وحدت نیوز (گلگت) برادر کاظم حسین مجلس وحدت مسلمین چھلت کے یونٹ سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئے۔ڈاکٹر علی گوہر ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان نے حلف وفاداری لیا۔

مجلس وحدت مسلمین ضلع نگر کی جانب سے چھلت یونٹ کے سیکرٹری جنرل کے انتخاب کیلئے مورخہ 12 مارچ کو عمومی اجلاس طلب کیا گیا جس میں چھلت کے علاوہ موضع بر،چھپروٹ کے کارکنوں نے بھی شرکت کی۔اجلاس میں شیخ محمد یونس نجفی کے علاوہ صوبائی کابینہ کے اراکین ڈاکٹر علی گوہر، غلام عباس ،سیکرٹری سیاسیات بھی شریک ہوئے۔

سیکرٹری جنرل چھلت یونٹ کے انتخاب کے بعد صوبائی کابینہ کے اراکین کے ساتھ ضلعی شوریٰ کے اراکین کا اجلاس منعقد ہوا جس میں محمد علی شیخ کی اچانک رحلت سے حلقہ 4 کی خالی نشست پر ضمنی الیکشن کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور و خوض کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مجلس وحدت مسلمین روایتی سیاست سے ہٹ کر انتخابی سیاست میں میرٹ کو ترجیح دے گی ۔کسی بھی سیاسی اتحاد کیلئے مجلس وحدت کے دروازے کھلے رکھنے پر زور دیا گیا البتہ کسی بھی سیاسی جماعت سے الائنس کی صورت میں میرٹ پر ہرگزسمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔انتخابی سیاست میںجیت یا ہار ہمارے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر میدان عمل میں استقامت دکھانا اصل معیار ہے۔اجلاس میں شریک کارکنان نے کہا کہ نگر قوم کسی بھی وقتی مفاد کی خاطر اپنے عزت و قار کی بالادستی کو برقرار رکھنے میں اہلیت کو ترجیح دینگے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہے کہ یمن بارڈر پر پاک افواج کی تعیناتی کی خبروں میں صداقت نہیں ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصر شیرازی سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کیا، تفصیلات کے مطابق سرتاج عزیز نے کہاکہ گلگت بلتستان کوپاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے جس کی منظوری وزیر اعظم پاکستان  جلد دیں گےلیکن یمن بارڈر پر پاکستانی فوج کی تعیناتی کی خبر میں صداقت نہیں، ذرائع کے مطابق سید ناصر شیرزای نے سرتاج عزیز سے بات کرتے ہوئےپاکستان کی یمن جنگ میں شمولیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے، پاکستان امت مسلمہ کا واحد ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے جسے مسلم ممالک میں مصالحت کارکا کردار اداکرنا چاہئے ناکہ فریق کا۔

وحدت نیوز(کراچی/ سکھر) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات سید اسدعباس نقوی نے قومی انتخابات 2018کی حکمت عملی کی ترتیب کے لئے صوبہ سندھ کے تین روزہ دورے کا آغاز کردیا، اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں وہ کراچی پہنچے جہاں انہوں نے صوبائی سیکریٹری امور سیاسیات علی حسین نقوی سے ملاقات کی اور ممکنہ انتخابی  حلقہ جات کی فہرست پر تبادلہ خیا ل کیا اس موقع پر کوآرڈینیٹر مرکزی پولیٹیکل سیل محسن شہریاربھی ان کے ہمراہ ہیں، سید اسد عباس نقوی نے کراچی میں قیام کے دوران صوبائی اور ڈویژنل رہنما علی حسین نقوی ، میثم رضا عابدی ودیگر کے ہمراہ ایم ڈبلیوایم ضلع ملیر کا دورہ کیا ، ضلعی سیکریٹریٹ میں منعقدہ ضلعی پولیٹیکل کونسل کے اجلاس میں خصوصی شرکت اورگذشتہ انتخابی نتائج اور حکمت عملی سمیت آمدہ انتخابی پالیسی پر تفصیلی بحث ومباحثہ اور مشاورت کی گئی، بعد ازاں دورہ سندھ کے دوسرے مرحلے میں سید عباس نقوی ، محسن شہریار اور سید علی حسین نقوی کے ہمراہ سکھر پہنچے جہاں انہوں نے ایم ڈبلیوایم سکھر ڈویژن اور لاڑکانہ ڈویژن کی پولیٹیکل کونسل کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی اور سندھ میں ایم ڈبلیوایم کی حکمت عملی کے حوالے سے دیگر مرکزی ، صوبائی اور ضلعی رہنماوں سے مشاورت کی ، اس موقع پر مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی سمیت  صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی ، سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے تنظیمی عہدیدار بھی موجود تھے ۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اسد عباس نقوی کا کہنا تھاکہ مجلس وحدت مسلمین نے آئندہ قومی انتخابات کے حوالے سے تفصیلی مشاورت اور حکمت عملی کے تعین کا آغاز کردیا ہے  ، ہمارا دورہ سندھ بھی اسی سلسلے کے ایک کڑی ہے ، پہلے مرحلےمیں ممکنہ انتخابی حلقوں کا تعین، بنیادی ضروریات اور تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی بنیادی اہداف ہیں انشاءاللہ جلد ایم ڈبلیوایم اپنے چنیدہ انتخابی حلقوں اور امیدواروں کا اعلان کرے گی۔ کسی بھی جماعت کے ساتھ الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ،مختلف سیاسی ومذہبی جماعتیں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ انتخابی اتحاد کی خواہاں ہیں ، البتہ کسی بھی ممکنہ انتخابی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ پارٹی کے پالیسی ساز ادارے کریں گے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) دین اسلام میں عقل اور تفکر عقلی کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے  یہاں تک کہ اسلام کے منابع میں سے ایک عقل کو قرار دیا گیا ہے۔عقل کی حجیت کی واضح دلیل یہی ہےکہ خود وجود خدا اور ضرورت دین عقلی تفکر اور عقلی استدلال  پر موقوف ہیں ۔
قرآن کریم اور تفکر عقلی :
قرآن کریم میں اکثر مقامات پر تفکر عقلی پر زور دیا گیا ہے جیساکہ ارشادہوتا ہے :بے شک زمین وآسمان کی خلقت اورروز وشب کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ۔جولوگ اٹھتے ،بیٹھتے اورلیٹتے ہوئےخدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں ،کہ خدایا تو نے یہ سب بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔ تو پاک و بے نیاز ہے۔تو ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔۱
قرآن کریم نظام خلقت کے بارے میں غوروفکر کرنے والےافراد کی تعریف کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کی مذمت کرتاہےجو دنیا کےحقایق کی شناخت کے لئے اپنی عقل سے استفادہ نہیں کرتے تا کہ خدا شناسی کے مرحلے تک پہنچ جائیں۔جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔۲
اسی طرح ایک اورمقام پرارشاد ہوتا ہے : اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قراردیتاہے جوعقل سے کام نہیں لیتےہیں۳۔ اس کےعلاوہ قرآن کریم دینی عقائدکے اثبات کے لئے برہان اور عقلی استدلال سے استفادہ کرتا ہے ۔جیسے توحید خداوند کے بارے میں فرماتا ہے ۔ا گر زمین وآسمان میں اللہ کےعلاوہ اور خدا ہوتے توزمین وآسمان دونوں برباد ہوجاتے ۔۴۔ اسی طرح قیامت کےاثبات پراس دلیل کا ذکر کرتا ہے۔کیاتمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نےتمہیں بیکار پیداکیا ہےاور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاؤگے؟ ۔۵۔ اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کی اطاعت کے لاز م ہونے کے بارے میں استدلال کرتا ہے ۔اورکیا جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابل اتباع ہے یا وہ جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے ؟  آخر تمہیں کیاہوگیا ہے اور تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟۔۶۔
ان کے علاوہ اوربھی بے شمار نمونے موجود ہیں۔قرآن کریم مشرکین اور کفار سے ان کے عقائد کے بارے میں دلیل طلب کرتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تواپنی دلیل لے آوٴ۔” اس کے بعد صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ یہ اپنے ظن پرعمل کرتے ہیں اور اہل یقین نہیں ہیں ۔۷۔یہ صرف گمان کا اتباع کرتےہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۸۔قرآن کریم کی نظر میں مشرکین و کفار کی سوچ یہی تھی کہ وہ اپنے آباءواجداد کی روش پر چلتے تھے حالانکہ ان کی روش غیر عاقلانہ تھی۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے  :جب ان سے کہا جائے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس  روش کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ و دادا کو پایا  ہے ۔کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بےعقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہےہوں؟۹۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے حکمت ،موعظہ حسنہ اور جدال احسن کے ذریعے لوگوں کو توحید اور دین کی دعوت دینےپر مامور تھے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتاہے:آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین ہو۱۰۔ اس عقلی روش کے مختلف مراحل ہیں۔موعظہ حسنہ پہلامرحلہ ہے، جدال درمیانی مرحلہ ہے  جبکہ حکمت آخری مرحلہ ہے۔
پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی عقائدکےبیان میں ان تین طریقوں سے استفادہ فرمایا ہے جیسا کہ اس کے کچھ نمونے قرآن کریم ، احادیث اورتاریخ کی کتابوں میں مذکورہیں ۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوالات کئے ۔ الف:خداوند متعال کہاں ہے ؟ ب:خداوند متعال کا  وجودکیسا ہے ؟آپ ؐنے اس کے جواب میں فرمایا:
الف: خداوند متعال کے لئے خاص جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ محدود نہیں ہے لہذا وہ ہر جگہ موجود ہے ۔
ب:خدا وند متعال کو کیفیت کے ذریعے بیان نہیں  کیا جا سکتاکیونکہ کیفیت خود مخلوق ہے اور ہم مخلوقات کے ذریعے اس کی صفات بیان نہیں کر سکتے ۔۱۱۔اسی طرح ایک اور یہودی عالم نے آپ ؐسے مختلف چیزوں کے بارےمیں سوال کیا تو آپ ؐنے تمام سوالوں کے جوابات دیے۔
پہلا سوال :آپ وجود خداوند متعال کو کس طرح ثابت کریں گے ؟آپ ؐنے فرمایا:اس کی نشانیوں اور آیات کے ذریعے۔
دوسراسوال:تمام انسانوں کو اسی نے خلق کیا ہے ۔پھر صرف بعض افراد کو رسالت کےلئے کیوںمنتخب کیا ہے ؟
آپ ؐنے فرمایا : کیونکہ یہ افراد دوسروں سے پہلے خداوند متعال کی ربوبیت پر ایمان لائے تھے ۔
تیسرا سوال:خداوند متعال کیوں اور کس لئے ظلم نہیں کرتا؟
حضور ؐنے فرمایا:کیونکہ وہ ظلم کی قباحت کو جانتا ہے اور ظلم سےبے نیاز ہے ۔{لعلمہ بقبحہ و استغنائہ عنہ}۱۲۔علمائے عدلیہ عدل الہی کو اسی دلیل کے سےثابت کرتےہیں چنانچہ محقق طوسی تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں:{و علمہ و استغناوہ یدلان  علی انتفاءالقبح عن افعالہ}۱۳علم خدا اور اس کی بے نیازی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے فعل قبیح سرزد نہیں ہوتا ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کے یہاں مختلف فرقے موجود نہیں تھے۔صرف  بت پرستوں اور اہل کتاب کے ساتھ کلامی و اعتقادی بحث و گفتگو ہوتی تھی لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں بہت سارے فرقے نیز مختلف فکری و کلامی مکاتب وجود میں آچکےتھے ۔ایک گروہ قرآن و حدیث کےظواہر پر عمل کرتاتھا اور ہر قسم  کی عقلی بحث و گفتگو کو ممنوع سمجھتا تھا۔یہ اہل حدیث کا گروہ تھا۔دوسرا گروہ تمام معارف و احکام کو اپنی عقل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتاتھا۔یہ معتزلہ کا گروہ تھا ۔لیکن ائمہ اطہارعلیہم السلام درمیانی راستے کو منتخب کر کے لوگوں کو ہر قسم کے افراط و تفریط سے منع فرماتے تھے ۔حضرت علی علیہ السلام خدا وند متعال کی شناخت میں عقل کے کردار کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :{لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ و لم یحجبہا عن واجب معرفتہ}۱۴اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت سے مطلع نہیں کیا اور بقدرضرورت معرفت حاصل کرنے کی راہ میں پردے بھی حائل نہیں کیے ۔
ائمہ اطہارعلیہم السلام کے نزدیک عقل اصول دین اور مبادی دین کی شناخت کےلئے کافی ہے لیکن احکام کی تفصیل جاننے کے لئے اسےوحی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اسی وجہ سے خدا نے دو چیزوں کے ذریعے انسانوں پرحجت تمام کیاہے ۔ان میں سے ایک عقل  ہےاور دوسری وحی ۔امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان لله علی الناس حجتین:حجۃ ظاہرۃو حجۃ باطنۃ،اماالظاہرۃ ، فالرسل والانبیاءوالائمہ واماالباطنہ فالعقول}۱۵خدا نےلوگوں پرحجت کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک ظاہری حجت ہےاور دوسری باطنی حجت۔ظاہری حجت انبیاء ورسل اور ائمہ اطہارعلیہم السلام ہیں جبکہ باطنی حجت عقول ہیں ۔
مکتب اہل بیت علیہم السلام میں عقل اور وحی ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کیونکہ ایک طرف سے انبیائےالہی وحی الہی کے ذریعے انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں تودوسری طرف سے انسانی عقل حجت الہی کی تائید کرتی ہے  ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : بعثت انبیاءکا  ایک فلسفہ یہ ہے کہ انبیاء انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں۔ اس کےبعد آپ ؑفرماتےہیں :{ولیثیروا  لہم دفائن العقول}۱۶وہ عقل کے دفینوں کوابھارتے ہیں۔اسی طرح امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان الله تبارک وتعالی،اکمل للناس الحجج بالعقول}۱۷خداو ند متعال نے عقول کے ذریعے اپنی حجت کو انسانوں پر تمام کیا ہے۔
شیعہ علماءاور تفکر عقلی :
شیعہ علماء قرآن و سنت سے الہام لیتےہوئے معرفت دینی میں عقل کے لئے خاص مقام کے قائل ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف شیعہ متکلمین حسن و قبح عقلی کی حمایت کرتے ہوئے عدل الہی کو اسی کے ذریعہ ثابت کرتےہیں تودوسری طرف سےفقہائےامامیہ احکام شرعیہ کے استنباط میں عقل کو قرآن و سنت کے برابر قراردیتے ہوئے قاعدہ تلازم کو ثابت کرتےہیں۔یعنی ان کے مطابق حکم عقل اور حکم شرع کے درمیان تلازم ہے کیونکہ قرآن و سنت کو سمجھنے میں عقل وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے نیز قرائن عقلی مفسرین اور مجتہدین کے لئے {قرآن کی تفسیر اور احکام الہی کے استنباط میں}رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ رہناچاہیے کہ انسانوں کے لئے جوچیز وحی کی طرح حجت الہی شمار ہوتی ہے وہ مستقلات عقلیہ اور ملازمات عقلیہ ہیں  نہ کہ وہ ظنون جو قیاس واستحسان پر مشتمل ہو ں۔اسی وجہ سے مکتب اہل بیت علیہم السلام اور فقہ امامیہ میں شرعی احکام کے استنباط میں عقل کو ایک محکم وپایدار راستےکی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ قیاس و استحسان {جوظن و گمان پر مشتمل ہوتےہیں}کی پیروی ان کے ہاں سخت ممنوع ہیں ۔
امام جعفرصادق علیہ السلا م نے ابان ابن تغلب سے مخاطب ہو کر فرمایا :{ان السنۃ لا تقاس ، الا تری ان المراۃتقضی صومہا و لا تقضی صلاتہا یا أبان ان السنۃ اذا قیست محق الدین}۱۸سنت {شریعت الہی}میں قیاس {تشبیہ وتمثیل}کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔{یہ حجت نہیں}اسی لئے ماہانہ عادت کی وجہ سےاگرعورت روزہ نہ رکھے اورنماز نہ پڑھے تو اس پر روزے کی قضا واجب ہے لیکن نماز کی قضا واجب نہیں{حالانکہ اسلام میں نماز کی اہمیت روزے سے زیادہ ہے۔ }اے ابان: سنت کوقیاس سے ثابت کیاجائے تو دین  الہی برباد اور نابود
ہوجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ عقل کا دین شناسی اور معرفت دینی میں بہت زیادہ کردار ہے ۔جن میں سےبعض یہ ہیں:
1۔ عقل دین کی بنیادی باتوں کو ثابت کرتی ہے جیسے وجود خدا ، بعض صفات الہی اورضرورت دین وغیرہ ۔
2۔عقل، وحی کی طرح بعض احکام شرعیہ کا استنباط کرتی ہے اور استنباط احکام کا ایک منبع شمار ہوتی ہے ۔
3۔عقل قرآن و سنت کو سمجھانے میں چراغ کا کام کرتی ہے  اور خود ان میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتی۔
4۔عقل محدود پیمانے پرفلسفہ احکام دین کو بیان کرتی ہے لیکن عبادات میں عقل کا کردار بہت ہی کم ہے۔ معرفت علمی اورتفکر عقلی کے ذریعے فلسفہ یا حکمت احکام الہی کے بارے میں جوکچھ کہاجا سکتا ہےانہیں اکثر اوقات احکام الہی کی علت اصلی کے طور پر اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ لہذا کسی موضوع کے حکم کو دوسرے مشابہ موضوعات کے لئے بھی قیاس کے ذریعے ثابت کرنابہت مشکل او ردشوار ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔آل عمران ،190 – 191۔
۲۔انفال ،22۔
۳۔یونس،100۔
۴۔انبیاء،22 ۔
۵۔مومنون،115۔
۶۔یونس،35۔
۷۔بقرۃ ،111 ۔
۸۔انعام ،ص 116۔
۹۔بقرۃ،170۔
۱۰۔نحل ،125 ۔
۱۱۔وحید صدوق ،ص310،فصل 44،حدیث 1۔
۱۲۔توحید صدوق ،ص397،باب 61۔
۱۳۔کشف المراد،تیسرا حصہ،تیسری فصل۔
۱۴۔نہج البلاغۃ،خطبہ 49۔
۱۵۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۶۔نہج البلاغہ،خطبہ ،1۔
۱۷۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۸۔وسائل الشیعۃ ،ج18،ص25۔

تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ چھٹی مردم شماری کے عمل میں مزید تاخیرعوام کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔اسے طے شدہ شیڈول کے مطابق عملی شکل دینا قومی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری جیسے اہم امور میں 19سال کی تاخیر کو قومی معاملات سے حکمرانوں کی دانستہ غفلت کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ایک جمہوری حکومت میں آئینی عمل کی پاسداری کے لیے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑے اور مقتدر شخصیات اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کریں تو پھر عوام کے ساتھ صاحبان اقتدار کی نیک نیتی مشکوک ظاہر ہوتی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سندھ میں مردم شماری کے فارم 2الف کو خارج کر دیا گیا ہے جس سے بے روزگاری، نقل مکانی کے اسباب،تعلیمی رجحان، معذور افراد کی تعداد سمیت دیگر اہم اعداد و شمار حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی نامکمل مردم شماری نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی۔ تعلیم و روزگار کے شعبے میں ناکامیوں کو ان غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے چھپانے کی کوشش ایک بھیانک مذاق ہے۔مردم شماری کے عمل کو ہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہیے ۔کوائف جمع کرتے وقت کسی بھی ضروری پہلو کو نظر انداز کرنے کو پیشہ وارانہ بددیانتی سمجھا جائے گا۔وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔19سال کے غیر معمولی وقفے کے بعد شروع ہونے والی مردم شماری کو عالمی معیار کے مطابق طے کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ان اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر حکومت کی طرف سے ایسے منصوبے تشکیل دیے جا ئیں جو ریاست کے ذمے ہیں اور جو انفرادی ضرورتوں  کی تکمیل میں اہم ثابت ہوں۔علامہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ مردم شماری کے دوران اپنے کوائف کی درست اور مکمل تفصیلات مہیا کرنا قوم کے ہر فرد کا قومی فریضہ ہے ، عملے کے ساتھ مکمل تعاون اور درست کوائف کی فراہمی شہریوں کے اپنے مفاد میں ہے، چونکہ قوم کےسیاسی ، معاشرتی ، اجتماعی  مستقبل کا انحصار اسی مردم شماری پرہوگا۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے نمائندہ وفد نے شرکت کی وفد میں صوبائی سیکریٹری سیاسیات برادر حسن رضا کاظمی، صوبائی سیکریٹری تنظیم سازی مولانا سید نیاز حسین بخاری شامل تھے۔اجلاس میں پاکستان نیشنل مسلم لیگ، پاکستان عوامی تحریک، سنی اتحاد کونسل، تحریک انصاف، عزاداری کونسل پنجاب، پاکستان مسلم لیگ ج، پاکستان مزدور محاذ سمیت مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں نے شرکت کی اجلاس میں ملک میں جاری صورتحال کا جائزہ لیاگیااور پاکستان کی سیاسی صورتحال، آپریشن ردالفساد، اور قومی مسائل سے متعلق گفتگو کی گئی۔

آل پاکستان مسلم لیگ نے آئندہ انتخابات کے حوالے سے بننےوالےاتحاد میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو باضابطہ دعوت دی جس پر صوبائی سیکریٹری سیاسیات برادر حسن رضا کاظمی نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کےمجلس وحدت مسلمین ایک قومی سیاسی جماعت  ہے جس کے تمام فیصلے اعلیٰ اختیاراتی ادارے کرتے ہیں اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین اپنے اداروں کے فیصلے کے مطابق اپنى حكمت عملى اور ترجيحات كا تعين كرکے مناسب وقت پر اعلان كريگى۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree