وحدت نیوز(آرٹیکل) ڈان لیکس کے مطابق ، پیر کے دن ۳، اکتوبر۲۰۱۶ کو وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں کابینہ اور صوبائی حکام نیز ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر پر مشتمل، وزیر اعظم ہاوس اسلام آباد میں ایک خفیہ اجلاس ہوا، اجلاس میں سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے وزیر اعظم ہاؤس میں سول و عسکری حکام کو خصوصی پریزینٹیشن دی اور حالیہ سفارتی کوششوں کے نتائج کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے اور حکومت پاکستان کے موقف کو بڑی طاقتوں نے مسترد کر دیا ہے۔
اس موقع پر سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوئے ہیں اور مزید خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
اسی طرح انہوں نے شرکا کو بتایا کہ بھارت کی طرف سے پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات اور جیش محمد کے خلاف موثر کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
چین کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چینی حکام نے جیش محمد کے رہنما مسعود اظہر کے سلسلے میں تعاون کرنے سے انکار تو نہیں کیا لیکن دیگر پاکستان کے ساتھ تعاون میں اپنی ترجیحات میں تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے۔
اس کے بعد حاضرین کے درمیان تفصیلی بحث ہوئی جس کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے مطالبے کے مطابق جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید ،لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اس پر ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔
ڈی جی آئی ایس آئی کی بات مکمل ہوتے ہی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔
موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔
اس موقع پر آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباؤ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔
اس اجلاس میں دو اہم فیصلے کئے گئے :
ایک تو یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو یہ پیغام دیں گے کہ فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کے دورہ لاہور سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔
دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کیے جائیں۔[1]
چھ اکتوبر کو۲۰۱۶ انگریزی اخبار ڈان میں صحافی سرل المیڈا کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے مذکورہ اجلاس سےمتعلق دعوی کیا گیا کہ اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے معاملے پر عسکری اور سیاسی قیادت میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور سیاسی قیادت نے عسکری قیادت سے کہا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے ورنہ عالمی تنہائی پاکستان کا مقدر ہو گی۔[2]
اس خبر کو کسی نے ’’ڈان لیکس‘‘ کا نام دیا تو کسی نے میمو گیٹ سے مماثلت کی بناء پر ’’نیوز گیٹ‘‘ کا نام دیا۔
10 اکتوبر کو خبر دینے والے صحافی سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا، 14 اکتوبر کو سی پی این ای اور اے پی این ایس کے وفد نے وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کی توسرل کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا، 29 اکتوبر کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا، حکومت نے قومی سلامتی کے منافی خبر کی اشاعت کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا خان کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی جو خبر کی اشاعت کے ذمہ داروں کا تعین کرے، کمیٹی نے پانچ ماہ کے بعد قومی سلامتی سے متعلق خبر کی اشاعت کے ذمہ داروں کا تعین کر کے اپنی سفارشات 26 اپریل کو وزارت داخلہ کو بھیجو ادیں، وزیراعظم نے کمیٹی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق اپنے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے ہٹا دیا جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو اکتوبر میں ہی فارغ کردیا گیا تھا ۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہو نیوالے اعلامیے پر وزیراعظم کےپرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد کے دستخط ہیں، جس میں وزیراعظم نے انفارمیشن افسر راؤ تحسین کی خلاف کارروائی کی بھی سفارش کی ہے اور پرنسپل سیکرٹری برائے اطلاعات راؤ تحسین کے خلاف کا رروائی انیس سو تہترکے قوانین کے تحت ہوگی جب کہ روزنامہ ڈان ظفرعباس اور خبر شائع کرنے والے سرل المیڈا کا معاملہ اے پی این ایس کے سپرد کر دیا۔[3]
اس کے بعد یوں ہوا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ وزیراعظم کا عملدر آمد سے متعلق اعلامیہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارشات سے ہم آہنگ نہیں ہے اور نہ ہی اس رپورٹ کی سفارشات پر من و عن عمل درآمد کیا گیا ہے اس لیے پاک فوج اس اعلامیہ کو مسترد کرتی ہے۔
دس مئی 2017 کو وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے ایک نیا اعلامیہ جاری کیا گیا اور عسکری قیادت کی خواہش کے مطابق بظاہر نامکمل نوٹیفکیشن کو از سرنو ترتیب دیا گیا اور عسکری قیادت نے بھی نئے اعلامیے کے بعد اپنی سابقہ ٹوئٹ واپس لے لی ۔[4]
اس طرح 6 اکتوبر 2016 کو شروع ہونے والا یہ سلسلہ 10 مئی 2017 کو اپنے اختتام کو پہنچا، اگرچہ ڈان لیکس کا طوفان بظاہر تھم گیاہے لیکن اپنے پیچھے پانچ اہم نکات چھوڑ گیا ہے، قطع نظر اس کے کہ ڈان لیکس میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ، اس سے ہٹ کر ڈان لیکس کے بعد ہمیں ان پانچ نکات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اعلی سطح پر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جواس قابل نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ ملک کے حساس معاملات شئیر کئے جائیں اور ایسے لوگ یقینا قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔اس طرح کے حالات میں قومی سلامتی سے متعلق اداروں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جیساکہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ڈان لیکس چاہے سچ ہے یا جھوٹ ، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں البتہ ملکی سلامتی کے حوالے سے ہمارے پاس مستقل داخلہ و خارجہ لائحہ عمل ہونا چاہیے۔ خصوصا دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے خارجہ تعلقات وقتی حالات اور موجودہ حکمرانوں کی منشا کے بجائے ، مستقل پالیسی کے تحت آگے بڑھنے چاہیے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہم شروع سے ہی بڑی طاقتوں کے دباو کے مطابق اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے چلے آرہے ہیں جس کی وجہ سے بڑی طاقتیں اپنے مفادات پورے کرنے کے بعد ہمیں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتی ہیں لہذا ہماری مستقل قومی پالیسیوں پر بڑی طاقتوں کا دباو نہیں پڑنا چاہیے۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر ہمارے معاون عسکری گروہوں کی از سرِ نو نظریاتی تربیت کی جانی چاہیے اور انہیں شدت پسندی اور فرقہ واریت کی لعنت سے باہر نکالا جانا چاہیے۔ پاکستان سے محبت ، نظریہ پاکستان کی آفاقیت ، اسلامی بھائی چارے اور قانون کے احترام جیسے خطوط پران کی تربیت کی جانی چاہیے۔یہ عمل ان ا داروں کی مضبوطی اور پاکستان کی سلامتی کا باعث بنے گا۔
پانچواں نکتہ یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے باسیوں کی سالمیت اور قانون کے احترام سے کسی کو بھی بالاتر نہ سمجھا جائے ۔ جوتنظیمیں اور افراد ، پاکستانی عوام کی جانوں سے کھیلتے ہیں، بانی پاکستان کو کافر اعظم کہتے ہیں، پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں ، پاکستان کی فوج اور پولیس کے خون کے پیاسے ہیں اورملک کے قانون کو غیر اسلامی کہتے ہیں ، ان کے خلاف ہر قیمت پر قانونی کارروائی اور آپریشنز ہونے چاہیے۔ اسی میں وطن عزیز پاکستان، پاکستانی عوام، سیاستدانوں اور فوج و پولیس کی بھلائی ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.