وحدت نیوز(آرٹیکل) وضو بذات خودایک مستحب عبادت ہے لیکن بعض عبادتوں کےلئے مقدمہ بننے کی وجہ سے بعض اوقات واجب ہوتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتےہیں :(لا صلوۃ الا بطہور)1نماز طہارت کے بغیر صحیح نہیں ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں :(افتتاح الصلوۃ الوضوء و تحریمہا التکبیروتحلیلہا التسلیم)2نماز کی ابتداءوضوسے ہوتی ہے اور تکبیرۃ الاحرام کے ذریعے چیزیں حرام اور سلام کے ذریعے چیزیں حلال ہو جاتی ہیں ۔یہ حدیث امام علی علیہ السلام سےبھی نقل ہوئی ہے3 ۔شیعہ مذہب کے مطابق اعضائے وضو کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے جبکہ اہل سنت کے نزدیک یہ شرط لازم نہیں ہے ۔اسی طرح شیعوں کے نزدیک چہرے اور ہاتھوں کے دھونےکے بعد سر اور پاوٴں کا مسح کرنا چاہیے اور ان دونوں کو دھوناصحیح نہیں ہے لیکن اہل سنت سر اور پاوٴں کے دھونے کو واجب سمجھتے ہیں اور ان پر مسح کرنے کو کافی نہیں سمجھتے ۔
وسائل الشیعہ اوردیگر کتب میں 565 کے قریب احادیث وضو کے متعلق بیان ہوئی ہیں ۔اتنی بڑی تعداد میں احادیث کا ذکر ہونا اسلام میں وضو کی اہمیت کو بیان کرتا ہے ان روایات میں وضو کے کچھ فوائد بھی ذکر ہوئے ہیں جیسے:
1۔طول عمر:(قال رسول اللہ:اَکثِر مِن الطَّہورِ یزِدِ اللّہ فی عُمُرِکَ)کثرت سے وضو کیا کرو اللہ تمہاری عمر طولانی کرے گا ۔
2۔خشم و ناراضگی کو ختم کرنا:( إنّ الغضب من الشّیطان و إنّ الشّیطان خلق من النّار و إنّما تطفا النّار بالماء فاذا غضب أحدکم فلیتوضا)4 غضب شیطان سے ہے اور شیطان آگ سے خلق ہوا ۔آگ کو صرف پانی بجھا سکتا ہے پس جب بھی تم میں سے کوئی غصہ میں ہو تو اسے چاہئے کہ وہ وضو کرے ۔
3۔غم و اندوہ سے نجات :(ما یمنع أحدکم إذا دخل علیہ غم من غموم الدنیا- أن یتوضأ ثم یدخل مسجدہ و یرکع رکعتین- فیدعو الله فیہما أ ما سمعت الله یقول:وَ اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاۃِ) 5۔کونسی چیز تمہیں اس بات سے روکتی ہے کہ جب تمہیں دنیاوی غم و اندوہ پہنچے تو وہ وضو کرے اور مسجد میں جائے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کرے ؟کیا تم نے قول خدا نہیں سنا کہ صبر او نماز کے ذریعے مدد طلب کرو۔
4۔نورایت میں اضافہ :(الْوُضُوءُ عَلَی الْوُضُوءِ نُورٌ عَلَی نُور)6وضو کے ساتھ ہوتے ہوئے دوبارہ وضو کرنا گویا نور علی نور ہے ۔
5۔کفارۂ گناہ:(و کان الوضوء إلی الوضوء کفّارۃ لما بینہما من الذّنوب)7جدید وضو کرنا دو وضوؤں کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے۔
6۔فقر اور وسواس کا خاتمہ:(مَنْ تَطَہَّرَ ثُمَّ أَوَی إِلَی فِرَاشِہِ بَاتَ وَ فِرَاشُہُ کَمَسْجِدِہ وَ إِنْ ذَکَرَ أَنَّہُ لَیسَ عَلَی وُضُوءٍ فَتَیمَّمَ مِنْ دِثَارِہِ کَائِناً مَا کَانَ لَمْ یزَلْ فِی صَلَاۃٍ مَا ذَکَرالله َ عَزَّ وَ جَلَّ )8و شخص رات با وضو ہو کر بستر پر لیٹتا ہے تو اس کا بستر مسجد کی مانند ہے ۔اگر اسے یاد آجائے تو اپنے لحاف پر ہی تیمم کرے تو ایسا شخص گویا ساری رات ذکر خدا کے ساتھ نماز میں مشغول رہا ہے۔
آیہ وضو:(يَأَيہُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلیَ الصَّلَوۃِ فَاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَ أَيْدِيَکُمْ إِلیَ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِکمْ وَ أَرْجُلَکُمْ إِلی الْکَعْبَين)9اے ایمان والو !جب تم نماز کےلئے اٹھو تو اپنےچہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوںسمیت دھولیا کرو نیز اپنےسروں کا اور ٹخنوں تک پاوٴں کا مسح کرو ۔
آیہ کریمہ سےمعلوم ہوتا ہےکہ وضو دو چیزوں سےتشکیل پاتاہے:ایک دھونےاور دوسرا مسح کرنے کے ذریعے۔شیعہ واہل سنت کے درمیان جن چیزوں میں اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ اعضائےوضو کو کس طرح دھونا چاہیے ؟ وضو کے اعضاء کو اوپر سے نیچےکی طرف دھونا چاہیے یا جس طرح سےبھی دھوئے کافی ہے اسی طرح پاوٴں کو دھونا ضروری ہےیا صرف مسح کرنا چاہیے ؟
شیعہ فقہاءکےنزدیک مشہورنظریہ یہ ہے کہ چہرہ اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے۔10یہ مطلب اگرچہ آیہ وضو میں بیان نہیں ہواہے لیکن ائمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ ہاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھونا چاہیے ۔معمولا ہاتھوں اور دوسرے اعضاء کو دھوتےوقت اوپر سے نیچے کی طرف دھوتےہیں ۔لہذااگر کسی جگہ لفظ بطورمطلق ذکر ہو تو وہ رائج فرد کی طرف انصراف پیدا کرتاہے ۔علاوہ ازیں متقدمین میں سے سوائے سید مرتضی کے کسی اور نے اس مطلب کی مخالفت نہیں کی ہے جیساکہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کےاصحاب سے بھی اس کی مخالفت میں کوئی چیزنقل نہیں ہوئی ہے ۔لہذا ان دلائل و شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کا مسلمہ نظریہ یہ ہے کہ وضو میں ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے ۔11
یہاں یہ بات قابل توجہ ہےکہ آیہ کریمہ (وایدیکم الی المرافق)میں لفظ (الی)ہاتھوں کےدھونے کی حد کو بیان کرتی ہے نہ ہاتھوں کے دھونےکی کیفیت کو،جیساکہ بعض لوگوں کا گمان ہے کیونکہ عربی زبان میں کلمہ(ید)مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔کبھی صرف انگلیوں کو، کبھی انگلیوں سے کلائی تک کو اورکبھی انگلیوں سےکندھے تک کو (ید)کہا گیا ہے۔لہذا اس کی حد معین کرنے کے لئےقرینے کی ضرورت ہے جس کی بنا پر قرآن نے(الی المرافق) کہہ کر دھونے کی حد کو بیان کیا ہے ۔جب کسی انسان سےکہا جاتا ہے کہ اپنے ہاتھوں کو دھو لے توممکن ہے کہ وہ شخص صرف کلائیوں تک ہاتھوں کو دھو لے کیونکہ اکثر اوقات ہاتھوں کو یہیں تک دھویا جاتا ہے اس لئے اس غلطی کو دور کرنےکے لئے{ الی المرافق} کہاگیا ہے ۔
آیہ کریمہ میں ہاتھوں کے دھونے کی کیفیت بیان نہیں ہوئی ہے کہ ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے یا نیچے سےاوپر کی طرف ،یہاں لفظ بطورمطلق ذکر ہوا ہے اس لئے اس کا انصراف عام اور متعارف طریقے کی طرف ہے ۔ عرف عام میں بدن کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جاتا ہے مثلا اگر کوئی ڈاکٹر حکم دے کہ بیمارکے پاوٴں کوگھٹنوں تک دھویا جائےتو معمولا پاوٴں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں نہ برعکس۔ ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی روایتوں میں اسی طریقے سے وضوکرنےکو لازم قرار دیا ہے ۔بنابریں وضو کرتے وقت چہرےاورہاتھوں کو اوپر سے نیچےکی طرف دھونا چاہیے ۔
طبرسی کے نقل کےمطابق وضومیں چہرے اورہاتھوں کواوپر سے نیچےکی طرف دھونے اور اس کے صحیح ہونے میں اختلاف نہیں ہے بلکہ ان اعضاءکو نیچےسےاوپرکی طرف دھونے اور اس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے ۔12
یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وضو میں چہرے اورہاتھوں کواوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے اور اس بات پر خود آیہ کریمہ دلالت کرتی ہے اور یہ مطلب اس وقت واضح ہوجاتاہے جب لفظ (الی)(ایدی) کےلئے قید ہو نہ کلمہ (غسل) کے لئے کیونکہ کلمہ (غسل)کےلئے قید ہونےکی صورت میں آیہ کریمہ دھونے کی کیفیت کو بیان کرے گی یعنی ہاتھوں کو انگلیوں سے کہنیوں تک دھویا جائے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے میں کسی کا اتفاق نہ ہو۔13
{جب کہ شیعہ علماء اس بات پر متفق ہے کہ وضو میں ہاتھوں کو اوپر سےنیچےکی طرف دھونا چاہیے}
شیعہ اس بات پرمتفق ہےکہ وضومیں پاوٴں کا مسح کرناچاہیےلہذا گر کوئی مسح کرنےکے بجائے اسے دھولے تو وضو باطل ہوجاتا ہے ۔یہ مطلب ائمہ اہل بیتعلیہم السلام کی احادیث کےعلاوہ خود آیہ کریمہ سےبھی واضح ہوجاتا ہے کیونکہ قرآن کریم پہلےدوعضوکے دھونے کا حکم دیتاہے اور اس کے بعد دوسرے دو عضو پر مسح کرنے کا حکم دیتا ہےچنانچہ ارشاد ہوتاہے:
1۔(فَاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَ أَيْدِيکُمْ إِلیَ الْمَرَافِقِ)اپنےچہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوںسمیت دھولیا کرو ۔
2۔(وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِکُمْ وَ أَرْجُلکُمْ إِلیَ الْکَعْبَين(اور اپنےسروں کا اور ٹخنوں تک پاوٴں کا مسح کرو ۔
آیہ کریمہ کے اس حصے(وأرجلکم)کو مجرور یا منصوب پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دونوں قرائتوں کی صورت میں(أرجلکم)کلمہ (رؤوسکم)پرعطف ہے ۔اگر(أرجلِکم)کو مجرور پڑھیں تو یہ کلمہ(رؤوسکم) کے ظاہر پر عطف ہوتا ہے لیکن اگر (أرجلَکم)کو منصوب پڑھیں تو یہ کلمہ(رؤوسکم) کے محل پر عطف ہوگا۔ اصحاب اور تابعین کی ایک جماعت بھی اسی نظریے پر قائم تھی جیسے ابن عباس ،انس بن مالک ،ابو العالیہ ،شعبی اور عکرمہ اسی طرح زیدیہ کےبزرگوں میں سے حن بصری اور ناصر الحق بھی پاوٴں کےدھونے اور مسح کرنے میں تخییر کےقائل تھے ۔14
اہل سنت کےبزرگان وضو میں پاوٴں کے دھونے کو واجب قرار دیتے ہوئے ان پر مسح کرنےکو کافی نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ اپنی روایت کی کتابوں میں موجودبعض احادیث پر استناد کرتے ہیں جبکہ یہ احادیث آیہ وضو کی تفسیر بیان نہیں کرتیں ۔ ان احادیث کی دو قسمیں ہے بعض احادیث مسح کےوجوب کو بیان کرتی ہیں جبکہ بعض احادیث دھونے کے وجوب کو بیان کرتی ہیں ۔اہل سنت کا نظریہ آیہ وضو کے ظاہری معنی کےساتھ سازگار نہیں ہے اس لئےانہوں نے اس کی مختلف طریقوں سے توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے:
1۔کلمہ (أرجلِکم)مجرور ہے اور یہ (رؤوسکم) کے ظاہرپرعطف ہوا ہے لیکن یہاں مسح سےمراد دھونا ہے ۔
جواب:یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ کلمہ (غسل و مسح) شرع اور لغت دونوں میں مختلف معنوں میں استعمال ہوئےہیں ۔ اگر کبھی مجازی طور پر ایک دوسرے کےمعنی میں استعمال ہو تو جہاں قرینہ موجود نہ ہو وہاں اس فرض کو قبول نہیں کر سکتے ۔ البتہ اہل سنت کی جن حدیثوں میں دھونے کو واجب قرار دیا گیا ہے وہ مسح کے وجوب کو بیان کرنے والی حدیثوں کے ساتھ ٹکراتی ہیں ۔علاوہ ازیں یہ حدیثیں علم و یقین کا بھی فائدہ نہیں دیتیں اس لئے ان کے ذریعے قرآن کریم کے ظاہر سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔ بعبارت دیگریہ احادیث آیہ کریمہ کے ظاہری معنی کےساتھ تعارض رکھتی ہیں۔ ادبی قواعد کےمطابق معطوف اور معطوف علیہ کاحکم ایک ہونا چاہیے لہذا جب(أرجلِکم)کو(رؤوسکم) پر عطف کریں تو معطوف علیہ کا حکم معطوف کے لئے بھی ہونا چا ہیے جس کا لازمہ پاوٴں کا مسح کرنا ہے ۔
2۔ کلمہ (أرجلِکم)(رؤوسکم) کے ظاہرپرعطف ہوا ہے اور یہ مجرورہے لیکن اس کاحکم مسح کرنا نہیں ہے بلکہ دھونا ہے اور (أرجلِکم)کامجرور
ہونا از باب قرب و جوارہے جیسے (جُحر ضبٍّ خرب) لفظ (خرب)(جحر)کی صفت ہے اگرچہ ظاہرا کلمہ (ضب) کی صفت واقع ہوئی ہے اور یہ مجرور ہے ۔
جواب:یہ توجیہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ زجاج لکھتا ہے :قرآن کریم میں عطف بالجوار جائز نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ کہ جو لوگ اسے جائز سمجھتے ہیں وہ ان مورادمیں ہے جہاں معطوف اور معطوف علیہ کےدرمیان حرف عطف موجود نہ ہو حالانکہ آیہ کریمہ میں حرف عطف موجود ہے لہذا عطف بالجوار جائز نہیں ہے۔علاوہ ازیں عطف بالجوار وہاں جائز ہے جہاں غلطی کا احتمال موجود نہ ہو جیسے مذکورہ مثال میں صفت (خرب)( حجر) کےساتھ مربوط ہے نہ (ضب) کےساتھ، جبکہ آیہ کریمہ میں ایسا نہیں ہےکیونکہ پاوٴں کا مسح کرنا سر کےمسح کی طرح ممکن ہے ۔نحو کےعلماء و محققین نے عطف بالجوار سے بالکل انکار کیا ہے اور اس طرح کے مثالوں(جُحر ضب خرب )کے بارےمیں کہتےہیں :حقیقت میں یہ عبارت اس طرح تھی (خرب جحرہ)مضاف الیہ حذف ہوا ہےاور ضمیر مجرور اس کے جگہ پرآیا ہےاورایک ضمیر {خرب} میں بھی مستتر ہے ۔
3۔کلمہ (أرجلکم)(رؤوسکم)کے ظاہر پر عطف ہوا ہے اور یہ شاعر کےاس قول کی طرح ہے جیسے(علفتہا تبنا و ماءً باردا)جبکہ حقیقت میں یہ عبارت اس طرح سے تھی (علفتہا تبنا وسقیتہا ماءً باردا) یہ قول اخفش سے نقل ہوا ہے ۔اس قول کا لازمہ یہ ہےکہ آیہ کریمہ میں کلمہ (اغسلوا)تقدیر میں ہویعنی اصل میں آیہ کریمہ اس طرح ہو:(وامسحوا برؤوسکم واغسلواأرجلکم إلی الکعبین)یعنی اپنےسر کا مسح کرو اورٹخنےتک اپنے پاوٴں کو دھووٴ۔
جواب:یہ توجیہ سابقہ توجیہات سے بھی زیادہ ضعیف ہے کیونکہ کسی چیز کو تقدیر میں اس وقت رکھی جاتی ہے جب کلام کو اس کےظاہر پر حمل کرنا ممکن نہ ہو جیسے مذکورہ شعر میں، کیونکہ گھاس دینا پانی دینے کے علاوہ ایک الگ فعل ہے جبکہ آیہ کریمہ میں اس قسم کی کوئی مشکل نہیں ہے ۔
4۔کلمہ (أرجلَکم)منصوب اور (ایدیکم) پر عطف ہے جس کےنتیجے میں معطوف اور معطوف علیہ کاحکم ایک ہوگا یعنی ہاتھوں اور پیروں کو دھونا چاہیے ۔
جواب:اس توجیہ کا لازمہ یہ ہے کہ معطوف(أرجلَکم)اور معطوف علیہ(ایدیکم)کے درمیان جملہ معترضہ(وامسحوا برؤوسکم)قرار پائے گا جو عربی زبان کے قواعد کےمطابق صحیح نہیں ہےجبکہ اس طریقے سے گفتگو کرنا انسانوں کے درمیان میں بھی رائج نہیں ہے چہ جائیکہ کلام الہی میں ایسا ہو جو کہ فصاحت و بلاغت کاشاہکار ہے ۔15
اہل سنت کے بعض علماء نےشیعوں کے نظریے پر جو کلام الہی کے ساتھ سازگار ہے اعتراض کیا ہے ۔یہاں ہم ان اعتراضات کا مختصراجواب دینے کی کوشش کرتے ہیں :
1۔آیہ کریمہ میں لفظ (کعبین)(أرجلکم) کی غایت کے عنوان سے ذکر ہوا ہے جیسے(وأرجلکم إلی الکعبین)کعبین سے مراد پاوٴں کے ٹخنے کے اطراف میں موجود دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جبکہ غایت مغیا کے حکم میں شامل ہے اور یہ کام مسح کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا ہے
بلکہ پیروں کو دھونے سے حاصل ہو جاتاہے ۔16
جواب:اگر ہم کعبین سے مذکورہ ہڈیاں مراد بھی لیں تب بھی ان دونوں پر مسح ممکن ہے یعنی دونوں پیروں کا اس طرح مسح کریں کہ مذکورہ حصہ بھی اس میں شامل ہوجائے ۔
2۔شیعوں نے(کعب) کی تفسیر پاوٴں کے ابھرےہوئے حصے سے کی ہے جبکہ ہر پاوٴں میں صرف ایک کعب ہوتاہے حالانکہ آیہ کریمہ میں (کعبین)تثنیہ آیا ہے ۔شیعوں کے نظریے کےمطابق یہاں جمع کا صیغہ آنا چاہیے مثلا (کعاب)جیسےہاتھوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے :(الی المرافق)17
جواب: جس طرح جمع کا صیغہ مناسب ہے اسی طرح تثنیہ کا صیغہ بھی مناسب ہے ۔ ہاتھوں اورپیروں کے بارے میں (المرافق)(کعبین) استعمال کرنےکی وجہ ہمارےلئے واضح نہیں ہے ۔یقینا لفظ(مرافق)مرفقین سے اور لفظ (کعبین)کعاب سے زیادہ واضح ہے ۔ علاوہ ازیں اگر کعب سے مراد پیروں کے اطراف میں موجود برآمدگی لے لیں{ جیسا کہ بعض شیعہ علماءکا نظریہ ہے}تب بھی آیہ کریمہ پاوٴں کے دھونے کے وجوب کو بیان نہیں کرتی بلکہ فقط مسح کا واجب مقدار بیان کرتی ہے ۔
4۔وضو کی حکمت اور عقلی نقطہ نظر سے بھی ہمیں اس بات کا قائل ہونا چاہیے کہ آیہ کریمہ سےمراد پاوٴں کا دھونا ہے نہ مسح کرنا ،کیونکہ اگرپاوٴں کےاوپر کوئی گردد وغبار ہو تواس کے اوپر مسح کرنے سے نہ صرف طہارت وپاکیزگی حاصل نہیں ہوگی بلکہ یہ عمل اس کے مزید آلودہ ہونےکا سبب بنتا ہے ۔18
جواب:اگرچہ احکام شرعی مصالح و مفاسد پر مبتنی ہیں لیکن ان حکمتوں کی مکمل شناخت انسان کےاختیار میں نہیں ہے مخصوصا عبادتوں کی حکمتوں کا علم انسان کےپاس نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں فقہ شیعہ میں اعضائے وضو کی طہارت کے بارے میں کافی تاکید ہوئی ہے ۔اسی لئے وضو سےپہلے وضو کےاعضاء کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک کرنا ضروری ہے ۔بزرگان شیعہ کی سنت بھی یہی رہی ہے کہ وہ وضو کرنے سےپہلے اعضائے وضو کو ہر قسم کی آلودگیوں سےپاک کرتے تھے ۔ شاید یہ بات جو اہل سنت کی روایتوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتےوقت پاوٴں کو دھوتے تھے اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ؐ نظافت کی خاطر پاوٴں کو دھوتے تھے نہ وضو کے قصد سے ۔19
حوالہ جات:
1۔وسائل الشیعۃ ،ج1 باب وضو ،حدیث 1،ص256۔
2۔ایضاً ،حدیث 4۔
3۔ایضاً ،حدیث 7۔
4۔امالی ،شیخ مفید ص6 ح5
۵۔نہج الفصاحہ ص۲۸۶، ح ۶۶۰
6۔تفسیر عیاشی ج ۱، ص۴۳، ح ۳۹
7۔وسائل الشیعہ ج۱ ص۳۷۷
8۔من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱، ص۵۰
9۔تہذیب الاحکام ج2 ص116
10۔مائدۃ،6۔
11۔ التنقیح ،ج 5 ، ص61۔
12۔ جمع البیان ج2، ص164۔
13۔المیزان، ج5،ص221۔
14۔مجمع البیان ،ج2،ص164۔تفسیر طبری ،ج6،ص83۔
15۔مجمع البیان،ج2،ص 167۔
16۔تفسیر المنار ،ج6،ص 234۔
17۔ایضا ،ص233۔
18۔تفسیر المنار،ص234۔
19۔سید شرف الدین عاملی ،سبع مسائل فقہیۃ ،ص82۔آیۃ اللہ جعفر سبحانی ،الاعتصام بالکتاب و السنۃ،ص19۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر بن عبداللہ انصاری، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ صحابی ہیں جنھوں نے دوسری بیعت عقبہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ کثیر الحدیث صحابی اور حدیث لوح کے راوی ہیں۔ حدیث لوح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک کو ذکر فرمایا ہے۔ جابر کے والد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجرت سے پہلے ایمان لائے اور دوسری بیعت عقبہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کیا اور ان بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے جنہيں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قبیلوں کے نمائندوں کے طور پر مقرر کیا تھا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد عبد اللہ نےمدینہ منورہ میں دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشش کی۔ ابن کثیر دمشقی جابر کے والد عبداللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا وند آپ کو اے انصار جزائے خیر دے خصوصا العمرو بن حرام (جابر کا کنبہ) اور سعد بن عبادہ کو۔1۔ عبداللہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔2۔
جابر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی جنگوں اور اہم واقعات میں موجود تھے ، جیسے: غزوہ بنی مصطلق،غزوہ احزاب، غزوہ بنی قریظہ ، صلح حدیبیہ ، غزوہ خیبرہ ،سریہ خبط ، فتح مکہ ، محاصرہ طائف اور غزوہ تبوک ۔ 3۔ مورخین اورمحدثین نے جابر بن عبد اللہ انصاری کا نام ان لوگوں کی فہرست میں ذکر کیاہے جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں ایمان لانے والوں میں سے سب سے پہلے قرار دیتے ہیں۔4۔ شیخ مفید نے جابر کو ان اصحاب کی فہرست میں شامل کیا جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین بلافصل سمجھتے ہیں۔ شیخ صدوق ،ابو زبیر مکی( جو جابر کے شاگردوں میں سے تھے ) نقل کرتا ہے: میں نے جابر کو مدینہ میں انصار کے محلوں اور ان کے محافل میں عصا ہاتھوں میں لئے گھومتے ہوئے دیکھا جبکہ وہ یہ کہ رہے تھے : اے گروہ انصار: اپنے فرزندوں کی تربیت حب علی علیہ السلام کےساتھ کیا کرو اور جو اس سے انکار کرے تو اس کی ماں کے کردار کاجائزہ لو۔ 6۔
ایک دن امام باقر علیہ السلام نے جابر سے حضرت عائشہ اور جنگ جمل کے بارے میں پوچھا۔ جابر نے جواب دیا: ایک دن میں عائشہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ علی بن ابی طالب کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے اپنا سر جھکایا اور ایک لمحے کے بعد سر اٹھا کر یہ اشعار پڑھنا شروع کیا: "جب سونے کو جلایا جاتاہے ، تو اس سے ساری ملاوٹیں اورناخالصی نکل جاتی ہے۔ ہم انسان بھی خالص اورناخالص ہیں۔ علی ہمارے درمیان ایک معیار ہے جو کھرے اور کھوٹے کوسرے سے الگ کرتا ہے۔7۔
جابر کہتے ہیں: ہم بصرہ میں امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ تھے ، جنگ ختم ہوگئی اور میں رات کو اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور پوچھا تم لوگ کیا گفتگو کر رہے ہو؟ میں نے کہا:ہم دنیا کی برائی کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جابر! دنیا کی برائی کیوں کر رہے ہو ؟ اس کےبعد آپ نے خدا کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد دنیا کے فوائد پر گفتگو کی اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر قبرستان لے گیا اور مرنے والوں کے بارے میں بات کی۔8۔ اسی طرح جنگ صفین اور نہروان میں بھی جابر امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں رہا ۔نہروان سےواپس آتے وقت جو واقعہ پیش آیا تھا جابر نے اسے بھی نقل کیا ہے۔ 9۔
کتاب وقعہ الصفین جو قدیم کتابوں میں سے ایک کتاب ہے، جابر بن عبد اللہ سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:معاویہ اس حالت میں مرے گا کہ وہ میری امت میں شامل نہیں ہوگا۔10۔ معاویہ کے بارے میں جابر کا موقف اس حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جابر نے اس حدیث کو مستقیما اور کسی واسطہ کے بغیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔اسی طرح یہ واقعہ بھی جابر کے موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت کے آخری سال میں معاویہ نے تین ہزارافراد کو بسر بن ارطاۃ کی سربراہی میں مدینہ بھیجا اور بسربن ارطاۃ سے کہا: مدینہ جاو اوروہاں افراد کو منتشر کرو۔ تم جہاں بھی جاو لوگوں کو ڈراؤ ۔ جوہماری اطاعت سے انکار کرے ان کے اموال کو لوٹ لو ، اور اہل مدینہ کو ڈرا کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کرو کہ ان کے پاس اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
لشکرمعاویہ جب مدینہ پہنچا تو انہوں نےمعاویہ کے احکامات پر عمل کرنا شروع کیا۔ مدینہ کے لوگوں کوجنگی سہولیات اورافراد کی کمی کا سامنا ہوا جس کی وجہ سے بیعت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ملا۔ قبیلہ بنی سلمہ جو جابر کا رشتہ دار تھا ، بھی بیعت کے لئے بسر بن ارطاۃکےپاس پہنچا ۔ اس نے پوچھا کہ جابر بھی ان کے ساتھ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا جب تک جابر ان کے ساتھ نہیں آتا تب تک ان سے بیعت نہیں لوں گا۔جابر کہتے ہیں:میں ڈر گیا اس لئے وہاں سےبھاگ گیا۔ لیکن بسر نے بنی سلمہ جابر کے قبیلہ والوں سے کہا : جب تک کہ جابر خود نہ آئے کسی کو کوئی تحفظ نہیں ہے۔ میرے رشتہ دار میرے پاس آئے اور کہا :خدا کی قسم ہمارے ساتھ چلو اور اپنی جان اور اپنے رشتے داروں کے جانوں کی حفاظت کرو ، کیونکہ اگر آپ نےایسا نہیں کیا تو ہمارے لوگ مارے جائیں گے اور ہمارے اہل خانہ کو اسیر کیاجائے گا۔
جابر نے ایک رات سوچنے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لئے چلا گیا تو انہوں نے جابر سے کہا: اس کی بیعت کرو اوراپنی اور رشتہ داروں کی جان بچاو اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ بیعت، بیعت ضلالت ہے ۔یہ تقیہ ہی تھا جس نے اصحاب کہف کو مجبور کیا کہ وہ دوسرے لوگوں کی مانند گردن میں صلیب لٹکائیں اور ان کی تقریبات میں شرکت کریں ۔۱۰۔
بعض روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جابر کا رابطہ ہمیشہ دوستانہ اور محبت آمیز تھا۔ ایک دفعہ جابر بیمار پڑ گئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کے لئے اس وقت تشریف لے گئے جب وہ اپنی تندرستی سے مایوس ہوچکے تھے۔ جابر نے بہنوں کے درمیان ترکے کی تقسیم کے بارے میں مختلف سوالات پوچھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں طویل عمر کی خوشخبری دی اور ان کے سوال کے جواب میں یہ آیت{يَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہ ُ يُفْتِيکُمْ فِي الْکَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَيْسَ لہ ُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ يَرِثُہَآ إِن لَّمْ يکُن لَّہَا وَلَدفاِنکَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِن کَانُواْ إِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذکَرِ مِثْلُ حَظِّ الا نثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّہ ُ لَکُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّہُ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيم}(لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گااور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے)12۔نازل ہوئی جو آیت کلالہ کے نام سے مشہور ہے۔13۔جابر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کرنے کے علاوہ صحابہ اور حتی بعض تابعین سے بھی روایات نقل کی ہیں۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام، طلحہ بن عبیداللہ، عمار بن یاسر، معاذ بن جبل، اور ابو سعید خدری ان اصحاب میں سے ہیں جن سے جابر نے روایات نقل کی ہے۔14۔جابر اس قدر دینی معارف و تعلیمات حاصل کرنے کے طالب و مشتاق تھے کہ انھوں نے ایک صحابی رسول سے براہ راست حدیث رسول سننے کے لئے شام کا سفر اختیار کیا۔15۔اس شوق نے آخرِ عمر میں جابر کو خانۂ خدا کی مجاورت پر آمادہ کیا تاکہ وہاں رہ کر بعض حدیثیں سن لیں۔16۔وہ حدیث کے سلسلے میں نہایت بابصیرت اور نقاد تھے ۔مشہور شیعہ احادیث کی اسناد میں جابر کا نام ذکر ہوا ہے۔ ان مشہور احادیث میں حدیث غدیر17 حدیث ثقلین18۔ حدیث انا مدینۃ العلم19۔حدیث منزلت، 20۔ حدیث رد الشمس،21۔اور حدیث سد الابواب 22۔ شامل ہیں۔
اسی طرح جابر ان احادیث کے بھی راوی ہیں جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد بارہ ائمہ کے اسمائے گرامی بیان فرمائے ہیں23۔اور حضرت مہدی(عج) کی خصوصیات متعارف کرائی ہیں۔24۔حدیث لوح ان مشہور احادیث میں سے ہے جو جابر نے نقل کی ہے اور ان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ائمۂ اثناعشر کے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔25۔
شیخ طوسی نے جابر کوامام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے طور پر ذکر کیا ہے۔26۔ واقعۂ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت جابر بن عبداللہ انصاری مدینے کے معمر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے لئے فکرمند تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز میدان کربلا میں عبید اللہ بن زیاد کی جانب سے بھیجے گئے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے جابر بن عبداللہ کا نام اپنے مدعا کے گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔27۔ عاشورہ کے دن جب امام نے دشمن سے مخاطب ہو کر خطبہ دیا تو آپ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میں رسول اللہ کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا ر سول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمیرے اور میرے بھائی کے بارے میں نہیں فرمایا: یہ دو نوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب باتیں صحیح نہیں تو کچھ اصحاب ہیں ان سے پوچھو جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو سعید خدری وغیرہ ۔28۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سننے کے کچھ دن بعد ہی جابر بن عبد اللہ انصاری نے کربلا کا سفرشروع کیا۔ یزید اور ابن زیاد جیسےظالم اورسفاک افراد نے بھی اسے اس سفر سے نہیں روکا۔ جابر کے ساتھ اس سفر میں اس کا شاگرد عطیہ عوفی بھی تھا۔ شیخ طوسی نے جابر کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر قرار دیا ہے جو 20صفر 61 ہجری کو کربلا میں وارد ہوئے۔29۔
طبری اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادرپہنا ، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اوراپنے آپ کو اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم اٹھانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ حسین ابن علی کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابرنے کہا : میرا ہاتھ قبر حسین پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسین پر رکھا ۔ اس نے قبر حسین ابنی علی کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا ۔ جب میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسین کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبہ)کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھرجابر خود جواب دیتا ہے "آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس کو جسم سے جدا کیا گیا ہے ؟میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا کے فرزند ہیں اورآپ اس طرح کیوں نہ ہو ، کیونکہ خدا کے رسول نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے اگرچہ مومنین آپ کی شہادت سے محزون ہیں سے نالاں ہیں ۔خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسول خدا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو ایسی شہادت نصیب ہوئی جیسےیحیی بن زکریا کو نصیب ہوا تھا۔
اس کے بعدجابر نے سید الشہداء علیہ السلام کے اطراف میں موجود قبروں کی طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو آپ لوگوں پر اے پاکیزہ ہستیاں کہ آپ لوگوں نے حسین ابن علی علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰ ۃ ادا کیا اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے حضرت محمد مصطفی کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا ہم بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں ۔
عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے پوچھا: ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوسکتے ہیں جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے ۔نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لیا ہے نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہےلیکن ان لوگوں کےسروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے۔ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اوران کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں ؟جابر نے مجھے جواب دیا اےعطیہ! میں نے اپنے محبوب رسول خدا سے یہ کہتے ہوئے سنا ہےکہ اگرکوئی کسی گروہ کو چاہتا ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور ہوں گے ، اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نےمحمد مصطفی کو مبعوث کیا ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کو ارادہ بھی وہی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کا تھا ۔پھر اس کے بعد جابرنے کہا:میرا ہاتھ پکڑ و اور مجھے کوفہ کی طرف لے چلو۔
جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے: اے عطیہ! کیا تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں ۔ اے عطیہ! آل محمد کے چاہنے والوں سے محبت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے محبت اور دوستی کرتے ہیں۔ آل محمد کے دشمنوں سے عداوت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے دشمنی کرتےہیں گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہواور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمد کےچاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آجاو کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کی بوجھ کو برداشت نہ کر سکے تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمد کی محبت کی وجہ سےمضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک آل محمد کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔ 30۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے آغاز پر آپ کے اصحاب کی تعداد بہت کم تھی اور جابر ان ہی انگشت شمار اصحاب میں شامل تھے۔ وہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے حجاج بن یوسف ثقفی کے تعاقب سے محفوظ تھے۔31۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جابر بن عبداللہ انصاری سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا: اے جابر: تم اس قدر عمر پاؤگے کہ میری ذریت میں سے ایک فرزند کا دیدار کرو گے جو میرے ہم نام ہوں گے۔ وہ علم کا چیرنے پھاڑنے والا ہے یبْقَرُالعلم بَقْراً؛ علم کی تشریح کرتا ہے جیسا کہ تشریح و تجزیہ کا حق ہے۔ پس میرا سلام انہیں پہنچا دو۔32۔جابر کو اس فرزند کی تلاش تھی حتی کہ مسجد مدینہ میں پکار پکار کر کہتے تھے "یا باقَرالعلم" اور آخر کار ایک دن امام محمد بن علی علیہ السلام کو تلاش کیا ان کا بوسہ لیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام انہیں پہنچایا۔
جابر عمر کے آخری سالوں میں ایک سال تک مکہ میں بیت اللہ کی مجاورت میں مقیم رہے۔ اس دوران عطاءبن ابی رَباح اور عمرو بن دینار سمیت تابعین کے بعض بزرگوں نے ان سے دیدار کیا۔ جابر عمر کے آخری برسوں میں نابینا ہوئے اور مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔33 ۔مِزّی نے جابر کے سال وفات کے بارے میں بعض روایات نقل کی ہیں جن میں جابر کے سال وفات کے حوالے سے اختلاف سنہ 68 تا سنہ 79 ہجری تک ہے۔34۔ بعض مؤرخین اور محدثین سے منقولہ روایت کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری نے سنہ 78 ہجری میں 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور والی مدینہ ابان بن عثمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔35 ۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔ابن کثیر دمشقی، جامع المسانید، ج 24، ص 359.
2۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص286؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208، 211۔
3۔ حسین واثقی، جابر بن عبدالله انصاری، ص 63 ـ 50۔
4۔ شرح نہج البلاغۃ ابن ابیالحدید، ج 13، ص 229؛ ابنشہرآشوب، المناقب، ج 2، ص 7؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص 198۔
5۔ شیخ صدوق، الامالی، ص 47 و علل الشرایع، ص 142؛ بحارالأنوار، ج 38، ص 6 ـ 7۔
6۔ علی احمدی میانجی، مواقف الشیعۃ، ج 3، ص 281۔
7۔ ابنشعبہ حرانی، تحف العقول، ص 186 ـ 188؛ بحارالأنوار، ج 70، ص 100 ـ 101۔
8۔ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج 1، ص 220؛ ابناثیر جزری، أسدالغابہ، ج 1، ص 308.شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 2323؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ج 3، ص 264؛ بحارالانوار، ج 33، ص 439۔
9۔نصر بن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، ص 217۔
10۔ تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 197 ـ 198؛ شرح نہج البلاغۃه ابن ابی الحدید، ج 2، ص 10؛ ثقفی، الغارات، ج 2، ص 606۔
11۔ سورہ نساء (4) 176۔
12۔طبری، جامع طبری؛ و محمد بن طوسی، التبیان فی التفسیر القرآن۔
13۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208ـ209؛ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص444۔
14۔خطیب بغدادی، الرّحلۃ فی طلب الحدیث، 1395، 1395، ص109ـ 118۔
15۔ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191۔
16۔عبدالحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، ج1، ص57ـ60۔
17۔ صفار قمی، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد «ص »، ص414۔
18۔ابن ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص34۔
19۔ابن بابویہ، معانی الاخبار، 1361 ش، ص74۔
20۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج1، ص345ـ346۔
21۔ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص189ـ190۔
22۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص258ـ259؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص282۔
24۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1363ش، ج1، ص253، 286، 288۔
25۔ رجال طوسی، ص 72۔
26۔محمد بن یعقوب کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص527 ـ 528؛ ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص308ـ313۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص97۔
27۔ ارشاد مفید، ص 234 و بحارالانوار، ج 45، ص 6۔
28۔ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 730 و بحارالأنوار، ج 95، ص 195۔
29۔ عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارۃ المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،ح 62.
30۔ محمدبن ابوالقاسم عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ص74ـ 75۔
31۔ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص123ـ124۔کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص304، 450ـ469۔
32۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191ـ192۔
33۔ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص453ـ545۔
34۔قتیبہ، المعارف، ص307۔
35۔ ابن عساکر، علی بن حسن، مدینۃ الدمشق، ج 11، ص 237۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کے لئے بعض مواقع ایسے آتے ہیں جن میں وہ صحیح معنوں میں خدا کی خوشنودی اور قرب کو حاصل کر سکتا ہے اور یہی ہر انسان کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ہر انسان فطرتا نیک اور خدا جو ہوتا ہے لیکن زمانے اور حالات کے سبب انسان اپنے خالق حقیقی کو فراموش کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے کسی موڑ پر جب اسے ہوش آ جاتا ہے تو وہ یہ جان چکا ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اس کا کوئی نہیں۔انسان کی شروع سے ہی یہی کوشش رہتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کرے اوراعمال و عبادات کے ذریعہ اپنے خالق کے حضور بڑا مقام حاصل کر لے۔
اللہ تعالی نے بندوں کے لئے کچھ عبادات فرض کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان عبادات کے ذریعہ بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہو۔ہر عبادت کا اپنا خاص وقت اور زمانہ معین ہے۔کچھ عبادات یومیہ ہے اور کچھ عبادات ایسے ہیں جو سال میں ایک دفعہ صاحب استطاعت انسانوں کے لئے بجا لانا ضروری ہے ۔ اس عظیم اجتماعی عبادت کا نام حج ہے ۔ حج کی اہمیت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا را اپنے پرودگار کے گھر کے بارے میں جب تک زندہ ہو توجہ سے کام لو اوراسے خالی نہ چھوڑو کیونکہ اگر حج ترک کر دیا گیا تو خدا تمہیں مہلت نہیں دے گا۔حج اصل میں تمام پابندیوں،مصروفیتوں اور وابستگیوں سے دامن کش ہو کر اپنی فطرت کی جانب ہجرت اوربازگشت کا نام ہے۔لیکن انسان کو اس کی زندگی کے معمولات،جھوٹی سچی ضرورتیں،طرح طرح کی مشغولیات اور علاقائی صورت حال اس کے بنیادی مقصد اورالہی وظائف سے روکتی ہیں اوراسے اس کے اصل اوراس کے سچے وطن سے دور کر دیتی ہے۔حج تمام مسلمانوں کے عمومی اجتماع میں حاضری اوران لوگوں سے خدا پسند ملاقات کا نام ہے جو ایک دین کو مانتے ہیں اورخدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں ۔میقات میں حاضر ہونا،لبیک کا ورد کرنا، طواف،نماز،سعی،تقصیر اورساتھ ہی عرفات،مشعر اور منی میں قیام اورقربانی پیش کرنا یہ سب ایسی منزلیں ہیں جن میں ہزار ہا رموز پوشیدہ ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی فکریں اور محدود مفادات مسلمانوں کے اس عظیم اورعالمی اجتماع میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں اوران کی جگہ عمومی اوروسیع طرز فکر پیدا ہو جاتی ہے۔
حاجی اس ابراہیمی حج میں شریک ہونے کے ساتھ ہی انبیاء و مرسلین کی تاریخ سے جڑ جاتا ہے اوراپنی تاریخ حثیت و وجود کی بازیافت کرتا ہے۔لبیک اللہم لبیک کی مقدس آواز اسے اپنے کئے ہوئے دیرینہ عہد اور میثاق فطرت کی یاد دلاتی ہے۔انسان احرام کا سفید جامہ پہن کر خود خواہی ،خود نمائی ،دنیا کی لذتوں اور ناپسندیدہ عادات اوراطوار سے آزاد ہو کر خدا سے قریب ہو جاتا ہے اور حمد و ستایش اورنعمت و قدرت کو خدا ہی سے مخصوص سمجھتا ہے۔ خدا کے حکم اوراس کی خوشنودی کے لئے جگہ جگہ ٹہرنا اورچل پڑنا انسان کو ابراہیمی زندگی کی راہ سکھاتا ہے۔ قربانی پیش کرتے ہوئے وہ حرص و آروزو کے گلے پر بھی چھری پھیرتا ہے اوردوبارہ طواف خانہ خدا کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔رمی ،جمرات یعنی منی میں چھوٹے بڑے شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہوئے وہ ہر طرح کے شرک اورشیطانی وسوسوں سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔
حج کی غرض و غایت چند خاص مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں بلکہ اس کی پشت پر ایثار،قربانی،محبت اور خلوص کی ایک درخشان تاریخ موجود ہے۔حضرت ابراہیم،حضرت ہاجرہ اورحضرت اسماعیل علیہم السلام جیسے عظیم ہستیوں کے خلوص و عزمیت کی بے مثال داستان ہے۔حج ایک جامع عبادت اور اس کا سب سے بڑا فائدہ گناہوں کی بخشش ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو کوئی خالصتا اللہ تعالی کے عکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اوردوران حج فسق و فجور سے باز رکھتا ہےوہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
حج جیسی جامع عبادت میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے لئے روانگی سے واپسی تک دوران سفر نماز کے ذریعہ قرب الہی میسر آتا ہے۔حج کے لئے مال خرچ کرنا زکوۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزہ کی کیفیت رکھتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اوردنیوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر غیر سلی ہوئی کپڑوں کو اوڑھ کر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے خانہ خدا میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا یہ سفر ایک طرح سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔میدان عرفات کے قیام مین اسے وہ بشارت یاد آتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام کی صورت میں مسلمانوں پر اپنی نعمت کو نازل کیں ہیں۔مقام منی میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنے ازلی دشمن کو کنکریاں مارات ہے کہ اب اگر یہ میرے اورمیرے اللہ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کروں گا۔جب بیت اللہ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خیال سے وجد میں آجاتی ہے کہ اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے آنکھیں نمناک تھیں ،دل مضطرب تھا وہ آک نظر کے سامنے ہے۔ اللہ سے لو لگائے رکھنے کی یہ کیفیت حاجی کے لئے تسکین قلب اورروح کی مسرت کا باعث بنتی ہے۔
حج خداوند عالم کا حکم،حضرت آدم کی دیرینہ سنت اور اللہ کے خلیل ابراہیم کا طریقہ ہے۔حج انسان اور رحمان و رحیم خدا کے درمیان موجود وعدہ کے وفا کرنے کا مقام اور راہ ابراہیمی پر چلنے والوں کے لئے اتحاد کا مرکز ہے۔حج شیطان اور خود پرستی سے مقابلہ،شرک سے بیزاری اور انبیاء کے راستہ سے وابستگی کا اعلان۔ حج انسانوں کی عبادت کا سب سے بڑا اور پائیدار مظاہرہ ہے،حج ایک دوسرے سے آشنا ہونے کی جگہ اورعظیم امت اسلامی کے درمیاں ارتباطات و تعلقات کا مرکز اور آگہی،آزادی اور خود سازی کی تربیت گاہ ہے۔حج قیام قیامت کا نمونہ،انسانوں کی اجتماعی حرکت کا جلوہ مرکز،دعا،عبادت اور وحی کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا مقام ہے۔ایام حج کوتاہ بینی اورخود محوری و غفلت اور دنیا پرستی کے جال سے نجات پانے کے لئے بہترین فرصت ہے۔اعمال حج کا شمار عظیم ترین سیاسی و عبادی فرائض میںسے ہوتا ہے کہ اگر یہ اعمال صحیح اورعمیق آگہی اورشناخت کے ہوتے ہوئے قصد قربت و خلوص کے ساتھ انجام پائیں تو افراد اورجوامع اسلامی کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور ہوا ہوس کے شیطان کو اندر سے اور بڑے شیطان کو اسلامی سر زمینوں سے نکل جانے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ اتحاد و اتفاق کا جو منظر خانہ خدا میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہی دیگر مقامات پر بھی ہو۔ اسلام اورمسلمانوں کی خوشبختی اور کامیابی اتحاد و اتفاق میں ہی مضمر ہے اورحج اس کا بہتری نمونہ عمل ہے۔ حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے؛ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے ۔اسلامی اور توحیدی حج، {أَشِدّاء ُ عَلی الکُفّارِ رُحَمَاء ُ بَيْنَہُمْ} کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای اس عظیم عبادت اور حجاج کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں:(قال الله تعالی: وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَج یا ْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَیٰ کُلِّ ضَامِرٍ یاتِينَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِّيَشہَدُوا مَنَافِعَ لہُمْ وَيَذکُرُوا اسْمَ اللہ ِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَات} آسمانی آواز بدستور دلوں کو بلا رہی ہے اور صدیاں اور زمانے بیت جانے کے بعد بھی انسانیت کو توحید کے محور پر جمع ہو جانے کی دعوت دے رہی ہے۔ یہ دعوت ابراہیمی تمام انسانوں کے لئے ہے اور اس اعزاز سے سب کو نوازا گیا ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ کچھ سماعتیں اسے نہ سنیں اور غفلت و جہالت کی گرد تلے دبے بعض دل اس سے محروم رہیں، اگرچہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اپنے اندر اس دائمی اور عالمی ضیافت کا حصہ بننے کی صلاحیت پیدا نہ کر پائيں یا کسی بھی وجہ سے یہ توفیق انھیں حاصل نہ ہو۔ آپ اس نعمت سے بہرہ مند ہیں اور ضیافت الہی کی پرامن وادی میں آپ وارد ہو چکے ہے۔ عرفات و مشعر و منی، صفا و مروہ و بیت، مسجد الحرام و مسجد نبوی، ان مناسک اور شعائر کی ہر ایک جگہ روحانیت اور روحانی ارتقا کی ایک کڑی ہے اس حاجی کے لئے جو اس توفیق کی قدر و منزلت سے آگاہ ہے اور اس سے اپنی طہارت کے لئے استفادہ کر رہا ہے اور اپنی بقیہ عمر کے لئے زاہ راہ جمع کر رہا ہے۔
ایک اہم نکتہ جو ہر صاحب فکر اور تجسس رکھنے والے انسان کو دعوت فکر دیتا ہے، وہ تمام انسانوں، تمام نسلوں کے لئے ہر سال ایک خاص جگہ اور ایک خاص وقت پر دائمی جائے ملاقات کا تعین ہے۔ وقت اور مقام کی یہ وحدت فریضہ حج کے اصلی رموز میں سے ایک ہے۔ بے شک "لِّيَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ" کا ایک نمایاں مصداق خانہ خدا کے پہلو میں امت اسلامیہ کے افراد کی یہی سالانہ ملاقات ہے۔ یہ اسلامی اتحاد کا راز اور اسلام کی امت سازی کا ایک نمونہ ہے جو بیت اللہ کے زیر سایہ ہونا چاہئے۔ خانہ خدا کا تعلق سب سے ہے۔ سَوَاءً الْعَاکِفُ فِيہِ وَالْبَادِ ۔
ہمیشہ اور ہر سال اس مقام پر اور ایک خاص وقت پر حج اپنی زبان گویا اور صریحی منطق سے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتا ہے اور یہ دشمنان اسلام کی خواہش کے بالکل برعکس ہے جو تمام ادوار میں اور خاص طور پر دور حاضر میں، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل محاذ آرا ہونے کی ترغیب دلاتے تھے اور دلا رہے ہیں۔ آج آپ مستکبر اور جرائم پیشہ امریکہ کا رویہ دیکھئے۔ اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں اس کی اصلی پالیسی جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔ اس کی خباثت آمیز خواہش اور کوشش، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام، ظالموں کو مظلوموں پر مسلط کر دینا، ظالم محاذ کی پشت پناہی کرنا، اس کے ہاتھوں مظلوم دھڑے کی بے رحمی سے سرکوبی کرنا اور اس ہولناک فتنے کی آگ کو ہمیشہ شعلہ ور رکھنا ہے۔ مسلمان ہوشیار رہیں اور اس شیطانی پالیسی کو ناکام بنائیں۔ حج اس ہوشیاری کی زمین فراہم کرتا ہے اور یہی حج میں مشرکین اور مستکبرین سے اعلان برائت کا اصلی فلسفہ ہے۔
ذکر خدا حج کی روح ہے۔ اپنے دلوں کو ہم اس باران رحمت سے زندگی اور نشاط بخشیں اور اس پر اعتماد و توکل کو، جو در اصل قوت و شکوہ اور عدل و خوبصورتی کا سرچشمہ ہے، اپنے دلوں میں گہرائی تک اتاریں۔ ایسی صورت میں ہم دشمن کی چالوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ حجاج کرام! آپ شام، عراق، فلسطین، افغانستان، یمن، بحرین، لیبیا، پاکستان، کشمیر، میانمار اور دیگر علاقوں کے مظلوموں اور امت اسلامیہ کو اپنی دعا میں فراموش نہ کریں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ امریکہ، دیگر مستکبرین اور ان کے آلہ کاروں کے ہاتھ کاٹ دے۔)
آل سعودنے اسلام سے خیانت کرتے ہوئےشیطان صفت تکفیری داعشی گروہ کی مادی مدد کر کےاورانہیں وسائل سے لیس کرکے دنیائے اسلام کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا ہے ۔ یمن، عراق، شام اور لیبیا اور دیگر ملکوں کے مظلوم مسلمانوں کو خون سے نہلا دیا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے اور فلسطینیوں کے جانکاہ رنج و مصیبت پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنے مظالم و خیانت کا دائرہ بحرین تک پھیلا دیا ہے۔یمن کے مظلوم مسلمانوں کو حج جیسے عظیم اجتماعی عبادت سے محروم کر دیا ہے۔ آخر میں تمام حجاج کرام سے التماس ہے کہ وہ اسلام کی سر بلندی ،مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق جبکہ ہمارے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کی نابودی کے لئے خصوصی دعا کریں۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ کے اصطلاحی معانی میں سے ایک خاندان نبوت و رسالت کے ساتھ محبت و دوستی ہے اور آیات و روایات میں اس بات کی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بےشمار احادیث ایسی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے، یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ سیوطی آیت کریمہ "وَلَتَعْرِفَنَّ هُمْ فىِ لَحْن ِالْقَوْل" اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے، کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ آیت کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے۔(1) اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے، "ما کنا نعرف المنافقین علی عهد رسول الله(ص) الا ببغضهم علی ابن ابی طالب(ع)" ۔(2) پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔
نسائی (متوفی 303ھ) نے خصائص امیرالمومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرار دیا ہے اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین حدیثیں نقل کرتے ہیں، جن میں آپ ؐفرماتے ہیں، امیر المومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نہیں کرتا (اسی طرح) منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نہیں کرتا ہے۔(3) خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں تقریبا تیس حدیثیں نقل کی ہیں۔(4) جن کے مضامین اس طرح کے ہیں:
1۔ انی افترضت محبة علی ابن ابی طالب علی خلقی عامة۔ حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے۔
2۔ لو اجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار۔ اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلامکی محبت پر متفق ہو جاتے، تو خداوند جہنم کو خلق نہ کرتا۔
3۔ اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلام کی اس عمر کے برابر (جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری) عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفا و مروہ کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے لیکن (حضرت) علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
4۔ (من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی) جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی گویا اس نے رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی گویا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے۔
5۔ (ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء) ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے۔
6۔ (من زعم انه امن بی و بما جئت به و هو یبغض علیا فهو کاذب لیس بمومن) جو شخص پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہو مگر علی ابن ابی طالبعلیہ السلام سے دشمنی رکھتا ہو تو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے۔
اسی طرح شبلنجی شافعی نے نور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیا ہے:
1۔ مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے، (والذی فلق الحبة و برا النسمة انه لعهد النبی الامی بانه لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق) خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کے سوا کوئی مجھ سے بغض نہیں کرتا۔
2۔ ترمذی ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں، (کنا نعرف المنافقین ببغضهم علیا)۔ (5) ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بےشمار حدیثیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں۔(6) کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھے گرچہ خواہشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کو نفاق کا معیار سمجھا گیا۔ اس صورتحال میں پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیر المومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیتے تھے۔ گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آپ سب سے زیادہ عزیز تھے، کیونکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی۔
ان کے علاوہ آپ ؑکی افضلیت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں۔ آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ (7) کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا گیا ہے، حالانکہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لہٰذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط و خصوصیات کا حامل ہونا چاہیئے۔ محمد بن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر۔ ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی اس کے بعد کہا، پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کے مانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔(8) اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ اس نے جواب دیا، ابو بکر، عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتے ہیں۔ عبداللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے، علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ۔(9)
پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے، اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتا ہے۔ "ان زوجک خیر امتی اقدمه اسلاما و اکثرهم علما و افضلهم حلما"(10) اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ (11) جابر بن عبداللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، "انه اولکم ایمانا معی، واوفاکم بعهد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیة و اقسمکم بالسویة و اعظمکم عند الله فریة" حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الٰہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتا ہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیادہ برتر ہے۔
جابر اس کے بعد کہتے ہیں کہ آیت شریفہ "إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرْ الْبرَيَّة" حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے "قد جاءخیر البریة" (12) اس سلسلے میں اور بھی حدیثیں موجود ہیں لیکن یہاں سب کو بیان نہیں کر سکتے۔
خلاصہ یہ کہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں توحید اور نبوت کے مسائل پیش کرتے تھے وہی امامت کے مسئلے کو بھی بیان کرتے تھے اور اپنے عمل و بیان سے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو سب پر ظاہر کر دیتے تھے، اسی بنا پر اس زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا شیفتہ ہوا تھا اور مسلمانوں کے درمیان وہ شیعہ علی علیہ السلام کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ اس گروہ کی ستایش کرتے رہتے تھے اور انہیں قیامت کے دن کامیاب و کامران ہونے کی بشارت دیتے تھے۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
2۔ الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
3۔ خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام،ص 155 – 157 ۔
4۔ المناقب ،خوارزمی، ص 64 – 79۔
5۔ نور الابصار ،ص 160،منشورات الرضی قم۔
6۔ الریاض النضرۃ ،محب الدین طبری ،و قادتناکیف نعرفھم ،ج1 ،آیۃ اللہ میلانی ۔
7۔ آل عمران 61۔
8۔ البیہقی ،المحاسن ج1 ص 39،الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1 ،ص 574۔
9۔ طبقات الحنابلۃ ،ج2 ،ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1،ص 575۔
10۔ خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث 111 ،ص 106۔
11۔ خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث 111 ،ص 106۔
12۔ خطیب خوارزمی ،المناقب حدیث 120 ،ص 111 – 112۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) {وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ} روز ہفتہ 11جمادی الثانی 597 ھ کو بوقت طلوع آفتاب ساتویں صدی کی حکمت و ریاضی کا منور ترین چراغ سرزمین طوس پر جلوہ گر ہو گیا ۔ اس کا نام محمد کنیت ابوجعفر ،لقب نصیر الدین محقق طوسی ،استاد البشرتھے۔خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنا بچپن و نوجوانی طوس میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم عربی و فارسی قواعد،معانی بیان اور کچھ منقول علوم اپنے روحانی باپ سے حاصل کیا۔والد نے بیٹے کو منطق ،حکمت ،ریاضی و طبیعیات کے نامور استاد نور الدین علی ابن محمد شیعی کے سپرد کر دیا جو خواجہ نصیر الدین کے ماموں بھی تھے۔مدت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایسا لگا کہ انکے علم کے کی پیاس ماموں نہیں بجھا سکتے اسی بنا پر وہ ریاضی کے مستند ماہر محمد حاسب سے متوسل ہوئے ۔خواجہ نصیر الدین روحانیت کا مقدس لباس زیب تن کرتے ہی نصیر الدین کا لقپ پاتے ہیں ۔
خواجہ نصیر الدین نےطوس میں مقدمات ومبادیات کی تحصیل کے بعد والد کے ماموں کی نصیحت و باپ کی وصیت پر عمل کرتےہوئے تحصیل علم کے لئے نیشاپور کا سفراختیار کرتے ہیں ۔مدرسہ سراجیہ نیشاپورمیں خواجہ نصیر امام سراج الدین کے دروس فقہ و حدیث اور رجال میں شرکت کرتے ہیں ۔فرید الدین داماد نیشاپوری جن کا شماراپنےزمانے کےبزرگ ترین استادوں میں ہوتا تھا مدرسہ نظامیہ میں درس دیتے تھے خواجہ نصیر ان کے [اشارات ابن سینا] کے درس میں شرکت کرتے ہیں ۔استاد وشاگرد میں علمی مباحثے کا سلسلہ بڑھا تو فرید الدین نے نصیر الدین کی استعداد علمی اور تحصیل علم میں شوق کو دیکھتے ہوئے ایک اور دانشمند قطب الدین مصری شافعی سے ملائی جو فخرالدین رازی کے شاگرد تھے اور علم طب کی مشہور کتاب [قانون ابن سینا] کے بہترین شارحین میں سے تھے۔
طوسی شہررے اور قم کے علاوہ اصفہان تک جاپہنچے لیکن کوئی استاد ایسا نہیں پایا جو طوسی کےعلمی پیاس کو بجھا سکے اس بنا پر وہ عراق کا سفر کرتے ہیں ۔ اور 619ھ میں معین الدین سے اجازۃروایت لینے میں کامیاب ہو گئے۔محقق طوسی نےعراق میں فقہ علامہ حلی سے سیکھی اور علامہ حلی نے بھی حکمت کی تحصیل خواجہ نصیر الدین سےکیں۔نصیر الدین موصل میں کمال الدین موصلی کی خدمت سے علم نجوم وریاضی کا حصول کیا۔خواجہ نصیر الدین عراق میں تعلیم مکمل کرنے میں مشغول تھے کہ سر زمیں ایران پر مغلوں کا حملہ ہوتا ہے ۔ان کادل بھی ہم وطن اور خاندان کے افراد کے لئے بےحد مضطرب ہو گئے دوسری طرف عراق میں انکی علم و دانش سے فائدہ اٹھانے والے بھی بہت کم نظر آتے تھے اس لئےوطن کی طرف واپس آنے کا قصد کرتے ہیں۔
طوسی اپنے خاندان سے ملاقات کے لئے شھر قائن پہنچتے ہیں اور وہاں اپنی ماں و بہن سے ملاقات کرتے ہیں اور اہل شہر کے اصرار پر امام جماعت ہو کر لوگوں کومسائل سے آگاہ کرتے ہیں ۔ماں کی رضامندی سے 628 ھ میں فخر الدین نقاش کی بیٹی [نرگس خانم] کو اپنا شریک حیات بنا لیتے ہیں ۔خواجہ نصیر الدین چند ماہ تک قائن میں رہے اور شادی کے بعد قہستان کے [محتشم ناصر الدین عبد الرحیم بن ابی منصور جو مرد فاضل و کریم تھے] نے انہیں بلا بھیجا انکی بیوی راضی ہو گئی اور دونوں نے اسماعیلوں کے قلعے کی راہ لی ۔چونکہ اس زمانے میں ہر شہر مغلوں کے حملےسے سقوط کر رہے تھے توقلعہ بہترین اور محکم ترین جگہ تھی۔جس زمانےمیں طوسی قلعہ قہستان میں رہتے تھے بڑے احترام سے زندگی بسر کرتے تھے انہوں نے ناصر الدین کی فرمائش پر [طہارۃ الاعراق ]ابن مسکویہ کو عربی سےفارسی میں ترجمہ کر کے میزبان کے نام اسے اخلاق ناصری سے موسوم کرتے ہیں ۔
خواجہ ناصر الدین کا مذہب اسماعلیوں سے میل نہیں رکھتے تھے ۔طوسی نے ایک مدح عباسی خلیفے کے نام لکھ دی اور مدد طلب کیں لیکن طوسی اپنے پہلے سیاسی اقدام میں شکست کھا گئے جس کے بعد طوسی کو دوبارہ قلعوں میں رہنا پڑا۔26 سال طوسی نے اسماعیلی قلعوں میں زندگی بسر کیں اور اس مدت میں متعدد کتابوں کی تالیف کی جن میں شرح اشارات ابن سینا،اخلاق ناصری ،رسالہ معینیہ ،مطلوب المومنین،روضۃ القلوب، رسالۃ تولا و تبرا ،تحریر اقلیدس ،روضۃ التسلیم قابل ذکر ہیں۔
مغلوں کے فتوحات کے بعد ہلاکو خان نے طوسی کے علم و فضل کی وجہ سے اپنے بزرگان میں شامل کئے اور جہاں جاتے طوسی کو ساتھ لے جاتے تھے ۔طوسی نے جوینی کی مدد سے قلعہ الموت کی فتح کے بعد حسن بن صباح کے عظیم کتاب خانے کو آتش زنی سے بچایا۔ابن ابی الحدید اور انکا بھائی موفق الدولۃ فتح بغداد کے بعد مغلوں میں قید تھے اور قتل کئے جانے والے تھے ابن علقمی طوسی کے پاس انکی سفارش کرتے ہیں اور طوسی نے ان دونوں کی شفاعت کر کے موت کےمنہ سے ان دونوں کو رہائی دی۔طوسی نے مراغہ میں رصدگاہ کی تعمیر اور ایک بڑے مکتب علم ، دانش کی بنیاد رکھ دیں ۔
مشہور مستشرق رونالڈس لکھتے ہیں : طوسی نے مراغہ میں ہلاکو خان سے کہا کہ فاتح حاکم کو صرف غارت گری پر اکتفا نہیں کرنے چاہیے۔اس مغل نے طوسی کا مطلب بھانپ لیا اور حکم دیا کہ مراغہ کے شمالی پہاڑ پر ایک عظیم رصد گاہ بنائی جائے اور کام شروع کئے اور بارہ سال کی مدت میں مکمل ہو گئے اس کے بعد بہت بڑا کتاب خانہ بھی بنایا گیا جس میں تمام کتابوں کو اکٹھا کر دیا گیا جو بغداد کے کتابخانوں کی غارتگری سے بکھر گئی تھیں۔
مراغہ کی رصدگاہ 656ھ میں بننا شروع ہوا اور خواجہ نصیر الدین طوسی کی وفات کے سال 672ھ میں مکمل ہوئی۔ اس تعمیر میں فلسفہ و طب اور علم ودین حاصل کرنے والے طالب علموں کے لئے الگ الگ مدارس و عمارتیں بنائی گئی تھیں جہاں فلسفہ کے طالبعلم کو روزانہ تین درہم اور طب پڑھنے والوں کو دو درہم اور فقیہ کے لئے ایک درہم اور محدث کے لئے روزانہ نصف درہم مقرر کر لیا گیا تھا۔ اس علمی کام میں جن علما ء و دانشمندوں نےطوسی کا ساتھ دیا ان میں چند اعلام کا ذکر کیا جاتا ہے ،نجم الدین کابتی قزوینی وفات 675 ھ صاحب کتاب منطق شمسیہ ،موید الدین عرضی 650-664،صاحب کتاب شرح آلات رصدیہ ،فخرالدین خلاصی 587-680 ھ ،محی الدین مغربی ،فرید الدین طوسی ،وغیرہ۔
مراغہ کا رصد خانہ اسلام میں پہلا رصد خانہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی کئی رصدگاہیں موجود تھیں ۔طوسی کے عظیم کارناموں میں سے ایک مراغہ کی رصدگاہ کے نزدیک کتابخانے کی تعمیر تھیں یہاں تک کہ اس کتابخانے میں چار لاکھ کتابوں کا ذخیرہ ہو گئے۔ محقق طوسی بے پناہ علم و دانش اور مختلف فنون میں ید طولی رکھنے کے ساتھ بہترین اخلاق و صفات حسنی کے حامل تھے جسکابیان تمام مورخین نےکیاہے ۔ طوسی کو
صرف قلم وکتاب والے دانشمندوں میں شمارنہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے علمی و فلسفیانہ کارناموں کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا تھا بلکہ انکے ہاں علم کو اخلاق و معرفت پر سبقت حاصل نہیں تھی چناچہ جہاں بھی انسانیت و اخلاق و کردار کی بات آتی وہ اخلاق اور تمام انسانی اسلامی قدروں کو کلام و مفہوم بےروح پر ترجیح دیتے تھے۔علامہ حلی جو علمائے تشیع میں بزرگ ترین عالم کےطور پر جانے جاتے ہیں طوسی کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ علامہ حلی اپنےاستاد کے فضائل اخلاقی کا تذکرہ یوں بیان کرتے ہیں :خواجہ بزرگوار علوم عقلی و نقلی میں بہت زیادہ تصنیفات کے مالک ہیں ،انہوں نے مذہب شیعہ کے دینی علوم پر بھی کتابیں لکھی ہیں ،میں نے جتنے دانشمندوں کو دیکھا ان میں شریف ترین شخص وہی تھے۔خدا انکی ضریح کو منور کرے میں نے ان کی خدمت میں الہیات شفا ابن سینا اور علم ہیئت میں تذکرہ کا درس لیا جو خود انکی ایسی تالیفات میں سے ہے کہ جب تک یہ دنیا رہے گی اس کی تابانی رہے گی۔{مفاخر اسلامی ،علی دوانی ج4 ص136}
مورخین اہل سنت میں سے ابن شاکر نے اخلاقی طوسی کی تعریف اس عبارت میں کی ہے۔[خواجہ نہایت خوش شکل و کریم و سخی برباد،خوش معاشرت اور حکیم تھے ان کا شمار اس عہد کے سیاست مداروں میں ہوتا تھا ۔[؛فوات الوفیات،ابن شاکر ج۲ ص۱۴۹؛ ] خواجہ طوسی کے شاگردوں میں علامی حلی ،ابن میثم بحرانی ،قطب الدین شیررازی ،ابن فوطی ،سید رکن استر آبادی وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ کئی سو سال گزر گئے ہیں مگرآج بھی طوسی کے آثارعلم و دانش سے استفادہ جاری و ساری ہے۔طوسی بہت سے عصری علوم بالخصوص فلسفہ و ریاضی میں صاحب نظر تھے اور کلام،منطق ،ادبیات ،تعلیم و تربیت ،اخلاق ،فلک شناسی و رمل وغیرہ میں ایک مقام رکھتے تھے۔مخالفین و غیر مسلمین نے انکی جو تمجید و تعریف کی ہے وہ لائق توجہ اور خواجہ کے وسعت علمی کا ثبوت ہے ۔
جرجی زیدان اس موضوع پر لکھتے ہے[ اس ایرانی کے ذریعےحکمت و علم مغلوں کی سلطنت کے ہر دور داراز علاقوں میں یوں پہنچ گئے کہ رات کی تاریکی میں نور تاباں تھے۔[آداب الغۃ العربیہ ،فوائد الرضویہ] نصیر الدین کی جامعیت ایسی ہے کہ ہر علم و فن میں انکا نام نظر آتا ہے شاید خواجہ نصیر ان کم نظیر ترین انسانوں میں سے ہےیں جنہوں نے علم کے متعدد شعبوں میں اپنے قلم کی مہارت دکھائی ہیں ۔ اختصار کے طور پر خواجہ کے تصانیف کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔تجرید العقائد ،شرح اشارات ،اوصاف الاشراف،قواعد العقائد،اخلاق ناصری،آغاز و انجام ،تحریر مجسطی،تحریر اقلیدس،تجرید المنطق،اساس الاقتباس ،زیج ایلخانی۔۔۔۔۔۔ وغیرہ
18ذی الحج 673 ھ کو بغداد کےآسمان کا رنگ دگرگوں تھا گویا کوئی ایسا اتفاق واقع ہونے والا ہے جس سے اس شہر کا سکون ختم ہو جائے گا اور لوگ سوگوار ہو جائیں گے۔ایک ایسا مرد بستر بیماری پر پڑا ہوا تھا جس کی پر شکوہ زندگی سراسر حادثات سے بھر پور تھی جس نے سالہا سال تلوار و شمشیر کا نظارہ کیا اور ایک ہھر سے دوسرے شہر کی طرف ہجرت و اسیری کا تجربہ بھی تھا ۔ طوسی کی تمام زندگی میں تلوار کا منحوس سایہ اس کے سر پر رہے اور اسی بربریت کے سایہ تلے اس نے مکتب کے عقائد و افکار نشر کئے اور اپنی یاد گار بے شمار کتابیں چھور گئے۔ تاریخ نقل کرتے ہے کسی نے خواجہ سے وصیت کرنےکےلئے کہے ؛ کہ آپ کو مرنے کے بعد جوار قبر امیر المومنین علیہ السلام میں دفن کیاجائے۔خواجہ سراپا ادب تھے جواب میں بولے [مجھے شرم آتی ہے کہ مروں تو امام موسی کاظم علیہ السلام کے جوار میں اور اسکا آستانہ چھوڑ کر کہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی گفتگو کے بعد آنکھ بند کر کے اہل علم و دانش کو غم و عزا میں بٹھا دیے ۔بغداد سراسر غرق ماتم ہو ئے ،خواجہ کی تشیع
جنازہ میں بچے ،جوان ،بزرگ ،مردو عورت باچشم گریاں شریک تھے۔ انکی میت کو آستان مقدس امام کاظم و امام جواد علیہم السلام کے روضے لے گئے جس وقت قبر کھودنا چاہا تووہاں پہلے سے تیارقبر کا سراغ ملتے ہے ،عجیب بات یہ ہے کہ خواجہ کی تاریخ ولادت اور اس قبر کی تیاری ایک تاریخ کو ہوئی تھی ،کہا جاتا ہے کہ جس دن خواجہ نے طوس میں آنکھ کھولی اسی دن امام کاظم علیہ السلام نے ان کے لئے اپنے پاس جگہ مہیا کیں چونکہ خواجہ بھی تمام عمر مغلوں کے اسیر و زندانی رہے اور زندان میں ایک لحظے کے لئے بھی شیعی اعمال و مناجات کو ترک نہیں کیں۔
طوسی کو کاظمین میں سپرد خاک کئے گئے اور انکی قبر پر آیت شریفہ{وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ}نقش کر دی ۔خواجہ اگرچہ اس دنیا سے کوچ کر گئے لیکن افکار و قلم ہمیشہ ہمیشہ محبین کے گھروں میں باقی رہے ،صدیاں گزر گئے لیکن انکا نام علم و دانش کے میناروں سے چمکتے رہے اور رہینگے ۔
تحریر : محمد لطیف مطہری کچوروی
منابع :
1۔تخفۃ الاحباب ،محدث قمی
2۔ روضات الجنات ،قصص العلمائ ،مرزا محمد تنکابنی
3۔شرح اشارات ،شیخ عبد اللہ نعمہ
4۔ سرگذشت و عقائد فلسفی نسیر الدین طوسی ،محمد مدرسی زنجانی
5۔ فوات الوفیات ابن شاکر
6۔فلافہ شیعہ ،شیخ عبد اللہ نعمہ
7۔الوافی بالوفیات ،ابن صفدی رکنی
8 ۔ الاقاب ،محدث قمی
9۔مفاخر اسلامی ،علی دوانی
10۔آداب اللغۃ العربیہ ،محدث قمی
11 ۔خواجہ نصیر یاور وحی و عقل،عبد الوحید وفائی ،مترجم حسن عباس فطرت
12 ۔احوال و آثار خواجہ نصیر الدین،محمد تقی مدرس رضوی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر ابن حیان دنیا کے عظیم دانشمندوں میں سے ایک ہے جو علم کیمیاء میں نہ فقط عالم اسلام میں بلکہ غیر مسلموں کے درمیان بھی مشہور ہے۔وہ نہ فقط علم کیمیاء میں فوق العادہ تھے بلکہ فلسفہ ،منطق اور طب ،نجوم ریاضیات اور فلکیات اور دوسرے علوم میں بھی صاحب نظر تھےلیکن انہیں زیادہ شہرت علیم کیمیاء میں ملا۔برتعلیموجابر کے بارے میں کہتے ہے: جابر بن حیان کا علم کیمیا میں مقام وہی ہے جو مقام ارسطو کو منطق میں ہے ۔سارتون ان کو ایک عظیم دانشمند قرار دیتے ہے جس کی شناخت قرون وسطی میں علم کے میدان میں ہوئی ۔جابر نے علم کیمیا میں جدید اسلوب استعمال کر کے نئے علوم میں اضافہ کر دیا اور اس کو علم موازین کہلائے ۔ بہت سارے اختراعات اور کشفیات کی جابر کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔جابر کی ولادت اوررحلت کی تاریخ جابر کے زندگی کے دوسرے زاویوں کی طرح مبہم رہ گیا ہے۔لیکن 158 سے 198کے درمیان جابر اس دنیا سے چلے گئے جو نقل ہوئی ہے ۔جابر کی محل ولادت اور وہ جگہ جہاں جابر نے بچپن گزاری ہے اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض اس کو کوفی اوربعض خراسانی سمجھتے ہے۔ابن ندیم کہتے ہے: کہ جابر ذاتا خراسانی تھا ۔ویل دورانت کہتے ہے:جابر کوفہ کے کسی داروساز کا بیٹا تھا اور وہ طبابت میں مشغول رہتا تھا اور اپنے اکثر اوقا ت تجربہ گاہ میں گزار تا تھا۔مذہب کے اعتبار سے جابر مکتب تشیع سے تعلق رکھتا تھااور وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے خاص روابط رکھتے تھے۔ہولیمارد اس کے بارے میں کہتے ہے:جابر امام صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد اور قریبی دوستوں میں سے تھے اور انکی راہنمائی میں جابر نے علم کیمیا کوجو اسکندریہ کے زمانے میں ایک افسانے کی طرح مقید تھے آزاد کرا دیے۔اور اس راستے میں کماحقہ اپنے مقصود تک پہنچ گئے اسی لئے جابر کانام ہمیشہ اس فن کے بزرگان جیسے بویل،پریستلی،دلاویز اور دوسرے مشہور دانشمندوں کے ساتھ لئے جاتے ہے۔جابر اپنے اکثر کتابوں میں اس بات کی یقین دہانی کی ہے کہ اس نےاپنے علوم امام صادق علیہ السلام سے حاصل کئے ہیں۔چوتھی صدی کی ابتداء ہی میں جابر کے وجود کے بارے میں شک و تردید کرنے لگے اور بعض نے سرے سے جابر کی وجود سے انکار کرنا شروع کیا۔ابن ندیم جو چوتھی صدی کے درمیانی عرصے میں زندگی کی ہے جابر کے بارے میں کہتے ہے:بعض اہل علم اور کتاب بیجھنے والے [جو اہل علم تھے]کہتے ہیں کہ جابر کا کوئی اصل اور حقیقت نہیں ہے ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر جابر کا وجود فرض بھی کر لیں تو کتاب الرحمۃکے علاوہ اور اسکی کوئی تصنیف نہیں ہے اوردوسرے جتنے بھی تصنیفات ہے وہ دوسروں نے لکھی ہے لیکن جابر کی طرف کی نسبت دی گئی ہے۔لیکن وہ خود ایک استدلال کے ذریعے ان باتوں کو رد کر تاہے۔وہ لکھتےہیں : کون حاضر ہے کہ سخت محنت و کوشش کرے اور دو ہزار صفحوں پر مشتمل ایک کتاب لکھے جس کے لئے وہ اپنی ساری توانائی صرف کرے اور تمام زحمتیں اٹھائے اور اس کے بعد کتاب کی نسبت کسی اور شخص کی طرف دے ۔چاہے دوسرا شخص وجود رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔بہر حال یہ عمل ایک قسم کی جہالت ہے اور کوئی بھی عاقل اس کام کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔جیسے پل کرواس مستشرق ا تریشی جابر کے وجود کے میں بارے میں شک کرتے ہے۔لیکن جابر کا نام قدماء کے کتابوں میں آیا ہے جیسے ابن ندیم ،حسن بن بسطام بن شاپور،ابوبکررازی،محمد بن علی شلمغانی،ابوحیان توحیدی وغیرہ۔ان سب کے کتابوں میں جابر کا نام دیکھنے کو ملتا ہے جو خود جابر کے وجود کی دلیل ہے ۔ کہ جابر نامی ایک شخص موجود تھا جوفاضل اور دانشمند تھا۔جس نےدوسری صدی میں حکومت عباسی کے عہد سلطنت میں زندگی کی ہے ۔مکتب تشیع میں سے دوازدہ امامی جابر کو دوازدہ امامی قرار دیتے ہے جب کہ اسماعلیہ اسے اسماعیلی سمجھتے ہے ۔
سید ابن طاووس[م664]کتاب مفرج المہموم میں بعض شیعہ افراد کا نام لیتے ہے جو علم نجوم سے آگاہی رکھتے تھے لکھتےہیں: کہ ان میں سے ایک جابر ابن حیان ہے کہ امام صادق علیہ السلام کاخاص صحابی تھا۔شیعوں کے درمیان مسلمات میں سے ہے کہ جابر شیعہ اور دازدہ امامی تھا۔سید امین اعیان الشیعہ و آقای بزرگ تہرانی کتاب الذریعۃ فی تصانیف الشیعۃ میں جابر کا باقاعدہ نام لیتے ہیں اور انکی تصنیفات کا ذکر کرتے ہیں۔لیکن کچھ ایسے شواہد بھی ہے جو جابر کو اسماعیلی قرار دیتاہے۔جیسے سید ہبہ الدین شہرستانی کتاب الدلایل و المسائل میں کہتے ہے کہ جابر اسماعیل کی امامت کا قائل تھا۔لیکن انہوں نے اپنے اس ادعا پر دلیل پیش نہیں کیا ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ جابر نے اپنے کتابوں میں ظاہر وباطن اور عدد سات کا استعمال کیا ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جابر اسماعیلی تھالیکن اسماعیلیہ مذہب اپنے مبانی کو جابر کی وفات سے نصف صدی بعد آغاز کیا ہے ۔بنا برین یہ بات صحیح نہیں ہے۔اندیشہ اسماعلیان دوسری صدی ہجری میں یعنی عصر جابر میں ایک سادہ اندیشہ تھا۔لیکن یہ بات کہ ان کے کلام میں ظاہر و باطن موجود ہے اس طرح کے تاویلات سے اس کے عقیدہ کو اسماعیلی قرار نہیں دے سکتا چونکہ ان میں سے بعض تعابیر قرآن کریم میں بھی موجود ہے ۔
جابر کی بہت ساری تصانیفات ہے جو تقریباتین ہزار نو سو کے لگ بھگ ہے ۔جابر کی کتابوں میں سے کتاب الجمع،کتاب الاستتمام کتاب الاستیفاد وکتاب التکلیس کا لاتین میں ترجمہ ہو اہے اور مغربی مفکرین اس سے استفادہ کر رہے ہیں اور بعض کتابیں جو چھپ چکی ہے وہ یہ ہے کتاب الاسطقس،الکمال،البیان،النور الاوجاء،الشمس ،الایجاح،اور کتاب الملک وغیرہ ہے۔
ابتداء میں مسلمانوں کی توجہ الکیمی یعنی مصنوعی سونا بنانے یا سونے کے لئے اکسیر حاصل کرنےکی طرف تھی۔اس میں جدید کیمیاء کا علم ظاہر ہوا ۔حقیقت بھی یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں کیمیاء گری محض سونا بنانے تک محدود نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ ادویہ سازی ،معدنیات ،ارضیات اور دفاعی صنعتوں میں علم کیمیاء کے استعمال کی سخت ضرورت لاحق ہوتی تھی ۔اس لئے مسلمان کیمیاء دان زیادہ تر زورعموما علم کیمیاء پر دیتے تھے۔
لاطین میں جس کیمیاء دان کو گیبر کہا گیا ہے وہ یہی جابر ابن حیان ہے اسے تجربی کیمیاء کا بانی مانا جاتا ہے ۔وہ کیمیاء کے تمام تجرباتی عملوں سے واقف تھے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ کیمیاء میں سب سے زیادہ ضروری شئے تجربہ ہے جوشخصاپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا وہ ہمیشہ غلطی کرتا ہے ۔پس اگر کیمیاء کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربوں پر انحصار کرو اورصرف اس علم کو صحیح جانو جو تجربے سے سچ ہو جائے ۔ایک کیمیاء دان کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیا پڑھا ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے سے ثابت کیا ہے ۔
اس لحاظ سے جابر پہلا کیماء دان ہے جس نےمادے کو عناصر اربعہ کے نظریے سے نکالا ۔قدیم عرب میں گندھک پارہ اور نمک تین بنیادی عناصر قرار دئے جاتے تھے ۔گندھک مادے کی ایسی خصوصیت مانی جاتی تھی جن سے اس میں بارودی کیفیات پیدا ہو جاتی ہے ۔نمک
سے عربوں کے ذہن میں عناصرکی وہ خصوصیت تھی جس کی بنا پر چیزیں آگ سے محفوظ رہتی تھی ۔نمک اس شئے کو بھی کہتے تھے جو مختلف عناصر کوپھونکنے ،جلانے اور کشتہ بنانےکے بعد پاقی رہ جاتی ہے یعنی نمکیات موجودہ سالٹس تھے ۔پارہ دو دہاتوں کی انفرادی خصوصیت کو واضح کر نے کے لئے استعمال ہو تا تھا ۔مثلا سونےمیں انتہائی خالص پا رے کی مقررہ مقدار شامل ہوتی ہے ۔
جابر ابن حیان نے اس کے متعلق کہا کہ تمام دھاتوں کے بنیادی اجزاء وہی ہے جو جس کی مناسبت سے سونا وجود میں آتا ہے۔اگر کسی معمولی دھات کو سونے میں تبدیل کرنا ہو تو یہ ضروی ہے کہ اسے غیر مطلوبہ آمیزشوں سے پاک کیا جائےاور چند جزی اجزاء کو شامل کیا جائے تو سوناوجود میں آتا ہے ۔جابر کے اس نظریے کا تصور اس زمانے میں خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ نظریہ آج بھی اسی طرح تابندہ ہے کہ تمام دھاتوں کے بنیا دی اجزاء جوھر یا ان کے ذرات وہی ہے جو سونے کے ہیں ۔اگرچہ اس زمانے میں کیمیاء دان سونا بنانے کےجنون میں مبتلا تھے لیکن جابر اس حقیقت کاقائل تھے کہ تجرباتی طور پر تانبے کو سونے میں تبدیل کرنا محض وقت ضایع کرانا ہے ۔اسی کا عقیدہ تھا کہ مادی دنیا میں ایک ضابطہ کار فرما ہے اس لئے ہر شئے کی نوعیت ایک مخصوص مقدار کی تابع ہے ۔چنانچہ اس نے ایک کتاب المیزان لکھی ہے۔
جابر ابن حیان پہلا شخص تھا جس نے موادکے تین حصوں میں درجہ بندی کی،نباتات ، حیونات اور معدنیات ۔بعد از آں معدنیات کو بھی تین گروہوں میں تقسیم کیا پہلے گروہ میں بخارات بن جانےوالی اشیاء رکھیں اور انہیں روح یا عرق کا نام دیا ۔دوسرے گروہ میں آگ پر پگھلنے والی اشیاء مثلا دھاتیں اور تیسرے گروہ میں ایسی اشیاء جو گرم کرنےپر پھٹک جائیں اور سرمہ بن سکتی تھی ۔ پہلے گروہ میں گندھک ،سنکھیا ،پارہ،کافور اور نوشادر شامل ہے ۔عربی میں نوشادر[امونیم کلورائیڈ]کا نام پہلی بار جابر کی تصنیفات میں دیکھا گیا ہے۔جابر کیمیاء کے متعدد امور پر قابل قدر نظی و تجربی معلومات رکھتے تھے ۔اس کا یہ نظریہ کہ زمین پر وجود میں آنے والی اشیاء ستاروں اور سیاروں کے اثر کا نتیجہ ہے ،آج بھی نیا اور اچھوتا ہے ۔جابر نے کئی کیمیائی مرکبات مثلا بنیادی لیڈکار بونیٹ،آرسینگ سلفائیڈ اور انیٹیمینس سلفائیڈاور الکحل کوخالص کرنا ،شورے کے تیزاب[نائیٹرک ایسڈ]نمک کے تیزاب[کلورک ایسڈ]اور فاسفورس سے دنیا کو پہلی بار روشناس کرایا اوراس نے دو عملی دریا فتیں بھی کیں ایک تکلیس کشتہ کرنا یعنی آکسائیڈ بنانا اور دوسرا تحلیل یعنی حل کرنا ۔
کیمیاء کے فنی استعمالات پر اس کے بیانات بہت اہم ہے ۔مثلا فلزات کی صفائی ،فولاد کی تیاری ،پارچہ بافی اورجلد کی رنگائی ،وارنش کے ذریعے کپڑے کو ضد آب بنانا ،لوہے کو زنگ لگنے سے محفوظ رکھنا ،شیشے کو مینگا نیز ڈائی آکسائیڈ سے رنگین بنانا ،آئرن پائرٹ سے سونے پر لکھنا اورسرمے سے ایسٹک ایسڈبنا نا وغیرہ ۔
امریکی سائنس دان پروفیسر فلپ جابر ابن حیان کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہے: کیمیاء گری کے بے سود انہماک سے جابر نے اپنی آنکھیں خراب کر لی لیکن اس حکیم اور عظیم دانشور نے کئی چیزیں ایجاد کی اور اصل کیمیاء کی بنیاد رکھی ۔اس کا گھر تجربہ گاہ بنا ہو اتھا ۔
حوالہ جات:
۱۔ کتاب الخلدون العرب،ص ۱۶،۱۷۔
۲۔ایضا،ص۱۹۔
۳۔اعیان الشیعہ ج۱۵،ص۱۱۵۔تاریخ تمدن ،ج۱۱،ص۱۵۹۔تاریخ الاسلام السیاسی،ص ۲۶۱، الفھرست ص۵۰۰۔
۴۔ الفہرست،ص ۵۰۔تاریخ تمدن،ج۱۱،ص۱۵۹۔
۵۔ ملھم الکیمیاء،تلخیص ص ۳۳،۴۲۔
۶۔الفہرست،ص ۴۹۹
۷۔ایضا
۸۔معجم الادبار،ج۵،ص۶۔
۹۔ اعیان الشیعہ،ج۱۵،ص۱۱۸۔الذریعہ ج۵،ص۲۰۔
۱۰۔تاب الامام صادق[ع]،ابو زھرہ،ص ۱۰۱۔
۱۱۔تناظرات اسلامی ساءنس۔ڈاکٹر عطش درانی.
۱۲۔ اسلام کے عظیم سائنس دان۔حفیظ اللہ منظر.
تحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی