وحدت نیوز(اسلام آباد) سکردو سے راولپنڈی آنے والی مسافر کوبابوسر کے مقام پر پیش آنے والے حادثے اور قیمتی جانوں کے نقصان پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اور صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ آغاعلی رضوی نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے ۔

قائدین نے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تمام مرحومین کی مغفرت اور پسماندگان کیلئے صبر جمیل کی دعا کی ہے ۔دوسری جانب مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل آغا علی رضوی نے بابوسر روڈ حادثے کے حوالے سے فورس کمانڈر جی بی اور کمشنر بلتستان سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے ہنگامی طور زخمیوں کے علاج معالجے اور حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی میتوں کو سکردو منتقل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی اپیل کردی۔

 اس موقع پر فورس کمانڈر گلگت بلتستان اور کمشنر بلتستان نے یقین دہانی کرائی کہ تمام زخمیوں کو فوری ابتدائی طبی امداد چلاس میں دی جا رہی ہے اور زخمیوں کے علاج کے سلسلے میں تمام تر وسائل بروئے کار لایا جائے گا اور ان کی حالت بہتر ہونے کے بعد گلگت ہسپتال میں منتقل کیا جائے گا، جبکہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے مسافرین کے جسد خاکی کو بذریعہ ہیلی اسکردو منتقل کیا جائے گا۔

وحدت نیوز(اٹک) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین اٹک کی جانب سے 16 تا 20 محرم الحرام خمسہ مجالس عزا بعنوان “میزان الہی” کا انعقاد مکتب قرآن و اھلبیت میں کیا گیاان مجالس عزا سے محترمہ آمنہ نقوی نے خطاب کیا آخری مجلس عزا بعنوان یوم علی اصغرؑ و سکینہؑ بارگاہ حسینیہ میں منعقد ہوئی جس میں خواتین  اپنے شیر خوار بچوں اور کم سن بچیوں کے ساتھ شریک ہوئیں سبز پوشاک اور ماتھے پر سرخ پٹی باندھے بچوں اور بچیوں نے شہزادہ علی اصغر ؑ اور شہزادی سکینہ ؑ کو خراج تحسین پیش کیا ۔

محترمہ آمنہ نقوی نے خواتین سے تجدید عہد لیا کہ وہ اپنے شیر خوار بچوں اور اپنی بچیوں کی تربیت اس انداز میں کریں گی کہ امام وقت کے حضور ان کی قربانی پیش کر کے سرخرو ہو سکیں اپنے بچوں کو جناب اصغرؑ و بیبی سکینہؑ کے نام پر قربان کرنے کے لیے اور کربلا کی شیر دل خواتین کی سنت پر چلتے ہوے دین مبین کی سربلندی اور احیاء کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے آمادہ رہینگیں۔

وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ وحید عباس کاظمی نے وحدت ہائوس پشاور سے جاری بیان میں کہا ہے کہ کوہاٹ اور ہنگو میں ڈی پی اوز کا کردار انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور افسوسناک رہا ہے۔ انہوں نے اہل تشیع کی مذہبی رسومات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، جو ایک عرصے کے بعد امن و امان کی قائم پرامن فضا کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوہاٹ اور ہنگو کے ڈی پی اوز نے روایتی جلوس پر ایف آئی آر درج کرکے اپنے کردار کو مشکوک بنایا، 2006ء کے یوم عاشورہ کے سانحہ کے بعد اس سال ایک بار پھر ہنگو میں پرامن جلوس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ عزاداری سید الشہداء (ع) کے جلوس کے شرکاء اور عمائدین پر ایف آئی آر درج کرنا کسی صورت قبول نہیں، لہذا ہم آئی جی خیبر پختونخوا نعیم خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ڈی پی او کوہاٹ اور ڈی پی او ہنگو کے خلاف انکوائری بیٹھا کر انہیں ان کے عہدوں سے برطرف کریں، کیونکہ انہوں نے امن و امان کی پرامن فضا کو قائم کرنے کے بجائے کسی کی ایماء پر جانبدار اور متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ جو وہاں اس علاقہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے کسی طور بھی مناسب نہیں۔

وحدت نیوز (جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی ،ضلعی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ سیف علی ڈومکی ،عزاداری سیل کے رہنما سید احسان علی شاہ بخاری ،سید فضل عباس شاہ اور جنرل سیکرٹری سید غلام شبیر نقوی نے ڈپٹی کمشنر  جیکب آباد غضنفر علی قادری سے ملاقات کی اور انہیں محرم کے دوران بہترین اتنظامات پر اپریسئیشن لیٹر دیا۔

 اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ جیکب آباد جیسے حساس ضلع میں عوام کے تحفظ اور عزاداروں کی سہولت کے لئے ڈپٹی کمشنر جیکب آباد کی کوششیں قابل تعریف ہیں ہم ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

 ڈپٹی کمشنر نے ضلع کے مختلف شہروں میں جاکر عزاداری روٹس کا دورہ کیا صفائی صحت لائٹننگ سمیت مختلف مسائل کے حل کے لئے کوششیں کیں۔اس موقع پر جناب غضنفر علی قادری نے علامہ مقصود علی ڈومکی عزاداری سیل اور مجلس وحدت مسلمین کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کیا۔ اور کہا کہ ایام محرم میں آپ کا مکمل تعاون رہا۔

وحدت نیوز(جیکب آباد) مدرسہ خاتم النبیین ص جیکب آباد میں منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئےمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ آل رسول ص نے دین اسلام کی بقا کے لئے بے مثال قربانی دی ، یہی سبب ہے کہ 14 سو سال گذر جانے کے باوجود آج بھی امام حسین عالی مقام اور ان کے اصحاب کی قربانی عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔آج انسانیت جن مشکل حالات میں پھنسی ہوئی ہے ان مشکلات سے  نکلنے کا واحد راستہ کربلا والوں کی پیروی میں مضمر ہے کربلا ہر دور کے انسان کی درسگاھ ہے کربلا فقط ایک حادثہ نہیں بلکہ مکمل نظام حیات ہے عصر حاضر کے یزیدوں اور فرعونوں سے مقابلے کے لئے ہمیں اسوہ شبیری کو اپنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان کربلا والوں کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے یزید عصر کو عبرت ناک شکست دے سکتے ہیں۔آج یمن کے مظلوم مسلمانوں نے جارح قوتوں کو شکست دے کر یہ بتا دیا کہ جو خدا کی ذات پر توکل اور ایمان رکھتے ہیں وہی ہمیشہ سر بلند رہتے ہیں۔اور جو شیطان بزرگ امریکہ پر اعتماد کرتے ہیں  انہیں ہمیشہ ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس موقع پر مجلس عزا سے ایم ڈبلیو ایم ضلع جیکب آباد کے سیکریٹری جنرل علامہ سیف علی ڈومکی اور ضلعی سیکریٹری تنظیم سازی مولانا حسن رضا غدیری نے بھی خطاب کیا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) جائز صہیونی ریاست اسرائیل میں ایک ہی سال کے اندر یہ دوسرے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ اسی سال اپریل کے مہینے میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کوئی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی تھی۔ موجودہ وزیراعظم چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر عددی اعتبار سے سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہنے پر ناجائز صہیونی ریاست کی پارلیمان نے انتخابات دوبارہ کروانے کے حق میں رائے دی تھی۔

17 ستمبر کو ہونے والے حالیہ انتخابات میں نشستوں کی برتری کے لحاظ سے صورتحال اپریل کے انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ سابق صہیونی آرمی چیف (ر) لفٹیننٹ جنرل benny gantz کی نیلی اور سفید پارٹی 120 نشستوں کی پارلیمان میں سے 33 نشستوں کے ساتھ سرفہرست، موجودہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کی likud پارٹی 32 نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ یونائیٹڈ عرب لسٹ پارٹی 11 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح شاس پارٹی 9، دی جیوش ہوم 9، یونائٹیڈ توراہ یہودیت 8، یونین آف رائٹ ونگز پارٹی 7، gesher پارٹی 6 اور جمہوری اتحاد 5 نشتوں کے ساتھ بالترتیب بعد والے نمبروں پر ہیں۔

دائیں اور بائیں بازو کی ہم خیال جماعتوں کے ممکنہ اتحاد کی نشستیں ملائیں تو سابق صہیونی آرمی چیف banny gantz کے ہم خیال گروپ کے پاس کل ملا کر 56 جبکہ موجودہ صہیونی وزیراعظم نتن یاہو کے ہم خیال گروپ کی کل ملاکر 55 نشستیں بنتی ہیں۔ جو کہ حکومت بنانے کے لیے ضروری 61 نشستوں سے کم ہیں۔ ایسے میں سابق اسرائیلی وزیر دفاع Avigdor Lieberman کی پارٹی the Jewish home کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

ناجائز صہیونی ریاست کی نئی حکومت کا تعین اب Lieberman کے ہاتھ میں ہے۔ Lieberman جس ہم خیال گروپ کے ساتھ الحاق کر لے گا ظاہراً وہی گروپ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ lieberman ایک مشترکہ قومی حکومت کا خواہاں ہے۔ اس نے اپنی انتخابی کمپین کے دوران جہاں گذشتہ چار دفعہ وزیراعظم رہنے والے نتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں ناجائز صہیونی ریاست کے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ قومی حکومت کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔

بلکہ گذشتہ روز Lieberman نے ایک اخباری بیان کے ذریعے عددی برتری کی حامل دونوں جماعتوں کو متنبہ کیا ہے کہ مشترکہ قومی حکومت کی تشکیل کی خواہش کے علاوہ کسی دوسری خواہش کے لیے کوئی سیاسی گروپ اس سے رابطہ نہ کرے۔حالیہ انتخابات میں نشستیں حاصل کرنے والی اکثر جماعتیں انتخابی کمپین کے دوران ایک دوسرے کے خلاف اسرائیلی تاریخ کے بدترین الزامات لگا چکی ہیں اور انتخابات میں فتح کی صورت میں مخالفین کے خلاف عدالتی کاروائی کا وعدہ کر چکی ہیں۔ نظریاتی طور پر بھی مختلف جماعتوں کے ایک دوسرے سے شدید اختلافات ہیں جن میں اپریل کے انتخابات کے بعد مزید اضافہ ہوا ہے۔

ایسے میں بعید نظر آتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ جماعتیں آسانی کے ساتھ کسی اتفاق رائے پر پہنچ سکیں اور ناجائز صہیونی ریاست میں موجود سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہوسکے۔ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے صدر Reuven Rivlin نے کہا ہے کہ وہ حکومت کی تشکیل کے حوالے سے اتفاق رائے کے حصول کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔حالیہ نتائج پر اگر دقت کریں تو معلوم ہوتا ہے اسرائیل میں سیکولر جماعتوں کے ووٹ بنک میں نسبتاً اضافہ ہوا ہے۔ ووٹ چھوٹی جماعتوں میں تقسیم ہوا ہے جو حکومت میں رہنے والی بڑی جماعتوں پر عدم اعتماد اور سیاسی افکار میں انتشار کی علامت ہے۔

 اسرائیل کو درپیش بنیادی مسائل میں طبقاتی شکاف، سیکورٹی خطرات اور مذہبی شدت پسندی سرفہرست ہیں۔ انتخابی کمپین کے دوران متعدد اسرائیلی اخبارات کی جانب سے کئے جانے والے سروے میں زیادہ تر سوالات کا تعلق انہی تین موضوعات سے تھا۔حالیہ انتخابات کے نتائج اسرائیل کی خارجہ پالیسی پر بہت زیادہ اثرانداز نہیں ہوں گے کیونکہ اس بات پر تقریباً تمام صہیونی رہنما متفق ہیں کہ ناجائز صہیونی ریاست کی سیکورٹی کو مضبوط کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوگی اور اس حوالے سے فلسطینیوں کی سرکوبی سمیت مغربی و عربی طاقتوں کی حمایت کے حصول کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ حکومت جس کی بھی بنے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور فلسطینوں کی سرزمینوں پر قبضے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

 ناجائز صہیونی ریاست کے زیر تسلط اردن اور شام کے علاقوں پر اسرائیل اپنا حق مالکیت جتاتا اور موقع ملنے پر ان علاقوں کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کی کوشش کرتا رہے گا۔حالیہ انتخابات کے نتائج میں  11 نشستیں حاصل کرنے والی یونائٹڈ عرب لسٹ پارٹی شاید وہ واحد پارٹی ہے جو سابقہ صہیونی حکومتوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی نسبتاً مخالف اور فلسطینیوں کے ساتھ مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی بات کرتی ہے۔ یہ اپنی تشکیل سے حالیہ انتخابات تک کبھی حکومت کا حصہ نہیں رہی اور یہ پہلی بار ہے کہ یہ پارٹی نئی حکومت کی تشکیل میں اثر انداز ہوگی۔ناجائز صہیونی ریاست کے حالیہ پارلیمانی انتخابات صہیونی رہنماؤں کے لیے ایک جنگ کی حیثیت رکھتے تھے۔

 ایک طرف مذہبی شدت پسند اور قدامت پرست سیاسی گروپ تو دوسری طرف سیکولر اور آزاد خیال سیاسی گروپ تھے۔ ناجائز صہیونی ریاست کا دفاع اور توسیع پسندی ان تمام جماعتوں کے درمیان نکتہ اشتراک ہے چاہے اس کے لیے انہیں فلسطینیوں کی نسل کشی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ میرا دعوی نہیں بلکہ ناجائز صہیونی ریاست کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا حصہ تھا اور benny gantz سمیت اکثر سیاسی رہنما الیکشن کمپین کے دوران اپنے دور اقتدار میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو فخریہ طور پر پیش کرتے نظر آئے ہیں۔ ناجائز صہیونی ریاست کے حالیہ انتخابات اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے میں کوئی بڑی مدد نہیں کرسکیں گے بلکہ صورتحال تقریباً ویسی ہے رہے گی جیسے اپریل کے انتخابات کے بعد تھی۔

اگر کوئی مشترکہ قومی یا اتحادی حکومت بنتی ہے تو وہ ایک غیر مستحکم اور منتشر حکومت ہوگی جو ناجائز صہیونی ریاست کے داخلی مسائل کے حل کے لیے طویل المدت حکمت عملی اپنانے سے قاصر رہے گی۔ ناکامی چھپانے اور کم سے کم عوامی اعتماد بحال رکھنے کے لیے اسے فلسطینیوں اور دیگر ہمسایوں کے ساتھ جنگ کی صورتحال بنائے رکھنا ہوگی بالکل ویسے ہی جیسے انتخابات سے قبل بلکہ اپنے تمام دور اقتدار میں موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے اپنی کم ہوتی مقبولیت کو سہارا دینے کے لیے کبھی شام پر فضائی حملے کئے تو کبھی لبنان میں مداخلت کی تو کبھی عراقی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔


تحریر۔۔۔ڈاکٹر سید ابن حسن

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree