وحدت نیوز(تہران) رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے ناقابل شکست ہونے کا تصور بہت بڑی غلطی ہے اور امریکہ کی مسلسل غلطیوں نے اسے علاقے میں ناتواں اور لاچار کرکے رکھ دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ہفتے کی سہ پہر ونزویلا کے صدر نکولس مادورو سے ملاقات میں مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکی منصوبوں اور پالیسیوں کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تیل کی قیمتوں میں کمی کے مسئلے کو خودمختار ملکوں پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ قرار دیا۔ انھوں نے خود مختار ملکوں پر موجودہ مشکلات اور مسائل مسلط کرنے کے لئے تیل کے ہتھیار کو استعمال کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دور میں کہ جب بعض اسلامی ممالک نے صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیل کی فراہمی کو بند کیا تو مغرب والوں نے تیل کے سیاسی استعمال کے بہانے ہنگامہ کھڑا کر دیا، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج وہی ممالک امریکی پالیسیوں کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہو کر تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے لاطینی امریکہ کے علاقے میں سامراج مخالف تحریکوں پر ونزویلا کے اثرات کو اس ملک کی بہترین توانائی کی علامت قرار دیا اور ونزویلا کے ناوابستہ تحریک کے صدر ہونے کے موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ مغرب اس بات میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے کہ ناوابستہ تحریک کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو، لیکن خود مختار ملکوں کو ان کی خواہش کے برخلاف کام کرنا چاہیے اور اس صورت میں مستقبل یقیناً ماضی سے بہتر ہوگا۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اسی طرح ونزیلا کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سنجیدہ فیصلے پر زور دیا اور معاہدوں پر پوری طرح عمل درآمد میں دونوں ملکوں کے حکام اور وزیروں کے اہم کردار پر تاکید کی۔ ونزویلا کے صدر نکولس مادورو نے بھی اس ملاقات میں امریکہ کی دشمنیوں کے مقابل ایرانی قوم کی استقامت و مزاحمت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب ملت ایران مکمل آرام و سکون اور امن و سلامتی میں زندگی گزار رہی ہے، علاقے اور ایران کے اطراف کے بہت سے ملک جنگ، تفرقہ اور کمزوری کا شکار ہیں۔ ونزویلا کے صدر نے اسی طرح گذشتہ دو سال کے دوران تیل کی قیمتوں میں شدید کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی امپیریلزم نے ونزویلا کے امور میں مداخلت اور اس کے ساتھ دشمنی کی، لیکن ونزویلا کی قوم نے اس اقتصادی جنگ میں استقامت اور مزاحمت کی اور اس وقت وہ بتدریج اقتصادی بحران سے باہر نکال رہی ہے۔

وحدت نیوز (قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے بغدادمیں منعقدہ عالمی بیداری اسلامی کانفرنس میں شرکت کیلئے جاتے ہوئے قم میں مختصرقیام کے دوران مدرسہ حجتیہ میں حالات حاضرہ کے عنوان پر سیمینار سے خطاب کیا جس میں علمائے کرام اور طلاب دینیہ کی بڑی تعداد شریک تھی، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپنی توانائیوں کو بروئے کار نہ لانا،مستقل اور مفید خارجہ پالیسی کا نہ ہونا،ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں عدم دلچسپی، حکمرانوں کے ذاتی مفاد کا ملکی مفاد سے بالاتر ہونا،جمہوریت کا بول بالا نہ ہونا،دشمن کی شناخت نہ رکھنا  پاکستان کی کمزوری کے اصل اسباب ہیں  ،ان مسائل کے سبب  پاکستان میں  شدت پسندی فروغ پاتی ہے، ملکی معیشت  تباہ ہوتی ہے،بین الاقوامی سطح پر قومی ساکھ متاثرہوتی ہےاور  تعصب کی فضا  پرورش پاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شدت پسندی کی ترویج اور تعصب کی فضاکی پرورش کا سب سے زیادہ برا اثر پاکستانی شیعوں پر پڑا ہے، جنہیں تکفیریت ،حکومتی امتیازی سلوک،ایوان بالا سے  شیعہ دشمن پالیسیوں کی منظوری ،شیعت کو اقلیت میں بدلنے  اور انکو تیسرے درجے کا شہری بنانے جیسی سازشوں کا سامناہے،تشیع کوپاکستان میں ان سازشی اقدامات سے مقابلے کیلئے شاٹ ٹرم ، مڈٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ پر مبنی اقدامات بروئے کار لانے کی ضرورت ہے،شارٹ ٹرم پالیسی کے تحت  اتحاد اور انسجام کا فروغ،سب کو ساتھ لے کر چلنا، خوف کی فضا کو توڑنا، عوامی دھرنوں ، احتجاج اور بھوک ہڑتال کے ذریعے حکومتی حلقوں پر دباو بڑھانا شامل ہے جبکہ مڈٹرم پالیسی کے تحت عوام میں بیداری کا فروغ، تشیع میں تعلیم کا فروغ،قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کا احیا جو کہ بین المذاہبی ہواور شدت پسندی سے پاک ہواور تمام پاکستانی عوام میں بیداری کا فروغ تاکہ وہ حقیقی دشمن کو پہچان سکیں۔

علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے لانگ ٹرم پالیسی کےتناظر میں عمومی اور بالخصوص طلاب دینیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ  (امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے راہ ہموار کرنا) اچھے خطیب بنیں، اچھے معلم اخلاق بنیں، اچھے قاری اور مداح بنیں، سیر و سلوک کی منازل طے کریں اور اچھے محقق اور مدرس بنیں، پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے جس کیلئے جتنی جلد ممکن ہو خود کوآمادہ وتیار کریں ۔

دوطرح کے لوگ

وحدت نیوز(آرٹیکل) گندگی تو گندگی ہے۔ہمارے ہاں گندگی کے ساتھ جینے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ اگر کسی شہر میں   ہر طرف گندی نالیاں ہوں، جگہ جگہ   گندگی کے ڈھیر لگے ہوں اور بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہو تو لوگ ہرروزاپنی  ناک اور منہ لپیٹ کرخاموشی کے ساتھ  وہاں سے گزر جائیں گے۔اکثر اسے اللہ کی مرضی سمجھتے ہوئے تھوکیں گے بھی نہیں۔

بے شک کئی سال گزرجائیں ،کوئی بات نہیں لوگ اسی طرح ناک اور منہ لپیٹ اور پائنچے اوپر اٹھا کر گزرتے رہیں گے۔ایسے میں اگر کوئی شخص اس گندگی کو صاف کرنے کے لئے کمر ہمت کسے اور متعلقہ اداروں کو جھنجھوڑ کر صفائی کروانا چاہے تو لوگوں کا ایک طبقہ فورا اپنی ناک سے رومال ہٹاکر کہے گا کہ یہ سب تو ایجنسیوں کو خوش کرنے ،میڈیا کو دکھانے اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے ہورہاہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ آپ جو ناک اور منہ پر رومال لپیٹ کر اس گندگی میں سانس لیتے رہے ۔آپ نے کس وجہ سے گندگی کے ساتھ کمپرومائز کئے رکھا!؟

ہمارے ہاں ماحول کی آلودگی کے ساتھ ساتھ اخلاقی آلودگی اور لاقانونیت کی بھی بھرمار ہے۔لوگوں کی ایک اکثریت اخلاقی اور قانونی مسائل کو مسائل ہی نہیں سمجھتی ،لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مسائل کو قانونی اور اخلاقی طریقے سے کیسے حل کیاجاتاہے۔

اکثریت بس ناک منہ لپیٹ کر وقت گزارنے والوں کی ہے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد کئی سالوں سے ناک منہ لپیٹ کر کوئٹہ سے تفتان کا سفر کرتی رہی۔

اس دوران قم کے ایک عالم دین نے اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیرقانونی آلودگی کے خلاف آواز بلند کی۔بعد ازاں مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے خود تفتان روٹ پر سفر کیا،لوگوں کی مشکلات سنیں اور اعلی سطح پر یہاں کے مسائل کوحل کروانے کے لئے مہم چلائی۔

ابھی ان کا دورہ جاری ہی تھا کہ  طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں،میرا مقصد کسی کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کیا ہم گندگی کے ساتھ کمپرومائز کرنے والے لوگوں میں سے ہوجائیں،کیا ناک اور منہ لپیٹ کراور پائنچے اوپر اٹھا کرنسل در نسل اسی طرح گزرتے رہیں یا پھر اس روٹ پر پائی جانے والی غیر اخلاقی اور غیرقانونی آلودگی کے خلاف سعی اور کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افائی کریں۔

لوگ دو طرح کے ہی ہیں کچھ گندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے جیتے ہیں اور کچھ گندگی کو ختم کر کے پاکیزہ فضا میں سانس لینے کی جدوجہد کرتے ہیں۔

اب  دوسروں کو برا بھلا کہنے کی ضرورت نہیں ،یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم کس طرح کے لوگوں میں شمارہونا پسند کرتے ہیں۔ناک منہ لپیٹ کر جینے والوں کے ساتھ یا پاکیزہ فضاکی  خاطرجدوجہد کرنے والوں کے ساتھ۔

تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کوئٹہ پہنچ گئے جہاں انہوں نے8اگست سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء اور دیگر شہدا کے خانوادوں سے ملاقاتیں کیں۔علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔اس ملک میں دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا اس وطن کو ہم نے امن کا گہوارہ بنانا ہے۔دشمنوں کو ان کی سازشوں میں کامیاب نہیں ہو نے دیا جائے گا۔علامہ ناصر عباس کوئٹہ میں قیام کے دوران مختلف حکومتی شخصیات سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ کوئٹہ سے تفتان قافلوں کی روانگی میں غیر ضروری تاخیر اور تفتان بارڈر پر درپیش مسائل کا حل ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔یہاں یہ یاد رہا کہ پاکستان سے ہر سال مشہد اور کربلا زیارات پر جانے کے لیے بذریعہ سڑک سفر کرنے والے ہزاروں افراد کوئٹہ سے تفتان شاہراہ کو استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے زیارات پر جانے والے زائرین کو تفتان میں مختلف مشکلات میں دانستہ طور پر الجھایا جاتا ہے جو بزرگوں ،بچوں اور خواتین کے لیے بالخصوص اذیت کا باعث بنتا ہے۔اس سلسلے میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے علامہ ناصر عباس جعفری کی ملاقات بھی ہوئی جس میں انہوں نے انہوں نے اس مسئلے کے حل کرنے کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ کے دورہ کوئٹہ اسی سلسلے کی کڑی بھی ہے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔دنیا میں وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جو کھرے کو کھوٹے سے الگ کرتی ہیں اور اپنے علمی و معنوی ارث کو ہاتھوں ہاتھ وصول کرتی ہیں۔۲۹ اگست ۱۹۸۳؁ئ کو  قبلہ مفتی جعفر حسین  نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا  انتخاب کریں تا کہ ہم  مفتی صاحب سے اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔

یوں تو مفتی صاحب کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے لیکن میں اس وقت  ان کی زندگی کے صرف ایک ورق کو کھول کر آپ کے سامنے رکھ رہاہوں۔زیادہ پرانی بات نہیں ۱۹۸۰کی دہائی تھی، ملک پر مارشل لاء کا بھوت سوار تھا۔ حکومتی اداروں پر قابض دیو جمہوری قدروں کو اپنے بوٹوں تلے روندنے کے بعد کسی اگلے شکار کی تلاش میں تھے کہ ۲۰جنوری۱۹۸۰ء کو اسلام آباد کی لال مسجد سے حاکم وقت نے زکوٰۃ آرڈیننس کے نام پر ایک شریعت شکن حکم نامہ جاری کیا۔ جس سے اسلامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ۲۰جنوری سے لیکر ۵جولائی۱۹۸۰ء تک علماء کے وفود آمرِ وقت سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ دانشور مشورے بھیجتے رہے، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے قصرِ شاہی کی طرف تار اور پیغامات ارسال کرتے رہے لیکن طاغوت کی شہ پر آمرِوقت اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں، میڈیا اس کی گرفت میں ہے، لوٹے اور لٹیرے اس کے ساتھ ہیں، درباری مولوی اور سرکاری مفتی اس کے سامنے دم ہلا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہیہ گردش کر رہا ہے۔

بالآخر ۴جولائی ۱۹۸۰ءکا سویرا طلوع ہوا۔ اس روز وطن کی مٹی کے رنگ کی وردی پہن کر شریعت اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اسلام آباد سے لیکر وائٹ ہاوس تک ہر چمچہ دھک سے رہ گیا۔ سرکاری اور درباری دبک کر سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے اور پہیہ جام ہو گیا۔ اس روز ملک بھر سے علامہ مفتی جعفر حسین (رح) کی آواز پر ہزاروں فرزندان اسلام، اسلام آباد میں جمع ہو گئے تھے اور کیونکر جمع نہ ہوتے یہ جوان آمریت کے خلاف بوڑھے مجاہد اسلام کی آواز تھی۔ یہ ایک متشدد آمر کے خلاف مخلص عالم دین کی آواز تھی۔ یہ ایک مکار حاکم کے خلاف مظلوم اسلام کی آواز تھی۔ یہ طاقت کے کالے قانون کے خلاف اسلام کے اجالے کی آواز تھی۔ یہ یورپ کی مستیوں میں مست جرنیلوں کے خلاف خشک نان جویں کھانے والے درویش کی آواز تھی۔ اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ فدائیان اسلام نے اپنے رہنما کے گرد جمع ہوکر زکوٰۃ وعشر کے نفاذ کے اعلان کو آمر کے منہ پر دے مارا۔ ۵ جولائی کی شام کو کنونشن جب تمام ہوا تو احساسِ کمتری میں مبتلا انتظامی اداروں کے کہنے پر پولیس کے روپ میں کرائے کے قاتلوں نے ہزاروں فرزندانِ اسلام پر گولی چلا دی۔

 ۵جولائی کو شام ۵ بجے کے قریب ضلع سرگودھا کا ایک نوجوان "محمد حسین شاد" سر پر گولی لگنے سے شہید ہو گیا۔ اس شہید کے خون کی برکت نے لوگوں کے سینوں کو سنگینوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا۔ یہ بظاہر ایک شخص کا قتل تھا لیکن یہ پوری ملت کی وحدت اور یکجہتی کا باعث بن گیا۔ محمد حسین شاد کی لاش کے گرنے کے بعدگھنٹوں آنسوگیس، پتھر لاٹھیاں اور گولیاں چلتی رہیں، متعدد افراد زخمی ہو گئے، خون کی موجوں نے پولیس اور فوج کے طوفان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بالاخرطاغوتی حکومت کی تنخواہ دار عسکری طاقت نے خالی ہاتھ اور تہی دست لوگوں کے حوصلے کےسامنے سر خم کر دیا اور نظام مصطفی کے حقیقی داعی نے بےسروسامانی کے عالم میں سیکریٹریٹ پر قبضہ کر کے فراعنۂ وقت پر یہ ثابت کردیا کہ تم طاقت سے فقط بدنوں پر حکومت کرتے ہو اور ہم صبر سے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔

محترم قارئین! محمد حسین شاد اگرچہ ایک عام شخص تھا لیکن اس کے رہبر کے نزدیک اس کا خون اتنا محترم اور مقدس تھا کہ محمد حسین شاد کو پاکستان میں ملت جعفریہ کا پہلا شہید تسلیم کیاگیا نیزمحمد حسین شاد کی شہادت کے بعد کئی سالوں تک جب عزاداری کے جلوس محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس سے گزرتے تھے تو وہاں پر کچھ دیر جلوس کو روک کر محمد حسین شاد کے لئے فاتحہ پڑھی جاتی تھی اور ماتم داری کی جاتی تھی۔ راقم الحروف خود بھی اس امرکاگواہ ہے کہ محرم الحرام میں امام بارگاہ جی سکس ٹو اسلام آباد کے نزدیک محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس موصوف کی یاد منانا مومنین کے درمیان مرسوم تھا اور نئی نسل کو وہیں پر محمد حسین شاد کی آگاہی حاصل ہوا کرتی تھی لیکن اب محمد حسین شاد کا نام بھی کہیں نہیں لیا جاتا۔

پاکستان کے سیکرٹریٹ پر ملت جعفریہ کے قبضے کا ورق محمد حسین شاد کے خون سے تربتر ہے۔ قبضہ ہونے کے بعد ۵جولائی کی یہ شب پہلے سے کئی گنا زیادہ گھمبیرمسائل لے کر فلک پر نمودار ہوئی۔ مظاہرین کے گرد لشکر یزید نے خاردار تاروں کا حصار کر کے ان کا پانی تک بند کر دیا۔

یہ شب ایک مرتبہ پھر شب عاشور کے زخم تازہ کر گئی۔ آج پھر محبان حسین (ع) یزید وقت کی فوجوں کے حصار میں تھے۔ جیسے جیسے رات ڈھل رہی تھی گویا روزِعاشور قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یزید کے لشکری، مظاہرین پر رائفلیں تانے فائر کھولنے کے حکم کے منتظر بیٹھے تھے اور دوسری طرف جی سکس ٹو کی امام بارگاہ میں"شاد" کی لاش ایک نئے احتجاج کا مقدمہ فراہم کر رہی تھی۔ بظاہر "شاد" کی شہادت ایک عام شخص کی شہادت تھی لیکن اس کے تصور سے ہی حکمرانوں کے بدن میں خوف کے مارے چیونٹیاں دوڑ رہی تھیں، چنانچہ ایک طرف تو مظاہرین کی ناکہ بندی کی گئی اور دوسری طرف اس لاش کو دفنانے کی فکر حکمرانوں کو کھائے جارہی تھی۔ حکومت کی طرف سےلاش کو دفنانے کے حوالے سے جی سکس ٹو میں آئی ایس او کے مسئول سے بات کی جس نے انہیں جواب دیا کہ میں مفتی جعفر حسین صاحب سے پوچھتا ہوں۔ اگر انہوں نے اجازت دی تو ہم اس برادر کی لاش کو دفنائیں گے چنانچہ مفتی صاحب نے اجازت دے دی۔

۶جولائی کو تین بجے صبح "شاد" کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ حکومت نے جنازہ لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا اور میت کے ہمراہ ۲۰ ہزار روپے بھی شہید کے ورثاء کے لیے بھیجے لیکن شہید کے وارثوں نے روپے سرکاری چمچوں کو واپس تھما دئیے۔ اب دوسری طرف سیکریڑیٹ میں ۶جولائی کو کاروبار حکومت بند رہا۔ ہزاروں بھوکے، پیاسے اور نہتے مظاہرین کے گرد پولیس اور فوج موت کے بادلوں کی طرح منڈلا رہی تھی لیکن حکومت جانتی تھی کہ ہزاروں کا یہ مجمع بھوکا اور پیاسا ہے تو ان کا رہبر بھی بھوکا اور پیاسا ہے۔ اگر یہ لوگ فوج اور پولیس کے گھیراو میں ہیں تو ان کا قائد بھی پولیس اور فوج کے حصار میں موجود ہے۔ چنانچہ بدمست حکمرانوں کے دماغ سے طاقت کا نشہ اُتر گیا۔

 مطلق العنان اختیارات کے مالک حکمران نے ـ کہ جس کا حکم پاکستان کے چپے چپے پر چلتا تھا ـ اس ڈکٹیٹر نے پرانے کپڑے پہننے والے، روکھی سوکھی روٹی کھانے والے اور انتہائی سادہ مزاج عالم دین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔

مفتی جعفر حسین (رح) نے مذاکرات کی میز پر وقت کے خون آشام آمر کو اپنے سامنے بٹھا کر طاغوت عالم کو یہ بتا دیا کہ  آج بھی مجھ جیسا اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جب یہ بوڑھا مجاہد ایوانِ اقتدار میں ایک معاہدے پر دستخط کر کے باہر نکلا توسیرتِ امام حسن (ع) پر کاربند ، خلوص و وفا کے اس پیکر کے چہرے پر کامیابی کا نور جلوہ گر تھا جبکہ امیر شام کے چیلوں کے چہروں پر شکست کی تاریکی سیاہی بن کر پھیلی ہوئی تھی۔

ادھر مظاہرین کو مولانا مفتی جعفر حسین (رح) نے منتشر ہونے کا حکم دیا ادھر امریکہ سے ضیاءالحق کو تارآگیا کہ مبارک ہو کہ آپ کی حکومت بچ گئی۔ اگر اس مبارکباد کا یقین نہ آئے تو بریگیڈئر {ر}احمد ارشاد کی کتاب "حساس ادارے" کا مطالعہ کر لیجئے۔

 آج  بھی جب سرکاری ادارے ،زائرین کو لوٹتے ہیں،دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں،ملک کے اائین کو پامال کرتے ہیں، تو مفتی جعفرحسین قبلہ  کی اقدار کے وارثوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کڑے وقت میں مفتی صاحب والا کردار ادا کریں۔

یاد رہے کہ سب کو اچھا کہنا یہ برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور سب کو برا کہنا یہ اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔اچھے اور برے میں ،کھرے اور کھوٹے میں،مخلص اور ریاکار میں فرق کرنا عقل کا تقاضا ہے۔ ۲۹ اگست ۱۹۸۳؁ئ کو  قبلہ مفتی جعفر حسین  اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا قومی و تنظیمی  راستہ آج بھی ہمارے سامنے ہے۔اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم قومیات اور تنظیمی معاملات میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کریں اور درست راستے کا  انتخاب کریں تا کہ ہم اپنے معنوی ارث کو وصول کر سکیں۔

نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل و سیکرٹری امور خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہماری اسٹبلشمنٹ کے پالے ہوئے مذہبی اثاثے ہوں یا سیاسی، قومی ہوں یا لسانی، سب کے سب ایکسپوز ہوچکے ہیں، انکی وطن دشمنی، قومی سرمایہ کی لوٹ مار، بیگناہ عوام کی بے دریغ قتل و غارت، دشمن ممالک کی ایجنٹی اور عدالت وانصاف کے قتل کی داستانیں کھل کر پوری قوم کے سامنے آچکی ہیں، فصلیں پک چکی ہیں، اب کٹائی کا موسم ہے اور اتنا بڑا قدم حکمرانوں کیلئے محب وطن عوام کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہر خائن کا احتساب ہو۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کیا نہیں دیکھ رہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کار اور ملک دشمن عناصر حکومتی مشینری کا حصہ ہیں، بعض اعلٰی سیاسی مناصب اور حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔ ہونا تو یہ چاہییے تھا کہ ان مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا جاتا اور قانون کو نافذ کرنے والے پسی ہوئی مظلوم عوام کو ریلیف دیتے۔ ہمارے اداروں اور نیشنل ایکشن پلان کی ڈائریکشن با اثر لوگوں نے تبدیل کر دی ہے اور آج وہ محب وطن عوام کو ستانے میں مصروف ہیں۔ کبھی علماء کو اذیت دی جاتی، کبھی تنظیمی کارکنان کو اور اسی طرح زائرین و مسافرین سے معاندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور انھیں لوٹا جاتا ہے۔

حقیقی دہشتگردوں کو چھوڑ کر فرضی دہشت گرد پکڑے جا رہے ہیں۔ بے بنیاد اور تعصب کی بنا پر جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں اور پھر 90 دن مسلسل انھیں اور انکے غریب خاندانوں کو اذیت دینے کے بعد ثبوت نہ ملنے پر مجبوراً بری کر دیا جاتا ہے، لیکن اسٹیٹ کی رٹ کو چیلنج کرنے والے اور مقتدر اداروں کے سربراہان کو دھمکیاں دینے والے، پاکستان مردہ باد کہنے والے، ملک توڑنے کے لئے انڈیا سے روابط کرنے والے، شہر شہر قتل و غارت، دھماکے اور خودکش حملے کرنے والے، انکی برملا حمایت اور مدد کرنے والے آزاد پھرتے ہیں۔ بیگناہ عوام کو بیجا تنگ کرنے والے اداروں کے سربراہان، بااثر محب وطن افسران اور حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے بیگناہ تمام علماء کرام و کارکنان بالخصوص مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد کے مسئول علامہ عقیل حسین خان جو تقریباً ڈیڑھ ماہ سے اداروں کی تحویل میں ہیں، انہیں فی الفور رہا کریں، پورے ملک بالخصوص پنجاب میں شیعہ اور سنی جماعتوں کے کارکنان اور بانیان مجالس عزاء کے خلاف بنائے گئے کیسسز واپس لئے جائیں۔ تعصب و  سیاسی انتقام کے تحت جو نام فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے، انھیں خارج کیا جائے اور مذہبی و  شخصی آزادیوں پر عاید پابندیاں اٹھا کر عوام کو سکھ کا سانس لینے دیا جائے۔ وطن عزیز جس نازک دور سے گزر رہا ہے، اس وقت عوام کو اسٹیٹ سے متنفر کرنا اور مایوس کرنا ملک دشمن قوتوں کی خدمت ہوگی۔ حکمران اگر ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے مخلص ہیں تو انہیں بیلنس پالیسی ترک کرنا ہوگی۔ مخلص اور محب وطن عوام کی حمایت اور پشت پناہی کے ساتھ ہی وطن کے خائن عناصر کا خاتمہ ممکن ہے، اب ان جیانتکاروں اور خیانتکاروں کا مقابلہ کرنا اور وطن کی حفاظت کرنا ہر غیرتمند پاکستانی پر فرض ہے۔

Page 11 of 26

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree