وحدت نیوز(آرٹیکل) ہماری نوجوان نسل اس بات سے واقف ہی نہیں کہ پاکستان کے پہلے تیس سال ایران و پاکستان ’’یک جان دو قالب‘‘ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جس ملک نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا، اس کا نام ایران ہے۔سب سے پہلے پاکستان کا دورہ بھی ایران کے حکمران نے کیا۔ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ یہاں تک بھی باتیں ہوئیں کہ ہم دونوں ملک خود کو ایک ملک تصور کریں۔ پاکستانیوں اور ایرانیوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا عام تھا۔ ہماری آپس میں رشتے داریاں تھیں۔ ایرانیوں کی قربت کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے برصغیر میں فارسی کا چلن عام تھا۔

پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کی اہلیہ کا تعلق ایران سے تھا پھر پاکستان کے پہلے مقبول ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ محترمہ نصرت بھٹو کا تعلق بھی ایران ہی سے تھا۔ ایران کے کئی محکموں کے افراد کی ٹریننگ پاکستان میں ہوا کرتی تھی۔ ایرانیوں کی قربت کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے برصغیر میں فارسی کا چلن عام تھا۔برصغیر پر طویل ترین حکمرانی کرنے والے مغل حکمران فارسی بولتے تھے۔ ان کی کتابیں تزک تیموری، تزک بابری اور تزک جہانگیری فارسی ہی میں تو ہیں۔تصوف سے شناسائی رکھنے والے افراد مغل شہزادے دارا لشکوہ کی کتاب سکینۃ الاولیاء سے خوب واقف ہیں۔

پاکستانیوں اور ایرانیوں کی محبت اور بھائی چارے کا سفر جاری تھا کہ پانچ جولائی 1977ء کا وہ دن آ گیا جب پاکستان میں ایک آمر نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر جہاں پاکستان میں انسانی آزادیوں کو پابند سلاسل کیا، وہیں ہمیں ہمارے کئی پیاروں سے دور کر دیا۔یہی وہ موسم تھا جب ایرانی پاکستان سے دور ہو گئے۔ پچھلے بیالیس سال سے کئی موسم گزر گئے مگر وہ پہلے جیسی محبت قائم نہ ہو سکی۔ اس میں حالات کی سنگینی کا دخل بھی ہے اور ضیاء الحق کی روحانی اولاد کا قصور بھی۔حکومتیں کس قدر اثر انداز ہوتی ہیں، شاید اس کا اندازہ عام آدمیوں کو نہیں ہوتا ورنہ یہ کیسے ہو گیا کہ ہمارا پورا قومی ترانہ ہی فارسی میں ہے اور ہم فارسی بانوں سے اتنے دور ہو گئے۔ ہم نے ایرانیوں کو ہندوستان کی طرف دھکیلا کیونکہ ہم نے اپنے دروازے بند کر لئے تھے۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے اس پر کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں۔کبھی موقع ملا تو کئی سچائیاں آپ کے سامنے لاؤں گا فی الحال جنرل قاسم سلیمانی کی بات کرتے ہیں جن کی شہادت سے حالات نے ہچکولے کھانا شروع کر دیئے ہیں۔

قاسم سلیمان اس وقت پیدا ہوا جب پاکستان اور ایران شیر و شکر تھے۔بہار کے دنوں میں گیارہ مارچ 1957ء کو صوبہ کرمان کے ایک گاؤں میں قاسم سلیمانی ایک کسان کے ہاں پیدا ہوا، وہ بارہ سال کا تھا کہ گاؤں چھوڑ کر شہر آ گیا، گاؤں چھوڑنے کے لئے دل نہیں مانتا تھا مگر حالات دل کی کہاں مانتے ہیں سو حالات قاسم سلیمانی کو کرمان شہر میں لے آئے۔قاسم سلیمانی کچھ عرصہ ایک مستری کا شاگرد رہا پھر کرمان واٹر آرگنائزیشن میں کنٹریکٹر بن گیاوہ کچھ عرصہ ایک مستری کا شاگرد رہا پھر کرمان واٹر آرگنائزیشن میں کنٹریکٹر بن گیا۔ کام کاج سے فارغ ہوتا تو جم چلا جاتا اور راتوں کو امام خمینی ؒ کے خطابات سنتا۔

 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد قاسم سلیمانی پاسداران انقلاب کا حصہ بن گیا۔ابتدا میں اس نے شمال مغربی ایران میں کرد علیحدگی پسندوں کا صفایا کیا۔ 80کی دہائی میں عراق کے خلاف جنگ میں اس نے 41 ویں ڈویژن کی کمانڈ کی۔ انہوں نے عراقی فوج سے ایران کے کئی علاقے خالی کروائے۔ یوں پاسداران انقلاب میں وہ تیزی سے نام بنانے والے کمانڈر بن گئے۔

80کی دہائی میں قاسم سلیمانی پاکستانی جنرل اسلم بیگ سے بڑی عقیدت سے ملے۔ انہوں نے صدام حسین کو ہٹانے میں بھی کام دکھایا۔ وہ عراق اور شام میں داعش کی پسپائی کا باعث بھی بنے۔امریکی حکام جنرل قاسم سلیمانی سے بہت تنگ تھے کیونکہ وہ خطے میں بچھائی ہوئی امریکہ کی ہر بساط کو لپیٹ کر رکھ دیتے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی ایرانیوں میں ایک ہیرو کے طور پر جانے جاتے تھے، وہ بیرون ملک ایرانی دشمنوں سے لڑنے والے مشہور تھے۔قاسم سلیمانی نے مشرق وسطیٰ میں ایک ماہر فوجی حکمت کار کے طور پر بہت نام کمایا۔

جنوری 2011ء میں ایرانی راہبر علی خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے انہیں زندہ شہید قرار دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے مشرق وسطیٰ میں ایک ماہر فوجی حکمت کار کے طور پر بہت نام کمایا۔پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ اکثر و بیشتر ایران سے باہر آس پاس کے ملکوں میں سفر پر رہتے تھے۔ شہادت سے پہلے تین بار 2006ء، 2012ء اور پھر 2015ء میں یہ افواہیں سامنے آئیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا گیا ہے۔ کم گو اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی کو قدامت پسند حلقے بہت پسند کرتے تھے۔

کچھ عرصہ پہلے وہ دوستوں سے یوں مخاطب ہوئے کہ ’’میں فرزند کربلا ہوں، شہادت میری آرزو ہے‘‘۔شہادت کی آرزو کرنے والے کو جمعہ تین جنوری کی صبح شہادت مل گئی۔ وہ بیروت میں حزب اللّٰہ کے سربراہ سید حسن نصر اللّٰہ سے مل کر بائی روڈ دمشق پہنچے، دمشق سے عام پرواز پر بغداد پہنچے اور پھر بغداد ان کے لئے مقتل ثابت ہوا۔قطر کے العدید ایئر بیس سے اڑایا گیا ’’ہیل فائر ننجا میزائل‘‘ ڈرون کی صورت میں ان کی گاڑی کو لگا۔ اس منصوبے کی نگرانی امریکی ریاست نیواڈا کے ایئر بیس سے کی گئی۔قاسم سلیمانی گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔

امریکیوں اور اسرائیلیوں کی کافی عرصے سے یہ خواہش تھی کہ وہ جنرل قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹا دیں کیونکہ قاسم سلیمانی گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔طلسماتی شخصیت کے مالک، اعلیٰ فوجی حکمت کار قاسم سلیمانی نے شیعہ سنی کے جھگڑے میں پڑے بغیر عراق، شام اور فلسطین جیسی غیر شیعہ ریاستوں کا دفاع کیا، عراق، لبنان، شام، فلسطین اور یمن میں ملیشیائوں کو طاقتور بنایا، انہیں جنگی حکمت عملیاں سکھائیں۔

ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ راجہ ناصر عباس بتاتے ہیں کہ ’’پاکستانی قیادت نے جب یہ کہا کہ ایران پر حملہ ہوا تو ہم غیر جانبدار رہیں گے، اس پر جنرل قاسم سلیمانی بولا کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو ہم اپنا خون دیں گے، پاکستان کیلئے شہید ہونا میرے لئے باعثِ افتخار ہے‘‘۔ بقول اقبال

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

 

 

تحریر: مظہربرلاس
بشکریہ روزنامہ جنگ

وحدت نیوز(آرٹیکل) شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں انکی زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ خداکی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کے فلسفہ عقیدہ وجہاد کوعملی کرنے میں گزاری جیسے کہ مجاہدین وشہداء کے سید الشھداء امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

زندگی عقیدہ وجہادسے عبارت ہے۔مضبوط اور حماسی عقیدے ہی شخصیات کو اجتماعی حیات طیبہ کادرس دیتے ہیں

ہم ذیل میں انکی بعض اہم خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں

1بصیرت اور دشمن شناسی:

شہید قاسم سلیمانی ایک نڈر عسکری لیڈر ہونے کیساتھ دشمن شناس اور بصیرمجاید تھے وہ اپنے لیڈر اور رہبر کے ارادوں اور احساسات سے خوب واقف تھے وہ جانتے تھے کہ کب کہا کیا کرناہے۔وہ شناخت وبصیرت کے اس نہج پر فائز تھے کہ بصیرت ان پر ناز کرتی ہے۔

2:سید الشہداء مقاومت:

مجاہد عظیم سید مقاومت نے اپنے پیغام میں انہیں سیدالشھداء مقاومت کے لقب سے نوازا وہ یقینا اس بلاگ کے سیدالشھداء نے جنہوں نے سرزمین شام عراق ایران سمیت پورے خطے میں مسلمانوں کوعزت واستقامت سے جینے کاگرسیکھایا۔

3:وظیفہ شناس شخصیت:

انکی زندگی میں ایک اہم ترین پہلو انکی وظیفہ شناسی ہے۔وہ ہمیشہ بے چین رہتے تھے، انکی ہمسر گرامی کے بقول انسانیت کی خدمت اور سعادت کی خاطر وہ بیابانوں اورپہاڑوں میں متلاشی شہادت رہتے تھے ۔

4:ملکوتی شہادت:

انکی شخصیت چونکہ ملکوتی اور معراجی تھی لہذا دنیا کے نجس اور پلید ترین لوگوں کے ہاتھوں وہ شہید ہوئے اور ملکوت اعلی میں اللہ کے فرشتے بھی یقینا انکی شہادت پر رشک کرتے نظر آئے ہونگے۔

امریکہ نے کیوں نشانہ بنایا؟؟

امریکہ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے فتنے داعش کی مکمل ذلت آمیز پسپائی کے بعد پورے دنیا میں رسوا ہوچکاتھا لہذا اس رسوائی کابدلہ لینے کےلئے انہوں نے مقاومتی بلاگ کے علمدار کا انتخاب کیا لیکن یہ اس دشمن پیلد کی بھول ہے ۔قاسم سلیمانی جیسی شخصیات کی شہادت مزید ہزاروں مقاوم اور بصیرشخصیات کی تربیت کا سبب بنتی ہے۔اور امریکہ جیسے پلید کی مزید رسوائی کاباعث بنتی ہیں۔

امریکہ بنیادی طور پر سردار سلیمانی جیسی شخصیات کی شہادت کے ذریعے تین کام چاہتاہے۔
1: مقاومت بلاگ کوخوفزدہ کریں اور نتیجہ میں کمزور ہو۔
2: شخصیات کی شہادت کے ذریعے امت اسلامیہ کے حوصلے پست کریں۔تاکہ وہ مقاومت کے راستے سے ہٹیں ۔
3: اپنی جنایتوں کوچھپانے کےلئے داعش کے قاتلوں سے انتقام لیں تاکہ داعش کی باقیات کوخوش کریں۔

اور ہم۔سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کی خبر کے بعد دنیا بھر میں انکے چاہنے والے مختلف حوالوں سے اپنا احتجاج، اور غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں۔لیکن ہمیں متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کہ ان حساس حالات میں عظیم سردار اسلام، مقاومت بلاگ کے سیدالشھداء کا انتقام کیسے لیں۔

ہم
ولی فقیہ کی اطاعت۔
دشمنوں سے عملی نفرت۔
آپس میں اتحاد ووحدت۔
اپنی اور اپنے معاشرے کی انقلابی تربیت۔
اپنے زمانے کے امام کی شناخت ومعرفت۔
مقاومتی بلاک کی مدد۔
 شہید قاسم سلیمانی اور انکے ساتھیوں اور انکے نظرے کی شناخت اور تبلیغ کے ذریعے دشمنوں خصوصا شیطان اکبر سے انتقام لے سکتے ہیں۔


تحریر: محمدجان حیدری

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلگت بلتستان کے جس علاقے میں بھی جاتا ہوں ہر کوئی مذہب پہ یا کسی مذہبی شخصیت پہ انگلی اٹھاتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ یوں کہے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ مذہب پر انگلی اٹھانا تو اب فیشن بن گیا ہے۔یہاں تک کہ پڑھا لکھا طبقہ تو ہمیشہ مذہبی بہت سارے معاملات میں خود اجتھاد کرتا ہے اور اپنی ذاتی سوچ کو ہی حرف آخر سمجھنا ضروری سمجھتا ہے۔ دینی معاملات میں بھی بعض افراد یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ میرا دل نہیں مانتا۔ اس میں خود مذاہب، فرقوں اور علماء کا اختلاف ہے لھذا اس مسئلے میں میں وہ کرتا ہوں جو میرا دل مانے۔ جس طرح مذہب مورد تنقید ہوتا ہے ویسے ہی مذہبی فرد بھی تنقید کا نشانہ ہوتا ہے۔ خصوصا اگر کوئی دینی طالب علم ہو جو دینی علوم کے حوالے سے کوئی بات کرے، یہاں تک کہ بعض تو وہ ہیں جو دینی طلبا کو خاطر میں لاتے ہی نہیں۔ بلکہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے کو قدامت پسند اور تیسری دنیا کے مخلوق سمجھتے ہیں، کیونکہ ان نفسانی خواہشات کے اسیر بظاہر اہل علم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی علمائے دین ہیں۔ جو بے حیائی و عریانی اور مخلوط پروگرامز وغیرہ کے انعقاد کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ ان پہ سرعام تنقید کرتے ہیں۔ وہی افراد جو قوم کے بچوں کے ساتھ ایسے اجتماعات کرتے ہیں جو وہ اپنے بچوں کے ساتھ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ جبکہ دینی تعلیم و تربیت سے عاری ایسے ڈگری یافتہ افراد نے معاشرے کی بنیادوں کو جس طرح دیمک کی طرح چاٹ کر اور اور دانتوں سے چبا کر رکھا ہے اس کی ایک لمبی داستان ہے، جس کو ہم کسی اور موقع پہ بیان کریں گے۔

جس طرح مذہب کے خلاف بولنا فیشن ہے اسی طرح دینی طلبا کے خلاف زہر اگلنا بھی فیشن ہے۔ حیرت کی انتہا تب ہوتی ہے جب یہ سننے کو ملتی ہے کہ اگر مذہب کے ساتھ رہے تو ترقی نہیں ہو سکتی۔ مذہبی پارٹیوں نے بلتستان کو تاریک میں رکھا۔ اب مذہبی پارٹیوں کونہیں بلکہ وفاقی پارٹیوں کو ووٹ دے کر جتوانا چاہئے تاکہ ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جائے۔ ہمارا مستقبل روشن تب ہوگا جب ہم وفاقی پارٹی کے ساتھ رہیں گے۔" بلتستان حلقہ 2 میں اب باقاعدہ یہ کہا جارہا ہے کہ مذہبی پارٹیوں کی وجہ سے یہ حلقہ پسماندہ رہا ہے لھذا اب وفاقی پارٹی کا جیتنا ضروری ہے۔ در اصل یہ ماضی سے انجان ہونے کی نشانی ہے۔ یادش بخیر گلگت بلتستان میں ایک وفاقی پارٹی جیت گئی تھی یہاں تک اسی مذکورہ حلقے میں بھی وفاقی پارٹی کا نمائندہ بھاری اکثریت سے جیتا تھا اس کا تعلق کسی مذہبی پارٹی سے نہیں تھا۔ اس کے دس سالہ دور اقتدار میں کونسا بڑا کارنامہ انجام دیا گیا؟ کون سا ایسا تیر مارا وفاقی سیکولر پارٹی ہونے کے ناطے۔ سوائے کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروی اور لاقانونیت کی انتہاءکے۔ جب پہلے ایک وفاقی پارٹی کے دس سالہ دور اقتدار میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا تو آپ کی پارٹی سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے جبکہ اس میں وہی پرانے لوٹے جمع ہیں۔

آپ پھر کہتے ہیں کہ ہمارا خطہ مذہبی پارٹی کی وجہ سے پسماندہ رہا۔ لگتا ہے آپ کی نظر بہت ہی محدود ہے۔ آپ کو ابھی تک آپ کے بنیادی مسائل سے واقفیت ہی نہیں ہے تو آپ کیا ترقی کی بات اور ترقی کے راز بتاتے ہیں؟ آپ کی نظر میں ترقی سے مراد سڑک کشادہ ہو، گلی کوچے پکے ہوں، بجلی کے فراوانی ہو، آپ کی تفریح کے لئے پارک اور سیرگاہ ہوں۔ توجناب یہ تو ترقی نہیں ہے بلکہ یہ تو آپ کی بنیادی ضروریات ہیں جن کو پورا کرنا ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے یہ تو آپ کے بنیادی مسائل ہیں جس کو حل کرنے کے لئے ذمہ دار افراد بیٹھے ہیں مگر ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے۔ حقیقت میں آپ کی ترقی یہ ہے کہ اپ کی تقدیر کے فیصلے آپ کے ہاتھوں میں ہو۔ آپ کی تعلیم کا نظام آپ کا اپنا بنایا ہوا نظام تعلیم ہو۔ آپ کا اقتصاد آپ کے ہاتھوں میں ہو۔ ہمارے آباؤاجداد نے جس نظریے کی خاطر پاکستان میں شامل کیا تھا اس نظریئے کا تحفظ اپ کریں اور اس کی ترویج کا اختیار آپ کے پاس ہو تو ہم کہیں گے کہ آپ ترقی یافتہ ہیں۔ جبکہ حقیقت بلکل اس کے برعکس ہے۔ یہ خود کسی این جی او کے ملازم ہیں اور کسی دوسرے کے ایجنڈے پہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ چند ختم ہونے والے پیسوں کے عوض اپنی قوم وملت کا سودا کرتے ہیں آپ کو کیا پتہ کہ قوم کی ترقی کا راز کیا ہے؟

یہ وہ لوگ ہیں جن کو قوم کی عزت سے ذیادہ اپنا پیٹ عزیز ہے اپ کہتے ہیں کہ اس حلقے کو مذہب نے پسماندہ رکھا۔ میں تو کہتا ہوں اس حلقے کو آپ جیسے مفاد پرستوں ، شکم پرستوں اور مغربی این جی اوز کے فضلہ خوروں نے پسماندہ رکھا۔ اس حلقے کو سیاسی ضمیر فروش لوگوں نے پسماندہ رکھا۔ اس علاقے کو پسماندہ ان وفاق پرست پارٹیوں نے رکھا جن کا ہم و غم الیکشن میں جیت کر پانچ سال لوٹنا ہوتا ہے۔ نتیجہ تمام لوٹے پانچ سال مفادکے لئے جمع ہوتے ہیں نظریئے کے لئے نہیں جمع ہوتے۔ یہی وجہ ہے جب اگلے پانچ سال کے لئے کوئی دوسری پارٹی برسر اقتدار آ جائے تو یہ مٹھی بھر کمیشن خور وفاقی پارٹی ڈھونڈتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ بس پیسہ اور اقتدار ہے۔ یوں پوری زندگی لوٹا کریسی اور ضمیر فروشی میں گزر جاتی ہے اور اسی کو اپنی بہترین حکمت عملی سمجھتے ہیں ۔ جس کی نظیر بھی اب میرے شمار سے باہر ہے۔ میرے بھائی آپ اگر اہل علم میں سے ہیں تو چشم بصیرت کے ساتھ دیکھ لوتاکی کچھ حقیقت آپ کو نظر آجائے۔

میں اس بات کا ببانگ دہل اعتراف کرتا ہوں کہ بلتستان میں حلقہ 2 نے ہمیشہ مذہبی حلقہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور باقی حلقوں کی نسبت ایک باشعور حلقہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس اس حلقے میں ذمہ داری، حکمت عملی اورپلاننگ کے ساتھ باقاعدہ کوئی تربیتی، تعلیمی، معاشرتی ، سیاسی وسماجی اور ترقیاتی خصوصا کوئی فکری اور نظریاتی کام نہیں ہوا ، پھر بھی کسی حد تک کام ہوا ہے۔ جو کہ نہ ہونے کے برابرہے۔

اسوقت قوم کی زیادہ سے ذیادہ فکری اور نظریاتی تربیت ضروری  اور واجب ہے۔ قومیں  سڑکوں، عمارتوں اور مادی ترقیوں سے باقی اور قائم نہیں رہتی، بلکہ قومیں افکار اور نظریات کی بنیاد پر قائم رہتی ہیں۔ ہرقوم کو اس کے پائیدار نظریات سے پہچانا جاتا ہے اور انقلاب کا دارومدار بھی نظریات ہی ہوا کرتا ہے۔ اسی لئے سامراجی طاقتوں نے تمام حربوں کو آزمایا، جب ناکام ثابت ہوئے تو ایک خطرناک حربہ آزمایا جس سے پوری قوم ملیامیٹ ہوجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس قوم کو اس کے نظریئے سے ہٹادو۔ مثلا عراقی قوم میں سیکولر نظریات کو پھیلانے کے لئے عبد الکریم اور حسن بکر نے ایڑی  چوٹی کا زور لگایا اور اس کا آغاز سکول کے بچوں سے کیا۔ جس کی سزا آج عراقی بھگت رہاہے۔ اسی طرح آپ ترکی کو دیکھ لیں۔ اب ایک عرصے سے ایران نشانہ پر ہے۔ جس طرح ان ملکوں کو تباہ کرنے کے لئے ان ملکوں کے باشندوں سے ان کے نظریات چھیننے کی کوششیں کی جارہیں ہیں آج گلگت بلتستان سے بھی ان کے اس نظریہ کو چھینا جارہا ہے جس نظریہ کی وجہ سے اس خطے کا پاکستان کے ساتھ سب سے مضبوط رشتہ قائم ہے۔اور وہ نظریہ توحید، اسلام ، قرآن کا نظریہ ہے۔ نظریہ توحید ہی وہ بنیادی نظریہ ہے جس سے انسان اقدارپرست 'قانون 'اخلاق اور ظالم سے نفرت اورمظلوم کا ہمدردبنتاہے۔ جس طرح حکیم امت نے فرمایا

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کھبی
آج کیا ہے ، فقط اک مسئلہ علم کلام

عقیدہ توحید کا نظریہ وہ بنیادی نظریہ ہے جس سے انسانی زندگی میں انقلاب آتا ہے۔ انسان نہ ظلم کرتا ہے نہ ظالم کو برداشت کرتا ہے بلکہ ظلم اور ظالم کے راستے کو روکنے کاجذبہ پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں بحیثیت مسلمان ہر برائی کے خلاف قیام کرنا ضروری ہے۔ گلگت بلتستان کا ہر فرد اسی جذبے سے سرشار ہے اور ظلم و ظالم کا راستہ روکنے کے لئے تیارہے جس کی وجہ سے اب گلگت بلتستان میں اسی جذبے کوختم کرنے کے لئے باقاعدہ سکیم اور پلاننگ کے ساتھ سیکولر نظریات کی ترویج کی جارہی ہے اور نوجوانوں کوٹارگت کیا جارہا ہے جوکی سب سے خطرناک اور ہولناک سازش ہے جس کی روک تھام ضروری ہے وگرنہ انے والے سالوں میں یہ خطہ بے مثال  جرائم و کرائم ، بدامنی اورتمام منکرات کا مرکز ہوگا۔ جس کا خمیازہ یہاں کے  ہر ایک باسی کو بھگتنا پڑے گااور وہ نقصان کہیں ذیادہ ہوگا موجودہ پسماندگی سے (بقول بعض)۔ جس طرح سابقہ کمشنر حمزہ سالک نے بلتستان کے لوگوں کو سیکولر ہی قرار دیا تھا۔ جس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ اس خطے کو ایک مذہبی خطے سے نکال کر ایک بے دین، لاابالے، لا تعلق اور بے حس خطہ بنانے کی پوری کوشش ہورہی ہے تاکہ عالمی طاقتوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ ایسے میں گلگت بلتستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ مذہب نہیں ہے بلکہ یہ نظریہ ہے جس کی ترویج ہر جگہ خصوصا تعلیم کے نام پر تعلیمی اداروں میں کی جا رہی ہے۔اور اب انے والے الیکشن میں سیکولر، بے دین، روشن خیال، خائن، ضمیر فروش اور دین و مذہب مخالف افراد کو لایا جائے گا اور مذہبی پارٹیوں کا صفایا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایسے میں ہمیں بھی باریک بینی کے ساتھ ان سازشوں کے خلاف ہمت و ہوشیاری سے مقابلہ کرکے ان باطل نظریات کی روک تھام کرنا ہوگی۔ ورنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔


تحریر: شیخ فداعلی ذیشان

وحدت نیوز(آرٹیکل) اس وقت لیبیا پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں لیبیا میں کھل کر آمنے سامنے آ چکی ہیں. 2011 سے لیبیا کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے.  ایک طرف قتل وغارت کا بازار گرم ہے، خون بہ رہا ہے، تباہی وبربادی ہو رہی ہے تو دوسری طرف عالمی اور علاقائی طاقتیں مقامی ایجنٹوں کے ذریعے لیبیا کے قدرتی وسائل اور ذخائر لوٹ رہی ہیں.

لیبیا شمالی افریقہ کا تقریبا سات ملین کی آبادی کا عرب اسلامی ملک ہے۔ انتظامی تقسیم کے لحاظ سے اسکے 22 اضلاع ہیں. اس کے شمال میں سمندر ، مشرق میں مصر ، جنوب مشرق میں سوڈان ، جنوب میں چاڈ اور نیجر ، اور مغرب میں الجزائر اور تیونس واقع ہیں. لیبیا کا دارالحکومت طرابلس تقریبا ایک ملین کی آبادی کا شہر ہے. لیبیا 1951 میں اٹلی استعمار سے آزاد ہوا اور 1969 میں فوجی ڈکٹیٹر کرنل معمر قذافی نے ایک فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سنبھالا جس کے خلاف فروری 2011 میں ایک تحریک چلی اور اگست 2011 میں اس کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔ 20 اکتوبر 2011 کو معمر قذافی کو وحشیانہ انداز سے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا. گیس اور پٹرول سے مالا مال اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا گیا. 2012 سے ابتک کوئی مستقل حکومت قائم نہیں ہو سکی اور اس وقت کی عارضی حکومت جس کا کنٹرول صرف طرابلس تک محدودہے اس کے سربراہ اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے فائز السراج  ہیں. جبکہ ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول لیبیا کی فوج کے سابق جنرل خلیفہ حفتر کے پاس ہے.

اگر ہم ان تمام حالات و واقعات کو بیان کریں اور تحلیل وتجزیہ لکھیں تو اس کے لئے دسیوں کالمز کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا. ہم اس کالم میں لیبیا کی صورتحال میں عالمی طاقتوں اور خطے میں معروف  سنی سیاسی اسلام کی علمبردار اخوان المسلمین کے کردار کے چند ایک پہلوؤں کا تذکرہ کریں گے.

موجودہ صورتحال میں لیبیا کے اندر عالمی اور علاقائی طاقتوں کا کردار

دوسری عالمی جنگ کے بعد جب مسلم وعرب ممالک نے آزادی حاصل کی تو مجموعی طور پر خطے میں ایک ایسا سیاسی نظام وجود میں آیا کہ جس کے بنیادی فیصلے مشرقی یا مغربی بلاک کی مرضی سے ہوں. استعماری طاقتوں نے اپنا اثر نفوذ قائم رکھنے اور مفادات کے حصول کے لئے کسی ملک میں بادشاہت اور کسی ملک میں فوجی ڈکٹیٹر شپ اور کسی ملک پر نام نہاد جمہوری نظام مسلط کیا. اس سیاسی نظام  کی حالت یہ تھی اور ہے کہ جب جہان اسلام کے سنگم میں ناجائز صہیونی ریاست قائم کی گئی تو چند لاکھ یہودیوں کے سامنے کروڑوں مسلمان بے بس نظر آئے.  ایک ناجائز چھوٹی سی ریاست نے پورے جہان اسلام کی بڑی بڑی فوجوں کو کئی بار ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا اور انکی زمینوں پر بھی غصب کیا.

فروری 1979 میں جب حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو استعماری منصوبوں کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا. اس اسلامی بیداری سے آنے والے اس عوامی واسلامی انقلاب کی کامیابی سے دنیا بھر کے مظلوم و مستضعف اقوام بالخصوص جہان اسلام میں آزادی وخود مختاری کی امید پیدا ہوئی.  لیکن 2000 اور 2006 کی اسرائیلی شکست وذلت اور حزب اللہ لبنان کی فتح وکامیابی کے بعد جہان عرب واسلام کے جوانوں میں اسلامی بیداری نے جنم لیا.  اور بڑی  تیزی سے عرب ومسلم اقوام میں مقاومت کے بلاک کو مقبولیت حاصل ہوئی. وہ مقاومت کا بلاک جس کا محور ومرکز ولایت فقیه کا ایران اور جس کا ایک مضبوط قلعہ ملک شام اور اسکے طاقتور بازو فلسطین ولبنان ، عراق وشام اور یمن کی انقلابی تحریکیں ہیں.  

عالمی استعماری طاقتوں نے خطے میں موجود اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر کر قلعہ مقاومت کو منھدم کرنے ، مرکز مقاومت کو توڑنے اور اسلامی انقلابی تحریکوں کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا اور جہان عرب واسلام میں جنم لینے والی اسلامی وعوامی  بیداری کی موج پر سوار ہوکر اسے مقاومت کے بلاک کے خلاف استعمال کرنے کی پوری کوشش کی. حقیقی انقلابی فکر کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمن نے تکفیریت ووھابیت اور اخوانی طرز تفکر سے منسلک گروہوں کو میدان میں اتارا. اس ایجنڈے کی تکمیل میں ایک طرف سعودی عرب و متحدہ عرب امارات اور دوسری طرف ترکی وقطر کا اہم کردار رہا ہے. تکفیریت ووھابیت کی سربراہی و پشت پناہی سعودی عرب وامارات اور اخوانی طرز تفکر کی سربراہی وپشت پناہی ترکی اور قطر کر رہے ہیں.

دشمن نے 2006 کی جنگ میں مقاومت کی فتح و کامیابی کے بعد استعماری نفوذ والے سیاسی نظام سے  عوام بہت متنفر ہوئے.  اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور عزت کے ساتھ جینے اور اپنے حقوق کے حصول اور آزادی وخود مختاری کا جذبہ پیدا ہوا.  دوسری طرف کسی بھی اسلامی بیداری کی تحریک کوم کچلنے اور خطے میں سیاسی بحران اور افراتفری پھیلانے کا استعماری منصوبہ بنا. جسے امریکیوں        " فوضی خلاقہ " سے تعبیر کیا. اور اس افراتفری پھیلانے میں سعودیہ وامارات اور ترکی وقطر نے بنیادی کردار ادا کیا. اور انھوں نے تکفیری ووھابی واخوانی گروہوں کو جدید اور پیش رفتہ ترین اسلحہ فراھم کیا اور انکی بھرتیاں اور ٹریننگ کے مراکز بنائے.  اور مطلوبہ ممالک میں قبل از وقت مقدماتی کاروائیوں اور سلیپنگ سیلز کی تشکیل دینے کے لئے پہنچا دیا. قطر کے سابق وزیراعظم شیخ حمد بن جاسم نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ 2011 سے 2014 تک ڈرائیونگ سیٹ پر ہمیں (قطر وترکی (اخوان) ) کو  بیٹھایا گیا اور باقی سب (سعودیہ ، امارات وغیرہ ) ہمارے ساتھ اور پیچھے والی سیٹ پر سوار تھے.  یعنی امریکا وغرب اور اسرائیل کی پشت پناہی سے ہم نے  لیبیا ، تیونس ، مصر اور شام میں جو کچھ کیا ہم چاروں ممالک اسے ملکر انجام دے رہے تھے. اسکی مینجمنٹ.، میڈیا وار  ، اسلحہ واموال وافرادی قوت کی فراھمی میں بھی سب شریک تھے.

لیبیا نشانہ پر کیوں؟ اور کیسے؟

جاری ہے ۔۔۔


تحریر: علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) یوں تو بلتستان کے چپے چپے میں جانے کا اتفاق ہوا اور وقتا فوقتاً دور دراز علاقوں میں دورے کا اتفاق بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ میں ایک ایسی شخصیت کے ساتھ رہتا ہوں جس کی پوری ذندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ 'جس کے اوقات غریبوں کے مسائل کے حل میں گزرتے ہیں جس کی ذندگی کے اکثر ایام سفر میں ہی گزرتے ہیں۔ ایک ایسا مرد حر جو غریبوں کی آواز ہے، مافیا اور چوروں کے خلاف سب سے ذیادہ صدائے احتجاج بلندکرنے والا، اور ظالم کے خلاف سب سے طاقتور آواز کے مالک عالم مبارز مجاہد ملت آغا سید علی رضوی۔ حالیہ دنوں میں ان کی ہمراہی میں بلتستان کے کچھ علاقوں کا تفصیلی دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ اس مرد حر کی قیادت میں ہم بشو گئے انتہائی پر خطر اور کٹھن راستوں(ایک تو راستہ بہت ہی تنگ اور برف کی وجہ سے خطرناک ) سے ہوتے ہوئے ہم کھر پہنچے، جہاں پر علاقے کے زعماء، علماء اور جوانوں نے گرم جوشی سے استقبال کیا اور مختصر پروگرام منعقد کیا واپسی پہ جب ہم ایک خطرناک موڑسے مڑ رہے تھے تو سمت مخالف سے گاڑی آرہی تھی، بڑی مشکل سے ہم نے کراس کیا۔ خطرناک راستہ اور راستے کی خستگی کو دیکھ کر ایک عالم سے راستہ اور ترقیاتی کاموں کے بارے میں پوچھا تو اس نے عجیب داستان غم سنایا، جس نے مجھے بھی ارباب اقتدار کی توجہ مبذول کروانے پے مجبورکیا، اور اس تحریر کے ذریعے سے بلتستان کے بارے میں کچھ حقائق ضبط تحریر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ عوام آگاہ ہوں اور ان مافیاوں کے خلاف جدوجہد کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر نمائندہ کو اے ڈی پی کے مد میں کڑوروں روپے اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کاجال بچھانے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ مگربلتستان کے کسی بھی علاقے میں ترقیاتی کام نظر نہیں آتا۔ جس طرح بجلی کی پیداوار کے نام پر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کے ساتھ پاور ہاؤس بنایا جاتا ہے، جبکہ آئے روز بجلی نہ کہیں نظر آتی ہے اور نہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ بلکہ دن بدن لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یا اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب کے لئے کچھ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

اسکی ایک وجہ جو سمجھ آئی وہ شاید اس دورے کے دوران سنی گئی روداد سے واضح ہو۔ جب میں بشو پہنچا اور وہاں کے مسائل جاننے کی کوشش کی تو ایک صاحب نے کچھ حقائق کا اظہار کیا وہ کہتا ہے کہ اس روڑ کے لئے ایک نمائندہ نے ایک کڑور کا اعلان کیا مگر ٹھیکہ درٹھیکہ ہوتا ہوا ابھی منصوبے پہ ذیادہ سے ذیادہ 22 لاکھ خرچ کیا گیا ہے  اور اس پیسے کی وجہ سے کچھ بھی کام نہیں ہوا۔ بس دو جگہوں پہ دیوار بنائی گئی ہے اور ایک دو جگہوں پے تھوڑا سا راستہ کشادہ کرنے کے لئے کاٹا گیا ہے اور بس۔ اسی طرح دیگر منصوبوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے حتی کی چند لاکھ روپے والے منصوبوں میں بھی یہی ہوتاہے۔ جہاں انجیئنر اور ٹھیکہ دار کی ملی بھگت سے کھانے اور کمانے کا جن سوار ہوتا ہے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ ان چوروں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے لئے تیار نہیں۔

 جبکہ ہم سنتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک منصوبہ مکمل ہونے کے بعد دوسال تک ٹھیکہ دار اور انجیئنر دونوں ذمہ دار ہیں۔ اگر معمولی بھی کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو ٹھیکہ دار کو سخت ترین سزادی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان خصوصا ہمارے خطے میں اس کے بلکل برعکس ہوتا ہے۔ اسی طرح اہل مفاد پل اور پاور ہاوس کی تعمیر پر بضد ہیں کیونکہ اس میں کمانے اور کھانے کے لئے پیسہ بہت ہے۔ جب ایک منصوبہ دوچار بار فروخت ہوجائے تو جتنا پیسہ خرچ ہونا چاہئے اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے۔ مثلا  کچورا میں تین پاور ہاوس موجود ہیں مگر دو پاور ہاوسز کی صرف عمارتیں کھڑی ہیں۔ اسی طرح ہرپو پاور ہاوس کی بھی عمارت ہے مگر بجلی نہیں ہے۔ ہم نے سنا تھا کہ پاکستانی اداروں میں خصوصا گلگت بلتستان میں نوکری بکتی ہے، ضمیر کا سودا ہوتا ہے مگر افسوس! یہاں تو کمیشن پر ٹھیکہ بھی بکتا ہے اور جب ایک ٹھیکہ ایک دو تین بار بک جائے توجتنا پیسہ اس منصوبے پہ لگنا چاہئے اتنا پیسہ نہیں لگتا جتنا اس کام کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ نتیجتا کسی بھی علاقے میں کوئی ترقیاتی  کام ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا۔

ایک مثال سکردو شہر کی سڑکوں کی بھی ہے۔ شہر کی مختلف سڑکوں کو ری کار پیٹ کرایا گیا مگر تین ماہ کے قلیل عرصے میں ری کارپیٹنگ کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔ سڑکیں پھرسے کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ اسی طرح کچورا پل کسی ٹھیکہ دار کو ٹھیکہ ملا تھا۔ اس نے کسی دوسرے ٹھیکہ دارکو فروخت کیا۔ کتنے ہی پاور ہاوسز کی بڑی بڑی عمارت تو نظر آتی ہے مگر کہیں بجلی نظر نہیں آتی۔ پھراس سے ذیادہ افسوس اور دکھ ان بے حس بیورکریٹس اور مفاد پرست کمیشن خوروں پر ہوتا ہے۔ جو جو پاور ہاوس کی عمارت بنانے پہ بضد نظر آتے ہیں خصوصا مقپون پاور ہاوس۔ جس کی تعمیر پر اہل مفاد بضد ہیں جبکہ اہل علاقہ مخالف ہیں۔ کیاعمارت تعمیر کرنا کافی ہے ؟جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری عمارتیں بلکل تیار ہیں بلکہ کچھ توبوسیدہ ہوگئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جب بھی کوئی منصوبہ کسی جگہ منظور ہوتا ہے توجتنا پیسہ خرچ ہونا چاہئے اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک منصوبہ ایک بار ٹینڈر اور کئی بار مختلف ہاتھوں سے بکتا ہوا پیسہ کم ہوجاتا ہے۔ اور اس جرم میں ارباب اقتدار و اختیار کے ساتھ ساتھ کچھ خاص لوگ شریک ہیں ۔ خصوصا انتظامیہ کے لوگ جو دولت مندوں کے سامنے بلی اور غریبوں کے سامنے شیر نظر آتے ہیں۔ نتیجہ گلگت بلتستان جیسے چھوٹے شہروں میں بہت سارے ترقیاتی منصوبوں پرکام ہونے کے باوجود کہیں پر بھی کوئی کام نظر نہیں آتا۔ ورنہ چھوٹے سے شہر میں اگر ایمانداری سے کام کیا جائے تو بے مثال شہر بن سکتا ہے۔

تحریر : شیخ فدا علی ذیشان

وحدت نیوز(آرٹیکل)عالمی عدالت انصاف کی جانب سے فلسطینی عوام کے حق میں فیصلہ آ چکا ہے ا ب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح امریکی حکومت عالمی اداروں کو بلیک میل کر کے انسانیت سوز مظالم کے مرتکب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی خاطر قوانین کی دھجیاں بکھیرے گی یا پھر اپنے دعووں کو سچا ثابت کرنے کیلئے انسانی حقوق کی اصل بنیاد کے ساتھ کھڑی ہو گی۔

حال ہی میں عالمی فوجداری عدالت (International Criminal Court) نے اسرائیل کی جانب سے جنگی جرائم کے ارتکاب پر تحقیقات کرنے کا فیصلہ سنایا ہے جس کے بعد فلسطین کے مظلوم عوام نے امید اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ کو فلسطینیوں کی جاری جدوجہد آزادی کے لئے اہم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ سرزمین مقدس فلسطین پر غاصب صہیونیوں نے عالمی استعماری قوتوں برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے سنہ1948ء میں ایک ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لا کر فلسطینیوں پر بے پناہ مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔

البتہ تاریخ فلسطین کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فلسطینیوں پر صہیونی مظالم کا سلسلہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا اور صہیونیوں کے مظالم کی تاریخ کو آج ایک صدی سے زائد بیت چکا ہے لیکن فلسطین کے عرب باشندے اپنی ہی زمین کی تلاش میں ہیں اور اپنے ہی وطن جانے سے محروم ہیں۔

غاصب صہیونیوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کیا، جلا وطن کیا، ان کے گھروں کو مسمار کیا یا تو قبضہ کر لیا گیااور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور اس تمام مجرمانہ کارروائیوں میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

عالمی عدالت انصاف کی جانب سے واضح طور پر اعلان سامنے آیا ہے کہ عالمی فوجداری عدالت اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر کئے جانے والے سنگین مظالم اور جرائم پر اسرائیل کے جنگی جرائم کے مرتکب ہونے پر تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے۔اس بیان کے سامنے آتے ہی جہاں فلسطینیوں نے خیر مقدم کیا ہے وہاں صہیونیوں کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل نے عالمی عدالت انصاف کی توہین کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیو ں کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔

دوسری جانب امریکی سیکرٹری پومپیو نے بھی ہمیشہ کی طرح سے امریکی شیطانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کے بارے میں امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کی کوئی ریاستی حیثیت نہیں ہے۔
دنیا یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ یہی امریکہ اور برطانوی سامراج ہی تھا کہ جس کی پشت پناہی کے باعث صہیونیوں نے فلسطین کی سرزمین مقدس پر ایک ناجائز اور جعلی ریاست بنام اسرائیل قائم کی تھی اور آج امریکہ کھل کر فلسطینی عوام کے حقوق کی مخالفت کر رہا ہے۔

یہی وہ نقطہ فکر ہے کہ جس کو آج دنیا کے باشعور اذہان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کی دنیا بھر میں مخالفت اس لئے کی جاتی ہے اور امریکہ مردہ باد کے نعرے دنیا بھر میں اس لئے گونج رہے ہیں کہ امریکی حکومت نے دنیا کے لئے انسانی حقوق کی تعریف کچھ اور کر رکھی ہے جبکہ اپنے مفادات کے لئے اور بالخصوص امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کے دفاع اور اس کے جرائم اور مظالم کی پردہ پوشی کرنے کے لئے انسانی حقوق کی تعریف کچھ اور ہے اور یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام کو امریکی حکومت شاید انسانی حقوق کے زمرے میں لاتی ہی نہیں ہے۔

امریکی سیکرٹری پومپیو کے فلسطین مخالف بیان نے دنیا پر ایک مرتبہ پھر یہ بات واضح کر دی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی دہشت گردوں اور دہشت گردی کی حمایت کی ضرورت ہو گی امریکی حکومت اور اس کے عہدیدار ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔جیسا کہ پومپیو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے کہ جسے قانونی ریاست یا جائز ریاست تصور کر لیا جائے؟
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل جس کے جرائم اور دہشت گردانہ کارروائیاں روزمرہ فلسطینیوں کے خلاف جاری ہیں ایسی دہشت گرد ریاست کی حمایت کرنے سے کیا امریکی حکومت نے امریکہ کی عوام کی تذلیل نہیں کی ہے؟امریکی عوام کو بھی چاہئیے کہ اگر وہ دنیا میں اپنے ملک کے خلاف نفرت کو کم کرنا چاہتے ہیں تو پھر امریکی حکومت کی ان تمام پالیسیوں کی مخالفت کریں جس کے باعث امریکہ مردہ باد کے نعرے دنیا بھر میں گونج رہے ہیں۔

پوری دنیا پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ اسرائیل کو تحفظ دینے کی خاطر امریکہ اور اسرائیل نے مسلم دنیا میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی پرورش کی اور فلسطین کی مظلوم ملت کو گذشتہ ایک سو برس سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کیا دنیا میں اسرائیل سے بڑی دہشت گرد کوئی قوت موجود ہے؟ اور کیا اسرائیل جیسی دہشت گرد قوت کی حمایت میں سب سے آگے امریکہ کے علاوہ کیا کوئی اور حکومت موجود ہے جو اسرائیل کا دفاع کرے؟
خلاصہ یہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے فلسطینی عوام کے حق میں فیصلہ آ چکا ہے ا ب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح امریکی حکومت عالمی اداروں کو بلیک میل کر کے انسانیت سوز مظالم کے مرتکب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی خاطر قوانین کی دھجیاں بکھیرے گی یا پھر اپنے دعووں کو سچا ثابت کرنے کیلئے انسانی حقوق کی اصل بنیاد کے ساتھ کھڑی ہو گی۔

ظاہری طور پر امریکی سیکرٹری کے بیان سے یہی واضح ہو رہاہے کہ امریکہ اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی تحققات کئے جانے کے حق میں نہیں ہے۔اگر امریکی حکومت کا اسرائیل اور ظالموں کے تحفظ کے لئے یہی دستور ہے تو پھر دنیا کی تمام حریت پسند اقوام او ر فلسطین کی آزادی خواہی کے لئے سرگرم عمل قوتوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ امریکہ مردہ باد اور اسرائیل نامنظور کے نعروں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کریں۔

دنیا کی ظالم قوتوں کو یہ بات جان لینی چاہئیے کہ ظلم کی عمر زیادہ طویل نہیں ہوتی ہے اور بالآخر وہ دن قریب ہے کہ دنیا بھر میں مظلوم اقوام بشمول فلسطین، کشمیر، لبنان، عراق، شام، افغانستان، روہنگیا اور نیجیریا سمیت دیگر اقوام ان ظالم و جابر قوتوں کے ظلم و استبداد کو اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے اور وہ دن آئے گے او ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے۔


تحریر: صابر ابو مریم

Page 3 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree