وحدت نیوز(آرٹیکل )قیام پاکستان سے آج تک استحکام پاکستان کی خاطر حکمران طبقہ نے مختلف ممالک کہ شہ پر کافی فیصلہ جات ایسے کئے ہیں، جو بعد میں پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے لئے خطرہ بن گئے۔ جس کی کئی مثالیں پچھلی کئی دہائیوں سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن ان سب کا اصل شکار عوام ہی بنتے آئے ہیں، کیونکہ پاکستانی قوم کے اندر لاشعوری اور تعصب بدرجہ کمال موجود ہے۔ جس کی سب سے بدترین مثال جہاد افغانستان تھا۔ پاکستان نے امریکہ و سعودیہ کی شہ پر روس کے خلاف جہاد افغانستان کے نام پر ٹاسک فورس بنائی گئی۔ وہ فیصلہ غلط تھا یا صحیح تھا، یہ الگ بحث ہے، لیکن اس سب میں ایک غلطی جو حکمرانوں نے انجام دی، وہ یہ کہ جہاد افغانستان کے نام پر بننے والی جهادی فورس میں ایک خاص فرقہ کو پروان چڑھایا گیا، وہابیت کو ٹاسک فورس میں بھرتی کیا گیا اور پاکستان میں موجود باقی تمام مذاہب و ادیان کو فراموش کیا گیا۔
دنیا کے مخلتف ممالک میں جب بھی کوئی بیرونی خطرہ یا جنگ ہوتی ہے تو عوام الناس پر مشتمل رضاکار فورسز بنائی جاتی ہیں، جن کے ذمہ وہ تمام کام ہوتے ہیں، جو آرمی انجام نہیں دے سکتی۔ لیکن ہمیشہ اس رضاکار فورس کو قومی مفادات اور قومی سوچ کے ساتهـ بنایا جاتا ہے، اس ملک کے تمام طبقات کو شامل کیا جاتا ہے اور ان سب کا ہدف ملکی سلامتی ہوتا ہے۔ ان کی تربیت ہمیشہ اس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان تمام افراد کو نسلی، لسانی اور مذہبی تعصب سے بالاتر رہیں اور صرف اور صرف ملکی مفادات و سلامتی اور خود مختاری کو عزیز تر بنایا جایے۔
اس وقت عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ کیلئے رضاکار فورس ترتیب دی گئی ہے، جس میں عوام الناس کے تمام طبقات کو شامل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ عراق میں حشد الشعبی نامی رضا کار فورس کہ جس میں اہل تشیع، اہلسنت اور تمام ادیان کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، جن کا ہدف صرف اور صرف ملکی سلامتی ہے۔ اسی طرح شام میں لجان الشعبیه نامی رضا کار فورس کہ جس میں اہل تشیع، اہلسنت اور تمام ادیان کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے اور یہ فورسز اسٹریٹجک ایسٹس ہوتے ہیں اور وقت آنے پر ہمیشہ ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، تاکہ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹا جا سکے۔ داعش کے خلاف جتنی کامیابیاں بھی ہو رہی ہیں، ان کی اصل وجہ عوامی رضا کار فورسز ہیں۔ عوامی طبقے بغیر کسی نسلی و مذہبی تعصب کے صرف اور صرف دشمن کے خلاف جنگ کا حصہ بنتے ہیں۔
پاکستان میں بھی اسی طرح کی ہی رضا کار فورس ترتیب دی گئی، جس کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں موجود روس جیسی سپر پاور کو نکالا جاسکے، کیونکہ افغانستان کے بعد روس کی اگلی نظر پاکستان پر تھی اور روس اس خطے میں مستقل بنیادیں بنانا چاہتا تھا، جس کے لئے پاکستان سے رضا کار فورسز بنا کر افغانستان بھیجی گئی تھیں، تاکہ وہاں جا کے روسی افواج کے ساتھ جنگ کریں اور اس وقت کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ بالآخر روس اپنا تمام تر اسلحہ چھوڑ کر افغانستان سے فرار ہوگیا۔ لیکن تاریخ کی سب سے بڑی غلطی اس وقت یہ کی گئی کہ جہاد افغانستان کے نام پر بننے والی رضاکار فورس میں صرف اور صرف وہابیت مائنڈ سیٹ کے لوگوں کو شامل کیا گیا۔ جس کا خمیازه پورا ملک بهگت رہا ہے اور جس کی بنیادی وجہ سعودی عرب کے مفادات تھے. سعودیہ ایشیا میں اپنے نظریات کے حامل افراد میں اضافہ چاہتا تھا، جس کے لئے وہابیت کو پروموٹ کیا گیا۔
جبکہ پاکستان کے اکثریت بریلوی فرقہ اور اہل تشیع کو فراموش کر دیا گیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ جہاد افغانستان کے بعد فارغ ہونے والی یہ تمام فورسز پاکستان میں واپس آکر بے گناہ افراد کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کرنے لگے اور پاکستان میں مذہب کے نام پر قتل عام کیا گیا اور خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ آج پاکستان کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ وہی اسٹریٹجک ایسٹس ہیں، جن کو ہم نے خود پروان چڑھایا تھا۔ لہذا آج بھی وقت ہے کہ ہمیں اپنے فیصلہ جات پر نظرثانی کرنی چاہیے اور ان تمام لوگوں کو جو کہ ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ پاکستان کے لئے خطرہ ہیں۔ ان کو عوام الناس اور خاص طور پر اہلسنت برادران سے الگ کھڑا کیا جائے، کیونکہ وہ پاکستان کے لئے خطرہ ہیں اور وہ کبھی بھی پاکستان کے وسیع تر مفادات کے لئے کام نہیں کریں گے۔ آج پاکستانی عوام اور حکمرانوں کو ان افراد سے تمام قسم کے تعلقات کو ختم کرنا ہوگا اور خاص مائنڈ سیٹ کے لوگوں کو حقیقی حجم پر لانا ہوگا۔
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی