وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان وہ ملک ہے کہ جو اہلسنت اور اہل تشیع سب کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے نہ فقط اسلامی بھائی چارہ کی بنیاد رکھی بلکہ مختلف ادیان و مذاہب سے رواداری اور بہترین سلوک کی مثالیں رقم کیں۔ تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ان کے درمیان فرقہ کی بنیادوں پر کوئی امتیاز نہیں تھا بلکہ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اس تحریک کو کامیاب کیا اور آج الحمد لللہ ہمارے پاس پاک دھرتی کی صورت میں ایک ملک موجود ہیں ۔ جو کہ خدا کی تمام تر نعمتوں سے مالا مال ملک ہے۔ ہماری مسلح افواج نے اور عوام نے اسی بے مثال وحدت کی بدولت بھارتی جارحیت کا ہر بار مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور شجاعت و بہادی اور ایثار و محبت سے حب الوطنی کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ اور ہمیشہ دشمن پاکستان کو ذلیل و رسوا ہونا پڑا ہے۔ یہ حب الوطنی کا جذبہ ہمیں ہماری ماؤں نے بچپن سے سکھایا ہے کہ جس کی بدولت ملت پاکستان ہر مشکل گھڑی میں اکھٹی نظر آتی ہے۔چاہے وہ جنگی حالات ہوں یا خدائی آفات ہوں ۔ ہر مشکل میں بغیر کسی امتیاز کے ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعاون کیا جاتا ہے۔

لیکن افسوس کہ ناعاقبت اندیشن حکمرانوں نے بیرونی اشاروں پر پاکستان کی اکثریتی عوام پر ایک اقلیتی فرقہ کو مسلط کرنے کی پالیسی بنائی اور وہ بھی ایسا فرقہ کہ جو تنگ نظری میں اپنی مثال آپ ہے اور وحدت اسلامی کے شیرازہ کو پارہ پارہ کرنا ان کے ایمان اور عقیدے کا حصہ ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دینے کی جدوجہد کرتے ہیں اور تحریکیں چلاتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور امن و امان کے محافظ حکمرانوں نے اسٹیٹ کی طاقت سے انہیں تقویت دی اور وطن عزیز کو کمزور اور اندر سے کھوکھلا کرنے اور پاکستان عوام کے اجتماعی رشتوں کو قطع کرنے والے اس وطن دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ملک توڑنے اور اندرونی بحرانوں میں مبتلا کرنے کا سامان فراہم کیا۔

وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا نقصان کیا ہوا؟؟؟
ایک خاص مکتبہ فکر کو طاقتور کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ریاست کو خود اعتراف اور برملا اعلان کرنا پڑ رہا ہ ے کہ وہ خطرہ جو ملک کی سرحدوں پر تھا آج وہ ہمارے ملک کے اندر گلی گوچوں تک پہنچ چکا ہے۔ جب ان تکفیری تنگ نظروں کے مدارس غیر ملکی امداد سے دھڑا دھڑ بن رہے تھے اس وقت حکمران بالکل خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور ان کے سہولت کار بنے ہوئے تھے۔کیونکہ وہ بھی اسی گنگا میں اپنے ہاتھ دھو رہے تھے۔ہر حکومت یہ پالیسی بناتی ہے کہ ہمارے ملک کو کتنے ڈاکٹر ، کتنے انجینئرز اور کتنے علماء کی ضروت ہے لیکن ہمارے ملک میں ڈاکٹر اور انجینئرز کو قتل کرنے اور متعصب اور تنگ نظر مولوی تیار کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ۔ یہ ہمارا ہی ملک ہے جہاں امن و امان کے محافظ اداروں کے افسروں نے لمبی لبمی داڑھیاں رکھ لیں اور وردیاں اتار کر لمبی چھٹی پر تبلیغی کام میں مصروف ہوگئے اور اسلحہ نام نہاد ملاؤں کو تھما کر انہیں طالبان بنا دیا۔ ایسے کاموں یہی فطری نتیجہ ہوتا ہے جس کا خمیازہ آج پاکستان کی بے کس عوام بھگت رہی ہے۔

فرض کر لیں پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں 10 کروڑ بریلوی مسلمان اور 5 کروڑ شیعہ مسلمان اور اڑھائی تین کروڑ دیوبندی اور اہل حدیث مسلمان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور ان کی دینی تربیت کے لئے اگر 1000 پاکستانی کہ جن میں بچے ، بوڑھے اور جوان شامل ہیں ان کو ایک عالم دین کی ضرورت ہے۔ اور اس اندازے سے بریلوی مسلک کے لوگوں کے ایک لاکھ(100000) اور شیعہ مسلک کے لوگوں کے لئے پچاس ہزار (50000) اور اہل حدیث و دیوبندیوں کے لئے تیس ہزار (30000) علماء کی ضرورت ہے اور اسی تناسب سے مدارس تعمیر ہونے چاہیں لیکن جب ضیائی اسٹیبلشمنٹ سے نواز حکومت تک ایک فرقہ جسے صرف تیس ہزار علماء کی ضرورت تھی اس فرقے کے 20 سے 30 لاکھ علماء کی تربیت کی جائے اور جس فرقہ کو پچاس ہزار علماء کی ضرورت ہو اس کے پاس فقط دس سے بارہ ہزار علماء ہوں تو حکمرانوں کی عدالت ، وطن دوستی اور قومی امانتوں کی حفاظت زیر سوال آتی ہے؟؟
آخر شیعہ کا استحصال ہی کیوں ؟؟؟
اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آخر شیعہ کے استحصال اور نسل کشی کی پالیسی ہی کیوں بنائی گئی؟

1)۔ کیا شیعہ وطن دشمنی کے مرتکب ہوتے ہیں؟
2)۔ کیا اہل تشیع آئین پاکستان کو قبول نہیں کرتے ؟
3) کیا مکتب اہل البیت کے ماننے والی ریاستی اداروں کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں؟
4)۔ کیا شیعہ حکومتی رٹ کو چیلنچ کرتے ہیں؟
5) کیا شیعہ اس ملک کے پر امن شہری نہیں ہیں؟
6)۔ کیا شیعہ ہمیشہ ملکی دفاع میں پیش پیش نہیں ہوتے؟
7)۔ کیا شیعہ کا بیس کیمپ انڈیا میں ہے؟

آخر کیا جرم تھا کہ بانیان پاکستان کے فرزندوں کے خلاف شیعہ نسل کشی کی پالیسی بنائی گئی جو کہ تاحال جاری ہے۔ اور جس پالیسی کی بدولت ہزاروں شیعہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور جرنلسٹ موت کے گھاٹ چڑھا دیے گئے ہیں جو کہ اس ملک کا سرمایہ تھے۔ شہید ہونے والے وہ لوگ تھے جن کو انکی شہادت کے بعد انٹر نیشنل ایوارڈ دیے گئے ۔ یعنی عالمی اداروں نے ان کی قدر کی لیکن پاکستانی تنگ نظروں نے انہیں بس شیعہ کہ کر قتل کر دیا۔

جب سے پاکستان میں تکفیریت اور دہشت گردی کی بنیاد رکھی گئی اس کا پہلا ہدف تشیع تھی اور آج اسی فتنے کا قلع قمع کرنے پر کام ہورہا ہے اور آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہو رہا ہے۔ لیکن پنجاب حکومت خاص طور پر نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں ایک دفعہ پھر سے شیعہ دشمنی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور بیلنس پالیسی کے تحت قاتل و مقتول اور ظالم و مظلوم کے خلاف ایک جیسا ایکشن لے رہی ہے۔ وحدت و رواداری اور اخوت اسلامی کو فروغ دینے والا علماء اور کارکنان پر جھوٹے مقدمے، ڈیٹینشن آرڈر اور فورتھ شیڈول میں ملوث کیا جارہا ہے۔ 35 سال گزرنے کے باوجود نون لیگ کی شیعہ دشمنی پالیسی آج بھی نہیں بدلی ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اب وقت تبدیل ہو چکا ہے اور پاکستانی عوام نے عہد کر لیا ہے کہ اب نہ دہشتگرد رہیں گے اور نہ انکے سہولت کار اور پاکستانی عوام اور مسلح افواج کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ اور انشاء اللہ پاکستان کے افق پر امن و امان اور تعمیر و ترقی کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز (اسلام آباد) پاکستان میں موجود کچھ نادیدہ طاقتیں وطن میں امن و امان کے قیام اور فرقہ واریت کے خاتمے کی کوششوں کوسبوتاژ کرناچا ہتی ہیں۔مٹھی بھر عناصر ارض پاک پر ملک دشمن ایجنڈے کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری، ملی یکجہتی کونسل کے رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ امین شہیدی کے خلاف بے بنیاد مقدمہ بھی انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی قائدین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ ایک جھوٹی ایف آئی آر پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے ملک کی ایک معتبر شخصیت کی عبوری ضمانت کی منسوخی افسوسناک ہے۔ عدالت کی طرف سے اس ایف آئی آر کی انکوائری کا حکم دیا جانا چاہیے تھا تاکہ حقائق کھل کر سامنے آتے لیکن ایسانہ کیا ۔بہرحال ہم عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اوراپنی قانونی حق استعمال کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم ہمیشہ طالبانی قوتوں کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے خلاف بھرپور آپریشن کا مطالبہ کرتی رہی۔علامہ امین شہیدی نے مجلس وحدت مسلمین کے اس موقف کا ہرپلیٹ فارم پر انتہائی مدلل انداز میں دفاع کیا۔ہماری جماعت نے طالبان کے خلاف آپریشن کا مطالبہ اس وقت کیا جب ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں ان سے مذاکرات کی حامی تھیں۔ان ملک دشمنوں قوتوں کے خلاف جاری آپریشن نے یہ ثابت کر دیا کہ ایم ڈبلیو ایم کا مطالبہ حالات کے عین متقاضی تھا۔علامہ امین شہیدی نے میڈیا کے ہر فورم پر ان شخصیات کو آشکار کیا جو حکومتی صفوں میں بیٹھ کرکالعدم تنظیموں کی حمایت کے نعرے بلند کرتی رہیں۔ آج انہی قوتوں کی ایما پر علامہ امین شہیدی کو انتقامی کاروائی کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔ملک کی وہ تمام سیاسی مذہبی قوتیں جو اتحاد و امن کی داعی ہیں اس فیصلے کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑی ہیں۔انہوں نے کہا علامہ امین شہیدی کی فرقہ واریت کے خلاف کی جانے والی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان کے خلاف راولپنڈی انتظامیہ کی طرف سے بے بنیاد مقدمے کا اندراج افسوسناک ہے۔انسداد دہشت گردی کی عدالت سے علامہ امین شہیدی کی ضمانت کی منسوخی کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ہم اس ملک کے محب وطن اور امن پسند قوم ہیں۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ ہم آئینی و قانون دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا دفاع کریں لیکن اس سلسلے میں حکومت کو بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔کالعدم جماعتوں کے سیاسی ونگز کی ڈکٹیشن پر اگر ہمارے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو پھر ہم ملک گیر احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے۔کانفرنس میں مرکزی رہنما علامہ اصغر عسکری، علامہ اعجاز حسین بہشتی، علامہ اقبال بہشتی، علامہ علی شیر انصاری اور صوبہ سندھ کے سیکرٹری سیاسیات علی حسین موجود تھے۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین کے وفد کی شیعہ علماء کونسل ملتان کے ڈویژنل صدر علامہ سید مجاہد عباس گردیزی سے ملاقات اور اُن کے دادا علامہ سید طالب حسین گردیزی کی وفات پر تعزیت کا اظہار اور فاتحہ خوانی کی، مجلس وحدت مسلمین کے وفد کی قیادت پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدارحسین نقوی نے کی، جبکہ وفد میں ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ قاضی نادر حسین علوی اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد عباس صدیقی بھی موجود تھے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں نے اس موقع پر علامہ سید طالب حسین گردیزی کی ملی اور قومی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ’’ ایک عالم کی موت پورے عالم کی موت ہے‘‘،علامہ صاحب نے پوری زندگی ترویج مذہب آل محمد میں بسر کی ، مرحوم ایک مخلص، محب وطن اور فرض شناس عالم دین تھے، اس موقع پر علامہ سید مجاہد عباس گردیزی نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

وحدت نیوز(گلگت) گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق سے محروم رکھ کر ٹیکسوں کا نفاذ غیر آئینی اقدام ہے وفاقی حکومت کو چاہئے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دیکر 68سالہ محرومیوں کا ازالہ کرے ۔وفاقی حکومتوں کی بدنیتی پر مبنی اقدامات اور حیلے بہانوں سے حقوق نہ دینا مجرمانہ فعل ہے ۔صوبائی حکومت کا ٹیکنو کریٹ اور خواتین اراکین اسمبلی کو ترقیاتی بجٹ میں حصہ دار نہ بنانے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی اقدام ہے ،علاقے کی نصف آبادی کو شراکت اقتدار سے دور رکھنا نواز لیگ کی عوام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی محترمہ بی بی سلیمہ نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام 68 سالوں سے وفاقی حکمرانوں سے آس لگائے بیٹھے ہیں جبکہ مختلف حیلے بہانوں سے حکومتیں گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنانے اور آئینی حقوق دینے میں مخلص نظر نہیں آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نواز حکومت کا گلگت بلتستان کے عوام کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نشستیں مخصوص کرنے کا اخباری بیان ڈھونگ ہے جس کی عملی طور پر کوئی حقیقت نہیں۔حکومت علاقے کے عوام سے مخلص ہو تو مہینوں اور دنو ں کی بجائے گھنٹوں میں حقوق دینے پر قادر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایمپاورمنٹ آرڈر اور بزنس رولز میں ٹیکنیکل انداز میں علاقے کے عوام کو محروم رکھا گیا ہے ،بزنس رولز میں موجود نقائص کو دور کرکے اعلیٰ ملازمتوں میں گلگت بلتستان کے عوام کو ترجیح نہ دی گئی تو مستقبل قریب میں عوام کا غم و غصہ بے قابو ہوسکتا ہے ،لہٰذا عوام کا اعتماد بحال کرنے اور احساس محرومی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور علاقے کو آئینی حقوق دینے میں دیر نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ آئینی حقوق کے بغیر عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنا خلاف قانون و خلاف آئین اقدام ہے ،گلگت بلتستان کے عوام کو ٹیکسوں کے دائرے میں لانے سے پہلے آئینی حقوق دیئے جائیں بصور ت دیگر ٹیکسوں کا نفاذ عملا ممکن نہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹیکنو کریٹ اور خواتین اراکین کو ترقیاتی بجٹ میں حصہ دار نہ بنانا علاقے کے عوام سے بد نیتی پر مبنی اقدام ہے جس کی اسمبلی کے اندر اور باہر بھرپور مزاحمت کرینگے۔

وحدت نیوز (شکاپور) شہداء کمیٹی شکارپور کے چیئرمین علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں ایک وفد نے احتجاجی تحریک کے سلسلے میں مختلف شہروں کا دورا کیا اور مومنین سے ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پرنصیر آباد،کنب ، ھنگورجا، دولت پور، جام شورو،حیدر آباد اور کراچی میں گفتگوکرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ سانحہ شکارپور کو سات ماہ کا طویل عرصہ گذر چکا ہے ،مگر سندہ حکومت کے وعدے وفا نہیں ہوئے۔ دھشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس اور کالعدم فرقہ پرست جماعت کی شرانگیز سرگرمیاں جاری ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی اعلان کردہ کمیٹی کا گذشتہ کئی ماہ سے کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا، جس سے سندہ حکومت کے غیر سنجیدہ روئیے کا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندہ حکومت عہد شکنی نہیں کررہی ہے۔ جس کے باعث وارثان شہداء نے احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے انشاء اللہ، قوم، ظلم و نا انصافی کے خلاف جدوجہد میں وارثان شہداء کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی،انہوں نے کہا کہ جمعہ ۲۸ اگست کو یوم سیاہ اور یوم احتجاج کے موقع پر قوم سندہ حکومت کی عہد شکنی پر بھر پور آواز بلند کرے گی۔

وحدت نیوز (سیالکوٹ) ایم ڈبلیوایم میڈیا سیل سے جاری کردہ بیان کے مطابق سیالکوٹ میں پولیس گردی کی انتہا ہوگئی جب گذشتہ دوروز میں وردی میں ملبوس پنجاب حکومت کے گماشتوں نے پُر امن ،محب الوطن شیعہ شہریان پاکستان کے آرام و سکون کو برباد کردیا ۔ایم ڈبلیو ایم سیالکوٹ کے سابق سیکرٹری جنرل سید ریاض حسین نقوی کو اُن کے گھر سے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے اہلکار گرفتار کر کے لئے گئے اس کے بعد ایم ڈبلیو ایم سیالکوٹ کے ترجمان علامہ سید علی جوادالحسن نقوی ،سیکرٹری مالیات سید نجم زیدی اور سیکرٹری جنرل سٹی کے بیٹے سید علی رضوی (صدر اے ایس او) کو بھی پنجاب پولیس کے اہلکار اخلاقیات اور گھریلو اقدار کو پامال کرتے ہوئے شب کے اندھیرے میں بدتمیزی کرتے گرفتا ر کر کے لئے گئے اور بعد ازاں نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیا۔ اس کے بعد پولیس گردی کرتے ہوئے موجودہ سیکرٹری جنرل آغا قیصر نوازاور دیگر سابقین میاں اظہر،سید نجم شاہ اورملک گوھر کے گھروں میں بھی پولیس چھاپے مار رہی ہے اس کے علاوہ باقی کابینہ کے افراد شریف شہریان پاکستان اور امن پسند مومنین کے بھی ایجنسیوں کی جانب سے مختلف انداز میں ہراساں کیا جارہا ہے ۔آغا قیصر نواز ودیگر افراد کابینہ نے میڈیاسیل سے جار ی کردہ بیان میں حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ معصوم اور امن پسند افراد کے سکون اور زندگی کو اجیرن نا کیا جائے یہ ملک پاکستا ن ہمارا ہے اور ہم اس کے پُر امن شہری ہیں اگر پنجاب حکومت کی سرپرستی میں پولیس گردی کا سلسلہ نہ رُکا اور ہمارے اسیران کو رہا نہ کیا گیا تو بھرپور احتجاج اورانتظامیہ کے دفاتر کے باھر دھرنا ہوگا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree