وحدت نیوز(آرٹیکل) پانچ اپریل 2020 کی تازہ رپورٹ کے مطابق ابتک دنیا بھر میں کرونا وائرس کی کنفرم تشخیص ہونے والوں کی تعداد بارہ لاکھ سے زیادہ (1,202,433) ہے اور مرنے والے پونے پینسٹھ ہزار (64,729) افراد۔ سب سے زیادہ متاثرین امریکا میں رپورٹ ہوئے جنکی تعداد 311301 افراد ہیں جبکہ سب سے زیادہ اموات اٹلی میں 15,362 افراد کی ہوئیں جہاں کنفرم وائرس لگنے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار افراد سے زیادہ ہے۔ جبکہ اسپین میں ایک لاکھ پچیس ہزار کے قریب افراد میں وایریس کنفرم ہوچکا ہے جہاں بارہ ہزار کے قریب افراد اس وبا کی نذر ابتک ہوچکے ہیں۔ یورپ کی دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سے جرمنی کے 86 ہزار کے قریب افراد میں وایریس کنفرم ہیں اور گیارہ سو سے زیادہ اموات ہوچکیں، فرانس میں ستر ہزار کے قریب پازیٹیو کیسز اور  ساڑھے سات ہزار اموات، برطانیہ کے اندر 42 ہزار کے قریب پازیٹیو کیسز اور چار ہزار سے زیادہ اموات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ بیلجیئم ، سوئٹزرلینڈ ، نیدرلینڈز، پرتگال، آسٹریا، سوئیڈن، ناروے وغیرہ کے نمبر انکے بعد آتے ہیں۔

ایشین ممالک میں سب سے زیادہ وایریس کے مثبت کیسز ابتک چائینہ میں سامنے آئے ، جہان آفیشل فیگر تقریبا 83 ہزار کی ہے ابتک چائنہ میں 33 سو سے کچھ زیادہ اموات رپورٹ ہوچکیں۔ دوسرے نمبر پر ایران آتا ہے، جہاں 56 ہزار کے قریب افراد کے وایریس کے ٹیسٹ مثبت آئے اور ساڑھے 34 سو افراد کی اموات ہوئیں۔ ترکی تقریبا 24 ہزار مثبت کیسز  اور پانچ سو اموات کیساتھ تیسرے ، کوریا سوا دس ہزار مثبت کیسز اور پونے دو سو اموات کیساتھ چوتھے، جبکہ اسرائیل تقریبا 8 ہزار مثبت کیسز اور 43 اموات کیساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ ایشیائی ممالک میں ملائشیا، جاپان، فلپائن اور انڈیا کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے جہاں ابتک 28 سو کے قریب افراد کے مثبت ٹیسٹ رپورٹ آچکے اور 40 اموات ہوچکیں۔

براعظم جنوبی امریکہ کے ممالک میں مجموعی طور  پر اکیس ہزار افراد کے وایریس ٹیسٹ مثبت آئے اور سات سو افراد کی اموات ہوچکیں، اس میں سب سے زیادہ برازیل سے  نو سو مثبت کیسز اور ساڑھے تین سو اموات شامل ہیں۔ شمالی امریکی ممالک میں امریکا کے بعد کینیڈا 14 ہزار مثبت کیسز اور اڑھائی سو اموات کیساتھ دوسرے نمبر ہے۔ اوشین ممالک میں سے سب سے زیادہ آسٹریلیا کے اندر چھے ہزار مثبت کیسز رپورٹ ہوئے جہاں 34 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ ایک ہزار مثبت کیسز کیساتھ نیوزی لینڈ دوسرے نمبر ہے۔ براعظم افریقہ کے مماک اس دوران دیگر ممالک کی نسبت محفوظ ہیں۔ مجموعی طور پر افریقی ممالک میں نو ہزار افراد کے وایریس ٹیسٹ مثبت آئے جبکہ چار سو کے قریب افراد ہی کیلئے یہ وبا جان لیوا ثابت ہوا۔

 مجموعی طور پر پوری دنیا میں 212929 افراد کرونا وایریس کا کنفرم شکار ہوچکنے کے بعد صحتیاب ہوچکے ہیں۔

ان حقائق سے واضح ہے اس وقت تمام ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ممالک اس وائرل وبا کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ تمام ٹیکنالوجی، سائنسی و اقتصادی ترقی، دوسرے غریب ممالک پر جمانے والے رعب و دبدبے کے باوجود جدید دنیا اس وایریس کے علاج میں ابتک ناکام، اور بڑے بڑے تحقیقی ادارے ویکسین کی تیاری میں شب و روز کوشاں ہیں۔ اقتصادی دنیا کے سب سے بڑے نام چائنہ کو تین ماہ لگے، تمام سماجی و اقتصادی اور تعلیمی دیگر سرگرمیوں سے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو روک کر وائرل وبا کو پھیلنے سے روکنے میں بظاہر کامیابی مل سکی، جبکہ امریکا اور یورپ سمیت دیگر ممالک بھی چائینیز کے طریقہ کار کو اپنا کر اس وبا کی روک تھام کیلئے کوشش کررہے ہیں۔ اربوں ڈالر تحقیقی و طبی اداروں، سیکیورٹی اور خوراک وغیرہ پر خرچ کرنے پر دنیا مجبور ہے تاکہ مزید لوگوں کو اسکا شکار ہونے سے بچایا جاسکے۔ اسلحہ فیکٹریوں، جنگی الات، فوجی مشقوں اور دیگر ممالک پر سبقت لیجانے کیلئے سالہا سال سے کئے جانیوالے اخراجات اسوقت کسی بھی ملک کے کام آنے سے قاصر ہے۔ بڑے ممالک تک کے طاقتور ترین شخصیات اور بزنس ٹائیکون اپنے تمام تر اختیارات اور مال و متاع کے باوجود اپنی صحت کیلیے فکر مند ہیں، انکے دولت و طاقت کی انبار کی بجائے احتیاطی تدابیر ہی انہیں اس جان لیوا مرض سے محفوظ رکھنے کا آسرا ثابت ہوچکا ہے۔ ایسے میں غریب ممالک کے عوام احتیاط نہ کرے تو اور کیا کرے! سو خدارا احتیاط کیجئے۔ اپنے ساتھ اپنے عزیزوں کیلئے احتیاط، ملک و قوم کیلئے اور عالم انسانیت کیلئے احتیاط۔۔۔۔


تحریر: شریف ولی کھرمنگی

وحدت نیوز(آرٹیکل)2011 سے اب تک شام کی سر زمین پر ایک ملین کے قریب انسانوں کے قتل، اور پانچ ملین کے قریب انسانوں کو ملک کے اندر اور باہر ہجرت پر مجبور کرنے کے بعد کوئی بھی عقل مند شخص یہ بات قبول نہیں کر سکتا کہ "قانون قیصر " امریکی کانگریس  نے شامی عوام کی محبت اور انکے دفاع کی خاطر بنایا ہے. سیرین عوام کیسے قبول کر سکتے ہیں، کہ امریکہ انکا ہمدرد ہے، جبکہ اس نے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو فلسطین کی سرزمین پر مسلط کیا، اور ہمیشہ فلسطین کے علاوہ اردن ، مصر ، لبنان اور شام کی سرزمینوں پر ناجائز اسرائیلی قبضے کی مکمل پشت پناہی کی. اور حال ہی میں ٹرامپ نے اعلان کیا کہ مقبوضہ جولان بھی اسرائیل کی قانونی ملکیت ہے. تاریخ میں ایک مرتبہ بھی اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر امریکہ نے شامی عوام کے حق کی کبھی بھی حمایت نہیں کی. لاکھوں دھشتگردوں کو دنیا بھر سے لا کر تباہی وبربادی پھیلانے اور بے گناہ عوام کے قتل عام کے لئے جدید ترین اسلحہ فراہم کرنے اور ان درندوں کی ہر طرح کی مدد کرنے کے بعد امریکہ آخر میں پوری دنیا کے سامنے یہ جھوٹ بولے کہ اسے شامی عوام کی فکر وہمدردی ہے یہ ہر گز قابل قبول نہیں.  

بلکہ حقیقت یہ کہ اس قانون کا مقصد جنگ زدہ شامی عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنے کے اقوام متحدہ کے فیصلے کے سامنے رکاوٹیں حائل کرنا ہے. تاکہ شامی عوام کا مزید اقتصادی استحصال ہو. اور بنیادی ضروریات زندگی سے محروم اور کسم پرسی و شدید غربت وفقر وافلاس میں مبتلا بیگناہ عوام کو زندہ رہنے کے حق سے بھی محروم کیا جا سکے. وہ امریکہ کہ جس نے چند سالوں سے ملک شام کی  سرزمین کے ایک حصے پر ناجائز غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے اور اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں. اور اس ملک کے معدنیات اور تیل کے ذخائر کو لوٹ رہا ہے امریکی صدر ٹرامپ پوری وقاحت سے دنیا کے سامنے اعلان کرتا ہے کہ شام کے تیل کے ذخائر میرے اختیار میں ہیں. اتنے بڑے جنایتکار اور کھلے دشمن کو شامی عوام سے ہرگز ہمدردی ہو نہیں سکتی.  اور نہ ان تکفیری پراکسیز اور امریکی اتحادی ممالک کو ہمدردی ہو سکتی ہے، جو اس ملک کی تباہی اور عوام کے قتل عام میں شریک ہیں.  اور انکے میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا چلتا رہتا ہے.

داعش کی شکست اور امریکی وترکی واسرائیلی خوابوں پر پانی پھر جانے اور مقاومت کے بلاک کی مسلسل کامیابیوں کے بعد بہت سے ممالک نے شام کے ساتھ دوبارہ سفارتی تعلقات بڑھانا شروع کئے. کئی سالوں سے مختلف ممالک کے بند سفارتخانے اور قنصل خانے فعال ہوئے. شام کے بارے میں امریکی سیاست کو تنہائی کا احساس ہوا. اقوام متحدہ کی تائید اور روس ، ایران ، ترکی وشام حکومت واپوزیشن کے مابین آستانہ اور سوچی شہروں میں شامی بحران  کے سیاسی حل کے لئے مذاکرات کا سلسہ شروع ہوا، اور شام میں جنگ کے خاتمے کے مرحلے کا آغاز ہوا تو امریکی تنہائی اور بڑھ گئی. امریکہ نے دیکھا کہ اربوں اور کھربوں ڈالرز خرچ کرنے بعد نہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی شام کی تعمیر نو اور مستقبل کی سیاست میں اسکا کو کردار ہو گا. اس لئے شام کے مستقبل کے مذاکرات میں شرکت کرنے اور سیاسی مفادات حاصل کرنے اور اپنا دباؤ بڑھانے کے لئے قانون قیصر کا سہارا لیا. اور شام پر مزید اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دی. اس اندھے قانون کی شقوں کے مطابق "قانون قیصر " کی زد میں فقط شام حکومت ہی نہیں آتی، بلکہ اسکی زد میں ہر وہ ملک بھی آتا ہے جو شام کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات بڑھائے گا. اور جو کسی قسم کی امپورٹ وایکسپورٹ کرے گا، یا شام کو ضروریات زندگی فراہم کرنے اور تعمیر نو میں اسکی مدد کرے گا. بلکہ اس کی زد میں وہ کمپنیاں ، بنک اور دیگر ادارے وافراد بھی آتے ہیں جو کسی قسم کے علمی تجربات ومعلومات ، مینجنگ اینڈ پلاننگ خدمات وغیرہ فراہم کریں گے.

لیکن جیسے ملک شام اس طولانی جنگ میں تنہا نہیں تھا.  اب بھی تنہا نہیں رہے گا. شام کے اتحادی اور دوست ممالک کل بھی شام کے ساتھ کھڑے تھے اور آج بھی شام کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے. اور امریکہ کا یہ حربہ بھی سابقہ حربوں کی مانند بری طرح ناکام ہوگا. اور امید تو یہی ہے کہ روس ، چین ، ایران اور دیگر دوست واتحادی ممالک اس اقتصادی جنگ میں بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو شکست دیں گے. جیسے وینزویلا پر امریکی پابندیوں کو چیرتے ہوئے ایرانی تیل سے بھرے بحری جہاز کاراکاس پہنچے تھے اور اقتصادی حصار کو توڑا تھا ایسا ہی کل 13/06/2020 کو ملک شام کے وفادار و اتحادی اور بردار ملک ایران کا امدادی  سامان سے بھرا بحری بیڑہ (شہر کرد ) تمام تر امریکی پابندیوں کو روندتے ہوئے شام کے لاذقیہ شہر کے ساحل پر لنگر انداز ہوا ہے، اور اس سفر کے دوران ایرانی جنگی آبدوزیں پورا راستہ اسکی حفاظت کے لئے تیار اس کے ہمراہ رہیں.

تحریر: علامہ ڈاکٹر شفقت شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح فلسطین کے علاقہ غزہ میں الشجاعیہ نامی علاقہ میں یکم جنوری 1958ء کو ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم، اسی علاقہ میں ہی حاصل کی اور پرائمری اسکول سے پاس ہونے کے بعد میٹرک بھی اسی علاقہ کے ایک اسکول سے کیا۔ آپ نے اعلیٰ تعلیم مصر میں حاصل کی اور معاشیات میں گریجویٹ ہونے کے بعد غزہ میں واپس مقیم ہوگئے اور یہاں پر آپ نے غزہ کی ایک اسلامی جامعہ میں معاشیات کے مضمون کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینا شروع کیں۔ یہ سنہ1981ء کی بات ہے، اس وقت فلسطین کے متعدد علاقوں پر غاصب صہیونیوں کا قبضہ تھا اور فلسطین روزانہ صہیونیوں کے مظالم سے گزر رہا تھا۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ زمانہ طالب علمی سے ہی فلسطین میں سرگرم عمل ’’جہاد اسلامی فلسطین‘‘ نامی تنظیم سے متاثر تھے، آپ خود بھی فلسطین پر صہیونیوں کے غاصبانہ تسلط اور فلسطین پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف تھے۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ اسلامی یونیورسٹی آف غزہ میں تدریس کے دوران طلباء کو حریت پسندی کا درس دیتے تھے اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور مزاحمت کی تدریس کرتے تھے۔ یہی وجہ بنی کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے غزہ کی اس یونیورسٹی میں آپ کو تدریس کا عمل جاری رکھنے سے روک دیا اور رمضان عبد اللہ کو ان کے گھر میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔ اس زمانہ میں آپ کو شدید تکالیف برداشت کرنا پڑیں، لیکن آپ نے نوجوانوں کے لئے اسلامی مزاحمت کا درس جاری رہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ سنہ 1986ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے، جہاں سے انہوں نے لندن کی مشہور جامعہ ڈرم سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ لندن میں مقیم رہتے ہوئے بھی آپ نے ہمیشہ فلسطین کے مسئلہ کو اجاگر کرتے رہنے کی کوشش کی اور اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ یہاں بہت سے دوستوں کے ساتھ آپ نے قریبی تعلقات قائم کئے اور ان کو فلسطین کے حالات پر نظر رکھنے اور فلسطین کے لئے سرگرم عمل جہاد اسلامی فلسطین کی خدمات پر ان کی مدد کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ نے لندن سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کویت میں شادی کی اور اس کے بعد واپس لند چلے گئے اور وہاں سے امریکہ کا سفر اختیار کیا۔ آپ نے سنہ 1993ء اور سنہ1995ء میں جنوبی فلوریڈا میں تدریسی فرائض انجام دیئے۔ آپ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے، جن میں سے ایک زبان عبری زبان بھی ہے۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ جس زمانہ میں مصر میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، اسی زمانہ میں ان کی ملاقات فلسطین کی جدوجہد آزادی کی جنگ لڑنے والے ایک عظیم مجاہد اور جہاد اسلامی فلسطین کے بانی ڈاکٹر فتحی شقاقی سے ہوئی۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شہید فتحی شقاقی کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے، حالانکہ رمضان عبد اللہ معاشیات کے شعبہ میں تھے جبکہ فتحی شقاقی طب کے شعبہ میں تھے۔ ڈاکٹر فتحی شقاقی نے رمضان عبد اللہ کو اس زمانے کے اسلامی قائدین جن میں امام حسن البناء، سید قطب کی کتابوں سے آشنا کروایا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب تازہ تازہ رونما ہوا تھا۔ اس دوران فتحی شقاقی ایران کے اسلامی انقلاب کو بھی دقیق نگاہ سے مشاہدہ کر رہے تھے اور انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی سے بے حد متاثر تھے۔ فتحی شقاقی نے رمضان عبد اللہ کو امام حسن البنا، سید قطب اور امام خمینی کی کتب اور افکار و نظریات سے آشنا کیا۔ اس زمانہ میں دونوں کی دوستی مزید گہری ہوتی چلی گئی اور بات یہاں تک آن پہنچی کہ دونوں نے مشورہ کیا کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے لئے جہاد اسلامی فلسطین نامی تنظیم کا قیام عمل میں لایا جائے۔

اس زمانہ میں فتحی شقاقی اخوان المسلمون سے منسلک تھے اور طلاءع الاسلامیہ نامی ایک چھوٹے سے گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔ رمضان شلح بھی اس تنظیم میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد اس تنظیم کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس میں مزید فلسطینی طلباء کی بڑی تعداد شامل ہوگئی۔ وہیں سے اسلامی جہاد کی بنیاد پڑی، مگر رمضان شلح غزہ واپسی کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ڈاکٹر فتحی شقاقی اور ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کی دوستی گہری سے گہری تر ہوتی رہی اور دونوں کی فکر اور نظریات بھی فلسطین کو صہیونی شکنجہ سے نجات دلوانے کے لئے یکساں تھے۔ ڈاکٹر الشقاقی اور رمضان شلح برطانیہ اور اس کے بعد امریکا میں بھی ایک دوسرے سے جا ملے اور انہوں نے مل کر جہاد فلسطین کے لیے ایک تنظیم کے قیام پر کام شروع کیا۔ اس طرح باقاعدہ جہاد اسلامی فلسطین کا قیام عمل میں لایا گیا۔

غاصب صہیونی دشمن ہمیشہ سے ڈاکٹر فتحی شقاقی کی سرگرمیوں سے خوفزدہ تھا اور جہاد اسلامی فلسطین کے قیام کے بعد سے اسرائیل کو مختلف موقع پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مجاہدین کی کارروائیوں میں اسرائیل کو اکثر نقصان اٹھانا پڑتا تھا، اس ساری کامیابی کا سہرا شہید رہنماء ڈاکٹر فتحی شقاقی اور ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کے سر تھا۔ سنہ 1990ء میں صہیونی غاصب اسرائیل کی بدنامہ زمانہ دہشت گرد ایجنسی موساد نے ایک بزدلانہ کارروائی میں جہاد اسلامی فلسطین کے بانی رہنما ڈاکٹر فتحی شقاقی کو مالٹا کے دورے کے دوران شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد تنظیم کی قیادت کی ذمہ داری ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کے کاندھوں پر آن پڑی، جس کو انہوں نے اپنی وفات تک نبھایا۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح نے جہاد اسلامی فلسطین کے بطور سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریوں کو احسن انداز سے نبھایا اور اپنے عزیز رفیق شہید فتحی شقاقی کے چھوڑے ہوئے نقش قدم پر چلتے ہوئے صہیونی دشمن کی نیندیں حرام کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اعتراف کیا کہ فلسطینیوں کی دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران جہادی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجی واصل جہنم ہوئے، جس کے لئے براہ راست اسرائیل نے ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان تمام کارروائیوں کے احکامات خود ڈاکٹر رمضان شلح نے دیئے تھے۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کے لئے فلسطین کی زمین تنگ کر دی گئی اور صہیونی دشمن نے ان کے قتل کی منصوبہ بندی میں تیزی لاتے ہوئے جلد از جلد ان کو راستے سے ہٹانے کا پلان بنا لیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کو اپنے وطن سے جلا وطن ہونا پڑا اور آپ دمشق تشریف لے گئے، جہاں پر آپ کو دمشق حکومت سے والہانہ انداز سے اپناتے ہوئے دمشق میں جہاد اسلامی فلسطین کا دفتر جو پہلے سے قائم تھا، اسے مزید تقویت دی گئی اور اس طرح آپ بیروت اور دمشق میں رہنے لگے اور صہیونی دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں سے خود کو محفوظ کرتے ہوئے مجاہدین کی قیادت انجام دیتے رہے۔ آپ کی فلسطین کے لئے کی جانے والی جہاد پسندانہ کوششوں کے جرم پر سنہ 2017ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے آپ کو بلیک لسٹ قرار دیا تھا۔ اس سے قبل سنہ 2003ء میں امریکا کی ایک عدالت نے 53 بین الاقوامی اشتہاریوں میں ڈاکٹر رمضان شلح کو شامل کر دیا تھا۔ سنہ 2007ء کو امریکی محکمہ انصاف نے ان کی گرفتاری میں مدد دینے پر پانچ ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح نے جہاں فلسطین کے لئے مزاحمت کی قیادت کی، وہاں آپ نے فلسطین میں بعد میں قائم ہونے والی تنظیم حماس کے ساتھ بھی بھرپور تعاون جاری رکھا۔ آپ شیخ احمد یاسین کے ساتھ دلی عقیدت رکھتے تھے۔ آپ نے جہاد اسلامی فلسطین کو لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے ساتھ بھی بہترین رشتہ میں جوڑ کر رکھا اور اسرائیل مخالف کارروائیوں میں ہمیشہ جہاد اسلامی اور حزب اللہ نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دشمن کو نقصان پہنچایا۔ یہ ڈاکٹر رمضان عبداللہ کی قائدانہ صلاحیت ہی کا نتیجہ تھا کہ خطہ کی دیگر اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ بہترین تعلقات اور تعاون قائم کیا گیا۔ نہ صرف مزاحمتی تنظیموں بلکہ ہر اس حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار کئے، جس نے فلسطین کے لئے بھرپور حمایت اور مدد کی، اس میں سب سے زیادہ ایران اور شام سرفہرست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر رمضان عبداللہ اکثر و بیشتر ایران کا دورہ کرتے تھے، وہاں اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقات کرتے اور موجودہ حالات پر گفتگو کرتے تھے۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح سنہ 2018ء میں علیل ہوگئے اور آپ کی علالت کے بعد تنظیم نے زیاد النخالہ جو کہ آپ کے نائب تھے، ان کو تنظیم کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا۔ آپ تین سال بیروت کے ایک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد 6 اور 7 جون کی درمیانی شب ہفتہ کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔ طویل علالت کے بعد انتقال کرنے والے اسلامی جہاد کے عظیم مجاہد رمضان شلح نے پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ، اپنے وطن اور قضیہ فلسطین کی خدمت میں گذاری۔ ان کی زندگی جود و سخا، جہاد، مزاحمت اور خدمت خلق کا مجموعہ تھی۔ آپ نے سوگواروں میں دو بچے اور دو بچیاں چھوڑی ہیں۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کی وفات صرف فلسطین کا ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کا نقصان ہے اور ہر آنکھ آپ کے لئے اشک بار ہے۔

 

تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(آرٹیکل) معنی گناہ
لغت میں گناہ مختلف ناموں جیسے (اثم. جرم. معصیت) سے پہچانا جاتا ہےاصطلاح میں گناہ یعنی حرام یا ناپسند کام کا مرتکب ہونا یا ایک واجب عمل کو ترک کر دینا. یا ہر وہ کام کہ جس کے ذریعے انسان حدود الھی کو پامال کر دے.قرآن کریم نے گناہ کو مختلف الفاظ جیسے (ذنب؛معصیت؛ اثم؛ سیئه ؛ جرم؛ خطیئه، فسق، فجور، فساد، منکر، فاحشه، شر؛ لمم، وزر،) سے تعبیر کیا ہے.

اسباب گناہ

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہر معلول کے پیچھے ایک علت دخیل ہوتی ہے. جس طرح معلول بغیر علت کے نہیں ہو سکتا اسی طرح گناہ بھی بغیر اسباب کے نہیں ہو سکتے  جو موجب بنتے ہیں کہ انسان گناہ کا ارتکاب کرے اور خداوند متعال کی حدود سے تجاوز کرےلہذا ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم پہلے گناہوں کے اسباب سے آگاہ ہوں. تاکہ ہم ان اسباب کا صدباب کریں اور معصیت سے بچیں.

1.  دین سے دوری
گناہوں کے اسباب میں سے سب سے پہلا سبب ایک انسان کی دین سے دوری ہے. جو شخص بھی دین سے دور ہوتا ہے اسکے لئے گناہ کرنا آسان ہوتا ہے. اس کے بر عکس اگر انسان دین دار ہو خداوند متعال کے قریب ہو وہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا.

اس دور میں جتنے بھی فسادات ہو رہے ہیں چاہے وہ گھریلو ہوں. خاندانی ہوں. سیاسی ہوں. اجتماعی ہوں وغیرہ.. . ان سب کے جہاں پر اور بہت سے اسباب ہیں وہاں سب سے بڑا سبب خدا اور دین خدا سے دوری ہے.

لہذا جتنا انسان خدا اور دین خدا کے قریب ہو گا اس کا عقیدہ پختہ ہو گا اتنا ہی وہ انسان گناہوں سے پاک رہے گا.

ایسے انسان کہ جو بالکل دین اور خدا سے دور ہیں کسی قسم کا نیک عمل انجام نہیں دیتے خداوند متعال نے قرآن میں انہیں خاسرین سے تعبیر کیا ہے کہ یہ لوگ خدا اور دین خدا سے دور ہیں نیک اعمال انجام نہیں دیتے اور دوسروں کو حق (نیک اعمال) کی ترغیب نہیں دلاتے لہذا یہ خسارے میں ہیں.  وَ الْعَصْرِ

إِنَّ الْإِنْسانَ لَفی خُسْرٍ إِلَّا الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ تَواصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَواصَوْا بِالصَّبْر (سورہ عصر) کہ قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ خسارے سے بچ جائیں گے جو نیک اعمال انجام دیتے رہے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرتے رہے۔(سورہ عصر)

لہذا ایمان. عمل صالح اور قرب خدا ایسی طاقتیں ہیں کہ جو انسان کو گناہوں سے روکتی ہیں

ایک مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :  المؤمِنُ لایَغْلِبُهُ فَرْجُهُ وَ لا یَفْضَحُهُ بَطْنُهُ. کہ مومن پر اس کی شرمگاہ (یعنی شهوت جنسی) غلبہ نہیں کرتی اور اسکا شکم اسے رسوا نہیں کرتا

اب یہاں پر معصوم نے جس چیز کو گناہ سے ڈھال قرار دیا ہے وہ ایک انسان مومن کا ایمان ہے اسکا عمل صالح ہے اسکا خدا اور دین خدا کے قریب ہونا ہے. (بحارالأنوار. ج67. ص310)

ایک اور مقام پر امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :انّما الْمُؤمِنُ الّذی اذا رَضِیَ لَمْ یُدْخِلْهُ رِضاهُ فی اثْمٍ وَ لا باطِلٍ.مومن وہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اس کی یہ خوشی اسے گناہ کی طرف نہیں لے جاتی.( اصول کافی. ج3. ص330)

2. نادانی

جہالت و نادانی ہر برے کام کی جڑ ہوتی ہے. جہالت ہی کی وجہ سے انسان ہر برے کام کو انجام دے دیتا ہے. ایسے افراد جو بغیر سوچے سمجھے گناہ کرتے ہیں انکو خداوند متعال نے قرآن میں جہالت سے تعبیر کیا ہے :أَ إِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّساءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُون(نمل: 55)

آیا آپ شھوت کی وجہ سے بجای عورتوں کے مردوں کے قریب آئیں گے بلکہ آپ قوم جاھل ہیں.

یہاں اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ جہالت بھی ایک ایسا سبب ہے جو انسان کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے

آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں: اگر کسی کی معرفت والی مشکل حل ہو جائے وہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا. اکثر موارد میں گناہ وہاں ہوتا ہے جہاں گنہگار نہیں جانتا کہ کس کے دسترخوان پر بیٹھا ہے یعنی معرفت نہیں رکھتا ہو جاہل ہوتا ہے جس کی وجہ سے گناہ کرتا ہے. (درس خارج. 1375.8.30)

حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی اپنے بھائیوں کے گناہ کو نادانی کے ساتھ تعبیر کیا ہے:قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ ﴿یوسف ٨٩﴾حضرت یوسف نے کہا آیا آپ جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا اس وقت آپ جاھل تھے.

اگر روایات کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی جہالت اور نادانی کو گناہوں کا سبب کہا گیا ہے.

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے جو عہدنامہ مالک اشتر کو دیا اس میں فرمایا :لایَجْتَرِئُ عَلَی اللهِ إِلَّا جَاهِلٌ شَقِیٌ.

کوئی بھی خداوند متعال کی نافرمانی پر جرأت پیدا نہیں کرے گا مگر شقی اور جاھلیعنی یہاں پر معلوم ہوا کہ جہالت ایسی چیز ہے جو انسان کو سرکشی پر مجبور کرتی ہے.(نہج البلاغه. خط53)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : الْجَهْلُ مَعْدِنُ الشَّرِّ، الْجَهْلُ أَصْلُ کُلِّ شَرٍّ، الْجَهْلُ یُفْسِدُ الْمَعَادَ. جہالت شر کا مرکز ہے جہالت ہر شر کی جڑ ہے جہالت انسان کی آخرت کو تباہ کرنے کا موجب بنتی ہے. (گناہ شناسی محسن قرائتی ص70)3.  فقر (تنگ دستی) اور مال و دولت

تنگ دستی اور مال و دولت دو ایسی چیزیں ہیں جو گناہ کا سبب بنتے ہیں.جس طرح ایک انسان تنگ دست اپنی غربت کو ختم کرنے کی خاطر اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنے کی خاطر حدود الھی کو پامال کرتا ہے.اسی طرح ایک مالدار انسان اپنی دولت کی بنیاد پر اپنے غرور و تکبر کی بنیاد پر حدود الھی کو پامال کرتا ہے.

یعنی ہر دو انسان کو گناہ کی طرف لے جانے کا سبب بنتی ہیں.لہذا خداوند متعال نے قرآن میں فرمایا :کَلَّا إِنَّ الْإِنْسانَ لَیَطْغی.ہرگز نہیں. انسان تو یقیناً سر کشی کرتا ہے. أَنْ رَآهُ اسْتَغْنی. اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے (علق: 6 و 7)

اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس کی شاھد ہے. بطور مثال. ثعلبه نے خداوند سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر وہ مالدار ہو گیا تو ضرورت مندوں کو صدقہ دے گا. لیکن جب خدا نے اسے بہت ساری دولت عطا فرمائی تو اس نے بخل کیا اور ذکات ادا نہ کی. اسی لیے اس کے بارے میں آیات نازل ہوئیں. وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِینَ  اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں فضل سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے     ﴿توبہ ٧٥﴾    فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ. لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (عھد) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئے ﴿توبہ ٧٦﴾

ایسی دولت جو غرور کا سبب بنے خداوند متعال نے اسے گناہوں کا سبب قرار دیا ہے. وَ کَمْ أَهْلَکْنا مِنْ قَرْیَةٍ بَطِرَتْ مَعیشَتَها فَتِلْکَ مَساکِنُهُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلیلا. اور کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے تباہ کر دیا جن کے باشندے اپنی معیشت پر نازاں تھے؟ ان کے بعد ان کے مکانات آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم اور ہم ہی تو وارث تھے (قصص: 58)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :أَلْهاکُمُ التَّکاثُر. ایک دوسرے پر فخر نے تمہیں غافل کر دیا ہے (تکاثر: 1)

رسول خدا صلی نے اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا : التَکَاثُرُ [فِی] الأَمْوَالِ جَمْعُهَا مِنْ غَیْرِ حَقِّهَا وَ مَنْعُهَا مِنْ حَقِّهَا وَ سَدُّهَا فِی الأَوْعِیَةِ. تکاثر سے مراد مال کو ناجائز طریقے سے جمع کرنا اس میں سے حقدار کو نہ دینا اور صندوق میں بند کر کے رکھنا ہے. (تفسیر نورالثقلین. ج5. ص662)

اور تنگ دستی ایسی مصیبت ہے جو انسان کو گمراہی اور گناہ کی طرف کھینچتی ہے.امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنی بیٹے محمد حنفیہ کو فرمایا :يَا بُنَيَّ، إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ الْفَقْرَ، فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْهُ؛ فَإِنَّ الْفَقْرَ مَنْقَصَةٌ لِلدِّينِ، مَدْهَشَةٌ لِلْعَقْلِ، دَاعِيَةٌ لِلْمَقْتِ. میں فقر کے بارے میں آپ سے ڈرتا ہوں. فقر سے خدا کی پناہ مانگو کیونکہ فقر کو ناقص. عقل اور فکر کو مضطرب. اور لوگوں اور اسکی نسبت اور اس کو لوگوں کی نسبت بد ظن کرتا ہے (نھج البلاغه حکمت 319)

ایک اور مقام پر رسول اللہ نے فقر کے متعلق یوں دعا کی :اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنا فِی الْخُبْزِ وَ لا تُفَرِّقْ بَیْنَنا وَ بَیْنَهُ فَلَوْلا الْخُبْزُ ما صَلَّیْنا وَ لا صُمْنا وَ لا أَدَّیْنا فَرَائِضَ رَبِّنا. اے خدایا. ہماری روٹی میں برکت عطا فرما. ہماری روٹی کو ہم سے جدا نہ کر. اگر روٹی نہیں ہو گی نماز نہیں پڑھیں گے روزہ نہیں رکھیں گے اور واجبات کو ادا نہیں کریں گے (فروع کافی. ج5. ص73.)

روایات میں آیا ہے کہ زیادہ دولت  انسان کو غافل کر دیتی ہےرسول خدا صلی. ایک چرواہا جو مسلمانوں کو دودھ دینے میں بخل کرتا تھا اس کے لیے یوں دعا کی« خدا آپ کو بہت زیادہ مال دے »

ایک دوسرا چرواہا جو مسلمانوں کو دودھ دیتا تھا اس کے لیے دعا کی کہ« خدایا جو ہر روز کے لئے کفایت کرے اسے اتنی روزی عطا فرما» ایک شخص نے تعجب سے سوال کیا کہ اس کے وہ دعا اور اس کے لیے یہ دعا

رسول اللہ نے فرمایا :إِنَّ مَا قَلَّ وَ کَفَی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَ أَلْهَی. وہ روزی کہ کم ہو اور کفایت کرے اس سے بہتر ہے اس روزی سے جو زیادہ ہو لیکن دل کو غافل کر دے. (اصول کافی. ج2. ص506.)

ان تمام آیات اور روایات کے مطالعہ کے بعد معلوم یہ ہوا کہ تنگ دستی اور دولت یہ دونوں گناہوں کے اسباب میں سے ہیں.

4.  برے لوگوں کے ساتھ دوستی

برے دوست گناہوں کے اسباب میں سے ایک سبب ہیں . برا دوست انسان کو آلودگی اور برائی کی طرف لے جاتا ہے. انسان کی دوستی ایک ایسی چیز ہے یا انسان کو سیدھے راستے پر لاتی ہے یا پھر سر چشمہ گمراہی ہوتی ہے. اگر دوست دیندار ہو مطیع پرودگار ہو تو انسان کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے اور اگر دوست خدا اور دین خدا سے دور ہو تو یہ انسان کی گمراہی کا سبب بنتا ہے. لہٰذا ایک انسان کے اچھا یا برا ہونے میں دوستی اور محفل بہت دخیل ہوتی ہے.

بطور نمونہ

حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو دوستی ہی گمراہی کی طرف لے گئی اور عذاب الھی میں گرفتار ہوا.

رسول اللہ نے فرمایا :قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ اَلْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ وَ قَرِينِهِ .ہر انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے. (وسائل الشیعة. ج11. ص506)

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے حارث ھمدانی کو جو خط لکھا تھا اس میں یوں ارشاد فرمایا :وَاحْذَرْ صَحابَةَ مَنْ یَضِلُّ رَأْیُهُ و یُنْکَرُ عَمَلُهُ فَانَّ الصّاحِبَ مُعْتَبَرٌ بِصاحِبِه. اے حارث جن لوگوں کی فکر سالم نہ ہو اور جن کا عمل برا ہو ان سے دوستی نہ رکھو کیوں انسان کی شناخت اور پہچان اس کے دوست سے ہوتی ہے (خط نمبر 69)

اسلام اور معصومین علیهم السلام نے برے لوگوں کے ساتھ روابط نہ رکھنے کی بہت تاکید کی ہے. کیونکہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی برے لوگوں روابط کی وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے

خداوند متعال نے دوست کے انتخاب کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :یا وَیْلَتی لَیْتَنی لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلیلا؛ اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا. (سورہ فرقان 28)

برے انسان سے دوستی انسان کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے اور انسان کے اندر نیکی اور بدی کی تشخیص کو کمزور کر دیتی ہے. اور برے کاموں کی اہمیت انسان کے اندر ختم کر دیتی ہے یعنی انسان کے لیے برائی کرنا کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا

امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا : ایّاکَ وَ مُصاحَبَةَ الشَّرِیرِ فَانَّهُ کالسیَّفْ الْمَسْلُولِ یَحْسُنُ مَنْظَرُهُ و یَقْبُحُ أَثَرُهُ. برے دوست سے بچو کیونکہ یہ ایسی ننگی تلوار کی طرح ہوتا ہے جس کا ظاہر بہت خوب صورت ہوتا ہے اور زخم بہت برا ہوتا ہے (بحارالانوار. ج74. ص198.)

امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا :مُجالَسَةُ اهْلِ الْهَوی مَنْسَأَةٌ لِلإیمانِ وَ مَحْضَرَةٌ للِشَّیطانِ. دنیا پرستوں کے ساتھ دوستی انسان کو ایمان سے دور کرتی ہے اور شیطان کے قریب کرتی ہے (میزان الحکمۃ. ج2. ص63.)

دین اسلام نے انسان کو اچھی دوست انتخاب اور برے دوستوں سے اجتناب کی تلقین کی ہے. ایسے افراد انسان کو برائی سے روکتے ہیں اور نیکی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں

رسول اللہ نے فرمایا :جالِسِ الأَبْرارَ فَإنّکَ إنْ فَعَلْتَ خَیْراً حَمَدوکَ وَ إنْ أَخْطَأْتَ لَمْ یُعَنِّفوک. نیک لوگوں کے ساتھ روابط رکھیں چونکہ اگر اچھا کام کرو گے تو یہ شاباش دیں گے اور اگر برا کام کرو گے تو آپ پر سختی نہیں کریں گے.

ان تمام آیات و روایات کے مطالعہ کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ برا دوست انسان کے گناہ کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے دوست انتخاب کریں جو مطيع پرودگار ہوں جو معصومین علیهم السلام کی سیرت پر عمل پیرا ہوں تاکہ خود بھی خدا کے قریب ہوں اور ہمیں بھی خدا کے قریب کریں۔

 

تحریر:ساجد محمود جامعہ المصطفی العالمیہ قم
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کی تاریخ میں پندرہ مئی یوم نکبہ یعنی فلسطینی سرزمین کے صہیونیوں کے ناپاک ہاتھوں میں غصب ہونے کا دن ہے اسی طرح تیس مارچ کو فلسطینی عرب سرزمین مقدس فلسطین کا دن مناتے ہیں یعنی ’’یوم ارض فلسطین‘‘ منایا جاتا ہے۔ جہان پندرہ مئی کو یون نکبہ یعنی تباہی و بربادی کا بد ترین دن کے عنوان سے دنیا بھر میں فلسطینی و غیر فلسطینی قو میں مناتی ہیں, وہاں فلسطینی مظلوم ملت سے یکجہتی کے لئے تیس مارچ کو یوم ارض فلسطین نہ صرف مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں منایا جاتا ہے, بلکہ فلسطین سے باہر پوری دنیا میں اس دن کو فلسطینی ارض مقدس کے دن کے عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔ یوں تو فلسطینی عوام پر برطانوی سامراج کی سرپرستی میں ڈھائے جانے والے صہیونیوں کے مظالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان مظالم کی تاریخ ایک سو سال سے زیادہ پر محیط ہے البتہ فلسطین کی سرزمین مقدس پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کو اب سنہ2020ء میں 72وال سال مکمل ہو جائے گا اور ان بہتر سالوں میں گزرنے والا ایک ایک دن فلسطین کی مظلوم ملت پر قیامت سے کم نہیں گزرا ہے۔

چاہے صہیونیوں کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کے ایام ہوں یا پھر قبضہ کے بعد کے ایام ہوں ۔ تاریخ کے اوراق صہیونی ظالموں کے ظلم سے بھرے پڑے ہیں۔ جہاں ایک طرف صہیونیوں نے فلسطین پر اپنے ناجائز قبضہ کو مکمل کرنے کے لئے کسی قسم کے ظلم اور زیادتی سے گریز نہیں کیا ہے وہاں فلسطینی ملت مظلوم کی شجاعت اور استقامت میں بھی ان مظالم کے سامنے کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ فلسطینی عربوں کی جد وجہد کی تاریخ بھی صہیونیوں کے مقابلے میں اسی وقت سے جاری ہے کہ جب سے عالمی استعماری قوتوں کی ایماء پر فلسطین پر قبضہ کی ناپاک منصوبہ بندی کی گئی تھی اور فلسطینیوں کی یہ جد وجہد آ ج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ پندرہ مئی سنہ 1948ء میں فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام کے وقت سے صہیونیوں نے فلسطینی عربوں کو ان کے وطن یعنی فلسطین سے نکال باہر کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا اور نتیجہ میں دسیوں ہزار فلسطینی اور ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال باہر کیا گیا جو پڑوسی ممالک میں زمینی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے مہاجرین کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئی اور آج فلسطینیوں کی تیسری نسل شام، لبنان، اردن اور مصر میں مہاجرین یعنی فلسطینی پناہ گزین کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔

فلسطین کے اندر باقی رہ جانے والے فلسطینیوں نے امید کا دامن ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دیا ہے ۔ فلسطین کے عرب باشندوں نے ہمیشہ سے فلسطین پر صہیونی ریاست کے تصور کو جعلی قرار دیا ہے اور اس کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں۔ یعنی خلاصہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینیوں نے جد وجہد آزاد ی جاری رکھی ہے اور اس آزادی کا بنیادی ہدف جہاں فلسطین کی صہیونیوں کے شکنجہ سے آزادی ہے وہاں غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی نابودی ہے ۔ جد وجہد آزادی فلسطین کے لئے فلسطین کے عرب باشندوں نے باقاعدہ صہیونیوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس کی مثال فلسطین میں موجود اسلامی مزاحمت کی تحریکیں حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور دیگر شامل ہیں جو مسلسل اسرائیل کے ناپاک وجود کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ دوسری طرف فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کئے جانے والے فلسطینی عربوں نے بھی اپنا جہاد فلسطین واپسی کے نعرے کے ساتھ شروع کر رکھا ہے اور یہ سب کے سب فلسطینی چاہتے ہیں کہ فلسطین اپنے وطن فلسطین واپس جائیں تا کہ فلسطین میں آباد ہو ں نہ کہ ان کو دیگر ممالک میں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔

فلسطینیوں کے حق واپسی کا نعرہ یا اعلان ایک ایسا مضبوط نعرہ ہے کہ جسے عالمی استعماری نظام بالخصوص امریکہ اور اس کے حواری کسی طرح بھی دبانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کا حق واپسی ایک ایسا بنیادی انسانی حق ہے کہ جسے نہ تو دنیا کے عالمی ادارے مسترد کر سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کی کوئی حکومت ا سکے خلاف جا سکتی ہے۔ امریکہ نے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو دبانے کی خاطر نام نہاد امن فارمولہ جسے صدی کی ڈیل کہا جا رہا ہے کو متعارف کرایا ہے لیکن یہ صدی کی ڈیل سامنے آنے سے پہلے ہی فلسطینیوں کے واپسی کے حق کے نعرے کے سامنے ماند پڑ چکی ہے اور عنقریب نابود ہونے والی ہے۔ یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کا نعرہ سنہ 2011ء کے بعد سے شد ومد کے ساتھ بلند ہو اہے جس کی ماہرین کی نگاہ میں ایک بنیادی وجہ سنہ2011ء میں ایران کے دارلحکومت تہران میں ہونے والی بین الاقوامی حمایت فلسطین و انتفاضہ کانفرنس بعنوان ’’فلسطین ، فلسطینیوں کا وطن‘‘ ہے۔

فلسطین کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سنہ2011ء میں اس کانفرنس میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کا ایک ایسا منصفانہ حل پیش کیا ہے کہ جس کے بعد نہ صرف فلسطینی تحریکوں میں بلکہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی ایک نئی تحریک نے جنم لیا ہے جو امریکہ سمیت صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے لئے مصیبت سے کم نہیں ہے۔ اس منصفانہ حل کے مطابق فلسطین فلسطینی عربوں کا وطن ہے کہ جو سنہ1948ء سے قبل اور اس وقت تک فلسطین کے باسی تھے اور ان فلسطینیوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی فلسطینی اور ایسے یہودی فلسطینی شامل ہیں کہ جو فلسطین کی شناخت کے ساتھ اس سرزمین مقدس پر زندگی بسر کر رہے تھے تاہم صہیونیوں نے نہ صرفر فلسطین کے مسلمانوں کو جبری ہجرت پر بھیجا بلکہ مسیحی اور فلسطینی یہودیوں کو بھی فلسطین سے بے دخل کیا۔ تاہم فلسطینی عربوں کا حق ہے کہ وہ فلسطین واپس آئیں اور فلسطینی عوام ایک ریفرنڈم کے ذریعہ اپنے نظام حکومت کا فیصلہ کرے ۔ یعنی فلسطینی فلسطین واپس آئیں اور جو یہودی اور صہیونی دنیا کے دیگر ممالک سے لا لا کر فلسطین میں آباد کئے گئے تھے وہ اپنے اپنے وطن میں واپس جائیں یا یہ کہ اگر فلسطین کی حکومت یعنی فلسطینی کی شناخت کے ساتھ فلسطین میں زندگی بسر کرنا چاہیں تو یہ فیصلہ بھی فلسطینی عوام کو کرنا ہے اور ان کی اجازت سے ہونا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک نے سنہ2011ء سے تیزی کے ساتھ سفر طے کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں سنہ2012ء میں دنیا بھر کے تمام بر اعظموں سے تعلق رکھنے والی قوموں نے تیس مارچ یوم ارض فلسطین کے موقع پر فلسطین کی چاروں زمینی سرحدوں پر مارچ کیا اور سب کا نعرہ ایک ہی تھا کہ ’’واپسی فلسطین ‘‘یعنی ;82;eturn to ;80;alestien ۔ گذشتہ دو برس سے فلسطینیوں نے حق واپسی مارچ کا نئے انداز سے آغاز کیا ہے اور فلسطینیوں کا ایک ہی نعرہ اور مقصد ہے کہ فلسطینیوں کی فلسطین واپسی۔ اب یوم ارض فلسطین کے موقع پر اس تحریک کو مکمل دو سال ہو نے کو ہیں لیکن امریکہ اور اسرائیل سمیت استعماری قوتیں فلسطینیوں کے عزم اور ارادوں کو کمزور کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل امریکی صدر کے فلسطین سے متعلق یکطرفہ فیصلوں اور اعلانات کی ناکامی ہے۔ بہر حال اقوام عالم اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہیں کہ فلسطینیوں کی تقدیر کا منصفانہ حل یہی ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن قرار پائی اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قائم کرنے والے صہیونی اپنے اپنے وطن اور زمینوں پر لوٹ جائیں۔ فلسطینیوں کی واپسی حق ہے اور اس امر سے دنیا کی کوئی طاقت بھی نظر چرانے کی طاقت نہیں رکھتی۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

 

وحدت نیوز(آرٹیکل) ترکی اور پاکستان کے باہمی رشتے بہت مضبوط اور قدیمی ہیں پاکستانی عوام ترک عوام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ترک عوام بھی پاکستانیوں کا احترام کرتے ہیں.دونوں ممالک میں بہت سے مشترکات بھی پائے جاتے ہیںاور مشکل حالات میں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں.حال ہی میں کشمیر کے حوالے سے ترکی کے دو ٹوک موقف اور FATF اجلاس میں پاکستان کی حمایت کو پاکستان کی حکومت وعوام ہمیشہ یاد رکھیں گے. جیسے گذشتہ کالم میں کہا کہ ہمارا مقصد ترکی کی مخالفت یا پاکستان ترکی برادرانہ تعلقات میں دراڑیں ڈالنا نہیں بلکہ فقط ان حقائق کو اردو زبان قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ہے جو بین الاقوامی میڈیا میں نشر ہو چکے ہیں تاکہ ہمارے ہاں ہونے مبالغے پر مبنی بے بنیاد پروپیگنڈہ کہیں لوگ حقیقت نہ سمجھ لیںاور جب حقائق کا علم ہو تو وقت گزر چکا ہو اور غلط معلومات پر غلط فیصلے کر چکے ہوں اور بعد میں پچھتائیں.

1- پہلے بھی جب جنرل مشرف صاحب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ پاکستان عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر خود ہی کیا تھا. اور انکے حکم پر رسمی طور پر پاکستانی وزیر خارجہ کی اسرائیلیوں سے ملاقات ترکی کے ذریعے ترکی میں ہی ہوئی تھی. اب بھی ترکی چونکہ اسرائیل کا ایک سٹریٹیجک پارٹنر بھی ہے اور ہمارا دوست بھی تو اس بات کا امکان ہے کہ ہمارے حکمران عوام کو اندھیرے میں رکھ کر کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لیں اور پھر ہمارا ملک کسی نئے داخلی بحران میں دھکیل دیا جائے.

2- ترکی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ حالت جنگ میں ہے. شام میں کبھی القاعدہ اور جبھۃ النصرۃ ودیگر امریکہ واسرائیل کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کے شانہ بشانہ ادلب وحلب میں فوجیں اتار چکا ہے اور کبھی کرد علاقوں پر عراق اور کبھی شام کی سرزمین پر فضائی بمباری کرتا ہے اور ہمسایہ ممالک کی زمینوں میں فوجی کارروائیاں اور ناجائز قبضہ کرتا ہے. اسی طرح ترکی یونان اور لیبیا سے بھی جنگی حالت میں ہے.

اگر ترکی ہمارا دوست ملک ہے تو شام ، عراق ، لیبیا اور یونان ہمارے دشمن ممالک نہیں. ہمارے حکمرانوں کو ماضی کی غلطیوں سے عبرت لیتے ہوئے ممکنہ طور پر دوبارہ پرائی جنگوں میں کودنے سے اجتناب کرنا ہوگااور اپنی قومی سلامتی ومصلحت کو مقدم رکھتے ہوئے متوازن تعلقات بنانے ہوں گے.

ترک اسرائیل تعلقات کی تاریخ

13 اكتوبر 2019 کو ایک عرب خاتون صحافی رانیا ھاشم نے اپنے ایک ریسرچ پیپر "تاریخ العلاقات التركية الاسرائيلية ” میں لکھا ہے کہ جب رجب طیب اردوان نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کے استنبول کے صدر تھے. تو انکی ملاقات ترکی میں امریکی سفیر مارتن ابراموفیٹس سے ہوئی. جنہوں نے اسے اسرائیل کے لئے ایک اہم امریکی شخصیت بل وولویٹز سے منسلک کردیا. جو پہلے عالمی بنک کے سربراہ اور امریکی وزیر دفاع کے معاون بھی رہ چکے تھے. جو بعد میں امریکی وزیر دفاع بھی بنے. جب امریکیوں نے خطے میں بقول انکے "معتدل اسلام” کو متعارف کروانے کے پلان کو لانچ کیا. تو اپنے پلان کی تکمیل کے لئے انہیں ترکی کی اسلامی جماعت ایک مناسب آپشن کے طور پر نظر آئی. نئے شرق الاوسط منصوبے اور عرب بہار کے لئے ترکی کو اسلامی ممالک کے لئے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا. ”

امریکا واسرائیل کا مقصد اسرائیل مخالف مقاومت اسلامی کے بلاک کو توڑنا ، فلسطین ولبنان کی مقاومتی تحریکوں اور انکے پشت پناہ ایران وشام کو تباہ کرنا تھا. تاکہ صہیونی ریاست محفوظ رہے اور مقبوضہ فلسطین وبیت المقدس کا چیپٹر ہمیشہ کے لئے طاقت کے ذریعے بند کر دیا جائے اور عرب ومسلم ممالک کے ساتھ صہیوني ریاست کے سفارتی تعلقات قائم کر دیئے جائیں. ان مذکورہ اھداف کے حصول کیلئے خطے میں ڈیموکریسی کے فروغ اور عوام کی آزادی جیسے نعروں کے ذریعے ایک طویل جنگ کا آغاز کیا کہ جس کی لپیٹ پورا جہان اسلام اور بالخصوص لیبیا ، تیونس ، مصر اور شام آئے. اور ڈیموکریٹک نظاموں اور عوامی حقوق وآزادی جیسے منصوبوں کی تکمیل میں سرمایہ ان ممالک نے لگایا اور امریکی واسرائیلی جنگ میں فرنٹ مین کا کردار ادا کیا کہ جن کے ہاں خود جمہوریت نہیں بادشاہی نظام تھا. اور جہاں انکے اپنے عوام بدترین پولیس اسٹیٹ نظاموں کے شکنجوں میں جکڑی ہوئے ہیں .

ترکی ماڈل امریکہ کو اس لئے پسند ہے کہ کیونکہ وہاں اسلامی نظام نہیں بلکہ اتاترک کے زمانے سے ترکی سیکولر ریاست ہے. اور رجب طیب اردوان نے بھی ترکی کے سیکولر نظام کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے اور اپنے خطابات میں بھی اسی نظام پر کاربند رہنے کی تاکید کر چکے ہیں. 2004 کو ترکی نے امریکہ کو یہ یقین دلایا تھا کہ جہان اسلام پر ترکوں کی حکومت رہی ہے اور انکا ابھی بھی احترام ومقام مسلمانوں کے دلوں میں باقی ہے. اور دوسری طرف ہمارے پاس پورے جہان اسلام میں اخوان المسلمین نامی اسلامی سیاسی جماعتوں کی منظم عوامی طاقت بھی ہے. عرب بہار انقلابوں کے نتیجے میں جب ناپسند حکومتیں گرائی جائیں گی تو ہم اس خلا کو اپنی خلافت کے احیاء سے پر کر سکتے ہیں.

اسی لئے مصر میں حسنی مُبارک کے خلاف لانچ کی جانے والی عوامی تحریک کی اردوان نے 2 فروری 2011 کو اپنے ترکی پارلیمنٹ سے خطاب کے دروان کھل کر حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا .

مارچ 2011 میں جب بشار الاسد حکومت گرانے کے لئے تحریک لانچ کی گئی تو اس کی سربراہی بھی اخوان المسلمین ہی کر رہے تھے کہ جنہیں مکمل طور پر ترکی کی حمایت حاصل تھی اور یہی صورتحال لیبیا اور تیونس میں بھی تھی.

ترکی کے صدر کے کئی چہرے ہیں ایک وہ چہرہ جو امریکہ واسرائیل کو وہ دکھاتا ہے. دوسرا وہ چہرہ جو یورپی یونین میں شامل ہونے کے لئے یورپ کو دکھاتا ہے. ایک وہ سیکولرازم کا چہرہ جو ترکی عوام کو دکھاتا ہے . اور ایک اسلامی دنیا کے سلطان اور خلیفہ کا چہرہ جو مسلمانوں کو دکھایا جاتا ہے. اپنے قتدار کے لئے خلافت اسلامی اور شریعت کے نفاذ کا خواب دیکھاتا ہے . ذیل میں ترک معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ اردوان کے دور حکومت میں اسلامی شریعت کی کتنی پاسداری ترکی میں ہوتی ہے.

ترکی اور یورپی یونین

ترکی 1959 سے یورپی یونین میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے. 1987 میں رسمی طور پر رکنیت کے لئے درخواست بھی پیش کی. 1999 میں یورپی یونین نے کہا کہ ترکی یورپی اتحاد میں شامل ہو سکتا ہے لیکن ترکی اور یورپی یونین کے مابین مذاکرات پہلی بار 2005 میں شروع ہوئے.

اس کے بعد ہر اجلاس میں ترکی پر نئی نئی شرطیں لگائی گئیں کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اعتراض تو کبھی آزادی صحافت کا مسئلہ ، کبھی اقتصادی صورتحال ناقابل قبول اور کبھی جمہوریت وانقلابات پر اعتراضات کی بارش آخر کار 29 مئی 2019 کو یورپی یونین نے ترکی کی شمولیت کے خوابوں پر پانی پھیرتے ہوئے یہ بیان دیا. کہ عدالتی نظام ، جیلوں اور اقتصاد کی صورتحال کے پیش نظر ترکی کی شمولیت یورپی یونین میں قبول نہیں .

اردوان کو پہلے ہی ایک مغربی مشیر کہہ چکے تھے کہ یورپ کی دم بننے کی بجائے اسلامی دنیا کے سر کا تاج بننے کی کوشش کرو. اور مشرق وسطیٰ کے منصوبے میں فرنٹ رول ادا کر کے اپنی خلافت کی راہ ہموار کرو. اسی لئے جب تیسری بار اردوان انتخابات میں کامیاب ہوا تو اپنے خطاب میں کہا کہ "آج استنبول ، بیروت ، ازمیر ، دمشق ، انقرہ ، رام اللہ ، نابلس ، جنین ، ضفہ غربیہ ، القدس اور دیار بکر کو فتح حاصل ہوئی ہے.”

ترکی کے اندرونی دینی چہرے کی نقاب کشائی

2011 کے دورہ مصر کے موقع پر اردوان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترکی ایک سیکولر ریاست ہے. اور مصر والوں کو بھی سیکولر ریاست بنانے کی تاکید کی. 26 اپریل 2016 کو جب ترکی پارلیمنٹ کے سربراہ اسماعیل کھرمان نے آئین میں تبدیلی کے وقت سیکولرزم کو تبدیل کرنے کی طرف اشارہ کیا تو اردوان نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سیکولر نظام ہی قبول ہے. اور ریاست کی نگاہ میں سب ادیان برابر ہیں. ترکی کے آئین مملکت کے سربراہ یا کسی اعلی عہدیدار کا مسلمان ہونا کوئی کسی قسم کا ذکر نہیں. اسلامی شریعت کے مطابق احوال شخصی وغیرہ کا بھی ذکر نہیں.

1- ترکی سیٹلائٹ پر آدھے سے زیادہ چینل فحش فلموں اور ڈراموں کے چلتے ہیں. ترک فلم انڈسٹری میں کسی بھی شرعی قانون کی کوئی رعایت نہیں ہوتی. اور اس کا مشاہدہ کرنا تو آجکل کے انٹرنیٹ اور سیٹلائٹس کے دور میں بہت آسان ہے.

2- ترکی میں چکلے (prostitution) کو قانونی حیثیت حاصل ہے. آرٹیکل 5537 کی شق نمبر 227 کے مطابق یہ کاروبار جائز اور قانونی ہے. تقریبا 15000 رجسٹرڈ چکلے ہیں. جس سے ترکی کو 4 بلین ڈالرز کی آمدن وصول ہوتی ہے. انسانی حقوق اور صحت کے ادارے کے سربراہ کمال اورداک کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سال میں اس کاروبار میں تین گنا اضافہ ہوا ہے. ترکی جس سیاحت پر فخر کرتا ہے اس میں بھی اہم کردار اسی کاروبار کا ہے.

3- دنیا میں شراب بنانے کا بڑا کارخانه رجسٹرڈ برانڈ Tekel ( Turkish tobacco and alcoholic beverages company) ترکی میں ہے .جسکی مالیت 292 ملین ڈالرز ہے. جس کی گوگل سرچ سے تصدیق کی جا سکتی ہے. 4 جون 2019 کے کالم بعنوان ” ترکیا المثلیۃ جنسیا وسیاسیا ج1 ” میں فادی عید وھیب نے لکھا ہے کہ ترکی میں ایک اعداد وشمار کے مطابق 2009 کو 2 کروڑ 9 لاکھ 6 ھزار 762 لٹر شراب پی گئی.

4- البانیا کے بعد ترکی دوسرا ملک ہے جہاں ھم جنس پرستوں کے حقوق کا اعتراف کیا جاتا ہے. اردوان کے دور حکومت میں 2014 پہلی ہم جنس پرستوں کی رسمی شادی ہوئی اور ہم جنس پرستوں کے عالمی لیڈر بولنٹ ذا دیوا کے اعزاز میں اردوان نے خود ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا. اور ہم جنس پرستوں کو مبارک باد پیش کی. یہ کوئی خفیہ تقریب نہیں بلکہ باقاعدہ میڈیا پر دکھائی گئی. 2015 کو ایک ھفتے کے مسلسل ہم جنس پرستوں کے مختلف پروگرام اور ان کا الفخر مارچ بھی انقرہ واستنبول اور دیگر شہروں میں منعقد ہوئے.

ترکی کے بین الاقوامی مسائل پر دعوں کی حقیقت

کبھی اردوان مسئلہ فلسطین پر اپنے بیانات وخطابات سے مسلمانوں کو بےوقوف بناتا ہے. جبکہ خطے میں سب سے زیادہ اسرائیل کا قابل اعتماد دوست ہے. اور دونوں ممالک کے مابین اقتصادی ، عسکری ، سیاحتی ودیگر شعبوں میں دوطرفہ تعلقات ہیں. جس کی وضاحت پہلے دو کالم میں پوری تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں.

اور کبھی برما و روہنگیا کے مسلمانوں کا ہمدرد بنتا ہے جبکہ برما حکومت کے ساتھ بہترین تجارتی تعلقات ہیں.

2015 سے 2018 تک مسلسل سوشل میڈیا پر ایک بریکنگ نیوز چلتی رہی ہے کہ ترکی کے صدر نے برما کے سفیر کو روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے نکال دیا . حالانکہ ترکی وزارت خارجہ کی سائٹ پر ایسی کوئی خبر نہیں لگی. اور کب برما کا سفیر نکالا گیا اور کب پھر واپس آیا اس کی بھی کوئی خبر نہیں.

البتہ ترکی نے روہنگیا کے مسلمان جو بنگلہ دیشی کیمپوں میں مقیم ہیں انکی امداد کی اور اسی طرح برما حکومت سے ترکی نے امداد پہنچانے کی اجازت بھی حاصل کی. اور 1000 ٹن مواد برما بھیجا. اور ترکی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ” ترکی نے میانمار کی حکومت کے تعاون سے امداد بھیجی ہے. اور یہ امداد کسی خاص قومیت یا دین کے افراد کے لئے معین نہیں ".

ترک پریس وب کی خبر کے مطابق ترک وزیر خارجہ جاویش اوغلو نے اپنے بیان میں کہا کہ ترکی اور برما کے مابین تجارتی تبادل 38 ملین ڈالرز ہے اور انھوں نے اسے مزید بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے. اور دونوں ممالک کے مابین مسافروں کی نقل و حرکت کے لئے فلائٹس کا راستہ کھولنے کی بھی بات کی ہے.

تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

Page 1 of 70

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree