وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی نے ایک بین الاقوامی خبررساںادارے کو انٹریو دیتے ہوئے کہاکہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک بڑی فتح ہے، نیب کی بھی کامیابی ہے جو کرپشن ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے، نیب نے اس بار پرانی غلطیاں نہیں دہرائیں۔ نواز شریف کا اصل چہرہ بےنقاب ہوگیا ہے۔ آئندہ فیوچر میں کوئی ریلف ملتا نظر نہیں آرہا۔ بصورت یہ کہ نیب کے ساتھ یہ پلی بارگین کریں، وہ اس طرح کہ اگر قانون میں کوئی گنجائش موجود ہے تو،دہائیوں سے دونوں جماعتیں اس ملک پر مسلط ہیں، عملی طور پر باری سسٹم چل رہا تھا، فرینڈلی اپوزیشن کا بھی تاثر تھا، عملاً دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی کرپشن پر پردہ ڈالے رکھا ہے، کرپشن کو قانونی بنانے کی کوشش کی ہے، تمام تر دعوے ٹوپی ڈرامہ تھے، لوگ ان سے تنگ تھے، یہی وجہ تھی کہ عمران خان کی تبدیلی کا نعرہ مقبول ہوا، ایک عام آدمی نے اسے سپورٹ کیا، عمران خان نے آزاد خارجہ پالیسی کی بات کی، کڑے احتساب کی بات کی، اداروں کو مضبوط کرنے کی بات کی، اس وجہ سے لوگوں نے ان پر اعتبار کیا۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ پاکستان میں کوئی انقلاب نہیں آیا، بلکہ ایک اتحادی حکومت وجود میں آئی ہے اور اس حکومت نے اپنے نعروں کی بنیاد پر کام شروع کیا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد دیکھا یہ گیا کہ ہے کہ عمران خان نے احتساب کے معاملے پر کوئی لچک نہیں دکھائی، یہ ایک انہونی سی بات ہے، کیونکہ روایت یہی رہی ہے کہ حکومت سے پہلے نعرے کچھ اور ہوتے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد کچھ اور ہوتا۔ لیکن عمران خان نے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کرا دیا ہے اور اپنے اس نعرے میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔
انہوں نے مزید کہاکہ جن کے بارے میں تاثر تھا کہ اُن پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، ان پر بھی ہاتھ ڈالا گیا ہے، تمام بااثر افراد کو جواب دہ بنا دیا گیا ہے، نواز شریف اور ان کی پارٹی کے کئی افراد نااہل قرار دیئے جاچکے ہیں، اب دوسری طرف بھی پیپلزپارٹی کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ سے لگتا ہے کہ احتسابی عمل اب سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اب زرداری اور ان کی فیملی کے لیے مشکلات زیادہ ہیں، اب سوئٹزرلینڈ سے پیسے کا مطالبہ کیا جانے کا امکان ہے۔ اب دنیا دیکھ رہی ہے کہ میگاکرپشن کرنے والوں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا سیاسی منظر نامہ تاریک ہے، پیپلزپارٹی کی عوامی مقبولیت رہی گی، التبہ ٹاپ لیڈر شپ کو سنجیدہ نتائج بھگتنا پڑیں گے، جن میں آصف علی زرداری، فریال تالپور اور ان کی ٹیم شامل ہے اور انہیں کرپشن پر سزائیں ہوں گی، نون لیگ کے اٹھارہ ضلعی ناظم پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں، اس پارٹی میں توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے، اس سے لگ رہا ہے کہ نون لیگ کا مستقبل تاریک ہے، ویسے بھی اسے اقتدار کی جماعت کہا جاتا ہے۔
انہوںنے مزید کہاکہ دونوں جماعتیں اس لیے سیاسی کیسز کہہ رہی ہیں کیونکہ انہوں نے یہ کھیل کھیلا ہے، اقتدار میں دونوں جماعتوں نے بظاہر ایک دوسرے کے احستاب کا نام لیا، لیکن عملاً ایک دوسرے کو سپیس دی ہے۔ یہ ماضی کی طرح معاملات کو گڈمڈ کرنا چاہتی ہیں، کیونکہ ماضی میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی کیسز بنائے، اب یہ اسی تناظر میں ان معاملات کو سیاسی بنانا چاہتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان چیزوں میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے، چیزیں ثبوت کے ساتھ سامنے آرہی ہیں، سسٹم بھی انہی کا بنایا ہوا ہے، چیئرمین نیب بھی انہی کا لگایا ہوا ہے اور کیسز بھی پہلے کے چل رہے ہیں، تو پھر یہ کس بنیاد پر ان کیسز کو سیاسی قرار دے سکتے ہیں۔ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں، کئی کمیشنز کو ہیڈ کرچکے ہیں، جاوید اقبال ایک باصلاحیت آدمی ہیں، انہوں نے نیب کو ایک ادارے کے طور پر بنانا شروع کر دیا ہے۔ایک بات جو فی الحال واضح نہیں ہے، وہ یہ اکراس دی بورڈ احتساب نظر نہیں آرہا، اس کو واضح ہونا چاہیئے، اگر حکومت اور اتحادیوں پر الزامات ہیں تو ان پر بھی کارروائی ہونی چاہیئے، یہ بات بھی واضح ہے کہ جہانگیر ترین انہی عدالتوں سے نااہل ہوچکے ہیں، علیم خان کے خلاف کیسز چل رہے ہیں، اعلیٰ عدلیہ نے پی ٹی آئی کے ایم این ایز پر ہاتھ ڈالا ہے، اعظم سواتی کی برطرفی ہوئی ہے، بابر اعوان نے خود استعفیٰ دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے اچھی رویت ڈالی ہے کہ اگر الزام لگا ہے تو وزراء نے مستعفی ہونے کو ترجیح دی ہے، جو اچھی چیز ہے۔
مشرق وسطیٰ خصوصاًشام اور یمن کے حالات پر اظہار خیال کرتے ہوئے ناصرشیرازی نے کہاکہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں ناکام ہوا ہے، اس وقت اس کیلئے مشکل ہوگیا ہے کہ وہ شام میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھے، کیوںکہ طنف کا علاقہ جہاں امریکی موجود ہیں، چاروں طرف سے گھر چکا ہے۔ کرد جن پر امریکیوں کو اعتماد ہے، وہ اس وقت ترکی کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ ایران نے جو بلاسٹک میزائل شام میں داعش کے ٹھکانوں پر مارے ہیں، دراصل وہ امریکی انسٹالیشن کے دائیں بائیں گرے ہیں، نام داعش کا لیا گیا مگر پیغام امریکیوں کو دیا گیا۔ اس سے امریکیوں کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ امریکی انسٹالیشن ایران کے ٹارگٹ پر ہیں۔ دوسرا ٹرمپ ایک غیر متوازن آدمی ہے اور اس نے اپنے فیصلوں سے دنیا کو حیران کیا ہے، شروع میں اس نے کہا تھا کہ وہ شام سے نکلیں گے اور سعودیہ کے خلاف اسٹینڈ لیں گے، مگر پھر سعودیہ کا اتحادی بنا اور سعودیہ ہی کے کہنے پر شام میں رہنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہاکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ شام میں دمشق حکومت کے قدم مضبوط ہوتے جا رہے ہیں اور امریکہ کے لیے وہاں زمین تنگ ہونا شروع ہوگئی ہے۔ نہاد نام سپر طاقت کی شکست پر اسٹمپ لگ چکی ہے۔ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک بزنس مین آدمی ہے، وہ سوچ رہا ہے کہ شام میں نہ تیل کے کنویں ہاتھ میں آئے ہیں، نہ گیس کے ذخائر ہماری دسترس میں ہیں، نہ حکومتی امور پر میں کوئی مداخلت ہے تو پھر ایسے میں شام میں کیوں رہا جائے۔ امریکہ اس وقت شام اور افغانستان میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہا ہے، وہ جنگ کے اخراجات کم کرنا چاہتا ہے۔ خود امریکہ میں اپوزیشن نے شام سے نکلنے کو ایران اور شام کی فتح قرار دیا ہے۔ یہ امریکہ کے اتحادی داعش اور سعودی عرب کی ناکامی ہے۔ امریکی کی مشرق وسطیٰ کی مجموعی طور پر پالیسی ناکام ہوگئی ہے، یمن، عراق اور شام سمیت اوور آل پالیسی ناکام ہوئی ہے۔ تمام ملکوں کے لیے واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں ہے، جہاں جاتے ہیں، تباہی اور بربادی کا سامان لیکر جاتے ہیں۔امریکہ طالبان مذاکرات کےحوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افغان مذاکرات ناقابل فہم ہیں، اس لیے بھی کہ طالبان نے کہا تھا کہ افغانستان میں غیر ملکی فووسز کا وجود نہیں ہونا چاہیئے، جب آپ کسی کو ٹیبل پر بیٹھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آپ اسے اسٹیک ہولڈر تسلیم کرچکے ہیں۔ امریکی اس حوالے سے کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی حد تک اسٹیک ہولڈر منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔