The Latest

محرم الحرام ۱۴۳۵ ؁ء ھجری بروز جمعتہ المبارک ، شہر راولپنڈی کے باسیوں کے لئے حقیقی طور پہ یوم عاشور سے کم نہ تھا ، راولپنڈی کے امامبارگاہوں سے نکلنے والے تمام چھوٹے بڑے جلوس اپنے مقرر شدہ راستوں سے گذرتے ہوئے ظہرین کے وقت فوارہ چوک میں پہنچ چکے تھے، سنت سیدالشہداء کو زندہ رکھتے ہوئے سوگواران حسینؑ نے نماز ظہرین فوارہ چوک میں ادا کی جس کی امامت حسب معمول مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی صاحب نے کرائی نماز ظہرین کی ادائیگی کے بعد عزاداری سید الشہداء کا سلسلہ دوبارہ جاری ہو ا اور خطباء نے کربلا اور سیرت امام حسینؑ کے مختلف پہلوؤں پہ گفتگو کی اور دور حاضر میں حسینیت کی عظمت بیان فرمائی۔

 

دن کے تقریباً ۳ بجے جب شرکاء جلوس مراسم عزاداری میں ادا کررہے تھے ،اسی اثناء میں جلوس سے آگے چلنے والے کچھ معمر افراد اور کچھ بچے جو گذشتہ کئی دنوں سے عشق حسین ؑ سے سرشار مسلسل عزاداری کی مراسم میں مصروف تھے تھکاوٹ سے بے حال ہو کے آرام کی غرض سے مسجد ( جو اس فتنہ کی جڑہے) کے سامنے بیٹھے، ان عزادارن کی موجودگی میں اور مقامی پولیس فورس کے اعلیٰ عہدیداران کی موجودگی میں مسجد کے خطیب نے انتہائی شر انگیز گفتگو کی جس کی تمام تفصیلات بعض قومی اخبارات اور خود سیکورٹی ایجنسیوں نے اپنی رپورٹ میں نقل کی ۔ اس تقریر میں نواسہ رسول محافظ شریعت سیدالشہداء امام حسین ؑ کی شان میں جسارت کی گئی اور نعوذبااللہ یزید لعین کو خلیفہ برحق کہا گیا۔اسی اثناء میں مسجد کے سپیکر سے کفریہ نعرے بلند ہوئے اور یزیدیت زندہ باد حسینیت مردہ باد جیسے کفریہ کلمات بلند ہوئے جس سے گرد و نوح میں موجود سنی و شیعہ اہل ایمان کے جذبات مجروع ہوئے ابھی نعروں کی گونج ختم نہ ہوئی تھی کہ مسجد کی چھت سے نسل یزید کے پیروکاروں نے سوگواران سیدالشہداء پہ پتھروں کی بارش کر دی نیز عینی شاہدین کے مطابق سائیلینسر لگی گنوں سے عزاداران سیدالشہداء پہ فائرنگ کی گئی جس سے کم و بیش آٹھ افراد زخمی ہوئے، یاد رہے یہ سب کچھ اس وقت ہورہا تھا جب مقامی انتظامیہ کے کئی اعلیٰ عہدہ داران اسی مقام پہ اپنی ڈیوٹی پہ تعینات تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ’’ کسی اوپر والے ‘‘کے حکم پریہ سب کچھ خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد بعض افراد نے جو کہ ہر گز جلوس و عزاداری کا حصہ نہ تھے لیکن غیرت ملی سے یقیناًسرشار تھے انہوں اپنے دفاع میں تھوڑی سی قدرت کا اظہار کیا جس سے مسجد میں تکفیری ٹولہ سے تعلق رکھنے والے بعض شر پسند جن تعداد آٹھ تھی ہلاک ہو گئے۔

 

یہ تو تھی اس واقعہ کی مختصر تفصیل لیکن اب ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ تھا یا سوچی سمجھی سازش؟ اس کے لئے ہمیں گذشتہ چند ایام میں ہونے والے بعض اہم واقعات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیں گے
کہ یہ واقعہ کیا ہے؟
اس کی حقیقت کیا ہے؟
اس سے کس کو فائدہ ہوا؟
اس کا ہدف کیا تھا؟


ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مقتدر سیاسی ٹولہ جسے سعودیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ ریاست کی عزت و حرمت کو داؤ پہ لگا کر مٹھی بھر دہشت گردوں کو ہر صور ت میں پناہ دینا چاہتا ہے اور ان کی خوشی کے لئے افواج پاکستان، سیکورٹی اداروں اور ہزاروں بے گناہ مظلوم پاکستانی شہریوں کے درندہ صفت قاتلوں ظالمان یعنی تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے لئے ماحول آمادہ کرتا ہے ۔ حکومت کے اس فعل کو مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک اور دیگر کئی محب وطن سیاسی قوتوں نے یکسر رد کیا ۔ اسی اثناء میں اس دھرتی کا ناسور یعنی حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملہ میں واصل جہنم ہو جاتا ہے۔

 

یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے محب وطن اور منافق وطن فروش قوتوں میں واضح تفریق کر دی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منور حسن نے اپنے ایک بیان میں حکیم اللہ لعین کو شہید قرار دیا اور اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ طالبان کی حقیقی نمائندگی کرتے ہوئے افواج پاکستان کی تضحیک کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ میں پاکستانی فوج کے سپاہی کو شہید تسلیم نہیں کرتا۔ اسی دوران ملک کی ایک اور سیاسی و مذہبی شخصیت اور جمعیت علماء اسلام کے راہنما ء مولانا فضل الرحمٰن نے بھی طالبان کا حق نمک ادا کرتے ہوئے حکیم اللہ کی ہلاکت پہ یہ کہا کہ اگر ’’ امریکیوں کے ہاتھوں کوئی کتا بھی مارا جائے تو وہ اسے شہید قرار دیں گے

‘‘

ان حالات میں میڈیا کے بعض ذمہ دار چینلز، آئی ایس پی آر، مجلس وحدت مسلمین اور دیگر کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ان نام نہاد کے مذہبی راہنماؤں اور طالبانی فکر کے محافظوں کی بھرپور درگت بنائی اور محبان وطن کی درست نمائندگی کی اور ایسا بھر پور دفاع کیا کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی ساکھ خطرے میں پڑ گئی۔

 

ان حالات میں پنجاب حکومت کا کردار بھی سو فیصد مشکوک ہے ، پنجاب کے وزیر قانون نے تین محرم کو راولپنڈی کے تمام امامبارگاہوں کا غیرمتوقع دورہ کیا اور قارئین کے لئے یہ بات یقینی طور پہ حیرت انگیز ہو گی کہ اسی روٹ پہ جہاں پہ اس وزیر موصوف نے تفصیلی دورہ کیا شر پسند عناصر نے گھیراؤ جلاؤ کیا اور ان تمام امامبارگاہوں کو ں نذرآتش کیا گیا جہاں اس وزیر نے پولیس اور ایجنسیوں کی ایک بڑی ٹیم کے ساتھ دورہ کیا ، گو یا لگتا ایسا ہے کہ راولپنڈی سانحہ کا پلاٹ پہلے ہی کہیں تیار ہو چکاتھا اور یہ مشکوک دورہ بھی اسی پلاٹ کا ایک حصہ تھا۔

 

اب دوبارہ ہم اس مقام پہ آتے ہیں کہ جہاں سے اس گھناؤنی سازش کا آغاز ہوا۔ تمام مساجد میں نماز جمعہ ادا ہو چکی لیکن اس ’’ مسجد ضرار‘‘ میں تین بجے تک انتظامیہ کی موجودگی میں سپیکر سے شر انگیز تقریر کا نشر ہونا اس امر کی دلالت ہے کہ مقامی انتظامیہ نے کسی’’بڑے‘‘ کے کہنے پہ شر پسند اور فسادی ملاں کو کھلی رعایت دی کہ وہ اپنی شر انگیزی پھیلائے۔نیز سوشل میڈیا کے ٹھوس شواہد سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مخصوص ٹولہ کے مسلح شرپسندوں کو ایس ایم ایس کے ذریعہ نو محرم کو جلوس عزا روکنے کے لئے مسجد میں آنے کی دعوت دی گئی اور اس مخصوص ٹولہ کے مرکزی کرداروں کی میٹنگ بھی دوروز قبل منعقد کی گئی۔

 

یاد رہے یہ مسجد ہمیشہ سے وجہ نزاع رہی اور اس مسجد سے ہمیشہ پاکستان کے دونوں بڑے مکاتب فکر یعنی بریلوی اہلسنت اور اہل تشیع کے خلاف فتوے دیئے جاتے رہے۔ اس مسجد سے ہمیشہ میلاد اور عزاداری کے جلوسوں کی مخالفت کی جاتی رہی اور دونوں مکاتب فکرکے مقدسات کی توہین کا سلسلہ جار ی رہا ۔آیا اس کیفیت میں مقامی انتظامیہ نے کوئی اقدام کیا ، جس کا جواب یقیناًنفی میں ہے۔

 

سانحہ راولپنڈی کے فوری بعد شر پسند ٹولے کے سینکڑوں منظم کارکن جو پٹرول اور دیگر کیمیائی مواد سے لیس تھے انہوں مسجد، مارکیٹوں اور امامبارگاہوں کا رخ کیا اور مقدسات اسلامی کی توہین کرتے ہوئے نہ صرف معصوم شہریوں کی املاک جلائیں بلکہ چھ امامبارگاہوں کو نذر آتش کیا اور یہ سب کچھ عین اس وقت ہوا جب کرفیولگا دیا گیا اور فوجی و نیم فوجی دستوں نے تمام راستوں کو بند کردیا، گویا یوں محسوس ہوتا تھا کہ پر امن اور نہتے شہریوں کو بند کیا گیا اور شر پسندوں کو کھلی چھٹی دی گئی کہ وہ باآسانی اپنی شرانگیزی کو پھیلائیں۔ مسجد اور مارکیٹوں کے ساتھ ہی اندرون شہر کم و بیش چھ امامبارگاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور کئی سو قرآن مجید کے نسخوں سمیت تبرکات اور علم مبارک کو نذر آتش کیا گیا ۔ ان امامبارگاہوں میں قدیمی امامبارگاہ، چٹی ہٹیاں، ٹائروں والی ، حفاظت علی، یادگار اور کرنل مقبول شامل ہیں ۔ یاد رہے فیکٹ فاینڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ مسجد اور امامبارگاہ کو جلانے میں ایک ہی قسم کا کیمیکل استعمال ہوا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ تمام کارروائی ایک ہی شر پسند ٹولے کی ہے۔

 

اب اس بات کا جائزہ لینا باقی ہے کہ اس سارے واقعہ کا فائدہ کس نے اٹھایااور نقصان کس کا ہوا۔ جیسے ہی یہ واقعہ رونما ہوا ،جماعت اسلامی، جمعیت علما ء اسلام (ف) جمعیت علماء اسلام(س) سپاہ صحابہ اور دیوبندی مکتبہ فکر کے حامل تمام جید علماء ایک ہی راگ الاپ رہے تھے اور وہ یہ تھا ’’ محرم و عزاداری‘‘ کے جلوسوں کو محدود کیا جائے۔ نیز اس واقعہ کو میڈیا میں انتہائی مہارت سے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ۔ کہا گیا کہ بیسیوں بے گناہ نہتے قاری قرآن طلباء کو ذبح کیا گیا جبکہ تحقیقات کے بعد آر پی او راولپنڈی نے یہ بریفنگ دے دی ہے کہ مرنے والوں میں مدرسہ تعلیم القرآن کا کوئی طالبعلم نہیں۔ اسی طرح برما اور بحرین کی تصاویر کو ایڈٹ کر کے ظالم کو مظلوم بنانے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا کو گمراہ کرنے کی سازش کی گئی ۔ اس کے نتیجہ میں نہ صرف پورے ملک میں فرقہ وارنہ فسادات کی آگ بڑھکائی گئی بلکہ پنجاب بھر میں پولیس فورس اور انتظامی مشینری کے ذریعہ عزاداری سید الشہدا ء کو متاثر کیا گیا۔ ان سب کوششوں کا ھدف ایک ہی تھا۔ کسی طرح بھی عزاداری کو محدود کیا جائے، وہ لوگ یا شخصیات جن کے منافقانہ چہرے قوم کے سامنے آچکے ہیں انہیں دوبارہ ڈھانپا جاسکے ، ملت جعفریہ کے حقوق کو پامال کیا جاسکے۔

 

ان حالات میں مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی قیادت نے اپنے قومی و ملی فریضہ کو جس ثابت قدمی کے ساتھ ادا کیا پوری ملت جعفریہ اس کی شاہد ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی کوششوں کو اگر درپیش چیلنجز کے تناظر میں دیکھا جائے توقارئین کو اندازہ ہو گا کہ یہ سازش کتنی گھناؤنی تھی اور ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کی بابصیرت رہنمائی میں پوری مرکزی ٹیم نے کس جانفشانی سے اس سازش کو ناکام بنایا یہ عصر حاضر میں ملت تشیع ایک تاریخی کامیابی کے مصداق ہے۔

 

میڈیا میں ایک ہجوم تھا اور سارا میڈیا ملت تشیع کے خلاف ایک محاذ کی شکل میں کھڑا تھا ، وہ ملت جس نے ہزاروں شہداء دیئے تھے، وہ ملت جو گذشتہ کئی دہائیوں سے ظلم و بربریت کا شکار تھی اسے یکسر ظالموں کی صف میں کھڑا کرنے سازش کی گئی ، نیز پوری قوت کے ساتھ ملت تشیع کو تنہا کرنے کی سازش کی گئی ۔

 

ان حالات میں مجلس وحدت کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمدامین شہیدی صاحب نے ایک بھر پور میڈیا وار لڑی اور اس میں دیگر مرکزی افراد جن میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات برادر ناصر شیرازی ، علامہ سید شفقت شیرازی، علامہ حسن ظفر نقوی ،علامہ صادق تقوی اورعلامہ ناصر عباس جعفری صاحب نے ٹاک شوز میں مقدس دفاع کا فریضہ سرانجام دیا اور ملت تشیع کے موقف کی درست ترجمانی کی جس سے میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ میں اس تاثر کو زائل کیا گیا کہ خدانخواستہ عزاداری سیدالشہداء کسی ایک فرقہ کا مسئلہ ہے بلکہ یہ ثابت کیا کہ عزاداری سیدالشہدا ء مقدسات اسلامی اور شعار اللہ میں سے ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

 

شعبہ سیاسیات کی شبانہ روز محنت اس وقت رنگ لائی جب ۲۲ سنی جماعتوں پر مشتمل سنی اتحاد کونسل نے میڈیا کے اہم چینلز پہ آکر واشگاف الفاظ میں ملت تشیع کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور پاکستان دشمن اور اسلام دشمن قوتوں کو ننگا کردیا، اسی طرح دیگر بریلوی علماء کے ساتھ مل کر اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں نہ صرف پریس کانفرنسز منعقد کی گئیں بلکہ مشترکہ جلوس بھی نکالے گئے جنہوں اس فرقہ وارانہ سازش کو ناکام بنا دیا۔

 

اس کے بعد دوسرا مسئلہ اس خوف و ہراس کی فضا کو توڑنا تھا جو شہر راولپنڈی کے باسیوں اور بالخصوص مومنین پہ طاری کر دی گئی۔ مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی کابینہ کا ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا اور اس خوف و ہراس کی کیفیت کو توڑنے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ فوری طور پہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا جائے ۔ اس طرح رات آٹھ بجے کم وبیش ۱۵ افراد پہ مشتمل ایک وفد علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی قیادت میں اسلام آباد سے راولپنڈی کی طرف عازم سفر ہوا ۔ یاد رہے اسوقت راولپنڈی میں کرفیو لگا ہو ہوا تھا اور کوئی ’’بڑا‘‘ چمپیئن اپنا قومی قائدانہ کردار ادا کرنے کو تیار نہ تھا ۔ ’’قیادتین‘‘ کا شہر راولپنڈی اور اس شہر میں سہمے ہوئے مومنین منتظر تھے کہ اس کسم پرسی میں کوئی ہے جو ان کی نصرت کو آئے۔

 

الحمداللہ ناصر ملت نے اس بحرانی کیفیت میں ایک بار پھر ثابت کیا کہ شہید قائد کے معنوی جانشین ہیں ۔ رات دوبجے تک یہ وفد تمام امامبارگاہوں کے متولیوں ، متاثرہ مومنین اور متاثرہ علاقوں میں تمام تر خطرات مول لیتے ہوئے اپنا حسینی ؑ کردار ادا کرتے رہے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرتے رہے ۔ ناصر ملت اور ان کے رفقاء کے دورہ نے مومنین کو حوصلہ اور ہمت عطا کی۔

 

تیسرا اہم مسئلہ آنے والے دنوں میں عزاداری کو برپا کرنا اور موجودہ صورتحال میں عزاداروں کو تحفظ فراہم کرنا تھا اور لوگوں کو حوصلہ مند کرنا تھا کہ وہ حسب معمول مراسم عزاداری کو جاری رکھیں ۔ اس سلسلہ میں مرکزی آفس نے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور ڈپٹی سیکرٹری علامہ سید شفقت شیرازی صاحب نے ایک تمام مقامی انجمنوں، ٹرسٹیوں اور امامبارگاہوں کے متولیوں پہ مشتمل ایک گرینڈ میٹنگ بلائی اور حالات کی نزاکت کا احساس دلایا۔ اس موقع پہ مرکزی سیکرٹٖری سکاؤٹس برادر سید فضل عباس نقوی نے عزاداری کے تحفظ کے لئے شعبہ سکاؤٹس کی خدامات پیش کیں اور مرکزی سکاؤٹس کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عزاداری سید الشہدا ء کو برپا کرنے میں ہم اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے اور راولپنڈی میں کم و بیش ۲۰ سکاؤٹس پہ مشتمل مرکزی ٹیم تاحال تحفظ عزاداری کے امور میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

 

چوتھا اور اہم ترین مسئلہ حکومتی مشینری کا اس سازش کی آڑ میں ملت تشیع اور اہلیان راولپنڈی کے گھر وں پہ پولیس کے ذریعہ کریک ڈاؤن اور اس کا تدارک تھا۔ الحمداللہ اس مسئلہ میں مجلس وحدت مسلمین کے شعبہ روابط نے بھرپور کام کیا۔ مرکزی سیکرٹری روابط برادر اقرار حسین نے گرفتار شدگان کے گھروں کا تفصیلی دور ہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے نہ صرف اظہار ہمدردی کیا بلکہ تمام کوائف کو منظم و مرتب کیا ۔ اس وقت برادر اقرار حسین ، آغا امین شہیدی اور ایڈوکیٹ سید سیدین زیدی صاحب کی سرپرستی میں وکلاء کا ایک پینل قانونی امور پر دن رات اپنے امور سر انجام دے رہا ہے۔گرفتار شدگان کی رہائی، متاثرہ امامبارگاہوں کا معاوضہ، چادر و چاردیواری کا تقدس اس کمیٹی کی ذمہ داریوں میں سے ہے اور بہت سے دیگر قانونی امور پر یہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہی ہے جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں ۔

 

تحریر: برادر ملک اقرار حسین

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) لبنان کی تحریک مقاومت حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ایک کمانڈر حسان اللقیس کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کے نزدیک شہید کر دیا گیا ہے۔ بدھ کے روز لبنانی ٹی چینل المنار پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حزب اللہ کے اس کمانڈر کو بیروت کے مشرق میں واقع حدث کے علاقے میں ان کے گھر کے نزدیک شہید کیا گیا ہے۔ حزب اللہ نے اپنے اس بیانیہ میں صیہونی ریاست اسرائیل کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ بیانیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس قتل کی براہ راست ذمہ داری صیہونی ریاست پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس جعلی حکومت نے بارہا مختلف علاقوں میں حزب اللہ کے اس شہید برادر کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ اپنی اس شوم کوشش میں ناکام رہے تھے۔ بیانیہ میں آگے چل کر کہا گیا ہے کہ صیہونی دشمن مکمل طور پر اس فجیع جرم کا ذمہ دار ہے اور اب اس کے ردعمل میں ہونے والی کسی بھی کارروائی کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔

 

صیہونی حکومت نے 2000ء اور 2006ء میں لبنان پر دو جنگیں مسلط کی تھیں۔ 2006ء کی 33 روزہ جنگ میں ایک ہزار دو سو لبنانی جن میں سے اکثریت کا تعلق عام شہریوں سے تھے، اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس کے باوجود مذکورہ بالا دو جنگوں میں حزب اللہ کے مجاہدین نے صیہونی فورسز کو شکست فاش دی تھی اور دشمن اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کئے بغیر عقب نشینی پر مجبور ہوا تھا۔

 

2012ء میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے کہا تھا کہ تحریک مزاحمت لبنان کے دفاع کی توانائی اور شجاعت رکھتی ہے اور لبنان پر کسی بھی اسرائیلی حملے کی صورت میں حزب اللہ کے میزائل اپنے دفاع میں مقبوضہ فلسطین کے داخل تک اپنے اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔ سید حسن نصراللہ کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے اہداف کا تعین کر رکھا ہے اور اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو اپنی عوام اور ملک کے دفاع کے لئے اپنے ان میزائلوں سے استفادہ کرنے میں کسی قسم کا تامل نہیں کریں گے۔ حزب اللہ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کارروائی لاکھوں صیہونی کی زندگی کو جہنم میں تبدیل کر دے۔ سید مقاومت نے یہ بھی کہا تھا کہ آئندہ ہونے والے کوئی بھی ممکنہ جنگ صیہونی ریاست کے لئے بہت مہنگی ثابت ہوگی، اور یہ جنگ کسی بھی صورت میں 2006ء میں ہونے والی جنگ سے قابل مقایسہ نہیں ہوگی۔

 

 ادھر غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حسان اللقیس کو ان کی رہائش گاہ کے قریب قتل کیا گیا۔ حسان اللقیس کو تنظیم کے مرکزی رہنما سید حسن نصر اللہ کا قریبی ساتھی اور ہتھیاروں کی تیاری کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ حسان اللقیس کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ نصف شب کے قریب اپنی رہائش گاہ پر پہنچے۔ گھات لگائے حملہ آور حسان اللقیس کے منتظر تھے جیسے ہی انھوں نے کار پارک کی انھیں نشانہ بنا دیا گیا۔ حزب اللہ کی طرف سے اس قتل کا ذمہ اسرائیل کو ٹھرایا گیا ہے۔ لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ کی طرف سے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل متعدد بار حسان اللقيس کو مروانے کی کوششیں کرتا رہا ہے، تاہم اُسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ حسان اللقيس کے قتل میں اسرائیل ملوث ہے۔ دُشمن کو یہ ذمہ داری قبول کر لینی چاہیے۔

 

اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان ییگال پالمر نے حسان اللقيس کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے الزام کو سرے سے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حزب اللہ کی خودکار جوابی حرکت ہے۔ حزب اللہ تنظیم ہر چیز کا الزام اسرائیل پر عائد کر دیتی ہے۔ واضح رہے کہ حزب اللہ اسرائیل کے خلاف متعدد جنگیں لڑ چُکی ہے۔ 2006ء میں ایک مہینے تک جاری رہنے والی ایسی ہی ایک جنگ کے دوران حسان اللقيس کا ایک بیٹا مارا گیا تھا۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ گذشتہ دو عشروں سے بھی زیادہ عرصے سے وہ حزب اللہ کے کمانڈروں کے قتل میں ملوث رہی ہے۔ 1992ء میں اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹرز نے حزب اللہ کے رہنما اور سید حسن نصراللہ کے پیشرو سید عباس موسوی کے قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں اُن کی بیوی، ایک پانچ سالہ بیٹا اور چار محافظ جاں بحق ہوگئے تھے۔ آٹھ سال پہلے حزب اللہ رہنما شیخ راغب حرب کو جنوبی لبنان میں قتل کر دیا گیا تھا۔ حزب اللہ کو سب سے بڑی ضرب 2005ء میں اُس وقت لگی جب دمشق میں اس کے چوٹی کے ایک کمانڈر عماد فائز مغنیۃ کی گاڑی پر ہونے والے بم حملے کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگئے تھے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) افریقہ کے معروف رہنما نیلسن منڈیلا کی موت پرمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنےتعزیتی پیغام میں نیلسن منڈیلا کو امتیازی سلوک اور نسلی امتیاز کے خلاف ایک آواز سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ منڈیلا افریقہ میں سامراجی ظلم و ستم سے پسی ہوئی عوام کے حقوق کی آواز تھے جنہوں نے قیدوبند کی طویل صعوبتیں سہیں لیکن ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ منڈیلا نے اپنی زندگی مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی خاطر جدوجہد میں گزاری۔ وہ معاشرتی ناانصافیوں اور نا ہمواریوں کے خلاف لڑتے رہے۔ دنیا انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی۔ جب  بھی کبھی مستضعفین افریقہ کے حقوق کی بات کی جائے گی نیلسن مینڈیلا کا نام تاریخ  کے اوراق میں  سنہری حروف سےلکھا نظر آئے گا، انہوں نے جنوبی افریقہ کی عوام سمیت دنیا بھر میں ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والوں سے منڈیلا کی وفات پر تعزیت پیش کی ہے۔

وحدت نیوز(ٹھری میر واہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مختار احمد امامی نے ٹھری میر واہ میں شہید راہ وحدت علامہ دیدارعلی جلبانی کےمرقد پر حاضری دی اور خانوادہ شہید سے ان کے آبائی گھر جاکر تعزیت کا اظہار کیا ، اس موقع پر شہید علامہ دیدار جلبانی کے فرزند اور دیگر علمائے کرام بھی ان کے ہمراہ تھے۔ علامہ مختار امامی نے شہید علامہ دیدار جلبانی کے مرقد پر فاتحہ خوانی کی ۔ اس موقع علامہ مختار امامی کا شہید کے اہل خانہ سے گفتگو کر تے ہو ئے کہنا تھا کہ شہید ایک بے باک ، نڈر ، حق گو اور مجاہد عالم دین تھے ، مجلس وحدت مسلمین ایک سچے کارکن  اور قوم ایک مخلص لیڈر سے محروم ہو گئی ہے ، شہید جلبانی نے انتہائی مختصر عرصے میں اپنا منفردمقام حاصل کیاتھا ، شہید کی شہادت سے پیدا ہو نے والا خلاء مشکل سے پر ہو گا۔

وحدت نیوز(اورکزئی ایجنسی) مجلس وحدت مسلمین اورکزئی ایجنسی کے ایک وفد نے مختلف علاقوں کے دورہ جات اور شیعہ عمائدین سے ملاقاتیں کیں۔ ایم ڈبلیو ایم اورکزئی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل علامہ مصطفیٰ بہشتی نے ’’وحدت نیوز‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے ایک وفد کے ہمراہ اورکزئی کے علاقہ کوریز اور حسین آباد کے دورہ جات کئے، اس موقع پر ڈپٹی سیکرٹری جنرل گلشن علی، علامہ معاذ، جنان استاد، عظیم خان، میجر (ر) سراج اور نقاب علی شامل تھے۔ مجلس وحدت مسلمین کے وفد نے اپنے اس دورہ کے دوران خیال دین، ملک شباب حسین، ملک نور اکبر، حاجی سردار خان سے ملاقات کی۔ ان عمائدین نے مجلس وحدت مسلمین کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جو ذمہ داری سونپی جائے ہم نبھانے کیلئے تیار ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کے وفد نے حسین آباد کا بھی دورہ کیا، اور علامہ رفیق اور دیگر سے ملاقاتین کیں، اس موقع پر علامہ مصطفیٰ بہشتی نے مجلس وحدت مسلمین کے قیام کے اغراض و مقاصد اور اہداف سے آگاہ کیا۔

وحدت نیوز(کرائم رپورٹ) مجلس وحدت مسلمین نے یکم نومبر سے تین دسمبر تک ہونے والی شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی رپورٹ جاری کردی، جس کے مطابق، یکم نومبر سے لیکر تین دسمبر تک 40 سے زائد شیعہ افراد کو ملک کے مختلف شہروں میں ٹارگٹ کرکے شہید کردیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، یکم نومبر کو بلوچستان میں ہزارہ شیعہ برادری پر فائرنگ کی گئی جس میں 6 افراد شہید ہوئے، تین نومبر کو کراچی میں سپارکو آفس کے سامنے فائرنگ سے ماہر فلکیات حسن نامی شخص شدید زخمی ہوگیا۔ 4 نومبر کو کراچی ہی میں ڈاکٹر شیر علی پر فائرنگ کی گئی جس سے وہ جاں بحق ہوگئے۔ اسی روز ہی طارق روڈ پر فائرنگ سے ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نسیم عباس اپنے دوست شہباز علی کے ہمراہ جاں بحق ہو گئے۔ فائرنگ کے ایک اور واقعہ میں گلشن اقبال میں عباس ٹان کے رہائشی شان محمد بخش ذوالجناح سمیت دم توڑ گئے۔

 

7 نومبر کو شہداد کوٹ میں کالعدم  اہل سنت والجماعت کی ریلی سے ہسپتال چوک میں شیعہ دکانوں پر فائرنگ کی گئی جس میں 12 شیعہ افراد زخمی ہوگئے۔ اسی روز ہی کراچی کے علاقے ملیر کھوکھر اپار امام بارگاہ حیدری مشن کے قریب فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس میں سیدمختار حسین زندگی کی بازی ہار گیا۔ 9 نومبر کو ٹھٹھہ کے علاقے سٹی دڑومیں مجلس امام حسین پر فائرنگ کی گئی جس میں 6 عزادار زخمی ہوگئے۔ اسی روز ہی گوجرانوالہ کے علاقے شاہ رخ کالونی میں نماز صبح کے وقت نامعلوم افراد مسجد و امام بارگاہ زینبیہ میں گھس کر فائرنگ کی اور تین نمازیوں کو شہید کردیا۔ 11 نومبر کو شہرقائد کراچی کے علاقے خدا کی بستی میں جلوس عزا پر حملہ کیا گیا جس میں 7افراد زخمی ہوگئے۔

 

12 نومبرکو علی پور کے علاقے خان پور ڈومہ میں فائرنگ سے 4 اور خیرپور گمبٹ میں جلوس پر فائرنگ سے 5 افراد زخمی ہوگئے جن میں سے ایک زخمی دم توڑ گیا۔ اسی روز ہی لاہور کے علاقے دھوپ سڑی میں7 محرم کے جلوس پر فائرنگ سے ایک عزادار شہید اور پانچ زخمی ہوگئے۔ 14 نومبرکو نارتھ کراچی میں مسجد و امام بارگاہ مصطفوی کے باہر بم حملہ میں 2 افراد زخمی ہو گئے۔ اس سے قبل پہاڑ گنج میں امام بارگاہ ابو فضل عباس کے قریب دھماکے میں 2 زخمی ہوئے۔ ایک دن میں تین امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 14 نومبرکو ہی خوشاب محلہ اسلام پورہ میں مجلس کیلئے جانے والے عزاداران پر حملہ کیا گیا جس میں 3 افراد زخمی ہوگئے۔ 15 نومبرکو کراچی کے علاقے ناگن چورنگی کے نزدیک امام بارگاہ زین العابدین کے قریب کریکر دھماکے کیا گیا جس میں دو عزادار زخمی ہوگئے۔

 

16 نومبرکو ہنگو میں جلوس عاشورا پر دہشتگردوں نے مارٹر حملے گولے پھینکے تاہم کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ 16 نومبر کو ہی مظفرآباد آزاد کشمیر میں جلوس پر پتھرا ہوا جس سے 20 عزادار زخمی ہوگئے۔ میڈیاری کوٹلی میں بھی جلوس پر پتھراو اور فائرنگ سے 5 عزادار زخمی ہوئے۔ 18 نومبرکو چشتیاں میں دہشتگرد ایوب نے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ امام بارگاہ پر حملہ کیا، دہشتگردوں نے امام بارگاہ کو مکمل طور پر نذر آتش کردیا جبکہ وہاں پر موجود پانچ افراد کو زخمی کردیا گیا۔ 18 نومبر کو ہی کوہاٹ میں دہشتگردوں نے امام بارگاہ سید حبیب پر حملہ کیا جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت تین افراد شہید ہوگئے۔ تیراہ بازار میں شیعہ دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا، فوج طلب کرلی گئی اور کرفیو نافذ کردیا گیا۔

 

19 نومبر کو جامشورو میں تکفیری دہشتگردوں نے حسینی امام بارگاہ پر نصب علم مبارک شہید کر دیا۔ اسی روز ہی گجرات یونیورسٹی کے ڈائریکٹر شبیر حسین شاہ اپنے ڈرائیور خادم حسین سمیت جلال پور روڈ پر یونیورسٹی جاتے ہوئے دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ 20 نومبر کو کراچی میں قصبہ کالونی جعفریہ امام بارگاہ کے پاس دہشتگردوں کی فائرنگ سے دانش رضوی شہید ہو گیا اس واقعہ میں تین افراد زخمی ہوئے۔ 22 نومبر کو کراچی کے علاقے انچولی میں بلاک 17 اور 20 کو ملانے والی روڈ پر دو پلانٹڈ بم دھماکے کیے گئے جس کے نتیجے میں چھ افراد شہید اور کئی دکانیں اور گھر تباہ ہوئے۔ اس واقعہ میں دو اہل سنت برادران بھی شہید ہوگئے۔ 24 نومبر کو شبلان پارا چنار میں دو دھماکے ہوئے، جس کے نتیجے میں 2 افراد محمد حسین اور سرفراز علی شہید ہو گئے۔ جبکہ خاتون سمیت چار افراد زخمی ہوئے۔

 

24 نومبر کو کوئٹہ کے علاقے کیرانی روڈ پر ایک شیعہ عزادار محمد عارف کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔ 25 نومبر کو کراچی کے علاقے سرجانی میں منیر حسین کو اہلیہ کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔ 26 نومبرکو حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد نمبر2 میں مجلس وحدت مسلمین کے علاقائی رہنما سید اختر زیدی کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔ 27 نومبرکو ضلع دادو کے علاقے جوہی بچل خان رند میں احمد شاہ بخاری کے مزار کو مسمار کر دیا گیا اور علم پاک کی بیحرمتی کی گئی۔ 29 نومبر کو کراچی کے علاقے گلشن مسکن چورنگی کے پاس دہشتگردوں کی فائرنگ سے کراچی یونیورسٹی کے طالب علم شباب حیدر اپنے اہلسنت دوست حمزہ کے ساتھ شہید ہو گئے۔ یکم دسمبر سے لیکر تین دسمبر تک علامہ دیدار حسین جلبانی سمیت پانچ افرد کو شہید کردیا گیا۔ پولیس ان واقعات میں ملوث کسی ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکی۔

وحدت نیوز(بلتستان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل و ترجمان فدا حسین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شہادت ہماری کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے، جانوں کو جسموں سے جدا تو کیا جاسکتا ہے، لیکن ہمیں دنیا کی کوئی طاقت اہداف سے نہیں ہٹا سکے گی۔ انہوں نے علامہ دیدار علی جلبانی اور انکے محافظ کی المناک شہادت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علامہ دیدار علی جلبانی کی شہادت سکیورٹی اداروں بالخصوص سندھ حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ عاشورا کے بعد دشمن نے بزدلانہ حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے، یہ حملے ہمیں کمزور کرنے اور خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش ہیں، لیکن دشمن کو معلوم نہیں کہ شہادت ہماری توانائیوں کا مرکز اور باعث افتخار  ہے۔

وحدت نیوز(ملتان) وحدت یوتھ ونگ کے مرکزی چیئرمین سید فضل عباس نقوی نے گذشتہ روز کراچی میں ایم ڈبلیو ایم کراچی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ دیدار حسین جلبانی اور اُن کے محافظ کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ علامہ دیدار جلبانی کا قتل اسلام اور ملک دشمن عناصر کی کارروائی ہے۔ دشمن ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر پاکستان کو غیر مستحکم اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے وحدت یوتھ کے مرکزی سیکرٹریٹ میں جنوبی پنجاب کے کوارڈینیٹرز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید فضل عباس نقوی کا کہنا تھا کہ علامہ دیدار جلبانی نے اپنی زندگی مظلومین پاکستان و جہاں کے لیے وقف کر رکھی تھی اور مرتے دم تک یہ ثابت کر دیا کہ ہم ظالم کے مخالف اور مظلوم کے حامی ہیں۔ فضل عباس نقوی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور قاتلوں کو نہ صرف گرفتار بلکہ کیفر کرادر تک پہنچایا جائے۔ اگر شروع سے ہی قاتلوں کو سزائیں دی جاتیں تو اُنہیں ملک میں پنپنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ اجلاس کے آخر میں کراچی میں شہید ہونے والے علامہ دیدار حسین جلبانی اور اُن کے محافظ کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مختار امامی نے وحدت ہاؤس کراچی میں تعزیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوا کہاکہ شہید مولانا دیدار علی جلبانی اور ان کے محافظ شہید سرفرازبنگش کے قاتل 48گھنٹے گزرنے کے بعدا بھی تک آزاد گھوم رہے ہیں حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشتگردوں کو گرفتار کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین جمعہ کو سندھ بھر مین یوم احتجاج منائے گی،اس حوالے سے کراچی سمیت سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیئے جائیں گے اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔

 

علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ علامہ دیدار جلبانی کے قاتل کسی سے پوشیدہ نہیں ، صوبائی حکومت اور سکیورٹی ایجنسیاں بخوبی جانتے ہیں کہ علامہ دیدار جلبانی سمیت دیگر بے گناہ شہریوں کے قاتل کہاں پناہ گزین ہیں ، ہم نے صوبائی حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ علامہ دیدار جلبانی کے قاتلوں کو اگر فلفور گرفتار نہیں کیا گیا توپہلے مرحلے میں پورے سندھ میں بھر پور احتجاج کیا جائے گااگر تب بھی قاتل گرفتار نہ کیئے گئے تو اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

وحدت نیوز(لاہور) سانحہ عاشورہ راولپنڈی میں امام بارگاہ و مساجد کو نذر آتش کرنے والے دہشتگرد وں کی عدم گرفتار,بے گناہ شیعہ افراد کی گرفتاری، ملک میں جاری شیعہ نسل کشی، علامہ دیدار حسین جلبانی کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کیخلاف مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے تمام شیعہ تنظیموں، علماء ، ذاکرین، عزاداری،بانیان مجالس کی آل شیعہ پارٹیز کانفرنس 6دسمبر بروز جمعہ لاہور میں طلب کرلی۔ جس میں چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے نمائندہ وفود شریک ہوں گے۔


آل شیعہ پارٹیز کانفرنس میں ملتِ جعفریہ کے خلاف ہونے والی سازشوں پر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان ہوگا۔ کانفرنس کی سربراہی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کریں گے۔ کانفرنس کیاختتام پر اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری سیاسیات ناصر شیرازی ایڈووکیٹ کے مطابق اس آل شیعہ پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا مقصد ملک میں فقہ جعفریہ کے حقوق کا تحفظ ہے۔ ملتِ جعفریہ کو جس طرح سے دیوار سے لگانے کی سازش ہو رہی ہیں ان کیخلاف متفقہ لائحہ عمل کا اعلان بھی اسی کانفرنس میں کیا جائیگا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree