The Latest
وحدت نیوز(حیدر آباد) مجلس وحدت مسلمین ضلع حیدرآباد کی جانب سے قدم گاہ مولا علی پر تفتان بارڈر پر زائرین امام (ع) کو پیش آنے والی دشواریوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا جس سے ضلعی ترجمان علامہ گل حسن مرتضوی اور سیکریٹری جنرل ضلع حیدرآباد ایڈووکیٹ رحمان رضا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زائرین کا سفرعبادت ہے اور حکومت کی نااہلی کی وجہ سے زائرین کی عبادت کا تقدس پامال ہوتا ہے اور زائرین کو کسی بھی قسم کی کوئی سہولیات نہیں دی جاتیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت وقت زائرین کی سہولیات، پینے کا صاف پانی، جاء نماز، سونے کی سہولت اور واش رومز کا بندوبست کرے۔
وحدت نیوز(لیہ) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری تنظیم سازی سید عدیل عباس زیدی نے کہا ہے کہ لیہ میں دریائے سندھ کے بڑھتے ہوئے کٹاو پر ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی چشم پوشی مجرمانہ غفلت ہے، ہزاروں کی آبادی اس دریائی کٹاو کی وجہ سے متاثر ہورہی ہیں تاہم حکومت نے ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملاقات کیلئے آنے والے دریائی کٹاو سے متاثرہ ایک عوامی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دریائی کٹاو روز بڑھ رہا ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، اب تک 9 یونین کونسلوں پر مشتمل ہزاروں کی آبادی اس کٹاو سے متاثر ہوئی ہے، لوگ اپن گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں، ہزاروں ایکٹر اراضی زیر آب آچکی ہے لیکن لیہ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر نے بھی اب تک متاثرہ عوام کی داد رسی تک نہیں کی۔ انہوں نے وفد کو یقین دلایا کہ مجلس وحدت مسلمین متاثرہ عوام کو ہرگز تنہا نہیں چھوڑے گی اور اس مسئلہ پر متاثرین کے شانہ بشانہ رہے گی۔
وحدت نیوز(مظفرآباد) ڈاکٹر عدنان معراج کو پرنسپل میڈیکل کالج تعینات کیا جائے۔ انتہائی ذہین و قابل ڈاکٹر ہیں ، خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ، عدالت عالیہ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ان کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیرمولانا سید طالب حسین ہمدانی نے وحدت میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ سی ایم ایچ مظفرآباد میں تعینات ڈاکٹر عدنان معراج انتہائی محنتی و ذہین ڈاکٹر ہیں۔ سی ایم ایچ میں آنے والے مریضوں کے لیے خصوصی دلچسپی لائق صد تحسین ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ میڈیکل کالج جو اس وقت بحران کا شکار ہے ، آئے روز ادارے کا سربراہ تعینات کرنے میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے، اس مسئلے کو دور کرنے کے لیے عدنان معراج کو پرنسپل تعینات کیا جائے، قوی امید ہے وہ اپنی صلاحیتوں سے ادارے کو عروج پر لے جائے گے، سی ایم ایچ میں ان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ، عدالت العالیہ بھی ان کے حق میں فیصلہ صادر کر چکی ہے ، مذید وقت ضائع کیئے بغیر ان کی تعیناتی کو یقینی بناتے ہوئے فیصلہ کا احترام کیا جائے ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) آج کے دور میں صاحب میڈیا وہ نہیں جو ایک بہت بڑے میڈیا (جیو،بی بی سی سی این این وغیر) کا مالک ہو اس کے پاس سینکڑوں، ہزاروں لوگ کام کرنے والے ہوں جیسا کہ پہلے ایسے ہی تها جو خود ہی ایک میسیج،پیام (یاد رہے کہ ہر خبر،ٹاک شو،ڈرامہ، فلم وغیرہ، غرض ہر پروگرام اپنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے، اس کے اندر کسی نہ کسی چیز کے بارے اطلاع هے ،غلط یا صحیح، جھوٹی یا سچی)تیار کرتے، اس کی پروڈکشن ہوتی ،اور پھر اس پیام کو اپنے تسلط اور میڈیا پرمکمل انحصاری کنٹرول کے ذریعے یا ایک حد اپنے انحصاری کنٹرول کے ذریعے اس پیغام کو نشر کرتے تهے اور یوں رائے عامہ کو اکیلے ہی اپنے کنٹرول میں لے لیتے تھے یا اپنے دوسروں ہمفکروں کے ساتھ ملکر رائے عامہ کو کنٹرول کرتے تهے . (ان بڑے بڑے میڈیا کے مراکز کا کنٹرول تها رائے عامہ بنانےپر اور رائے عامہ کو کنٹرول کرنے پر اور اسے اپنی مرضی کی سمت دینے پر ) لیکن آج micro media آنے کے بعد صورتحال بدل چکی ہے .آج دنیا میں جس کے پاس ایک اطلاع،ایک اہم پیغام ہے ،ایک ضروری پیغام ہے ،ایک مفید پیغام ہے وہ صاحب میڈیا ہے (مثلا پاراچنار کے دهرنے کو جب mass mediaنشر نہیں کر رہا تها ،اس وقت اس micro media کے ذریعے اس Black out کو توڑا گیا ،justice for parachinar والا ٹرینڈ top trend بنا ،لہذا اس وقت ہم صاحب میڈیا تهے ،ہمارے پاس میڈیا تها جس نے mass media کو شکست دی )
پس آج کے دور میں وہ شخص صاحب میڈیا نہیں جو mass media کے ایک بہت بڑے set up کا مالک ہو ، وسیع بجٹ رکهتا ہو ،اس طرح کے کئی وسائل اسکی دسترس میں ہوں ،یا کوئی مشہور اینکر ہو ، بلکہ آج اس شخص کو ہم صاحب میڈیا کہیں گے جس کے پاس ایک پیغام ہے .البتہ یہ بات واضح رہے کہ پیغام اور اطلاعات ( اور صرف information ) میں واضح فرق ہے ضروری نہیں کہ جس شخص کے پاس اطلاعات ہوں ،معلومات ہوں ،اسے آگاہی ہو اور ایک پیام کے لئے ضروری سارا matter ہو،ضروری نہیں کہ اس کے پاس ایک پیغام بهی ہو ،چونکہ پیام کا matter ابتدائی مواد ہے پیام تیار کرنے کے لئے (جیسا کہ 1970 کے انتخابات کے بعد جب حالات خراب ہوئے تو ایک صحافی تهے سید اطہر عباس انہوں نے تمام معلومات کو سامنے رکهتے ہوئے ،خبرکی سرخی یہ بنائی کہ ادهر تم ادهر ہم ، جو آج تک ذہنوں میں ہے )لہذا معلومات کو پیام میں اس طرح سے ڈهالنا کہ لوگ اسے دلچسپی سے پڑہیں ،سنیں یا دیکهیں .اس کام کے لئے کچھ چیزوں کا ہونا اور انکی طرف توجہ لازم ہے .اس پیام کی شکل و صورت کیسا ہو کہ دلچسپی سے پڑها،سنا یا دیکها جائے . اس کے لئے مثلاً مخاطبین،ناظرین اور سامعین کی درست شناخت لازم ہے (جن کے لئے وہ پیام تیار کیا جا رہا ہے ،جوانوں کے لئے ہے یا بڑہوں کے لئے، خواص کے لئے یا عوام کے لئے )اسی طرح مخاطب کی ضرورتوں کا پتہ ہو .مختلف قسم کے امکانی پیغامات میں سے مناسب پیام کا انتخاب اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا اسلوب اور انداز بهی مورد توجہ رہنا چاہئے۔
1. مخاطبین کی درست اور صحیح شناخت اور ان کی طرف خیرخواہانہ توجہ
میڈیا (پیام ) کی تاثیر اور اثر گزاری میں اضافے میں سب سے اہم عنصر مخاطب کی شناخت ہے ،یعنی میڈیا مخاطب کو کیا سمجهتا ہے ،یہ بات پیام رسانی کے اسلوب اور اسٹائل میں بہت موثر ہے ۔
2. مخاطب کی خصوصیات. قرآن میں مخاطب کی طرف دو طرح کی نگاہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
الف. مخاطب کی طرف فرعونی نگاہ اس طرح کی نگاہ سے اگر مخاطب کو دیکھا جائے تو مخاطب کو بندہ ، نوکر ،غلام اور رعیت سمجھ کر اس تک پیام پہنچایا جائے گا ،وہی نگاہ جو فرعون کی لوگوں کے بارے تھی
فحشر فنادي ..فقال انا ربكم الأعلي
اس فرعونی نگاہ میں لوگوں کا کام صرف سننا ہے اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ،اس نگاہ میں انسان کا میڈیا کے سامنے تسلیم ہو جانا ہے جیسا کہ در حقیقت صاحب پیام کے آگے سر جھکانا ہے ۔اس طرح سے مخاطب کو دیکھنا انسان کے سب سے بڑے وصف "خود اپنے لئے کسی چیز کو خود اپنی مرضی سے اختیار کرنا ،اور حقیقت کو تلاش کرنا " سے منافات رکھتی ہے ،اس طرح کے انداز میں انسان کو دیکھنے کی صورت میں پھر انسان تک وہ پیام بهیجا جائے گا جس سے وہ طاقت ور لوگوں کے سامنے تسلیم محض ہو جائے۔
فاستخف قومه فأطاعوه إنهم كانوا قوماً فاسقين
پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک (خفیف،هلکا اندر سے کھوکھلا )کر دیا اور انہوں نے فرعون (جیسے پست ) کی اطاعت کر لی وغیرہ یعنی فرعون نے ان سے ان کی انسانی کرامت،عزت نفس چهین لی تهی ،وہ بےوقار ،اور اندر سے کھوکھلے کر دئے گئے تهے ۔
ب. مخاطب کی طرف الہی نگاہ ،اس نگاہ میں انسان کی کرامت اور اسکی انسانیت کا خیال رکها جاتا ہے ،لوگوں کو رعیت ،نوکر احقر غلام سمجھ کر پیام نہیں دیا جاتا، خطاب نہیں کیا جاتا ،صاحب پیام اپنے آپ کو لوگوں کی قوت سماعت اور قوت بینائی کا مالک نہیں سمجهتا ، بلکہ اسے اپنے پیام کی حقانیت پر اس قدر ایمان رکهتا ہے کہ اسے پتہ ہے کہ انسان کی سماعت اور بینائی کی طاقت جس قدر آزاد ہونگے اس کا پیام ان کے لئے دیکهنے،سننے اور پڑھنے میں آور جذاب ہو جائے گا ،اس نگاہ میں مخاطب کی فطرت پیام کو درک کرنے اور اسے قبول کرنے کی اساس اور بنیاد (اور زمینہ ) ہے،انسان کے اپنی مرضی سے کسی چیز کو اپنانے ،اختیار کرنے ، اس کی حق اور حقیقت کے جستجو کرنے کی خصوصیت اور وصف کو محترم سمجھا جاتا ہے۔
فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنه أولئک الذین هداهم الله و أولئك هم أولو أﻷلباب
پس میرے بندوں کو بشارت دو ،وہی بندے جو (دوسروں کے) سخن کو سنتے ہیں اور اس میں سے بہترین (بات ) کی پیروی کرتے هیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہ صاحبان عقل ہیں ۔
اس نگاہ میں مقصد مخاطب کو غلام بنانا ،اپنا بندہ بنانا ،یا اس کو اپنے سامنے تسلیم کروانا نہیں .بلکہ مقصد اس کو جهل اور نادانی کی ان ہتھکڑیوں اور زنجیروں سے آزادی دلانا ہے جن میں وہ جکڑا ہوا ہے ۔
اس نگاہ میں صاحب پیام اپنے آپ کو مخاطب کے دل و دماغ اور اس کی سوج اور فکر پر مسلط نہیں قرار دیتا بلکہ اپنے آپ کو اس کے ساتھ برابر قرار دیتا ہے
اس نگاہ میں انبیاء کرام اپنے آپ کو لوگوں کا ارباب اور انکی فکر اور سوچ پر حاکم نہیں سمجھتے بلکہ اپنے آپ کو مخاطبین کے بهائی ،انکے ساتهی اور خدا کی طرف سیر تعالی ،تکامل میں ہمراہ کے پر بیان کرتے ہیں ۔
إ ذ قال لهم اخوهم نوح الا تتقون /إني لکم رسول امین/فاتقوا الله و أطيعون .....الخ جب انکے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم پرہیزگارنہیں بنو گے ......
فذکر إنما أنت مذکر ،لست علیهم بمصیطر
بس تو تذکر دے کہ تو صرف تذکر دینے والا ہے .......تو ان پر مسلط نہیں ہے (کہ ان کو ایمان لانے پر مجبور کرے)
اس نگاہ کی روشنی میں میڈیا کی ذمہ داری ،"ذکر" یعنی تذکر دینا هے ،اس وقت میڈیا (پیام ) یعنی "مذکر"
2. مخاطب (سامعین ،ناظرین، قارئین )کی ضرورتوں کا صحیح علم اور شناخت انسان کی سب سے اہم ضرورت اس کی "آگہی" یا آگاہی ہے .شیاطین ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ انسانوں کی آگاہی کا راستہ روکیں ،قدیم اورماڈرن جاہلیت اپنی بقا اور زندگی انسانوں کی "لاعلمی " اور نادانی اور جہالت میں سمجھتے ہیں ۔
وقال الذين کفروا لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فیه لعلکم تغلبون
کافرون نے کہا : اس قرآن کو نہ سنو ؛اور قرآن کی تلاوت کے دوران لغو (بیہودہ) باتیں کرو ،تاکہ شاید تم غلبہ پا لو۔
قدیم جاہلیت لوگوں کو منع کر کے جاہل رکھتی تهی اور ماڈرن جاهلیت information کی bombardment کے ذریعے انسانوں کو حقائق تک رسائی سے محروم کرتی ہے .یعنی یہ قدیم جاہلیت اور ماڈرن جاہلیت لوگوں کی آگاہی اور بصیرت ، حقائق اور صحیح معلومات تک رسائی کا راستہ روکنے کے لئے کهبی لا تسمعوا لهذا القرآن کہتے ہیں اور کبھی اس نامناسب اور غیر ضروری معلومات کی اس قدر یلغار کرتے ہیں تا کہ انسانی ذہن اس قدر مشغول ہو جائے کی حق بات تک رسائی سے محروم ہو جائے :"والغوا فيه"
قدیم جاہلیت یہ کوشش کرتی تهی کہ لوگ جاہل رییں اور لوگ کسی چیز کو نہ جانیں ( جھل بسیط کا شکار یوں ) اور ماڈرن جاہلیت کی کو شش یہ ہے کہ لوگ یہ نہ جانتے یوں کہ وہ نہیں جانتے ( جهل مرکب کا شکار یوں ) آج information کی bombardment ،انسانوں کو انگنت پیغامات کا اسیر کرنا ،یہ ایک ایسا میڈیائی استعمار ہے جو انسان کے دل و دماغ اس کی سوچ اور فکر کو تسخیر کر کے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ،اور انسان کے سرمایہ معرفت و شناخت کو چهین لیتا ہے (پھر جیسے وہ چاہتے ہیں ویسا ہی سوچتا ہے،اس کے افکار اور تفکر بهی انہی کی منشا ءکے مطابق ہو جاتا ہے )
ماڈرن جاہلیت اپنے شیطانی پیغام کو celebrities کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں .ان کے ذریعے اپنی مرضی کے پیغام لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچاتے ہیں ،جو نہ صرف یہ کے لوگوں کے عقل و شعور کو بیدار نہیں کرتے بلکہ رائے عامہ کی بےوقوف اور حماقت کا سبب بنتے ہیں۔
اس صورت میں انسان کی آگاہی حاصل کرنے کی عطش ( ضرورت )کو مصنوعی طور پر بجھایا جاتا ہے ،لوگ یہ سمجھتے هیں کہ ان کے پاس مثلاً دنیا کے بہت زیادہ نالج اور معلومات ہیں ،جبکہ information کی bombardment کی وجہ سے بہت سے انتہائی اہم واقعات اور حوادث یا تو اپنی اہمیت کهو بیٹهتے ہیں ،جو ممکن ہے کہ اس قدر اهم ہوں جو اسکی زندگی اور اس کے فیوچر کو بدل کے رکھ دیں۔
تحریر ۔۔۔۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
سوشل میڈیاکے ایک گروپ میں ہونے والی گفتگوسے اقتباس
وحدت نیوز(آرٹیکل)انسان دوستی کا عالمی دن (Humanitaryian day) 19اگست کو ہر سال اقوام متحدہ اور فلاحی تنظیموں کی طرف سے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد انسانی فلاح و بہبود کیلئے متحرک افراد اور انسانی جذبے کے تحت کام کرنے والے امدادی کارکنان کو سراہانا اور انکا خیال رکھنا ہے۔اقوا م متحدہ کی جانب سے 19اگست کو انسانی دوستی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ دسمبر 2008ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا۔19اگست ہی تھا جب 2003میں عراق کے شہر بغداد میں کینال ہوٹل پر بم حملے میں اقوام متحدہ کے سفیر سر جیو ڈی میلو Vieiraسمیت 22افراد ہلاک ہوئے تھے۔سر جیوعراق میں اقوام متحدہ اعلیٰ ترین نمائندے تھے۔اس واقعہ کے پانچ سال بعدجنرل اسمبلی نے عالمی انسانی ہمدردی کے دن کے طور پر 19اگست کو قرارداد منظور کی۔ بعد ازاں ہر سال انسانی بنیادوں پر کمیونٹی عالمی سماعت WHDیادگار بنانے کیلئے منظم کیا،یہ دن انسانی امداد فراہم کرنے والے کارکنوں کی حفاظت اور سلامتی کے قیام کی وکالت ،بقاء،بہبود اور بحرانوں سے متاثرہ افراد کے وقار کیلئے کام کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔خلق خدا کی بھلائی کی سر گرمیوں کے حوالے سے بنیادی سمجھ بوجھ کو عام کرنے کے ساتھ ان سر گرمیو ں میں شریک افراد کا احترام ،اور جو لوگ کار خیر کرتے ہوئے ہلاک ہوئے ان کو یاد بھی کیا جاتا ہے۔یہ دن دکھی انسانیت کی خدمت کر نے والوں کے نام ہے جو بلا تفریق رنگ و نسل ہر ممکن طور پر دکھی او ر ناچار انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ہزاروں مردو زن انسانیت کیلئے کام کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں کچھ تو بعض اوقات اپنے مقاصد کے حصول میں اپنی جان بھی کھو دیتے ہیں ۔ یہ وہ شخصیات ہوتی ہیں جو اس راہ میں جان دینے کوعین حیات خیال کرتیں ہیں ۔
طلاطم ہائے بحرزندگی سے خوف کیا معنی
جو دیوانے ہیں وہ موجوں کو بھی ساحل سمجھتے ہیں
دراصل ایسے لو گ اپنی قربانیوں سے ایک جہاں کوحیات جادواں بخشتے ہیں اور خود بھی زندہ جاوید رہتے ہیں ۔
19اگست انسان دوست عالمی دن کے طور پر منانے کا مقصد ان ہیروز اور انکی قر بانیوں کو یاد کرنا بھی ہے۔انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں بین الاقوامی تعاون کی ضرور ت اور اسکی اہمیت کو اجاگر کرنا، عالمی سطح پر انسان دوستی کے حوالے سے شعور کی بیداری بھی اس دن کے موضوعات میں شامل ہے۔ یہ دن مختص ہے تمام انسان دوست فعال کارکنوں کے نام اور اس سلسلہ میں ہونے والی تمام تر کاوشوں ، پروگرامز سے آگاہ ، جاری سر گرمیوں سے آگاہ کرنے والوں کیلئے۔
آج دنیا بھر میں بہت سی کمیونٹی اور بہت سی آرگنائزیشن لوگوں میں آگاہی پھیلانے کیلئے اشتہارات اور معلوماتی مواد کا سہارا لیتی ہیں اور پریس کے زریعے انسانیت کا پیغام دنیا تک پہنچانے کی کوشش بھی کرتیں ہیں ۔ انسان دوستی کا عالمی دن غریب اور ضرورت مندوں کی مدد اور تعاون کے عزم کے نام ہے۔ہر انسان کو چاہئے کے سوچے اور اپنی صلاحیت کے اعتبار سے انسانیت کی مدد کریں ۔یہ سب کچھ تعلیم اور شعور سے ممکن ہوگا۔اس سلسلہ میں ان ممالک کے حالات کا مطالعہ اور جائزہ ضروری ہے جہاں حقیقتًا جنگ وقوع پزیر ہوئی ہو اور انکی بد قسمتی کا مشاہدہ ضروری ہے تاکہ عام آدمی دکھی انسانیت کی خدمت کرنے پر خود کو تیا ر کر سکے۔
قارئین انسان تو دنیا میں ہر جگہ پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانیت کم کم ہی پیدا ہوتی ہے اگر ہم اس بات کو دیکھیں تو واقعی یہ بالکل ٹھیک بات ہے کیونکہ پاکستان میں 21کڑوڑ انسان آباد ہیں عبدالستار ایدھی ایک ہی تھا جو سچے دل اور اچھی نیت کے ساتھ اپنا کام بنا کسی لالچ کے سر انجام دیتے تھے۔ چھیپا ،رتھ فائو جیسے نام بہت کم ہیں ۔ ہاں دنیا میں روشنی کی بہت سی کرنیں موجود ہیں جو راستے کو روشنی کرنے کا کام دے رہی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے جو کام وہ سب کر رہے ہیں ہم بھی کر سکتے ہیں اس کے لئے سچ کی اور ہمت کی ضرورت ہے اور بس۔۔۔
تحریر ۔۔۔سلمان احمد قریشی
وحدت نیوز(آرٹیکل) آج سترہ اگست ہے ، آج کا دن ہمارے دانشمندوں کو جگانے کا دن ہے۔ کسی بھی ملت میں دانشمندوں کی حیثیت دماغ کی سی ہوتی ہے۔کسی شخص کا اگر دماغ مفلوج ہوجائے تو اس کا باقی بدن باہمی ربط کھو دیتاہے اور وہ الٹی سیدھی حرکات شروع کردیتاہے ،جسکی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ شخص پاگل ہوگیاہے۔
اگرکہیں پر دانشمند حضرات اچھائیوں کی ترغیب دیں تو لوگ اچھائیوں کی طرف آنے لگتے ہیں اور اگر برائیوں کی تبلیغ کریں تو لوگوں میں برائیاں عام ہونے لگتی ہیں۔
جس ملت کے دانشمند حضرات اپناکام چھوڑدیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تووہ ملت پاگلوں کی طرح الٹی سیدھی حرکات کرنے لگتی ہے اور اس ملت کے کسی بھی فرد کو کچھ پتہ نہیں چلتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے اور اسے کیا کرناچاہیے۔
یعنی جس ملت کے دانش مند افراد میدان میں رہتے ہیں وہ ملت میدان میں قدم جمائے رکھتی ہے اور جس ملت کے دانشمند افراد میدان خالی چھوڑدیں اس ملت کے قدم میدان سے اکھڑجاتے ہیں۔
کوئی بھی ملّت اس وقت تک انقلاب برپانہیں کرسکتی جب تک اس کے صاحبانِ فکرودانش اس کی مہار پکڑکرانقلاب کی شاہراہ پر آگے آگے نہ چلیں۔اگرکسی قوم کی صفِ اوّل دانشمندوں سے خالی ہو توایسی قوم وقتی طور پر بغاوت تو کرسکتی ہے یاپھر کوئی نامکمل یابے مقصد انقلاب تولاسکتی ہے لیکن ایک حقیقی تبدیلی اور بامقصد انقلاب نہیں لاسکتی۔
کسی بھی معاشرے میں دانشمندوں کی حیثیت،بدن میں دماغ کی سی ہوتی ہے،دماغ اگراچھائی کاحکم دے تو بدن اچھائی کاارتکاب کرتا ہے ،دماغ اگر برائی کاحکم دے تو بدن برائی انجام دیتاہے،دماغ اگر دائیں طرف مڑنے کاحکم دے توبدن دائیں طرف مڑجاتاہے اور اگر دماغ بائیں طرف مڑنے کا کہے توبدن۔۔۔
جیساکہ تحریک ِ پاکستان کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ برّصغیرکے مسلمانوں کی قیادت،علمائ،شعرائ،خطبائ،وکلائ،معلمین،مدرسّین،واعظین اور صحافی حضرات پرمشتمل تھی،انہوں نے نہتّے مسلمانوں کو طاغوت و استعمارکے خلاف کھڑاکردیااور ان کی قیادت میں برّصغرکی ملت اسلامیہ اپنے لئے ایک نیاملک بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعدحصولِ اقتدار کی دوڑشروع ہوئی توجاگیرداروں،صنعتکاروں،وڈیروں اور نوابوں نے دانشمندوں کودھتکارکرایک طرف بٹھادیا۔
صحافت کوملازمت بنایاگیا،علماء کو مسجدو مدرسے میں محدودکیاگیا،خطباء اور وکلاء کو فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات میں الجھایاگیا،معلمین ،مدرسین اور شعراء کافکرِ معاش کے ذریعے گلہ گھونٹاگیا۔ جس سے ملکی قیادت میں پڑھے لکھے اوردینی نظریات کے حامل باشعور افراد کاکردار ماندپڑتاگیا اور صاحبانِ علم و دانش کے بجائے رفتہ رفتہ بدمعاشوں،شرابیوں اور لفنگوں کاسکّہ چلنے لگا۔
ملکی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی گئی جن کا علم و دانش اور ملت و دین سے دورکاواسطہ بھی نہیں تھا۔
چنانچہ یہ نئی قیادت جیسے جیسے مضبوط ہوتی گئی ملتِ پاکستان ،قیام ِ پاکستان کے اہداف اور اغراض و مقاص سے دور ہوتی چلی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانے اور اس کے قیام کے اغراض و مقاصد کومٹانے کے لئے،نظریہِ پاکستان کو مشکوک قراردیاجانے لگا،انسانیت کے نام پر تقسیم ِ برّصغیر کو غلط کہاجانے لگااوردین دوستی کو انسانیت دوستی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کیاجانے لگا۔
جس سے نظریہ پاکستان کی جگہ کئی لسانی و علاقائی تعصبات نے جنم لیا اور ملت پاکستان لڑکھڑانے لگی ،یہ لڑکھڑاتی ہوئی ملت ١٩٧١ء میں دودھڑوں میں بٹ گئی اور پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔
١٩٧١ء سے لے کر ١٩٧٧ء تک باقی ماندہ پاکستان ،فوج اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں بازیچہء اطفال بنارہا،بالکل ایسے ہی جیسے آج سے پانچ سوسال پہلے اٹلی بازیچہء اطفال بناہواتھا،ایسے میں اٹلی کی طرح پاکستان کی قیادت میں بھی ایک میکاویلی ابھرا۔۔۔
پاکستان کا یہ میکاویلی١٩٢٤ء میں جالندھرمیں پیداہوا،ابتدائی تعلیم اس نے جالندھر اوردہلی میں ہی حاصل کی،١٩٤٥ء میں اس نے فوج میں کمیشن حاصل کیااور دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما،ملایا اور انڈونیشیامیں اس نے فوجی خدمات انجام دیں،برّصغیرکی آزادی کے بعد اس نے پاکستان کی طرف ہجرت کی،١٩٦٤ء میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقّی دی گئی اور یہ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوا،١٩٦٠ء سے ١٩٦٨ء کے دوران اسے اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا،مئی ١٩٦٩ء میں اسے آرمڈڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھربریگیڈئیر بنادیاگیا،١٩٧٣ء میں یہ میجرجنرل اوراپریل ١٩٧٥ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرفائزہوا اور یکم مارچ ١٩٧٦ء کو یہ پاکستان آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف بنا۔بالاخر١٩٧٧ء میں یہ پاکستان کے اقتدار کابلاشرکت غیرے مالک بننے میں کامیاب ہوگیا۔
اس کے مکمل فوجی فوجی پسِ منظر کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی ماہرین اس سے دھوکہ کھاگئے اوربڑے بڑے تجزیہ کار اس کی شخصیت کا درست تجزیہ نہ کرسکے۔
علمی و سیاسی دنیا آج بھی اس مرموزوپراسرارشخص کے بارے میں اس مغالطے کی شکارہے کہ یہ صرف ایک فوجی آدمی تھا اور کچھ نہیں۔حالانکہ اگر یہ صرف فوجی ہوتاتویحیٰ خان کی طرح عیاشیاں کرتا اور مرجاتایاپھر ایوب خان کی طرح دھاندلیاں کرتا اور رخصت ہوجاتااور اس کاشر اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتالیکن اس کے فکری بچے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مزید افزائشِ نسل ہورہی ہے۔
اس کے قائم کئے ہوئے تھنک ٹینکس اورمخصوص دینی مدرسے،اس کے پالے ہوئے سیاستدان،اس کے نوازے ہوئے صحافی،اس کے بھٹکائے ہوئے ملّا،اس کے تربیت دیے ہوئے متعصب لسانی و علاقائی لیڈرپاکستان اور جمہوریت کی شہ رگ کوآج بھی مسلسل کاٹ رہے ہیں۔
١٩٧١ء کے سیاسی بحران کے بعدپاکستان میں جدیدلادین سیاست کابانی اور پاکستانی میکاویلی ضیاء الحق،فوجی وردی کے سائے میں ١١سالوں کے اندروہ کام کرگیاجواٹلی کے میکاویلی نے١٥سالوں میں کیا تھا۔
چونکہ اٹلی کے میکاویلی کا پسِ منظر علمی اور سیاسی تھا لہذا اس کا سیاسی فلسفہ بہت جلد علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا اور اس پر لے دے شروع ہوگئی لیکن پاکستان کا میکاویلی بظاہرصرف اور صرف" فوجی "تھاجس کے باعث علمی و فکری حلقوں میں اس کی شخصیت کو سنجیدگی سے زیرِ بحث لانے کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا اور یہی ملتِ پاکستان کے دانشوروں سے بھول ہوئی۔
حتّیٰ کہ ذولفقار علی بھٹو سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ وہ خود کو تو دنیائِ سیاست کا ناخدااور اسے فقط "فوجی" سمجھتے رہے۔تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق جنرل ضیاء الحق ،جنہیں بھٹو نے ٨ جرنیلوں کو نظراندازکرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایاتھا،انھیں دن میں دومرتبہ مشورے کے لئے بلاتے تھے اور وہ ہردفعہ پورے ادب کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ یقین دلاتے:
سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔[2]
اس نے اپنی عملی زندگی میں جس فلسفے کو عملی کیا وہ اٹلی کے میکاویلی سے بھی زیادہ خطرناک تھا،اگر اس کی تمام تقریروں کو سامنے رکھ کراوراس کے دور کی تاریخ کے ساتھ ملاکردیکھاجائے ،نیز اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ جرنیلوںکی یاداشتوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کی اسلامی شخصیات کے بیانات کو بھی مدِّ نظر رکھا جائے تو اس کی فکروعمل کا خلاصہ کچھ اس طرح سے سامنے آتاہے:
"سیاست کا دین و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں لیکن سیاست کو دین و خلاق سے جدا کرنے کے بعد اس کا نام پھر سے دینی و اخلاقی سیاست رکھ دینا چاہیے"۔
موصوف کی دین ِ اسلا م اورشریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کودیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کوبھی یہ کہناپڑاکہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔ [3]
اس نے لادین سیاست کا نام دینی سیاست رکھ کرپاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکی کہ اس کی نام نہاد دینداری کی چھتری کے سائے میں بڑی بڑی نامی و گرامی دینی و سیاسی شخصیتیں آکر بیٹھ گئیں۔
اسے پیرومرشد اور مردِ مومن اور مردِ حق کہاجانے لگا،اس نے اپنی مکروہات و خرافات کو نعوزباللہ "نظامِ مصطفیۖ "کہنا شروع کردیا اورجب اپنا یہ حربہ کامیاب دیکھاتوامریکی اشارے پراپنے خود ساختہ نظام ِ مصطفیٰ ۖ کے جال میں جہادِ افغانستان کا دانہ ڈالا،
کسی طرف سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑاتواس نے دین کے نام پر کیسے کیسے آرڈیننس جاری کئے اورلوگوں کو کوڑے مارے۔۔۔اس ساری کاروئی کے دوران جو بھی اس کی مخالفت میں سامنے آیا اس نے اسے اپنی مخصوص سیاست کے ذریعے راستے سے ہٹادیا،یعنی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کا عملی مظاہرہ کیا ،
اس نے زوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کاروائی کو استعمال کیا،بظاہر اس نے اپنے آپ کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنا کر پیش کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو قتل کروانے کے لئے ،بھٹو کے شدیدمخالف ججز کولاہور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں تعینات کیا،اس بات کا اعتراف جیوٹی وی پر افتخاراحمد کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی کیا تھا۔
یادرہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کاتعلق ان چار ججوں سے تھا جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھاتھا،انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہناتھاکہ بھٹوکے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائوکی بناء پر کیاگیاتھا۔پ
پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد٢١مئی ١٩٧٩ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھاجس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کر کے ہلاک کردیاگیاتھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کاروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایاگیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر تشددیہ اقبالی بیان لینے کی خاطر کیاگیاتھاکہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایاہے۔
اگرآپ ضیاء الحق کی عملی سیاست اورشخصیت کاتجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف اپنی " عملی سیاست" میں اتاترک اور شہنشاہِ ایران کے جبکہ فکری سیاست میں میکاویلی کے ہم پلّہ تھے یاان سے بھی کچھ آگے ۔
جس کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ انھوں نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو انہوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے کہاکہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں،اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایاہے اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیاہے۔
آج سترہ اگست ہے اور آج کے دن ہمارے دانشمندوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم نے آج تک ضیاالحق کو کتنا سمجھا ہے اور اس کے اثرات سے اپنے معاشرے اور جمہوریت کو کتنے فیصد پاک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے دانشمندوں سے بحیثیت قوم بھول ہوئی ہے کہ ہم نے ضیاالحق کی باقیات اور نظریات کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔
منابع
جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہرسہیل
ضیاکے آخری ١٠سال از پروفیسرغفوراحمد
· جنرل ضیاکے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد
· اورالیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد
· بھٹو ضیاء اور میں ازلفٹیننٹ جنرل(ر)فیض علی چشتی
تحریر۔۔۔نذر حافی
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا تنظیمی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا کی اہمیت و افادیت ماضی کی طرح آج بھی مسلمہ ہے لیکن اس کے انداز میں تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ اب میڈیا غیر معمولی افرادی قوت یا بے بہا وسائل کا محتاج نہیں رہا ۔جس اطلاع کی فراہمی میں ماس میڈیا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے وہاں سوشل میڈیا اپنی حیثیت منوائے بغیر نہیں رہتا۔سانحہ پارہ چنار سمیت متعدد واقعات ایسے ہیں جہاں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو حکومتی احکامات کی پیروی میں خاموش رہنا پڑا لیکن سوشل میڈیا پر چلنے والی کمپین نے ان کی خاموشی کو توڑ کر اپنی اہمیت کو ثابت کیا۔ اگر آپ کے پاس درست اور مفید اطلاعات ہیں تو میڈیا کے کسی بھی ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے انہیں کم وقت میں ہزاروں افراد تک پہنچایا جاسکتا ہے۔اطلاعات کی فراہمی زیادہ موثر اسی صورت میں ثابت ہو گی جب آپ اپنے قارئین کی دلچسپی سے آگاہ ہوں گے اور جو اطلاع نشر کریں گے وہ پڑھنے والے کے مزاج سے ہم آہنگ ہو گی۔
انہوں نے کہا میڈیا پرسنز کو حقیقت شناس ہونا چاہیے۔دور عصر میں ہمارے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ غیر ملکی پروگراموں کی یلغار ہے۔ اس ثقافتی یلغار کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا واحد وسیلہ میڈیا ہے۔ اس ہتھیار سے ہماری نئی نسل کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ مغربی و ہندوانہ ثقافت کے سیلاب کے آگے بند باندھنے میں ہمارے ان نوجوانوں کو کردار ادا کرنا ہو گا جو میڈیا سے وابستہ ہیں۔ہماری اپنی روایات ، تشخص اور ثقافت ہے۔ہم سے ہماری شناخت چھینی جا رہی ہے۔اس شناخت کو قائم رکھنے کے لیے اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے آگہی انتہائی ضروری ہے ورنہ دشمن کی یلغار ہماری نئی نسل و وطن عزیز کو با آسانی اپنی سازشوں کی آماجگاہ بنا دے گی اور ہم سے ہماری اصل کو چھین کر ہمیں غلام بنا لے گی۔
وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں پڑھےلکھے نوجوانوں کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں داعش سے منسلک تنظیموں سے بہت زیادہ محتاط رہیں۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، پاک فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں پڑھےلکھے نوجوانوں کو اپنی طرف جذب کرنا چاہتی ہیں نوجوانوں کو چاہئے کہ داعش سے منسلک تنظیموں سے بہت زیادہ محتاط رہیں۔
پاک فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملک کا مستقبل نوجوانوں سے وابستہ ہے اور اللہ نے پاکستان کو ذہین اور متحرک نوجوانوں سے نوازا ہے۔
انہوں نے کہا مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیوں کا ادراک ہے اور نوجوان ملک کو امن و خوشحالی کی طرف لے جائیں گے۔
(آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید نے آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ کا دورہ کیا جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ان کا استقبال کیا۔
پاک فوج کے سربراہ نے آئی ایس پی آر میں انٹرن شپ کرنے والے نوجوانوں سے ملاقات کی اور کامیابی سے انٹرنشپ مکمل کرنے والے نوجوانوں کو مبارک باد دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو تشدد اور دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے فوج نے عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید نے پاکستانی نوجوانوں سے کہا کہ کامیابی کے لیے شارٹ کٹس کی طرف نہ جائیں بلکہ میرٹ اور قانون کی حکمرانی پر عمل کریں
انہوں نے نوجوانوں کو ہدایت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کامیابی و ترقی کے لیے اللہ پر ایمان، والدین کا احترام ، سخت محنت پرانحصار کریں۔
آرمی چیف نے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ پاک فوج انہیں محفوظ اور مستحکم پاکستان فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے اور فوج اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
وحدت نیوز(رحیم یارخان) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع رحیم یار خان کی سیکرٹری جنرل بیگم سید حسنین نقوی نے یونٹ محمدپور لمہ کا دورہ کیا اور خواہران سے ملاقات کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے کی کامیابی میں جہاں مرد کا کردار ہوتا ہے اسکے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ اسکی تربیت کرنے والی عورت ہے، اس لئیے ہم تعلیم یافتہ اور منظم ہوکر اپنے بچوں کی تربیت کریں تاکہ ایک پڑھا لکھا اور مہزب معاشرہ بنانے میں اہم کرداراداکرکے بی بی سیدۃ النساًءالعالمین سلام اللٰہ کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔
وحدت نیوز (رحیم یار خان) مجلس وحدت مسلمین ضلع رحیم یارخان کی کابینہ کا ماہانہ اجلاس منعقد ہوا، جس میں ایک سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کی گئی۔ شعبہ تنظیم سازی ستمبر کی رپورٹ کے مطابق ستمبر 2016 میں ضلع میں یونٹس کی تعداد سولہ تھی اور اسوقت 85 ہے، علاوہ ازیں فلاح و بہبود چکے شعبہ کے تحت چار مساجد کا قیام، دو مسجدیں تعمیری مراحل میں, دومسجدوں کے لئے جگہ مختص, چالیس تا پنتالیس مومینین کی نوکریاں لگوائی گئیں، پانچ الیکٹرک واٹرکولر لگوائے, تبلیغات کے شعبہ میں 14 دینیات سنٹر بنام مکتب ولایت کا قیام، مختلف یونٹس میں دعائے کمیل، دعائے توسل، حدیث کساء کی محافل، ماہ رمضان میں قرآن و آئمہ شناسی کے عنوان سے مساجد میں پروگرام، استقبال رمضان وبقیتہ اللٰہ کانفرنس، ۲۲جولائی کو چوک بہادر پور میں دھرنا، ریلیاں مختلف مناسبت سے، سیاسی حوالےسے مختلف مقامات پر سیاسی اکابرین، مذہبی وسماجی شخصیات سے ملاقتیں، سانحہ کوئٹہ وپاراچنار کے حوالے سے احتجاجی ریلیاں، عیدالفطر کو قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کے حکم پر یوم سیاہ کے طور پرمنایا، رابطہ مہم اور قائد شہید کی برسی میں بھرپورشرکت کی۔ اس موقع پر سیکٹری جنرل سید حسنین رضانقوی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی پوری ٹیم کومبارکبا دیتا ہوں اور انشاءاللٰہ ہم ضلع کومثالی ضلع بنائیں گے۔ ان کا تفتان میں پھنسے ہوئے زائرین کی مشکلات پر بات کرتے ہوئےکہنا تھا کہ حکومت کی ذمداری ہے کہ زائرین کو سہیولیات دے، ااس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے, بےحس حکومت سے استعفیٰ کا مطلبہ کیا گیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ الیکشن میں ہم ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے اپنے امیدوار کھڑے کریں گے اور بھرپور حصہ لیں گے۔