وحدت نیوز(نگر) ضلع نگر میں سیاسی مداخلت سے کارسرکار میں خلل پڑ رہا ہے اور بہت سے محکمے عدم فعالیت کا شکار ہیں۔ تعلیم کے لحاظ سے ضلع نگر دوسرے اضلاع کی نسبت پہلے سے پسماندہ ہے اور اس پر مستزاد اگر کوئی نیک نیت اور پرخلوص آفیسر نگر کی تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرے تو سیاسی مداخلت سے فوری اس کا تبادلہ کرایا جاتا ہے۔ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن کی محنت سے ضلع نگر کے سرکاری سکولز میں بہتری آئی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین نگر کے رہنما شبیر حسین نے کہا ہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن نے اپنے مختصر دورانیے بیشتر سکولوں کی حالت زار کو بہتر کیا ہے اساتذہ کی کارکردگی مانیٹر کررہے ہیں ۔ڈپٹی ڈائریکٹر کی کوششوں سے پھکر ڈاڈیمل اور میاچھرکیلئے ہائر سیکنڈری سکول کی سہولت مہیا ہوچکی ہے چونکہ یہ علاقے ہارڈ ایریاز ڈیکلئیر ڈ ہیں اور عوام کی جانب سے محکمہ ایجوکیشن کے اس اقدام کو بڑے پیمانے پر پذیرائی مل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حلقے کے موجودہ رکن اسمبلی نے محض اپنی سیاسی مقصد کیلئے محکمہ ایجوکیشن کے اس پراجیکٹ کودوسری جگہ منتقل کروایا ہے جبکہ وہاں گائوں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر کالج موجود ہے ۔یونین کونسل پھکرکے عوام حلقے سے منتخب رکن اسمبلی کے اس اقدام سے نالاں ہیں اور موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر ایک اصولی آفیسر ہیں جومیرٹ کی بنیاد پر کام کررہے ہیں سیاسی دبائو کو قبول نہ کرنے پر ان کے تبادلے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔ہم سیاسی نمائندوں کی اس مداخلت کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور محکمے کے ذمہ داروں سے اپیل کرتے ہیں کہ موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر کو کسی دبائو میں تبدیل نہ کیا جائے بصورت دیگر سخت احتجاج کیا جائیگا۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) گذشتہ روز پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک بیان نجی ٹی وی چینل پر دکھایا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ بیان شاہ محمود قریشی نے ایسے وقت میں دیا ہے کہ جب ایک طرف کشمیر میں آگ بھڑک رہی ہے اور کشمیر کے مظلوم عوام پاکستان کی طرف امید کی نگاہیں لگائے دیکھ رہے ہیں لیکن نتیجہ میں وزارت خارجہ کی کرسی پر براجمان شاہ محمود قریشی کشمیر کامقدمہ بھی اپنے ذاتی مفادات کی آڑ میں عالمی برادری کے سامنے رکھنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کی ناکامی کی ایک سب سے بڑی دلیل خود ان کا گیارہ ستمبر ک جنیوامیں دیا گیا وہ بیان ہے کہ جس میں انہوں نے شکست خوردہ لہجہ میں اعتراف کیا کہ یورپی ممالک ان کی حمایت نہیں کر رہے۔
اس بیان کے فوری بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ پر وزیر خارجہ کی طرف سے اسرائیل کی جعلی ریاست کی حمایت میں بیان نشر کیا گیا ہے جو یقینا شاہ محمود قریشی نے امریکی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے دیا ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس بیان کی آڑ میں انہوں نے نہ صرف قائد اعظم محمدعلی جناح کے افکار اور امنگوں اور پاکستان سے وابستہ امیدوں کا قتل کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی پاکستان سے لگی امیدوں کو بھی تہس نہس کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کو قومی اور ملکی مفادات سے بالا تر رکھا ہے۔وزیر خارجہ کی طرف سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا بیان در اصل شاہ صاحب کی امریکی و برطانوی وفاداری کا ایک ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کے چند ایک حکمرانوں کو بھی خوش کرنے کی کوشش ہے کیونکہ شاہ محمود قریشی صاحب سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ و برطانیہ سمیت عرب دنیا کے بادشاہوں کو انہوں نے خوش کر دیا تو پھر یقینا وزارت عظمیٰ کی کرسی کے لئے وہی بہترین امید وار قرار پائیں گے۔ پاکستان چونکہ اس وقت مشکل ترین اور نازک دور سے گزر رہا ہے جہاں پاکستان کو بھارت اور اسرائیل جیسے بیرونی دشمنوں کا خطر ہ ہے وہاں ان تمام خطرات سے بڑا خطرہ ایسے عناصر ہیں جو پاکستان میں بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ مفادات کے لئے ان کے پے رو ل پر کام کر رہے ہیں۔
ان عناصر میں ہروہ شخص سیاست دان اور سابق فوجی جرنیل اور نام نہاد علماء شامل ہیں کہ جن کی زندگیوں کا ہدف و مقصد صرف اور صرف ذاتی مفادات کا حصول ہے۔پاکستان کے طالب علم افواج پاکستان کے سابق جنرل امجد شعیب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اسرائیل کے مفادات کی بات کرنا بھارت کے مفادات کی بات کرنے مترادف نہیں ہے؟ کیا بھارت اور اسرائیل کے پاکستان دشمن عزائم ایک جیسے نہیں ہیں؟کیا ایک سابق فوجی جرنیل کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ملک دشمن قوتوں کے حق میں بیانات دے؟ایسے بیانات کی حمایت کرے کہ جس سے مملکت خداداد پاکستان کی نظریاتی اساسوں کو خطرات لاحق ہوں؟پاکستان کے طالب علم نوجوان سیاست دانوں سے زیادہ افواج پاکستان کی وفاداریوں اور فدا کاریوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن جب ان اداروں کے اندر سے نکل کر اعلی افسران پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوں اور ذرائع ابلاغ کی زینت بنے رہیں تو پھر ہمارا سوال سپہ سالارسے یہ بھی ہے کہ پاکستان کے نوجوان ہنر مندان کس دروازے پر جائیں؟آج پاکستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہر نوجوان سوالیہ نگاہوں سے صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف سمیت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔
ایسے حالات میں ہم ایک طرف کشمیرکی حمایت کا نعرہ لگا رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت کی صفوں میں موجود کالی بھیڑیں اور وزیر اعظم صاحب کی آستین میں چھپے سانپ کشمیرسمیت فلسطین پر سودے بازی کر رہے ہیں۔اگر آج شاہ محمود قریشی کے بقول پاکستان اسرائیل سے تعلقات میں دلچسپی رکھتا ہے تو پھر بھارت کے ساتھ اپنے تمام تر تعلقات کو کس بنیاد پر ختم کیا ہے؟ پھر کس منہ سے پاکستان کشمیر کاز کی حمایت کرے گا؟ اگر فلسطین کا سودا کر دیا جائے تو پھر کشمیر پر حکومت کس طرف کھڑی ہو گی؟وزیر اعظم پاکستان کو شاہ محمود کے ان بیانات کا نوٹس لیناچاہئیے اور قوم کو وضاحت پیش کرناچاہئے کیونکہ شاہ محمود کے اسرائیل حمایت بیان نے نہ صرف پاکستان کے عوام میں بے چینی کو جنم دیا ہے بلکہ کشمیر کی جد وجہدآزادی کو بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ حکومت کی صفوں میں موجود عناصر اور دیگر گماشتے کھلم کھلا ملک دشمن قوتوں کے حق میں بیان بازی کر رہے ہیں۔ایسے حالا ت میں لازم ہے کہ قانون حرکت میں آئے اور سپریم کورٹ آف پاکستان ایسے تمام عناصر کو آرٹیکل چھ کے دائرہ میں لا کر کاروائی کرے۔وزیر خارجہ کا اسرائیل سے تعلقات پر دلچسپی کا بیان پاکستان کی نظریاتی بنیادوں اورآئین پاکستان سے سنگین غداری کے مترادف ہے تاہم آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق کیا جائے اور کسی بھی عوامی عہدے پر فائز نہ کیا جائے۔خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل انتہائی کمزور اور شکست خوردہ ہو چکا ہے،فلسطینی مزاحمت نے غزہ اور مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل پر کاری ضربیں لگا رکھی ہیں،شاہ محمود قریشی نے اسرائیل کی حمایت میں بیان ایسے وقت میں دیا ہے کہ جب فلسطینی مزاحمت نے غزہ میں اسرائیلی ڈرون طیارے کو اتار لیا اور صہیونیوں کے خلاف جوابی کاروائی میں ایسے میزائل فائر کئے ہیں جو اسرائیل کے جدید ترین راڈار سسٹم آئرن ڈوم پربھی نظر نہیں آئے۔
اسی طرح فلسطینی مزاحمت نے جنوبی لبنان میں نہ صرف اسرائیل کا ایک ڈرون مار گرایا ہے بلکہ مقبوضہ فلسطین کے اندر سات کلو میٹر تک داخل ہو صہیونی فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا اور متعدد صہیونیوں کو ہلاک کیا۔یہ ہے وہ اسرائیل کے جس کی ٹیکنالوجی اور ترقی کی مثالیں پاکستان میں جنرل (ر) امجد شعیب، طاہر اشرفی اور شاہ محمود قریشی جیسے لوگ پیش کرتے ہیں اور پاکستان کے با شعور افراد کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔خود اسرائیل جو فلسطینی مزاحمت کاروں کے چھوٹے چھوٹے اسلحوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس سے تعلقات قائم کر کے پاکستان کی ترقی کے خواب دکھا رہے ہیں۔در اصل یہی عناصر پاکستان کے دشمن ہیں۔
ان عناصر کے آباؤ اجداد کا اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ کس کس طر ح ان کے خاندانوں نے برطانوی استعمار سے مراعات حاصل کی ہیں اور آج تک امریکی و برطانوی سامراج کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے نکالنے کو تیار نہیں ہیں اور بد قسمتی یہ ہے کہ آج نئے پاکستان میں کشمیر و فلسطین جیسے مسائل خارجہ امور کی ذمہ داری بھی ایسے ہی افراد کے ہاتھوں میں سونپ دی گئی ہے جن کا مطمع نظر ذاتی مفادات ہیں نہ کہ کشمیر و فلسطین کی جد وجہد آزادی۔وزیر اعظم پاکستان کا نیا پاکستان اگر کشمیر و فلسطین کا سودا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے تو پھر ایسے نئے پاکستان کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے۔
تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر،شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(جہلم) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی محترمہ سیدہ معصومہ نقوی دینہ امامبارگاہ ھڈالہ سیداں میں عشرہ ثانی زھرا سلام الله علیھا سے خطاب کر رہی ہیں ان مجالس عزا میں مومنات کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ مجلس سے خطاب کرتے ہوے محترمہ معصومہ نقوی نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۸۷ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پروردگار احسان کرنے والو، توبہ کرنے والو، طھارت باطنی و ظاہری کو پسند کرنے والے ، ایفاے عھد ، توکل بر خدا ، اللہ کے راستے میں سیسہ پلائ ہوی دیوار اور اطاعت رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حامل بندوں کو محبوب تر رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بندگان خدا معاشرے میں کردار علوی و حسینی ادا کرتے ہیں ملک شام میں مدافعان حرم جناب زینب ع نےولایت علی ع کے پرچم تلے حق کا بول بالا کیا اور باطل طاقتوں کو شکست دی اور دے رہے ہیں۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) دمشق کے اطراف اور بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر اسرائیلی کی کھلی جارحیت کے بعد جس دن سے سید مقاومت علامہ مجاھد سید حسن نصراللہ (حفظہ اللہ) کا خطاب سنا، تو اس دن سے ارادہ کیا، کہ کچھ جوہری نکات جن کی طرف سید مقاومت نے اپنے خطاب میں اشارہ کیا، ان کے بارے میں کچھ وضاحت پیش کروں، اور ساتھ ہی جو مقاومت نے دشمن کو پوری طاقت کے ساتھ نہ بھولنے والا جواب دیا اس بارے کچھ لکھوں، لیکن اس کے سامنے دو رکاوٹیں حائل تھیں.
1- میری دیگر مصروفیات اتنی تھیں، کہ اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر لکھنے کا وقت نہیں مل رہا تھا.
2- جن عسکری وسیاسی عربی اصطلاحات کو سید مقاومت نے اپنے خطاب میں بیان کیا تھا، اسے میں خود اپنی ناقص فھم کے مطابق سمجھ چکا تھا، لیکن ان اصطلاحوں کو صاحب اختصاص نہ ہونے، اور ایک ادنی سے دینی طالب علم ہونے کے ناطے، اور اردو زبان پر زیادہ دسترس نہ رکھنے کی وجہ سے اس کو بیان کرنا قدرے مشکل نظر آ رہا تھا.
لیکن ایک عزیز کہ جن کو میں یہ ساری باتیں بیان کر چکا تھا انکے اصرار اور تشویق دلانے پر آج قلم اٹھانے کی حامی بھر لی، تاکہ آپ تک یہ اہم باتیں پہنچا سکوں۔
لیکن اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے، چند اصطلاحات کی تشریح ضروری ہے، کیونکہ ان الفاظ کو سید حسن نصر اللہ اپنے خطابات میں بہت استعمال کرتے ہیں، اور اردو قارئین کے لئے شاید یہ الفاظ اس طرح سے واضح نہ ہوں۔
ان میں سے اہم اصطلاحات قدرة الردع ( deterrence)، اس کے شرائط اور قواعد اشتباکات ( Rules of Engagement) ہیں۔
قدرة الردع اور قواعد اشتباكات کی وضاحت
1- قدرۃ الردع (Deterrence) کا مطلب کیا ہے؟ انگریزی زبان میں اس کی وضاحت کچھ یوں ہے:
(The deterrence is the act of stopping something from happening.)
دوسرے معنی میں مفھوم الردع کی وضاحت یوں ہے، کہ اپنے دشمن یا مدمقابل کو اس فعل سے منع کرنے کی صلاحیت رکھنا، اور اسے مجبور کرنا، کہ اگر اس نے کوئی غلط اقدام اٹھایا، یا کوئی بھی کاروئی کی، تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا. اور وہ جو مقاصدحاصل کرنا چاہتا ہے، ان سے زیادہ نقصان اٹھائے گا.
قدرۃ الردع (Deterrence) کی شرائط
اس صلاحیت اور طاقت کے حصول کی مندرجہ ذیل تین شرائط ہیں.
1- الاتصال (communication )
یہ اتصال اور پیغام رسانی خطابات اور بیانات کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے، اور اس کے علاوہ سفراء، اعلی سطح کےحکومتی اہلکار، یا کسی ثالث کے ذریعے بھی اس کام کو سر انجام دیا جا سکتا ہے. یہ علی الاعلان بھی ہوتی ہے اور مخفیانہ طور طریقوں سے بھی ہوتی ہے.
2- القدرۃ (capability)
یہ صلاحیت اور طاقت مادی بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی.
3- المصداقية (credibility)
آمادگی اور تیاری میں بھی سنجیدگی اور مصمم ارادے ہوں اور اقدامات اور کاروائی میں بھی غیر متزلزل اور پختہ ارادہ رکھتا ہو. صداقت اور سچائی شعار ہونا چاھیے.
2 قواعد اشتباکات Rules of Engagement کا مطلب کیا ہے ؟
عسکری علوم کے مطابق دشمن کے خلاف کارروائی اور طاقت کا استعمال کرتے وقت، جن قواعد وضوابط کی ملٹری فورسز پابند ہوتی ہیں. ایسے تمام قانونی، عسکری، اسٹریٹجک، سیاسی اور عملیاتی اصول، قواعد اشتباکات کہلاتے ہیں.
( اصل موضوع)
ان اہم اصطلاحات کی وضاحت بعد، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
چند دن پہلے المنار ٹی وی چینل پر اسرائیلی تجزیہ نگار کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ، اسرائیل کی قومی سلامتی کے انسٹیوٹ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے. کہ ” اسرائیل کو اب اپنی شمالی سرحد پر نئے Deterrence Equation (معادلۃ الردع) کا سامنا ہے.” اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مقاومت نے صھیونیوں کے لئے نئی ریڈ لائنز کھینچ دی ہیں.
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سید مقاومت نے اپنے خطاب میں دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ” اب ہمارے سامنے کوئی ریڈ لائنز نہیں. اب ہم لبنان کے مقبوضہ علاقوں (مزارع شبعا اور کفر شوبا کی ھائٹس) کی بجائے مقبوضہ فلسطین کی سرزمین سے دشمن کے خلاف جوابی کارروائی کریں گے، اور اس کے ساتھ Rules of Engagement (قواعد الاشتباک) کو بہتر بنائیں گے. ”
اور سید مقاومت نے واضح پیغام دیا کہ ” اگر ہمارے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کی گئی تو تمھاری ساری فوج اور ساری سرحدیں ہماری جوابی کاروائی کی زد میں ہونگی.” اور مزید فرمایا کہ “ہمارے ملک، ہمارے مورچوں اور ہمارے مجاھدین کے خلاف ہر کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا. ”
اقوام متحدہ کی قرارداد (1701) کہ جسے لبنان نے سیاسی اور عسکری طور پر قبول کیا تھا، اور محور مقاومت بھی اس کی پابندی کرتی تھی، اب وہ عملی طور پر کئی سالوں سے جمود کا شکار ہے. کیونکہ اسرائیل ہمیشہ سے لبنانی سرحدوں کو عبور کر کے اس قراداد کی خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے، اور اقوام متحدہ کی یونیفل فورسسز بھی اسے روکنے اور منع کرنے سے بے بس اور عاجز نظر آتی ہیں۔
اس لئے حزب اللہ نے Rules of Engagement (قواعد الاشتباک) کی نئی پیش رفتہ صورتحال کے پیش نظر تین اصولوں کا اعلان کر دیا.
1- مقبوضہ لبنانی علاقوں سے کاروائی کی بجائے اب مقاومت اسرائیل کی سرحد پر صہیونی فوج کو نشانہ بنائے گی.
2- جو بھی اسرائیل کے ڈرون طیارے لبنان کی فضا میں آئیں گے انہیں نشانہ بنایا جائے گا.
3- اگر اسرائیل نے لبنان کی سرزمین کے اندر کوئی بھی کاروائی کی تو اسرائیل کے اندر تک حملوں کے ذریعے اس کا جواب دیا جائے گا .
“حزب الله کے ایگزیکٹو کونسل کے نائب صدر شیخ علی دعموس نے 6 ستمبر 2019 کے جمعہ کے خطبے میں اس نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کہ مقاومت کی افیفیم عسکری کارروائی نے اسرائیل کو اسی زبان میں اچھی طرح سمجھایا کہ جو زبان وہ سمجھتا ہے. اور deterrence Equations (معادلۃ الردع) کو تقویت دی ہے، اور اسکی شرائط کو بہتر کیا ہے. جبکہ دشمن کی کوشش تھی کہ دمشق کے اطراف اور بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر کھلی جارحیت کے ذریعے اسے تبدیل کرے، اور شرائط کو نظر انداز کرے.
مزید کہا کہ: اگر لبنانی مقاومت کے پاس یہ طاقت، عزم وارادہ اور حکومت اور عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی، تو لبنان آج دشمن کے سامنے ایک آسان ھدف ہوتا اور لبنان کمزوری وپستی وذلت میں ڈوب چکا ہوتا. ”
جب اسرائیل نے بیروت کے نواحی علاقے پر ڈرون حملہ کیا اور دمشق کے اطراف میں میزائیل حملے کے ذریعے حزب اللہ کے دو مجاھد شہید کئے، اور اس کے جواب میں سید مقاومت نے بدلہ لینے اور جوابی کاروائی کا اعلان کیا، تو پورا اسرائیل سہم گیا، ان پر حزب اللہ کی دفاعی طاقت اور عزم و ارادے کا خوف طاری رہا، اور تقریبا ایک ھفتہ سید مقاومت کے امر پر وہ ڈیڑھ قدم پر کھڑے نظر آئے، اور جب حزب اللہ نے اپنی نوعیت کی جوابی کاروائی کی، اور شمالی جبھہ کے قائد، ایک فوجی جنرل کو اپنے ھدف کا نشانہ بنایا، (اور جو میزائل استعمال ہوئے سوریہ ساخت کورنیٹ میزائل تھے) تب جا کر اسرائیل نے ٹھنڈا سانس لیا، وگرنہ انکی نیندیں اڑ چکی تھیں. لبنان کے ساتھ بارڈر کے قریب اپنی بارکیں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے، اس منظر کو روسی چینل کی صحافی خاتون اور کیمرہ مینوں نے پوری دنیا کو لائیو دکھایا.
اس کاروائی سے پہلے مختلف ممالک نے لبنان کے اعلی سطح حکومتی اہلکاروں سے رابطے کیے، کہ وہ حزب اللہ سے کہیں، کہ جوابی کاروائی نہ کرے، اور اس کے بدلے ہم لبنان کی مالی مدد کریں گے، اور اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ آئندہ اسرائیل کبھی بھی حماقت نہیں کرے گا، لیکن مقاومت نے اپنا انتقام لیکر دشمن کو اسی کی زبان میں ناقابل فراموش درس دیا.
قارئین محترم!
اس دنیا میں (جہاں کمزوروں کی کوئی سنتا ہی نہیں اور نہ ہی کوئی عزت کرتا) اگر عزت و آبرو کے ساتھ جینا ہے، اور ملک میں امن و امان لانا ہے تو اس کے لئے معادلة الردع کا فارمولہ اپنانا ہوگا اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں، اس اہم ترین فارمولے کو سمجھنے کے لئے درجہ ذیل پانچ نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔
1- معروف ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ جب اسرائیل کے سابق وزیراعظم موشی دایان سے جب پوچھا گیا کہ لبنان پر کاروائی کے لئے کس فوجی دستے کو بھیجیں گے، تو اس نے جواب دیا تھا کہ لبنان کی طرف فوج بھیجنے کی ہرگز ضرورت نہیں وہاں تو بینڈ باجے کا دستہ بھیجیں گے، اور وہی کافی ہو گا.
لیکن آج جب لبنانی مقاومت نے اپنی دفاعی پوزیشن کا لوہا دنیا سے منوایا ہے تو اس سے انکے ملک کے امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے، اور اگر کوئی بیرونی دشمن جارحیت کرتا ہے تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بھرپور جوابی کاروائی ہوتی ہے.
2- ایران اگر آج محفوظ ہے اور امن و امان کے لحاظ سے پر سکون ہے، اور پوری دنیا میں اسکا احترام ہے، اور خطے کی مضبوط طاقت شمار ہوتا ہے، تو وہ اس کی طاقت ردع یا مضبوط دفاعی صلاحیت ہے. گذشتہ 10 جون میں دنیا کی سپر پاور امریکہ نے ایران کو دھمکی دی، اور اپنا جاسوسی طیارہ ایران کی حدود میں بھیج کر خوب اندازہ لگا لیا کہ ایران کتنا طاقتور ہے، برطانیہ نے ایک بحری جہاز پر قبضہ کیا تو ایران نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے انکے چار بحری جہاز اپنے قبضے میں لے لئے. امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے نئے مشرق وسطی کا پلان لانچ کیا، لیکن ایران کی سربراہی میں مقاومت کے بلاک نے انہیں عراق وشام ویمن میں شرمناک شکست سے دوچار کیا.
3- یمن پر ساڑھے چار سال سے سعودی اتحادیوں نے جنگ مسلط کر رکھی ہے، اب جب یمن کے غیرت مند فرزندوں نے انصار اللہ کی شکل میں اپنی دفاعی صلاحیت مضبوط کر لی ہے اور انکے ڈرون اور بیلسٹک میزائل دشمن کے حساس علاقوں پر حملے کرنے کی قابل ہوئے ہیں، تو اب یہ اتحادی خود آپس میں جنگ کرتے نظر آرہے ہیں اور فوجوں کا انخلاء شروع ہو چکا ہے.
4- عراقی وفلسطنی مقاومت نے بھی اپنی مضبوط دفاعی صلاحیتوں کی وجہ سے امریکہ واسرائیل کو بے بس کر دیا ہے. آج عراق میں حشد شعبی امریکیوں کی آنکھ کا کانٹا بن چکا ہے، اور تمام تر امریکی سازشوں کو انہوں نے خاک میں ملایا ہے. اسی طرح آج اگر فلسطین پر میزائل حملہ ہوتا ہے، تو تل ابیب پر میزائل داغے جاتے ہیں، اسی دفاعی صلاحیت کے بہتر ہونے سے امن و امان کی صورتحال آج پہلے سے بہتر ہے.
5- اگر پاکستان نے بھی 27 فروری کو انڈیا کے جنگی جہازوں کو نہ گرایا ہوتا اور ہماری دفاعی صلاحیت مضبوط نہ ہوتی، تو آج پورا ملک دشمن کے رحم وکرم پر ہوتا. جو آئے دن مختلف بہانوں سے ہماری سر زمین کے تقدس کو پامال کیا جاتا. اور اسرائیل کو اگر یہ یقین نہ ہوتا کہ وہ ہمارے شاھین میزائل کی زد میں ہے، تو جیسے اس نے شام، عراق اور سوڈان کے علمی ابحاث اور ایٹمی ہتھیاروں کے مراکز کو نشانہ بنایا تھا، وہ ہمارے ایٹمی مراکز بھی تباہ کر چکا ہوتا. پاکستان کی طاقتور فوج اور مضبوط دفاعی صلاحیت نے اسے بیرونی دشمنوں کے شر سے محفوظ کر رکھا ہے.
یہ ایک واضح حقیقت ہے، کہ قیام امن کے لئے پاور اور طاقت کا حصول اور مضبوط دفاعی صلاحیت اور وسائل بہت ضروری ہیں. آپکی قوت ردع ہی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا سکتی ہے۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین مظفرآباد کے سیکرٹری جنرل سید غفران علی کاظمی نے وحدت سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں محرم الحرام کو پرامن گزارنے پر سیکورٹی اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مظفرآباد میں محرم الحرام کو بہتر انداز میں گزارنے میں انتظامیہ کا اہم کردار ہے ہم خصوصی طور پر چوہدری امتیاز کمشنر مظفرآباد ڈویژن، سردار الیاس ڈی آئی جی، بدر منیر سلہریا ڈپٹی کمشنر،عاصم اعوان اے ڈی سی، یاسین بیگ ایس ایس پی، اعظم رسول ایڈمنسٹریٹر بلدیہ، ریاض مغل ڈی ایس پی،عفت اعظم اے سی، شہزاد عباسی آفیسر مال،قیصر اسلم تحصیلدار، ضمیر شاہ نائب تحصیلدار، ایس ایچ او صاحبان و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر جہاں ایک طرف یزید کا پیروکار مودی آزاد کشمیر کی فضاء کو خراب کرنا چاہتا ہے لیکن ہمیں فخر ہے اپنے حساس اداروں و انتظامیہ پر جنہوں اس ماحول کو خراب ہونے سے بچائے رکھا۔ مظفرآباد میں تمام جلوس اپنے مقررہ اوقات میں نکلے اور بروقت اختتام پذیر ہوئے سیکورٹی کہ بہتر انتظامات ہونے پر ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی و ان کی پوری ٹیم کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے بھرپور تعاون کیا اور بلخصوص کمشنر صاحب مظفرآباد ڈویژن کہ ممنون ہیں جن کی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اس چمن کی فضاء خوشگوار ہے۔
وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین لاہور کے زیراہتمام یومِ شہزادہ علی اصغر علیہ السلام و بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا منایا گیا۔ امام بارگاہ گلشن زہراء بھیکے وال میں یوم شہزادہ علی اصغر علیہ السلام و بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے خصوصی تقریب منعقد ہوئی، جس میں خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ حاضرین سیاہ لباس اور سروں پر سبز پٹیاں باندھے لبیک یاحسینؑ، لبیک یا اصغرؑ، لبیک یا مہدیؑ کے نعرے لگا رہی تھیں۔
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین لاہور حنا تقوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہزادہ علی اصغر علیہ السلام و بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا سفینہء کربلا میں سب سے کمسن مگر کردار و عمل میں اکمل ترین ہستیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امام وقت پر اپنی جانوں کو قربان کرکے ان ہستیوں نے رہتی دنیا تک حق کیلئے آواز بلند کرنے اور باطل کیخلاف نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔ لبنیٰ زیدی نے کہا کہ شش ماہے علی اصغرؑ نے سوکھے گلے پر تیر کھا کر اپنی قربانی سے وہ انقلاب برپا کیا، جس نے دنیا میں شیر خواروں کی عظمت کو بلند کر دیا۔ چھ ماہ کے معصوم علی اصغرؑ اور چار سالہ سکینہ سلام اللہ علیہا نے نبی کے گھرانے کی سیرت پر چلتے ہوئے ابن زیاد کے لشکر کی ذہنی پستی کو اپنے کردار سے ہلا ڈالا۔
تقریب میں لاہور کے ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کے مختلف یونٹس سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں نے سلام، منقبت اور ٹیبلوز کے ذریعے نذرانہ عقیدت پیش کیا۔