وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین لاہور کے زیراہتمام انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ پر تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین لاہور علامہ حسن ہمدانی نے کہا کہ انقلاب اسلامی ایران نے استعماری قوتوں کے سامنے جرات اور بہادری سے ڈٹ کر مسلم امہ کیلئے ایک مثال قائم کی، امریکہ اور اسرائیل اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کرکے مسلمانوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، انقلاب اسلامی ایران کی نڈر اور بابصیرت قیادت نے مسلمانوں کیخلاف ہونیوالی ہر سازش کا دلیرانہ مقابلہ کیا، دنیا بھر کے مظلومین کی حمایت کا پرچم بلند کرکے حقیقی معنوں میں مسلم اُمہ کی ترجمانی کی، آزادی کشمیر کی تحریک کی مکمل حمایت کرکے مظلوم کشمیری بھائیوں کا ہمیشہ سے ساتھ دیا اور کشمیر پر پاکستانی موقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کیلئے مظلوم فلسطینی عوام کا ہمیشہ سے ساتھ دیا اور فلسطینی مظلوموں کے خاطر ہر قسم کی استعماری قوتوں کی سازشوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور فلسطینی کاز کو دبنے نہیں دیا، دنیا بھر میں مظلوم فلسطینوں کی حمایت میں "یوم القدسِ" متعارف کروا کر یہود و نصاریٰ کے مظالم کا پردہ چاک کیا۔ انہوں نے کہا پاکستان اور ایران کی دوستی لازوال اور بے مثال ہے، دونوں ممالک کو مل کر مسلم امہ کے اتحاد اور خطے کو درپیش بیرونی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔ انہوں نے انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور ایرانی عوام کو مبارکباد پیش کی۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات سید علی احمر زیدی نے ایم ڈبلیو ایم کی میڈیا ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہا کہ موجودہ دور میں میڈیا کی افادیت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ماضی میں جو جنگیں طاقت کے بل بوتے پر جیتی جاتی تھیں آج وہ میڈیا کے زورپر لڑی جا رہی ہیں۔ میڈیا ریلیشنگ تعلیمی اداروں میں ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے جس سے میڈیا کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔تنظیمی اعتبار سے کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے ہمیں میڈیا کے تمام ذرائعوں کو بھرپور استعمال کرنا ہو گا۔قومی نوعیت کے احتجاج ،مقاصد اور مطالبات کو پوری قوم اور ذمہ دارن تک پہنچانے کا واحد ذریعہ میڈیا ہے۔۔الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنی جدوجہد اور افکار کی عالمی سطح پر تشہیر کی جاتی ہے تاکہ دیگر ممالک میں بسنے والے ہم خیال افراد بھی عملی سرگرمیوں سے آگاہ ہو سکیں۔الیکٹرانک میڈیا سے مربوط رہنا ازحد ضروری ہے۔ اس طرح پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پربھی ضرورت کے مطابق سرگرمیاں جاری رہنی چاہیے۔تمام تنظیمی دوستوں کو بالعموم اور اطلاعات کے شعبے سے وابستہ افراد کو بالخصوص اپنے اپنے علاقے میں صحافی دوستوں سے تعلقات مضبوط بنانے ہوں گے ۔تنظیمی کامیابی اور نتائج کا حصول میڈیا سے بہترین تعلقات کے بغیر ممکن نہیں۔

وحدت نیوز(لاہور) مقبوضہ کشمیر میں مظلوم عوام پر ہونے والے ظلم پر دنیا بھر کے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبراداروں کی خاموشی ان کے دوہرے معیار کا ثبوت ہے،کشمیری مسلمانوں کی بے مثال قربانیاں ضرور رنگ لائے گی،بھارتی جارحیت اور جنگی جنون کا جواب دینے کے لئے قوم کا ہر فرد سربکف تیار ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی نے ورکرز اجلاس سے خطاب میں کیا ۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور مسلم امہ کیخلاف سازشوں کا ذمہ دار امریکہ اسرائیل اور ہندوستان ہیں،مودی ،ڈونلڈ ٹرمپ،اور تین یاہو صرف مسلمانوں ہی کے نہیں بلکہ انسانیت کے دشمن ہیں،اس منحوس مثلث کے خلاف مسلم امہ کو متحد ہو کر مقابلہ کرنا ہوگا،ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا اصل چہرہ دنیا کو دکھا دیا ہے۔

انہوں نے کہا مسلم حکمرانوں خصوصاََ عرب ممالک امریکی اور اسرائیلی غلامی سے باہر نکلیں،مظلوم کشمیری مسلمانوں نے قاتل ریاست ہندوستان کی نام نہاد یوم جمہوریہ پر متحدہ عرب امارات نے شادیانے بجا کر کشمیری مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے،ہم کشمیری بھائیوں کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں ،انشااللہ اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی حق خودارادیت کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

وحدت نیوز (لاہور) لاہور میں میڈیا سیکرٹری راؤ حسیب کی رہائش گاہ پر عہدیداروں سے گفتگو کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ قوم پاناما کیس کا میرٹ پر فیصلہ سننے کیلئے بے تاب ہے، ٹرمپ نے مسلمانوں کیخلاف نئی صلیبی جنگ شروع کر دی ہے، اپوزیشن کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے، بھارت کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی سے باز آ جائے۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے آئندہ الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، اہلسنّت کو متحد کرکے بڑی سیاسی قوت بنائیں گے، سیکولر قوتوں کے مقابلہ کیلئے نظام مصطفی کی حامی قوتوں کا اتحاد ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب اور امریکہ کی ذہنی غلامی میں مبتلا حکمرانوں کو نظام مصطفی وارا نہیں کھاتا، ریلوے کے کھلے پھاٹکوں پر جلد از جلد گیٹ تعمیر کئے جائیں، ساہیوال میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں ڈاکٹر خالد بٹ اور ڈاکٹر قاسم کی ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ قابل مذمت ہے، ان کے قاتلوں کو گرفتار کرکے عبرت کا نشان بنایا جائے۔ صاحبزادہ حامد رضا نے مزید کہا کہ (ن) لیگ کی حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، ہر غریب گھر میں کرپٹ اور نااہل حکمرانوں سے نجات کی دعائیں مانگی جارہی ہیں، غریب و محروم عوام آئندہ الیکشن میں حکمرانوں سے عوام دشمن پالیسوں کا بدلہ لیں گے، ن لیگ کی حکومت نے 4 سال کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدؤں میں ضائع کر دیئے ہیں۔ چیئرمین سنی اتحاد کونسل کا کہنا تھا کہ جنہیں جیلوں میں ہونا چاہیئے تھا وہ ایوانوں میں بیٹھے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کو سرد خانے میں پھینک دیا گیا ہے، حکومت بھارت کی آبی دہشتگردی کیخلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائے، بھارت آبی ناکہ بندی کرکے پاکستان کو ریگستان بنانا چاہتا ہے۔

جب حق آگیا ۔۔۔!

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر سو اندھیرا چھایا ہوا تھا،تاریکی نے روشنیوں کو قید کر لیا تھا،امیدیں دم توڑ چلی تھیں،مایوسیاں راج کر رہی تھیں،ناکامیاں اپنی کامیابیوں پر جشن مناتی تھیں،ظلم اپنے عروج پر تھا،فحاشی کا دور دورہ تھا،عیاشی کا ہر رنگ میسر تھا،طاقت کا گھمنڈ انسانوں کو فرعون بنائے ہوئے تھا،ایک ایسی اسلامی مملکت جس کے پاس تیل کے وسیع ذخائر موجود تھے پر صیہونسٹ قابض ہو چکے تھا،دنیا بھر کی جاسوسی کا مرکز تہران بنا ہوا تھا جہاں امریکہ نے اپنا ایک بہت بڑا سفارت خانہ جسے جاسوسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا قائم کر رکھا تھا، ملک کی بیشتر یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں سمیت اہم ترین منابع غیر ملکیوں کی براہ راست دسترس اور اختیار میں تھے،اس مملکت پر اڑھائی ہزار سال سے شہنشاہی نظام حکومت چل رہا تھا ایسے میں ایک مرد قلندر نے نعرہ مستانہ لگایا او ر اس ملک و عوام کی تقدیر بدلنے کا عزم طاہر کیا ،ان کی آواز میں سچائی تھی،صداقت تھی،وہ پسے ہوئے مظلوم عوام کی امید تھے، ان کا شعار اللہ اکبر تھا،انہوں نے کہا کہ وہ اللہ اکبر کی طاقت سے مسلح ہیں،وہ خدا پر بھروسہ اور توکل کرنے والے تھے،وہ اپنے عزم اور ارادہ کی سچائی پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اس کے حصول کیلئے تمام رکاوٹوں سے ٹکرانے کی طاقت رکھتے تھے،ان میں قوت فیصلہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،وہ روحانی و معنوی مقامات سے منزہ و لیس تھے،انہیں اپنی منزل کے حصول کا مکمل یقین تھا اور وہ ہر قسم کی قربانی اور ایثار کیلئے ہمہ وقت تیار تھے،انہیں دنیا کی کسی طاقت کا ذرا سا بھی خوف نہ تھا۔۔۔۔۔لہذا جب انہوں نے ساٹھ کے عشرے کے آغاز میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو تمام خطرات اور مشکلات کو جھیلتے ہوئے ہر دن اپنی منزل کے قریب ہوتے گئے ،یہاں تک کہ 11فروری1979ء کا سورج وہ پیغام لیکر طلوع ہوا جس کیلئے ہزاروں افراد قربان ہو گئے تھے اور جس کے بارے اڑھائی ہزار سال سے قابض شاہی خاندان اور اس کے سرپرستوں نے سوچا بھی نہیں تھا،مگر اس دن سے پہلے ہی شاہ فرار ہو چکا تھا ،اور اسلامی انقلاب کانقارہ بج چکا تھا،امام خمینی جو اس انقلاب کے بانی تھے جب جلا وطنی ختم کر کے پیرس سے وطن لوٹے تو سب سے پہلے اس مقام پر گئے جہاں اس انقلاب کے ایثار گر اور قربانیاںپیش کرنے والے محو آرام تھے ،اس جگہ کو دنیا بہشت زہرا تہران کے نام سے پہچانتی ہے جہاں لاکھوں سپاہیان اسلام و فرزندان قرآن اسلامی انقلاب کے قیام،اس کی بقا اور مقدس دفاع کی جدوجہد میں سرخرو ہونے والے دفن ہیں ۔

11فروری1979ء کو آنے والے انقلاب کو امام خمینی نے انفجار نور کہا تھا،یہ واقعی نور کا دھماکہ تھا،اس سے ہزاروں سال سے قائم تاریکی اور اندھیروں کا راج ختم ہو گیا تھا،مایوسیاں امیدوں اور خوابوں کی عملی تعبیر میں بدلتی نظر آ رہی تھیں،غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر دور جا گریں تھیں،آزادی کے گیت اور نغمے پھر سے فضائوں کو معطر کیئے ہوئے تھے،خزاں کا موسم، بہار چلے آنے پر راہ فرار اختیار کر گیا تھا،انقلاب کی جدوجہد میں ہر عمر اور طبقہ فکر و حیات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا حصہ ڈالا،اپنا کردار ادا کیا،دنیا بھر میں اس انقلاب نے سوچوں کے زاویئے ہی بدل دیئے تھے،سیاست کے نئے رخ سامنے آ گئے تھے ،نہ صرف اسلامی ممالک اور تحریکیں ایک کامیاب مثال اور راستے کو پا چکے تھے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور ستم رسیدہ ،پسے ہوئے انسانوں کو بھی ایک امید ہو چلی تھی کہ طاقتوروں کو زیر کیا جا سکتا ہے،اسلامی انقلاب ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے موجود تھا،اس سے قبل انقلاب فرانس اور انقلاب روس کی مثالیں دی جاتی تھیں مگر ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب نے کامیابی کی نئی روشیں اور انسانوں کی فلاح و بہبود اور حکومت کا نظریہ ء اسلامی متعارف کروایا تھا، بانی انقلاب ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر اور سرحدوں کی قید سے آزاد ہو کر اسلام کا آفاقی اور الٰہی پیغام دنیا کو دے رہے تھے کہ اسی میں ان کی آزادی و استقلال کا راستہ موجود تھا، انہوں نے تمام مظلوم اقوام کو دعوت دی کہ وہ ستم گروں اورظالموں کے ہاتھ سے اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیںاور اس بات کی اجازت نہ دیں کہ کوئی ان پر مسلط ہو جائے ۔
    
امام خمینی کے پیغام سے سب سے زیادہ خوف ایران کے پڑوس میں واقع ان عرب حکمرانوں کو ہوا جو عوام کو بادشاہت کے جبر تلے کئی برسوں سے روند رہے تھے اور ان کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈالے بیٹھے تھے،ان عرب حکمرانوں کے سرپرستوں نے بھی محسوس کیا کہ اگر تبدیلی کی یہ لہر خطے کے دیگر عرب ممالک میں بھی پہنچ گئی تو ان کے مفادات جو پہلے ہی اس انقلاب کے بعد سخت خطرے سے دوچار ہو گئے تھے کا حصول ناممکن ہو جائے گا لہذا ہم نے دیکھا کہ اسلامی انقلاب کی راہ میں پہلے دن سے ہی مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے ،نوزائیدہ اسلامی انقلاب کو اندرونی سازشوں سے ختم کرنے کی کوششیں سامنے آئیں جن کو بڑی حکمت و دانائی سے ناکام بنایا گیا اور ان سازشوں کو اس کے کرداروں سمیت دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا پڑا،انہی سازشوں کے توڑ میں ہی امریکی سفارت خانہ پر قبضہ اور اس کے اندر واقع جاسوسی مرکز اور اس سے وابستہ سی آئی اے کے اہلکاروں کو ایرانی طلباء کے ہاتھوں یرغمال بنایا جانا ایک ناقابل فراموش ،تاریخی کارنامہ ہے جس سے کئی اور واقعات جڑے ہوئے ہیں۔
    
ایران کے اسلامی انقلاب پر پہلے دن سے ہی اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں ،اس کے اثاثے منجمد کر لیئے گئے(یہ اثاثے اب اڑتیس سال گذر جانے کے بعد مزاکرات کے بعد قسط وار دینے کا وعدہ کیا گیا ہے) اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس انقلاب کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے اس کے بانیان،علما ء ،اسکالرز،اس کے اصل دماغوں اور اعلیٰ حکومتی انقلابی شخصیات کو ٹارگٹ کر کے شہید کر نے کا سلسلہ چلایا گیا،جب اس سے کام نہ چلا تو ایران کے ہمسائے میں اپنے ایک مہرے صدام کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کر دی گئی ،آٹھ سال تک اس مسلط کردہ جنگ میں ایک نوزائیدہ مملکت اسلامی کے مقابل ساٹھ کے قریب ممالک نے عراق کا ساتھ دیا ،اور بھرپور مالی و فوجی مدد کی تاکہ انقلاب کا خاتمہ ہو جائے،بیرونی حملہ آوروں کے سات ساتھ ایک گروہ ایسا بھی پیدا کیا گیا جس کے ذریعے داخلی انتشار و تخریب کا کام لیا گیا اور مشکلات کھڑی کی گئیں تاکہ لوگ بیزار ہو جائیں اور حکومت اسلامی کا تختہ الٹ دیں مگر دنیا نے دیکھا کہ تمام سازشیں ناکام ہوئیں ، مسلط کردہ جنگ سے بھی وہ مقاصد حاصل نہ کیئے جا سکے اور پابندیوں نے بھی اسلامی ایران کو نہ جھکایابلکہ ایران اپنے بنیادی نعرے آزادی،استقلال، جمہوری اسلامی پر 38 سال سے ڈٹا ہوا ہے ،جنگ اور آفات کے زمانے میں بھی اس مملکت نے انتخابات کو ایک دن کیلئے بھی ملتوی نہیں کیا جوعوام کے جمہوری حقوق دینے کے وعدے کا پاس اور روشن مثال ہے۔حالیہ دنوں میں جب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سمیت کچھ اسلامی ممالک کے شہریوں پر امریکہ آنے پہ پابندی لگائی ہے تو ایران کے سوا کسی ملک کو جرا ت نہیں ہوئی ہوئی کہ عالمی بدمعاش کو اسی کی زبان میں جواب دے،ایران نے بھی جواب پابندیاں لگا کے اپنی غیرت اور آزادی کاثبوت دیا ہے۔
    
امام خمینی کی رہبری و سیادت میں لایا ہوا اسلامی انقلاب آج جب اپنے 38 سالہ سفر کو طے کر چکا ہے اور اس مملکت اسلامی کی عوام نے اس کی اڑتیس بہاریں دیکھ لی ہیں تو ایران آج ایک ایسی طاقت کے طور پر نظر آتا ہے جس کو خطے کی سیاست سے نکالنا یا نظر انداز کرنا خطے کے مسائل میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے،اسی طرح ایران آج دنیا کی سیاست پر بھی اپنا بھرپور اثر رکھتا ہے ،ایران کی طرف سے کیئے گئے اعلان کئی اہم ممالک کی اکانومی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انقلاب کی جن لہروں کو دنیا نے بہار کے جھونکوں کی مانند محسوس کیا تھا اسی کی بدولت مشرق و مغرب سے آزادی کی تحریکوں کو کامیابیاں ملیں اور آمریتوں سے چھٹکارا ملا،یہ الگ بات ہے کہ بعض ممالک کی قیادتوں نے اپنے ہاتھوں ہی ان کامیابیوں کو ناکامیوں سے دوچار کر لیا ہے۔
    
اس انقلاب کی سب سے اہم بات اس کا نظریہ ہے جس کی وجہ سے اسے تمام تر مشکلات،مصائب،آفات،سازشوں،جنگوں،تخریبی کاروائیوں،اپنوں اور پرایوں کی بے رخیوں،الزامات اور مسائل کے انبوہ کے مقابل ہر لمحہ کامیابیاں ملیں،وہ نظریہ بے شک ولایت فقیہ کا الٰہی نظریہ ہے یہی نظریہ حزب اللہ کو اسرائیل جیسے بدمعاش ملک کے مقابل کامیابیاںسمیٹنے کا جذبہ فراہم کرتا ہے،یہی نظریہ 38 سال تک پابندیوں کے شکار ملک کو ایک ترقی یافتہ،اعلیٰ ٹیکنالوجی سے آراستہ مملکت بنا تاہے، یہی نظریہ ایک قوم کو دنیا کے سامنے سرخرو اور آزادی سے جینے کے گر سکھلاتا ہے اور اسی نظریہ پر قائم ہی اپنے ملک،وطن اور دین کے دفاع کیلئے لاکھوں لوگ خود کو پیش کر دیتے ہیںاور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔انقلاب کے چاہنے والوں اور بہی خواہوں کو اس نظریہ کی تقویت اور مضبوطی کیلئے کام کرنا چاہیئے تاکہ اسلامی انقلاب کی خوشبو ہر سو معاشرہ کو معطر کر ے۔
    
اسلامی انقلاب کی اڑتیسویں صبح بہار کی مبارکباد کے اصل مستحق وہ خانوادگان اور سرفروش ہیں جنہوں نے اس الٰہی پیغام جسے انہوں نے امام خمینی رح کی زبانی سنا اور لبیک کہتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں قربانی کے ان مٹ نمونے پیش کرنے والی مائیں جنہوں نے اپنے تین تین بچوں کو انتہائی خندہ پیشانی سے قربان گاہ میں بھیجا۔خدا وند کریم سے دعا ہے کہ اس انقلاب کو حضرت حجت ؑ کے انقلاب سے متصل فرمائے(آمین)    


تحریر۔۔۔۔ارشاد حسین ناصر
                             

وحدت نیوز (آرٹیکل) حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کےبارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں اس عظیم شخصیت کےبارے میں گفتگو کرنےکے لئے صاحب عصمت اور عالی بصیرت کا حامل ہونا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر آپؑ کے وجود کو کوئی درک نہیں کر سکتا ۔آپ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال،  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں  ۔
 کتاب فضل تراآب بحر کافی نیست
         کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم

سمندرسیاہی، درخت قلم اور جن و انس لکھنے والے بن جائے تب بھی آپ ؑ کے فضائل بیان نہیں کر سکتے۔ علامہ اقبال انہیں افراد میں سے تھے جنہیں خدا نےعالی بصیرت عطا کی انہوں نے حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی شان میں ایک نظم کہہ کر  اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے یہاں ہم اسی نظم کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
آپؑ کی والدہ ملیکۃ العرب تھی لیکن آپؑ نے کبھی آرام کی زندگی پسند نہیں کیا ۔آپ ؑہمیشہ اپنےکردار کو نمونہ عمل بنا کر رکھا۔والد مختار کائنات تھے لیکن کبھی آپ ؑنے اس رشتے سے فائدہ نہیں اٹھایا اور تمام زندگی ہر طرح کی مصیبت و زحمت  برداشت کرتی رہی۔شوہر مشکل کشاء تھے لیکن آپؑ نے تمام زندگی کسی طرح کی فرمائش نہیں کی اور ہمیشہ شوہر کی خدمت کرنے کے بعد وقت آخر معذرت طلب کی کہ اگر کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو معاف کر دے۔ آپؑ کے فرزند جنت کے جوانوں کےسردار تھے ۔آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ۔آپؑ وہ ممدوحہ ہیں جس کی مدح سورۃ کوثر ،آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔آپؑ  وہ عبادت گزار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا ۔آپؑ وہ  صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا ۔آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سےبھی پردہ فرمایا۔آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟تواس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی  کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔{خیر لهن ان لا یرین الرجال و لا یرو نهن}

رسول خداﷺ آپ ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :{ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک} بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترینانسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں جو نسل اسماعیل میں اول امام کی شریک حیات اور گیارہ ائمہ کی ماں ہیں ۔جن کے متعلق توریت کے سفر تکوین کے سترہوں باب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اطلاع دی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاوہ ہیں جو یوحنا کے مکاشفات میں ایک عظیم علامت کے طور پر آسمان پر ظاہر ہوئیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر{انما نطعمکم لوجه الله} کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:{ لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم.. } اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:{انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر}بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔

حضرت فاطمہ زہراءعلیہا السلامعلامہ اقبال کے کلام میں:
 علامہ اقبال نے حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامکو بطور اسوہ پیش کیاہے یہ  اقبال کی بصیرت کی علامت ہے یعنی اقبال کی نظر میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکی شخصیت بشریت کے لئے اسوہ ہے۔خداوند تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو واسطہ فیض قراردیا ہے اور تمام فیوضاتِ ظاہری اور معنوی اُنہی ہستیوں کے ذریعےمخلوق تک پہنچ جاتےہیں کیونکہ یہ وسائطِ فیضِ خدا ہیں انکی ذات سے مخلوق تک جو فیض پہنچتے ہیں ان میں سے ہدایت، معرفت اور علم ہےجو مقصدِ بعثت اور مقصدِ خلقتِ معصومین ہے۔ قرآن مجید میں رسول اللہ  ﷺکو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بطورِ اسوہ پیش کیا ہے{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ الله اُسْوَة حَسَنَة حضرتابراہیم اور دوسرے انبیاءعلیہم السلام کو بھی  خداٰ نے بعنوانِ اسوہ پیش کیا۔علامہ اقبال نے بھی حضرت زہراسلام اللہ علیہاکو پوری انسانیت مخصوصا خواتین کے لئےایک بہترین نمونہ عمل کے طور پیش کیا ۔علامہ اقبال سے پہلے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانوں کی ہدایت  کے لئے  پہلے ہی فرمایا تھا چنانچہ امام زمان عجل اللہ تعالی الشریف فرماتے ہیں :{في إبنَةِ رسُولِ اللهِ (ص) لِي أسوَهٌ حَسَنَهٌ} بے شک رسول خداﷺکی بیٹی میرے لئے نمونہ عمل ہے۔

اقبال کی نظر میں بھی پنجتن پاک کا گھرانہ مقدس و مطہر ہےاس لئےاس گھر کی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں ۔علامہ اقبال پر خدانے یہ لطف کیا ہے کہ اُنہیں غیر معمولی بصیرت عطا کی ہے یہبصیرتیں خدا نے سب کیلئے رکھی ہوئی ہیں لیکن خدا اُن کو دیتاہے جو اس کےقدردان ہوں، جو اپنی ابتدائی بصیرت کو دُنیاکے چھوٹے اُمور میں صرف کردیں تو خدا  عالی بصیرت ان کو نہیں دیتا لیکن جو اپنے اندر اسگوہر کے قدردان ہوتے ہیں، خدا اُنہیں بصیرتِ عظیم عطا کرتاہے۔تاریخ بشریت میں انگشت شمار لوگ ہیں جو بصیرتِ برتر کے مالک ہیں۔ علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کی بارگاہ میں عقیدت کااظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
مریم از یک نسبتِ عیسیٰ  عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا  عزیز

جنابِ مریمؑ بہت باعظمت اورپاکیزہ خاتون ہیں۔علامہ اقبال کی نظر میںحضرت مریمسلام اللہ علیہا اسوۂ ہے، خدا نے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو بعنوانِ اسوہ متعارفکروایا ہے۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نےقصہ مریم بتانا شروع کردیا کہ مریم پیدا کیسے ہوئی، دُنیا میں کیسے آئی؟انسانیت کے درجات ہیں اگرایک شخصیت اعلیٰ درجےفائز ہو تو اس کے معانی یہ نہیں ہیں کہ چھوٹے یا نچلے درجے پر جو ہے وہ ناقص ہو۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا  اسوۂ کاملہ ہیں۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکا اسوہ ہونا حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے برتر ہونے کی وجہ سے ہےنہ یہ کہ حضرت مریم  سلام اللہ علیہامیں کوئی نقص ہے،بلکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہامیں فراوان کمالات ہیں، لہٰذا پہلے اقبال اسے بطور اسوۃ  پیشکرتا ہےجسےقرآن نے پیش کیا ہے۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکی عظمت اور مقام بیان کرنے کیلئے اقبال نے ایک مسلم قرآنیوالٰہی اسوہ پہلے چنا ہے اور ان کو پیش کرکے کہا کہ مریم  کے بارے میں کسیکو شک وشبہ نہیں ہے کہ اسوہ ہےکیونکہ جناب مریمسلام اللہ علیہا  وہ ہستی ہیں جن کی عصمت پر قرآنمیں اور آسمانی کتابوں میں گواہی دی گئی ہے۔ حضرتزکریا علیہ السلامجن کو خدا نے حضرت مریم سلام اللہ علیہاکا کفیل بنایا۔  جناب مریم سلام اللہ علیہا نوجوانی میں اس قدر پاکیزہ اور باکمال ہیں کہ حضرت زکریا علیہ السلام مریم  سےمتاثر ہیں اور مریم  سے الہام لیتے ہیں،رسول خداجناب مریم  سلام اللہ علیہاسے الہام لیتے ہیں۔قرآنکا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں داخل ہوئے اگرچہ کفیلاور ذمہ دار تھے، دیکھتے ہیں کہحضرت مریم سلام اللہ علیہاکے پاس بہت ساری چیزیں موجود ہے۔حضرت زکریاعلیہ السلامحضرت مریمسلام اللہ علیہاسے سوالکرتا ہےکہ یہ سب کہاں سے آیاہے؟ حضرت مریم سلام اللہ علیہا   نے فرمایا کہ یہ سب خدا کی طرف سےآیا ہےخدا جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔

{كلُّمَادَخَلَعَلَيْهَازَكَرِيَّاالْمِحْرَابَوَجَدَعِندَهَارِزْقًاقَالَيَامَرْيَمُأَنىَ‏لَكِهَاذَاقَالَتْهُوَمِنْعِندِاللَّهِإِنَّاللَّهَيَرْزُقُمَنيَشَاءُبِغَيرْحِسَاب} جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں جاتے تو اس کے پاس طعام موجود پاتے ،پوچھا:اے مریم!یہ {کھانا}تمہارے پاس کہاں سےآتا ہے؟ وہ کہتی ہے : اللہ کے ہاں سے، بے شک خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے ۔

پس مریم  ایک اسوۂ کاملہ ہیں لیکن حضرتزہرا ء  برتر اسوہ ہیں یعنی مقاماتِ حضرت زہراء سلام اللہ علیہامقاماتِ حضرت مریمسلام اللہ علیہا  سےبرتر ہیں۔جناب مریم اپنے زمانے کے عورتوں کی سردار تھیں لیکن حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   تمام عورتوں کی سردار ہیں ۔ رسول خدا فرماتے ہیں :{ کانت مریم سیدة نساء زمانها اما ابنتی فاطمه فهی سیدة نساء العالمین من الاولین و الاخرین} جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے اور آپؐ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا ۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ حسنین بھی بھوکےہیں۔رسول خدا واپس چلے گئےاتنے میں ایک عورت نے دو روٹی اور ایک گوشت کا ٹکڑا جناب حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی خدمت میں لے کر آیا۔آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺکو کھانےپردعوت دی درحالیکہ حسنین علیہم السلام اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔آپ ؑنے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺکے سامنے رکھ دیا ۔رسول خداﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹی سے بھرے ہوئے تھے۔پیغمبر اکرم ﷺنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سےسوال کیا بیٹی اسے کہاں سے لائے ہو ؟آپؑ نے فرمایا:{هو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب} یہ اللہ کی طرف سےہے اور خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔رسول خدا نے فرمایا:{الحمد لله الذی جعلک شبیهة سیدة نساء بنی اسرائیل}تمام تعرفین اللہ کے لئے جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا ۔حضرت زہراءسلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ہمسائیوں نےبھی تناول کیا اورخدا نے اس میں برکت عطا کی ۔  

 خداوند متعال حدیث قدسی میں پیغمبر اکرمﷺ اور امام علی علیہ السلام  کے وجود مبارک کو جناب فاطمہ زہراء علیہا السلامکے وجود  کی مرہون منت قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :{ لولاک لما خلقت الافلاک ولو لا علی لما خلقتک و لو لا فاطمه لما خلقتکما} اےرسول آپ کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا اور  علی کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو آپ کو خلق نہ کرتا اور فاطمہ کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتاتو آپ دونوں کو خلق نہ کرتا۔جب فرشتوں نے کساء کے اندر موجود افراد کے بارے میں سوال کیا تو خالق کائنات نے جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام کو مرکزیت قرار دیتے ہوئے آپ کے ذریعے تعارف کرایا:{هم فاطمة وأبوها و بعلها وبنوها} جناب فاطمہ زہراء علیہا السلامکائنات کی واحد شخیتا ہے جس کاوجود جنت کے پھل کے ذریعے تیار ہوا اسی لئے رسول خداﷺ بار بار آپ کو بوسہ دیتے اور جنت کے پھل  کی خوشبو آپ سے سونگھتے۔ رسول خدا ﷺ فرماتےہیں:{فاذا اشتقت لتلک الثمار قبلت فاطمة فاصبت من رائحتهاجمیع تلک الثمار التی اکلتها} جناب مریم علیہا السلام کے بارے میں ایسا ذکر  نہیں ہواہے لیکن جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام   کی ولادت کے بارے میں فرماتے ہیں :{فولدت فاطمة{ع}فوقعت علی الارض ساجدة}  جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام ولادت کے وقت ہی خداکے حضورسجدہ ریز ہوئیں۔

علامہ اقبال نے حضرت مریم   سلام اللہ علیہاکی ایک نسبت جبکہ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کے لئے تین نسبتیں بیان فرمائی ہیں۔ علماء جب فضائل کو تقسیم کرتے ہیں توفضائل کی کئی قسمیں بیان کرتے ہیں، ایک فضائل نفسی اور دوسری فضائلنسبی ۔ فضائل نفسی وہ سے مراد وہ فضائل ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجودہوتاہے۔فضائل نسبی وہ صفات ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اسکے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلاماور حضرت مریمسلام اللہ علیہا  میں دونوں طرح کیصفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں یہ بھی حقیقی فضائل ہیں اور وہ فضائل بھیپائے جاتے ہیں جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔جناب مریم سلام اللہ علیہاکو اگر ایک  حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے نسبت دے کر دیکھیں تو مریم  بہت باعظمت ہے۔ اسلئے کہ نبی خدا کی ماں ہونا ایک صفت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ منسوب کرنےسے حضرت مریم سلام اللہ علیہا  میں آئی ہے۔ درحقیقت  حضرت مریمسلام اللہ علیہا جناب  عیسیٰ علیہ السلام  کی ماں بنے کی وجہ  سے باکمال خاتون نہیں بنی بلکہ پہلے مریم   میں کمالات رکھےتاکہ جناب عیسیٰ کی ماں بننے کے قابل ہوجائے، پہلے کمالاتِ نفسی اورکمالاتِ ذاتیمریم  میں آئے، ان کمالات کے نتیجے میں نسبی کمالات پیدا ہوئے، یعنی ہرخاتون عیسیٰ  کی ماں بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی حضرت مریمسلام اللہ علیہا  کے اندر موجود کمالاتِ نفسیہ نے حضرتمریم   کو اس قابل بنایا کہ وہ عیسیٰ  کی ماں بنے۔جناب حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامکی عظمت کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت والدِ گرامی، دوسری جانب بحیثیت ماں ملیکتہ العرب حضرت خدیجتہ الکبریٰ تیسری اور چوتھی جانب مولائے کائنات علی مرتضیٰ بحیثیت شوہر اور سردارانِ جنت بحیثیت اولادتھے۔علامہ اقبال نے جناب سیدہ کی ان نسبتوں کا ذکر کرکے یہ ثابت کر دکھایاکہ آپ کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع بیٹی، بہترین زوجہ اور عظیم ترین ماں ہیں۔ وہ ماں جس کی آغوش میں ایسے فرزند پروان چڑھے جو سرمایۂ دین اور حاصلِ پیغمبراسلام تھے۔
نورِ چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین وآخرین

حضرت زہراء سلام اللہ علیہارسول خداؐ کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں، نورِ چشم ِ رسول اللہؐ ہیں.یہ بہت خوبصورت تعبیر ہےکہ آپؐنے فرمایا:{فاطمة بضعة منی و هی نور عینی و ثمرة فوادی و روحی التی بین جنبی و هی الحورا ء الانسیة} فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے ، میری آنکحوں کی ٹھنڈک ہے اور میری روح کا حصہ ہے ،وہ انسانی شکل میں ایک فرشتہ ہے۔رسول اللہﷺکا نفس کوئی احساساتی نفس نہیں ہے بلکہ آپؐ انسانِ کامل ہیں یعنی وہ ذات جس پر احساسات غلبہ نہیں کرتے۔ رسول خدا جب بیٹی کو دیکھتاہے تو آنکھوں میں ٹھنڈک آجاتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ احساساتِ پدرانہ نہیں ہیں۔
آنکہ جان درپیکر گیتی دمید
روزگارِ تازہ آئین فرید

وہ رسول اللہﷺؐجس نے اس جہان کے اندر ایک تازہ روح پھونک دی، مردہ عالم کے اندرآکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔
بانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰ
مرتضیٰ  مشکل کشاء  شیرِ خدا

دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہرا   اس تاجدار کی زوجہ ہے جس کے سر پر تاجِ ہل أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے۔ہمسری یعنی ہم پلہ ہونا،ہم پلہ ہونے سے مراد صرف جسمانیت نہیں ہے بلکہ ہم پلہ یعنی کمالات اور فضائل جو امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات میں ہیں ان کا ایک نمونہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہامیں ہونا ضروری ہے ورنہ ہم پلہ، ہمسر اور کفو نہیں بن سکتے۔
پادشاہ و کلبہ ایوان او
یک حسام ویک زرہ سامان او

استاجدار کا قصرِ بادشاہی ایک کلبہ اور جھونپڑا ہےاور تمام سامانِ زندگیایک شمشیر اور ایک زرہ ہے۔ علامہ اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فضیلتِ انسانی ان اُمور سے حاصل نہیں ہوتی ۔ایکمصنف کاجملہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین شخصیات مادّی دُنیا کے لحاظ سے غریب ترین گھر یعنی جھونپڑے میں پیدا ہوئے اور آج دُنیا کی عظیم ترین عمارتوں کے اندر گھٹیا ترین لوگ پیدا ہورہے ہیں۔
مادرِآن مرکزِ پرکارِ عشق
مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق

 جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہاپرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہے، عشق کا مرکز  امام حسین علیہ السلامہیں اور  امام حسین کی ماں حضرت زہراء سلام اللہ علیہاہیں یعنی اس کاروانِ عشق کے سالار کی ماں ہے۔ کربلامیدانِ عشق ہے، حسین ـ امامِ عشق ہے بہت چیدہ چیدہ اور انگشت شمار لوگوں کوہی کربلا اور امام حسین علیہ السلام سمجھ میں آیا ہے۔
علامہ اقبال ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
         حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق
           یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب

 علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتےہوئے  کہتےہیں :
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم

ایک بیٹا مرکزِ پرکارِ عشق اور سالارِ کاروانِ عشق ہے اور دوسرا شمعِ شبستانِ حرم ہے۔اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ہوتی ہے۔
تانشیند آتشِ پیکارو کین
پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین

امام حسن مجتبی علیہ السلام  نے تاج ونگین اور اقتدارکو ٹھکرادیاتاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہ باقی رہے۔
آن دگر مولائے ابرارِ جہان
قوتِ بازوئے احرارِ جہان

تمامعالم کے ابراروں کے مولا سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، ان سب کے حوصلہ، جوش، ولولہ کے اندر جس زور اور توانائی آجاتی ہے اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے جس کے ذکر سے ان کے اندر قوت آتی ہے وہ بھی جناب فاطمہسلام اللہ علیہا  کا بیٹا ہے۔ ابرارِ جہاں اور احرارِ جہاں حسین علیہ السلامکی ذات ہے، جتنے بھی دُنیا میں حریت پسند ہیں انہوں نےحریت کا سبق حسین  سے سیکھا ہےاسی لئے شاعرکہتاہے :
انسان کو بیدار توہو لینے دو
             ہرقوم پکاری گی ہمارےہیں حسین

علامہ اقبال امام حسین علیہ السلام کے بارےمیں مزید فرماتے ہیں:
در نوائے زندگی سوز از حسین
اہلِ حق حریت آموز از حسین

آغوشِ فاطمہ کے دوسرے پروردہ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنی ماں کی تربیت کا مظاہرہ میدان کربلا میں کیا۔ دلبندِ زہراء امام حسین علیہ السلامنے میدانِ کربلا میں جو تین دن انتہائی گرسنگی اور تشنگی کے عالم میں گزارے۔ اس کی مشق حضرت زہراء سلام اللہ علیہانے انہیں بچپن میں کروائی تھی۔ جس ہستی نے بچپن ہی میں ایک سائل کی خاطر بارہا بھوک برداشت کی ہو اس کے لیے یہ امر کافی آسان ہے کہ اسلام کی بقاء کی خاطر مع اہل و عیال اور احباب و اصحاب مصائب و آلام کا پہاڑ دوش صبر پر اٹھائے۔
این حسین کیست که عالم همه دیوانه ی اوست
این چه شمعی است که جانها همه پروانه ی اوست

علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہاکو بطور ماں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سیرتِ فرزندھا از اُمّھات
جوہرِ صدق وصفا از اُمّھات

ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’کسی قوم کی تہذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے۔  اگر عورت ذلیل ہے تو سمجھ لیجئے کہ قوم بھی ذلیل اور تہذیب سے عاری ہے۔ مائیں جس قدر بالغ نظر، پاکدامن اور تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گیں اُسی قدر قوم میں دور اندیش، صالح خصلت اور صاحبِ فراست افراد پیدا ہوں گے۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوۂ کامل بتول

 عظیم ماؤں سے محروم قوم عظیم فرزندوں سے بھی تہی دست ہوتی ہیں۔ نتیجتاً یہ قومیں زوال آمادہ ہو جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ فنا کے گھاٹ اترتی جاتیں ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہاماوٴں کیلئے اسوۂ کاملہ ہیں، مائیں اتنی پاکیزہ ہوں، ان کا وجود اتنا آمادہ ہو تاکہ اس جیسا پھل ماوٴں کے شجرۂ وجود پر لگے۔
برن محتاجی دلش آن گونہ سوخت
بہ یہودی چادرِ خود را فروخت

ایک ضرورت مند کی خاطر اتنا حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہاکا دل جلتا ہےکہ اپنی شادی کے لباس کو بھی بخش دیتی ہے۔اسی طرح ایک سائل کی مشکل کوحل کرنے کی خاطرحضرت زہراءسلام اللہ علیہانے اپنی چادر حضرت سلمانکو یہ کہہ کر دے دیاسے گروی رکھ کر سائل کی شکم سیری کا اہتمام کر دو۔
نوری وہم آتشی فرمانبرش
گم رضائش دررضائش شوہراش

 حضرت فاطمہسلام اللہ علیہا  کی رِضا اپنے شوہر کی رِضا میں فانی ہے،حضرت علیعلیہ السلام کی بات کے آگے ان کی کوئی بات نہیں ہے، حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلاماس چیز پر راضی ہیں جس پر  حضرت علیعلیہ السلامراضی ہو۔
آن ادب پروردۂ صبر ورضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا

حضرت زہراء سلام اللہ علیہاادب پروردۂ رسول خداﷺہیں یعنی رسول اللہﷺنے آپ  کی تربیت کی اور صبر ورِضا کے ادب سے مؤدب کیا، اس لئے تو آپ  مقامِ رِضا پر فائز تھیں۔ اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی تھیںیہ باعظمت بی بی اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہے اور چکی کےدوران زبان پر شکوہ بھی نہیں ہے کہ چکیاں چلا چلا کر ہاتھوں پہ چھالے پڑ گئے ہیں بلکہ چکی چلاتی ہے اور ہمیشہ زبان پر قرآن کا ورد ہے۔

ابو نعیم اصفہانی نقل کرتے ہیں :{لقد طحنت فاطمة بنت رسول الله حتی مجلت یدها ،وربا،و اثر قطب الرحی فی یدها} آپ ؑفرماتی ہیں :{حبب الی من دنیاکم ثلاث: تلاوة کتاب الله و النظر فی وجه رسول و الانفاق فی سبیل الله} تمہاری دنیا میں میری پسندیدہ چیزیں تین ہیں :

1- تلاوت قرآن
2- رسول خدا (ص) کیے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا
3- خدا کی راہ میں انفاق و خیرات کرنا.

حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اپنے گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں، اس وقت گھر کا سخت ترین کام چکی چلانا ہوتا تھا، لوگ غلاموں سے چکی چلواتے تھے اور تاجدارِ ھل اتیٰ کے گھر میں ملکہ قصر حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامخود چکی چلارہی ہیں اور ساتھ قرآن پڑھ رہی ہیں ۔
گریہ ہائے او زبالین بے نیاز
گوہر افشاندی بہ دامانِ نماز

حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام نماز میں روتی تھیں.عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا سیدۂ کونین شب و روز اس قدر عبادتِ الہٰی میں مشغول رہتیں کہ کہ والدِگرامی کی مانند آپکے پائے مبارک متوّرم ہو جاتے۔امام خمینی ؒ فرماتے ہیں: میں نے حضرت مریمؑ  کے بارے میں نہیں دیکھا کہ آپؑ کے پائے مبارک عبادت الہی میں مشغول رہنے کی وجہ سے متورم ہو گئے ہوں لیکن حضرت زہراءسلام اللہ علیہا  کے قدم مبارک  کثرت عبادت الہی کی وجہ سے متورم ہو جاتے تھے۔ عبادت میں ہمشہء دوسروں کو دعا کرتے یہاں تک کہ حسنینعلیہم السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا: {الجار ثم الدار} پہلے ہمسایےاس کے بعد گھر والے۔
اشک او پرچید جبرئیل  از زمیں
ہمچو شبنم ریخت برعرشِ بریں

جبرئیل امین آسمان سے زمین پر آتے تھے اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا     کے آنسو اکٹھے کرتے اور عرشِ بریں پر جاکر ان کو شبنم کی طرح بکھیرتے تھے لہٰذا  علامہ اقبالکے نزدیک عرشِ بریں کا معطر ہونا حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  کے آنسووٴں سے تھا۔عرشِ بریں جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے آنسووٴں سے معطر اور منور ہے۔امام خمینی ؒ فرماتے ہیں : حضرت زہراءعلیہا السلام کی  سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد جبرئیل امین آپ ؑکے پاس تشریف لاتے اور آپؑ کو تسلیت پیش کرتے اور آئند رونما ہونے والے واقعات سے آپ کو آگاہ کرتے۔

آخر میں علامہ اقبال کی اس والہانہ عقیدت کا اندازہ ذیل کے دو اشعار کے ذریعے کر سکتا ہے:
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جنابِ مصطفےٰ  است
ورنہ گرد تربتش گر دید مے
سجدہ ھا بر خاک او پاشید مے

آئینِ حق میرے پاوٴں کی زنجیر بنا ہوا ہے اور مجھے اسلام اجازت نہیں دیتا اوراسی طرح جنابِ رسول خداﷺکے فرمان کا مجھے پاس ہے اور فرمانِ مصطفےٰ ﷺاگر مانع نہ ہوتا تو میں ساری عمر آپؑ کی قبر کے گرد طواف کرتا اور میراایک ہی کام ہوتا کہ میں تربتِ پاکِ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامپر فقط سجدہ کرتا۔
کاش علامہ اقبالاپنے  اس خوبصورت اشعار میں نام نہاد مسلمانوں  کے   اس کردارکی  بھی عکاسی کرتا جو انہوں  نے بعد از رحلت رسول خدا ﷺ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   کے ساتھ انجام دئے۔ ان مشکلات اور مصیبتوں کا تذکرہ  جناب حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا  اپنے اشعار میں  یوں بیان کرتی ہیں :
ما ذا علی من شم تربة احمد                   الا یشم مدی الزمان غوالیا
صبت علی مصائب لو انها                 صبت علی ایام صرن لیالیا

 اے بابا!آپ کے بعدمجھ پر اتنے ستم ڈھائے گئےکہ اگر  یہ روشن دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتوں میں بدل جاتے۔
آیۃ اللہ اصفہانی کمپانی کے چند اشعار کے ذریعے اس مقالہ کو ختم کرناچاہتا ہوں تاکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  پر ڈھائی گئی مصیبت کا کچھ اندازہ ہو۔
   ماأجهل القوم فان النار                       لا تطفی نور الله جل و علا

 یہ لوگ کس قدر جاہل اور ناداں تھے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ نور خدا  کوآتش کے ذریعے خاموش نہیں کر سکتے۔
الباب و الدماء و الجدار  شهود صدق ما بها خفاء

دروازہ ،خون اور دیوار یہ سب گواہ ہیں ان چیزوں پر جسے دنیاچھپانا چاہتے ہیں۔
و لست أدری خبر المسمار                  سل صدرها خزانة الاسرار
دروازے میں موجود کیل کا مجھے کوئی علم نہیں  اگر جاننا چاہتے ہو تو جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   کے سینہ اطہر سے پوچھ لو جو اسرار الہی کا خزانہ ہے ۔
خداوند و متعال ہمیں  مقام حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  کو سمجھنے اور انہیں  اپنی زندگی میںاسوہ قرار دینے کیتوفیقدے۔
{السّلام علیک أیّتها الصدّیقة الشهیدة الممنوعة إرثُها، المکسور ضلعها، المظلومبعلها، المقتولِ وَلَدُها}


تحریر ۔۔۔ محمد لطیف مطہری کچوروی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree