The Latest

وحدت نیوز (قم) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدرعلی مہدی نے وفدکے ہمراہ مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم المقدس کے دفترکا دورہ کیا، وفدمیں سابق مرکزی صدرعادل بنگش اور فرزند شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی سید دانش نقوی سمیت دیگر بھی شامل تھے، اس موقع پر دوطرفہ تنظیمی امور پر گفتگو کی گئی اور سیاسی صورتحال،تنظیمی نظم و نسق اورتعلیم و تربیت جیسے امور زیرِ بحث لائے گئے، ایم ڈبلیوایم شعبہ قم کے سیکریٹری جنرل علامہ گلزار جعفری نے معززمہمانان گرامی کا آمد پر شکریہ ادا کیا،ملاقات کے بعد ایم ڈبلیو ایم قم کی طرف سے مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیاگیا۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ہاشمی نے وفاقی حکومت و نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کو فیول ایڈ جسٹمنٹ کے نام پر نرخوں میں اضافے کو شہر قائد کی عوام کے خلاف سازش قرار دیا ہے و حدت ہاﺅس کراچی سے جاری اپنے بیان میں ان کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کی کارکردگی پہلے ہی اطمنان بخش نہیں موسم سرمہ میں بھی شہر کے مختلف علاقے تاریخی میں ڈوبے رہتے ہیں جبکہ کراچی کی عوام ملک میں پہلے ہی سب سے زیادہ مہنگی بجلی خرید رہے ہیںکے الیکڑک مافیہ اضافی بلوں اور مختلف آپریشن کے نام پر اب تک اربوں روپے کما چکی ہے توانائی بحران کے بعد مسلسل صرف شہر قائد کیلئے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کراچی کی عوام سے امتیازی سکوک برتا جارہا ہے وفاقی حکومت کی جانب سے شہر قائد میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ کی مذمت کرتے ہیں فیول ایڈجسمنٹ کے نام پروفاق، نیپرا عوام سے بھتہ خوری بند کرے انہوں نے کہا کہ کے ای ایس سی کی نجکاری کے بعد سے اب تک کمپنی اربوں روپے عوام سے بٹور چکی ہے نواز حکومت کے دور میں ہی کراچی پاور بحران پیدا کرنے پر ذمہ داران کے خلاف کاروائی تاحال عمل میں نہیں لائی گئی مگر نرخوں میں اضافے مسلسل کیے جارہے ہیں ،کے الیکٹرک عالمی سرمایہ دار معاشی غارتگروں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے جسے عوام سے کوئی سروکار نہیں انکا ہدف منافع کماکر یہاں سے چلے جا نا ہے ، لیکن کسی کو بھی عوام کا پیسہ کھا کر یہاں سے بھاگنے کی اجازت نہیں دی جائے انہوں نے و فاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کے الیکڑک کے خلاف معاشی دہشت گردی اور کرپشن کرنے پر نیشنل ایکشن پلان ایکٹ کے تحت کاروائی کی جائے حکومت بجلی کے نرخوں میں اضافے کو فوری واپس لے اور نرخوں میں کمی کو نوٹیفیکشن جلد جاری کیا جائے ۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) قومی سیرت کونسل پاکستان کے تحت منعقدہ قومی میلاد النبی ﷺکانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے خطاب کیا،انہوں نے مسلم معاشرے کی مشکلات اور مسائل سے نجات کیلئے سیرت ختمی مرتبت ﷺکی عملی اتباءپر زور دیا ،انہوں نے سعودیہ اور ایران کے درمیان جاری حالیہ سفارتی کشیدگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پاکستان کو اس صورتحال میں ثالث کا کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا ،انہوں نے سعودی حکومت کی جانب سے سیاسی ومسلکی بنیاد پر شیخ باقرالنمر کی غیر منصفانہ سزائے موت کی مذمت کی راولپنڈی آرٹس کونسل میں منعقدہ اس تقریب میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی ،وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات، مسلم لیگ ن کے ترجمان صدیق الفاروق، جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد، بشپ آف پاکستان اور دیگر مسالک اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنماوں نے خطاب کیا، جبکہ سول سوسائٹی، وکلاءاور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد کانفرنس میں شریک ہوئی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) سادہ لوحی کی بھی انتہاہوتی ہے،ہمارے ہاں کے سادہ لوح پاکستانی  خادمین حرمین شریفین کا نام دے کر  سعودی بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ کہہ رہے ہیں  ہیں  جبکہ ہمارے ہاں کے خود غرض اور سعودی نمک خوار سعودی بادشاہوں کی اتباع کو دینِ اسلام کہہ رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کا ایجنڈا ہر ممکنہ طریقے سے  اسرائیل کے بچاؤ اور امریکہ  کے اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔

سعودی حکمرانوں کو اللہ اولیائے اللہ اور دینِ اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں،انہیں کسی مسلمان،کسی ولی خدا اور کسی اسلامی مسلک پر کبھی رحم نہیں آتا۔ان کی ساری ہمدردیاں یہودیوں،عیسائیوں اور کفار سے وابستہ ہیں۔ شاید آپ کو تعجب ہورہاہو یا آپ مجھے ایک متعصب شخص سمجھ رہے ہوں لیکن اس میں تعجب یا تعصب کی کوئی بات ہی نہیں۔آپ خود سے تحقیق کر کے دیکھ لیں۔

ایک قاعدہ ہے" کل شیئ یرجع الی اصلہ" ہر چیز اس کی اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے۔ آل سعود کی اصل یہودیت ہے  اور موجودہ آل سعود کے آباو ادجداد کا تعلق خیبر کے یہودی قبیلے عنزہ یا ہمان سے ہے۔ (1) اور قرآن مجید بھی یہود کو مسلمانوں کا ابدی دشمن قرارد ے رہا ہے۔ (2) یہ لوگ کبھی مسلمانوں کا خیرخواہ قرار پانہیں سکتے۔ آج کل عالم اسلام کو جتنی مشکلات کا سامنا ہے ان سب کی بازگشت سعودی حکومت کی طرف پلٹتی ہے۔ نائجیریا میں سینکڑوں افراد کے قتل کا مسئلہ ہو یا یمن میں آٹھ ہزار سے زائد بے گناہ مسلمان شہریوں کا  کشت و خوں ،  شام میں لاکھوں  مسلمان بے گھراور کسماپرسی کے عالم میں ہونے کا مسئلہ ہو یا امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی  میں وہاں  ہزاروں لوگوں کا قتل عام کا مسئلہ،  ایران پر امریکی پابندیوں کا مسئلہ ہو یا بحرین میں آل خلیفہ کے مظالم کا معاملہ  غرض مسلمانوں کے تمام مشکلات کا سرچشمہ آل سعود ہی ہے۔

نہ سعودی عرب میں مذہبی آزادی ہے نہ فکری آزادی نہ حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے اور نہ اپنے حق کا دفاع کرنے کی قدرت۔ جس کا واضح ثبوت کل ہی آیت اللہ باقرالنمر کو  بے دردی سے شہید کرنا ہے۔ اسلام تو مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے۔ (3) فکر ی آزادی کی دعوت دیتا ہے(4)نہ ظلم کرنے کا حکم دیتا ہے اور نہ ہی ظلم سہنے کا(5)

مومنو! ناامید نہ ہونا چراغ امید کو اپنے دلوں میں روشن رکھنادشمنوں کے مظالم سے مرعوب نہ ہونا کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو تاریخ میں بہت سارے نشیب و فراز کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں۔ دشمن تو  ابتداتاریخ میں ہی ہمیں محو کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک اپنے ان ناپاک عزائم پر تلے ہوئے ہیں۔ نام نہاد مسلمانوں نے توسقیفے سے ہی ولایت کے نور کو بجھانے کی کوشش کی  اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کی نئی بدعت قائم کردی پھر مرور زمان کے ساتھ ساتھ کربلا کی سرزمین پر چراغ ہدایت کو گل کرنے اور ظلمت کو ہمیشہ کے لیے سایہ فگن کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی  اور وہ اپنے اس  زعم باطل میں مگن ہوگئےتھے کہ اس کے بعد کبھی ہدایت کا چراغ روشن نہیں ہوگا لیکن انھیں کہاں معلوم تھا کہ امام سجاد ؑ اور ثانی زہرا حضرت زینبؑ حیدری اور حسینی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اس چراغ ہدایت کو گل ہونے نہیں دیں گے۔  اسی طرح یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور قیام قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ البتہ یاد رکھنا کہ آخر کاری فتح ہماری ہی ہوگی اور بشریت کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دینے والا ہمارا ہی ہوگا۔ کیونکہ قرآن کا وعدہ ہے کہ میرے صالح بندے ہی اس زمین کے جانشین ہوں گے۔اس دنیا کی چند روزہ  زندگی میں  اللہ تعالی ان ظالموں کو مختصر مدت کے لیے ڈھیل دیتا ہے تاکہ ان کو ابدی ہلاکت میں مبتلا کرئے۔(6)

اب تو سلب آزادی کی انتہا ہوگئی اور شہید آیت اللہ باقر النمر کو مظلومانہ شہیدکیا گیا۔ نہ انھوں نے کسی کے قتل کا فتوی جاری کیا، نہ کسی مسلمان کے خون کو حلال کیا، نہ کسی کی ناموس کی توہین کی، نہ حکومت کے خلاف کوئی بغاوت کی، نہ کسی کا حق غصب کیا، نہ کسی کی توہین کی، نہ کسی دہشتگردی  کے واقعے میں ملوث ہوئے،  نہ کسی کا  "برین واش" کرکے اسے خودکش دھماکے پر وادار کیا،  نہ بے گناہ انسانوں کے قتل کو جہاد کا نام دیا، نہ جہاد النکاح کے ذریعے کسی کی ماں بہن کو دوسروں کے لیے جائز التصرف قرارد یا،  نہ کسی کے حق پر شب خوں مارا، نہ کسی دہشتگرد تنظیم کی سرکردگی کی، نہ کسی وہابی مسجد میں دھماکہ کرایا، نہ کسی دہشتگرد کے ساتھ تعاون....پھر انہیں کس جرم میں شہید کیا گیا؟  ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ معارف اہل بیت علیھم السلام کا پرچار کرتے تھے، اسلام کے حقیقی اصولوں سے لوگوں کو روشناس کراتے تھے، اسلام کا صحیح چہرہ لوگوں کے سامنے عیاں کرتے تھے، لوگوں کو ان کے شہری حقوق سے محرومی کا احساس دلاتے تھے، حکومت کی شہریوں کے درمیان تبعیض کی مخالفت کرتے تھے اور اجتماعی عدالت کے نہ ہونے کے خلاف آواز اٹھاتے تھے(6) کیا کسی شہری کا اپنے شہری اور مذہبی حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنا دہشتگردی ہے؟ کیا ظالم حکومت آل سعود کے مظالم سے پردہ چاک کرنا اولی الامر کی مخالفت شمار ہوتی ہے؟ کیا شرابی، کبابی اور حرم سرا میں  عیش و نوش میں مصروف رہنے والے ایسے حکمران اولی الامر کا مصداق  قرار پاسکتے ہیں؟ کیا لوگوں کے درمیان اجتماعی شعور بیدار کرنا جرم ہے؟ ....

شاید آل سعود یہ گمان کرتے ہوں کہ ایک یا چند نمر کو شہید کرنے سے شیعہ کمزور ہوجائیں گے اور ان کے خلاف  آواز نہیں اٹھائیں گے اور ساکت ہوکر ان کے تمام مظالم پر سسکیاں لیتے ہوئے مظلومانہ زندگی گزاریں گے اور ان کی ظالمانہ حکومت کے خلاف سعودی عرب اور دنیا کے گوش و کنار میں  بے حس تماشائی بنے رہیں گے۔ اگر تمہاری یہ سوچ ہے تو یہ تمہاری بھول ہے؟ تشیع وہ ملت ہے جس نے ابتدا تاریخ سے ہی حزب اختلاف میں رہنے کے باوجود اپنا تشخص نہیں کھویا، کبھی کسی کی غلامی کو قبول نہیں کیا، کبھی کسی کے ظلم  پر  خاموش  نہیں رہے، کبھی  دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سکوت اختیار نہیں کیا، کبھی کسی امریکا یا اسرائیل جیسے استعماروں کے پنجے میں  آکر ان کا آلہ کار نہیں بنا۔ کیوں؟  اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا سبب کیا ہے؟میری نظر میں اس کا واحد سبب ہمارا کربلا سے متمک ہونا ہے۔ ہم بادشاہ حریت اباعبداللہ الحسین ؑ کو اپنا آقا و مولی مانتے ہیں اور انھیں  اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ جس نے  کربلا کی تپتی صحرا میں ہمیں یہ  درس دیا ہے کہ "ذلت ہم سے بہت ہی دور ہے"(7) ظالموں کی ہمراہی میں زندگی گزارنے کے مقابلے میں عزت کی موت سعادت ہے" (8)

ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر چند روز تم اپنی حکومت و اقتدار کے نشے میں مست رہ کر دوسرے مسلمانوں بالخصوص علما حقہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے رہو لیکن یاد رکھو وہ وقت دور نہیں کہ جہاں امام حسینؑ نے بہتر افراد کے ساتھ ہزاروں سے جنگ کرکے ان  کے دشمنوں کو قیامت تک آنے والوں کے لیے  نشان عبرت بنا دیا وہاں ان بے گناہ شہیدوں کا خون بھی عنقریب رنگ لائے گا اور تمہارے دیوان اقتدار میں لرزہ طاری کرے گا اور تمہاری بھی وہ حالت ہوجائے گی جو حال ہی میں دوسرے ظالم و جابر حکمرانوں کا ہوا ہے۔ ہم تم سے صرف اتنا ہی کہیں گے کہ:

ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گھڑے پھر بھی بڑھے       وادی مرگ بھی منزل گہہ  امید بھی

ہاتھ کٹتے رہے پھر مشعلیں تابندہ رہیں                     رسم جو ہم سے چلی باعث تقلید بنی                           

شب کے سفاک خداؤں کو خبر ہوکہ نہ ہو                   جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی

 

تحریر۔۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) موت بھی ایک وزن رکھتی ہے۔موت کو بھی تولا جاسکتاہے۔موت کا وزن مرحوم کی شخصیت کے مساوی ہوتاہے۔کسی کی موت سے صرف اس کی گھر والے،عزیز اور رشتے دار متاثر ہوتے ہیں،کسی کی موت سے ایک پورے شہر کا دل درد سے بھر جاتا ہے،کسی کی موت کئی شہروں کو اداس کردیتی ہے ،کسی کی موت سے پورا ملک ہل جاتا ہے اور کسی کی موت پوری دنیا کو ہلا دیتی ہے۔

بلاشبہ گزشتہ دنوں میں افریقہ کے شیخ زکزاکی پر حملے اور شیخ باقرالنمر کی سزائے موت نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیاہے۔بات صرف سعودی عرب اور ایران کی نہیں ،بات عالمی برادری کے رد عمل کی ہے۔سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں اس سے پہلے بھی  کئی مرتبہ شدید تناو آیا ہے اور اس سے زیادہ  بھی حالات سنگین ہوئے ہیں لیکن  بین الاقوامی  برادری نے اس سے پہلے کبھی اس طرح سعودی عرب کو شدید تنقید کا نشانہ نہیں بنایاتھا۔

بین الاقوامی برادری خصوصا اسلامی دنیا نے اس دفعہ سعودی عرب  کی شدید مذمت کی ہے۔اس مذمت کی خاص وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معلومات کا عام ہونا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ سعودی عرب کے بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ اور خادم الحرمین شریفین کہہ کر ان کی پرستش کرتے تھے اور بعض اب بھی ان کی پوجا کرتے ہیں لیکن ایک عام اور غیر متعصب مسلمان اب سعودی عرب کی حکومت،آل سعود کے عقائد اور سعودی حکمرانوں کے ہاں پائے جانے والے اسلام کو اچھی طرح سمجھ چکاہے۔

حتّی کہ سعودی حکومت کو اچھی طرح سمجھنے والے اور آلِ سعود کی پشت پناہی سے وجود میں آنے والے طالبان اور داعشی گروہوں میں  بھی  ایسے گروہ موجود ہیں جو کہ آلِ سعود کو خالصتاً امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔

دنیا بھر میں شدت پسندوں کو ٹریننگ دینے،خود کش دھماکے کروانے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے  اور اسلام کا لیبل استعمال کرنے کے باعث ، خصوصاً سانحہ منیٰ کے بعد سے لوگوں کے سامنے آل سعود کا اصل چہرہ بے نقاب ہوچکاہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ  فلسطین اور غزہ کے مسلمان آلِ سعود کے صیہونی ہونے کا تجربہ کرچکے ہیں،بحرین میں سعودی افواج کے سینگ پھنسے ہوئے ہیں،یمن میں سعودی عرب کا بھرکس بن رہاہے،شام میں آل سعود کی دُم پر پاوں آیا ہوا ہے ،عراق میں سعودی عرب کے دانت کھٹے ہوچکے ہیں،پاکستان میں ہرباشعور پاکستانی ،سعودی عرب کے دہشت گردی کے کیمپوں میں جانے سے گریزاں ہے،کشمیر میں لوگ سعودی جہاد کا مزہ چکھ چکے ہیں۔افغانستان میں آل سعود کو خنّاس سمجھا جاتاہے۔۔۔

ایسے میں سعودی عرب کی طرف سے ۳۴ ممالک کے اتحا د کا من گھڑت اعلان کرنا دراصل گرتی ہوئی سعودی بادشاہت کو بچانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔یہ کوشش بھی اس وقت ناکام ہوگئی جب اکثراسلامی ممالک کے سربراہوں نے اس اتحاد سے لاتعلقی کااظہار کردیا۔

سعودی اتحاد سے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے انکار نے سعودی حکمرانوں پر واضح کردیا ہے کہ اب اسلامی دنیا،اسلام کے نام پر بے وقوف بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔

اس وقت امریکہ و اسرائیل کی چاکری اور اپنے وہابی عقائد کے باعث سعودی عرب عالمِ اسلام کو  اپنے پرچم تلے جمع کرنے میں ناکام ہوچکاہے۔

اب سعودی عرب کے پاس دوسرا راستہ صرف اور صرف یہی ہے کہ دنیا کو “ایران دشمنی “پر جمع کیاجائے۔دنیا کو ایران دشمنی پر جمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دیگر ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کو ایران سے ڈرایاجائے۔” ایران سے ڈرانا” در اصل امریکہ اور اسرائیل کا ایک کاروباری ہتھکنڈہ ہے،مغربی قوتیں اور امریکہ  عرب ریاستوں کو ایران سے ڈرا کر ایک لمبے عرصے سے معدنیات اور تیل کے ذخائر کولوٹ رہے ہیں۔چنانچہ ایران سے ڈرانے کا نسخہ امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب تینوں کے لئے فائدہ مند ہے۔

اس نسخے کے تحت  شیخ باقرالنّمر کی سزائے موت پر ہونے والے ردّعمل کے بعد سعودی عرب نے ایران کے خلاف  اعلانیہ سفارتی جنگ  شروع کردی ہے۔ایسے لگتاہے کہ جیسے ایک دم ایران اور سعودی عرب کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں،حالانکہ ۳۴ممالک کے اتحاد کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد یہ ماحول جان بوجھ کربنایاگیاہے۔

“ایران دشمنی” پر لوگوں کو جمع کرنے کی گیم بھی اب  زیادہ عرصے تک چلنے والی نہیں چونکہ وہ زمانہ گزرگیاکہ جب مداری ڈگڈگی بجاکر لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرلیتے تھے اور چٹکلے سنا کر ان سے پیسے لیتے تھے۔اب دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے اور لوگ خبری چٹکلوں اور سیاسی بیانات کے بجائے،تحقیق اور تجزیہ و تحلیل سے کام لیتے ہیں۔

ہمارے خیال میں اس وقت سعودی عرب کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ بن کر ایران دشمنی کی فضا بنانے کے بجائے  اپنی اصلاح ِ احوال پر توجہ دے۔دنیا بھر میں شدت پسند ٹولوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لے اوراپنی ریاستی عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کااحترام کرے۔

سعودی حکومت کو اس وقت حقیقی خطرہ ایران کے بجائے ان مظلوم سعودی عوام سے ہے جن کے مقدس ملک کو امریکہ اور اسرائیل کی کالونی بنادیاگیاہے،جن کی غیرتِ دینی کو مذاق بنادیاگیاہے،جن کے جذبہ جہاد کو نیلام کیاگیاہے،جن کے معدنی زخائر کو کفار اور یہود پر لٹایاجارہاہے ،جن کی مقدس دھرتی پرپائے جانے والے مقدس مقامات کو مسمار کردیاگیاہےاورجن کے سیاسی  و جمہوری حقوق کو نظرانداز کیاجارہاہے ۔ایسے مظلوم لوگ صرف شیعہ نہیں بلکہ سنّی بھی ہیں ۔یہ سب مظلوم ہیں اور یہ سب سعودی حکومت کے لئے خطرہ ہیں۔


تحریر۔۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

⁠⁠⁠مشکل کی گھڑی

وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا کی سیاست اور معیشت میں وطن عزیز پاکستان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، چاہے دنیا کی دو سپر طاقتیں امریکہ اور روس ہوں یا دنیا کی معیشت پر اجارہ داری قائم کرنے والا ملک چین،کسی بھی طاقتور ملک کی کہانی اور دنیا کے بڑے سانحات پاکستان کے نام کے بغیر ختم نہیں ہوتے۔ کولڈ وار ہو یا دہشت گردوں کے خلاف جنگ پاکستان کی شمولیت یا مدد کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔ امریکہ نے اگر روس کو ڈرانا ہو تو بھی پاکستان کی ضرورت یا روس کو خطے میں اپنے مفادات کا خیال رکھنا ہو تو بھی پاکستان کی ضرورت، چین نے اپنے اقتصاد کو مزید فروغ دینا ہو اور خطے میں اہم اتحادی بننا ہو تو بھی وطن عزیز پاکستان کی ضرورت ہوتی ہے، مسلم ممالک کو مدد کی ضروت ہو یا عربوں کا برم غرض ہر صورت میں عالمی طاقتوں سے لیکر عربوں تک سب کو کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کی مدد یا حمایت کی ضرورت ہے ، مگر سالوں سے ہم نے یک طرفہ کھیل دیکھا ہے اور زیادہ تر نقصان اٹھایا ہے لہزا اب ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی فارن پالیسی کو واضح کریں اور دنیا کوبتا دیں کی اب پاکستان کسی یک طرفہ پالیسی کا حامی نہیں ہوگا۔
مشرق وسطی کے بدلتے حالات اور آئے روز رونما ہونے والے حالات نے پاکستان کی اہمیت اور کردار کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ اب ایسے نازک حالات ہیں کہ پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور اب تک الحمد اللہ پاکستان کسی سازش کا حصہ بنے سے محفوظ ہے اور اپنی پالیسی کو اسٹیٹ کے مفاد میں رکھے ہوےُ ہے۔ لیکن کچھ ممالک جو  پاکستان کو اپنا مخلص اور سچا دوست بھی مانتے ہیں اور پریشان بھی دیکھائی دے رہے ہیں ان ممالک نے انتہائی کوشس کی کہ پاکستان بھی مشرق وسطی کے ممامک عراق و شام کی طرح آگ و خون کی لپیٹ میں آجاےُ مگر ہر دفعہ وہ ناکام رہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی حکام نے 34 ممالک پر مشتمل دہشت گردوں کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا جس میں پاکستان بھی شامل ہے مگر جن ممالک میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہو رہی ہے یعنی عراق اور شام اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ان کا اتحادی ایران سعودیہ کے اس اتحاد میں شامل نہیں ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اتحاد سعودی عرب نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے لئے نہیں بلکہ اپنی بادشاہت اور ظالم چہرہ کو چھپانے کے لئے بنایا ہے کیونکہ حقیقت میں القاعدہ اور طالبان سے لیکر داعش تک تمام دہشت گردوں کو مالی، مذہبی اور انفرادی امداد سب سے زیادہ سعودی حکومت یعنی آل سعود سے ملتی  جو اب مسلم امہ پر واضح ہوئی تو وہ اپنے اس سازشی چہرہ کو چھپانے کے لئے اتحاد کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے تاکہ ایک دفعہ پھر سادہ لوح مسلمانوں کو بے وقوف بنایا جاسکے لیکن اب یہ آل سعود کی بھول ہے اب مسلمان بیددار ہیں اور کسی خائن حکمران کی باتوں میں نہیں آئینگے۔ ان حالات میں پاکستان نے اچھا موقف اپنایا حکومت کا کہناتھا ہم اس اتحاد میں شامل ہیں مگر کسی جمہوری حکومت کو گرانے اور دوسرے ممالک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کی حمایت میں نہیں اور نہ ہی کسی خانہ جنگی کا حصہ ہونگے۔اب جب پاکستان نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشس کی تو اس کے بدلے میں داعش جیسے دہشت گردوں کو تیزی سے پاکستان میں پھیلانا شروع کر دیا گیا. ان دہشت گروں میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ تکفیری دہشت گرد داعش نے ان خواتین کو اسلام کے نام پر اپنے طرف مائل کیا ہے اور ان کی عزت و آبرو برباد کی جارہی ہے اوراب تک  کئ خاندان اجڑ چکے ہیں جن کی مثال حال ہی میں لاہور سے شام جانے والی خواتین کا گروہ ہے جن کے شوہر پاکستان میں پریشان ہیں اور بیویاں بچوں کو ورغلا کر شام میں جہاد النکاح کے نام پر نام نہاد مجاہدین کی حوس پورا کررہی ہیں۔ پھر بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کار کردگی کو سراہنا چاہئیے جنہوں نے مزید سینکڑوں گھروں کو اجاڑ نے سے بچا یا اور کراچی اور پنجاب سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو پکڑا جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی اس کاروائی سے دشمن ایک دفعہ پھر پریشان ہے ۔ پاکستان کے دشمنوں کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ پاکستان میں فرقہ واریت اور لسانی فسادات پیدا ہوں تاکہ پاکستان کو اندورنی طور پر کمزورکیا جاسکے اور دنیا میں بدنام کیا جا سکے۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے دشمن کی اس سوچ کو ناکام بنایا اور ان کی سوچ کو سوچ کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ داعش کے خلاف آرمی چیف اور سیکرٹری خارجہ کے بیان بھی قابل تعریف ہیں اور امید بھی یے کہ پاک فوج داعش کو پاکستان میں پہنپنے نہیں دے گی اور آوآئی سی کی موجودگی میں کسی نئے اتحاد میں بھی شامل نہیں ہونگے، لیکن سعودی پریشر میں پاکستان نے سعودی عرب کے بنائے ہوئے نام نہاد 34 ممالک کے اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان تو کیا ہے مگر اپنی پالیسی بھی کسی حد تک واضح کی ہے جو قابل تعریف ہے،اور یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ اس اتحاد کے اثر کو پاکستان میں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے نہیں دینگے. اس اتحاد میں شامل ہونا ایسا ہی ہے جیسے امریکہ کی خوشنودی کے لئے روس سے دشمنی مول لی گئ تھی اور طالبان جیسے دہشت گردوں کی تربیت کرنی پڑی تھی جس کا صلہ آے پی ایس کے بچوں کی مظلومانہ شہادت کے طور پر ملا۔

سعودی حکومت نے ابھی اس اتحاد کی کاغذی کاروائی بھی ہونے نہیں دی تھی کہ اپنے مقاصد کو ظاہر کرنا شروع کر دیا اور سعوی عرب کے شہری اور سیاسی لیڈر شیخ نمر سمیت 47 لوگوں کا سر قلم کر دیا اور حقیقت میں یہ اس اتحاد کے سر کو قلم کیا گیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے جھوٹے نقارے کو بجایا گیا ہے . جس سے کڑوڑوں مسمانوں کی دل آزاری ہوئی اور مسلم ممالک بلکہ ساری دنیا میں اس انسانیت سوز ظلم پر مظاہرے پھوٹ پڑے جو کہ اب شدت اختیار کر چکے ہیں اور ایران اور عراق میں سعودی سفارت خانوں کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے ایران سعودی کشیدگی مزید بڑھ گئی اور سفارتی تعلقات ختم ہو گےُ اب سعودی عرب اپنے مظالم کو چھپانے اور اپنی بقا کے لئے اپنے اتحادیوں کو استعمال کرنا چاہتا ہے جو کہ عملی طور پر شروع ہو چکا ہے اور سوڈان نے بھی ایران کے سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے  اور بحرین اور کویت نے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلا لیا ہے۔ادھر سعودی چاہتے ہیں کہ باقی اتحادی بھی سعودی اشارے پر ناچیں یعنی آل سعود اپنے تخت کو بچانے کے لیے مسلم ممالک کو استعمال کر رہے ہیں جس سے مسلم ممالک میں فرقہ واریت کو تقویت ملے گی اور تمام مسلمان اپنے اصل دشمن امریکہ اسرائیل اور یہودیوں کو بھول کر آپس میں دست و گریباں ہو جائینگے جس سے تمام تر فائدہ مغربی ممالک اور اسلام دشمنوں کو حاصل ہوگا۔ ان حالات میں وطن عزیز پاکستان کا کر دار نہایت اہمیت کا حامل ہے کیوںکہ پاکستان کے ایران اور سعودیہ دونوں سے قریبی تعلقات ہیں اور پاکستان کو چاہیے کہ ان تعلقات کو بروےُکار لاتے ہوئے مسلم ممالک میں ثالث کا کردار ادا کرے اور ان کشیدگیوں کو کم کرنے کی کوشش کرےتاکہ  تمام مسلمانوں کا دل جیت سکے اور امت مسلمہ کو مزید مشکلات سے بچایا جاسکے ۔ یہ  پاکستان کی اسٹیبلشمینٹ اور سیاسی اکابرین کے لئے امتحان کی کھڑی ہے اور اب تک کے سیاسی بیانوں سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ انشااللہ پاکستان سب سے پہلے اپنے تحفط کرے گا اور عالم اسلام کے مسائل میں کسی ایک فریق کا حمایتی نہیں بنے گا اور تمام مسلمان ممالک کے بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا اور مسلم ممالک کی کشدگی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں داعش کے بڑھتے ہوےُاثر و رسوخ کو بھی ختم کرے گا اگر پاکستان میں داعش کے اثر کو فوری ختم نہیں کیا گیا تو یہ دہشت گرد پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے میں دیر نہیں لگائیں گے.
⁠⁠⁠⁠

تحریر۔۔۔۔ناصر رینگچن

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری شیخ ولایت حسین جعفری کے بیان میں گذشتہ دنوں سعودی عرب میں شیخ باقر النمر کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کو حق پرست یا اسلام کا پروکار کہنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ سعودی حکمرانوں کی آمرانہ حرکات قابل قبول نہیں اور ان کے ہاتھوں شیخ باقر النمر کی شہادت قابل مذمت ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ آیت اللہ شیخ باقر النمر ایک ایماندار، با اصول، انسانیت پسند اور اسلامی احکام پر عمل کرنے والے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے والے عالم دین تھے۔جنہیں سعودی حکمرانوں نے بے گناہ شہید کردیا، سعودی عرب کے ان حرکات نے اسلام کے پر امن چہرے کو دنیا بھر کے سامنے بدنام کردیا ہے اور ان کے مظالم کو تاریخ کے سیاہ صفحوں میں لکھا جائے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سعودی عرب کے حکمران اپنے دولت کا استعمال مقدس مقامات کی بہتری یا سہولتیات کیلئے کرسکتے ہیں مگر ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنی عیاشیوں کیلئے خرچ کرتے ہیں ۔ بادشاہت ، طاقت اور غرور نے سعودی حکمرانوں کو اندھا کر دیا ہے مگر وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ اللہ کی بارگاہ میں سب برابر ہے انکی دولت اور بادشاہت صرف دنیا میں ہی انکا ساتھ دے سکتی ہے اسکے بعد انکے کسی کام نہیں آنے والی۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم کم از کم ایسے واقعات کے خلاف احتجاج کرے، اپنی آواز دنیا کے ہر کونے تک پہنچائے اور جتنا ممکن ہے ظلم و ستم کے ایسے واقعات کی مذمت کرے ۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان (کو ئٹہ ڈویژن) کی جانب سے سعودی حکومت کے آمرانہ و جابرانہ اقدام کے خلاف علمدار روڈ مائیلوشہید چوک سے شہداء چوک تک ایک عظیم الشان احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں عوام الناس نے سعودی عرب کے عظیم سیاسی ، مذہبی اور سماجی رہنماآیت اللہ شیخ باقر النمرکو پھانسی دے کر شہید کرنے والی سعودی حکومت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔

اس احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ہاشم موسوی نے کہا کہ شیخ باقر النم سعودی عرب میں اتحاد بین المسلمین کے سب سے بڑے داعی تھے۔انہوں نے سعودی بادشاہ کی ظالمانہ اورآمرانہ کے خلاف پرامن احتجاج اور تنقید کی۔اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنایا۔لیکن سعودی حکومت اپنی ظالمانہ پالسیوں کا کوئی جواب نہ دے سکی اور انھیں صرف احتجاج اور تنقید کرنے کے جرم میں پھانسی دے کر شہید کیا،ان کی شہادت جمہوریت اور انسانیت کے دعویداروں ، دنیا بھر میں انسانی حقوق کا پرچار کرنے والی سیاسی،سماجی شخصیات ،اداروں،جماعتوں اور ممالک کے لئے کھڑا امتحان ہے۔دنیا کے تمام حریت پسند آزاد انسان سعودی عرب کے اس انسانیت سوز اقدام کے خلاف ان کے موثر کردار کے منتظر ہیں کیونکہ شیخ باقر النمر کی شہادت پر ان کی خاموشی ان کے بڑے بڑے دعووٗں کے تابوت پر آخری کیل ٹوکنے کے مترادف ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی سطح پر اسلام کے دعویدار اور دینی قوتوں اور شخصیات و علماء ،جو ہمیشہ پیغمبر اسلام، قرآن مجید اور اہلِبیت و صحابہ کرام کی تعلیمات پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، کا کردار بھی انتہا ئی اہمیت کا حامل ہے۔

ایم ڈبلیو ایم پاکستان کوئٹہ ڈویژن کے ڈپٹی سیکریڑی جنرل علامہ ولایت حسین جعفری نے کہا کہ عالم اسلام پہلے ہی اسرائیل و مغرب کے مظالم کا شکار ہے لیکن اب سعودی حکومت نے وہی ااسرائیل کا کردار نبھانا شروع کر دیا ہے، وہ کردار جو اسرائیل فلسطین میں ادا کر رہی ہے وہی کردار سعودی حکومت یمن، عراق اور شام میں ادا کر رہی ہے۔سعودی حکومت کی جانب سے پھیلانے والے تکفیری نظریات نے اکثر اسلامی ممالک کو دہشت گردی کے کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔سعودی حکومت نے ٓآیت اللہ شیخ باقر النمر کو شہید کرکے عالم اسلام کو فرقہ واریت کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی ہے اور یہ ان کی ایک بہت بڑی غلطی ہے۔

ان تمام حالات کو دیکھ کر پاکستان کو اپنی خارجہ پالسیاں احتیاط کیساتھ مرتب کرنا ہوں گی،کسی بھی ایسے اتحاد کا حصہ بنناجو فرقہ ورانہ بنیادوں پر قائم کی گئی ہے وطن عزیز کے لئے نقصان کا باعث ہوسکتاہے۔اسی طرح سعودی عرب کی موجودہ حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات پر پاکستان کو نظر ثانی کرنا ہوگی۔ریلی کے اختتام پر پاکستان کی سلامتی، اسلام و مسلمین کی حفاظت اور اتحاد کے لئے دعا بھی کی گئی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کوآرڈینیٹر خانم سیدہ زہرا نقوی کی زیر صدارت راولپنڈی اسلام آباد کے شعبہ خواتین کا اہم اجلاس مرکزی سیکریٹریٹ میں منعقد ہواجس میں جس میں راولپنڈی اسلام آباد میں تنظیم سازی اور شعبہ کی فعالیت کے سلسلے میں دو کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ، کمیٹیوں کو ایک ماہ کا ٹاسک دیا گیاکہ وہ تنظیم سازی اور یونٹ سازی کے عمل کو مقررہ مدت میں مکمل کرکے مرکزکی جانب سے ارصال کردہ پروگرامز کو تمام یونٹس میں عملی بنائے۔اجلاس میں خانم زہرا نقوی کے علاوہ خانم طیبہ اعجاز ، علامہ اصغر عسکری ، نثارعلی فیضی بھی شریک ہوئے۔

وحدت نیوز (مری) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین تحصیل مری بھمروٹ سیداں کے زیر اہتمام جشن عید میلاد النبیﷺ کا انعقاد کیا گیا، جس میں خصوصی خطاب مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کوآرڈینیٹربرائے شعبہ خواتین خانم سیدہ زہرا نقوی نے کیا،انہوں نے سیرت پیغمبر اکرم ﷺپر روشنی ڈالی اور خواتین کو اسوہ حسنہ کی اتباءکی تلقین کی، پروگرام میں چھ یونٹس نے شرکت کی،جشن میلاد میں مقابلہ نعت خوانی کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں شیعہ سنی بچوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، علاقہ کی اہل سنت خواتین نے بھی بڑی تعداد جشن میلاد النبیﷺ میں شریک ہوئی۔

بعد ازاں یونٹس کی نمائندہ خواتین کے ساتھ خانم نرگس سجاد کی سربراہی میں مرکزی کوآرڈینیٹربرائے شعبہ خواتین خانم سیدہ زہرا نقوی نے ملاقات کی جس میں مختلف امور زیر بحث لائے گئے، یونٹ کی جانب سے خواتین کی فنی سلاحیتوں کو ابھارنے کیلئے ووکیشنل سینٹرکے قیام پر زور دیا گیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree