وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے کراچی کی جانب سے عاشور کی شب نمائش چورنگی پر جیکب آباد ماتمی جلوس پر ہونے والی دہشتگردی کے خلاف ہنگامی پریس کانفرنس کی گئی اور احتجاج کیا گیا جس میں سینکڑوں عزاداران سمیت دیگر ملی جماعتوں کے رہنماؤں نے شر کت کی،جبکہ روز عاشورہ مجلس وحدت مسلمین ،امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سمیت دیگر ملی جماعتوں نے سانحہ جیکب آباد کے خلاف دوران مرکزی جلوس عزاء میں احتجاج کیا جبکہ تبت سینٹر نماز ظہرین کے بعد علامتی دھرنے دیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں عزاداران نے سانحہ جیکب آباد و نصیر آباد میں ہونے والی دہشتگردی کی مذمت کی اور صوبائی حکوتوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی ۔جبکہ ایم اے جناح روڈ پر ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے لگائے جانے والے مرکزی کیمپ کے سامنے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے بجائے بے جان لاوُڈسپیکر کو پکڑنے میں مصروف ہیں،ان حکمرانوں میں دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو لڑنے کی اہلیت نہیں،دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے دہشت گردوں کے ہمدردوں اور سہولت کاروں کے خلاف کاروائی عمل میں لانا ہوگا،سیاسی جماعتیں مصلحت پسندی کا شکار ہے،سندھ اور بلوچستان میں دہشت گردی کو صوبائی و وفاقی حکومتوں کی نااہلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت دہشت گردوں کی سرکوبی کے بجائے عزادارن اور عزاداری کو محدود کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں،انہوں نے کہا نواسہ رسولﷺ کے غم کو روکنا کسی کی بس کی بات نہیں،ہم عزاداری کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں،ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں سب زیادہ دہشت گردی کے شکار ملت جعفریہ کیخلاف صوبائی و وفاقی حکومتوں کے رویے افسوس ناک ہے،نیشنل ایکشن پلان کا رخ موڑ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کرنے کی سازش ہو رہی ہے،کالعدم انتہا پسند گروہ کو مکمل آزادی حاصل ہے،تکفیر کے نعرے آج بھی بلند ہورہے ہیں ،لیکن حکمران اپنے سیاسی مفادات کے لئے ملکی مفاد کو پس پشت ڈال رہے ہیں،سانحہ جیکب آباد کے پیچھے آصف علی زرداری ،قائم علی شاہ اور زرداری کے خاص مشیر قیوم سومرو کا کالعدم جماعتوں کے ساتھ گھٹ جوڑ کا نتیجہ ہے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا ملک بھر میں زلزلے سے ہونے والے نقصانات اور قیمتی جانوں کی ضیاع  پر اظہار افسوس کیا ہے،میڈیا سیل مجلس وحدت مسلمین پاکستان سے جاری بیان میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پوری قوم متحد ہو کر متاثرین کی ہر ممکن مدد کریں پاکستان کی غیور عوام کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ مشکل کی کسی بھی گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کو تنہا نہیں چھوڑا انشااللہ اس امتحان میں بھی رب ذوالجلال کی مدد سے ہم سرخرو ہونگے، انہوں نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے فلاحی شعبہ خیرالعمل فاوُنڈیشن کے چیئرمین علامہ باقر عباس زیدی کو ہدایات جاری کیں کہ وہ ملک بھر میں زلزلے سے متاثر ہ علاقوں کی معلومات لے کر متاثرین کی ہر ممکن مدد کو یقینی بنائیں ،خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان میں متاثرین زلزلہ زدگان کے لئے ہنگامی امدادکے صوبائی سیکرٹری جنرلز کو خصوصی احکامات جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا گلگت بلتستان کے دورافتاد ہ علاقوں  میں متاثرین کی ہنگامی بنیادوں پرا مداد کو یقینی بنائیں۔

 انہوں نے سکردو میں مجلس وحدت مسلمین کے زیر انتظام دارالشفا ہسپتال کے تمام ڈاکٹرزاور عملے کو ترجیحی بنیادوں پر زلزلہ متاثرین کو بہترین علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کا حکم بھی دیا۔علاوہ ازیں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اس حوالے سے ملک میں تمام سیاسی و سماجی جماعتوں اور سوشل نیٹ ورکس سے اپیل کی کہ وہ اپنے دیگر پراجیکٹس کو کچھ عرصہ کیلئے موخر کر کے اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کیلئے ہنگامی آپریشن میں حصہ لیں اور کسی بھی قسم کی سستی و کوتاہی کا شکار نہ ہوں،انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں ہونے والے زلزلہ متاثرین کیلئے ہر ممکن مدد کرے،انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ فرقہ پرست و کالعدم گروہوں کو زلزلہ متاثرین کی مدد کے بہانے پاکستان کے اہم علاقوں میں نیٹ ورک قائم کرنے کا خطرہ موجود ہے جس پر افواج پاکستان اور دیگر ذمہ دار اداروں کو خصوصی نظر رکھنا ہوگی،ایسا نا ہو کہ آپریشن ضرب عضب کے ثمرات پر پانی پھر جائے۔

واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں آنے والے خطرناک زلزلے کے نتیجے میں 170 سے زائد افراد جاں بحق اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے جب کہ زلزلے سے سب سے زیادہ تباہی صوبہ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں ہوئی جہاں اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 160 سے تجاوز کرگئی ہے جب کہ 800 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز کابل سے 265 کلومیٹر دوری پرتھا جب کہ زمین میں اس کی گہرائی 212 کلو میٹر اور ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.5 ریکارڈ کی گئی۔ زلزلے کے جھٹکے پاکستان، افغانستان اور بھارت میں محسوس کیے گئے جب کہ زلزلے سے سب سے زیادہ نقصان خیبرپختونخوا کو پہنچا جہاں 150 سے زائد افراد جاں بحق اور 800 سے زائد زخمی ہوگئے، متاثرہ علاقوں میں پشاور، شانگلہ، لوئردیر، اپر دیر، گلگت، اسکردو، چترال ،نوشہرہ اور خیبرایجنسی شامل ہیں جہاں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث رابطہ سڑکیں بند ہوگئیں اور شہری پھنس کررہ گئے،کوئٹہ، مالاکنڈر، جھنگ، میانوالی، خوشاب، منڈی بہاؤالدین، گوجرانوالہ، مظفر گڑھ، ڈی جی خان، مرید کے، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، گجرات، جہلم، کھاریاں اور راولپنڈی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جب کہ ملک کے مختلف حصوں میں زلزلے کے دوران دور دراز کے علاقوں میں مواصلاتی نظام بھی متاثر ہوا اور موبائل فون سروس میں بھی خلل پیدا ہوگیا۔ اس کے علاوہ آزاد کشمیر میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے جب کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں آفٹرشاکس کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کی شدت 5.3 ریکارڈ کی گئی ہے، این ڈی ایم اے کے مطابق آفٹر شاکس کا سلسلہ آئندہ 24 گھنٹوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

وحدت نیوز (کراچی) نشتر پارک میں شیعہ تنظیموں کی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں بزرگ عالم دین علامہ مرزایوسف حسین کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں بالخصوص سندھ اور پنجاب میں ایام عزاء کی آمد کے ساتھ ہی حکومتی سطح پر عزاداری نواسہ رسول اکرم (ص) کے خلاف سازشوں اور منفی ہتھکنڈوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، ملت جعفریہ پاکستان نے قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحفظ و بقاء کی خاطر اپنا بھرپور کردار ادا کیا اورلت جعفریہ نے بیس ہزار عمائدین بشمول علماء، خطباء، ذاکرین ، ڈاکٹرز، انجینئرز ،وکلاء ، کارکنان، اور اکابرین سمیت دانشوروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے تاکہ مملکت خداداد پاکستان پر کوئی آنچ نہ آنے پائے، ایام عزاء میں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عاشقان نواسہ رسول (ص) و اہل بیت علیہم السلام عزاداری اور مجالس کے اجتماعات منعقد کررہے ہیں جبکہ نیشنل ایکشن پلان (NAP) جو کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بنایا گیا تھا تا کہ پاکستان کو مذہبی و لسانی انتہا پسندی ، کرپشن اور بیرونی(ہندوستانی) مداخلت سے تحفظ فراہم کیا جائے لیکن آج اسی نیشنل ایکشن پلان کا اطلاق صرف عزاداری سید الشہداء علیہ السلام پر ہوتا نظر آ رہا ہے تا کہ افواج پاکستان اور ملت جعفریہ پاکستان کے درمیان خلیج پیدا کی جا سکے، نیشنل ایکشن پلان سبو تاژ کیا جا سکے ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز کراچی نشتر پارک میں منعقدہ شیعہ تنظیوں کے رہنماؤں بشمول علامہ باقر زیدی ،علامہ عقیل موسیٰ،علامہ اظہر نقوی،صغیر عابد رضوی ،ایس ایم نقی،شمس الحسن شمسی،غیور عباس ،علامہ مبشر حسین ،علی حسین نقوی، سمیت دیگر کے ہمراہ پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا۔

 انہوں نے کہا کے سندھ اور پنجاب کی حکومتیں اپنے کرپٹ آقاؤں اور مذہبی انتہا پسند اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ہوں۔ہم نیشنل ایکشن پلان کے غلط استعمال کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہیں کسی بھی ایسے قانون کو نہیں مانتے کہ جس کا مقصد نواسہ رسول اکرم (ص) کی عزاداری پر قدغن لگانا ہو یا اسے محدود کرنے کی سازش ہو۔ان کا کہنا تھا کہ آج سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں نیشنل ایکشن پلان کے نام پر کالعدم دہشت گرد گروہوں کی سہولت کاری کا کام انجام دے رہی ہیں، پنجاب حکومت کے اعلیٰ وزراء بشمول رانا ثناء اللہ، رانا مشہود ریاست پاکستان کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی دہشت گرد تنظیم کالعدم دہشت گرد سپاہ صحابہ (اہلسنت والجماعت) کے دہشت گردوں سے سر عام ملاقاتیں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور وزیر اعلیٰ سند ھ قائم علی شاہ کے معاون خصوصی قیوم سومرو کراچی میں اسی کالعدم دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ (اہلسنت والجماعت) سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کے مراکز پر ان سے ملاقاتیں کرتا ہے اور ان کی سرپرستی کا باضابطہ اعلان کرتا ہے ۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں نیشنل ایکشن پلان حرکت کرتا ہوا نظر نہیں آتا ہے ، آخر نیشنل ایکشن پلان ان دہشت گردوں کے خلاف کب حرکت میں آئے گا یا ان کے خلاف کہ جو ان دہشت گردوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں اور ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کو سبوتاژ کرتے ہوئے تاحال دہشت گردو کالعدم گروہوں کے سرغنہ دہشت گردوں سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر عزاداری نواسہ رسول (ص) کو محدود کرنے کی سازش اور کالی بھیڑوں کے اقدامات کا نوٹس لیں تاکہ افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش کو ناکام بنایا جا سکے۔

ہم ڈی جی رینجرز سندھ سے بھی گذراش کرتے ہیں کہ وہ اپنے اہلکاروں کو عزاداری نواسہ رسول (ص) کے اجتماعات میں رخنہ ڈالنے سے روکیں اور ان اہلکاروں کی جانب سے وہ اقدامات کہ جس میں لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کے نام پر کئے جا رہے ہیں اس کے باعث ملت جعفریہ میں شدید تشویش اور غم و غصہ کی لہر پائی جاتی ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ علماء و عمائدین کے ایک اہم اجلاس میں رینجرز پر ملبہ ڈالتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ کے مجالس عزاء اور عزاداری کے اجتماعات کے لئے لاؤڈ اسپیکر ایکٹ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تاہم رینجرز کی جانب سے رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے ، لہذٰا رینجرز فی الفور اپنا موقف واضح کرے ۔ہم لاؤڈ اسپیکر ایکٹ، ضلع بندی، زبان بندی اور چالیس او ر پچاس سالہ قدیمی روایتی جلوسوں پر کسی قسم کی پابندی کو قبول نہیں کریں گے ،عزاداری سید الشہداء ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے ، آئین پاکستان میں تمام مکاتب فکر کو دی ہوئی آزادی کو سلب کیا جانا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں غور سے سن لیں ہم عزاداری سید الشہداء پر کسی قسم کی قد غن اور پابندی برداشت نہیں کریں گے اور اس حوالے سے کسی قسم کا دباؤ قابل قبول نہیں ہو گا، اگر ہمیں ان گھناؤنی سازشوں کے ذریعے دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو ملک گیر اور شدید احتجاج کریں گے جس کے بعد حالات کی سنگینی کی تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہو گی اور واضح رہے کہ پھر ہم پر یہ الزام عائد نہ کیا جائے کہ جمہوریت کو ڈی ریل کیا جا رہاہے، ہم عزاداری سید الشہداء کے خلاف حکومتی سازشوں کے مقابلے میں کسی بھی قسم کے راست اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔

وحدت نیوز (لاہور) عزاداری سید شہداء ظالم قوتوں کے خلاف صدائے احتجاج ہے،رہتی دنیا تک اسے کوئی ظالم روک نہیں پائے گا،امام عالی مقام  کی سیرت طیبہ پر مسلمان عمل پیرا ہوں تو معاشرے سے ظلم اور نا انصافی کا خاتمہ ممکن ہو،عزاداری سید شہداء اور واقعہ کربلا نے ہی اسلام کو دائمی دوام بخشا،ظالم جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنا ہی پیغام حسنیت ہے،کربلا والوں کی قربانی دین محمدیۖ کی احیاء کے لئے تھی،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عزاداروں سے خطاب میں کیا ،انہوں نے کہا کہ عزاداری واجب تھی لیکن اس برس پیروان حسینی اسے اوجب سمجھ کرانجام دیں،عزاداران امام مظلوم کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے دراصل اس عمل سے خوفزدہ ہے،اگر حسینیت کا پیغام عام ہو جائے تو ظالموں کا اثر معاشرے سے ختم ہو جائے گا،کربلا عقیدت مندوں کی نہیں حقیقت پسندوں کی درسگاہ ہے،اور یہ صرف شیعوں کا عقیدہ نہیں بلکہ انسانوں کا ایمان ہے۔

علامہ راجہ ناصر کا کہنا تھا کہ عزاداری سید شہداء کے خاطر ہم اپنی جانیں قربان کر سکتے ہیں لیکن مشن حسینی سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں،ہم عزاداری کے راہ میں کسی رکاوٹ کو قبول نہیں کریں گے،انہوں نے علمائ، خطبائ،ذاکرین سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ممبر حسینی سے اخوت،بھائی چارہ اور وحدت کا پیغام عام کریں،دشمن فروعی اختلافات کو ہوا دے کر پیغام حسینیت کو روکنا چاہتے ہیں،ہم ان سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے،نواسہ رسولۖ مرکز وحدت ہے،مجالس اور جلوس ہائے عزاء فکر حسینی کو دوام بخشنے کا ذریعہ ہے،اسے کسی مسلک کے ساتھ منسلک کرنا اسلام کے ساتھ ناانصافی ہے،اسلام اگر آج زندہ ہے تو یہ کربلا والوں کا ہی احسان ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) دين مبين اسلام سے عشق و محبت كے جذبہ سے سرشار برصغير كے مسلم اكابرين نے حضرت قائد اعظم محمد على جناح (رہ) کی ولولہ انگيز قيادت ميں متحد ہو كر آزادی و استقلال كی تحريک چلائی، جس كے نتيجہ ميں وطن عزيز پاكستان معرض وجود ميں آيا اور اس آزادی و استقلال كی تحريک كا بنيادی ہدف "مذہبی آزادی كا حصول" تها۔ برصغير كے مسلمان ہر قسم كی قربانياں دينے كيلئے اس لئے تيار تهے كہ انہيں ايک ايسا ملک نصيب ہوگا، جہاں پر وه مكمل آزادی كے ساتهـ اپنی مذہبی رسومات كو ادا كرسكيں گے۔ اب اگر اس ملک كے عوام كی مذہبی آزادی ہی سلب كر لی جائے تو نظریہ قيام پاكستان فوت ہو جاتا ہے اور یہ فلسفہ وجودی پاكستان سے انحراف ہے۔ اگر اس آزادی كو سلب كرنے والے خود پاكستانی حكمران ہوں تو يہ انكی پاكستان كے خلاف بہت بڑی خيانت ہوگی، كيونكہ ايسی پاليسی ملک كے امن اور سلامتی كيلئے خطرے كی گھنٹی ہے، پاكستانی عوام كو ايسے غدار حكمرانوں كے خلاف صدائے احتجاج بهرپور انداز میں بلند كرنی چاہیے اور انہیں ملک کے سياسی عمل سے بے دخل كر دينا چاہیئے۔

پاكستان كا ہر شہری جانتا ہے كہ صديوں سے شيعہ اور سنی مسلمان اس خطے ميں اكٹھے ره رہے ہیں، يہاں پر ہر مذہب اپنے نظريات اور معتقدات كے مطابق اپنی مذہبی رسومات ادا كرتا تها، ايک معروف فارمولہ انہوں نے اپنايا ہوا تها كہ "اپنے مذہب كو جھوڑو نہیں اور دوسروں کے مذہب كو چھیڑو نہیں۔" رواداری اور احترام متبادل كی ترويج پر زور ديا جاتا تها۔ علمی بحث و مباحثے اور مناظرے ہوا كرتے تهے، ليكن قوت كا استعمال ممنوع تها۔ كچھ مشتركہ مذہبی رسومات تھیں، جن میں عيد قربان، شب برأت، عيد ميلاد النبی (صلى الله عليه وآله وسلم) اور عزاداری نواسہ رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) و يوم حسين (عليه السلام) منانا۔ ہر مسلمان اپنے طور و طريقے كے مطابق مذہبی رسومات ادا كرتا تها اور دوسرے كا احترام كرتا تها۔ حتی كہ غير مسلم بهی نواسہ رسول كی عزاداری ميں شريک ہوتے اور منتيں مانگتے تهے، بلكہ خود مجالس بهی كرواتے تهے۔ امام حسين  عليہ السلام سے عشق ركهنے والے فقط شيعہ و سنی مسلمان ہی نہیں بلكہ بڑی تعداد ميں ہندو، سكھ اور عيسائی بهی اس ملک ميں بستے ہیں۔

تکفیریت کا آغاز اور اہداف
ايسے ميں ايک تكفيری فكر اور سوچ نے حكمرانوں کی زير سرپرستی پھلنا پھولنا شروع كيا اور انہوں نے برملا مسلمانوں كو كافر اور مشرک بنانا شروع كر ديا۔ بات صرف وعظ و تبليغ اور خطابات اور غليظ لٹريچر تک محدود نہ رہی، بلكہ گلیوں اور بازاروں ميں كافر كافر كے نعروں كے ساتھ جلوس شہر شہر میں نكلنے لگے اور گذشتہ تين دہائيوں سے مسلسل نكل رہے ہیں۔ حكومتی ادارے ان نفرت آميز نعروں اور خطابات كو روكنے كی كوشش ہی نہیں كرتے، نہ ان كے خلاف ايف آئی آر درج ہونے دیتے اور نہ جج صاحبان نوٹس ليتے ہیں۔ نہ پارليمنٹ اسے روكنے كیلئے قانون سازی كرتی ہے، بعد ميں ان لوگوں نے قانون كو ہاتھ ميں ليا اور پہلے مرحلے پر جن كو كافر اور مشرک سمجهتے تهے، انہيں كبهی اجتماعی طور پر خودكش حملوں، لشكر كشيوں، مساجد، امام بارگاہوں، گرجہ گھروں اور ديگر مزارات و مقدس مقامات اور بسوں سے اتار کر مسافروں کو قتل کیا۔ كبهی ٹارگٹ كلنگ كے ذريعے جید اور معتدل علماء كرام، اسی طرح ڈاكٹرز، پروفيسرز اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ركهنے والے قومی سرمايہ كو ہدف بنايا گیا، بعد ميں دوسرے مرحلے ميں قانون نافذ كرنے والے حساس اداروں، فوجی مراكز، مدارس، اسی طرح صنعتی و تجارتی مراكز كی تباہی اور عوام كے قتل و غارت كا بازار گرم كيا، حتى كہ غير ملکی مہمان بهی انكے شر سے محفوظ نہ رہ سکے۔

حکمرانوں کی ترجیحات کا محور ذاتی مفادات ہیں
ان دہشتگردوں نے مذہبی آزادياں سلب كرنے كی تبليغات اور دوسرے مسلمانوں كو جبری طور پر مذہب تبديل كرنے کی فقط دهمكياں ہی نہیں ديں بلكہ انہیں اپنے ظلم و تشدد كا نشانہ بھی بنايا۔ ہمارے حكمران ہميشہ ذاتی مفادات كو قومی مفادات پر ترجيح ديتے رہے، حتى كہ اس تكفيری سوچ كی كالی بهيڑيں حكومت كے حساس و غير حساس اداروں كے ريشوں كے اندر سرايت كر گئیں، اس تكفيری سوچ کے پروان چڑھنے سے ملک طرح طرح كے بحرانوں كا شكار ہوگيا اور اس ملک ميں زندگی كجا سانس لينا بهی دشوار ہوگیا۔ ملكی سرمايہ باہر منتقل ہوگيا اور ملک كا مستقبل تاريک ہوگیا، ملک کی وسيع اراضی پر حکومت كی رٹ ختم ہوگئی، آئين پاكستان كے خلاف آوازيں بلند ہونا شروع ہوئیں اور پاكستان كو تكفيرستان بنانے كی باتيں ہوئیں۔ بالآخر محب وطن قوتون نے متحد ہو كر وطن عزيز كو اس تكفيريت كے ناسور سے پاک كرنے كی آواز بلند كی اور مقبوضہ وزيرستان سميت پورے پاكستان پر سبز ہلالی پرچم لہرانے اور تكفيريت كے مراكز تباه كرنے كا مطالبہ كيا۔

سیاسی پارٹیاں دراصل تکفیریت کی سہولت کار ہیں
اس تكفيريت سے لڑنے كيلئے قومی ايكشن پلان بنا اور قانون سازی ہوئی، پاک آرمی نے آپریشن ضرب عضب كا آغاز كيا، اس ميں كافی كاميابياں حاصل كيں اور تكفيريت كو بہت بڑا دهچكا لگا۔ تكفيريت كے بين الاقوامی مركز سے چونکہ زرداری اور نواز شريف كے گہرے تعلقات ہیں اور انكی پارٹیوں ميں تكفيريوں كے سہولت كار موجود ہیں، لہذا انہوں نے نيشنل ايكشن پلان كی ڈائيورشن كی منصوبہ بندی كی اور پاكستان كو پوليس اسٹيٹ ميں تبديل كرنے كيلئے قومی خزانے سے نئے پولیس کے ادارے تشكيل دیئے، تاكہ انكی گرفت مضبوط ہو، انكے پرورده اور انكے غير ملكی آقاؤوں كے پيدا كرده تكفيری نیٹ وركس دہشتگردی سے جس مذہبی آزادی كو سلب نہیں کرسكے، وه اب اسی نيشنل ايكشن پلان كی آڑ ميں سلب كر ليں۔ اس سال حكمرانوں نے پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب ميں بالخصوص عزاداری نواسہ رسول كو محدود اور ختم كرنے كيلئے جو اقدامات كئے ہیں، جس طرح چادر و چارديواری كے تقدس كو پامال كيا ہے اور آئينی آزاديوں كو سلب كيا ہے۔ حسينيت سے دشمنی كی اس سے بڑی مثال ہمیں پاكستان كی تاريخ ميں نہیں ملتی۔ ميڈيا بر نشر ہونے والے محرم الحرام كے حوالے سے داعش، طالبان اور دیگر تكفيری گروہوں كے لٹریچر اور حكومت وقت كے بنائے ہوئے ضوابط و قوانين ميں مكمل مطابقت نظر آتی ہے۔ اگر حكومت اپنے شهريوں كی حفاطت كرنے سے قاصر ہے تو انہیں مزيد شكنجوں ميں تو نہ جكڑے۔ پاكستان كے شيعہ و سنی عوام حكومت كے بغير بهی ابنی عبادت گاہوں اور جلسے جلوسوں اور عزاداری كی حفاطت كر سكتے ہیں۔

تكفيری افكار كا خاتمہ اسلام كے حقيقی روشن افكار كی نشرواشاعت كے بغير ممكن نہیں
ہماری مسلح افواج عسكری ميدان ميں تكفيريت كو كچل رہی ہیں اور ہمارے سياستدان سياسی ميدان ميں انہیں تقويت بخش رہے ہیں۔ ان تكفيری افكار كا خاتمہ اسلام كے حقيقی روشن افكار كی نشرواشاعت كے بغير ممكن نہیں، جن لوگوں كی ذمہ داری حقيقی اسلام كی نشرواشاعت بنتی ہے، وه تكفيريوں كے لئے نرم گوشہ ركھتے ہیں يا انكی پشت پناہی كرتے ہیں۔ "ايسے خود غرض اور ناعاقبت انديش حكمرانوں كی موجودگی ميں دہشت گردی كيخلاف جاری جنگ كبهی بهی كاميابی سے ہمكنار نہیں ہوسكتی" اور انكی بيلنس پاليسی دہشتگردوں كے خلاف آواز بلند كرنے والے محب وطن علماء اور شخصيات جو اخوت و محبت اور امن و رواداری اور اتفاق و اتحاد كے علمبردار ہیں، ان پر پابندياں عائد كرنا دہشتگردی كی تقويت كا سبب بن رہی ہے، وه چاہتے ہیں كہ تكفيريت كے خلاف اٹھنے والی آوازيں بهی دبا دی جائيں اور ايسا كيوں نہ ہو، كيونكہ نيشنل ايكشن پلان اور اسكی قانون سازی كے اجلاس ميں اكثر وه لوگ شريک تهے، جنكے ڈائریکٹ يا ان ڈائریکٹ تكفيری دہشتگردوں سےرابطے ہیں، انكی ذاتی مصلحتيں اور مفادات تكفيريت كے بين الاقوامی مركز سے وابسطہ ہیں۔ دنيا بهر كے تكفيری داعش ہوں يا طالبان يا پاكستان كے اندر متعدد انكے نیٹ ورک، وہ برملا يزيد ابن معاويہ كو خليفۃ المسلمين مانتے ہیں اور اعلان كر رہے ہیں كہ قتل امام حسين عليہ السلام يزيد لعين كا صحيح اقدام تها، يزيد زنده باد كا نعره لگاتے ہیں اور عزاداری نواسہ رسول كو ختم كرنا انكا ہدف ہے۔

انهوں نے پوری امت مسلمہ كو بتا ديا كہ وه اہل سنت نہیں بلكہ يزيدی ہیں اور پاكستانی شيعہ و سنی مسلمان ہوں يا دنيا بهر كے مسلمان سب كے سب حسينی ہیں اور حسينيت زنده باد كا نعره لگاتے ہیں۔ ہماری حكومت بهی حسينيت زنده باد كے نعره كو دبانے كی بهرپور كوشش كر رہی ہے۔ حكومتی اور غير حكومتی ادارے مجالس عزاء كی مانيٹرنگ كر رہے ہیں، تاكہ كسی بہانے سے خطباء و ذاكرين كو جيلوں ميں ڈالا جائے، ليكن قانون كی دهجياں اڑانے اور نفرتيں پهيلانے والے تكفيری علماء كے خطابات سوشل ميڈيا پر پڑے ہیں، كيسٹس فروخت ہو رہی ہیں اور برملا خطابات كرتے پهرتے ہیں، انكے خلاف كوئی ايكشن نہیں ليتا اور اگر بعض اوقات كسی كو گرفتار كر ليا جاتا ہے تو تهوڑے عرصے بعد پريشر ميں آکر باعزت طور پر بری كر ديا جاتا ہے۔ حكمران عوام كو دهوكہ دينے كيلئے يہ ثابت كرنا چاہتے ہیں كہ دہشت گردی كا سبب وہابی و تكفيری سوچ نہیں بلكہ شيعہ و سنی خطباء و ذاكرين ہیں۔ خود حكومتی اداروں كے اعداد و شمار گواه ہیں كہ اس ملک كی تباہی و بربادی اور دہشتگردی وہابی تكفيريوں كی بدولت ہو رہی ہے اور ملک ميں كوئی ايک سنی يا شيعہ گروه ايسا نہیں جو ملک كے اندر دہشت گردی پھيلا رہا ہے۔ حكومت وقت اپنے غير ملكی آقاؤوں كو خوش كرنے كيلئے جتنا چاہتی ہے ظلم كر لے، ليكن حکومت کو اچھی طرح جان لينا چاہیئے كہ تاريخ گواه ہے كہ "حسينی كٹ تو سكتے ہیں ليكن عزاداری نواسہ رسول مقبول پر كوئی آنچ نہیں آنے ديں گے۔"


تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

وحدت نیوز (آرٹیکل) بادشاہت بیداری کو برداشت نہیں کرتی۔بادشاہ چاہے ظالم ہی کیوں نہ ہو، ہر دورمیں ظلم اور ظالم کے طرفدار بہت رہے ہیں ، حق پر چلنے والوں کی تعداد ہمیشہ  کم رہی ہے ،ظلم کے طرفدار مختلف حیلوں سے ظالم کے ظلم کو چھپانے کی کوشش میں رہے ہیں، یہاں تک کہ  تاریخ میں کئی مرتبہ ظالم کے ظلم کو ایک احسن چیز بنا کر بھی  پیش  کیا گیاہے اور پھر اس پر بھی ظالم سے انعام وصول کیاگیاہے۔

تاریخ نے اس طرح کے سینکڑوں چاپلوسوں کو اپنے دامن میں جگہ دے رکھی ہے، پرانے زمانے میں بھی چاپلوس حضرات بادشاہوں کے ظلم پر لوگوں کو راضی رکھنے کی ہر ممکن سعی کرتے تھے،بادشاہ اگر کوئی ظلم کرتا  تھا تو وہ  مختلف تاویلوں سے بادشاہ کو اس کے ظلم سے بری قرار دیتے تھے اور بڑی چالاکی کے ساتھ بادشاہ کے دشمن کو ظالم قرار دیتے تھے ۔ان چاپلوسوں کی اس دور میں بھی کمی نہیں ہے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی اس وقت سعودی بادشاہوں کے مظالم پر پردہ ڈالنے والے بہت ہیں ،سابقہ باشاہوں کی طرح آلِ سعود بھی ان چاپلوسوں پر  خوب خرچہ کرتی ہے،  چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں آل سعود مسلمانوں کو قتل کرواتی ہے اس کے چاپلوس اس قتل عام کو ایک عظیم عبادت قرار دے باغیوں کا  قتل مشہور کردیتے ہیں۔بادشاہوں کی سیرت کے عین مطابق ہے یہ سعادت آل سعود کو حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کو بیدار ہونے کے جرم میں قتل کررہے  ہیں۔

ان کے فتوے بھی عجیب ہیں ،کبھی کہتے ہیں کہ کسی بھی اسلامی ملک میں جنگ کرنا حرام ہے لیکن  آل سعود اس سے استثنا ء ہیں کیونکہ یہ امت مسلمہ کی سربراہی کررہے  ہیں،لہذا یہ جس اسلامی ملک پر چاہیں شب خون ماریں، دین اسلام میں حرام مہینوں میں کفار کے ساتھ  بھی جنگ حرام ہے کیوں کہ آلسعودکا اسلام سے گہرا تعلق ہےاور یہ اسلام کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں اسلیے خوارج کی طرح  ان کے لیے قرآن کے صریح حکم کی خلاف ورزی جائز ہے کیونکہ یہ خادمین حرمین شریفین ہیں۔ چاپلوسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ابھی سانحہ منی ہوا کہ جس میں 7440 حجاج شہید ہوئے، جب امت مسلمہ کے مختلف طبقوں نے یہ آواز بلند کی کہ آل سعودکی غفلت و ناقص انتظامات اور ممکن ہے سی آئی اے کے ساتھ ہمکاری کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ہو،یہاں پر ان کے ایک پاکستانی چاپلوس نے اپنے کالم میں یوں لکھا کہ سانحہ منی کے حادثے کی منصوبہ بندی لبنان کی حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ایران کے سپریم لیڈر ایت اللہ خامنہ ای کے ہیڈکواٹر میں بیٹھ کر کی ،ایران نے اپنے ملک سے کچھ پاسدران کو یہ ٹرینگ دے کر بھیجا کہ وہ منیٰ میں جاکر بھگدڑ مچائیں اور اس حادثے کا سبب بنیں تاکہ آل سعود بدنام ہو۔

آل سعود کے پیسوں پر پلے اسطرح کے چاپلوس ہر ملک میں پائے جاتے ہیں اور ہر طرح سے آل سعود کے دفاع کی کوشش کرتے ہیں، فرض کیجئے ایک لحظے کےلیے اس چاپلوس کی بات کو مان لیں کہ ایران نے بندے بیھجے اور ایران ہی اس حادثے کا سبب بنا ،اب میرا سوال ہے اس چاپلوس سے اور اس طرح کے باقی لوگوں سے کہ آیا حاجیوں کی لاشوں کو اٹھانے والی کرینیں اور کنٹینرز بھی ایران نے بھیجےتھے ؟

آیا بے ہوش حاجیوں کو مردہ کہہ کر کنٹینروں میں پھینکنے کی پلاننگ بھی ایران میں ہوئی تھی ؟

 ایک قبر میں ساٹھ ساٹھ مہمانان خدا کوان کے ورثا کی اجازت کے بغیر دفنانے کا حکم سید حسن نصراللہ نے دیا تھا ؟

 وہاں کے انتظامات کس کے پاس ہیں ؟

 حج کا پیسہ و خانہ کعبہ کی کمائی کون لوگ کھارہے ہیں ؟

اچھا اب حرام مہینوں  میں یمن پر حملے کرنے والا کون ہے ؟

یمن میں شادی کی تقریب پر ظالمانہ حملہ کرکے خدا کے حرمت والے مہنے کی بے حرمتی کس نے کی؟

آلِ سعود کو خدا کی حدیں توڑنے کی اجازت کس نے دے رکھی ہے؟

 آخر میں آلِ سعود کے دسترخوان پرپلنے والے چاپلوسوں سے یہی کہوں گا کہ یاد رکھو! ظلم کی رات جتنی بھی لمبی ہو سویرا ضرور ہوتا ہے


تحریر۔۔۔۔۔ سجاد احمد مستوئی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree