The Latest

وحدت نیوز (آرٹیکل) اس بھیانک ناکام منصوبہ بندی کی تفصیل جس کے تحت علی عبد اللہ صالح نے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف بغاوت کی تاکہ وہ دوبارہ سے یمن کا بلا شرکت غیرے حاکم بن جائیں، اور اپنے بیٹے کو جو اس وقت عرب امارات میں مقیم ہیں یمن کا صدر بنایا جائے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:۔ انصار اللہ کے خلاف بغاوت کی پلاننگ اب سے تقریبا 8مہینے پہلے ہوئی۔ اس پلاننگ میں محمد بن زاید(ابوظبی کا ولی عہد)، جنرل شاول موفاز(سابق اسرائیلی وزیر دفاع)، محمد دحلان کے علاوہ علی عبد اللہ صالح شریک تھے۔ ان سب کے علاوہ مقتول یمنی صدر صالح کے بیٹے احمد علی عبد اللہ صالح نے اس میٹنگ میں خصوصی شرکت کی۔۔

ساری پلاننگ ابوظبی میں ہوئی، جس میں بغاوت کی ساری تفصیلات محمد بن زاید کی طرف سے طے کی گئیں۔ اس کے بعد مزید میٹنگز کے لیے سقطری کے خوبصورت جزیرے کا انتخاب کیا گیا جسے سابق یمنی صدر عبد ربہ منصور نے اماراتیوں کو بیچا تھا۔ اس جزیرے میں لگ بھگ 9دفعہ ان کی میٹنگز ہوئیں، جن میں جنوبی یمن میں تعینات اماراتی آفیسرز کے علاوہ اسرائیلی آفیشلز نے بھی شرکت کی جن کے نام شاوول موفاز نے دئیے تھے۔

پلاننگ کے تحت علی عبد اللہ صالح کے قریبی 1200ساتھیوں کو عدن کے شہر میں موجود اماراتی فوجیوں کے اڈے میں خصوصی ٹریننگ دی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کاصنعاکی بغاوت میں اہم کردار ہونا تھا اور ان کا تعلق علی عبد اللہ صالح کی پارٹی سے نہیں تھا۔ ان لوگوں کو سابق اسرائیلی فوجی آفیسرز نے بھی ٹریننگ دی۔۔ صنعا اور اس کے اطراف میں 6 ہزار لوگوں کو الگ سے ٹریننگ دینے کے لیے بجٹ منظور کیا گیا۔ محمد بن زاید کے کنٹرول روم نے فروری سے لے کر جون 2018تک، علی عبد اللہ صالح کے قریبی ساتھیوں کے ذریعے، تقریبا 290ملین ڈالرز عدن سے صنعا منتقل کئے۔یہ اس100 ملین ڈالرز کے علاوہ ہے جو اگست اور اکتوبر کے مہینے میں علی عبد اللہ صالح کو دئیے گئے۔۔

طے پایا کہ 24اگست 2017کوبغاوت کرنا ہے۔ لیکن اماراتی اور اسرائیلی آفیسرز نے بعد میں کاروائی کو آگے کی کسی تاریخ تک موخر کر دیا۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ عبد اللہ صالح کے لوگ ابھی مکمل تیار نہیں ہوئے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ انصار اللہ کے حوثیوں تک اس پلاننگ کی خبر پہنچ چکی تھی، لہذا انہوں نے دار الحکومت اور اس کے اطراف میں اپنا قبضہ مضبوط کر لیا تھا۔ جو آفیسرز اس پلاننگ میں شامل تھے اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ دار الحکومت صنعا اور اطراف میں 8 ہزار لوگوں کو مسلح تربیت دی جائے ۔ اس مقصد کے لیے مقامی ٹرینرز کے علاوہ، داعش سے بھاگے ان16 افراد سے بھی مدد لینے کا فیصلہ ہوا جو اس وقت عدن میں موجود تھے جو جنگی امور اور امداد میں ماہر تھے۔ان سب کے علاوہ چار سابق اسرائیلی آفیسرز بھی تھے جو اماراتیوں کی مدد سے علاقے میں پہنچے تھے۔

دار الحکومت صنعا کے49 خفیہ مقامات پر اسلحہ چھپایا گیا تاکہ کاروائی کے وقت افراد کے درمیان ضرورت کے تحت تقسیم کیا جا سکے۔ کس وقت کاروائی کا آغاز ہو نا ہے وہ سب سے چھپا کررکھا گیا تاکہ انصار اللہ کو سرپرائز دیا جا سکے تا کہ مقابلے میں وہ لوگ فوری طور پر کوئی دفاعی قدم ن اٹھا سکیں۔ یہ پلاننگ انتہائی احتیاط کے ساتھ ، بہت زیادہ سوچ وبچار سے کی گئی ۔ فنی اور دفاعی حوالے سے یہ ایک مکمل منصوبہ تھا۔

یہی وجہ تھی کہ علی عبد اللہ صالح 3 دسمبر تک انصار اللہ کے سامنے لچک دکھانے کو تیار نہ تھے، چونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس اسلحے کی اور لڑنے والوں کی کمی نہیں۔ اسے گمان تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ 6گھنٹے میں دار الحکومت پر قبضہ کرلیں گے۔ جب انصار اللہ کی قیادت کو یقین ہو گیا کہ اب بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں رہا، تو انہوں نے مذاکرات کرنے والوں سے کہا کہ وہ علی عبد اللہ صالح کو ملک سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ دینے کو تیار ہیںلیکن شرط یہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف بغاوت سے باز آئیں۔

اگر اس بات کو نہیں مانتے تو ہم صنعا اور اس کے اطراف کو صرف 3گھنٹوں میں اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔ اور پھر 2 اور 3 دسمبر کو یہی کچھ ہوا۔ جب صنعا میں حالات علی عبد اللہ صالح کے بالکل خلاف ہوگئے ، وہ بھاگنے پر مجبور ہوا۔ اس حوالے سے اپنے بیٹے کے ذریعے متحدہ عرب امارات کے ساتھ پہلے سے ہم آہنگی کی گئی۔ جب علی عبد اللہ صالح کا قافلہ صنعا سے نکلا تو امارات کے جنگی جہاز ان کی فضائی نگرانی اور حفاظت پر مامور تھے۔

اس قافلے میں صالح کی بکتر بند گاڑی کے علاوہ تین بکتر بند گاڑیاں آگے اور تین پیچھے حفاظت پر مامور تھیں۔ ان کے علاوہ جدید اسلحے سے لیس مختلف ٹیوٹا پک اپس بھی ساتھ ساتھ حفاظت کی خاطر چل رہی تھیں۔سعودی اتحاد نے صنعا سے لے کر سنحان تک صالح کے راستے میں آنے والے انصار اللہ کے مختلف چیک پوسٹس پر فضائی حملے کئے۔صالح سنحان جا رہا تھا۔ سنحان پہنچنے سے پہلے ، مآرب کے راستے میں انصار اللہ اور قبائل کے مجاہدین کمین لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے قافلے پر ٹینک شکن میزائلوں کی بارش کر دی۔ اس کے علاوہ بھاری ہتھیاروں سے انتہائی قریب سے حملہ کیا گیا۔

ان کی کوشش تھی کہ علی عبد اللہ صالح کو زندہ گرفتار کر لیا جائے ۔ سعودی اتحاد کے طیاروں نے بھی اسی جگہ پر بمباری شروع کر دی تاکہ انصار اللہ کے مجاہدین کو عبد اللہ صالح کو گرفتار کرنے سے روکا جا سکے۔ چونکہ انہیں ڈر تھا اگر صالح گرفتار ہوا تو امارات، سعودی عرب اور اسرائیل کی اس سازش سے پردہ اٹھ جائے گا۔در حقیقت عبد اللہ صالح کو مارنے کا فیصلہ سعودی اتحاد کی طرف سے ہوا تاکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے براہ راست عسکری تعاون پر پردہ پڑا رہے۔


تحریر: محمد صادق الحسینی
مترجم: عباس حسینی

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ شائع کرنے کے فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ عدل و انصاف کی بالادستی کا اظہار ہے۔انہوں نے کہا سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین سانحہ ہے جس میں احتجاج کا آئینی حق استعمال کرنے والوں پر گولیاں برسائی گئیں۔اس واقعہ نے وطن عزیز کے تشخص کو عالمی سطح پر بری طرح متاثر کیا ہے۔پنجاب حکومت کے تمام ذمہ دارن کو اس بربریت پر انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ طاقت اور اختیار کے نشے میں چور حکمران خود کوبادشاہ اور عوام کوزر خرید غلام سمجھتے ہیں۔لوگوں کو ماورائے عدالت شدید ترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جو قانون و آئین کے ساتھ بھیانک مذاق ہے۔انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ میں جن افرا د کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھرایا گیا ہے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ مقتول افراد کے اہل خانہ کے زخموں پر نمک پاشی تصور کیاجائے گا جو ابھی تک انصاف کے منتظر بیٹھے ہیں۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ عدلیہ کا یہ فیصلہ مظلوموں کی فتح ہے۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر شعبہ تنظیم سازی اجلاس ، سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی کی خصوصی شرکت۔ صدارت ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا سید طالب حسین ہمدانی نے کی۔ جبکہ اجلاس میں سیکرٹری تنظیم سازی سید حسین سبزواری ، ترجمان سید حمید حسین نقوی ، ضلع میرپور سے سید ناظر کاظمی ، سید حسن کاظمی ، نیلم سے سید سعادت علی کاظمی ، سید وقار کاظمی، ضلع مظفرآباد سے سید محسن بخاری ، سید ممتاز نقوی اور ضلع پونچھ سے مولانا سید شاہنواز حسین کے علاوہ دیگر اضلاع سے نمائندگان نے شرکت کی۔ اجلاس میں نو رکنی تنظیم سازی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا فیصلہ کیا گیا کہ تنظیم سازی کے لیے کوششیں تیز کی جائیں گی۔ نئے اضلاع کے اضافے کے ساتھ ساتھ سابقہ اضلاع کو فعال کیا جائے گا۔ رابطہ مہم کے ذریعے یونٹ سطح تک دورہ جات کو یقینی بنایا جائے گا۔ آئندہ اجلاس مارچ کے دوسرے ہفتے مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں منعقد ہو گا۔ جس میں تین ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا، تنظیم سازی کونسل ”جوادی کے لیے انصاف“ تحریک میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور نقوی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین الہی تنظیم ہے۔ مقصد ملت محرومہ کی آواز کی بننا ہے۔ اس راستے میں یقینا مشکلات و مصائب ہیں۔ کہیں جبری اغوا ہے کہیں دہشتگردانہ حملے۔ مگر چونکہ ہدف و مقصد پاک ہے اور الہی ہے۔ تو ہم نے رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ ہم حسین ابن علی علیھم السلام کے راستے کے راہی ہیں۔ مصائب و مشکلات ہمیں نہیں روک سکتی۔ انہوں نے آخر میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان برادر ناصر عباس شیرازی کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کی اور شرکائے اجلاس نے برادر کی استقامت پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اجلاس کا اختتام تنظیمی قائدین ، مسئولین و کارکنان کی سلامتی ، لا پتہ افراد کی بازیابی اور علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی کی مکمل صحت یابی کے لیے دعا سے کیا گیا۔ دعا مولانا سید شاہنواز حسین نقوی نے کروائی۔

وحدت نیوز(انٹرویو) سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ اس سے قبل مرکزی سیکرٹری سیاسیات کی ذمہ داری انکے پاس تھی۔ ناصر شیرازی آئی ایس او پاکستان کے بھی مرکزی صدر رہے ہیں جبکہ متحدہ طلباء محاذ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اپنی سیاسی دانست کی بدولت بہت قلیل عرصے میں ایم ڈبلیو ایم کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر نہ صرف متعارف کروایا بلکہ شہرت کی بلندیوں  پر بھی پہنچایا۔ ناصر شیرازی پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ حلیم طبیعت کے مالک ہیں۔ شیعہ سنی اتحاد اور پاکستان میں قیام امن کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھی تحریک کے روح رواں ہیں۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کی نااہلی کی رٹ پٹیشن بھی دائر کرنے کے بعد اس کی پیروی کر رہے تھے کہ اغواء کر لئے گئے۔ ایک ماہ کی قید کے بعد بازیاب ہوئے تو سب سے پہلے "ایک بین الاقوامی  خبر رساں ادارے " نے ان کیساتھ گفتگو کی، جو قارئین کیلئے پیش کی جا رہی ہے۔

سوال : سب سے پہلے تو آپکو اور آپکے اہلخانہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ آپ خیر و عافیت سے گھر واپس پہنچ گئے، یہ بتایئے کہ وہ کون لوگ تھے، جنہوں نے آپکو اغواء کیا اور انکے مقاصد کیا تھے۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجھے اغواء کرنیوالے لوگ کسی سکیورٹی ادارے کے اہلکار ہی تھے، وہ کس ادارے کے تھے یہ مجھے علم نہیں۔ واپڈا ٹاؤن سے یکم نومبر کو مجھے اس وقت اغواء کیا گیا، جب میں اپنی اہلیہ اور بچوں کیساتھ خریداری کے بعد واپس گھر جا رہا تھا، مجھے 2 ماہ اور 2 سال کے بچوں کے سامنے گھسیٹ کر گاڑی سے نکالا گیا اور 2 سے 3 گاڑیاں تھیں، جن میں وہ لوگ سوار تھے۔ انہوں نے وہاں سے مجھے اغواء کیا اور کسی نامعلوم جگہ پر جا کر بند کر دیا۔ کچھ عرصہ وہاں رکھا گیا، اس کے بعد مجھے ایک اور جگہ پر منتقل کر دیا گیا۔ اس دوسری جگہ کا بھی مجھے علم نہیں کہ وہ کون سی جگہ تھی۔ بہرحال اغواء کاروں نے ملک کے آئین کو پامال کیا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا اور مجھے، جو ایک سیاسی جماعت کا کارکن ہوں، اغواء کیا گیا۔ جہاں تک ان کے مقاصد کی بات ہے تو مجھے نہیں معلوم انہوں نے مجھے کیوں اغواء کیا، وہ کیا چاہتے تھے، یا ان کے پیچھے کون تھا۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ مجھے اغواء کرنیوالوں کے مقاصد کیا تھے۔

سوال : آپکی جماعت تو اسکا ذمہ دار پنجاب حکومت اور رانا ثناء اللہ کو ہی ٹھہراتی رہی اور مسلسل احتجاج میں پنجاب حکومت کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا۔؟
ناصر عباس شیرازی: ویسے دیکھا جائے تو بحیثیت صوبے کے وزیر قانون کے طور پر شہریوں کے تحفظ ذمہ داری رانا ثناء اللہ پر ہی عائد ہوتی ہے، لاہور جیسے شہر سے ایک بندہ اغواء ہو رہا ہے اور لاہور پولیس اور پنجاب حکومت کو پتہ ہی نہیں چلتا؟ جس ادارے نے بھی اغواء کیا تھا، وہ فرشتے آسمان سے تو نہیں اترے تھے، یہیں سے ہیں نا، لیکن پنجاب حکومت ایک ماہ میں میرا سراغ نہیں لگا سکی، میں مسلسل ایک ماہ جبری قید میں رہا، پنجاب حکومت نے میری بازیابی کیلئے کوئی اقدام کیوں نہیں کیا۔؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس اغواء میں رانا ثناء ہی ملوث دکھائی دیتا ہے۔ پولیس مسلسل عدالت میں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی، یہ سب پولیس کی غفلت کا نتیجہ اور صوبائی حکومت کی ناکامی ہے۔

سوال : دوران حراست اغواء کار آپ سے کس قسم کے سوالات کرتے رہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: ان کے سوالات بے مقصد تھے، بے تکے سوالات کرتے رہے، یہ کہ مجلس وحدت مسلمین کی قریبی جماعتیں کون سی ہیں، کن کن جماعتوں کیساتھ آپ کے تعلقات بہت اچھے ہیں، کون سی جماعت آپ سے دور ہے، کس جماعت کیساتھ آپ کی نہیں بنتی، گلگت بلتستان میں مجلس وحدت مسلمین کی پوزیشن مضبوط کیوں ہے۔ آپ وہاں الیکشن میں کیوں حصہ لے رہے ہیں۔ آپ لوگوں کی جماعت کے مقاصد کیا ہیں۔ وغیرہ وغیرہ، یہ وہ سوالات تھے، جو عام سے بھی سادہ ہیں۔ یہ سب باتیں تو عام ہیں، بچہ بچہ جانتا ہے ایم ڈبلیو ایم کا منشور کیا ہے، ہم سیاست میں کن جماعتوں کے ہم خیال ہیں، لیکن حیرت ہے کہ وہ اس قسم کے بے تکے سوالات کرکے پتہ نہیں کیا جاننا چاہتے تھے۔

سوال : لیکن رانا ثناء اللہ کو آپکی جماعت خصوصی طور پر ہدفِ تنقید کیوں بنا رہی ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: رانا ثناء اللہ وہ وزیر قانون ہیں، جنہوں نے خود قانون اور آئین کو پامال کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے پاکستان کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے لاہور ہائیکورٹ میں رانا ثناء اللہ کی نااہلی کی رٹ پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ ہر فرد ریاست میں قانون اور آئین کے سامنے جوابدہ ہے، پھر رانا ثناء اللہ کیوں نہیں، میرے اغواء میں رانا ثناء اللہ ہی ملوث ہے، مجھے میرے اڑھائی سال کے بیٹے کے سامنے اغواء کیا گیا۔ کیا کوئی قانون، آئین یا اخلاقیات اس حرکت کی اجازت دیتے ہیں؟ مجھے اغواء کرنیوالوں نے قانون شکنی کی۔ انہوں نے اپنے ہی ملک کا آئین پامال کر دیا، جس کی حفاظت کا انہوں نے حلف اٹھا رکھا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔

سوال : آپکو جس جگہ پر رکھا گیا، وہ کیسی تھی؟ کوئی حوالات تھی یا کوئی گھر تھا۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجھے ایک تنگ و تاریک جگہ پر رکھا گیا تھا، میرے اغواء سے صرف یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس کی لاٹھی ہے، بھینس اسی کی ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کی بات نہیں کی جا سکتی، یہاں تو پھر طاقتور منہ زور ہو جائے گا، جس کے پاس 4 بندے ہوں گے، وہ منہ زور ہو جائے گا۔ جب معاشرے میں قانون و انصاف کی حکمرانی نہ رہے تو معاشرے بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں اور پاکستان کو بھی اسی بگاڑ کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو، یہاں قانون کی عملداری ہو، یہاں وحدت کو فروغ ملے، میرا جرم کیا تھا؟ یہی کہ میں وحدت کی بات کر رہا تھا، میں نے شیعہ اور سنی کو متحد کیا، میں نے تکفیریوں کو بے نقاب کیا، میں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور اس کے جواب میں مجھے اغواء کر لیا گیا۔

سوال : سکیورٹی ادارے جب بھی کسی کو اغواء کرتے ہیں، کوئی جرم ہوتا ہے تو اٹھاتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: میرا کوئی جرم ہے تو عدالتیں موجود ہیں، وہاں میرے خلاف رٹ دائر کریں، میرا جرم ثابت کریں، میرا کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو میں سزا کیلئے تیار ہوں، لیکن یہ کون سا قانون ہے کہ بے جرم و خطا آپ کسی شہری کو اٹھائیں، بلکہ معصوم بچوں کے سامنے اٹھائیں اور ایک ماہ تک اسے جبری قید میں رکھیں، عدالت میں ٹرائل ہو تو پیش نہ کریں۔ یہ کونسا قانون ہے، یہ تو جنگل کا قانون ہوا، پاکستان میں تو باقاعدہ ایک آئین موجود ہے، قانون ہے، عدالتیں ہیں، ان سب کی موجودگی میں اگر کوئی اس قسم کی حرکت کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کی مخالفت کر رہا ہے، وہ کوئی ثبوت رکھتے ہیں تو عدالت میں پیش کریں۔ ایسے اغواء کرکے تو وہ اپنا کیس کمزور کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ایسے کلچر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ پاکستان کے ریاستی اداروں کو آئین کی سربلندی کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کریں۔ ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھے۔

سوال : ایک وزیر قانون کیسے قانون شکنی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پنجاب سے اغواء ہوا ہوں تو ذمہ دار پنجاب حکومت ہے، جس نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ صوبے میں جنگل کا قانون ہے۔ شریف برادران نے ہمیشہ انتقامی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو دوسروں کو انسان نہیں سمجھتے۔ یہ ملک کو اپنی جاگیر سمجھ لیتے ہیں، پھر انہیں ایسے دو چار وزیر بھی مل جاتے ہیں، جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں، وہ بھی ان کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں، یہی اصل میں ان کو بھی گمراہ کرتے ہیں، ان کی گردن کا سریا اصل میں یہی وزیر ہوتے ہیں، جیسے رانا ثناء اللہ نے پنجاب کے وزیراعلٰی کو مٹھی میں لے رکھا ہے، پنجاب کا پورا کنٹرول وزیر قانون کے ہاتھ میں ہے۔ وہی سکیورٹی فورسز کی بھی نگرانی کرتا ہے، وہی کابینہ کمیٹی برائے امن و امان سمیت صوبے کے دیگر معاملات چلاتا ہے۔ اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے، سب کچھ ایک وزیر کے ہاتھ میں دیدیا گیا ہے، اب اگر کوئی بقول چودھری شیر علی مجرمانہ ذہنیت کا مالک ہو اور اس کے ہاتھ میں اقتدار آجائے تو انجام یہی ہوگا کہ کوئی ملک میں آزادانہ گھوم پھر نہیں سکے گا۔ رانا ثناء اللہ کے کارنامے میڈیا والے جانتے ہیں، شائع یا نشر اس لئے نہیں کرسکتے کہ وہ اقتدار میں ہے، جس دن رانا ثناء اللہ کا اقتدارختم ہوگیا، وہ بے نقاب ہو جائے گا۔ میڈیا اس کی اصلیت بے نقاب کرے گا۔ اس کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو چودھری شیر علی سے پوچھیں، جنہیں شہباز شریف نے خاموش رہنے کا کہا ہے۔ ورنہ ماضی قریب میں جب چودھری شیر علی نے رانا ثناء اللہ کا کچا چٹھہ کھولا تھا تو لیگی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی تھی اور پارٹی ٹوٹنے کے قریب تھی، لیکن شہباز شریف نے دونوں کو بیان بازی سے روک دیا اور معاملہ سرد پڑ گیا۔ کچھ عرصے بعد یہ معاملہ پھر گرم ہوگا اور دونوں بیچ چوراہے ایک دوسرے کی ہنڈیا پھوڑیں گے، وہ وقت قریب ہے۔

سوال : آپکا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
ناصر عباس شیرازی: آئندہ کا لائحہ عمل میری سیاسی جدوجہد ہے، جسے جاری رکھوں گا، جلد ہی اعلٰی قیادت سے ملاقات کروں گا۔ ملاقات میں ایم ڈبلیو ایم کے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ہم نے آئندہ 2018ء کے الیکشن میں بھی بھرپور طریقے سے حصہ لینا ہے، اس کی حکمت عملی طے کی جائے گی اور میں نے رانا ثناء اللہ کی نااہلی کی جو رٹ پٹشین دائر کی ہوئی ہے، اس کی بڑھ چڑھ کر پیروی کروں گا۔ ہم ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہر شہری کو وہ حقوق ملیں، جو اسے آئین دیتا ہے۔ ہم ملک میں جنگل کا قانون نہیں چاہتے، ہم پرامن پاکستان کے قیام کیلئے سرگرم ہیں اور ان شاء اللہ ہم پاکستان کو قائد کا حقیقی پاکستان بنائیں گے۔ ہم آمروں کی پیداوار سے ملک کو نجات دلائیں گے، کرپشن اور انتہا پسندی کا خاتمہ کریں گے۔ ہمارے سیاسی جدوجہد کا مقصد پرامن اور خوشحال پاکستان ہے، جس میں تمام مکاتب فکر اور مذاہب کو مکمل مذہبی آزادی ہوگی۔ ہم پہلے بھی اسی کاز کیلئے جدوجہد کر رہے تھے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ یہ اغواء اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہمیں ہمارے مشن سے نہیں روک سکتے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم جہاں شیعہ سنی کو ایک دوسرے کے قریب لائے ہیں وہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی قریب لائیں اور پاکستان میں ایسا امن قائم کریں کہ دنیا مثال دے۔ امن کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، ہم تکفیریوں کے روز اول سے مخالف تھے اور اب بھی ان ملک دشمنوں اور اسلام دشمنوں کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔

سوال : جن جن سیاسی و مذہبی جماعتوں نے آپکی بازیابی کیلئے ایم ڈبلیو ایم کا ساتھ دیا، انکے حوالے سے کچھ کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی بالکل، میں مجلس وحدت مسلمین، تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ق، ملی یکجہتی کونسل ، سنی اتحاد کونسل، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پاکستان عوامی تحریک، جماعت اسلامی، امامیہ آرگنائزیشن سمیت دیگر سیاسی، سماجی رہنماؤں اور صحافی دوستوں کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے میری بازیابی کیلئے اپنے اپنے طور پر کوشش کی اور ایم ڈبلیو ایم کا ساتھ دیا۔ یقیناً میری حمایت ایک سیاسی جماعت کے کاز کی حمایت تھی، جن دوستوں نے میرے اہل خانہ کی بھی ڈھارس بندھائی، بالخصوص اپنے وکلاء دوستوں کا بھی شکر گزار ہوں۔ جن دوستوں نے پاکستان میں اور جنہوں نے کربلا میں میری بازیابی کیلئے دعائیں کیں، ان بہنوں، ماؤں اور بھائیوں اور بزرگوں کا ممنون ہوں اور دعاگو ہوں، اللہ تعالٰی ان تمام احباب کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

اس ملک کی اصلاح ممکن ہے یا نہیں!

وحدت نیوز(آرٹیکل) آج ہم ایک برائے نام انسانی معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانیت فقط برائے نام ہے ، اسی طرح ہم اسلامی عقائد کے بجائے اپنے من گھڑت عقائد کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ہمارے عقائد کے پیچھے کسی قسم کی تحقیق کے بجائے دوسروں سے سنی سنائی باتیں اور کہانیاں ہوتی ہیں۔

ہم جب کسی سے لڑتے ہیں، کسی کے خلاف یا حق میں فتوے دیتے ہیں، کسی کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں یا کسی کو گلے سے لگاتے ہیں،  یا کسی کو اچھا برا کہتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی اصول ، ضابطہ ، اخلاقی جذبہ یا قانونی و آئینی پہلو نہیں ہوتا۔

درحقیقت سب کچھ ہماری نادانی   اور خاندانی جہالت  کے گرد گھومتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے لیکن اس کے باوجود عقلِ کل بن کر بولتے ہیں۔  کسی نے کہا تھا کہ اگر دنیا میں بے وقوف  اور جاہل بولنا بند کردیں  تو دنیا کے مسائل ہی حل ہو جائیں۔

اب ہم نے اپنی نادانی کے باعث کچھ اس طرح کے عقائد بنا رکھے ہیں اور دوسروں کوبھی ان کی تعلیم دینا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں:

۱۔ پاکستان کی کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی

۲۔ہمارے ارد گرد سب لوگ راشی، مرتشی اور بد دیانت ہیں

۳۔ جہاں کوئی مسئلہ ہوجائے وہیں چاپلوسی کرنی اور رشوت دینی شروع کردیں

۴۔ظلم کو ظلم اور غلط کو غلط کہنے کے بجائے سب کو اچھا کہنے یا سب کو برا کہنے کا راگ الاپیں

۵۔ یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا،مسنگ پرسنز جیسے مسائل پر چپ سادھ لینی چاہیے، یعنی طاقتور کے خلاف احتجاج  در اصل  بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے

۶۔ یہاں تو دہشت گردی کبھی رُک ہی نہیں سکتی، دیگر ممالک کا اثرو نفوز ختم نہیں ہو سکتا

۷۔ اجتماعی ناانصافی کے باعث یہاں بے روزگاری اور فقر کبھی ختم نہیں ہو سکتا

۸۔ معاشرے میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات سب کتابی باتیں ہیں

۹۔ اور ۔۔۔۔

اس طرح کے عقائد اور سوچ کا منبع خدا سے ناامیدی ہے، جب لوگ خدا کے بجائے اقوام، قبیلوں، صوبوں، زبانوں، نوکریوں، دولت اور سٹیٹس کی پرستش شروع کر دیتےہیں تو اپنی  اور معاشرے کی اصلاح سے مایوس ہو جاتے ہیں اورجہاں پر لوگ مایوس ہو جائیں وہاں پر  انحرافات ، برائیوں اور منکرات کے خلاف جدوجہد ختم ہو جاتی ہے۔

اگر ہم خدا کی توحید اور یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس خدا نے ہمیں یہ ملک عطا کیا ہے اس کی مدد و نصرت سے اس کی اصلاح بھی ممکن ہے، اللہ پر  ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں  منکرات کے خلاف جدوجہد  اور حرکت کریں ۔ حرکت اور جدوجہد زندگی کی علامت ہے۔ توحید انسانوں کو زندگی دیتی ہے اور توحید پر عدمِ ایمان انسانوں اور معاشروں کی موت ہے۔

ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ انسانی افکار کی زندگی  اور انسانی سماج کی اصلاح  کا انحصار عقیدہ توحید پر  ہے۔اگر ہم اصلاح  اور جدوجہدسے مایوس ہیں تو در اصل ہمارا عقیدہ توحید کمزور ہے۔

ارشادِ پروردگار ہے:

وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟ ۚ وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءًۭ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦ إِخْوَٰنًۭا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍۢ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾

ترجمعہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران،آیت 103)

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ وہ کونسی اللہ کی رسی ہے  اور وہ کونسی نعمت تھی جس نے متفرق لوگوں کو متحد کر دیا، دشمنوں کو بھائی بھائی بنا دیا، کالے اور گورے ، عربی و عجمی کے فرق مٹا دئیے ، اگر ہم تدبر کریں تو اس میں سب سے بڑی نعمت ہمیں توحید ہی نظر آئے گی۔

بقولِ اقبال:

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی!

آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علم کلام!

روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو!

خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام

میں نے اے میر سپہ تیری سپہ دیکھی ہے

قل ہو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام

آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا‘ نہ فقیہہ

وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام

قوم کیا چیز ہے‘ قوموں کی امامت کیا ہے

اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دورکعت کے امام


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

وحدت نیوز(شکارپور) وارثان شہداء کمیٹی شکارپور کا اہم اجلاس چئیرمین علامہ مقصودعلی ڈومکی کی زیر صدارت شکارپور میں برادر سکندر علی دل کی رہائشگاہ پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں وائس چیئرمین شہداء کمیٹی علامہ عبدالمجید بہشتی، آئی ایس او کے ڈویژنل صدر برادر ندیم علی ڈومکی، اصغریہ کے رہنماء انعام علی آغانی، مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع شکارپور کے سیکریٹری جنرل برادر فدا عبا س لاڑک اور شہداء کے وارث شریک ہوئے۔

اس موقع پر اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ شہدائے سانحہ شکارپور کی تیسری برسی 30 جنوری کوعظمت شہداء کانفرنس کے عنوان سے انتہائی عقیدت و احترام سے منائی جائے گی۔ جس میں ملک بھر سے علمائے کرام اور شخصیات شریک ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ شکارپور میں دھشت گردی کے مقدمات کی پیروی اور شہداء کے قاتلوں کو سزا دلوانا ، سندہ گورنمنٹ کی وعدہ خلافیوں کے باوجود معاہدے پر عمل در آمد کے لئے مسلسل جدوجہد کرنا، شہداء کے ذکر اور فکر کو زندہ رکھنا شہداء کمیٹی کا قابل فخر کارنامہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندہ حکومت حسب وعدہ شہداء کا یادگار ٹاور تعمیر کرے ، گورنمنٹ نے یادگار شہداء تعمیر نہ کی تو یہ کام ہم خود انجام دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین روز اول سے اب تک جدوجہد کے ہر مرحلے پر وارثان شہداء کے ساتھ تھی اور ساتھ ہے۔

در ایں اثناء مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے خانپور میں ایم ڈبلیو ایم رہنماء برادر اصغر سیٹھار کی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہے کہ ملک میں تکفیری مدارس اور کالعدم تکفیری جماعتیں دھشت گردوں کی نرسری کا کام کر رہی ہیں۔ دھشت گرد نرسریوں کے ہوتے ہوئے دھشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اگر حکومت اور ریاستی ادارے دھشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں پہلے ان نرسریوں کو ختم کرنا ہوگا۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی نے بازیابی کے بعد’’ روزنامہ جنگ  لاہور‘‘کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرا جرم جبری لاپتہ افراد کے حق میں آواز اٹھانا تھا، میں پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانا اور اس ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتا تھا، اس لیے مجھے غیر قانونی طریقے سے اٹھا کر اذیت ناک جگہ رکھا گیا، 31دن سورج نہیں دیکھا، اگر میں اس ملک کے مفادات کے خلاف کوئی کام کررہاتھا تو میرا اوپن ٹرائل کیوں نہیں کیا گیا، جس ادارے نے مجھے اٹھایا اس نے یہ الزامات آج تک کسی بھی فورم پر کیوں پیش نہیں کیئے، مجھے 31دن غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھا گیا، اس دوران تین بار میری جگہ تبدیل کی گئ، مجھے لاہورکے ایک گنجان آباد علاقے سے میرے معصوم بچوں کے سامنے اٹھایا گیا، انہوں نے کہا کہ اس دوران میرے چہرے پر ماسک چڑھادیا گیااور دو بار گاڑیاں تندیل کرکے مجھے تین گھنٹے بعد ایک نا معلوم مقام پر ٹھہرایا گیا، آخری بار جہاں سے میری رہائی کے احکامات آئے میں فیصل آباد کے کسی حراستی مرکز میں تھا ، انہوں نے کہاکہ مجھے حراست میں لینے سے میری رہائی تک میرے چہرے پر کالے رنگ کا نقاب ہی رہا، نقاب اتارنے کی کوشش کرتا تو جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا، جس جگہ مجھے رکھا گیاوہاں دو، دو سال سے لوگوں کو رکھا ہواہے، میں ادارے کی ہی تحویل میں تھا، انہوں نے کہا کہ جس طرح مجھے اٹھایا گیا اس سے تو لگتا ہے کہ اس ملک میں جنگل کا قانون ہے، مجھ سمیت جن افراد کو وہاں رکھا گیا تھا اس کے ساتھ انسانوں سے بدتر سلوک ہوتا تھا اور مجھے ایک تفتیشی کمرے میں لے جاکرکسی آفیسر کے سامنے بٹھادیا جاتااور کہاجاتا کہ صاحب جو پوچھے اس کا درست جواب دوجس کے بعد مجھ سے پوچھا جاتا کہ میرے کیا سیاسی مقاصداور اہداف ہیں، میں کن کن لوگوں سے ملتا ہوں ، میری جماعت آگے کیا کرنا چاہتی ہے اور میں ہیومن رائٹس اور خصوصاًلاپتہ افراد کیلئے کیوں اور کس کے کہنے پر آواز اٹھاتا ہوں ، ناصرشیرازی نے بتایا کہ مجھے چھوڑنے سے پہلے مجھے یہ پیغام بھی دیاگیا کہ اگر میں آوازاٹھائی یا اپنی گمشدگی پر شور شرابا کیا تو نہ صرف دوبارہ اٹھالیا جائے گا بلکہ آئندہ جو سلوک کیا جائے اس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔

 

http://e.jang.com.pk/12-04-2017/lahore/pic.asp?picname=171.png

وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا سید طالب حسین ہمدانی، ترجمان مولانا سید حمید حسین نقوی، سیکرٹری یوتھ سید شاہد علی کاظمی ، ضلع پونچھ کے رہنماء مولانا سید شاہنواز کاظمی، ضلع میرپور کے سیکرٹری جنرل سید ناظر عباس کاظمی، تنظیم سازی کونسل کے ممبر مولانا حسن کاظمی، ضلع مظفرآباد کے سیکرٹری تنظیم سازی سید محسن بخاری، ضلع نیلم کے کوآرڈینیٹر سید سعادت علی کاظمی اور سید وقار حسین کاظمی نے مرکزی ایوان صحافت میں پرہجوم و مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالم اسلام کو ایام ربیع الاول یعنی جشن عید میلاد النبی ص کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین 12 تا 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت کے طور مناتی ہے جس کا مقصد اتحاد بین المسلمین کے لیے عملی کاوشیں کرنا ہے۔ 15 نومبر 2017 کو ہم نے پریس کانفرنس کی تھی جس میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی کے جبری اغوا کے حوالے سے مذمت اور احتجاجی تحریک چلائے جانے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ میڈیا سمیت جتنی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں ہماری مدد کی ہم تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے  خوشخبری سناتے ہیں کہ برادر ناصر عباس شیرازی  بازیاب ہو کر اپنی فعالیت کا آغاز کر چکے ہیں۔

 مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں نے کہا کہ گزشتہ پریس کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل  علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی کے کیس کے حوالے سے سوالات کیے گئے تھے کیا تھا جس پر ہم نے آئندہ پریس کانفرنس میں جامع و مفصل جواب کا کہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی دعاؤں کی بدولت علامہ تصور نقوی رو بہ صحت ہیں اور انشاء اللہ جلد عوام الناس کے درمیان ہوں گے۔ ایم ڈبلیو ایم آزادکشمیر کے رہنماؤں نے کہا کہ علامہ سید تصور حسین نقوی اور ان کی اہلیہ محترمہ پر 15 فروری کو دن دیہاڑے قاتلانہ حملہ ہوا۔ حملہ آور ایک کار پر سوار تھے۔ کار اور کار سواروں کا آج تک پتہ نا چل سکا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ انتظامیہ طرح طرح کے حیلے بہانوں سے ٹرخائے جا رہی ہے۔ نو ماہ کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے ہم کیا کریں؟ بس انہی حیلے بہانوں و طفل تسلیوں پر گزارہ کریں۔ مارچ 2017 میں پولیس افسران آصف درانی اور وحید گیلانی کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہم مجرمان کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ جب قریب پہنچ چکے تھے تو بتایا جائے دور کیوں ہوئے؟ حکومت آزادکشمیر نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔  حادثے کے ہو جانے کے بعد ایک ماہ قبل  وزیراعظم  عیادت کو تشریف لائے مگر بیٹھنے کا وقت نہیں تھا۔ مظفرآباد  ڈویژن سے وزراء اور ممبران اسمبلی نے پتہ نہیں کس خوف کے تحت ہمدردی کے دو بول بولنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ یہ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں شاید اقتدار ساری زندگی کے لیے مل گیا ہے۔ لیکن نہیں انہوں نے ایک دن عوام کے پاس اور بالآخر خدا کی بارگاہ اقدس میں جواب دینا ہے۔ علامہ تصور نقوی پر حملہ کرنے والوں کا نہ پکڑے جانا اور حکومتی عدم توجہی کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ریاست آزاد کشمیر کے امن کو تار تار کرنے کی کوشش کی گئی۔ مظلوم کشمیری عوام اور اتحاد بین المسلمین کے حقیقی داعی اور ترجمان شخصیت کو راستے سےہٹانے کی مذموم ترین کوشش کی گئی۔ حکومت و انتظامیہ کا یوں چپ ہو جانا دشمن کے ناپاک عزائم کو کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے عام شہری اور خصوصی طور پر ملت جعفریہ میں شدید بے چینی اور اضطراب ہے۔ یہ مسئلہ  شہری و ریاستی امن کا مسئلہ ہے۔ جب امن کی بات کرنے والا اور اتنا اہم اور معزز فرد محفوظ نہیں تو کل کوئی عام شہری کیسے محفوظ ہو گا؟ حکومت آزادکشمیر کی غیر سنجیدگی پر تشویش ہے۔ خدا نہ کرے یہ آگ کل ان کے ایوانوں میں پہنچ جائے۔ ہم سوال کرتے ہیں کیا اس وقت بھی یہ ایسے ہی خاموش رہیں گے؟ اگر نہیں تو پھر کس وجہ اور مصلحت کے تحت اس مسئلے کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے؟ ہمیں اب جواب چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بہت وقت دیا ہم نے۔ شاید کہ ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری سے تعبیر کیا گیا۔ حالانکہ ہماری خاموشی صرف اس لیے تھی کہ کل ہمیں یہ نہ کہا جائے آپ نے وقت نہیں دیا یا ساری توجہ آپ کی طرف تھی۔ ہم نے جس طرح حادثے والے دن اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور مظفرآباد ڈویژن جام ہو کر رہ گیا تھا۔یہ عمل ہم طویل مدت تک جاری رکھ سکتے تھے یا دوباره  کر سکتے تھے مگر ہم نے صبر و حوصلے سے کام لیا اور انتظامی اداروں کو لمبا وقت اور اپنی قوم کو حوصلے کا درس دیا مگر افسوس کے ساتھ آج ہم اعلان کر رہے ہیں کہ کیس پر کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی یہ ادارے  کسی قسم کی تحقیق میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔

  مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں نے کہا کہ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے ہم اپنی قوم کے سامنے لاجواب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ہر آپشن موجود ہے ہم سڑکیں بھی بند کر سکتے ہیں اور ایوانوں کا گھیراؤ بھی۔ یو این او مبصر مشن کی جانب مارچ بھی کر سکتے ہیں یا اعلی عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکٹا سکتے ہیں۔ ہمیں راست اقدام کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔

مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر انتظامی اداروں خصوصا پولیس کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ اس واقعے کے بعد جس طرح سے انتظامیہ کی جانب سے علامہ سید تصور نقوی کی کردار کشی گئی اور طرح طرح کے من گھڑت واقعات کو علامہ صاحب سے منسوب کیا گیا پرزور طریقے سے مذمت کرتے ہیں۔ علامہ صاحب کا کردار و شخصیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اتحاد بین المسلمین ، مظلومین جہاں بالعموم اور مظلومان مقبوضہ کشمیر بالخصوص کی آواز بننا ان کا شیوہ تھا۔ وہ ایک معزز گھرانے کے فرد ہیں۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے دراصل اپنی نااہلی کو چھپانے کے درپے تھے۔ مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر باقاعدہ ایک تحریک کا اعلان کرتی ہے جس کا عنوان #justice for jawadi ہے۔ اس تحریک کے حوالے سے  انشاء اللہ پورے کشمیر سے آواز احتجاج بلند ہو گی۔ ہم تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی اے۔پی۔سی بلائیں گے جس میں علامہ سید تصور نقوی کیس کے حوالے سے مشاورت کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا۔ تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر بھرپور آواز احتجاج بلند کی جائے گی۔ جو چارٹر آف ڈیمانڈ وزیراعظم آزاد کشمیر کو دیا گیا اس پر من و عن عمل درآمد کیا جائے ۔ اگر علامہ سید تصور نقوی الجوادی کیس کو منطقی انجام تک نہ پہنچایا گیا تو ہم ایک دھرنا دیں گے جومطالبات کے حل تک جاری رہے گا۔

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکریٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنماء کے اغواء کے خلاف آواز بلند کرنے والی شخصیات اور جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ناصر عباس شیرازی کی ماورائے آئین و قانون گرفتاری کے خلاف تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے آواز کی، جس کے لیے ہم ان سب کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی بی میں علامہ شیخ حسن جعفری نے جس موثر انداز میں اس کارروائی کی مذمت کی اور انکی رہائی کا مطالبہ کیا نہایت ہی قابل قدر ہیں۔ پاکستان بھر کی طرح جی بی میں آئی ایس او پاکستان، امامیہ آگنائزیشن، پاکستان تحریک انصاف، شیعہ علماء کونسل، پاکستان پیپلز پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ، مسلم لیگ قاف، جی بی یوتھ الائنس، بلتستان یوتھ الائنس، انجمن تاجران، جی بی تھنکرز فورم، انجمن امامیہ، انجمن تاجران، ائمہ جمعہ و جماعت، تنظیمی مسؤلین، کارکنان، خیرخواہان اور بزرگان نے اس معاملے میں ہمارا ساتھ دیا ان سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ سید ناصر عباس شیرازی کی بازیابی ان تمام جماعتوں کی کوششوں اور دعاوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری غیر موجودگی میں بلتستان بھر سے اس معاملے پر موثر آواز اٹھا کر اور ہم سے اظہار ہمدری کر کے ثابت کیا کہ یہ قوم متحد ہے اور کسی بھی ظلم پر خاموش رہنے والی نہیں ہے۔ ہم صحافی برادری کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس معاملے میں مختلف طریقے سے ہمارا ساتھ دیا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) اسلام آبادمیں نمازیوں پر فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والے ممتاز قانون دان شہید سید سیدین زیدی ایڈووکیٹ کے ایصال ثواب کے لئےمسجد باب العلم آئی ایٹ مرکز میں مجلس ترحیم کا انعقاد کیا گیا تھا ۔اس مجلس ترحیم میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے مومنین کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اس موقعہ پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےسربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے شہید سید سیدین زیدی کی قومی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا،انہوں نے کہا کہ شہید سیدین زیدی ایک کریم اور نجیب انسان تھے ۔انسانی کرامت کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں کہا کہ انسان اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے نہیں آیا مگر جب جاتا ہے تو ہمیشہ کے لئے چلا جاتا ہے انسان موت وحیات کی سرحد پر کیسے پہنچتا ہے یہ انتخاب اس کا اپنا ہے کس کیفیت اور کس حال میں اپنے امام ؑ  کا دیدار کرتا ہے ۔اس کے لئے ہر مسلمان اور خصوصاً ہر مومن کو تیار رہنا چاہئیے ۔جو لوگ کریم ہوتے انہیں ایسے مقام و منصب نصیب ہوتے ہیں کرامت کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔اللہ تعالیٰ کریم ہے اور جو بھی اس کی طرف سے آتا ہے وہ کریم ہے ۔ انبیاء کرام کریم ہیں ،ملائکہ کریم ہیں ،کتاب الہی کریم ہے ۔ کریم ایک کرامت کا قبیلہ ہے بس جس انسان کا ہدف الہی ہو جائےوہ کریم ہوتا ہے ۔ کریم اور کرامت بڑھائی (بزرگی) کا نام ہے ۔ کریم انسان پست نہیں ہوتا اس کی سوچ کریمانہ ہوتی ہے ۔ کریم انسان مظلوموں کا حامی اور ظالموں سے نفرت کرنے والا ہوتا ہے ۔ہمارے آئمہ اطہارؑ کریم تھے ۔ کریم باوقار ہوتا ہے ۔ داد رس اور ہمدرد ہوتاہے ۔

انہوں نے کہا کہ شہید سید سیدین زیدی امریکہ چھوڑ کر اپنے مظلوم عوام کی ہمدردی کے لئے پاکستان لوٹے تھے ۔ جب سانحہ راولپنڈی میں مظلوم مومنین کو بے گناہ اور بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کیا گیا تو شہید سے رہا نہ گیا اپنی فیملی کی پرواہ کیے بغیر وطن واپس لوٹ آئے اور راولپنڈی کے مومنین کی دن رات بے لوث خدمت کی اور انہیں عدالتوں سے باعزت بری کرایا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس رتبے اور مقام کے لئے منتخب کیا تھا آج وہ اس عظیم مقام جس کی آرزو انبیاء اور آئمہ کرام نے اپنی مناجات کی ہے ،پر فائز ہوئے۔ شہیدسید سیدین زیدی پوری شیعہ قوم کے لئے باعث فخر اور افتخار ہیں ۔شہیدکہتے تھے کہ امام خمینی ؒ اور امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کا راستہ عزت ووقار راستہ ہے اور شہید اسی راستے کے راہی تھے ۔شہید پیرو امام اور پیرو خط ولایت فقیہ تھے ۔ شہید کے اندر ایک بڑا پن اور مظلوموں کے لئے ہمیشہ تڑپ رہتی تھی ۔ شہید کے اندر قوم کا بے پناہ درد موجود تھا۔ان کی مذہبی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں نے اس قوم کو اپنے ایک قیمتی اثاثے سے محروم کر دیا ہے،وہ ایک گھر کا شہید نہیں بلکہ پوری ملت کا شہید ہے ، ہم شہداء کے وارث ہیں ہم ان کے پاکیزہ خون کی لاج ضرور رکھیں گے ۔ پاکستان میں جتنے بھی شہید ہوئے ہیں وہ ملت پاکستان کا ایک عظیم اثاثہ ہیں ۔ہم اس سرمایہ عظیم کی حفاظت کریں گے اور کبھی بھی ان شہداء کو فراموش نہیں ہونے دیں گے ،ہمارا مطالبہ ہے کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو فوری طور پر بے نقاب کر کے سولی پر چڑھایا جائے۔ ہم ایک بیدار قوم ہیں اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا زندہ و بیدار قوموں کا خاصا ہے۔ ہم اپنے شہدا کے خون کاانصاف چاہتے ہیں۔ حکومت دہشت گردوں کے ساتھ مفاہمتی رویہ ترک کرے اور قانون وانصاف کے تقاضوں کے مطابق انہیں کیفر کردار تک پہنچائے۔

مجلس ترحیم سے شہید کے بیٹے سید مزمل حسین زیدی نے بھی خطاب کیا اور شہید کی زندگی کے مختلف پہلوں  پر  روشنی ڈالی اور کہا کہ میرے بابا کو اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ ایک محب وطن باایمان اور مظلوں کے دادرسی تھے ، ہم پوری  فیملی اس بات کے گواہ ہیں کہ انہیں فیملی سے زیادہ مظلوموں اور محروموں  کی فکر رہتی تھی ان سے کوئی بھی ایک ملتا تو ان کا ہوکر رہ جاتا ہمیں اپنے بابا کی شہادت پر ناز ہے اور ہماری فیملی کو اتنے بڑے اعزاز اور رتبے پر فخر ہے ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree