وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ سید ہاشم موسوی نے مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یزید کو حضرت امام حسین ؑ کی ذات سے نہیں بلکہ انکے فکر اور اصلاحات سے عداوت تھی جو کہ حضرت امام حسین ؑ کی قربانیوں نے اسلام کو جو تقویت دی وہ رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ حضرت کی شہادت ایک شخص یا فرد کی نہیں ایک سوچ ، فکر اور نظریے کی شہادت ہے۔ ا س بات میں کسی اسلامی مذہب کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تمام آئمہ معصومین ؑ ، مولائے کائنات سے لیکر امام مھدی (عج) تک ایک ہی نور سے ہیں کہ جو حقیقت محمدیہ ہے۔
مجلس عزاء میں امام ؑ کے مصائب بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کے حامیوں میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا، حبیب ،زہیراور حرسمیت تمام اصحاب و انصار شہید ہوچکے ہیں اور اکبر ، قاسم اور جعفر اور دیگر جوانان بنی ہاشم 150 حتی کہ شش ماہہ علی اصغر ؑ اپنی جانیں اسلام پر نچھاور کر چکے ہیں، اور عباس علمدار حسین، ساقی لب تشنگان، بے سر و بے دست ہو کر خیام اہل بیت ؑ سے دور گھوڑے سے اترے ہیں اور شہید ہوچکے ہیں۔ اس وسیع و عریض دشت میں، مگر آپ ؑ کو کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ کوئی بھی نہ تھا جو امام ؑ کی حفاظت اور حرم رسول اللہ کے دفاع کے لئے جانبازی کرتا.جو تھے وہ اپنا فرض ادا کرچکے تھے. چنانچہ امام علیہ السلام خیام میں تشریف لائے، جانے کے لئے آئے تھے.بیبیوں سے وداع کا وقت آن پہنچا تھا.عجیب دلگداز منظر تھا، خواتین اور بچیوں نے مولا کے گرد حلقہ سا تشکیل دیا تھا. ہر کوئی کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کیسے بولے.کیا بولے.کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ چنانچہ امام نے سب کو وصیتیں کیں اور ثانی زہراء سے کہا: نماز تہجد میں مجھے یاد رکھنا.یہ بھی امام کی ایک وصیت تھی.اور ہم جانتے ہیں کہ غل و زنجیر اور قید و بند کے با وجود ثانی زہراء نے کربلا سے شام تک تہجد ترک نہ کیا ۔ یہ لوگ نماز کو زندہ رکھنے کے لئے ہی توآئے تھے کربلا میں اور نماز کی برپائی ہی کے لئے تو اسیری قبول کی تھی۔تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں کہ امام حسین کا قیام پہلے مرحلے پر حسنی ہے دوسرے مرحلے پر حسینی ہے۔
دور حاضر میں حضرت امام حسین ؑ کے تصور اسلام کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے، علامہ سید ہاشم موسوی