وحدت نیوز(آرٹیکل) میرا ملک، میرا وطن، میری پہچان ، اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ہمارا نعرہ ایمان، اتحاد اورتنظیم ہے۔ اس کی آبادی تقریبا بیس کروڑ ہے، مکمل آبادی کا اندازہ مردم شماری کی روپورٹ کے بعد ہی ہوگا ۔ یہ دنیا کی آبادی کے لحاظ سے چھٹا ملک ہے، یہاں بسنے والے 96.4 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔دنیا کی بہترین اور طاقت ور ترین فوج اور انٹیلی جنس میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کے نام کسی تعاروف کے محتاج نہیں ، بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ حال ہی میں ایک بھارتی اخبار میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس ادارہ آئی ایس آئی اس وقت دنیا کے پانچ طاقتور ترین انٹیلی جنس اداروں میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان پہلا اسلامی ایٹمی ملک بھی ہے ۔یہاں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر قومی زبان اردو ہے۔ محنت ذہانت میں پاکستانی نوجوان کسی سے کم ، شاید ہی کوئی ایسی فیلڈ ہو جس میں ہمارے نوجوانان قابل تحسین پوزیشن پر فائز نہ ہوں، یہاں اگر عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان جیسے دیگر لوگوں کی لسٹ بنالی جائے تو اس آرٹیکل کو کئی حصوں میں لکھنا پڑے گا ۔ اگرجذبہ، ایثار و وفاداری کو دیکھا جائے تونشان حیدر پانے والے اور اس دھرتی کے لئے خون بہانے والوں کی کمی بھی نہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، علما، سوشل ورکر، عام شہری غرض ہر مکتب فکر اور طبقے کے لوگ یہاں ملیں گے، جن کی محنت و خون پسینے سے یہ ملک قائم ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی فرقہ واریت و لثانیت پسندی ہوجب پاکستان کی سالمیت کی بات آئے توپوری قوم ایک جان ہو کر اس پرچم کے سایہ تلے جمع ہو جاتی ہے اور دشمن پھر کبھی منہ کھولنے کی جرات نہیں کرتا۔ہمارے بدمعاش لڑکے بھی بس میں سفر کرتے ہوئے کسی بزرگ کو کھڑا دیکھتے ہیں تو فورا اٹھ کر اسے جگہ د یتے ہیں۔ اسی طرح خواتین سے ہمدردی بھی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوی ہے، کسی خاتون کو کوئی مشکل پیش آجائے تو ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اس کی مشکل کو حل کرے۔ہم جتنے رحم دل ہے اتنے ہی جذباتی بھی ہیں۔ دنیا کے جس کونے میں بھی کہی مسلمانوں کے ساتھ کوئی ظلم ہوتاہے تو یہاں کے باسیوں کے لئے یہ ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان، بلا اور شیر کے نعرے بھول کر مظلموں کی حمایت میں آواز بلند کرتے ہیں،پھر اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ ہمارے مشکل وقت میں کوئی ہمارا ساتھ دے گا یا نہیں ۔
لیکن لوگ سوال کرتے ہیں اگر پاکستانی اتنے اچھے ہیں تو پھر وہاں لوٹ مار، فرقہ واریت، دہشت گردی کیوں ہے؟ ساری دنیا میں پاکستانی کیوں بد نام ہیں؟ تو مجبورا ہمیں پلٹ کر اپنے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے کہ ان کی عیاشیوں اور مفادات کی وجہ سے ہم آج اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ دوست، دشمن، ْ طالم مظلوم کی کوئی تمیز نہیں کرپاتے۔ہم طاقتور ہونے کے باوجود اس قدر کمزور ہوئے ہیں کہ ہر کوئی ہمیں دھمکی دے کر چلا جاتا ہے جس کا جب دل چاہتا ہے کسی بھی جگہ ہم پر حملے کر دیتا ہے۔ان سب سے زیادہ خطرناک ہمارے اندورونی دشمن ہیں۔ بنگالی اردو زبان کی جنگ سے لے کر پارٹیشن بنگال ، پھر جنرل ضیاالحق کے دورسے افغان جنگ، مجاہدین کے نام پر دہشت گردوں کی پروریش سے لیکر القاعدہ طالبان ، پھر پاکستانی، افغانی سے پنجابی طالبان تک، سانحہ آرمی پبلک اسکول سے گوڈ اینڈ بیڈ طالبان اور آپریشن ضرب عضب ، نیشنل ایکشن پلان سے آپریشن ردلفساد تک اگر ہم دیکھیں تو ہم صرف دو چیزوں کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں، ایک ذاتی مفادات، اقتدار کا حصول اور کرسی بچاؤ، دوسر ا امریکہ کی دوستی اور آل سعودسے یاری۔
یہی ہمارے صاحب اقتدار اور اسٹبلیشمنٹ کی کمزوری ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا یہ حال ہوا ہے کہ ہمارے ابدی دوست آج دشمن نظر آرہے ہیں۔آج دشمنوں کے شر سے پاکستان کا کوئی بھی ادارہ محفوظ نہیں بلکے ہمارے ہمسائیہ ممالک بھی اذیت کے شکار ہیں اور ان دہشت گردوں کی وجہ سے پہلی بار ہم دنیا میں اس قدرزلیل ہوئے ہیں۔دنیا کی تمام دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کا لنک کہیں نہ کہیں سے ہمارے ملک میں ملتا ہے۔ چاہے وہ طالبان، القاعدہ ہوں، داعش، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جیش العدل یا جند اللہ۔۔۔ پھر پچھلے 37 سال سے ہم ان خاص آیڈیالوجی کے حامل دہشت گردوں کو پال بھی رہے ہیں ۔ یہ لوگ کھولے عام تبلیغات کے نام پر ملک کے کونے کونے میں پھیل جاتے ہیں اور ہر جگہ اپنے اثرورسوخ بڑھالیتے ہیں، جس کے بدلے میں ہماری سیکورٹی اور حکومتی ذمہ دار اداروں کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس صفر ہے بلکہ صفر تو نہیں ہوگا پٹرو ڈالر کے پولیٹکس کا اثر زیادہ دیکھائی دیتا ہے۔ اب جہاں سالوں سے دہشت گردوں کو ہیرو بنایا ہو ، کرپشن اور سفارش کے بل بوتے پر سارے کام ہوتے ہوں تو ظاہر سی بات ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑ لیتا ہے۔ جب اوپر والا ہی ٹھیک نہیں ہو تو پھر اُس کے انڈر میں کام کرنے والوں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف جن سے ہماری امیدیں وابسطہ ہیں اور جن کو دیکھ کر ہم فخر کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ہیرو ہیں وہ لوگ بھی ریٹارمنٹ کے بعد اعلی عہدوں پر براجمان ہونے کی خواہش دل کے کونے میں دبائے" اوکے سر" کے نعرے لگا تے ہوے صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ جسے دیکھ کر ملک کے کروڑوں محب وطنوں اور لاکھوں مظلوموں کی امیدیں دم توڑتی نظر آتی ہیں اور یہ لوگ تمام تر حقائق سے نظریں چرا کرملکی و عوامی مفادات کو سات لحافوں میں منظم طریقے سے تہہ کرکے الماری میں بند کر دے دیتے ہیں اور بعض اوقات یہ محفوظ فیصلے میں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس وقت ملک کے اندورونی و بیرونی مسائل اور عالمی بدلتے حالات میں ہماری مثال کچھ اس طرح ہے کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہاکہ کون ہمارا دوست ہے کون ہمارا دشمن، کون ہمارے ساتھ مخلص ہے اور کون غدار۔
مثال کچھ عجیب سی ہے؛ ایک شخص کسی دن ضروری کام سے اپنی گاڑی میں کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس کی گاڑی خراب ہو گئی اور مشکل سے کوئی میکینک مل گیا(نوٹ: اُس شخص کا نام "کافی" اور میکینک کا نام "نعمت" تھا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کے نام سے ناواقف تھے) میکینک گاڑی کے نیچے لیٹ کر گاڑی کا معائینہ کر رہا تھا، اتنے میں وہ شخص کہتا ہے کہ اس وقت اگر دو گدھے ہوتے تو کتنی" نعمت "ہوتی اورمیں جلدی اپنی منزل پر پہنچ جاتا، مکینک نے جب یہ سنا توغصے میں نکلا اور کہنے لگا نہیں جناب اگر ایک گدھا بھی ہوتا تو "کافی" ہوتا۔ یہ سن کر اُس شخص کا بھی چہرہ بگڑ گیا مگر دونوں کو ایک دوسرے کے غصے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ اس وقت ہمارے ملک کو بچانے کے لئے بھی دو "نعمت " اور ایک "کافی "کی ضرورت ہے جو مشکلات کا حل نکالے اور خراب پرُزوں کو نکال کر ایک دم نیو جاپانی پرُزے لگا دیں۔ تاکہ ہمارے ملک کی گاڑی صحیح راستے پر گامزن ہو سکے ۔
تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن