وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی کور کمیٹی کا اجلاس لاہور میں شعبہ خواتین کے آفس میں مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس صاحب کی سربراہی میں منعقد ہوا۔جس میں شعبہ خواتین کی مرکزی کوآرڈینیٹر خانم زہرا نقوی اور ڈپٹی کوآرڈینیٹر محترمہ تحسین شیرازی ،مرکزی سیکرٹری تربیت مولانا سید احمداقبال رضوی اور مرکزی سیکرٹری سیاسیات برادرسید ناصرعباس شیرازی نے شرکت کی،میٹنگ میں گذشتہ دو ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور آئندہ کے اہداف اورلائحہ عمل کا تعین کیا گیااور میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سیاسی لحاظ سےملک کے چار بڑے اور اہم شہروں کراچی،لاہور ، اسلام آباد اور کوئٹہ کے اسٹرکچر کی تمام ترتنظیمی امور کی نگرانی مرکز خود انجام دے گااور مقامی تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط اور فعال بنانے میں ان کی معاونت کرے گا۔اس اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اپنی مدد آپ کے تحت ملک بھر میں دارالقرآن ،ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس ،تعلیمی اکیڈمیز کا قیام اور مستحق طالبات کے لئے اسکالرشپ اور دیگر فلاحی اور سماجی خدمات انجام دی جائیں گی۔
میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام اضلاع میں ۲۰جمادی الثانی حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی ولادت با سعادت اور یوم خواتین کے دن کو بھرپور انداز میں منائیں اور اس سلسلے میں جشن اور دیگر پروگرام منعقد کروائیں گے۔مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری صاحب نے تاکید کی کہ شعبہ خواتین کو خواتین کی اسلامی اور انقلابی تربیت کے حوالےسے شعبہ تربیت کے دیے گئے پروگرام پر عمل کرنا چاہیے اور شعبہ تربیت کی ترتیب شدہ کتب، لٹریچراور پروگرام سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے ۔انہوں نے مزید فرمایا کہ " اسلام شناسی " کورس اور بصیرت افزائی کورس تمام خواتین کو کروایا جائے گا۔
علامہ ناصرعباس جعفری نے زور دیا کہ گلگت اور بلتستان میں بھی ہماری بہنیں انتخابی عمل میں بھرپور کردار ادا کریں گی ۔مرکزی کوآرڈینیٹرخانم زہرا نقوی نے تمام صوبائی کوآرڈینیٹرز سے درخواست کی ہے کہ جلد از جلد ضلعی اسٹرکچر مکمل کریں اور اضلاع، یونٹس اور ممبر شپ کی تکمیل کر کے جلد از جلد مرکز کو رپورٹ کریں ۔آخر میں ضرب عضب آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا کہ ہمیں پرائی جنگ کا حصہ بننے کی بجائے اپنے ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف آپریشن پر توجہ کرنی چاہےاور سعودی عرب کی مہم جوئی کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے دو روزہ سالانہ مرکزی تنظیمی کنوشن کے اختتام پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ محمد امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرہ کو حکمران شعوری طور پر دلدل میں دھنساتے چلے جارہے ہیں۔ تکفیریت کو خصوصاً مشرق وسطیٰ میں تیزی سے پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ اس کی زد میں ہر وہ مسلمان آیا جس نے اس کا انکار کیا۔ اسلام سے خائف عالمی طاقتیں نئی صف بندی کر رہی ہیں۔ توحید کا نام لیکر توحید کی جڑیں کاٹنے والوں کو میدان میں لایا جارہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں آئے روز مساجد کا اضافہ کلیسا کا ختم ہونا اسلام کی قبولیت اور غلبے کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلام کا مسخ شدہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ تکفیریت کا بازار گرم کرنے والے لوگوں کو مغرب استعمال کر رہا ہے۔ طالبان، داعش، القاعدہ اور النصرہ فرنٹ کو بنایا گیا، دنیا کو اسلام سے بدظن کیا گیا۔ یہ تمام گروہ اسلام کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے۔ اسرائیل کے مدمقابل بلاک کمزور کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے گلے کاٹنے والے اسرائیل کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنا نہیں چاہتے۔ گلے کاٹ کر اپنے بزرگوں کی سنت پر عمل پیرا ہیں۔ گزشتہ گیارہ دنوں میں یمن کے عام شہریوں کو مارا گیا، ہسپتالوں، فیکٹریوں اور کیمپوں میں مقیم لوگوں پر بھی بمباری کی گئی۔ یمن میں نیا محاذ کھڑا کرکے اسے شیعہ سنی جنگ کا رنگ دیا گیا۔ حالانکہ سنیت کے دعوے دار سعودیوں کا سنیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یمن کی جیلوں سے القاعدہ کے افراد کو آزاد کروایا گیا۔ پاک فوج کی پاکستان میں گرفت کمزور کرنے کی سازش کی جارہی ہے تاکہ دہشت گردوں کو فرار کا راستہ دیا جاسکے۔ یمن مین زمینی لڑائی کے لئے بھرتیاں کی جارہی ہیں، ان سعودیوں کو یہ حق حاصل نہیں پہنچتا جنہوں نے اولیا کے مزاروں کو گرایا کہ وہ اسلام کا نام لیں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ دہشت گرد گروہ طالبان برسر اقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کا عسکری ونگ ہے۔ ایم ڈبلیو ایم، پاکستان عوامی تحریک، جے یو پی اور سنی اتحاد کونسل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے سب سے بڑے سپورٹرز آج یہاں جمع ہیں۔ جن کے خلاف وحشت و بربریت کا کھیل کھیلا گیا، ہم ان میں سے نہیں جو قائداعظم کو کافر اعظم کہتے تھے۔ پنجاب میں ایمپلی فائر ایکٹ لایا گیا جس میں درود و سلام پر پابندی عائد کی گئی، صرف پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کو اس طرح لاگو کرکے اہل سنت اور تشیع کو نشانہ بنایا گیا۔ مقامی انتظامیہ نے ان پر ریاست مخالف اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا الزام لگایا اور انہیں غدار کہا۔
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ ہم افواج پاکستان کا ساتھ، صرف باللسان نہیں بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دیں گے۔ اگر مولانا فضل الرحمان، سمیع الحق اور محمد احمد لدھیانوی طالبان کو باغی قرار دیں تو ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، یمن میں حکومت کے خلاف اٹھنے والوں کو تو باغی کہہ دیا گیا تو پاکستان میں کیوں نہیں کہا جاتا۔ سعودی عرب نااہل ملک ہے، دولت و ثروت کی فروانی کے باوجود اس ملک کی اپنی فوج تک موجود نہیں، حرمین کے تحفظ کی بات وہ کررہے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ ہیں، حرمین کا تحفظ انشاء اللہ ہم خود کریں گے۔ آج حرمین کو کسی قسم کا خطرہ نہیں، یمنی قبائل مسلمان ہیں، جنہیں سعودی عرب بھی مسلمان تسلیم کرتا ہے، ان سے حرمین کو خطرہ نہیں، اگر وہ سعودیہ میں آبھی جائیں تو حرمین کا سعودیہ سے بہتر تحفظ کریں گے۔ ذاتی مفادات، اور اثاثہ جات کو محفوظ کرنے کی جنگ کو حرمین کی جنگ دیا جارہا ہے۔ شام میں باغی پیدا کر کے انہیں حریت پسند، اور یمن میں حق مانگنے والوں کو باغی قرار دیا جاتا ہے، دوہرا معیار ہے۔ او آئی سی کو آرگنائزیشن آف اسلامک کریمینلز کہا جائے چونکہ مسلمانوں کے تحٖفظ کے لئے انہوں نے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھایا۔
چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے واضح کیا کہ حملہ سعودی عرب نے یمن پر کیا اور کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب کو یمن سے خطرہ ہے۔ طالبان سعودی عرب کی طرف ہی پاکستان کے لئے نذارانہ ہیں۔ ہم نے کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بننا، ہم اپنی فوج کو پاکستان میں دیکھنا چاہتے ہیں، افغانستان کا خمیازہ اب تک ہم بھگت رہے ہیں، 1971 میں سعودی عرب نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، ہمیں اپنے گھر کے حالات کو بہتر کرنا ہوگا، پاکستانی فوج کے جوان تکفیریت کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان آنے والے ہیں، ہم ملکر قیصر و کسریٰ کے ایوان گرائیں گے، میاں صاحب فوج یمن نہیں جانی چاہیے۔ حرمین کے دفاع کی بات کرنے والی پارٹیاں طالبان کو باغی قرار دیں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) رحیق عباسی صدر پاکستان عوامی تحریک نے کہا ہے کہ ہمیں دوسروں کی جنگ کا ایندھن نہیں بننا چاہیے۔ بطور پاکستانی ہمارا کردار غیر جانبدار ثالث کا ہونا چاہیے، او آئی سی کا اجلاس بلا یا جائے اور تمام مسلمان ممالک مل بیٹھ کرمسئلے کا حل تلاش کریں۔ افغانستان، لیبیا اور عراق کے بعد اب یمن کو آگ و خون میں دھکیلا جارہا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے تحت اسلام آباد میں منعقدہ یمن پرسعودی جارحیت ، ضرب عضب اورپاکستان کا کردارسیمینار سے خطاب کرتے ہوئے رہنما پاکستان عوامی تحریک کا کہنا تھا کہ یمن میں پیدا شدہ بحران یمنی لوگوں کا آپسی معاملہ ہے، اس مسئلہ کے حل کا حق صرف یمنی عوام کو ہی حاصل ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مسئلہ یمن شیعہ سنی کی لڑائی نہیں، سعودی عرب میں سیاسی و مذہبی حاکم طبقہ اہل سنت کی ترجمانی نہیں کرتا، تمام اہل سنت کا اجماع ہے کہ وہ سعودی بادشاہت و ملائیت کو سنیوں کا ترجمان نہیں مانتے۔ سعودی طرز سیاست سے سنی اتفاق نہیں کرتے۔ اور نہ ہی سنی انہیں ٹھیکیدار بننے کا موقع دیں گے۔
رحیق عباسی کا کہنا تھا کہ یمن میں جمہوریت کو بچانے کے لئے سعودی کا متحرک ہونا ایک فریب اور دھوکہ ہے۔ اگر جمہوریت کی جنگ ہے تو کیا جمہوریت بحال کرنے کے لئے پوری دنیا کی سب سے عیاش بادشاہت ہی رہ گئی ہے، سعودی عرب میں جمہوریت کا نام و نشان نہیں۔ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ کسی نے نہیں دیا، البتہ نواز شریف کا ساتھ ضرور دیا گیا، اگر اس کا ساتھ نہ دیا جاتا تو آج پاکستان کرپشن کا شکار نہ ہوتا، سعودیہ نے پاکستان میں کرپشن اور ظلم کو رائج کیا۔ ماڈل ٹاون میں نہتے لوگوں کو شہید کیا گیا، اسلام آباد میں لاشیں گرائی گئیں۔ گوجرہ میں ججوں کے ذریعہ کارکنان کو دس دس سال کی قید سنوائی گئی۔ پینتیس سال گزرنے کے باوجود افغان وار کے اثرات کم نہیں ہوئے آج بھی اس فیصلے کے باعث ہماری گلیاں خون سے رنگین ہیں۔ آج انہی طالبان کے ہاتھوں ہماری قوم پس رہی ہے اور پاک فوج کو ضرب عضب بپا کرنا پڑ رہا ہے۔ اے پی ایس پر حملہ کے بعد پوری قوم متحد ہو گئی، ڈاکٹر طاہر القادری اور دیگر جید علماء نے خارجیوں کے ساتھ مذاکرات کو غلط قرار دیا۔ ان کو قومی سرمایہ سمجھ کر پالا گیا، آج یہ لوگ ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔
صدر پاکستان عوامی تحریک کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی کی جنگ کا ایندھن نہیں بننا چاہیے۔ ایران اور سعودیہ کی پراکسی وار کے مفروضہ کو اگر درست بھی مان لیا جائے تو پھر بھی بطور پاکستانی ہمارا کردار غیر جانبدار ثالث کا ہونا چاہیے، او آئی سی کا اجلاس بلا کر تمام مسلمان ملک مل بیٹھ کر حل نکالیں۔ افغانستان، لیبیا اور عراق کے بعد اب یمن کو آگ و خون میں دھکیلا جارہا ہے۔ یمنی لوگوں کا آپسی معاملہ یا جمہوریت کی جدوجہد کہا جائے تو اس مسئلہ کے حل کا حق صرف یمنی عوام کو ہی حاصل ہے۔ کاش یہ مسئلہ روس کی بجائے کوئی مسلمان ملک سیکیورٹی کونسل میں لیجاتا۔ فوج کشی اور حملوں کے ذریعہ یمنی عوام کا خون بہانے کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ہم بطور پاکستانی عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ پاک فوج کو یمن جنگ میں شمولیت کے لیے قطعاً نہ بھیجا جائے۔ یمن کے مما نوں کے خون بہانے میں حصہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ''یمن پر سعودی جارحیت، ضرب عضب اور پاکستان کا کردار"" کے موضوع پر سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کی، سیمینار میں پاکستان عوامی تحریک پاکستان کے صدر ڈاکٹر رحیق عباسی، سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین صاحبزادہ حامدرضا، جمعیت علمائے پاکستان نیازی گروپ کے سربراہ پیر معصوم شاہ اور امامیہ آرگنائزیشن پاکستان کے چئیرمین لال مہدی خان نے شرکت کی۔ مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ضرب عضب آپریشن اس ناسور کے خلاف ہے جس نے مادر وطن کو 80ہزار لاشوں کے تحفے دیے ہیں، جن دہشت گردوں کے خلاف ہماری افواج اور قوم قربانیاں دے رہی ہیں دراصل یہ افغان جنگ کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مزید کسی جنگ کا حصہ بن کر ملک اور قوم کو کسی امتحاں سے دوچار کرنیکی اجازت نہیں دے سکتے، آج مشرق وسطیٰ میں دہشت گردوں کے ایکسپورٹرز مکافات عمل کا شکار ہیں، ہم ہر ظالم کے خلاف ہیں خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور ہر مطلوم کے حامی ہیں خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، ہم نے ہزاروں لاشوں کو کندھے دیے لیکن کبھی ملک کے خلاف بغاوت نہیں کی۔
مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں مسلح جدوجہد کو حرام سمجھتے ہیں، ہم عوامی پرامن جدوجہد کے قائل ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یمن جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئیے، ہمیں مسلمانوں کے درمیان لڑائی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، ہمیں پاکستان کی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ہمارے حکمران ملک کو روز بروز مسائل کی دلدل میں پھنساتے جا رہے ہیں، یمن کا معاملہ چند عالمی طاقتوں کی سازش ہے، آل سعود توحید کا نام لیکر توحید پرستوں کی جڑیں کاٹ رہے ہیں، انہوں نے پوری دنیا میں تکفیریت کا بازار گرم کر رکھا ہے، دنیا اس وقت دو بلاک میں تقسیم ہے، ایک بلاک اسرائیل کو تحفظ دے رہا ہے جبکہ دوسرا بلاک اسرائیل مخالف ہے، امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب پورے خطہ میں ایک منصوبے کے تحت امن تباہ کرنے میں سرگرم ہیں، انہوں نے ہی داعش کو بنایا۔
پاکستان عوامی تحریک کے صدر رحیق عباسی نے کہا کہ سعودی عرب پر مسلط طبقہ کسی طور پر اہل سنت کی ترجمانی نہیں کرتا، بلکہ اس کے مقابلہ میں ایران درست طور پر نہ صرف شیعہ بلکہ پورے عالم اسلام کی درست ترجمانی کر رہا ہے، اگر یمن میں جمہوریت کی بحالی جنگ ہے تو اسے غیر جمہوری سعودی بادشاہت کیسے ختم کرنے آئی ہے، جب پاکستان پر مشکل وقت آیا تو دنیا کے کسی ملک نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، البتہ شریف خاندان کیلئے سعودی بادشاہوں نے بہت کچھ کیا، انہیں نئی طاقت دیکر ایک مرتبہ پھر ہم پر مسلط کر دیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ سمیت سمیت کوئی بھی ملک ہو ہمیں جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیئے۔
سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ اقوام عالم ڈبل سٹینڈرڈ پالیسیاں ترک کرے، شام میں باغی ایکسپورٹ کرکے ان کو وہاں کے منتخب حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کو حریت پسند اور یمن میں کرپٹ حکمرانوں کے خلاف آواز اُٹھانے والی یمنی عوام کو باغی بنا کر اُن پر شب خون مارنا کہاں کا انصاف ہے، سعودی عرب نے مسلم ملک کے خلاف جارحیت کرکے ثابت کر دیا کہ اس کو مسلمانوں کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں، مشرق وسطیٰ میں ہم اپنی افواج کو اغیار کی پراکسی وار کا حصہ نہیں بننے دیں گے، الحمداللہ حرمین شریفین کو کوئی خطرہ نہیں، یمن کے مسلمانوں کو حرمین سعودی عرب کے لوگوں سے زیادہ عزیز ہیں، انہوں نے کہا میاں صاحب ذاتی احسانات کے بدلے غیور فوج کی عظمت کا سودا نہ کریں، ہم اپنی افواج جو عالم اسلام کے لئے امید کا باعث ہے کو مسلمانوں کے قتل عام میں شریک کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔
چئیرمین امامیہ آرگنائزیشن پاکستان لال مہدی خان نے کہا کہ جب قوموں پر ظلم کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق کو غصب کیا جاتا ہے اور ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو لوگ اپنے حقوق کے لئے میدان میں نکلتے ہیں۔ یمن کی موجودہ صورت حال پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کون کس پر حملہ آور ہے، ہمیں کسی بھی کسی دوسرے ملک کی جارحیت کا حصہ نہیں بننا چاہئیے، بصورت دیگر اس کے نتائج بھیانک ہوگا۔
جمعیت علمائے پاکستان نیازی گروپ کے صدر پیر معصوم شاہ نقوی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایران کو جو کامیابی دی ہے اس حوالے سے سعودی عرب کی نیندیں اڑ گئی ہیں، دہشتگرد یمنی عوام نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو یمن پر حملہ آور ہیں، دہشتگرد سنی نہیں، یہ سنی کا لیبل لگا کر دہشت گردی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سنی ہیں۔ ہم اپنے شیعہ بھائیوں کیساتھ ہیں، آپریشن ضرب عضب کیوجہ سے طالبان کو اپنا بچہ کہنے والی مذہبی جماعتوں کو شدید تکلیف ہے، ان دہشتگردوں نے اولیاء اللہ کے مزارات کو بھی نہیں چھوڑا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ واحد مسلمان ایٹمی ملک پاکستان کو یمن معاملہ میں کسی قسم کے غیر ذمہ دارانہ کردار کی بجائے غیر جانبدار رہ کر ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان اندرونی طور ایک بڑی جنگ کا شکار ہے۔ مختلف سرحدوں پر فوج درکار ہے۔ یمن جنگ میں حصہ لینے کے بعد ہماری فوج کمزور پڑ جائے گی۔اسلام آباد میں منعقدہ دو روزہ مرکزی تنظیمی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ میڈیا کی بدولت پوری دنیا ایک گاوں کی مانند ہو چکی ہے، اقوام اور ممالک ہمسایوں کی طرح ہو چکے ہیں، دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو نظام لاگو کیا گیا وہ اپنی عمر پوری کرنے کو ہے۔ آج دنیا میں کوئی بھی سپر پاور نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دو قطبی بن چکی تھی، لیکن آج ورلڈ پاور موجود ہیں کوئی بھی سپر پاور نہیں۔
علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ عالمی قوتوں کے بنائے گئے نظام کے اندر مسلم لیڈرشپ ایک مسلم اقلیت کو دی گئی تھی، فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر بات کی جائے تو تاریخی طور پر دو مکتبہ فکر تھے، اہل سنت اور اہل تشیع، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اسلام میں ایک نیا افراطی طبقہ وجود میں آیا، جس نے معاشرے میں سخت گیری کو فروغ دیا، جیسا کہ خوارج اسلامی معاشرے کے اندر پیدا ہوا، جو وقت کے ساتھ اپنا اجتماعی اثر کھو بیٹھے۔ وہابیت کا مرکز سعودی عرب تھا، جسے جہان اسلام کی سربراہی سونپی گئی، انہیں جہان اسلام کا رہبر بنایا گیا۔ دنیا بدل رہی ہے تو وہ طبقہ جو جہان اسلام کو لیڈ کرنے والا طبقہ تھا، وہ بھی کمزور پڑنے لگا ہے۔ اس قوت کو مخصوص مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا۔ اہل سنت اور تشیع جو اصل مکاتب ہیں، جن کے آپس میں معاشرتی روابط موجود ہیں۔ امریکہ کے کمزور ہونے کے بعد سعودی عرب بھی کمزور پڑ چکا ہے۔ اب سعودیہ کو اپنی طاقت کے جانے کا خوف ہے جس کے باعث انہوں نے یمن پر حملہ کیا۔ یمن میں اکثریت اہل سنت اور اہل تشیع کی شاخ زیدیہ ہیں۔ وہانی وہاں کم ہیں، داعش اور القاعدہ اور اخوان کی شکل میں ہیں۔ جو قلیل تعداد میں ہیں، سعودیہ چاہتا ہے وہاں اسکی مرضی کا نظام چلے۔
حوثیوں بارے اظہار خیال کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ یہ لوگ یمن کی کل آبادی کا چالیس فیصد اور سادات ہیں، ان کی پچاس لاکھ آبادی ہے جو امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کی اولاد میں سے ہیں۔ وہاں کے اہل سنت شافعی مذہب میں سے ہیں۔ یمن کی سیکیولر فورسز بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ان کے مقابل القاعدہ اور داعش ہیں۔ حوثیوں کی جماعت انصار اللہ ہے۔ جن کا نعرہ اللہ اکبر، الموت لی اسرائیل، الموت لی امریکہ لکھا ہوا ہے۔ یمن ایک فقیر اور غریب ملک ہے، جس میں سعودیہ نے تفرقہ کرایا۔ 2011 میں علی عبداللہ صالح جو یمن پر گزشتہ طویل عرصہ سے حاکم تھا، خلیج کونسل نے یمنییوں کی مرضی کے خلاف منصور االہادی کو لایا۔ جیسے مصر میں فوج سے ملکر سعودی عرب نے جمہوری حکومت کو گرایا۔ یمن کے اندر خوفزدہ سعودی عرب کا حملہ ہے۔ ان کی آئیڈیالوجی پر حملہ ہے، سالمیت، آزادی پر حملہ ہے۔ منصور الہادی نے ڈیلیور نہیں کیا، اس کے دور حکومت میں القاعدہ کے ذریعہ مسجدوں پر حملے کئے گئے، اس موقع پر حوثی اپنے حق کے لئے اٹھے، حوثیوں نے سعودیہ یا مکہ و مدینہ پر حملہ نہیں کیا۔ یہ مکہ و مدینہ کے محافظ ہیں۔ سعودی عرب جارح ہے، حملہ بھی کیا جاتا ہے، اور لوگوں کو مدد کے لئے بھی بلایا جاتا ہے۔ حوثی آج تک مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ لیکن سعودی جنگ چاہتے ہیں۔ اسی سعودیہ کی وجہ سے شام اور پاکستان میں دہشت گردی وجود میں آئی۔ پاکستان کو غیر جانبدار رہ کر ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان واحد ایٹمی ملک ہے، اسے غیرذمہ دارانہ کردار کی بجائے غیر جانبدار رہ کر ثالث کا کردار ادا کرے۔ پاکستان اندرونی طور ایک بڑی جنگ کا شکار ہے۔ مختلف سرحدوں پر ہمیں فوج درکار ہے۔ مشرق و مغرب دونوں سرحدوں پر ہمیں فوج درکار ہے۔ یمن جنگ میں حصہ لینے کے بعد ہماری فوج کمزور پڑ جائے گی۔ سعویہ وزیرستان میں لڑنے والی فوج مانگ رہا ہے۔ ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے، پھر کیسے ہم کسی دوسرے ملک کی جنگ لڑ سکتے ہیں۔
علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ فوج بھیجنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ دین، قانون، اخلاق اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ افغانستان جنگ میں شمولیت کے ثمرات آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ اسرائیل اور سعودیہ ایسے ممالک ہیں جو ہمیشہ جنگ چاہتے ہیں۔ ہمارا یمن جانا اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہم جنگ طلب ہیں، اور جنگ کے شعلوں کو بھڑکانا چاہتے ہیں، جلتی پر تیل کاکام کرنا چاہے ہیں۔ اس جنگ کے شعلوں کو پھر ہم نہیں بجھا سکیں گے۔ اگر یہ مسئلہ حرمین شریفین کا ہے تو عرب لیگ کی بچائے او آئی سی کا اجلاس بلایا چاہیے تھا۔ یمن سے سعودی عرب نے القاعدہ کے خطرناک دہشت گردوں کو جیلوں سے آزاد کرایا۔ نواز شریف کو جاننا چاہیے، کہ وہ سعودی بادشاہ کی طرح پاکستان کے شاہ نہیں ہیں، کہ وہ بنا سوچے سمجھتے حکم جاری کر دیں۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو کسی قسم کا خطرہ نہیں، مقدس مقامات کو سعودیہ نے گرایا، داعش نے کعبہ کو گرانے کی دھمکی دی۔ پاکستان اگر اس جنگ کا حصہ بنے گی تو انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا، نواز شریف اس کے ذمہ دار ہوں گے۔