ کی اور یزید کی جنگ محض دو شخصیات کی نہیں بلکہ دو افکار کی جنگ تھی ۔

آج مقصد حسینؑ کو بھلا کر کچھ لوگ اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ محرم میں شادی کرنا ،خوشیاں منانایا وغیرہ جائز ہیں یا نہیں ۔امامؑ کا در س حیات کسی ایک مخصوص طبقے یا مکتبہ فکرکے لیے نہیں ہے بلکہ تمام اہل انسانیت کے لیے ہے۔امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’میں ہوس اور اقتدار طلبی کے لیے خروج نہیں کر رہا اور نہ ہی میں فساد اور ظلم کرنے کے لیے نکل رہا ہوں بلکہ میرا مقصد اپنے جد امجدکی اصلاح ہے۔میں امرباالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ آپؑ ہمارے لیے تاحیات مشعل راہ ہیں۔

رسول خدا(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)فرماتے ہیں’’جب میری امت ظالم کے سامنے بولنے سے عاجز ہوجائے،تواس کی موت پہنچ چکی ہوگی‘‘۔دراصل مقصد حسینؑ سیرت حسینؑ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ے اپنی امت کی اصلاح کے لیے جن دو ہم وزن چیزوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک قران اور دوسرے اہلبیت اطہار علیہم السلام ہیں۔

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؑ
 چرغ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
ؑ انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ، ہمارے ہیں حسینؑ


تحریر:کساء زہراکاظمی

وحدت نیوز(آرٹیکل)  پاکستان کے دشمن متحد ہیں، ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، ہندوستان اور افغانستان نے بھی اپنا منہ کھول رکھا ہے، اسرائیل پر تول رہا ہے لیکن اس وقت  اصلی جنگ معاشی جنگ ہے۔  معاشی جنگ کو جاری رکھنے کے لئے  امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  امریکا کا احترام نہ کرنے والے ممالک کو امداد نہیں ملے گی ،قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی بے انتہا قربانیوں کے باوجود امریکہ پاکستان کو اپنا تابعدار ملک نہیں سمجھتا۔ انہوں نے تقریر میں یہ بھی کہا کہ چین سے تجارت میں عدم توازن برداشت نہیں کریں گے، انہوں نے  کھلے لفظوں میں اسرائیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جرائم کی عالمی عدالت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

یاد رکھیئے کہ امریکا کسی بھی عالمی عدالت کی حیثیت کا قائل نہیں ۔ امریکی تاریخ شاہد ہے کہ  دنیا میں صرف دو مرتبہ ایٹم بم داغا گیا ہے اور وہ بھی امریکہ نے ہی داغا ہے ، ایک مرتبہ ہیرو شیما پر اور دوسری دفعہ ناگا ساکی پر۔

ہولوکاسٹ پر واویلا مچانے والے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں لاکھوں انسانوں کے بھسم ہوجانے پر خاموش ہیں چونکہ ان کی رگِ اقتصاد امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔  اس کے علاوہ ۱۹۵۵ سے ۱۹۷۵ تک امریکہ نے ویتنام میں قتلِ عام کیا، اس قتلِ عام میں تیس لاکھ سے زیادہ سول لوگ مارےگئے اور ان سول لوگوں کومارنے کے لئے کیمیائی ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا جس کی کسی عدالت میں باز پرس نہیں ہوئی۔ امریکہ نے سالانہ پچاس ہزار بمب ویتنام میں گرائے لیکن کسی  عالمی ادارے نے امریکہ کا راستہ نہیں روکا۔

امریکہ نے ستمبر ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۴ تک افغانستان پر جنگ مسلط کئے رکھی، اس جنگ میں  لاکھوں افغانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، انہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا اور ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی۔نہتے افغانیوں کے خلاف امریکہ نے جدید ترین ہتھیار استعمال کئے لیکن عالمی برادری نے  امریکی جارحیت کو رکوانے کے لئےکوئی کردار ادا نہیں کیا۔وجہ پھر یہ تھی کہ دنیا کا اقتصاد ڈالر کے گرد گھوم رہا تھا۔

۲۰ مارچ ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۰ تک امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، ان سات سالوں میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں متاثر ہوئی اور عراق کی سڑکیں اور پل کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے لیکن ایک مرتبہ پھر عالمی برادری امریکی ڈالر کی بھیک ملنے کی وجہ سے چپ سادھے رہی۔

امریکی مزاج کو سمجھنے کے لئے یہ چند تاریخی نمونے ہم نے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔امریکی مزاج کو سمجھئے، امریکہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور کسی قانون یا عدالت کا پابند نہیں۔

امریکہ نے پاکستان پر جو معاشی جنگ مسلط کر رکھی ہے ،اس کی وجہ سے سی پیک امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بہاتا اور پاکستان کو عسکری دباو میں رکھنے کے لئے جہاں ایک طرف سے بھارت اور افغانستان سے دھمکیاں دلوائی جارہی ہیں وہیں دوسری طرف  سےافغانستان میں داعش کو بھی لاکر آباد کیا جا رہا ہے۔نیز اب معاشی طور پر پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی دھمکی بھی دی جارہی ہے۔

 اس سلسلے میں  فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کا اعلیٰ سطح کا وفد اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کرے گا، عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی ، مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوگا  نیز  ملکی معیشت پر شدیدمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اب جبکہ پاکستان شدید معاشی جنگ سے گزر رہا ہے تو پاکستان کی تاجر برادری کو چاہیے کہ وہ میدان میں آئے اور اس معاشی جنگ کا جواب دے۔ ہر محاز پر اس محاز کے مجاہد ہی لڑا کرتے ہیں۔ معاشی محاز پر ہمارے ماہرین معاشیات، تاجروں، ٹریڈ یونینز ، تجارت سے مربوط انجمنوں اور تنظیموں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقتصادی میدان میں امریکی جنگ  اور جارحیت کا دندان شکن جواب دیں۔

 ہمارے  وزیرِ خزانہ، تاجروں  اور عوام کو مشترکہ اور انفرادی طور پر امریکی مصنوعات اور ڈالر کا بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔  تاجر برادری کو  یقین کرنا چاہیے کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور ہر غیرت مند پاکستانی اس میدان میں اپنی تاجر برادری کے ہم قدم ہے۔

اگر ہم تجارت کے میدان میں امریکہ کا بائیکاٹ کردیں تو بھارت ، افغانستان اور داعش سمیت تمام خطرات خود بخود ٹل جائیں گے چونکہ یہ سب امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔

تجارت کا محاز ایک اہم محاز ہے، ہمیں اسے خالی نہیں چھوڑنا چاہیے، ہماری میڈیا،  خطبا، علمائے کرام ، کالم نگار وں اور دیگر دانشمند طبقات سے گزارش ہے کہ وہ تاجر برادری سے رابطے کریں  اور اپنی زبان و قلم کے ذریعے تاجر برادری کو امریکہ کے خلاف صف آرا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ہم سب امریکہ کے مقابلے میں ایک ہو جائیں تو جہاں امریکی ڈالر کی کمر ٹوٹے گی وہیں اقتصاد  اور خوشحالی کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔

ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں، پاکستان کے دشمن متحد ہیں، ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، ہندوستان اور افغانستان نے بھی اپنا منہ کھول رکھا ہے، اسرائیل بھی  پر تول رہا ہے لیکن  اس وقت اصلی جنگ معاشی جنگ ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) ایام محرم الحرام ہے اور ہمیں دنیا کے ہر کونے میں یا حسین کی صدائیں سنائی دیتی ہے، ساری کائینات ہمیں حسین کا دیوانہ لگتا ہے، لاکھوں جانیں حسین پر قربان ہونے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا عاشق حسین ہے؟ مسلمان ہو یا غیر مسلم جب اسم حسین کو زبان پر ورد کرتے ہیں تو سب احترام کرتے ہیں اور امام حسین کے یثار و قربانی کی تعریف کرتے ہیں اور ان کی سچائی، خلوص، جزبہ شہادت، جذبہ ایمانی اور بہادری کو داد دیتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ۱۳۷۹ سال گزرنے کے باوجود کربلا ابھی تک زندہ ہے؟ امام حسین علیہ السلام نے ایسا کیا کیا تھا کہ جس کی وجہ سے ساری دنیا امام حسین کو فراموش نہیں کرسکے؟ کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا، مسلمان، مسیحی، ہندو، کافر سب امام حسین کو اور ان کے اہداف و قربانی کو یاد کرتے ہیں؟ کیا دنیا میں واقعہ کربلا کے بعد کوئی ظلم و ستم نہیں ہوا؟ کسی کو بھوکا پیسا قتل نہیں کیا گیا؟ آخر کیوں دوسرے واقعات وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے مگر واقعہ کربلا ہر زمانے اور ہر دور میں نیا لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہدف و درس کربلا اسی زمانے کے لئے ہے۔

اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے شخصیت حسین کو دیکھنا ہوگا کہ آخر خود امام حسین کون ہے ان کی شخصیت کیا ہے، امام حسین کو پہچانے کے بعد ہم ان کے اہداف اور مقصد کو سمجھ سکتے ہیں۔ امام جسین کی شخصیت کے بارے میں رسول اکرم ص کی بے شمار احادیث موجود ہیں، ان میں سے ایک حدیث میں یہاں نقل کرنا چہتا ہوں کہ رسول اکرم ص فرماتے ہیں: "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں"۔ یعنی کردار، گفتار و رفتار میں حسین رسول اکرم ص کی طرح ہے، جس طرح رسول اللہ ص ساری انسانوں کے لئے رحمت بن کر آئے اسی طرح امام حسین بھی انسانوں کے لئے ہادی و امام امت ہیں اور ظلم و بربریت کے اندھیری میں ڈوبی ہوئی قوموں اور انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ حسین اور رسول اللہ ص میں فرق صرف یہ ہے کہ حضرت محمد خدا کے آخری نبی ہیں اور حسین امام ہے جنہوں نے اپنے نانا کے دین کو بچانے کے لئے اپنی جان، مال، ناموس سب کو قربان کیا اور دین محمدی کو بچایا۔

واقعہ کربلا اور دنیا میں رونما ہونے والے دوسرے حادثوں میں بہت بڑا فرق ہے، ہم اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتاہے کہ تاریخ انسانی ظلم و بربریت، جنگ و جدال کے واقعات سے بھری پڑی ہے جن کے پیچھے خودغرضی، مفاد پرستی، شخصیت پرستی، ہوس پرستی، قوم پرستی، طاقت پرستی نظر آتا ہے لیکن حق و باطل اور خداپرستی کا معیار کہی نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ جس حادثہ کی اہداف و مقصد محدود ہوتا ہے وہ اسی محدودیت میں دفن ہو جاتا ہے۔

لیکن واقعہ کربلا اور شخصیت حسینی ان سب سے ہٹ کر ہے یہ حماسئہ کربلا و حماسئہ حسینی ہے، یہ ایک حادثہ اور ایک شخصیت نہیں ہے بلک یہ ایک ایسا جامع واقعہ ہے جو زمان، مکان، رنگ نسل،  مفادات، ریاکاری و دنیاوی خواہشات سے بالاتر ہے، یہ حق و باطل کا میزان ہے، یہ مظلومیت و بہادری کا درس گاہ ہے، یہ ایمان و سچائی کا مرکز ہے، یہ وفا و بہادری کا ناختم ہونے والا سلسلہ ہے، یہ ایک ایسا درس گاہ ہے جو ہر زمانے کے انسانوں کے لئے درس فرق مابین حق و باطل سیکھاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا مادہ پرستی و ظلم و ستم کی جانب رواں ہے درس کربلا و اہداف حسینی انسانوں کے سامنے واضح ہو رہی ہے۔ اسی لئے واقعہ کربلا اور شخصیت امام حسین ہر ایک کے دلوں میں زندہ ہے، ہر باشعور انسان کردار و گفتار امام حسین کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتا ہے۔

۔ روس کے معروف مفکر اور ادیب ٹالسٹائی نے کہا ہے: "امام حسین ان تمام انقلابیوں میں ممتاز ہیں جو گمراہ حاکموں سے گڈگوورنینس کا تقاضا کرتے تھے، اسی راہ میں انہیں شہادت حاصل ہوئی۔"

۔ عصری جاپان کے مصنف کوئیانہ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ: "امام حسین کا انقلاب پسے ہوئے طبقے کے لیے جدوجہد کا راستہ روشن کرتا ہے، سوچ کو توانائی دیتا ہے، گمراہی سے نکالتا ہے اور حصول انصاف کے سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہے۔"

۔ تھامس کارلائل نے کہا کہ: "واقعہ کربلا نے حق و باطل کے معاملے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسین اور ان کے رفقا خدا کے سچے پیروکار تھے، قلیل ہونے کے باوجود حسین کی فتح مجھے متاثر کرتی ہے۔"

۔ تاریخی محقق اور ممبر برطانوی پارلیمنٹ ایڈورڈ گیبن نے “دی فال آف رومن ایمپائر” میں واقعہ کربلا کو انتہائی دلسوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ: "امام حسین کی مظلومانہ شہادت اور کربلا کے دلخراش واقعات ایک سرد دل انسان کی آنکھوں میں بھی آنسو اور دلوں میں ہمدردی پیدا کردیتے ہیں۔"

۔ روسی مفکر اوگیرا کا کہنا ہے کہ: "حسین ہر اس طبقے کے لیے مثال ہیں جو طبقاتی جبر کا شکار ہے، وہ حکمران جو اپنا تخت مفلوک الحالوں کے سروں سے تعمیر کرتے ہیں پھر ان کے جانشین بھی یہی کچھ کرتے ہیں جب تک کہ ان کا احتساب نہ کر دیا جائے وہ دوسروں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔"
۔ انگلش رائٹر تھامس لیل نے اپنی کتاب "انسائیڈس عراق" میں لکھا ہے کہ: "امام حسین کے عقیدتمند ایسے دیوانے ہیں کہ اگر انہیں صحیح رخ میں گائیڈ کیا جائے تو یہ دنیا کو ہلا کے رکھ سکتے ہیں۔ تھامس ۱۹۱۸-۱۹۲۱ میں سرکاری طور پر عراق میں تعینات تھا اور یہ بات اس نے شہدا کربلا کے گرد عزاداری دیکھ کر کہی تھی۔"

۔ وولف انسٹی ٹیوٹ کیمبرج کے بانی ڈائریکٹر، ڈاکٹر ایڈورڈ کیسلر نے اپنے ایک لیکچر میں کہا کہ: "موجودہ دنیا کی ملٹی فیس سوسائیٹیز میں سب سے بڑا مسئلہ سوشل جسٹس کا ہے اور سوشل جسٹس حاصل کرنے کے لیے امام حسین بہترین رول ماڈل ہیں۔"

۔ انٹرفیتھ گروپ کی ایکٹیوسٹ و ریسرچر ڈائنا ملز نے کہا ہے کہ: "امام حسین نوع انسان کے لیے رول ماڈل ہیں، میرے لیے امام حسین کئی جہتوں سے مسیح  کے متوازی نظر آتے ہیں، خدا کے حکم پر پورا اترنے کی خاطر انہوں نے بھی ہر چیز کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، امام حسین کی یہ بات مجھے بیحد پسند ہے کہ تم میری جان تو لے سکتے ہو لیکن میرا ایمان نہیں لے سکتے۔"

۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ "میرا یہ ماننا ہے کہ اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسین ابن علی کی قربانی کا نتیجہ ہے، دوسری جگہ کہا، اگر میرے پاس امام حسین کے ساتھیوں جیسے بہتر لوگ موجود ہوں تو میں چوبیس گھنٹے میں ہندوستان آزاد کرالوں، ایک اور جگہ کہا اگر ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے تو امام حسین کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

. جواہر لعل نہرو پنڈت نے کہا تھا، امام حسین کی قربانی کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ سب کے لئے صراط مستقیم کی اعلی ترین مثال ہے۔اسی لئے جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے:

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوع بشرکے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
 ہر قوم پکارے گی ہمارے ہے حسین


تحریر۔۔۔ناصررینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) نبوت ختم ہوگئی، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں، آپ عالمین کے آخری نبی اور اسلام تمام زمانوں کے لئے آخری دین ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ کے وصال کے بعد دینِ اسلام کی حفاظت اور تبلیغ کے لئے مسلمانوں کے ہاں بارہ اماموں کا نظریہ پایا جاتا ہے۔ صحیح بخاری،صحیح تر مذی،صحیح مسلم ،صحیح ابی داؤد اور مسند احمد وغیرہ میں ایسی احادیث موجود ہیں  جو نبوت کے بعد خلافت و امامت کے وجود پر دلالت کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر،اہل سنت کی مشہور ترین کتاب صحیح بخاری میں اس سلسلے میں  یوں آیا ہے کہ ”جابر بن سمرة“کہتے ہیں  کہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فر مایا:

”یکون اثنا عشرامیراً۔فقال کلمة لم اسمعھا فقال ابی انہ قال۔کلھم من قریش۔“ (صحیح بخاری ،ج۹،کتاب الامقام،ص۱۰۰)

”میرے بعد بارہ امیر ہوں گے۔اس کے بعد ایک جملہ فر مایا کہ میں سن نہ سکا ۔میرے والدنے مجھے کہا کہ پیغمبر نے فر مایا تھا :”وہ سب قریش میں سے ہیں “

نبوت کے بعد امامت کا تصور ختمِ نبوت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے اور یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ کذاب اور جھوٹا ہے۔

نظریہ امامت پر سارا جہانِ اسلام متفق ہے اور یہ امامت کی تفصیل  ہے کہ امام کو کیسا ہونا چاہیے؟ امام کا انتخاب کیسے ہوگا؟  امام معصوم ہوگا یا غیر معصوم وغیرہ وغیرہ۔۔۔

جہانِ اسلام کے معروف ترین اور مقبول ترین آئمہؑ میں سے ایک حسین ابن علیؑ ہیں۔ آپ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی آپ سے عشق و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ سے عشق و عقیدت رکھنے والے جانتے ہیں کہ    ۶۱؁ ھ میں دینِ اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر عائد ہوئی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام ، دینِ ملوکیت بن چکا تھا، دینِ بادشاہت بن چکا تھا، ملوکیت و بادشاہت کسے کہتے ہیں عصرِ حاضر میں اس کا نپا تلا جواب آپ کو خصوصی طور پر  مولانا مودودی ؒ اور یاپھر شیخ الحدیث  ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملے گا۔

حسین ابن علیؑ نے اکسٹھ ھجری میں دینِ اسلام کی اصلی تعلیمات کی حفاظت کے لئے  اپنی ذمہ داری کو اداکیا، اگر اس وقت حضرت امام حسینؑ کی جگہ خود پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ بھی  ہوتے تو وہ وہی کچھ کرتے جو حسینؑ ابن علی نے کیا ہے اور یزید ابن معاویہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ بھی وہی کچھ کرتا جو اس نے  حسین ابن علیؑ کے ساتھ کیا ہے۔ چونکہ نبی اکرم ﷺ بھی اگر چہ تنِ تنہا رہ جاتے لیکن وہ  ہر گز کسی کو یہ اجازت نہ دیتے کہ وہ دینِ اسلام کو ملوکیت و بادشاہت میں تبدیل کرےاور یزید کبھی  دینِ اسلام کو ملوکیت میں تبدیل کئے بغیر چین سے نہ  بیٹھتا۔

حضرت امام حسینؑ نے  ملوکیت سے ہیبت زدہ  ایک ایسی فضا میں قیام کیا کہ جہاں لوگ  ملوکیت کو باطل سمجھتے ہوئے بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔

دوسری طرف امام حسینؑ یہ جانتے تھے کہ اگر اس وقت دینِ اسلام کی حقیقی شکل اور تعلیمات کی حفاظت نہ کی گئی تو عالمِ بشریت ظہورِ اسلام سے پہلے والے زمانے یعنی زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گا، اسلامی قوانین لغو ہوجائیں گے اور اولاد آدم بھٹکتی پھرے گی ۔ چنانچہ آپ نے ہر قیمت پر دینِ اسلام کو بچانے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی وجہ سے آپ کو اور آپ کے اعوان و انصار کو تہہ تیغ ہونا پڑا لیکن اسلام کی تعلیمات ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئیں۔ جب آپ کی شہادت اور  قربانی کی خبر جہانِ اسلام میں پھیلی تو  لوگ نفسیاتی طور پر اس سے شدید متاثر ہوئے ۔ آپ کے قیام کی سب سے پہلی تاثیر یہ سامنے آئی کہ لوگوں کے اندر سے موت کا خوف ختم ہوگیا اور لوگ باطل کو باطل اور غلط کو غلط کہنا شروع ہوگئے جس کی وجہ سے جہانِ اسلام کے اطراف و کنار میں مختلف قیام سامنے آئے۔

اس قیام ، قربانی اور شہادت کی دوسری تاثیر یہ سامنے آئی کہ لوگوں نے اہلبیت ؑ سے عشق و محبت کا اظہار دوبارہ سے شروع کردیا اور یوں جگہ جگہ جہاں پر  امام حسینؑ کی قربانی کا ذکر ہوتا وہیں دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی تبلیغ بھی ہوتی اور   یزید  نے دینِ اسلام میں جوانحرافات ایجاد کئے تھے ان کا بھی ذکر ہوتا۔

ہم ناصبیوں کی بات نہیں کرتے ، ناصبیوں کے علاوہ مجموعی طور پرمسلمانوں  نے دو طرح سے اس قربانی کو دیکھا ، کچھ  نے اس قربانی سے ہمدردی ، عشق اور درد کا رشتہ قائم کیا اور کچھ نے اس سے ہمدردی ، عشق اور درد کے ساتھ ساتھ تعلیم اور درس کا ناطہ بھی جوڑا۔

بالکل ایسے ہی جیسے اگر پانچ بچوں کا باپ فوت ہوجائے تو ان میں سے ہر ایک کا رد عمل مختلف ہوتا ہے، کوئی مہمانوں اور تعزیت کے لئے آنے والوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، فاتحہ پڑھتا ہے، اپنے باپ کی باتیں دہراتا اور مہمانوں کو سناتا ہے، دوسرا صرف روتا اور پیٹتا ہے، تیسرا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، چوتھے کی نیند ختم ہوجاتی ہے اور پانچواں قبرستان میں جا کر قرآن خوانی کرتا رہتا ہے۔ یہ پانچوں اپنی اپنی طرز پر اور اپنی اپنی نفسیات کے مطابق اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلا ں مرحوم کا زیادہ سگا بیٹا ہے اور فلاں کو زیادہ غم ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سبھی کو غم ہے اور سبھی مرحوم کے حقیقی بیٹے ہیں۔

اسی طرح امام حسینؑ بھی تمام علام اسلام کے رہبر و رہنما اور محسن  ہیں اور سارے مسلمان ، آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ کی شہادت کے موقع پر اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، جذبات کا یہ اظہار مختلف نوعیت کا ہوتا ہے ، کسی کی مظلومانہ شہادت پر جذبات کا اظہار ایک فطری امر ہے۔

فطری امر ہونے کی وجہ سے غیر مسلم بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں اور یوں پوری دنیا مل کر حسین ابن علی ؑ کو سلام پیش کرتی ہے۔دنیا کا ہر منصف مزاج انسان یہ سمجھتا ہے کہ آج اگر دنیا میں اسلام کی تعلیمات اور نام و نشان باقی ہے تو یہ امام حسینؑ کی قربانی کا نتیجہ ہے۔

 بقول شاعر

ڈوب کر پار اتر گیا اسلام

آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے

(یگانہ)


تحریر:نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

 

Page 14 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree