وحدت نیوز(آرٹیکل) تقیہ {وقایہ}سے ہے اور اس کا لغوی معنی کسی چیز کوخطرے سے بچاناہے جیساکہ تقوی بھی اسی مادہ سے ہے ۔تقوی سے مراد محرمات الہی سے نفس کو بچانا ہے لہذا تقیہ سے مراد اپنی جان ،مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر اپنے مذہب کے خلاف کسی عقیدےاور عمل کا اظہار کرنا ہے ۔شرعی اصطلاح میں تقیہ سے مراد انسان کا ممکنہ ضرر سے بچنے کی خاطر حق کےخلاف کسی کے قول یا فعل کی موافقت کرناہے۔دوسری عبارت میں تقیہ سےمراد اپنے قول و فعل سے ایسی چیزوں کا اظہار کرنا جو احکام دینی کے خلاف ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنی یا کسی دوسرے شخص کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کر سکے ۔
تقیہ حقیقت میں ایک اصل عقلی ہےجو قاعدہ اہم و مہم پر استوار ہے ۔عقلاءکی سیرت بھی یہی ہے کہ جب ان کے جان ، مال اور عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی تو وہ ان کی حفاظت کی خاطر اپنے عقائد کے خلاف اظہار کر کے اس خطرے کو برطرف کرتےتھے۔آج بھی انسانی معاشرےمیں یہ سیرت جاری ہے جیساکہ بعض موارد میں جان ،مال اور عزت و آبرو سے اہم کوئی فریضہ خطرے میں پڑ جائے تو اس چیز کو مقدم قرار دیتے ہوئے جان ، مال اور عزت و آبرو سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔اگرچہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان اہم و مہم کے مصادیق میں اختلاف نظر ممکن ہے لیکن یہ اختلافات عقلاء کا اصل تقیہ پر متفق ہونے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا جیساکہ بعض مواردکے اہم ہونےمیں تمام عقلاء متفق ہیں مثلا معاشرے میں امن و امان قائم کرنا۔عقلاء معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لئے جان ومال تک قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتےہیں۔
قرآن کریم کی بعض آیتیں واضح طورپر تقیہ کو ایک شرعی اصل کے طور پر بیان کرتیں ہیں قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے:{ لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَن يَفْعَلْ ذَالِکَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّہِ فیِ شئٍَ إِلَّا أَن تَتَّقُواْ مِنْہُمْ تُقَئۃ}مومنین کو چاہیےکہ وہ اہل ایمان کوچھوڑ کر کافروں کو سرپرست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے ، اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگرتم ان {کے ظلم}سےبچنےکے لئے کوئی طرز عمل اختیار کرو{تو اس میں مضائقہ نہیں}۔اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مومنین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی نہ بنا ئیں اور اگر کوئی ایسا کرے توخدا کی بارگاہ میں اس کے لئےکوئی مقام نہیں ہے یعنی یہ کام خدا کی رضا اور خوشنودی کے خلاف ہے مگر یہ کہ کافروں سے خوف محسوس کرے اور تقیہ کے شرائط فراہم ہو ں تو اس وقت کفار سے دوستی اوران کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دوسرے مقام پر فرماتا ہے:{ مَن کَفَرَ بِاللَّہِ مِن بَعْدِ إِيمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَ قَلْبُہُ مُطْمَئنِ بِالْايمَانِ وَ لَکِن مَّن شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِيم}جو شخص اپنے ایمان کےبعد اللہ کا انکار کرے{اس کےلئے سخت عذاب ہے}بجز اس شخص کے جسےمجبورکیا گیا ہواور اس کا دل ایمان سےمطمئن ہو {توکوئی حرج نہیں }لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پراللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑاعذاب ہے ۔اس آیت کی روشنی میں جو شخص ایمان لانے کےبعد اپنے ارادے سے کفر اختیار کرے تووہ عذاب الہی کا مستحق ہے مگر وہ افراد جو کفر اختیار کرنےپرمجبور ہو اور اپنی جان کی حفاظت کی خاطر کفر اختیارکرے حالانکہ ان کے دل ایمان سےسرشار ہو تو ایسے افراد عذاب الہی کا مستحق نہیں ہیں اور یہ قانون تقیہ ہے ۔ مذکورہ آیت جناب عمار یاسر کے بارےمیں نازل ہونے پر تمام محدثین و مفسرین کا اتفاق ہے ۔جناب عمار، ان کے والدین {یاسر اورسمیہ}اور بعض اصحاب کفار کے ہاتھوں سخت اذیت و آزار سے دوچار ہوئے جنہیں ان لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برائت کرنے کا حکم دیا تھا ۔جناب عمار کے والدین نے ایسا کرنے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں انہیں شہید کر دیا گیا مگر جناب عمار نے تقیہ کرتے ہوئے کفر کا اقرار کیا جس کی وجہ سےوہ بچ گئے لیکن اپنے اس عمل پر پشیمان ہو کر روتے ہوئےپیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آپؐ کو اس واقعہ سے آگا ہ کیا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تسلی دی اور فرمایا:پھرکبھی ایسا واقعہ پیش آئے تو جوبھی تم سے کہلائیں کہہ دینا اسی وقت آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:{وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَکْتُمُ إِيمَانَہُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبی الله ۔۔۔} اور آل فرعون میں سے ایک مومن جواپنا ایمان چھپا ئے ہوئے تھا کہنےلگا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہوجو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔آل فرعون کےمرد مومن نے حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لایا تھا اور اس نے آپؑ سے خفیہ رابطہ رکھا ہوا تھا ۔علاوہ ازیں اس نے آپ ؑکو فرعون کےپیروکاروں کے منصوبےسےآگاہ کیا جو آپ ؑکو قتل کرنا چاہتے تھے ۔{ قَالَ يَامُوسیَ إِنَّ الْمَلاء یاْتَمِرُونَ بِکَ لِيَقْتُلُوکَ فَاخْرُجْ إِنی ّ لَکَ مِنَ النَّاصِحِين}اس نےکہا اے موسی!دربار والے تیرےقتل کے مشورے کر رہےہیں،پس {یہاں سے}نکل جا میں تیرے خیر خواہوں میں سےہوں۔ یہ شخص اپنےعقائد کوفرعونیوں سےچھپاتا تھا اور خود فرعونیوں کے عقائد کے مطابق عمل کرتا تھا اگرچہ یہ حق کے خلاف تھا لیکن اپنی اور حضرت موسی علیہ السلام کی جان بچانے کے لئے وہ تقیہ کرتا تھا۔قرآن کریم اس کےاس عمل کو بڑے احترام سے یاد کیاہے ۔
فخر الدین رازی اس آیت {لَّايَتَّخِذِالْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِينَ أَوْلِيَاءَمِن دُونِ الْمُؤْمِنِين۔۔} کی تفسیرمیں لکھتےہیں: آیت کا ظہورصرف کفار سے تقیہ کرنے پر دلالت کرتاہے لیکن امام شافعی کا نظریہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان ایسے حالات رونما ہو جائیں جیسے مسلمان اور کفار کےدرمیان ہوا کرتا ہے تو اس صورت میں بھی جان کی حفاظت کےلئے تقیہ کرنا جائز ہے ۔امام شافعی کی نظر میں جان کی حفاظت کے لئے تقیہ کرنا مسلما ًجائز ہے جبکہ مال کے نقصان کی صورت میں بھی تقیہ کے جائز ہونے کو ترجیح دی گئی ہےکیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :{حرمۃ مال المسلم کحرمۃدمہ}مسلمانوں کا مال ان کے خون کے مانند محترم ہے۔نیز آپؐ نےفرمایا:{من قتل دون مالہ فہوشہید}اگرکوئی شخص اپنے مال کی حفاظت میں ماراجائے تو وہ شہید ہوگا۔یعقوبی اور دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ جب بسربن ابی ارطاۃ نے مدینہ پر حملہ کیا اور جابربن عبد اللہ کو اپنےپاس بلا یا تو جابر نے ام سلمہ سےکہا :اس شخص کی بیعت کرنا ضلالت ہے لیکن اگر بیعت نہ کروں تو یہ مجھےقتل کر دےگا ۔ام سلمہ نے کہا :اس کی بیعت کرو کیونکہ اصحاب کہف تقیہ کر کے اپنی قوم کے مخصوص مراسم میں شرکت کرتے تھےاور ان کی طرح مخصوص لباس پہنتے تھے ۔طبری اپنی کتاب تاریخ میں مامون عباسی کی حکومت کےزمانے میں پیش آنے والے واقعات مخصوصاً قرآن کےمخلوق اور حادث ہونے کے بارےمیں لکھتے ہیں:بہت سارے قضات اور محدثین نے مامون کے خوف سے بچنے کے لئے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کیا تھا لیکن جب بعض لوگوں نے تقیہ کرنے والوں پر اعتراض کیا اور ان کے اس عمل کی مذمت کی تو انہوں نے کفار کے مقابلے میں جناب عمار یاسر کی مثال پیش کی ۔یہ واقعہ اس بات پر واضح طورپردلالت کرتا ہے کہ تقیہ ایک عمومی قاعدہ ہے جو صرف کفار کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔جب بھی تقیہ کے شرائط فراہم ہوں تو انسان اس پر عمل کر سکتا ہے خواہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہو یا کفار کے مقابلے میں ۔
آئمہ اہل بیت علیہم السلام اس عقلی و شرعی قاعدے کےبارے میں تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:{لاایمان لمن لاتقیۃلہ}جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے{ولا دین لمن لا تقیۃ لہ}جوتقیہ نہیں کرتااس کا کوئی دین نہیں ہے{التقیۃ من دینی ودین آبائی}تقیہ میرےاور میرے آباءواجداد کے دین میں شامل ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی اسی قسم کی ایک حدیث نقل ہوئی ہے ۔ تقیہ کے بارے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث سےمعلوم ہوتاہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام دوقسم کے تقیہ پر عمل کرتے تھے اوراپنے پیروکاروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی نصیحت فرماتے تھے۔1۔تقیہ خوفی 2۔تقیہ مدارائی تقیہ خوفی کےبارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں ۔تقیہ خوفی کبھی انسان کی اپنی جان ،مال اور عزت و آبرو کی خاطر ،کبھی دوسرے مومنین کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی خاطر اور کبھی دین ومذہب کی حفاظت کی خاطر کیاجاتا ہے ۔ تقیہ مدارائی بھی تقیہ کی ایک قسم ہے اور یہ اس مقام پر ہےجہاں انسان کی جان ،مال اور عزت و آبرو کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس روش پر عمل کرنے سے انسان بہتر طریقے سے دینی ذمہ داریاں انجام دے سکتا ہے اورمسلمانوں کے درمیان اخوت کی فضا قائم کرسکتا ہے۔ جن احادیث میں تقیہ کوسپر اور ڈھال قرار دیا ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: التقیۃ ترس المؤمن و التقیۃ حرز المؤمن}تقیہ مومن کے لئےڈھال ہے اور تقیہ مومن کی حفاظت کا سبب ہے ۔اس سے مراد تقیہ خوفی ہے اور جن احادیث میں آداب معاشرت اور اچھے اعمال کےبارے میں کہا گیا ہے وہ اکثرتقیہ مدارائی ہیں ۔یعنی ان احادیث کا مقصد مخالفین کو مذہب شیعہ کی طرف جذب کرنا ہے اگرچہ اس کے ذریعے شیعوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی بھی حفاظت کی جاسکتی ہے ۔
جناب ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:جن کاموں کی وجہ سے ہماری سرزنش ہوتی ہو ان سے پرہیز کرو کیونکہ ناصالح فرزند کے کاموں کی وجہ سے اس کےباپ کی بھی سرزنش ہوتی ہے ۔جن افرادکے بارے میں تمہاراخیال ہو کہ وہ تم میں سے ہیں ان کے لئے باعث زینت بنو نہ باعث شرمساری وذلت۔ان کے{اہل سنت} نماز جماعت میں شریک ہو جاوٴ،ان کے بیماروں کی عیادت کرو،ان کے جنازوں میں شرکت کرو اور ہر نیک عمل کو ان سے پہلے انجام دو۔اس کے بعد آپ ؑنے فرمایا:{والله ماعبدالله بشئی احب الیہ من الخباء}خدا کی قسم خداوند متعال کی خباء سےزیادہ محبوب کسی چیز کےذریعےعبادت نہیں ہوئی ہے۔ہشام نے {خباء} کےبارےمیں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا:{التقیۃ}ائمہ اہل بیت علیہم السلا م کی متعدد احادیث میں آیت کریمہ{اورنیکی اوربدی برابر نہیں ہوسکتے، آپ{بدی کو} بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عدوات تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔اور یہ {خصلت}صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے اور یہ صفت صرف انہیں ملتی ہے جو برے نصیب والے ہیں }سے مرادتقیہ لیا ہے ۔واضح رہے کہ اس تقیہ سے مراد تقیہ مدارائی ہے۔اس بات پر واضح دلیل اس آیت سے پہلی والی آیت ہے جو توحید اور خدا پرستی کی طرف دعوت دیتی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلی اللہ وَ عَمِلَ صَلِحًا وَ قَالَ إِنَّنی مِنَ الْمُسْلِمِين}ا
اور اس شخص کی بات سےزیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایااور نیک عمل کیا اورکہا:میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔
حوالہ جات:
1. سید محسن امین ،نقض الو شیعۃ،ص181۔
2. آل عمران،28۔
3. نحل،106۔
4. مجمع البیان،ج3،ص388۔تفسیر الکشاف،ج2،ص430۔تفسیر ابن کثیر،ج4،ص228۔
5. غافر،28۔
6. قصص،20۔
7. آل عمران،28۔
8. مفاتیح الغیب ،ج6،ص13۔تفسیررازی ،ج8،ص13۔
9. تاریخ یعقوبی،ج2،ص100۔
10. تاریخ طبری،ج10،ص292۔
11. وسائل الشیعۃ،ج6،
12. وسائل الشیعۃ،ج11،حدیث،6۔
13. وسائل الشیعۃ،باب26،حدیث،2۔
14. فصلت،34،35۔
15. فصلت،33۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) امام جعفر صادق علیہ السلام 17 ربیع الاول کو اپنے جد بزرگوار رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن 84 ھ میں پیدا ہوئے۔آپ کی مشہور ترین کنیت ابو عبد اللہ اور معروف ترین لقب صادق تھا ۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر جن کی کنیت " ام فروہ " تھی ۔یہ خاتون امیرالمؤمنین علی علیہ السلا م کے یار و وفادار شھید راہ ولایت و امامت حضرت محمد بن ابی بکر کی بیٹی تھی ۔ اپنے زمانے کے خواتین میں باتقوی ، کرامت نفس اور بزرگواری سے معروف و مشہور تھی ۔ امام صادق علیہ السلام نے ان کی شخصیت کے بارے میں فرمایا ہے : میری والدہ ان خواتین میں سے ہے جنہوں نے ایمان لایا اور تقوی اختیار کیا اور نیک کام کرنے والی اور اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
آپ نےنصف زمانہ اپنے جد بزرگوار اور پدر گرامی کی تربیت میں گزارا ۔یہ قیمتی زمانہ آپ کے لئے خاندان وحی سے سے علم و دانش، فضیلت و معرفت الہی کسب کرنے کا بہترین موقع تھا ۔ امام علیہ السلام اسلامی اخلاق اور انبیائی فضائل کے مکمل نمونہ تھے آپ کا ارشاد ہے {کو نوادعاۃ الناس بغیر السنتکم } لوگوں کو بغیر زبان کےاپنے عمل سے دعوت دو۔ آپ حلم ،برباری ،عفو درگزر کےپیکر تھے۔حاجت مندوں کی مدد کرنے کو باعث افتخار سمجھتے تھے ۔ امام علیہ السلام کی شخصیت اور عظمت کو نمایاں کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ آپ کا سخت ترین دشمن منصور دوانقی جب آپ کی خبر شہادت سے مطلع ہوا تو اس نے بھی گریہ کیا اور کہا : کیا جعفر ابن محمد کی نظیر مل سکتی ہے؟مالک ابن انس کہتے ہیں کہ جعفر صادق جیسا نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں یہ خطور ہوا کہ علم ،عبادت ،پرہیزگاری کے اعتبار سے جعفر بن محمد سے برتر بھی کوئی ہوگا ۔ ابو حنیفہ جو حنفی مذہب کے امام ہے کہتے ہیں کہ میں نے جعفر صادق سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں دیکھا ۔ابن ابی العوجا ء جو کہ اس زمانے کے مادہ پرستوں کا امام تھا امام کی شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جعفر صادق بشر سے بالا تر ہیں اگر زمین پہ کسی روحانی کا وجود ہو سکتا ہے تو وہ بشر کی صورت میں تجلی ریز ہو تو وہ جعفر بن محمد ہیں۔آپ کے علمی مقام کو بیان کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ اہل سنت کے ائمہ کے استاد ہیں ۔امام علیہ السلام کی بڑی درس گاہ میں بہت سے ایسے شاگردوں نے پرورش پائی جنھوں نے مختلف مضامین میں علوم و معارف اسلام حاصل کر کے دوسروں تک منتقل کئے ۔آپ کے شاگردوں میں حمران بن اعین ، مفضل ابن عمر اور جابر بن یزید جعفی کا نام قابل ذکر ہیں ۔حمران کے بارے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا حمران اہل بیت بہشت میں سے ہے جب لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ کسی کا تعارف کرائیں کہ اس سے سوال کریں تو آپ نے فرمایا مفضل کو میں نے تمہارے لئے معین کیا وہ جو کہیں قبول کر لو اس لئے کہ وہ حق کے سوا کچھ نہیں کہتے ۔جابر کے بارے میں آپ نے فرمایا : جابر میرے نزدیک اسی طرح ہیں جس طرح سلمان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک تھے ۔ غرض علوم کو پہنچانے میں آپ کے والد بزرگوار نے زندگی کے آخری ایام میں اور آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں کام کئے ۔اور آپ نے ان تمام نظریات کو جن کو افلاطون اور ارسطو نے پیش کیے تھے سب کو باطل قرا دیا اور دلائل کے ذریعے حقائق کو ثابت کر دیا اور پہلی مرتبہ دنیا میں یہ بتا دیا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے اور کائنات میں صرف چار عناصر نہیں بلکہ کئی ہزار عناصر ہیں ۔
آج سائنس نے اتنی ترقی کی ہے لیکن اس کے باوجود آج تک کوئی ماں کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا جو صا دق آل محمد ع کےاس نظریے کے خلاف کوئی چیز ثابت کرے۔آپ کا ذات اقدس علوم کا ایک بحر بیکران تھا جس کے مقابلے میں سائنس لاکھ درجہ ترقی کریں تب بھی اس درجے تک نہیں پہنچے گا اس لئے کہ آپ کا علوم کسبی نہیں تھا بلکہ آپ کو خدا کی طرف سے اور اپنے آباو اجداد کی طرف سے ورثے میں ملی تھی ۔
آپ نے دہریوں، قدریوں، کافروں اور یہودیوں و نصاری سےبے شمارعلمی مناظرے کئے اور ہمیشہ انہیں شکست دی ۔ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ایک قدریہ مذہب کامناظراس کے دربارمیں آکرعلماء سے مناظرہ کاخو ہشمندہوا، بادشاہ نے حسب عادت اپنے علماء کوطلب کیااوران سے کہاکہ اس قدریہ سے مناظرہ کروعلماء نے اس سے کافی زورآزمائی کی لیکن تمام علماء عاجزآگئے اسلام کی شکست ہوتے ہوئے دیکھ کر عبدالملک بن مروان نے فوراایک خط حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی خدمت میں مدینہ روانہ کیااوراس میں تاکید کی کہ آپ ضرور تشریف لائیں حضرت امام محمد باقرکی خدمت میں جب اس کاخط پہنچاتوآپ نے اپنے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرمایاکہ بیٹامیں ضعیف ہوچکاہوں تم مناظرہ کے لیے شام چلے جاؤ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے پدربزرگوارکے حکم پر شام پہنچ گئے۔
عبدالملک بن مروان نے جب امام محمدباقرعلیہ السلام کے بجائے امام جعفر صادق علیہ السلام کودیکھاتوکہنے لگاکہ آپ ابھی کم سن ہیں ہوسکتاہے کہ آپ بھی دوسرے علماء کی طرح شکست کھاجائیں، اس لیے مناسب نہیں کہ مجلس مناظرہ منعقدکی جائے حضرت نے ارشادفرمایا، تو مت ڈرو، اگرخدانے چاہاتومیں صرف چندمنٹ میں مناظرہ ختم کردوں گا۔
قدریوں کااعتقادہے کہ بندہ ہی سب کچھ ہے، خداکوبندوں کے معاملہ میں کوئی دخل نہیں، اورنہ خداکچھ کرسکتاہے یعنی خداکے حکم اورقضاوقدروارادہ کوبندوں کے کسی امرمیں دخل نہیں لہذا حضرت نے اس کی خواہش پرفرمایاکہ میں تم سے صرف ایک بات کہنا چاہتاہوں اوروہ یہ ہے کہ تم ”سورہ حمد“پڑھو،اس نے پڑھناشروع کیا جب وہ ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ پرپہنچا تو آپ نے فرمایا،ٹہرجاؤاورمجھے اس کاجواب دوکہ جب خدا کوتمہارے اعتقاد کے مطابق تمہارے کسی معاملہ میں دخل دینے کاحق نہیں توپھرتم اس سے مدد کیوں مانگتے ہو، یہ سن کروہ خاموش ہوگیا اورکوئی جواب نہ دے سکا، اور مجلس مناظرہ برخواست ہوگئی۔
اہل سنت کی کتابوں میں ابوحنیفہ کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام کا مناظرہ کچھ اس طرح سے بیان ہوا ہے ابوحنیفہ بن ابی شبرمہ و ابن ابی لیلی ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے امام صادق علیہ السلام نے ابن ابی لیلی سے فرمایا : یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ اس نے عرض کیا : یہ ایسا شخص ہے جو صاحب بصیرت اور دین میں اثر و رسوخ رکھتا ہے ۔ امام نے فرمایا : گویا یہ شخص دین کے امور میں اپنی رائے سے قیاس کرتا ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ امام نے ابوحنیفہ سے فرمایا : تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : نعمان ۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : میں دیکھ رہاہوں کہ تم کسی بھی چیز کو اچھی طرح نہیں جانتے ؟ اس کے بعد امام نے کچھ مسائل بیان کرنے شروع کئے جن کا ابوحنیفہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔
امام نے فرمایا : اے نعمان ! میرے والد نے میرے جد امجد سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے جس شخص نے دین میں اپنی رائے سے قیاس کیا وہ ابلیس تھا ، خداوند عالم نے اس سے فرمایا : آدم کو سجدہ کرو۔اس نے جواب میں کہا : {انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین } میں اس سے بہتر ہوں ، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ۔ پس جو شخص بھی دین میں اپنی رائے سے قیاس کرے اس کو خداوند عالم قیامت کے روز ابلیس کے ساتھ محشور کرے گا کیونکہ اس نے قیاس میں ابلیس کی پیروی کی ہے۔ابن شبرمہ کہتے ہیں : پھر امام نے ابوحنیفہ سے سوال کیا: ان دو چیزوں میں سب سے عظیم چیز کیا ہے : انسان کو قتل کرنا ، یا زنا کرنا ؟ ابوحنیفہ نے کہا : انسان کو قتل کرنا ۔ امام نے فرمایا : پھر خداوندعالم نے انسان کو قتل کرنے میں دو گواہوں کو کافی کیوں سمجھا جبکہ زنا کے شواہد میں چار گواہوں کو ضروری سمجھا ہے ؟پھر فرمایا : نماز زیادہ عظیم ہے یا روزہ؟ ابوحنیفہ نے کہا : نماز ۔ امام نے فرمایا : پھر کیا وجہ ہے کہ حائض عورت اپنے روزوں کی قضا کرتی ہے لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی ؟ وائے ہو تجھ پر ! تیرا قیاس کس طرح حکم کرتا ہے ؟ خدا سے ڈر اور دین میں اپنی رائے سے قیاس مت کر ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اکثر مجالس عزاداری امام حسین علیہ السلام کا اہتمام کرتے تھے اور اپنے جد بزرگوار سید الشہداء علیہ السلام کی مظلومیت پر گریہ و نالہ کرتے تھے۔ ابوہارون مکفوف نقل کرتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اے اباہارون، امام حسین علیہ السلام کیلئے مرثیہ پڑھو"، میں نے مرثیہ پڑھا اور امام صادق علیہ السلام نے گریہ کیا، ا سکے بعد فرمایا: "اس طرح سے مرثیہ پڑھو جس طرح تم اکیلے میں اپنے لئے پڑھتے ہو"، میں نے اپنے خاص انداز میں مرثیہ پڑھنا شروع کیا، میرا مرثیہ یہ تھا:
امرر علی جدث الحسین
فقل لاعظمہ الزکیہ
اگر اپنےجد حسین علیہ السلام کے روضے پر جائیں تو ا نکے پاکیزہ بدن کو کہیں ۔۔۔۔۔"امام صادق علیہ السلام نے دوبارہ اونچی آواز میں گریہ کرنا شروع کیا اور اسکے ساتھ ہی پردے کے پیچھے خواتین کے گریہ و زاری کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔
امام صادق علیہ السلام نےمنصور کے دور حکومت میں بڑی دشواری اور نگرانی میں زندگی گزار ی لیکن مناسب حالات میں حکام وقت پر اعتراض اور ان کو ٹوکنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔جب منصور نے خط کے ذریعے چاہا کہ آپ اس کو نصیحت کریں تو آپ نے اس کے جواب میں لکھا : جو دنیا کو چاہتا ہے وہ تم کو نصیحت نہیں کر سکتا اور جو آخرت کو چاہتا ہے وہ تمھارا ہم نشین نہیں ہو سکتا ۔ ایک دن منصور کے چہرے پر ایک مکھی بیٹھ گئی ۔ ایسا بار بار ہوتا رہا یہاں تک کہ منصور کو تنگ آگیا اور اس نے غصے میں امام جو تشریف فرما تھے پوچھا کہ خدا نے مکھی کیوں پیدا کیا ہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایا تا کہ جو جابر ہیں انہیں ذلیل و رسوا کرے ۔ آسمان ولایت و امامت کے اس درخشاں ستارے کا وجود ظالم حکمران منصور کے لئے برداشت نہیں ہو اور اس ملعون نے آپ کو زہر دینے کا ارداہ کیا اور آخر کار آپ کو زہر سے شہید کیا گیا ۔یوں 25 شوال 148ھ کو 65 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ آپ کو آپ کے پدر گرامی کے پہلو میں بقیع میں سپرد خاک کر دیا ۔{وَسَلَامٌ عَلَيْہِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا}
حوالہ جات:
۱۔تفسیر برہان جلد ۱ ص ۳۳ ۔
۲۔ الطبقات الکبری، شعرانی، ج 1، ص 28 ; حلیۃ الاولیاء، ج 3، ص 193.
۳۔اہل بیت از دیدگاہ اہل سنت، علی اصغر رضوانی، ص 99۔
۴۔ کامل الزیارات، باب 33، صفحہ 104۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) بدعت کا لغوی معنی کسی نئے اوربےسابقہ کام کو انجام دیناہے اور عام طور پر بدعت ہر اس نئے کام کو کہا جاتا ہےجو فاعل کے حسن و کمال پر دلالت کرتا ہے۔اگر خدا کے لئے لفظ بدیع استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ خدا وند متعال نے کائنات کو آلات و وسا یل اور کسی سابقہ چیز کو دیکھے بغیرخلق کیا ہے ۔ بدیع کبھی اسم فاعل {مبدِع}اور کبھی اسم مفعول {مبدَع}کے معنی میں استعمال ہوتاہے اور آیۃ کریمہ { قُلْ مَا کُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُل}کہہ دیجئے : میں رسولوں میں انوکھا {رسول} نہیں ہوں،میں ہر دو معنی کا احتمال دیا گیا ہے ۔
روایات میں لفظ بدعت شریعت وسنت کےمقابلے میں استعمال ہواہے اور اس سے مراد اسلام اور سنت نبوی کے خلاف کوئی کام کرنا ہے۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:{انما الناس رجلان متبع شرعۃ و مبتدع بدعۃ}لوگ دوقسم کے ہوتےہیں یاوہ جو شریعت کی پیروی کرتےہیں یا وہ جو بدعتوں کو ایجاد کرتے ہیں۔ آپ ؑایک اور مقام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بارے میں فرماتے ہیں:{اظہر بہ الشرائع المجعولۃ و اقمع بہ البدع المدخولۃ}آپ ؐ کےذریعے غیر معروف شریعتوں کو ظاہر کیاہےاور مہمل بدعتوں کا قلع و قمع کر دیاہے ۔اسی طرح آپ ؑفرماتے ہیں :{ و ما احدث بدعۃ الا ترک بہ سنۃ}کوئی بدعت اس وقت تک ایجاد نہیں ہوتی جب تک کوئی سنت ترک نہ ہوجائے۔
فقہاء و محدثین نےبدعت کی مختلف عبارتوں میں تعریف کی ہے یہاں ہم چند نمونے ذکر کر تے ہیں :
{البدعۃ مااحدث مما لا اصل لہ فی الشریعۃ یدل علیہ واما ما کان لہ اصل من الشرع یدل علیہ وفلیس ببدعۃ شرعا و ان کان بدعۃلغۃ}بدعت وہ چیزہےجس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اگر شریعت میں اس کے لئے کوئی دلیل موجود ہو تو وہ شرعا بدعت نہیں ہےاگرچہ لغت میں اسے بدعت کہا جاتا ہے ۔
{البدعۃ مااحدث و لیس لہ اصل فی الشرع،وما کان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس بدعۃ}بدعت وہ چیزہےجو{پیغمبر اسلام کےبعد} ایجاد ہوئی ہواور اس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اور جس چیز کا دین میں کوئی اصل موجود نہ ہو ۔
{البدعۃزیادۃفی الدین او نقصان منہ من اسناد الی الدین}بدعت شریعت میں دین کےنام پر کمی یابیشی کرنا ہے ۔
{البدعۃ،الحدث فی الدین و ما لیس لہ اصل فی کتاب ولاسنۃ}بدعت سےمراددینمیںکسی چیز کا اضافہ کرناہے جس کے جواز پر کتاب وسنت میں کوئی دلیل موجود نہ ہو ۔
{البدعۃ فی الشرع ماحدث بعد الرسول و لم یرد فیہ نص علی الخصوص و لایکون داخلا فی بعض العمومات أو ورد نہی خصوصا أو عموما}شریعت میں بدعت وہ چیز ہےجو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبعد ایجاد ہوئی ہو اوراس کے جواز میں کوئی خاص یاعام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔
علماء کی اصطلاح میں بدعت سےمراد دین میں کسی حکم کا زیادہ یا کم کرنا ہے ۔یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانے میں غیر موجودکسی حکم کودین میں شامل کرنا جبکہ اس کےجوازپر کوئی خاص یا عام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔ لہذا جب بھی کوئی حکم سابقا موجودنہ ہو لیکن کتاب و سنت سےاستنباط کیا ہو تو وہ بدعت نہیں ہے اگرچہ کتاب وسنت سے استنباط کرنےمیں غلطی ہونا ممکن ہے لیکن اجتہاد کرتے ہوئے کوئی غلطی سرزد ہوجائےتو اس پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے ۔
دین میں بدعت گذاری گناہان کبیرہ میں سے ہے ۔کتاب و سنت ،عقل اور اجماع مسلمین اس کی حرمت پر دلالت کرتی ہے ۔ عقلی اعتبارسے قانون گزاری کا حق صرف خدا کو حاصل ہے اور خدا کے اذن و مشئیت کےبغیر کسی کو دین میں قانون گزاری کا حق حاصل نہیں ہے ۔قرآن کریم یہودیوں کی سرزنش کرتا ہے کیونکہ وہ دینی علماء کی بےچون وچرااطاعت کرتے تھےاور انہیں ارباب قرار دیتے تھے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ اتخَّذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ الله}انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماءاور راہبوں کواپنا رب بنا لیا ہے۔”یہودی علماءلوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ یہ لوگ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال قرار دیتے تھے اور لوگ بے چوں و چرا ان کی اطاعت کرتے تھے گویا یہ افراد حقیقت میں ان کی پرستش کرتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعت کےبارے میں فرماتے ہیں:{کل بدعۃ ضلالۃوکل ضلالۃ فی النار}ر بدعت گمراہی ہےاور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔حضرت علی علیہ السلامبدعت گزاروں کو خدا کےنزدیک مبغوض ترین افراد میں سےقرار دیتےہیں جنہیں خدا نے اپنی حالت پر چھوڑدیا ہے۔ یہ لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ہیں اور دین میں بدعت ایجاد کر کے لوگو ں کو گمراہی کی طرف دعوت دیتے ہیں چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :{إن أبغض الخلائق إلی الله رجلان:رجل وکلہ الله الی نفسہ فہو جائر عن قصدالسبیل،مشغوف بکلام بدعۃودعاء ضلالۃ}بےشک پروردگار کی نگاہ میں بد ترین خلائق دو طرح کے افراد ہیں: ایک وہ شخص جسے پروردگار نے اسی کےرحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو اور وہ درمیانی راستے سےہٹ گیا ہے ۔جوصرف بدعت کا دلداہ اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے۔اس قسم کے افراد اپنے برے اعمال کی سزا پانے کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد{جنہیں گمراہ کیا ہے} کا بھی بوجھ اٹھانے والے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام بدعت ایجاد کرنےکو فتنوں کی ابتدا قرار دیتے ہوئے فرماتےہیں :{انما بدءوقوع الفتن احکام تبتدع و اہواءتتبع،یخالف فیہا کتاب الله ویتولی فیہارجال رجالا علی غیردین الله}فتنوں کی ابتداء ان خواہشات سےہوتی ہےجن کی پیروی کی جاتی ہے اوران جدیدترین احکام سےہوتی ہے جو گڑھ لئے جاتے ہیں اور کتاب خدا کےبالکل خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سےالگ ہوجاتے ہیں ۔
بدعت اجتماعی زندگی میں نمایاں ہونےوالے گناہوں میں شمار ہوتی ہے جو معاشرے کو گمراہی ا ور فساد کی طرف دھکیل دیتی ہے لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نہی عن المنکر کرتےہوئے بدعت گزاروں کے ساتھ مقابلہ کریں۔ اگرچہ علماء پر اس حوالے سےسنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اسلامی روایتوں میں اس سلسلے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :{من أتی ذا بدعۃ فعظمہ فانما یسعی فی ه ہدم الاسلام}اگر کوئی صاحب بدعت کےپاس آئے اوراس کی بزرگی کا اقرار کرے تو اس نے اسلام کو تباہ کرنےکی کوشش کی ہے۔آپؐ ایک اور حدیث میں فرماتےہیں:{اذا رایتم اہل الریب و البدع من بعدی فاظہروا البراءۃ منہم}جب تم میرے بعد اہل شک و اہل بدعت کو دیکھو تو ان سےبرائت کا اظہار کرو ۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :{لا تصحبوا اہل البدع ولاتجالسوہم}اہل بدعت کےساتھ نہ تعلقات رکھو اور نہ ہی ان کےپاس بیٹھو۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:{اذاظہرت البدعۃ فی امتی فلیظہرالعالم علمہ فمن لم یفعل فعلیہ لعنۃالله}جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہوں توعالم دین کو چاہیے کہ وہ اپنےعلم کا اظہار کرے اورجوایسا نہ کرے تو اس پر خدا کی لعنت ہے ۔
بدعت کے مصادیق کی پہچان سب سے اہم مسئلہ ہے کیونکہ تاریخ اسلام میں مختلف مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کو بدعت گذار قرار دیتے تھے ۔بدعت سے مرادکسی حکم کو دین کی طرف منسوب کرنا جبکہ اس پر دلالت کرنے کے لئے کتاب و سنت اور عقل سے کوئی دلیل [عام و خاص ،مقید و مطلق}موجود نہ ہو لیکن اگر کوئی ان منابع پراستناد کرتا ہواکسی چیز کے بارے میں حکم دے تواسےبدعت نہیں کہہ سکتےاگرچہ دوسروں کے نزدیک یہ حکم غلط ہی کیوں نہ ہو ۔ اس دور میں وہابیت اور تکفیری گروہ مسلمانوں کو بدعت گزار قرار دیتےہیں ۔ان کی نظر میں مسلمانوں کےاکثر اعمال بدعت اور حرام ہیں جیسے اذان و اقامت کےدرمیان یا اذان و اقامت سےپہلےیا بعد میں پڑھنے والے اذکار ،میناروں پر بلند آواز سے قرآن پڑھنا ،اذان کے بعد اور شب جمعہ کو پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوات بھیجنا،رمضان المبارک کی راتوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا ،عید میلا النبی منانا،بلند آواز میں نعت رسول مقبول پڑھنا ،تشیع جنازہ کے وقت بلند آواز سے اکٹھے لا الہ الا اللہ پڑھنا۔
مذکورہ موارد میں سے کوئی ایک بھی بدعت شمار نہیں ہوتا بلکہ یہ سب مستحبات شرعیہ ہیں اور ان مستحبی اذکار کا ہر وقت پڑھنا ایک نیک عمل ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کےمیلاد کےدن جشن و سرور کی محفلوں کا انعقادکرنا اور ان کی شہادت کے ایام میں مجالس عزا کا انعقاد کرنایہ سب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کےاہل بیت سے اظہار محبت ہے جو شریعت کی رو سے ممدوح اور پسندیدہ ہے ۔قرآن کریم اہلبیت علیہم السلام کی مودت کے بارے میں فرماتاہے: کہہ دیجیے: کہ میں اس {تبلیغ رسالت}پر تم سےکوئی اجرت نہیں مانگتا سوائےقریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےانصار کی عورتوں کو اپنےشہیدوں پر گریہ و زاری کرنےسے منع نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے حضرت حمزہ علیہ السلام پر گریہ و زاری نہ کرنےپر ان سے نارضگی کا اظہار فرمایا :{ولکن حمزۃ لابواکی}لیکن کوئی حمزہ پرگریہ نہیں کرتا ہے۔جب انصار نے یہ احساس کیا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنےچچا کے لئے مجلس عزا منعقد کرنے کے خواہاں ہیں تو انہوں نے مجلس عزاء برپا کر کےحضرت حمزہ علیہ اسلا م پر گریہ وزاری کیں۔رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےان کے اس عمل کا شکریہ ادا کیا اوران کے حق میں دعا کی اور فرمایا:{رحم الله الانصار}خدا انصار پررحمت نازل فرمائے۔
حوالہ جات:
1. احقاف،9۔
2. مفرادات راغب ،کلمہ بدع۔
3. نہج البلاغۃ،خطبہ 161۔
4. ایضاً،خطبہ161۔
5. ایضاً،خطبہ145۔
6. ابن رجب ،الحنبلی ،جامع العلوم الحکم،ص 160۔
7. ابن حجرعسقلانی ،فتح الباری ،ج17،ص9۔
8. الشریف المرتضی ،الرسائل ،ج2،ص264۔
9. الطریحی ،مجمع البحرین ،ج1،کلمہ بدع۔
10. علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج74،ص203۔
11. توبہ،31۔
12. اصول کافی ،ج2،باب الشرک،حدیث 3،تفسیرطبری،ج10،ص81۔
13. اصول کافی ،ج 1،باب البدع،حدیث12۔ابن اثیر ،جامع الاصول،ج5 ،حدیث 3974۔
14. نہج البلاغۃ،خطبہ،17۔
15. ایضاً،خطبہ 50۔
16. اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 3۔
17. ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 4۔
18. ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 3۔
19. اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 4۔
20. شوری ،23۔
21. سیرت ابن ہشام، ج1،ص99۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل)کتاب فضل تو را آب بحر کافی نیست
کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم
وہ علی :جو عین اسلام تھا۔
وہ علی :جو کل ایمان تھا۔
وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔
وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب تھا ۔
وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی تھا۔
وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔
وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔
وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔
وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔
وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔
وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔
وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔
وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔
وہ علی: جس کے عدل کی یہ شان تھی کہ اپنے دور خلافت میں اپنی زرہ کے جھوٹےدعوی کے مقدمہ کے قاضی کی عدالت میں ایک معمولی یہودی کے برابر کھڑا ہو گیا اور اپنے خلاف قاضی کے فیصلہ کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔
وہ علی :جس کی قوت فیصلہ کی شان یہ ہے کہ رسول خدا نے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا: اقضاکم علی
وہ علی :جس کی شجاعت ضرب المثل تھی اور ہاتف غیبی نے جنگ احد میں جسے یوں داد شجاعت دی: لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار۔
وہ علی :جس نے بدر و احد کی سخت جنگوں میں اسلام کو فتح مند کیا اورہر معرکے مین پرچم اسلام کو سر بلند کر کے نصرت و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دئے۔
وہ علی :جس کی جنگ خندق کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت پر بھاری تھی اورجس نے کل ایمان بن کر کل کفر پر فتح حاصل کیا۔ضربۃ علی یوم الخندق افضل من عبادۃ الثقلین۔
وہ علی: جس نے ایک ہاتھ سے در خیبر اکھاڑ کر جنگ کا نقشہ بدل دیا اوررسول خدا سے سند افتخار لی۔
وہ علی :جس نے مشرکین مکہ کے سامنے سورہ برائت کی تلاوت کی۔
وہ علی :جس نے فتح مکہ کے دن علم اسلام کو اٹھایا۔
وہ علی: جو رسول خدا کے دوش مبارک پر بلند ہو کر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا اور{طہر بیتی لطائفین} کا حق ادا کیا۔
وہ علی :جو رزم و بزم دونوںمیں یکساں تھا اگر میدان جنگ میں بے مثال سپاہی و سپہ سالار تھا تو مجلس میں ایک بے نظیر حاکم اورشفیق استاد تھا۔
وہ علی: جس کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا عاجز تھی اورجس کے زور بیان کے آگے عرب و عجم کے خطبا زبان کھولنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔
وہ علی :جو شب ہجرت بستر رسول خدا پر بے خوف و خطر آرام کی نیند سویا اورنفس مطمئنہ کا لقب بارگاہ یزدی سے حاصل کیا۔
وہ علی :جو نماز فجر کے سجدے میں ابن ملجم کے تلوار کے وار سے زخمی ہوا اوراکیس رمضان المبارک کے دن درجہ شہادت پر فائز ہوا۔
وہ علی: جس نے محنت و مزدوری کر کے اورباغوں کو پانی دے کر روزی کمانے کو فخر سمجھا۔
وہ علی :جس کا طرز جہانبانی قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہے ۔
وہ علی : جس نے امیری اور غریبی کے فرق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔
وہ علی :جس کی فضیلت کے بارے میں جب خلیل ابن احمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: ؛میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے۔
وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا:{ یا علی ما عرف اللّہ حق معرفتہ غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّہ و غیری} اے علی! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا۔
وہ علی :جس کی فضائل حساب نہیں کر سکتے ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں تب بھی علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔
وہ علی :جس میں تمام انبیاء کی صفات بطور کامل موجود تھیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی ہے: جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسی(ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔
وہ علی :جونفس پیغمبر ’’ انفسنا‘‘ کی مصداق بن کر میدان مباہلہ میں اترا ۔
وہ علی :جن کی فضائل و کمالات بیان کرنے میں رسول خدا نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں
کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا یہ علی مولی ہے۔
وہ علی :جو حق کا محور اور مزکر تھا۔ علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامہ؛علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔
وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے عمار سے فرمایا: اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔
وہ علی :جو قسیم النار و الجنہ ہے۔
وہ علی :جسے کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک انشاپرداز،ایک خطیب،ایک عالم،ایک مومن،ایک مفتی،ایک قاضی،ایک عادل،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک مجاہد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئی۔آخر میں امام علی علیہ السلام کے بارے میں چند اشعار ذکر کر کے اس تحریر کو ختم کرتا ہوں۔
جس نے اصنام کو کعبے سے نکالا وہ علی
ہر اندھیرے کو کیا جس نے اجالا وہ علی
جس کا رتبہ ہے رسولوں سے بھی بالا وہ علی
جس نے اس دین کی کشتی کو سنبھالا وہ علی
جو ملائک سے بھی ہے رتبے میں برتر وہ علی
جس کے خدام ہیں سلمان و ابوذر وہ علی
جو ہر جنگ میں ہے سب سے مقدم وہ علی
جس نے مجمع کئے کفار کے برہم وہ علی
علی امام من است و منم غلام علی
هہزار جان گرامی فدای نام علی
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک آواز،ایک پکار،ایک ندا اب بھی فضا میں گونج رہی ہے اوروہ آواز ہے ایک ایسی ہستی کا جس نے انسانیت کو عدل کا تعارف کرایا۔وہ ہستی جس نے عدل کے موضوع کو جلا بخشی،وہ ہستی جس نے عدل کے حقیقی مفہوم کو مجسم کر کے سب کو سمجھا دیا ،وہ ہستی جس نے ظالم کے ظلم کرنے سے پہلے اسے ظالم نہیں کہا،وہ ہستی جس کے شہید ہونے کی وجہ سے شاعر نے اس طرح بیان کی: قتل فی محرابہ لشدۃ عدلہ ۔ آپ اپنے انتہائی عدل کی وجہ سے محراب میں شہید کر دئے گئے۔
یہ آواز اب بھی فضاوں میں گونج رہی ہے ۔یہ آواز انیس رمضان المبارک کو مسجد کوفہ سے بلند ہوئی اورآج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ گونج رہی ہے۔وہ آواز یہ تھی فزت و رب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔یہ اس سورما کے الفاظ ہیں جس نے بدر و احد میں لشکر اسلام کو فتح سے ہمکنار کیا ،جس نے جنگ خندق کے دن کل ایمان کی شکل میں کل کفر عمرو بن عبدود کو واصل جہنم کر کے اسلام کو ایک اورفتح سے سرفراز کیا،جس نے در خیبر کو اکھاڑا اورمرحب و عنتر کو خاک وخون میں ملا کر فتح خیبر کی زرین تاریخ رقم کی،جس کی تلوار نے ہر معرکہ میں دین حق کی وہ لاج رکھی کہ اس کا ثانی کوئی نہیں بن سکا۔لیکن عجیب بات ہے کہ کہیں اس نے یہ جملہ نہیں کہا اور یہ منفرد نعرہ نہیں لگایا جو آج اپنے ہی خون میں غلطاں ہونے پر لگا رہا ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس کی نظر میں حقیقی کامیابی صراط مستقیم پر حاصل ہونے والی موت ہے نہ کہ فتوحات اور ملک گیری۔
ہاں یہ اس کی آواز ہے جس کا زچہ خانہ کعبہ بنا اوریہ ولادت اس مولود اور اس کے والدین کی طہارت و پاکیزگی کی دلیل بنی۔وہ اب ایک دفعہ پھر خدا کے گھر میں اس کا مہمان ٹھہرا ہے تا کہ واپسی کاسفر بھی اللہ کے گھر سے ہی شروع کرے۔آج علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے اس حسن ختام پر کامیابی کا نعرہ لگا رہے ہیں اورپوری انسانیت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو حقیقی کامیابی کا معیار راہ حق میں مرنا ہے۔یہاں ہم انسان کامل علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی فضیلت بیان اور رقم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اسے ہم جیسے ناقص انسان بیان اوررقم نہیں کر سکتے ۔
کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست
کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم
یعنی فضائل علی ابن ابی طالب کی صفحہ شماری کے لئے انگی تر کرتے کرتے سمندر ختم ہو سکتے ہیں لیکن علی کی فضیلت ختم نہیں ہو سکتی۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام انسان کامل ہیں ۔علی جب دنیا میں تشریف لائے تو مدینۃ العلم نے اس نومولود کو اپنی زبان مبارک چوسائی اور اسے باب العلم قرار دیا ۔رسول خدا نے فرمایا: انا مدینۃ العلم و علی بابہا ،نیز فرمایا: یا علی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی، اے علی آپ کو مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسی سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔علی ابن طالب علیہ السلام نے پیغمبر خدا کے حکم پر دعوت ذوا لعشیرہ میں سب سے پہلے لبیک کہی تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی ،وزیر اور خلیفہ قرار دیا لیکن آپ نے فزت اور کامیابی کا نعرہ نہیں لگایا۔اسی طرح ایسے ایسے واقعات پیش آئے جو اسلام کو سرے سے ختم کر سکتے تھے لیکن علی نے نہایت بہادری سے نہ صرف رسول خدا کو بلکہ اسلام کو بچا لیا اور سفینہ اسلام کو ساحل تک پہنچا دیا لیکن پھرکبھی کامیابی کا دعوی نہیں کیا۔جب واقعہ مواخات میں رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی بنایا اس وقت بھی آپ نے کامیابی کا دعوی نہیں کیا اسی طرح جب وسیع و عریض اسلامی مملکت کا قتدار آپ کے ہاتھوں آیا اورخلیفۃ المسلمین کہلائے تب بھی آپ نےکامیابی کا دعوی نہیں کیا لیکن جب انیس رمضان المبارک کو ابن ملجم کے ہاتھوں جان لیوا ضربت کھائے تب علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے کامیاب ہونے کی قسم کھائی۔
ایک غیر مسلم دانشور کے بقول: علی ابن ابی طالب واقعی مظلوم ہیں کیونکہ ان کے فضائل ان کے دوستوں اور دشمنوں دونوں نے چھپا رکھیں۔دوستوں نے دشمنوں کے خوف سےجب کہ دشمنوں نے حسد اور کینہ کے باعث۔
علی ابن ابی طالب کی پرورش خاتم الرسل نے خود کی تھی ۔رسول خدا آپ کو ہمیشہ اپنے پاس رکھتے اپنے سینے سے لگاتے اور اپنے منہ سے غذا چپا کر لقمے کھلاتے تھے۔ہر روز ان کو علم کا ایک نیا باب سکھاتے اورعلی ابن ابی طالب ان پر عمل کرتے تھے۔
عرب کے اس ماحول میں جہاں انسانیت اورشرافت نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور بھائی بھائی کا گلہ کاٹتا تھا،ایک آواز ابھری ۔یہ ہمارے نبی کی آواز تھی ۔وہ لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے اوراسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔جاہل اوراحمق عربوں نےا پنے دل کے کان بند کر رکھے تھے لیکن یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی اور سب سے پہلے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔
کفار قریش نے جب شب ہجرت شمع رسالت کو گل کرنے کی ناکام کوشش کی تو فرزند ابو طالب ہی تھے جنہوں نے جان خطرے میں ڈال کر شمع رسالت کو بچا لیا۔یہ جان نثاری خالق الہی کو اتنی پسند آئی کہ آپ کی شان میں یہ آیت نازل کی: و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہے جو خدا کی خشنودی کے لئے اپنی جان بھی قربان کرتے ہیں ۔آپ کی صرف ایک وار کے متعلق رسول خدا نے فرمایا تھا: خندق کے دن علی کی ایک وار تمام جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اگرچہ اپنے عدل کی وجہ سے شہید کئے گئے لیکن آج وہ اپنے عدل کی ہی وجہ سے زندہ و پائندہ ہے ۔جب تک دنیا میں عدل و انصاف کا نام رہے گا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر بھی تابندہ رہے گا۔ایک دفعہ کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کنے لگے: آپ بڑے لوگوں کو بیت المال سے بڑا حصہ دیا کریں اگر ایسا نہ ہوا تو وہ آپ کے دشمنوں سے جاملیں گے۔ آپ نے فرمایا: ہمیں چاہئے کہ ہم حق و انصاف کا ساتھ دیں اورلوگوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنااطرف دار نہ بنائیں ۔یہ بات تھی کہ رسول خدا نے فرمایا :علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ۔حق و انصاف کے اسوہ کامل کا یہ جملہ عدل علی کی تصویر کشی کے لئے کافی ہے:اگر تم کہو کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں اور اس کے بدلے سارے دنیا میری قدموں میں ڈال دو تب بھی میں ایسا کرنے سے انکار کر دوں گا۔
محمدبن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا:ابوبکر ،عمر، عثمان ،طلحہ اور زبیر ۔ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے ۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی اس کے بعد کہا:پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کےمانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نےاپنےباپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کےبارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اس نے جواب دیا :ابو بکر ،عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتےہیں ۔عبد اللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتاہے ۔{ ان زوجک خیر امتی اقدمہ اسلاما و اکثرہم علما و افضلہم حلما}اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ۔
جابر بن عبد اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:{ انہ اولکم ایمانا معی ، واوفاکم بعہد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیۃ و اقسمکم بالسویۃ و اعظمکم عند الله فریۃ}حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتاہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیا دہ برتر ہے ۔جابر اس کے بعد کہتےہیں کہ آیت شریفہ{إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئک ہُمْ خَيرْ الْبرَيَّۃ}حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے {قد جاءخیر البریۃ}۔
حق اورعدل و انصاف کے معاملہ میں آپ کی سخت گیری کے سبب سے جاہل،تنگ نظراورمفاد پرست لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔جہل و عناد اورتنگ نظری کی شیطانی تلوار انیس رمضان المبارک چالیس ہجری کو نیام سے نکلی۔تنگ نظر دہشت گرد نے لا حکم لالا للہ کا نعرہ لگا کر مسجد کوفہ کو نفس رسول خدا کے خون سے رنگین کر دیا۔یہ دہشت گرد بھی علی ابن ابی طالب کو مسجد میں اورحالت سجدہ میں مار کر خدا کی رضا مندی مول لینا چاہتا تھا ۔عجیب بات ہے کہ آج کے دہشت گرد اورتکفیری گروہ بھی اسی روش پر چل رہے ہیں جس کی ابتدا ابن ملجم نے چالیس ہجری میں کی تھی۔وہ علی جس ایک ضربت بقول رسول خدا ثقلین کی عبادت سے بہتر تھی آج اشقی الاولین و الاخرین کی زہر آلود تلوار کی ضربت سے لہولہاں تھے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب کل ایمان کی زبان سے یہ نعرہ بلند ہوا فزت و رب الکعبہ۔۔۔
پورے کوفہ میں اس حملے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔وہ علی جس کی زندگی کا ہر لمحہ کافروں اور منافقوں کا مقابلہ کرنے اوراسلام کا پرچم سر بلند رکھنے میں گزرا تھا اب لمزور جسم لیکن روح کی طاقت کے ساتھ بستر شہادت پر آرام کر رہے تھے۔اصحاب علی بے چین تھے لیکن علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر سکون۔آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو، سنت رسول خدا پر عمل کرو اورامر بالمعروف اورنہی از منکر کو ترک نہ کرو ورنہ ظالم لوگ تم پر مسلط ہو جائیں گے۔اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: قاتل پر صرف ایک وار کرنا۔جب آپ کے لئے دودھ لایا گیا تو اسے قاتل کو پلانے کا حکم دیا۔
امام کی شہادت کے بعد عدی بن حاتم نے آپ کی اس طرح سے تعریف کی: علی بڑے دانا،بینا،بہت طاقتور اورنڈر تھے۔وہ حق بات کہتے اورصحیح فیصلہ دیتے تھے۔وہ حق و دانائی کا سر چشمہ تھے،وہ دنیا کی رنگینیوں سے دور رہتے تھے،وہ راتوں کو جاگتے اور تنہائی میں اپنا محاسبہ کرتے تھے۔وہ سادہ زندگی کو پسند کرتے تھے وہ ہمارے درمیان ہماری طرح رہتے لیکن اس کے دبدبے کا عالم یہ تھا کہ ہم ان سے انکھ نہیں ملا سکتے تھے۔جب وہ مسکراتے تھے تو ان کی
دانت موتی کی طرح چمکتے تھے ۔وہ دیانت داروں اور پرہیزگاروں کی عزت کرتے،محتاجوں ، غریبوں اور یتیموں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔نہ طاقتور کو ان کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا ،اورنہ کمزور ان کے انصاف سے نامید ہوتے تھے۔
علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی منزلت کا ذکر اس شخص کی زبانی سنے جس نے امیر شام کی خصوصی فرمایش پر اپنی جان کی امان لے کر علی کی فضائل بیان کئے۔یہ ضرار نامی شخص ہے جو امیر شام اوردرباریوں کے سامنے کہتا ہے : علی ایسا شخص تھا جس کے ارادے بلند ، قوی اور مضبوط تھے۔اس کی پہلووں سے علم کے چشمے پھوٹتے تھے۔اس کی زبان پر حکمت کا پہرہ تھا۔وہ دنیا اور اس کی بہاروں اورلذتوں سے غیر مانوس تھے۔خوف خدا سے آنسو بہاتے تھے۔ضرارکہتا ہے خدا کی قسم میں نے بعض حالات میں دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی میں علی محراب عبادت میں اپنی ریش کو پکڑتے ہوئے سانپ کے ڈسے ہوئے کی مانند تڑپ رہے ہیں اور اس طرح رو رہے ہیں جس طرح کوئی غم کا مارا۔ضرار فضائل بیان کرتا گیا یہاں تک کہ امیر شام سمیت تمام دربار اس حقیقت بیانی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اوران کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔
علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک خطیب،ایک عالم ،ایک مومن، ایک مفتی،ایک عادل ،ایک قاضی ،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئ۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز (آرٹیکل) مقدمہ:ہر زمانے میں امام معصوم کی امامت پر عقلی دلیل موجود ہے۔ اس دلیل کے مطابق حجت الہیٰ کا لوگوں کے درمیان موجود ہونا ضروری ہے جس کا مصداق تام امام معصوم ہیں۔قاعدہ لطف{کلامی وعقلی قاعدہ} کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ امام معصوم کی غیبت ایک امر عارضی ہے جو اصل اولی{ضرورت وجودامام معصوم} کے ساتھ منافات نہیں رکھتا۔ محقق طوسی اس بارے میں لکھتےہیں :{وجودہ لطف،وتصرفہ لطف آخروعدمہ منا}1۔ امام کا وجودبھی لطف{اطاعت و مصالح سےنزدیک اور معاصی و مفاسد سے دور کرنےوالا }ہے اور امام کا تصرف ایک الگ لطف ہے اور ان کا ظاہرنہ ہونا ہماری وجہ سےہے ۔
حضرت علی علیہ السلام کے فرامین کے مطابق زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی جیساکہ آپ ؑفرماتے ہیں :{اللہم بلی! لا تخلوا الارض من قائم الله بحجتہ،اما ظاہرا مشہورا و اما خائفا مغمورا،لئلاتبطل حجج الله و بیناتہ}2۔ خدایا !بے شک زمین حجت الہیٰ اور قیام کرنے والے سے خالی نہیں ہو سکتی چاہے وہ ظاہر و آشکار ہو یا خائف و مخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہین تمام نہ ہونے پائیں۔
بعض احادیث جیسے حدیث ثقلین اور حدیث ائمہ اثنا عشر قیامت تک امام معصوم کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں ۔
تاریخی شواہد سے بھی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آپ{عج}کی ولادت معین زمانے میں مخصوص مقام پر ہوئی ہےکیونکہ افراد کی ولادت اور موت کے بارے میں جاننے کا متعارف طریقہ یہی تاریخی شواہد ہیں جن پر استناد کیا جاتا ہے۔
ان افراد کے نقل کے مطابق جنہوں نے اما م حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کے زمانےمیں آپ ؑکے گھر میں امام زمان{عج}سے ملاقات کئے اور وہ افراد جنہوں نےغیبت صغری کے زمانے میں آپ{عج}سے ملاقات کا شرف حاصل کیا جن میں نواب اربعہ سر فہرست ہیں ۔نواب اربعہ شیعوں کے برجستہ ترین شخصیات میں سے تھے جواپنے زمانے میں پرہیزگاری کے لحاظ سے بے نظیر تھے۔
ان افراد کے نقل کے مطابق جنہوں نے غیبت کبری کےعرصے میں آپ{عج}سےملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ یہ گزارشات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے جعلی ہونے کا احتمال منتفی ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی صحت کے بارے میں انسان کو یقین ہو جاتا ہے۔
انبیاء کی تاریخ میں مسئلہ غیبت ایک واضح مسئلہ تھا۔بعض اولیاء کا محدود مدت کے لئے لوگوں کے درمیان سے غائب ہونا گذشتہ امتوں میں بھی معمول رہا ہے چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام ،حضرت موسی علیہ السلام اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگانی میں اس کے نمونے دیکھ سکتے ہیں : حضرت یونس علیہ السلام ایک مدت تک اپنی امت سے غائب رہے ۔
3۔ حضرت موسی علیہ السلام چالیس دن تک اپنی امت سےغائب رہےاور انہوں نے یہ ایام میقات میں بسر کئے ۔4۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت چند مدت تک اپنی امت کےپاس نہیں رہے ۔ 5۔ ان میں سے کسی بھی مورد میں ان افراد کی نبوت اور رسالت پر اعتراض نہیں کیا گیا ہے ۔واضح ہے کہ اگر غیبت مقام نبوت اورمقام امامت کے ساتھ منافات رکھتی تو زمان کےمختصر اور طولانی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بنابریں امام زمانہ{عج} کی غیبت کے طولانی ہونےکو آپ {عج} کی امامت کے ساتھ ناسازگا ر نہیں سمجھنا چاہیے ۔
امام زمانہ{عج} کی غیبت کے اسباب کے بارے میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں کچھ مطالب بیان ہوئے ہیں ذیل میں ہم ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
1۔راز الہی:
بعض روایات میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ امام زمانہ{عج}کی غیبت کا فلسفہ آپ {عج} کے ظہور سے پہلے پوری طرح واضح نہیں ہوگا جبکہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آپ {عج} کے وجود کے بارے میں موجود دلائل سے آشنا ہونے کےبعد اسے تسلیم کرے اور آپ {عج} کی غیبت کے اسرار کومکمل طورپردرک نہ کرنے کی وجہ سے شک و تردید کا شکار نہ ہو ۔ شیخ صدوق عبد اللہ بن فضل ہاشمی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےسنا :صاحب الامرکے لئے یقینا ایک غیبت ہوگی جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس دوران ہر اہل باطل شک و شبہ میں مبتلا ہو جائے گا۔میں نے عرض کی :میری جان آپ پر قربان !ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا:وہی حکمت ہے جو ان سے پہلے خدا کی حجتوں کے غائب ہونے کی تھی ۔ یقینا غیبت کی حکمت اسی وقت ظاہر ہوگی جب ان کا ظہور ہو جائےگا بالکل اسی طرح جیسے حضرت خضرعلیہ السلام کے امور یعنی کشتی میں سوراخ کرنے ،لڑکے کو جان سے مار دینے اور دیوار بنانے کا راز حضرت موسیعلیہ السلام کو اس وقت معلوم ہو ا جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے لگے ۔ اے فرزندِ فضل یہ غیبت خداکے امور میں سے ایک امر ہے ،اسرار الہیٰ میں سے ایک سر ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم حکیم ہے اور ہم نے یہ گواہی دی ہے کہ اس کا ہرقول وفعل حکمت کے مطابق ہے چاہے اس کا راز ہم پرپوشیدہ ہی کیوں نہ ہو۔6۔
2۔قتل کا خوف:
بہت ساری احادیث کے مطابق امام زمانہ{عج}کی غیبت کا ایک سبب قتل ہونے کا خوف ہے ۔ 7۔ جیساکہ جناب زرارہ امام باقرعلیہ السلام سے نقل کرتےہیں کہ آپؑ نے فرمایا:قائم آل محمد کے لئے قیام کرنے سے پہلے ایک غیبت ہے ۔میں نے عرض کیا کس لئے؟ فرمایا:{یخاف القتل} 8۔اس لئےکہ ان کی جان کے لئےخطرہ ہے ۔ قتل سے ڈرنے کا دو ہی سبب ہو سکتاہے ۔ ایک یہ کہ انسان دنیوی لذتوں سے زیادہ استفادہ کرنا چاہتا ہے دوسرایہ کہ اس کےاوپر سنگین ذمہ داریاں عائد ہیں جن کو انجام دینے کے لئے اسے اپنی جان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ان میں سے پہلی قسم مذموم جبکہ دوسری قسم ممدوح ہے بلکہ بعض اوقات واجب بھی ہے۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جان کی حفاظت کی خاطر غارحرا میں پناہ لیا ۔امام زمان عج کے بارے میں بھی قتل ہونے کا خوف اسی طرح ہے۔ عقلی و نقلی دلائل کےمطابق آپ {عج} زمین پر آخری حجت الہیٰ ہیں ۔ آپ{عج} پرچم توحید کو پوری دنیا میں لہرانے اور دین اسلام کو پوری دنیا پر حاکم کرنے پر مامور ہیں۔علاوہ ازیں ظالم و جابر حکمران اپنے ناجائز منافع کی حصول کے راستے میں آپ{عج}کے وجود کو مانع سمجھتے ہیں ۔طبیعی بات ہے کہ یہ افراد آپ {عج} کو قتل کرنےکے لئے ہر طرح کا منصوبہ اور حربہ استعمال کریں گے۔ اس صورتحال میں آپ{عج} کی حفاظت کا بہترین طریقہ آپ{عج}کی غیبت ہے ۔
یہاں ممکن ہےکوئی اس طرح اعتراض کرے کہ خداوند متعال معجزے کےذریعے آپ {عج} کی حفاظت کرسکتاہے مثلا اس طر ح کہ کسی اسلحہ یا زہر کا اثر آپ {عج} کے بدن پر نہ ہو۔جس کے نتیجے میں آپ {عج} ظاہر بھی ہوتے اور لوگ آپ {عج} کے وجود سےزیادہ استفادہ کرتے کیونکہ اس صورت میں آپ {عج}کے وجود کو کسی قسم کا بھی خطرہ نہیں تھا ۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کسی فرد کی جان کی حفاظت کےلئےمعجزے سے استفادہ کرنا ایک استثنائی بات ہے جس سے صرف خاص موارد میں استفادہ کیا جاتاہے جبکہ اولیاءاور حجت الہیٰ کےبارے میں مشیت الہیٰ یہ ہے کہ یہ افراد لوگوں کے درمیان طبیعی زندگی گزاریں اور طبیعت پرمبنی قوانین ان کے درمیان یکساں جاری ہو ، تاکہ قانون امتحان و آزمائش الہیٰ محقق ہو ۔واضح ہےکہ اگر امام خاص شرائط کے ساتھ زندگی گزاریں تو سب لوگ اجباری اور غیرعادی طریقے سےان پر ایمان لائیں گے ۔ علاوہ ازیں ممکن ہے انہیں مافوق بشر قرار دیتےہوئے ان کی پرستش شروع کردیں۔ یہ سب معجزہ کے ذریعے امام کی حفاظت کرنے اور آپ {عج}کے لوگوں کے درمیان رہنے کے نامطلوب نتائج میں سے ہیں ۔
شیخ طوسی اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں :اگر کوئی اعتراض کرے کہ خدا نے امام اور اس کے قاتل کے درمیان مانع ایجاد کر کے آپ {عج} کی حفاظت کیوں نہیں کی ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کام انسانوں کو مکلف کرنے کے فلسفے کے ساتھ ناسازگار ہے کیونکہ انسانوں کو مکلف کرنے کا مقصد ان کوجزا وسزا کامستحق بنانا ہے جبکہ ایسی صورت میں مانع ایجاد کرنا اس مقصد کے ساتھ منافات رکھتاہے ۔ 9۔
امام زمانہ{عج}اور ان کے آباء و اجداد کے درمیان کیا فرق ہے کہ وہ غیبت میں نہیں رہیں بلکہ لوگوں کے پاس ظاہر تھے جبکہ آپ {عج} غائب ہیں اور آپ تک لوگوں کی رسائی بھی نہیں ؟
اس کاپہلا جواب یہ ہے :آپ {عج}کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ{عج}اگر ظاہر ہوں تو ظالم و جابر افراد کے مقابلے میں تقیہ نہیں کریں گے جبکہ اس صورت میں آپ{عج}کے قتل کا خطرہ زیادہ ہے ۔دوسراجواب یہ ہے کہ ہر امام کی شہادت کے بعددوسرے امام نے اس عظیم ذمہ داری کو قبول فرمائی اور انسانوں کی رہبری کی لیکن آپ {عج} آخری امام ہیں اور اگر شہید ہو گئے تو کوئی ایسا فرد نہیں ہےجو اس عظیم ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔ 10۔
3۔ مومنین کا امتحان:
خداوند متعال کی ایک سنت جو ہمیشہ سے مومنین کے بارے میں جاری رہی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں مختلف طریقوں سے آزمایا جاتا ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے :{ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُترْکُواْ أَن يَقُولُواْ ءَامَنَّا وَہُم ْ لَا يُفْتَنُونَ.وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَ لَيَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِين}11۔ کیالوگوں نےیہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنےسےچھوڑدیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟ اور بتحقیق ہم نے ان سے پہلے والوں کوبھی آزما چکےہیں کیونکہ اللہ کوبہر حال یہ واضح کرناہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرورواضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔
امام زمان {عج}کی غیبت کے اسباب میں سے ایک سبب مومنین کا امتحان اور ان کی آزمائش ہے جو متعدد احادیث میں بیان ہوئی ہے ۔
12۔ کتاب منتخب الاثر میں اس بارے میں چوبیس احادیث نقل ہوئی ہیں۔ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب امام زمانہ{عج} کے ظہور اور حکومت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔امام صادقعلیہ السلامنے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: یہ امر{ظہور}تمہارےسامنے نہیں آئے گا مگر ناامیدی کے بعد ۔ خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک تم{مومن اور منافق}ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔خدا کی قسم! یہ اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک اہل شقاوت و اہل سعادت ایک دوسرے سےجدا نہ ہو جائیں ۔
13۔شیخ طوسی اس بارے میں لکھتے ہیں:جن روایات میں امام زمانہ{عج}کی غیبت کے اسباب میں سے ایک سبب شیعوں کا امتحان اور ان کی آزمائش قرار دی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ مسئلہ امام کی غیبت پر مترتب ہونےوالےنتائج میں سے ایک ہے اور ایسا نہیں ہے کہ امتحان و آزمائش امام {عج} کی غیبت کا اصلی مقصد ہے بلکہ امام {عج}کی غیبت کا اصلی سبب آپ{عج} کے قتل ہونے کا خوف ہے جبکہ آزمائش و امتحان غیبت کے نتائج اوراہداف میں سے ہیں۔
14۔ امام زمانہ{عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں دو احتمال قابل بحث ہیں ۔پہلا احتمال یہ کہ حقیقت میں آپ {عج} کا وجود لوگوں سے پنہاں ہے۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ {عج} ایسے جگے پر زندگی کر رہے ہیں جہاں دوسراکوئی انسان موجود نہیں ہے یا یہ کہ آپ {عج} لوگوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن معجزانہ طور پر لوگ آپ {عج} کو نہیں دیکھتے یا آپ کو نہیں پہچانتے ۔آپ {عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں نقل شدہ احادیث دونوں احتمال کے ساتھ سازگار ہیں ۔ جیساکہ شیخ صدوق ریان بن صلت سےنقل کرتے ہیں کہ امام رضاعلیہ السلام نے امام زمانہ{عج} کے بارے میں فرمایا :{لایری جسمہ ولا یسمی باسمہ}15۔نہ ان کے جسم کو دیکھا جا سکتاہے اور نہ ان کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ عبید بن زرارۃ سے ایک حدیث منقول ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ ؑفرمارہے تھے:لوگ اپنے امام کو نہیں پائیں گے جبکہ وہ حج کے موسم میں حاضر ہوتے ہیں اور لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں دیکھتے ۔16۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سےایک اور حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپ ؑفرماتے ہیں :ساتویں امام کے پانچویں فرزند کا وجود تم لوگوں سے پنہان ہو گا اور ان کانام لینا تمہارے لئے جائز نہیں ہے ۔17۔ اس احتمال پر عقیدہ رکھنےوالوں کا نظریہ یہ ہے کہ جہاں پر مصلحت موجود ہو وہاں امام {عج} کے وجود کو پہچانا جائے گا۔بنابریں جن افراد نے آپ {عج} کے حضور میں شرفیاب ہونے کا دعوی کیا ہے وہ بھی اس احتمال کے ساتھ سازگار ہےجبکہ دوسرے احتمال کےساتھ مربوط بعض روایات کچھ اس طرح ہیں :
1۔ شیخ طوسی محمد بن عثمان عمری { امام زمان{عج}کےدوسرے نائب خاص }سے نقل کرتے ہیں :{و الله ان صاحب هذا الامر لیحضر الموسم کل سنۃ و یعرفہم و یرونہ و لا یعرفونہ} 18۔ خدا کی قسم! امام زمانہ{عج} ہر سال حج کے موسم میں حاضر ہو کر لوگوں کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں اور دوسرے افراد بھی آپ {عج} کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ہیں ۔
2۔محمد بن عثمان عمری سے نقل ہے کہ آپ{عج} کا نام لینا اس لئے جائز نہیں کیونکہ اگر آپ{عج} کا نام لیا جائے تو دشمن آسانی سے آپ
{عج} کو پہچان لیں گے ۔19۔ واضح ہے کہ اگر آپ {عج}لوگوں کی نظروں سے سے غائب ہوں توپھر آپ {عج}کا نام لینا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ اس کے ذریعے دشمن آپ {عج} کو نہیں پہچان سکتے ۔
3۔ابوسہل نوبختی سے جب سوال کیاگیا کہ آپ امام زمانہ{عج}کےنائب کیوںمنتخب نہیں ہوئے جبکہ ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی کو اس منصب کےلئے انتخاب کیاگیا ہے ؟ تو انہوں نےجواب دیا :امام اپنے کاموں کی حکمت سےزیادہ واقف ہیں ۔ میں ہمیشہ دشمنوں سےملاقات کرتاہوں اور ان کے ساتھ بحث و مناظرہ کرتا ہوں اوراگر بحث کے دوران کبھی مجھے مشکل کا سامناکرنا پڑے تو ممکن ہے کہ میں امام {عج} کے قیام کرنے کی جگہ دشمنوں کو دکھا دوں لیکن ابوالقاسم نوبختی ایمان اور استقامت کا پیکر ہے اگر امام زمانہ{عج} اس کے پاس موجود ہو اور اس کے بدن کے ٹکڑےٹکڑے کر دئیے جائیں تب بھی وہ امام {عج}کی مخفی گاہ کودشمنوں کو نہیں دکھائیں گے۔ 20۔ واضح ہے کہ امام کی مخفی گاہ دشمنوں کو دکھانا اس وقت خطرناک ہوگا جب لوگ آپ {عج}کے وجود مبارک کو دیکھ سکیں ۔
خلاصہ یہ کہ امام زمانہ{عج}کی غیبت کی کیفیت کے بارے میں دونوں احتمالات قابل قبول ہیں اور یہ احتمالات ایک دوسرے کے ساتھ منافات بھی نہیں رکھتے اوریہ مطلب کہ لوگ آپ {عج}کو دیکھیں گے لیکن نہیں پہچانیں گےیا یہ کہ اصلاًکوئی آپ {عج}کو نہیں دیکھ سکتا،یہ تمام مطالب شرائط ،مصالح اور افراد کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس بارے میں ایک عام قانون بیان نہیں کر سکتےکیونکہ امام زمانہ{عج } مصلحت کے مطابق ہی عمل کریں گے ۔
تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی