وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ ہماری ملکی تاریخ ہے ۔ ہمیں اپنی تارخ سے درس لینا چاہیے۔ چند سال پہلے جب ملکی حالات بہت خراب تھے، جہاد افغانستان کے نام پر پاکستان میں ٹریننگ کیمپ اور ایک مخصوص فرقے کے مدرسے دھڑا دھڑ تعمیر ہو رہے تھے۔ *بریلوی حضرات* کوسعودی اور امریکی پالیسی کے تحت اکثریت میں ہونے کے باوجود کمزور کیا جارہا تھا۔
دوسری طرف گلگت اور پارہ چنار کے شیعوں کے ایران سے اس زمانے میں بھی مذہبی تعلقات تھے۔ ملک میں ضیاالحق کی حکومت تھی، موصوف ہمارے موجودہ حکمرانوں کی طرح سعودی عرب اور امریکہ کی مدد سے امیرالمومنین بننا چاہتے تھے۔
ایک طرف امریکہ و سعودی عرب کی پالیسیاں تھیں اور دوسری طرف حکومت کے خلاف بریلوی اور شیعہ حضرات کے مظاہروں کا لامتناہی سلسلہ۔
اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے ضیاالحق نے بھی ،موجودہ حکومت کی طرح تکفیریوں، دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کی بھرپور سرپرستی کی۔
سال ۱۹۸۲ و ۱۹۸۳ اور ۱۹۸۷ و ۱۹۸۸ میں گلگت و بلتستان اور خیبر پختونخواہ کی شیعہ آبادیوں پر ضیاالحق کے جہادیوں نے خوفناک لشکر کشی کی۔
عینی شاہدین کے مطابق سانحہ بنگلہ دیش کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی سرپرستی میں نہتے لوگوں کو اتنے بڑے پیمانے پر بدترین طریقے سے اجتماعی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
نفرت کا یہ الاو دہکتا ہی رہا اور۵ اگست ۱۹۸۸ کو پاکستان کے شیعوں کے قائد علامہ عارف حسینی ؒ کو پشاور میں ایک ٹارگٹ کلر نے شہید کردیا۔ اس قتل کا الزام بھی ضیاالحق کے کھاتے میں پڑا۔
المختصر یہ کہ پاکستان کے شیعہ اول و آخر ضیاالحق کے مخالف تھے ، ضیاالحق کے دور میں ہی ضیاالحق کے خلاف شدید نعرے بازی ہوتی تھی، موصوف کے پتلے جلائے جاتے تھے اور موصوف کو برملا زمانے کا یزید کہا جاتا تھا۔
لیکن اس کے باوجود پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے کبھی بھی عوام میں یہ تاثر نہیں پھیلنے دیا کہ ضیاالحق کے مخالفین سرزمینِ پاکستان یا پاکستان آرمی کے مخالفین ہیں۔ تاریخ پاکستان شاہد ہے کہ ہمیشہ پاکستان کی عوام اور فوج کے دل ایک ساتھ دھڑکتے رہے۔
آج مجھے تعجب ہوتا ہے کہ جب پارہ چنار کے لوگ اپنے عزیزوں کے قتل کے جرم میں ایک کرنل کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں، ملک کا دشمن، غدار اور پاکستان آرمی کا دشمن کہا جاتا ہے،یہ سوچ انتہائی غلط اور خطرناک ہے۔
جو غلطی ضیاالحق جیسے ڈکٹیٹر نے نہیں کی وہ آج کی جمہوری حکومت کر رہی ہے۔ اگر بلوچ اپنے مسنگ پرسنز کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں ملک اور فوج کا دشمن کہہ دیا جاتا ہے، اگر پختون اپنے پیاروں کے قاتل کو سزا دینے کی بات کرتے ہیں تو انہیں غدار کہہ دیا جاتا ہے۔اگر جمشید دستی جیسا ایم این اے سچ بول دے تو اسے ٹارچر کیا جاتا ہے اور سانپوں اور بچھووں سے ڈسوایا جاتاہے۔
جنہوں نے پاکستان بنایا تھا ، ان کے نزدیک پاکستان امریکہ و سعودی عرب کی چھاونی بنانے یا عوام کے لئے ٹارچر سیل کے طور پر نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ان کے نزدیک سندھی اس ملک میں تصوف اور پیارو محبت کے سفیر ہیں، پنجابی پانچ دریاوں کے امین ہیں، بلوچ اس ملت کی فکر اور سوچ ہیں ، پٹھان اس ملک کی غیرت اور اٹھان ہیں، سیاستدان اس کی اڑان اور اس کے صحافی اور دانشمند اس کی پہچان ہیں اور پاک فوج کسی جنرل یا کرنل کی لونڈی نہیں بلکہ ایک مستقل ادارہ اور اس قوم کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی پاسبان ہے۔
سارے عوام محترم ہیں اور سارے ادارے قابل احترام ہیں، عوام اور اداروں کے درمیان بدگمانیاں زوال کا باعث تو بنتی ہیں لیکن عزت و سربلندی کا سبب نہیں۔
یہ ہماری تاریخ ہے اور قومی سلامتی کے اداروں کو چاییےکہ وہ اپنی تاریخ کی روشنی میں پاک فوج کے تقدس کو ایک کرنل کے غلط فیصلوں پر قربان نہ ہونے دیں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.