وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایران میں کرونا وائرس کی رپورٹ کے بعد بلوچستان حکومت کی طرف سے کئے جانے والے فیصلوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفتان بارڈر کی بندش سے ایران میں موجود پاکستانی زائرین شدید مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مقامات مقدسہ کا براستہ سڑک سفر کرنے والے زائرین کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے  اور ان کے وسائل محدود ہوتے ہیں۔ایران میں قیام اگر طوالت اختیار کرلیتا ہے تو انہیں رہائش اور طعام جیسی مشکلات کا یقیناًسامنا ہو گا۔ان زائرین کو بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے۔ ایران میں موجود پاکستانی سفارت خانے کو ان زائرین کی مدد کے لیے ہنگامی بنیادوں پر خاطر خواہ انتظامات کرنے ہوں گے۔ایران میں موجود پاکستانی زائرین کے لیے امدادی سرگرمیاں موجود حالات کا تقاضہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کو بنیاد بنا کر مقامات مقدسہ جانے والے زائرین کی آمدورفت کو وقتی ضرورت کے تحت موخر تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسے بے جا طوالت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان سے ایران،عراق جانے والے زائرین پر پابندی کو تمام پہلوؤں سے بغور دیکھا جارہا ہے۔پاکستان ہر شہری کی صحت و سلامتی بلاشبہ مقدم ہے لیکن ان تمام امور میں نیک نیتی شرط اول ہے۔دنیا کے باقی ممالک سے اگر ایران میں آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو پھر پاکستانی حکومت کو بھی اپنے فیصلہ پر فوری طور پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) راولپنڈی اسلام آباد کی شیعہ مساجد کے آئمہ جمعہ جماعت نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے مرکزی سیکرٹریٹ ایم ڈبلیوایم میں ملاقات کی اور عالمی ایشوز سمیت ملکی و قومی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے علمائے کرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وطن عزیز کو اس وقت لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے۔جن کا مقابلہ دور اندیشی ، تدبر اور بہترین حکمت عملی سے ممکن ہے ۔ایران امریکہ تنازع میں پاکستان کو جاندار اور باوقار موقف اختیار کرنے کی ضرورت تھی تاکہ پڑوسی برادر ملک کے جرات مندانہ اقدام کی تائید ہوتی تاہم وزیر خارجہ کے کمزور موقف نے یہ ثابت کیا کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو عوامی امنگوں یا عالمی حالات کے مطابق طے کرنے میں بااختیار نہیں۔ شاہ محمود قریشی کی ایوان میں تقریر سے امریکی ڈکٹیشن کے اثرات جھلک رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف جس منشور کا واویلا مچا کر اقتدار میں آئی اس پر عمل درآمد کی ابھی تک کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔پاکستان کو بیرونی ڈکٹیشن اور قرضوں سے آزاد کرنے، ملکی معیشت کی مضبوطی، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ، انصاف کی بلاتحصیص فراہمی سمیت تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔غریب کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جس گھر میں راشن کے اخراجات پورے نہیں ہوتے وہاں تعلیم و ہنر کے لیے وسائل کی دستیابی کیسے ممکن ہے۔تحریک انصاف کی حکومت ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت کے قریب موجود موقع پرست عناصر کا بھی اس بدحالی میں کلیدی کردار ہے۔عالمی طاقتوں کے مہرے بھی پاکستان کے استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے۔حکومت خود بھی خیالی دنیا میں رہتی ہے اور عوام کوبھی سہانے خواب دکھا کر خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔موجودہ صورتحال میں علما ءکی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو درپیش مشکلات اور کسی بھی غیر منصفانہ طرز عمل پر خاموش رہنے کی بجائے اپنے اصولی موقف کے ساتھ میدان عمل میں رہیں اور عوام کی درست سمت میں رہنمائی کرتے رہیں۔

 انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ کے جبری گمشدہ افراد کے لئے علمائے کرام آواز اٹھائیں کیونکہ یہ عمل غیر قانونی غیر آئینی اور غیر انسانی ہے، آئمہ جمعہ وجماعت نے9فروری کو منعقدہ شہید قاسم سلیمانی کے چہلم کے اجتماع میں بھرپور تعاون کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام ایران امریکہ کشیدگی اور پاکستان سمیت خطے پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے ''آل پارٹیز کانفرنس'' 17جنوری بروز جمعہ کو ملتان کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوگی، آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقامی رہنما اور قائدین شرکت اور خطاب کریں گے۔

 ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے مختلف مذہبی رہنمائوں سے ملاقات کے دوران کیا۔ علامہ اقتدار حسین نقوی نے وفد کے ہمراہ سابق وفاقی وزیر مذہبی اُمور صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

علامہ اقتدار نقوی نے اُنہیں آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی، بعدازاں اُنہوں نے ملی یکجہتی کونسل جنوبی پنجاب کے سربراہ میاں آصف محمود اخوانی اور امیر جماعت ضلع ملتان ڈاکٹر صفدر ہاشمی سے ''دارلسلام ''میں ملاقات کی، اس موقع پر صوبائی رہنما علامہ قاضی نادر حسین علوی، صوبائی ترجمان ثقلین نقوی بھی ہمراہ تھے۔

سابق وفاقی وزیر صاحبزادہ حامد سعید کاظمی کا کہنا تھا کہ آج ماضی کی نسبت اُمت مسلمہ کو زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے، اتحاد و وحدت کیلئے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہیں، خطے میں موجود اسلامی ممالک اپنا انحصار امریکہ کی بجائے خدا پر کریں تو فتح و کامیابی اُن کے قدم چومے گی۔

علامہ اقتدار نقوی کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی غلیظ نگاہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہیں، پاکستان اس وقت دشمنان اسلام کی آنکھوں میں کانٹا بنا ہوا ہے، امریکہ اور اُس کے اتحادی ہمیشہ سے پاکستان اور اسلامی ممالک میں دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث رہے ہیں، آج عالم اسلام کو سوچنا ہوگا کہ امریکہ کا ساتھ دینا ہے یا عالم اسلام کے مظلوم اور پسے ہوئے مسلمانوں کا ساتھ دینا ہے۔

انہوںنے مزیدکہاکہ امریکہ نے افغانستان،عراق، شام،یمن،فلسطین اور اب کشمیر میں جس بربریت کا مظاہرہ کررہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،آج بھارت امریکہ کی شہہ پر کشمیریوں پر مطالم ڈھارہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک متحدہوں اور عالم اسلام کے عزائم کو خاک میں ملادیں۔

 علامہ اقتدار نقوی کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی خصوصی شرکت کریں گے، مختلف شخصیات اور جماعتوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) جس دن امریکی وزیر دفاع نے ہمارے سپہ سالار کو ٹیلی فون کیا اُسی دن وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد میں ایک یوٹیلٹی سٹور کا دورہ کر رہے تھے۔ اُسی دن ایرانی سفیر بھی فوج کے سربراہ سے ملے۔ یہ رہا ہمارے حکومتی بندوبست کا اصل چہرہ، کہ کون کس کام پہ لگا ہوا ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے فوراً بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان فون کیا۔ انہوں نے فون ملایا تو آرمی چیف کو۔ وزیر اعظم کو فون کرنے کا تکلّف کیوں نہ برتا‘ وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ موجودہ حکومتی بندوبست میں کام بڑے خوبصورتی سے بٹے ہوئے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹوروں اور یہ جو تماشا غریبوں کیلئے پناہ گاہوں کی شکل میں کھیلا جا رہا ہے‘ اِن کے دورے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے ذمے ہیں۔ کبھی وزیر اعظم کسی پناہ گاہ میں مسکینوں کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے ہوتے ہیں کبھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار۔ دیگر معاملات یا یوں کہیے تھوڑے سے بڑے معاملات سپہ سالار نمٹا لیتے ہیں۔ بس انہی خطوط پہ حکومتی بندوبست استوار ہے۔ اور یہ ہیں وہ عوام کے چیمپئن جن سے اُمیدیں وابستہ تھیں کہ وہ قوم کی تقدیر بدلنے والے ہیں اور طیب اردوان نہیں تو مہاتیر محمد بننے جا رہے ہیں۔

یوٹیلٹی سٹور کا دورہ تو ایک واقعہ ہوا۔ آئے روز اسلام آباد میں کوئی بے معنی سی تقریب منعقد ہوتی ہے جس کا نہ کوئی مقصد نہ فعالیت اور وزیر اعظم صاحب پہنچے ہوتے ہیں اور حسبِ عادت ایک فی البدیہہ تقریر چنگھاڑ دیتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ سال تو کرپشن اور ممکنہ این آر او سے گزارہ ہو گیا۔ ملک میں ہیں یا کسی غیر ملکی دورے پہ وہی ایک تقریر، وہی گھسے پٹے جملے، اور کام چل جاتا تھا۔ اب یہ ایران اور امریکا والا مسئلہ آ گیا ہے۔ کل ایک اور تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی، مبینہ طور پہ ہنر مند پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کی خاطر۔ نون لیگ والوں نے تو پھبتی کَسی کہ یہ نواز شریف کا ایک پرانا پروگرام تھا جسے کچھ رنگ روغن کر کے نئے پروگرام کے طور پہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کو جانے دیجیے۔ جو تقریر وزیر اعظم صاحب نے فرمائی‘ اُس میں انہوں نے کہا کہ ہم ایران، سعودی عرب اور امریکا میں دوستی کے خواہاں ہیں اور اِس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اِسے کہتے ہیں‘ پدّی کا شوربہ۔

تقریباً کل ہی کی بات ہے کہ ہم سعودی عرب سے جھاڑ پی چکے ہیں۔ اِسی کی وجہ سے بہتر یہی سمجھا گیا کہ کوالالمپور میں مہاتیر محمد کی بلائی گئی کانفرنس میں شریک نہ ہوں۔ حالانکہ جیسا ہم سب جانتے ہیں اِس کانفرنس کے تجویر کنندہ ہم بھی تھے۔ بہرحال جھاڑ پڑی تو ہوش ٹھکانے آ گئے اور کمال دانش مندی سے ایک اور یُو ٹرن لے لیا گیا۔ اِس سارے ماجرے میں پاکستان کی رسوائی کیا ہوئی‘ وہ الگ کہانی ہے۔ اب بوساطتِ وزیر اعظم ایک اور شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ ہم ان تین ممالک میں دوستی کراتے ہیں۔ یہ تین ممالک ایسے ہیں کہ امریکا اور سعودیہ ایران کو نہیں دیکھ سکتے اور ایران اِن دونوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اور ہم ان میں دوستی کرانے چلے ہیں۔ پدّی کی دوبارہ بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔ اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ان تینوں ممالک کی استطاعت ہم سے کچھ زیادہ ہے۔ ہم ہیں اور ہمارا ناقابل تسخیر کشکول۔ اِس کشکول کے سہارے اِس نئے اَمن مشن پہ چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ صرف اِتنی احتیاط کر لی جائے کہ اپنے سے بڑے جھگڑے میں قدم رکھنے سے ملک کی مزید رسوائی نہ ہو جائے۔ سوال تو یہ ہے کہ ایسے عقل کے جھٹکے وزیر اعظم صاحب کو آتے کہاں سے ہیں؟ بیٹھے بٹھائے بغیر سوچے اور مزید برآں بغیر کسی سے پوچھے ایسے بیان داغ دیتے ہیں۔ جھاڑ سہہ کے اور کوالالمپور کانفرنس میں نہ جا کے پاکستان پہلے ہی کافی بے نقاب ہو چکا ہے۔ مزید اپنے ملک کی جگ ہنسائی پہ ہم کیوں تُلے ہوئے ہیں۔ کچھ تو خیال کر لیں۔

کئی ای میل جو مجھے کبھی کبھار آتے تھے انہیں اَب پڑھ کے حیران ہوتا ہوں۔ کوئی تنقیدی الفاظ عمران خان کے بارے میں ہمارے منہ سے نکلے نہیں اور پی ٹی آئی والے ایسی ایسی سُنانے لگ پڑتے تھے۔ گالیاں تو اُن کا عام معمول تھا اور ساتھ ہی یہ کہتے کہ تمہیں پتہ نہیں خان صاحب ملک کی تقدیر بدلنے جارہے ہیں۔ ہم تو کچھ نہ کچھ خان صاحب کی صلاحیتوں کے بارے میں جانتے تھے۔ جو زیادہ واقفانِ حال تھے سمجھاتے کہ تم یہ کیا نیا مسیحا سمجھ کے خان سے اُمیدیں لگائے بیٹھے ہو۔ پھر بھی ہم کہتے تھے کہ جن کو ہم بھگت چکے ہیں‘ اُن دونوں سے تو یہ بہتر ہوں گے۔ پھر وہی تعریف و توصیف کی کہانی آتی کہ ذاتی طور پہ بے داغ ہیں، کرپٹ نہیں اور سخت گیر آدمی ہوتے ہوئے سب کو درست کر دیں گے۔ واقفانِ حال سمجھانے کی کوشش کرتے کہ اِس فضول کے رومانس میں کیوں پڑے ہوئے ہو۔ پلے شے ہے کوئی نہیں تو کس چیز کا انتظار ہے؟ لیکن ہماری بھی عادت بن چکی تھی کہ نواز شریف کرپٹ اور زرداری ملک کو کھا گیا‘ ہمیں ایک بے داغ قیادت کی ضرورت ہے۔

ہمارے دوسرے بھائی‘ کیا کہیں کہ کون سے بھائی اور کس ادارے سے‘ کا اپنا ایجنڈا تھا۔ مقصد تھا نوازشریف سے حساب برابرکرنا۔ پانامہ سکینڈل ایک ایسی چیز تھی جو واقعی آسمانوں سے گری۔ اگلوں کے ہاتھ لگی تو پھر بات سے بات نکلتی گئی اور آخری نتیجہ نواز شریف کی اقتدار سے سبکدوشی تک پہنچا۔ ایک طرف خان صاحب کرپشن کا راگ الاپ رہے تھے اور دوسری طرف دوسرے‘ کیا کہیں کون‘ وہ بھی اپنے مقصد سے لگے ہوئے تھے۔ الیکشن جیسے ہوئے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ ہمارا ملک زرعی ملک ہے‘ اس لئے کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ زراعت اور اُس سے جڑے ہوئے محکموں کا الیکشن میں خاصا کردار رہا۔ کچھ ریاضی کا بھی کمال تھا۔ ایسی جمع تفریق کی گئی کہ خان صاحب کا دیرینہ خواب پورا ہوا اور وہ وزیر اعظم بن گئے۔

پانامہ سے لے کر انتخابات تک یہ ایک بڑی مشق تھی۔ جو اِس مشق کے اہداف تھے وہ بڑی خوبصورتی سے حاصل کیے گئے۔ لیکن اُس کے بعد جو حشر ہو رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہماری تاریخ میں بڑے بڑے موڑ اور بڑے بڑے فیصلے ایسے آئے جن میں عقل یا سمجھداری کا عمل دخل کچھ زیادہ نہ تھا۔ لیکن ناسمجھی کی حدیں جو اب پار کی جا رہی ہیں اُس کی نظیر ہماری ہوش رُبا تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ اور نتیجہ اِس صورتحال کا وہی نکل رہا ہے جو منطق کے عین مطابق ہے۔ جب خود ڈرائیونگ کی اہلیت زیادہ نہ ہو تو اوروں کا کنٹرول سنبھالنا قدرتی امر ہے۔ اُن کا ہاتھ پہلے بھی سٹیرنگ پہ تھا۔ راستے کا تعین وہی کرتے تھے لیکن پھر بھی کچھ دکھاوے کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ خان صاحب کی صلاحیتوں اور کارناموں کی وجہ سے وہ دکھاوا بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ اَب تو کام کی تفریق سامنے نظر آتی ہے۔ یوٹیلٹی سٹور اور جو چند ایک مفت کھانے کی پناہ گاہیں ہیں وہ آپ سنبھالیں، دیگر معمولات ہم دیکھ لیں گے۔ باقی دنیا بہری یا اندھی نہیں۔ وہ شاید ہم سے زیادہ پاکستان کے حالات سے باخبر ہے۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ فون کرتا ہے تو آرمی چیف کو۔ امریکی وزیر دفاع نے کچھ کہنا ہو تو آرمی چیف سے کہتا ہے۔ سفیروں نے با مقصد گفتگو کرنی ہو تو جی ایچ کیو کی طرف منہ کرتے ہیں۔ اِس دوران وزیر اعظم صاحب ایک نئی تقریر فرما دیتے ہیں۔ جس کا نہ سر نہ پاؤں۔

پارلیمنٹ بھی ہم نے دیکھ لی ہے۔ پہلے بھی اُس کے بارے میں کچھ زیادہ غلط فہمی نہ تھی‘ لیکن رہی سہی کسر توسیع کے معاملے میں پوری ہو گئی ہے۔ ہماری تاریخ تابعداری کے مظاہروں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن اِس بار جو حب الوطنی اور قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے تابعداری کا مظاہرہ ہوا اُس کی مثال پرانے اوراق میں نہیں ملتی۔ سوائے چھوٹی پارٹیوں کے جنہوں نے پارلیمانی عزت کا کچھ خیال رکھا تینوں بڑی پارٹیوں نے کمال ہی کر دیا۔ جمہوریت کے حسن بہت ہوں گے لیکن پاکستانی جمہوریت کا حسن نرالا ہے۔

تحریر: ایاز امیر

وحدت نیوز(آرٹیکل) ناکامی یا غلطی کو تسلیم کرنے والے لوگ بہادر کہلاتے ہیں۔ ناکامی پر بہانے تراشنے اور ناکامی کو چھپانے کیلئے جھوٹ بولنے والے لوگ صرف بزدل نہیں بلکہ ناقابل اعتبار بھی ہوتے ہیں۔

پاکستانی قوم سے بھی ایک بہت بڑی ناکامی کو چھپایا جا رہا ہے۔ جو بھی اس ناکامی کی وجہ جاننے کیلئے سوال اٹھائے گا اسے غدار، کرپٹ اور نجانے کیا کیا کہا جائے گا لیکن سوال تو اٹھے گا اور اس مرتبہ غدار اور کرپٹ اہل صحافت کو میڈیا ٹربیونلز سے ڈرانے والوں کو جواب بھی دینا پڑے گا۔

سوال یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنیوا میں یہ دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان نے پچاس سے زیادہ ممالک کی حمایت سے ایک مشترکہ بیان پیش کر دیا ہے جس میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے۔بھارت نے فوری طور پر شاہ محمود قریشی کے اس بیان کو مسترد کر دیا اور کہا کہ پچاس سے زائد ممالک کی حمایت کا دعویٰ جھوٹ ہے۔

اگلے دن 12ستمبر کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان کی جانب سے پیش کئے گئے بیان کو 58ممالک کی حمایت حاصل ہے اور عمران خان نے ان تمام ممالک کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔بھارت نے اس بیان کی بھی تردید کر دی لیکن پاکستانی قوم کو یہی بتایا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو زبردست سفارتی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اور 27ستمبر کو وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نریندر مودی کو بے نقاب کر دیں گے۔

پاکستان کو اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں 19ستمبر تک بھارت کے خلاف ایک قرارداد پیش کرنا تھی تاکہ اس قرارداد کی روشنی میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر کونسل کا خصوصی اجلاس بلایا جا سکے۔ اس قرارداد کو پیش کرنے کیلئے پاکستان کو کونسل کے 47میں سے صرف 16رکن ممالک کی حمایت درکار تھی۔19ستمبر کو دوپہر ایک بجے کی ڈیڈ لائن تھی۔ میں نے صبح سے اسلام آباد کے دفتر خارجہ اور جنیوا میں اہم لوگوں سے رابطے شروع کئے تاکہ پاکستان کی قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک کے نام پتا چل سکیں۔

پہلے کہا گیا فکر نہ کریں تھوڑی دیر میں قرارداد جمع ہونے والی ہے پھر نام بتائیں گے۔جب ڈیڈ لائن گزر گئی تو کہا گیا کہ قرارداد تو جمع ہی نہیں ہوئی۔ یہ سُن کر میں نے پوچھا کہ ہمارے وزیر اعظم نے 58ممالک کی حمایت کا دعویٰ کیا تھا آپ کو تو صرف 16ووٹ درکار تھے پھر قرارداد جمع کیوں نہ ہوئی؟ کہا گیا شاہ محمود قریشی صاحب سے پوچھئے۔ تو جناب سوال بڑا سادہ ہے۔اگر آپ کے پاس 16ممالک کی حمایت نہیں تھی تو آپ نے 58ممالک کی حمایت کا دعویٰ کیوں کیا اور اگر آپ کے پاس مطلوبہ حمایت موجود تھی تو آپ نے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں قرارداد کیوں جمع نہ کرائی؟

 کیا چکر چل رہے ہیں اور کون کس کو چکر دے رہا ہے؟میرے سادہ سے سوال کا جواب یہ نہیں ہے کہ تم غدار ہو، تم بلیک میلر ہو، تم کرپٹ ہو۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے 47ارکان میں چین شامل ہے، سعودی عرب، قطر، بحرین، عراق، نائیجیریا، تیونس اور صومالیہ شامل ہیں۔ان مسلم ممالک کے علاوہ اس کونسل میں ٹوگو، برکینا فاسو، سینی گال اور کیمرون بھی شامل ہیں جو او آئی سی کے رکن ممالک ہیں۔پاکستان ان مسلم ممالک کی حمایت کیوں حاصل نہیں کر سکا؟ اس کونسل میں افغانستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔

ان دونوں مسلم ممالک کے عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں لیکن حکومتیں بھارت کے ساتھ ہیں لیکن کیا پاکستان نے ڈنمارک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کا حامی ہے؟اگر 16ممالک کی حمایت نہیں مل سکی تو یہ اس لئے ایک بڑی ناکامی ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل خود اپنی حالیہ رپورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے لہٰذا اس معاملے کو خصوصی اجلاس میں زیر بحث لانے کیلئے 47میں سے 16ممالک کی حمایت حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔

چلیں اگر 16ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ گیا تو کوئی بات نہیں، لیکن ناکامی کو چھپانے کیلئے 58ممالک کی حمایت کا دعویٰ کیوں کیا گیا؟کیا پاکستانی قوم کے ساتھ جھوٹ بول کر آپ کشمیر کے مقدمے کو مضبوط کر رہے ہیں یا کمزور ؟اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کا اجلاس 27ستمبر کو ختم ہو جائے گا۔ اس دن نیویارک میں وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا ہے۔ہمیں یہ تو نہیں بتایا جا رہا کہ 19ستمبر کو پاکستان نے جنیوا میں قرارداد کیوں پیش نہ کی؟ ہمیں بار بار کہا جا رہا ہے کہ 27ستمبر کو عمران خان جنرل اسمبلی میں مودی کے پرخچے اڑا دیں گے۔

 اس جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ کوئی پاکستانی وزیراعظم مسئلہ کشمیر نہیں اٹھائے گا۔میں نے اس جنرل اسمبلی میں 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر سنی تھی جس پر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے بھارتی صحافیوں کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔2016ء میں نواز شریف نے اسی جنرل اسمبلی میں کشمیری مجاہد برہان وانی کو خراجِ تحسین پیش کیا تو پورے بھارت میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ یقیناً عمران خان بھی جنرل اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کریں گے لیکن کشمیریوں کو صرف تقریروں کی نہیں عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔

اگر آپ بھارت سے جنگ نہیں کر سکتے تو کم از کم جنیوا میں 16ممالک کی حمایت سے ایک قرارداد تو پیش کر سکتے تھے لیکن افسوس کہ قرارداد پیش کرنے کے معاملے میں پاکستانی قوم کیساتھ دھوکہ کیا گیا۔اگر ہم کشمیر کے معاملے پر اپنوں کیساتھ سچ نہیں بولیں گے تو دنیا کو کیا سچ بتائیں گے؟ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ کشمیر کی لڑائی میڈیا نے لڑنا ہے کیونکہ میڈیا فرنٹ لائن آف ڈیفنس ہے۔یہ لڑائی ہم نے پہلے بھی لڑی تھی، آئندہ بھی لڑیں گے۔ میڈیا ٹربیونلز کی زنجیریں پہن کر بھی لڑیں گے۔ان زنجیروں کو بھی توڑیں گے اور کشمیریوں کی زنجیروں کو بھی توڑیں گے لیکن خدارا کشمیر کے نام پر دھوکہ دہی بند کی جائے۔ اپنی سیاسی و معاشی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے کشمیر کے نام پر شور نہ مچایا جائے۔کشمیر کا مسئلہ صرف گرجنے سے نہیں بلکہ برسنے سے حل ہو گا کیونکہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔


تحریر: حامد میر

23 ستمبر ، 2019

وحدت نیوز (انٹرویو) سید ناصر عباس شیرازی ایڈوکیٹ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مشرق وسطٰی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے ناصرعباس شیرازینے مشرق وسطیٰ اور کشمیر کی تازہ صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

سوال : کیا کشمیر ایشو پر حکومتی اقدامات کافی ہیں؟، دوسرا کیا کشمیر کا مسئلہ حل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: کشمیر کے مسئلے پر حکومتی اقدامات ناکافی ہیں، میری نگاہ میں بہت زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے مجھے یہ بھی نظر آرہا ہے کہ حکومت میں دو الگ طرح کے مکتب فکر ہیں، ایک جس کو شاہ محمود قریشی صاحب لیڈ کرتے ہیں اور اس میں انکا انداز بہت زیادہ امیدوار نہیں ہوتا بلکہ وہ مشکلات کو زیادہ بتاتے ہیں، اپنی سیاسی اور اقتصادی مشکلات کو بیان کرتے ہوئے وہ انڈیا کے سحر کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، دوسرا مکتبہ فکر وہ ہے جسے خود عمران خان لیڈ کرتے نظر آتے ہیں، جس میں کہتے نظر آتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، آپ نے دیکھا کہ بھارتی صدر کو پاکستانی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دی گئی، یہ ایک مناسب بات ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کشمیریوں نے اس مسئلے کو اتنا بڑا کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی 70 سال کی غفلتوں کا مداوا کرسکتا ہے، تمام طبقات اس وقت بھارت کے خلاف ہوگئے ہیں، جو بھارت نواز تھے، وہ بھی مخالف ہوگئے ہیں اور بھارتی اقدام کو مسترد کرچکے ہیں، دس لاکھ دشمن کی فوج ٹریپ ہوگئی ہے، آپ کے پاس بہترین موقع ہے کہ لوکل لوگوں کی مدد کریں اور تحریک کو بڑھاوا دیں۔

یاد رکھیں کہ کشمیری آپ کو مددگار سمجھتے ہیں، ماحول بنانے میں وہ جتنی مدد کرسکتے تھے انہوں نے کر دی ہے، 50 دن کے کرفیو میں انڈیا کی فوج کا اس علاقے کو نہ کھولنا اور خوف میں مبتلا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ کشمیری بھارت کو قبول نہیں کر رہے، اس وقت انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں، اس کو اس طرح سے نہیں دکھایا جا رہا، جس طرح سے دکھانا چاہیئے تھا، عالمی سطح پر ایشو کو بہتر انداز میں اٹھانے کی ضرورت ہے، لابنگ کرنے کی ضرورت ہے، جب بھی کسی مسئلے کو دنیا نے حل کرنا ہوتا ہے، اس مسئلے کو بڑا بنانا پڑتا ہے، اس مسئلے کو سنجیدہ بنانے کی سخت ضرورت ہے کہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے، یہ مسئلہ بڑھا تو پورے خطے کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے، اگر فوجیں آگے بڑھتی ہیں اور کشیدگی کی فضا قائم ہوتی ہے تو انڈیا پر پریشر آئے گا۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ برطانیہ یا امریکا مسئلہ حل کرے گا، تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی، برطانیہ نے ہی یہ مسئلہ چھوڑا اور امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ یہ مسئلہ حل ہو، کشمیر پر یہی صورتحال برقرار رہی تو کشمیر تیزی سے عالمی مقاومت کے بلاک میں چلا جائیگا، جو فطری بلاک ہوگا۔ مزاحمت کے لوگ کسی کی طرف نہیں جھکیں گے، کیونکہ بالآخر عزت، غیرت کے معاملات ہیں، کشمیریوں کی عوتوں کی عزت و حرمت کو پامال کیا جا رہا ہے، وہاں جارح لوگ ہیں، حقوق پامال کر رہے ہیں، پہلے بھی مزاحمت کے بلاک نے پسے ہوئے لوگوں کو کھڑا ہونا سکھایا ہے، اگر یہ معاملہ اس طرف چلا گیا تو بہت تیزی کے ساتھ تحریک جان پکڑے گی۔

سوال : کشمیر پر عالمی رسپانس کیسے دیکھ رہے ہیں، دوسرا وزیراعظم سعودی عرب کا تیسرا دورہ کر رہے ہیں، جبکہ سعودیہ نے ایک حرف تک نہیں کہا، ان دوروں کا مقصد کیا نظر آرہا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: کشمیر پر جو عالمی ردعمل ہے، وہ چونکہ ایک عرصے سے ہماری کشمیر کمیٹی کے ڈیڈ ہونے کی وجہ سے اس طرح نہیں اٹھ سکا، جس طرح اٹھنا چاہیئے تھا، کشمیر سیل مکمل طور پر ڈیڈ تھا، عملی طور پر کشمیر کے مدعی ہونے کے ناطے ہم اپنے کیس کو لے کر نہیں چل رہے تھے تو کشمیر کا مسئلہ دبا ہوا تھا، انڈیا نے آئینی ترامیم کرنے کی کوشش کی اور لوگوں نے جو مزاحمت کی ہے، اس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر فلیش پوائنٹ بن گیا ہے، دنیا کا یہ کوئی چھوٹا علاقہ نہیں، جغرافیائی طور پر یہ علاقہ بہت اہم ہے، آبادی کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور سی پیک اور ترقیاتی کام کے حوالے بھی اس علاقہ کی اپنی اہمیت ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چائنہ کی ترقی کا راستہ سی پیک سے گزرتا ہے تو چائنیز کو روکنے کا راستہ بھی یہی سے گزرتا ہے، اس لحاظ سے عالمی ردعمل جو آیا ہے، وہ تقسیم ہے، امت مسلمہ امت کے طور پر کھڑی نہیں ہوسکی، اسلامی ممالک جن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اچھے اور قریبی ہیں، ان میں یو اے ای اور سعودی عربیہ ہیں اور اس دورانیے میں دونوں ملکوں نے نہ صرف مودی کو دعوت دی بلکہ ویلکم کیا اور اعزازات سے نوازا ہے۔

 اسی طرح اس ایک اسلامی ملک جہاں پر عوامی اور حکومتی سطح پر کشمیری مزاحمت کو سپورٹ کیا گیا ہے اور پاکستان کے موقف کی تائید کی گئی ہے، ہم ابھی تک ان کے پاس نہیں گئے ہیں، اس کیفیت میں ہم نے دوست اور دشمن کی صحیح پہچان نہیں کی ہے، دشمن کے دوست کو دشمن بھی نہیں سمجھا جو ہماری ناکامی کی علامت ہے۔ اسی طرح ہم یہ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانے میں ناکام ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کا کشمیر کا معاملہ اٹھانا آپ کی کارکردگی ہے، لیکن جس طرح سے اٹھانا چاہیئے تھا، نہیں اٹھایا گیا۔ ہماری لابنگ کمزور ہے، عالمی اور اسلامی ممالک میں بھی ہماری لابنگ کمزور ہے۔ میرے خیال میں حکومت نے اپنی آپشنز صحیح استعمال نہیں کیں، دفتر خارجہ کو فوری متحرک نہیں کیا۔ وزیراعظم سعودی عرب چلے گئے، مگر انہوں نے ایک حرف تک ادا نہیں کیا، آپ وہاں نہیں گئے، جہاں آپ کو مکمل سپورٹ مل سکتی ہے۔ سعودی عرب اور گلف ممالک پاکستان کے موقف کے حامی نہیں ہیں۔

سوال : حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا، لیکن مسائل جوں کے توں ہیں، آپ اسے کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: یہ درست ہے کہ حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے اور بعض جہتوں میں مثبت ترقی ہوئی ہے اور بعض وہ جہتیں بھی ہیں، جہاں بہت مثبت کام ہوسکتا تھا لیکن نہیں ہوا، جیسے لا اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کیلئے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیئے، اس کیلئے اضافی پیسوں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، جہاں لا اینڈ آرڈر بہتر نہیں ہوتا، وہاں اقتصادی ترقی بھی نہیں ہوتی، اسی طرح غریبوں کیلئے جو بنیادی چیزیں فراہم ہوسکتی تھیں، جیسے کسان اور ایک عام آدمی کو بجلی، گیس اور دیگر چیزوں میں ریلیف دیا جاسکتا تھا، نہیں دیا گیا، الٹا زندگی کی دوڑ میں یہ طبقہ بہت متاثر ہوا ہے، ان کیلئے زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگیا ہے، ترقیاتی منصوبوں پر کچھ خرچ نہیں کیا جا رہا، اور فقط قرضے واپس کیے جا رہے ہیں، اس میں توازن قائم نہیں رکھا جا رہا۔

اس کے علاوہ کرپشن میں کمی ہوئی ہے، بڑے بڑے کرپٹ لوگ جن پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا تھا، ان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، اسی طرح ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جا رہا ہے، بجٹ خسارے میں کمی آئی ہے، برآمد اور درآمدت میں توازن آرہا ہے، لیکن جس طرح ہماری خارجہ پالیسی کو متوازن بنانا چاہیئے تھا، اس کو عملی طور پر نہیں بنایا جاسکا، جیسے آپ یمنیوں کے خون بہنے پر تو خاموش رہیں، لیکن تیل تنصیبات پر حملوں پر بات کریں، آل سعود کے ظلم پر خاموش رہیں، کچھ وراثت میں ملنے والی پالیسیاں ابھی تک چلائی جا رہی ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں ملک میں مثبت چیزوں میں بہتری نہیں آئی، مگر منفی چیزوں میں کمی ہوئی ہے۔

سوال : نیب کارروائیاں جاری ہیں، خورشید شاہ بھی اندر ہوگئے، اپوزیشن کہتی ہے سلکٹو جسٹس ہو رہا ہے، کیا واقعی ایسا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: نیب اور چیف جسٹس کے بیانات کو اگر آپ سامنے ملا کر پڑھیں تو یہ تاثر صرف چیف جسٹس نے نہیں لیا بکہ عوام میں بھی یہ تاثر ہے کہ سیلکٹو جسٹس ہو رہا ہے، یہ تاثر اگر صحیح ہو تو بذات خود یہ ایک غلط چیز ہوگی اور اگر یہ تاثر غلط بھی ہے، تب بھی حکومت کو اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومتی اور اتحادی حلقوں میں کرپٹ لوگوں کے خلاف تلوار نہ چلے، احتساب ہوتا ہوا نظر آنا چاہیئے اور سب کا ہونا چاہیئے۔ مجموعی طور پر حکومت کی کرپشن کیخلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی لگ رہی ہے اور اسے آگے بڑھنا چاہیئے، خورشید شاہ کے بعد اور شخصیات کی گرفتاری بھی متوقع ہے۔

سوال : مولانا فضل الرحمان کے ممکنہ احتجاج کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس وقت مولانا فضل الرحمان مزاحمت کی سیاست کرتے نظر آرہے ہیں اور پیپلزپارٹی اور نون لیگ مزاحمتی سیاست سے دود دکھائی دے رہی ہیں، اس سے ان جماعتوں کا نقصان ہوگا اور ووٹ بینک بھی متاثر ہوگا۔ یہ جماعتیں عوامی پذیرائی بھی بہت کم کر بیٹھیں گی اور عین ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں توازن برقرار نہ رکھ سکے، یہ پریشر اب سندھ میں چلا گیا ہے، اپوزیشن مضبوط پریشر میں ہے، چیف جسٹس کی بات سے لگتا ہے کہ عدالت میں بھی سلکٹو جسٹس ہو رہا ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے کیس میں بہت کچھ واضح ہوگیا ہے۔ عدالت کو صرف سیاست دانوں کے ہی کیس نہیں سننے چاہیئے، خود ججز کے خلاف جو پہلے سے درج کیسز ہیں، انہیں بھی سننا چاہیئے۔

سوال : یمن تنازعہ کس کروٹ بیٹھتا نظر آرہا ہے، سعودی تنصیبات پر حملے اور الزامات کا سلسلہ شروع بھی ہوگیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: یمن تنازع بہت واضح ہے، جیسا کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ سعودی استعمار کی ناک یمن میں رگڑی جائے گی، یہ بالکل واضح ہوگیا ہے، کویت کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ابھی ایران نے صرف ایک چھینک ماری ہے اور پچاس فیصد تیل بند ہوگیا ہے، اگر ایران نے اس سے اوپر اقدام اٹھایا تو ان کا کیا حال ہوگا؟، یمنیوں کے وزیر دفاع نے تازہ پریس کانفرنس کی ہے اور انہوں نے واضح کہا ہے کہ کوئی جگہ ہماری پہنچ سے باہر نہیں ہے اور ہم اس سے مزید بڑھ کر بھی وار کرسکتے ہیں، کوئی جگہ ہماری اپروج سے باہر نہیں ہے، انہوں نے یو اے ای کو بھی دھمکی دی ہے کہ اگر امارات نے باقی فوج کو نہ بلایا تو آئندہ اسے بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ داد دینی چاہیئے کہ یمنیوں نے نپی تلی کارروائی کی ہے اور ایک بھی بندہ نہیں مارا گیا، بس آئل تنصیبات کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ حوثی اللہ پر توکل اور توسل میں بہت مضبوط ہیں۔

یمنیوں نے اپنی اہلیت، لیاقت اور استعداد کار میں بہت اضافہ کیا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری دکھائی ہے، یمنیوں کے پاس کھونے کو کچھ نہیں، لیکن انہوں نے سعودیہ اور یو اے ای کی اقتصادیات کو آگ دکھا دی ہے، مذاکرات کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے، جنگ بند کریں۔ یہ جنگ ختم کرنا پڑے گی، یمنیوں کو اپنی حکومت بنانے اور چلانے میں آزاد چھوڑنا ہوگا، یہ جنوب اور شمال کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیں گے، اگر تقسیم کی سازش کامیاب نہ ہوئی تو انقلاب اسلامی سے متاثر سعودی عرب کے بارڈر پر ایک اور اسلامی حکومت ہوگی، جو مزاحمت کے بلاک کا حصہ ہوگی۔ ایک اور بات کہنا چاہوں گا کہ یمن نے یہ جو پندرہ سو کلو میٹر یا سولہ سو کلو میٹر دور ڈروں اٹیک کیا ہے، یہ ایک اور نشاندہی ہے کہ یہ بحرین سے 50 کلو میٹر دور حملہ ہوا ہے، جہاں امریکن پانچواں بحری بیڑا موجود ہے، جسے علم تک نہ ہوسکا اور ڈیٹکٹ تک نہیں کرسکا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی بحری بیڑے بھی اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہو جائیں گے، جو سپر طاقت کیلئے ایک علامت ہے۔

سوال : جواد ظریف نے سی این این کو انٹرویو دیا ہے کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو پھر ایران آخری امریکی سپاہی کی اس خطے میں موجودگی تک جنگ لڑے گا۔ اس بیان کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: جواد ظریف کا بیان بہت ہی زبردست بیان ہے، انہوں نے ایرانی پالیسی میں سے بعض چیزیں جس انداز میں بیان کی ہیں، ان میں سے چند نکات میں بیان کرتا ہوں۔ نمبر ایک یہ کہ امریکن فورسز یہاں جارح ہیں، وہ اس علاقے کی نہیں ہیں، وہ اجنبی ہیں، لہذا علاقے کے لوگ ان کو پسند نہیں کرتے، یہاں ان کے رہنے کا کوئی آئینی جواز ہی نہیں، مگر بعض ملکوں سے جبر کے ذریعے انہوں نے یہ اختیار لیا ہوا ہے، اگر اس خطے میں کوئی جنگ ہوتی ہے تو امریکا اس علاقے میں سروائیو نہیں کرسکتا، ایران کی جانب سے ڈرون اتارنا، ڈرون کو تباہ کرنا، آبی گزرگاہ پر جہازوں کو روکنا، ماضی میں خود امریکیوں کو ہاتھ باندھ کر لے جانا اور پھر چھوڑ دینا ثابت کرتا ہے کہ ایران بہت آگے ہے، فرض کرتے ہیں کہ یمنیوں کو ڈرون ٹیکنالوجی اور تکنیکی مہارت ایران نے دی ہے تو پھر بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران کی رسائی بہت آگے بڑھ گئی ہے، وہ یمن میں بھی ہے، عراق میں بھی ہے اور شام میں بھی ہے، وہ فلسطین میں بھی موجود ہے، اس صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکا ایران سے جنگ کرنے کی جرات کرسکتا ہے، جواب نہیں ہے۔

میں نے رائٹر میں مغربی صحافی کو پڑھا ہے، جو کہتا ہے کہ آخری بڑی جنگ چنگیز خان کی ہوئی اور وہ بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ اتنے بڑے جغرافیہ پر جنگ نہیں لڑی جاتی۔ یہ اس سے بڑا جغرافیا ہے، جہاں امریکی سلطنت غرق ہو جائی گی، یہ انقلابیوں کیلئے بہترین موقع ہوگا کہ وہ اسے سینڈوج بنا دیں۔ اوپن جنگ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تیل والے ممالک جن کا کوئی نظریہ نہیں ہے، وہ مزاحمت نہیں کرسکتے۔ ایک حملے میں اگر تیل کی پیدوار آدھی رہ جاتی ہے اور ایک براہ راست جنگ جس میں ایران شامل ہو جائے تو پھر سوچیں کیا ہوگا۔؟ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا کو سمجھ ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے، جو ان کی تباہی پر ختم ہو، وہ سعودیہ اور اس کے اتحادیوں کے کندھے پر رکھ کر کام کریں گے، جو ہر صورت ناکامی ہے۔

Page 2 of 26

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree