وحدت نیوز (آرٹیکل) ذمہ دار لوگوں کے گرد سارا معاشرہ گھومتا ہے، جولوگ اپنی ذمہ داری کا صحیح تعین کرتے ہیں اور پھر اسے ٹھیک طریقے سے ادا کرنے کا عزم کرتے ہیں وہی معاشرے میں کوئی سنجیدہ کردار ادا کر پاتے ہیں۔ ایک مورخ نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ گورنمنٹ ہاوس کراچی پہنچ کر قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اپنے ہمراہ سے کہا تھا کہ شاید تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ مجھے کبھی یہ امید نہ تھی کہ پاکستان میری زندگی میں قائم ہوجائے گا۔ہم نے جو کچھ حاصل کر لیا ہے ہمیں اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔[1]
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے اپنی ذمہ داری ادا کی تھی اور نتیجہ انہیں ان کی امید سے بڑھ کر ملا۔ مارچ کے مہینے میں یہ جملہ ہمیں بھی کثرت سے سننے کو ملتا ہے کہ ذمہ داری کوئی چیز نہیں بلکہ احساس ذمہ داری بڑی چیز ہے۔
یہ جملہ واقعتا آب زر سے لکھنے کے قابل ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ملت اس جملے کابار بار تکرار کرتی ہے وہی احساس ذمہ داری کے بجائے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔غیر ذمہ داری فقط ذمہ داری سے بھاگ جانے کا نام نہیں ہے بلکہ جس کام کی صلاحیت نہ ہو اس کی ذمہ داری اٹھا لینا بھی ایک طرح کی غیر ذمہ داری ہے اور اسی طرح کسی ذمہ داری کو قبول کرکے پھر ٹال مٹول سے کام لینا یہ بھی غیر ذمہ داری ہی ہے۔
ٹال مٹول سے یاد آیا کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کراچی پہنچنے کے بعد جب پہلے دن روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے عملے کے ایک آدمی سے کہا کہ فوری طور پر میرے کمرے میں ایک ریڈیو سیٹ لگوادیا جائے تاکہ میں آج کی خبریں سن سکوں۔
ملازم نے کہا جناب عالی ! آپ بہت سفر کر کے آئے ہیں اور بہت تھک چکے ہیں اس وقت آرام کریں کل ریڈیو سیٹ بھی لگوا دیں گے۔۔۔
یہ سننا تھا کہ محمد علی جناح ؒ نے صاف الفاظ میں کہا دیکھو میاں میرے ساتھ یہ ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔
آج ہمارے سارے کے سارے ملی کام ٹال مٹول کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں، دہشت گردی کے خاتمے سے لے کر ملکی تعمیروترقی تک ہر طرف ٹال مٹول سے کام لیا جارہاہے، وہ دفاتر سے رشوت کے خاتمے کا مسئلہ ہو، نادرا سے شناختی کارڈ اورپاسپورٹ بنوانے کی بات ہو، ایران سے گیس خریدنے کا منصوبہ ہو، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی خبر ہو ہر طرف ذمہ داریوں سے فرار نظر آتا ہے۔
اس سال بھی سات مارچ کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی برسی بنائی گئی۔ان کے افکارو نظریات کو دہریا گیا اور بار بار یہ نعرے لگائے گئے کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔
ڈاکٹر کے بارے میں منعقد ہونے والے پروگراموں میں ہونے والی گفتگوسے مجھے یہی پتہ چلا کہ ڈاکٹر کا سب سے بڑا نعرہ احساسِ ذمہ داری تھا۔آج اگرچہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے لیکن ہمارے قومی اداروں میں غیر ذمہ داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،پہلے لوگ سیاستدانوں سے مایوس ہوتے تھے تو دینی اداروں سے اصلاح احوال کی امید رکھتے تھے اب ہمارے مذہبی مدارس اور دینی ٹرسٹ ایک طرف سے تو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں اور دوسری طرف تیزی سے موروثی جائیدادوں میں بدل رہےہیں، جو بھی ملت و دین کے نام پر کوئی ادارہ قائم کرتا ہے وہی اس کا تاحیات مالک بن جاتا ہے اور پھر اس ادارے کی پراپرٹی اور بینک بیلنس اس کے بعد اس کی نسلوں کو منتقل ہوجاتا ہے، سیاستدان الیکشن کے موقع پر چند اچھے اچھے نعرے لگانے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں، بین الاقوامی برادری جیسے چاہتی ہے ہمارے سیاستدانوں اور دینی مدارس سے استفادہ کرتی ہے اور پھر بھی ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔
اگر ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہوتا اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیتے تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ مٹھی بھر کرپٹ سیاستدان ہمیں اپنا غلام بنا لیتے اور چند نام نہاد مذہبی کاسہ لیس دینی مدارس اور اداروں کی قسمت سے کھیلتے۔
آج ضرورت ہے کہ ملت کے ہرفرد کو عملی طور پر احساس زمہ داری دلایا جائے، ہمیں اپنے وطن کے ایک ذرے سے لے کر بلند و بالا کہساروں اور سیاست و اقتصاد سے لے کر مسجد و محراب تک ہر سمت اپنی زمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ذمہ داری بڑی ہو بلکہ ضروری ہے کہ ذمہ داری کی نسبت احساس بڑا ہو۔
یہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ ایک دن انہوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کے معائنے کے دوران لائبریری میں کچھ الماریاں خالی دیکھیں، پوچھنے پر پتہ چلا کہ سندھ کے گورنر صاحب کوٹھی خالی کرتے وقت یہ کتابیں بھی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں، یہ سنتے ہی قائداعظم نے فورا وہ کتابیں واپس منگوا کر کتاب خانے میں رکھوائیں۔
ایک طرف قائداعظم جیسا حساس شخص ہے جو کسی قومی ادارے سے چند کتابیں اٹھنے پر بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور دوسری طرف ہمارے جیسے لوگ ہیں جن کے سامنے قومی اداروں کو لوٹ کر کھایا جاتاہے اور ملت اور دین کانام فقط تجوریاں بھرنے کے لئے لیا جاتا ہے لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
ہاں اگر ہم اپنے دینی و قومی معاملات میں حساس ہو جائیں اور ملک ودین کی خاطر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں تو پھر بلا شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔
لیکن جب تک ہم ذمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے، ایک دوسرےپر ڈالتے رہیں گے، ٹال مٹول کرتے رہیں گے اور اپنے سامنے ملک و قوم کے ساتھ ہونے والی خیانتوں پر خاموش رہیں گے یعنی جب تک ہم ذمہ داریوں سے فرار کرتے رہیں گے تب تک کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں۔
مورخ تاریخ لکھ رہا ہے اور اگر تاریخ اسی طرح لکھی گئی جیسے کہ لکھی جارہی ہے تو پھر ہماری آئندہ نسلیں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی مناتے ہوئے یہ افسوس بھی کیا کریں گی کہ کاش شہید نقوی کے بعد ہمارے اباواجداد اپنی ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.