وحدت نیوز(آرٹیکل) [دورہ یونان}علم منطق کب اور کیسے اپنے سیر تکامل کو طے کیا اس کا بیان ایک دشوار اور ناممکن کام ہے لیکن اکثر مورخین کا عقیدہ ہے کہ اس علم کی بنیاد دوران یونان باستان سے ملتا ہے ۔تاریخی کتابوں کےمطابق پہلا شخص جس نے عقلی استدلال سےاستفاد ہ کیا وہ {پارمیندس م  487} تھا۔ اس نے ان مباحث کو جدلی رو ش کےمطابق بیان کیا  لیکن اس کے بعد [زنون م426۔491] جو پارمیندس کے شاگرد تھااپنے استاد کی پیروی کرتے ہوئے اس روش کو مزید آگے لےگیا  اوراس استدلالی روش کومزید رونق بخشا۔

قرن پنجم کےآخر میں یونان کے بعض اندیشمندوں نے اپنے شاگردوں  کو جدل اور مناظرہ کی طرف تشویق کی۔ان اندیشمندوں میں  سے برجستہ ترین فرد[پرودیکوس] کا نام لیا جاسکتا ہے  جو آخری عمر میں جلا وطن ہو ا یہاں تک کہ اس کے تمام تالیفات جلائے گئےکیونکہ اس نے  عرف  یعنی موجودہ نظام  کی سخت مخالفت کی تھی  ۔ اس نے جدلی روش کو اس حد تک آگے بڑھایا کہ تمام موجودات کے لئے انسان کو معیار و ملاک قرار  دیا اور حقایق ہستی کے منکر ہو ا۔بعض افراد محکمہ قضائی میں اپنے حقوق کی اثبات کے لئے جدلی و استدلالی دانشمندوں سے استفادہ  کیاکرتے تھے جو ایک مدت کے بعد سوفیست  [دانشمند ] کے نام سے پہچانے جانےلگے۔ ان افراد میں [پروتاگراس  380 ۔485 م] کا نام لیا جاسکتا ہے۔ان دانشمندوں کے لئے جو چیز زیادہ اہمیت کا  حامل تھا وہ محکمہ قضائی  میں   اپنے موکلوں کےحق کوحاصل کرنا تھا۔یہ افرادحق بات کی اثبات کے درپے نہیں تھے اس لئے انہوں نے اپنی استدلال میں مغالطہ سے کام لینا شروع کیا  جس کی وجہ سے  یہ لقب [سوفیست] اپنے حقیقی معنی سے نکل کر ان لوگوں پر اطلاق ہونا شروع ہواجو روش مغالطہ سے استدلال کیا کرتے تھے۔

اس غبار آلود دور میں  سقراط[399 ۔469 م]  نےعلم و دانش کے میدان میں قدم رکھا۔  اس نے سوفیست  کی فکری روش کی مخالفت کی اور اسی وجہ سے وہ قلیل عرصے میں  زیادہ مشہور ہوگیا ۔اس نے اپنے علمی کوششوں سے اس گروہ کا  خاتمہ کیا اوراس گروہ کوسخت شکست سے دوچار ہوناپڑا اور یہی سقراط کے لئے بہت زیادہ پیرورکار فراہم کرنے کاسبب بنا ۔

سقراط کے برجستہ ترین پیروکاروں اور شاگردوں میں  افلاطون [347 ۔427 ق م ]کا نام لیا جاسکتا ہے۔ افلاطون نےسقرا ط کے تجربات کی حفاظت کی ۔افلاطون  اشیاء کی تعریف کرنے کے  لئےجنس و فصل  کا سہارالیا کرتے تھے ۔ اس نے [آتن] میں زندگی گزارنے اور تدریس کرنے کے لئے ایک باغ  کاانتخاب کیا جو بعد میں افلاطون اکیڈمی  کے نام سے مشہورہوا۔افلاطون کے برجستہ شاگردوں میں سے ایک ارسطو تھا۔ مورخین کے مطابق ارسطو [ارسطا طا لیس 322 ۔384  ق۔م ] مقدونیہ کے شھر استاگیرا میں متولد ہوا۔اس کا باپ [نیکو ماخوس]ایک طبیب تھا ۔ارسطو اپنے خاندانی پس منظر اور علم دوستی کے سبب تحصیل علم   میں مصروف ہوا اور اسی بنا پر 17 [سترہ] سال کی عمر میں  افلاطون کے درس میں  حاضر ہوا اور افلاطون کے پاس بیس سال  تک شاگردی اختیارکی اور یہ شاگرد زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے استاد سے بھی زیادہ مشہور ہو گیا۔

افلا طون استدلال کے لئے صرف صحیح تعریف کو کافی نہیں سمجھتا تھا۔ اس لئے اس نے  پہلی مرتبہ علم منطق کو آٹھ ابواب میں تدوین کیا جو یہ ہیں:

۱۔ قاطیغوریاس [مقولات دہ گانہ]
۲۔باری ارمیناس [قضایا]
۳۔انولوطبقای اول [قیاس]
۴۔ انولوطبقای دوم  [برہان]
۵۔طوبیقا [جدل]
۶۔ ریطوریقا [خطابہ]
۷۔سوفیسطیقا [مغالطہ]
۸۔ بوطیقا  [شعر]

ارسطو کی طرف بہت سے تالیفات کی نسبت دی گئی ہے یہاں تک کہ بعض مورخین کے مطابق ان تالیفات کی تعداد ایک ہزار ہیں۔انہی تالیفات میں سے  صرف منطقی  مباحث کے بارے میں تالیف کی گئی  منطق ارسطو باقی رہ گیا ہے ۔یہ کتاب [ارغنون ۔ ارگانون] {آلت و ابزار} اب بھی علم منطق میں ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے ۔

ارسطو کے دنیا سے جانے کے بعد  زنون رواقی[260 ۔350 ق۔م] نے ارسطو کے مباحث کوجا ری رکھا اور اس نے [معرف] اور [قیاس  شرطی] کے مباحث  کو اضافہ کیا۔فرفوریوس صوری [233 ۔304 ق۔م]  نےزنون کے بعد  ارسطو کی کتاب پر شرح لکھااور ایک مقدمہ بعنوان مدخل کا اضافہ کیاجو کلیات خمس کے مباحث پر مشتمل  تھا۔اس کے بعد یہ بحث ایک مباحث منطقی اور ایساغوجی مباحث کے نام سےمشہور ہوا۔ارسطو کی یہ تقسیم بندی ایک طولانی مدت تک بڑی آب و تاب  کے ساتھ  جاری رہا یہاں تک کہ فر فوریوس کے بعد بعض  اہل منطق نے مقولات عشر کو منطق سے جدا کر کے فلسفے کے مباحث کے ساتھ ملحق کیااور مباحث معرف جو برہان  کےباب میں شامل تھا اسے کلیات خمس میں سے قرار دیا۔یہ سلسلہ دکارت[1596 ۔1650 ق۔م] کے زمانے تک جاری رہا ۔دکارت نے نئے  نظریوں کے ذریعے علم منطق میں قابل توجہ تحول لے آیا اور یہ تحول و تبدل منطق جدید کے وجود میں آنے تک فراز و نشیب کے ساتھ پائیدار رہا ۔

بعض مورخین اس گزارش کے برخلاف علم منطق کے زادگاہ کو مشرق زمین سمجھتے ہیں اور ہندوستان ، ایران ، جاپان ،چین  اور مصر کو اس علم کا مرکز و گہوارہ سمجھتے ہیں ۔

[دورہ اسلامی]
 اسلامی تہذیب و تمدن میں علم منطق کب اور کیسے وارد ہوا اس حوالے سے بھی مورخین کے درمیا ن شدید اختلافات پائے جاتےہیں  لیکن  جو  بات مشہور ہے وہ یہ ہے کہ فلسفہ [فلوطین] پہلی مرتبہ مشرق زمین میں وارد ہوا ہے۔مسلمانوں نے جب اسکندریہ کو فتح کیا تو مسلمانوں  نے یونان کے علمی و فلسفی  مراکز تک رسائی حاصل کی کیونکہ اس زمانے میں اسکندریہ فلسفہ و الہیات یونان کا مرکز تھا ۔ شام و عراق کے مناطق  میں بسنے والے افراد جو سریانی زبان بولتے تھے،  یونانی زبان کے مطالعے میں مشغول ہو گئے  اور انہی افراد نے بہت سارے اہم منطقی  آثارکا ترجمہ کیا اور یہی مسلمانوں کے ان آثار سے زیادہ آشنائی پیدا کرنے کا سبب بنا ۔یہ ترجمے فقط ارسطو کے مباحث{ ایساغوجی  ،فرفوریوس و قاطیغوپارس باری آرمیناس اور آنولو طبقای اول} پر مشتمل تھے۔ جن افراد نے ترجمے کاکام مکمل کیا ا ن میں یعقوب ہاوی م 708 م سورس بسوخت  م667 م جارجیوس م 724م اور حسین بن اسحاق  قابل ذکر ہیں ۔

اسلامی مناطق میں فلسفی و منطقی مباحث کو اس وقت زیادہ  رونق آیا جب وہاں  علمی مراکز وجود میں آیا مخصوصا ایسے مراکز جن میں یونانی  متون اور کتابوں کا ترجمہ کرتے تھے اور اکثران مراکز کی بنیاد خلفای عباسی کے دور میں رکھی گئی ۔اہم ترین مدرسہ و مرکز[ بیت الحکمۃ] تھا جو مامون عباسی کے دستور پر بنایا گیا تھا۔ عبد اللہ بن مقضع جنہوں نے ارسطو کے قاطیغوریاس اور انولوطبقای اور فرفوریوس کے ایساغوجی کو منصورخلیفہ عباسی کے لئے ترجمہ کیا ۔منصور عباسی کے دورکے بعد  منطق دانوں نے منطقی کتابوں  کی تفسیر وتشریح پر زیادہ کام شروع کیا یہاں تک کہ بعض افراد نے اس ضمن میں نئی کتابیں بھی تالیف کی ۔ابو  یوسف ،یعقوب بن  اسحاق الکندی [م258 ھ۔ق] ملقب بہ فیلسوف عرب جو  اپنے استعداد علمی کی وجہ سے مامون اور معتصم کے پاس ایک خاص مقام رکھتا تھا نے   بیشتر ارسطو کی کتابوں کا شرح  لکھا۔ ابو العباس سرخسی [م280ھ۔ق]اور محمد بن زکریا رازی[م 151 ھ۔ق] کے دور  میں بھی یونان سے آئے ہوئے علوم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ اس زمانے میں علم منطق اپنے طفولیت سے گزر رہاتھا۔اس دور کے بعد فلسفہ ا و رمنطق جدید دور میں داخل ہوا جسے عصر طلائی حکمت کہا جاتاہے۔

اس دور میں جس اہم شخصیت  نے بنیادی کردار ادا کیا وہ حکیم ابو النصر محمد فارابی [260۔ 339 ھ۔ق] معروف بہ معلم ثانی ہے ۔فارابی کا علم منطق میں نقش و تاثیر  اس قدر زیادہ ہے کہ اکثر دانشمندان فارابی کو اسلامی دور میں علم منطق کا بنیان گزار سمجھتے ہیں ۔

فارابی کے اہم کاموں میں سے ایک [منطق ارسطو ]  ارغنون اور [ایساغوجی] فرفریوس پر شرح لکھنا ہے ۔اس کے علاوہ  انہوں نےبے شمار کتابیں علم منطق کے موضوع پر تالیف کی جو آج بھی علم منطق کے اہم ترین کتابوں میں شمار ہوتے ہیں ۔فاربی  نےمتعدد شاگردوں کی تربیت کی۔ ان کے معروف شاگردوں  میں یحیی بن عدی منطقی  کا نام لیا جا سکتا ہے ۔اس عصر کے دوسرے منطق دانوں میں  ابو سلیمان سجتانی[398 ھ ۔ ق ] ابوحیان توحیدی[م414 ھ۔ق] عیسی بن زرعہ[م 398 ھ۔ق] ابن مسکویہ [م 325 ھ۔ق ابو عبد اللہ ناتلی [343 ھ۔ق] وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ فارابی کے علاوہ یہ تمام افراد اس قدر مشہور نہیں ہوا  اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ  [ناتلی]
کے برجستہ  ترین شاگرد علم و حکمت کے میدان میں وارد ہوا اور یہ فیلسوف و حکیم حسین بن عبد اللہ شیخ الرئیس بو علی سینا  جو شہر بخارا  کے  کسی دیہات میں 370 ھ ق میںمتولدہوا۔پانچ سال کی عمر میں والد کے ہمراہ بخارا آیا اور قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔دس سال کی عمر میں  ادب کے علوم میں مہارت حاصل کی اور کچھ مدت تک مذہب اسماعلیہ کوقبول کیا ۔انہوں نے حکمت ، منطق اور ریاضی کو ابو عبد اللہ ناتلی کے پاس سیکھا اور بعد میں وہ خود ان علوم کے برجستہ ترین اساتیذمیں شامل ہوا ۔ابن سینا عقلی علوم کے علاوہ  طبی علوم کے بھی بڑے اساتیذ جیسے ابو ریحان بیرونی اور ابو سہل مسیحی سے سیکھااور اپنے دور میں معروف طبیب کے عنوان سے مشہور ہوا۔بو علی سینا کے بے شمار گرانقدر تالیفات ہیں کہ ان میں سےکتاب شفا و قانون قابل ذکر ہے ۔ بھمینار بن مرزبان [458ھ۔ق] ابو عبد اللہ معصومی بو علی سینا کے شاگرد ہیں ۔ ابن سینا کے بعد بے شمار منطق دان میدان میں واردہوئے لیکن کوئی بھی ابن سینا کی طرح مشہورنہیں ہوا جیسے ابو حامد غزالی ،قاضی زید الدین عمر سہلان ساوجی ،محمد بن عمر فخر رازی ۔ابو جعفر نصیر الدین طوسی ،نجم الدین علی بن کاتبی قزوینی ،شیخ شہاب الدین سہروردی [بنیانگذار حکمت اشراق]ابو جعفر قطب الدین محمد بن رازی ،سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی ،سعد الدین محمد داونی ،محمد بن ابراہیم شیرازی  ملا صدرا[بنیادگذارحکمت متعالیہ اور ملا ہادی سبزوار ی وغیرہ ۔یہ سب حکماء ایک درجے کے نہیں تھے ان میں سے بعض جیسے سہروردی اور ملا صدرا  نےحکمت مشائی میں ایک نئے تحول لے کرآیا جس کی وجہ سے یہ افراد  بنیانگزار کے طور شہرت پایا۔

[دورہ منطق جدید ]
منطق جدید کو منطق ریاضی و منطق نمادی بھی کہا جاتا ہے  ۔بعض ریاضی دان جیسے لایب نیتز[1646 ۔1716] فلیسوف و ریاضی دان آلمانی علم منطق اور ریاضی کو تلفیق کرنےکے لئےکوشش کی  کیونکہ وہ چاہتے تھا کہ منطقی  مسائل کو حل کرنے کے لئے ریاضی سے مدد لے۔
لایب نیتزنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے زیادہ سعی و کوشش کی اسی بنا پر بعض افراد ان کو[ پدر علم منطق جدید] کے نام سے یاد کرتے ہیں۔جرج بوی ریاضی دان انگلستان،آگو ستوس دمورگانریاضی دان انگلستان ،گوتلوپ  فرگر ،زوزف پائانو ریضی دان اٹلی  یہ سب  ایسےافراد  تھے جنہوں نے منطق جدید کی تدوین میں  کام کیایہاں تک کہ بر تراند راسل [1872 ۔1970 م]اور آلفردنودث وایتہد [1871۔ 1937م] فلاسفر انگلستان نے  اصول ریاضی کے عنوان سے کتابیں لکھی جو  منطق جدید کی تدوین میں مددگار ثابت ہوئے۔اور یہ سلسلہ ان دونوں کے بعد بھی جاری و ساری رہا لیکن اختصار کی خاطرہم  ان سب کو یہاں ذکر نہیں کریں گے ۔
علم منطق آج ایک اہم بحث  اور موضوع کے طورپر پورےدنیا  کے یونیورسٹیوں  میں تدریس کی جاتی ہے  ۔ علم منطق کی اہمیت اور مختلف علوم میں  اس کا اثر اورنقش قابل انکار ہے ۔


منابع:
1۔سیر حکمت در اروپا، آماکوویسکی
2۔تاریخ فلسفہ۔ برتداندراسل ترجمہ:بہالدین خرمشاہی
3۔تاریخ فلسفہ اسلامی۔ ترجمہ گروھی از دانشمندان
4۔تاریخ فلسفہ غرب۔   ترجمہ:نجف دریا بندری
5۔سیر فلسفی در جہان اسلام۔دکتر علی اصغر حلبی
6۔مبانی منطق جدید۔  سید علی اصگر خندان
7۔دوران اسلامی۔  میر محمد شریف
8۔یونان باستان۔محمد علی فروغی
9۔تاریخ منطق۔کاپلتون فردریک ترجمہ:فریدون شایان
10۔درآمدی بر منطق جدید۔ضیاء موحد
11۔دورری منطق جدید۔ لطف اللہ نبوی
12۔تاریخ فلاسفہ ایرانی از آغاز اسلام تا امروز۔دکتر سید حسین نصر
13۔تاریخ فلسفہ درایران۔میر محمد شریف
14۔منطق مقدماتی ۔ابوالفضل روحی
15۔ تاریخ فلسفہ د  ر اسلام میر محمد شریف ج 1 باب 1


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) نواسہ رسول ؐ اسلامی سال کی ابتدامیںہی کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہو چکے تھے ۔نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے ۔زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہا تھا جبکہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم و با وفادار اصحاب  راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے ۔آل محمد کا یہ قافلہ سال کے شروع میں ہی ایک تبتی ہوئی ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے ۔ یہ  وہی حسین علیہ السلام تھا جس کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا :{حُسَيْنٌ مِنّی وَ أَنـَا مِنْ الحُسَيْن، أَحَبَّ اللہ ُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً}حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہو ئے تو آپ رسول خدا کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں ۔

آج یہی عظیم ہستی ،اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کےہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنی خطوط پر استوار کرے جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایاتھا ۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں ۔نواسہ رسول علیہ السلام پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے اس لئے آپ عمرہ کر کے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے  ۔جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں ، اذیتوں کو برداشت کر کے پالاتھا آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہاتھا اور مسلمانوں کے قلب ونظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کازندہ رہنا محال نظر آرہا تھا۔

اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا :{إِنّی لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْصْلاحِ فی أُمَّۃِ جَدی، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْہی عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَسيرَ بِسيرَۃِجَدّی وَأَبی عَلِیِّ بْنِ أَبيطالِب}میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا  ہے۔ مفسدوں ،ظالموں اور جابروں کے تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے ۔ واقعہ کربلا میں موجودانسانی تربیت کے جامع ترین اور اعلی ترین اصول کا درج ذیل زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔

1:عدالت خواہی
عدل کا دائرہ زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے ۔انفرادی اور اجتماعی امور میں نظام عدل کے نفاذ کے ذریعے ہی فرد اور معاشرہ فلاح کی منزل سے ہمکنار ہو سکتے ہیں ۔ظلم کے خلاف اور عدل کے حق میں قیام کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے ۔لیقوم الناس بالقسط۔امام حسین علیہ السلام کے دور میں اموی حکومت غیر شرعی ،غیر عادلانہ اور یر قانونی طریقے سے وجود میں آئی۔امویوں نے آل رسول کے علاوہ دیگر بندگان خدا پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا۔مسلمانوں خاص کر امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری تھی کہ وہ ظلم کے خاتمے اور عادلانہ معاشرے کے قیام کی خاطر کوشش کریں۔چنانچہ امام علیہ السلام نے ایک خطاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا ذکر کرتے ہوئے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف قیام ضروری ہے اپنے آپ کو اس قیام کے لئے سب سے زیادہ موزوں اور سزاوار فرد  قرار دیا۔آپ نے فرمایا: { من رای سلطانا جائرا مستحلا لحرام اللہ۔۔ }1.ایک جگہ آپ نے بنی امیہ کو آل رسول پر ظلم کرنے کا مجرم قرار دیا اور کہا:{و تعدت بنو امیہ علینا}2

کوفہ کے روساء کے نام خط میں آپ نے برحق امام کی یہ خصوصیت بتائی کہ وہ عدل قائم کرنے والا ہے ۔{ما الامام الا الحاکم بالکتاب القائم بالقسط۔۔}3۔کوفہ میں امام  کے سفیر مسلم بن عقیل نے اپنی گرفتاری کے بعد ابن زیاد سے فرمایا: میں اس لئے آیا ہوں تا کہ عدل قائم کروں اور قرآن کی طرف بلاوٴں۔4

امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ایک جملہ یہ ہے :{ اشھد انک اقمت بالقسط و العدل و دعوت الیھما۔۔۔} میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے عدل اور انصاف  کے مطابق حکم دیا اور ان دونوں کی طرف دعوت دی۔ 5۔حق ،عدل اور انصاف کی بالا دستی کی خاطر کام کرنے والوں  کے لئے قیام حسینی میں لا زوال دروس مضمر ہیں۔امام خمینی  فرماتےہیں :سید الشہدا علیہ السلام کے قیام کےابتدائی دن سے ہی آپ کا مقصد یہ تھا کہ عدل قائم کیا جائے۔6

سید الشہداء علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی برائیوں کو ختم کرنے اور ظالم حکومتوں کے مذموم مقاصد کی روک تھام کی کوشش میں گزاری۔7 قیام حسینی  نظام عدل کی واپسی اور ظالمانہ نظام کی اصطلاح کی لا زوال تحریک کا نام ہے ۔حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے یزید کی مذمت کرتے ہوئے عدل کا تذکرہ کیا اور فرمایا:اے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد: کیا یہ عدل اور انصاف ہے کہ تواپنے اہل و عیال کو پردے کے اندررکھے اور رسول کی بیٹیوں کو اسیر بنا کر پھرائے؟ 8

2: باطل سے مقابلہ
 فکری ،نظریاتی ،دینی ،اقتصادی،سیاسی،اخلاقی اور دیگر میدانوں میں حق و باطل کی جنگ ہر دور میں جاری رہی ہے ۔انبیاء ،اولیاء اور ائمہ علیہم السلام نے ہر دور میں باطل سے جنگ کی ہے ۔{بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ہو زاہق}9۔خدا ،اسلام ،انبیاء ،ائمہ ہدی ،اسلامی حکومت ،قرآن وغیرہ حق ہیں ۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام اور حضرت علی علیہ السلام مجسمہ حق تھے۔ یزید کی ظالم اور باطل حکومت کی مخالفت امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری تھی۔آپ نے اپنے قیام کے اسباب بتاتے ہوئے فرمایا:{الا ترون ان الحق  لا یعمل بہ و الباطل لا یتناھی عنہ} کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے اجتناب نہیں برتا جا رہا۔؟ 10

3:بدعت سے مقابلہ
باطل کا ایک اور مصداق  بدعت ہے۔ بدعت یہ ہے کہ جن امور کا دین سے تعلق نہ ہوا نہیں دین میں شامل کیا جائے ۔بنی امیہ نے بدعتوں کو رائج کیا۔امام حسین علیہ السلام نے ان بدعتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دے دی ۔آپ نے فرمایا:{ فان السنۃ قد امیتت و ان البدعۃ قد احییت}11

اہل بیت علیہم السلام اور بنی امیہ کی جنگ دو خاندانوں کی جنگ نہ تھی بلکہ حق و باطل کا معرکہ تھا ،حق اور بدعت کا مقابلہ تھا۔اسی لئے امام نے فرمایا:{نحن و بنی امیہ اختمصنا فی اللہ عزوجل قلنا صدق اللہ و قالو کذب اللہ} بنی امیہ کے ساتھ ہمارا اختلاف خدا کے معاملے میں ہے۔ہم نے اللہ کی تصدیق اور انہوں نے خدا کی تکذیب کی ہے۔12

4:اسلامی حکومت کا احیاء
قیام حسینی کا مقصد اسلامی حکومت کا احیاء،حق کی بنیاد پر اسلامی حکومت کا قیام اور ظلم کی بنیادوں پر استوار نظام حکومت کے خاتمے سے عبارت تھا۔امام حسین علیہ السلام اپنی حقانیت کے اثبات اور امویوں کی باطل حکومت کے خاتمے کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں:خلافت کے ان ناحق دعویداروں کے مقابلے میں ہم اہل بیت علیہم السلام تم پر حکومت کرنے کے زیادہ سزاوار ہیں۔یہ لوگ تمہارے ساتھ ظلم کر رہے ہیں ۔13

5: حق کا دفاع
سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے عظیم تربیتی مشن کے پیش نظر لوگوں کو دعوت دی کہ وہ حق کی حمایت کریں،مظلوموں کا ساتھ دیں اور اہل بیت کی مدد کریں۔یہاں تک کہ آپ نےعبید اللہ جعفی کو بھی دعوت دی جو کوفہ کے جدید حالات سے لاتعلق رہنا چاہتا تھا۔امام علیہ السلام نے حر سے فرمایا:توبہ کے ذریعے گذشتہ گناہوں  کے داغ دھو لو۔ میں تجھے ہم اہل بیت کی نصرت کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔اگر ہمارا حق ہمیں دیا گیا توہم قبول کریں گے۔اگر نہ دیا گیا اور ہم پر ظلم روا رکھا گیا تو  تو حق کی خاطر میری مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا۔14
حق اور عزت کی خاطر کی خاطر مرناسید الشہداء علیہ السلام کے ہاں زندگی ہے۔فرمایا:{ما اہون الموت علی سبیل نیل العز و احیاء الحق} عزت و عظمت کے حصول اور احیائے حق کے لئے مرنا کتنا آسان ہے ۔ 15

سفر کربلا کےدوران ایک بار  حضرت علی اکبر علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام سےپوچھا: کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ فرمایا: کیوں نہیں۔حضرت علی اکبر علیہ السلام نے عرض کیا: اے بابا؛ پھر ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں۔{ یا ابتی اذا لا نبالی بالموت}16

6: خاموش نہ رہنا  
حق وباطل کےمعرکے میں خاموش رہنا جرم ہے کیونکہ یہ حق کو کمزور کرنے اور باطل کی تقویت کا موجب ہے۔جنگ صفین حق و باطل کا واضح معرکہ تھا لیکن کچھ لوگوں نے بے طرفی کی روش اپنائی اور حق کا ساتھ نہ دیا ۔امیر المومنین علیہ السلام نے ان لوگوں کی مذمت کی اور
فرمایا:ان لوگوں نے حق کو بے یار و مددگار بنا دیا اگرچہ باطل  کی مدد نہیں کی ۔ 17
قیام امام حسین علیہ السلام کے دوران بھی کچھ لوگوں نے بہانے بناتے ہوئے امام کا ساتھ نہ دیا۔بعض لوگوں نے امام کی دعوت ان سنی کر دی۔احنف بن قیس نےعصر رسول اور عصر امیر المومنین کی جنگوں میں ان کا ساتھ دیا تھا لیکن امام حسین علیہ السلا م  کا ساتھ نہ دیا بلکہ اپ کو قیام سےمنع کیا۔مدینہ میں امام علیہ السلام نے مروان سےفرمایا: میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آل ابو سفیان پر خلافت حرام ہے لیکن مسلمانوں نے سہل انگاری کی توخدا نےیزید کو ان پر مسلط کر دیا۔18۔ امام حسین علیہ السلام نے ایک دفعہ لوگوں سے فرمایا:اگر تم لوگ ہماری مدد اور ہمارے ساتھ انصاف نہ برتو گے تو ظالم لوگ تمہارے مقابلے میں طاقتوربن جائیں گے اور تمہارے نبی کے نور کو بجھانے کی کوشش کریں   گے۔ 19۔یوں امام نے سمجھایا کہ اگر لوگ حق اور امام برحق کی حمایت کے معاملے میں کوتاہی برتیں گے تو حق کمزور ہو گا اور طاغوت کو غلبہ حاصل ہوگا۔

7: حامیان حق کی عظمت
قرآن کی روسے حق پائیدار ہے اور باطل ناپائیدار۔20۔  اسی لئے جو حق کی حمایت کرتا ہے اور حق کے مطابق زندگی گزاراتا ہے اسےدائمی فتح ،زندگی اور عزت مل جاتی ہے اگرچہ وہ بظاہر کمزور ، محروم اور مغلوب ہو۔بقول امیر المومنین علیہ السلام: { الحق دولۃ و الباطل جولۃ} باطل عارضی شےہے جبکہ حق ایک دائمی فتح ہے ۔ 21۔حق کی خاطر جان دینے والا حسین علیہ السلام اربوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہا ہے اور انسانیت کی پیشانی کا جھومر ہے۔معاویہ کی موت کے بعد والی مدینہ سے ملاقات سے پہلے امام حسین علیہ السلام نے اپنے خاندان کے لوگوں سے فرمایا:میں ان لوگون کا تسلط اور ذلت ہر گز قبول نہیں کروں گا۔

امام علیہ السلام نے اپنےپیروکارون کو درس دیا کہ حق کی حمایت اور باطل سے ٹکرانے میں ہی عزت اور زندگی ہے جبکہ باطل سے مرعوب ہونا اور اس کا ساتھ دینا موت کےمترادف ہے ۔فرمایا:{ انی لا اری الموت الا سعادۃ و الحیاۃ مع الظالمین الا برما}23

8:حامیان باطل کی ذلت
 مظلوم کاناحق خون ظالم کے دامن کو جکڑ لیتا ہے اور انہیں ذلت و خواری سے دوچار کرتا ہے۔ بطن العقبۃ میں ایک شخص نے امام کو کوفہ کے نامساعد حالات کی خبر دی اور وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا۔آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم یہ لوگ میرا خون بہا کر ہی  دم لیں گے ۔پس خدا ان پر اس شخص کو مسلط کرے گا جس کے ہاتھوں وہ ذلیل ترین لوگ قرار پائیں گے۔23۔سانحہ عاشورا کے مجرم انتقام الہی  کےشکار ہوئے۔شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ بہت سی احادیث کی روسے شہدائے کربلا کا کوئی قاتل موت ،بلا یا رسوائی سے نہیں بچ سکا۔وہ سب اپنی طبیعی موت سے پہلے کیفر کردار کو پہنچ گئے۔24

خلاصہ یہ کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے ذریعے انسانی تربیت کے لئےجامع ترین اور اعلی  ترین اصول دنیا کےسامنے رکھے۔ان اصولوں میں انفرادی و اجتماعی بیداری کا اصل ،امر بالمعروف اور نہی از منکر کا اصل ،ظلم ستیزی اور حق پرستی کا اصل ،بدعت کے خلاف جنگ کا اصل ،عزت نفس ،معاشرتی اصلاح کا اصل ،عدل گستری کا اصل  اور احساس ذمہ داری کا اصل وغیرہ  شامل ہیں ۔


حوالہ جات:
1   ۔موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام
2   ۔علامہ مجلسی ،محمد باقر ،بحار الانوار،ج۴۶،ص2914۔
3۔    شیخ مفید،الارشاد،ج۲ص39۔
4۔ایضا۔
5۔قمی،شیخ عباس،مفاتیح الجنان ،ص439۔
 6۔امام خمینی،صحیفہ نور،ج۲ص189۔
  7۔ایضا۔
 8۔مجلسی ،محمد باقر،بحار الانوار،ج45ص152
 9۔انبیاء،18۔
10۔مجلسی ،محمد باقر،بحار الانوار،ج44ص381
11۔ابن شعبہ حرانی ،تحف العقول عن آل الرسول۔ایضا،ص360۔
12۔موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام
 13۔ابن مخنف،وقعتہ الطف،ص144۔تحقیق،حسن غفاری۔
14۔کلمات امام حسین علیہ السلام
  15۔ امین،سید محسن،،اعیان الشیعہ،ج۱،ص184۔
 16۔ابن مخنف،وقعتہ الطف،ص144۔تحقیق،حسن غفاری۔
 17۔ ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغۃ ،حکمت،۱۸۔
18۔خوارزمی ،محمد بن احمد مکی،مقتل الحسین،ج۱،ص236۔
19۔  ابن شعبۃ الحرانی،تحف العقول عن آل الرسول،ص236۔
20۔   اسراء،81۔
21۔  آمدی عبد الواحد ،غرر الحکم ،ج۵ص205۔
 22۔موسوعۃ کلمات الامام الحسین علیہ السلام
23۔ایضا۔
24۔مفیدبن نعمان،ارشاد ،ج۲،ص۷۶۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے  یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ،گاندی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کی مرہون منت سمجھتا ہے یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام  نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں  کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام  کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں  سے فتح و شکست کو دیکھ لیا اور جب ان کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹایا گیا تو یہ کہتے ہوئے فوج یزید سے نکل گئے:

میں حر ہوں لشکر ایمان میں پہچان ہے میری
میرا  ہونا   غلام  حضرت  شبیر ہونا  ہے

ِ61ہجری کی ابتدا ہی میں نواسہ رسول ؐ کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہو گئے تھے ۔نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہل بیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے ۔زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہا تھا جبکہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم و با وفادار اصحاب  راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے ۔آل محمد کا یہ قافلہ نئے سال کے شروع میں ہی ایک تبتی ہوئی ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے ۔ یہ  وہی حسین علیہ السلام تھا جس کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا :{حُسَيْنٌ مِنّی وَ أَنـَا مِنْ الحُسَيْن، أَحَبَّ اللہ ُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً}1۔حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہو ئے تو آپ رسول خدا کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں ۔

آج یہی عظیم ہستی ،اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کےہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنی خطوط پر استوار کرے جن خطوط پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایاتھا ۔ اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں ۔نواسہ رسول علیہ السلام پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے اس لئے آپ عمرہ کر کے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے ۔جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں ، اذیتوں کو برداشت کر کے پالاتھا آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہاتھا اور مسلمانوں کے قلب ونظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کازندہ رہنا محال نظر آرہا تھا۔اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا :{إِنّی لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْصْلاحِ فی أُمَّۃِ جَدّی، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْہی عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَسيرَ بِسيرَۃِجَدّۃوَأَبی عَلِیِّ بْنِ أَبي طالِب}2۔میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا  ہے۔ مفسدوں ،ظالموں اور جابروں کے تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے ۔

دین محمد ؐ کا سورج جواپنی روشنی کھو چکا تھا ایک دفعہ پھر بڑی آب وتاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں کے ذریعے دنیا والوں کو بتلا دیا کہ کربلامیں نواسہ رسولؐ نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا علم بلند کیا ہے۔قیامت تک نواسہ رسولؐ کی یاد دنیا والوں کو  یہ درس دیتا رہے گا کہ کسی ظالم ،فاسق و فاجر کی بیعت کی ذلت قبول کرنے سے عزت کی موت بہتر ہے ۔ "الموت أولی من رکوب العار والعار أولی من دخول النار"۔۳۔

امام خمینی  رہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل درنسل لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اورمعارف الہی کے حصول کے لئے خود کو وقف کررکھا تھا۔حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریئے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔ آپ نے جلا وطنی کے عرصہ میں بھی تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جد وجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی ۔ چار جون 1989 کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستی کے وصال کے لئے آمادہ کررہے تھے کہ جس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ نے اپنی پوری عمر مبارک صرف کردی تھی اور ان کا قامت رعنا سوائے اس عظیم ہستی کے حضور کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسی اور کے لئے اشک ریزي نہیں کی۔آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں رقم فرمایا ہے : خدا کے فضل و کرم سے پرسکون دل، مطمئن قلب ، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب کوچ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا کرتاہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کردے اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرے گي اور پوری قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائے گی ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ابدی و لافانی ہوتی ہے ۔
امام خمینی مکتب حسینی کے شیدائی تھے۔ آپ  اتحاد امت کے داعی اور مجاہد مبارز عالم دین تھے آپ نے جو راستہ اختیار کیا وہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی عزت، سربلندی اور افتخار کا راستہ ہے۔ آپ کی باتیں ،آپ کی تحریریں ، آپ  کی تقریریں اور آپ کی روشن فکر آہنی عزم،ثابت قدمی،شجاعت، غیرت، قوت فیصلہ غرض  ہر ہر پہلو میں امام حسین علیہ السلام کے کردار اور عزم صمیم کا عکس نظر آتا ہے۔ امام خمینیؒ خود فرماتے ہیں ہم جو کچھ بھی ہیں اور ہماری کامیابیاں یہ سب حضرت امام حسین علیہ السلام اور کربلا کے واقعہ کا عکس و درس ہے۔

اس مقالہ کا موضوع "قیام امام حسین علیہ السلام  کے اہداف امام خمینی رہ کی نگاہ  میں " ہے  ۔امام خمینی رہ کے گفتگو  میں  قیام عاشورا  کےجو  اہداف بیان ہوئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہے:

1۔ دین اسلام کو تحریف ہونے سے بچانا
2۔ اسلامی  معاشرےکی اصلاح
3۔ ظلم کے خلاف قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی
4۔امر بالمعروف و نہی از منکر
5۔اسلامی حکومت کا قیام
6۔اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی حفاظت
7۔ الہی ذمہ داری پر عمل کرنا۔

واضح رہے کہ یہ اہداف  ایک دوسرے کے مقابل میں نہیں بلکہ ان اہداف میں سے بعض ہدف کو دوسرے اہداف کے ساتھ جمع کر سکتا ہے۔ امام خمینی رح کے کلمات میں ان میں سے ہر ایک ہدف کی تاکید ہوئی ہے۔ علاوہ بر ایں ان میں سے ہر ایک ایک الہی قیام کے لئے مستقل ہدف بن سکتا ہے۔ اس لئے ان تمام موضوعات کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش کریں گے۔4

1۔ دین اسلام کو تحریف ہونے سے بچانا:
کسی مکتب فکر کی تحریف اس مکتب فکر کے لئے سب سے بڑا  خطرہ ہے  ۔کسی بھی مکتب اور مذہب میں بدترین تحریف یہ ہے کہ اس مکتب کے رہبران اور سیاستدان   اس مکتب  اور مذہب کے قوانین اوردستورات کے برخلاف عمل کریں  لیکن دوسرے افراد کے سامنےاپنے گفتار و کردار کو اس مکتب کے قوانین ، دستورات اور تعلیمات کے عین مطابق  سمجھنے لگے۔ ‏امام حسین علیہ السلام کے  زمانے میں بھی اموی مشینری کی طرف سے  اسلام کے لئے اس قسم کا   خطرہ موجود تھا  اگر اس دور میں امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو  اسلام کا صرف نام باقی رہ جاتا۔

امام خمینی رح اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ظالم و جابر یزیدی حکومت کا ارادہ  تھا کہ سرخ قلم سے اسلام کے نورانی چہرے پر لکیر کھینچے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اورصدر اسلام کے مسلمانوں کی زحمتوں اور شہداء کے پاکیزہ  خون کو ضائع کرے۔

ایک اورمقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں :بنی امیہ نے اسلام کو ایک طاغوتی نظام کے طور پر پیش کیا یہاں تک کہ بانی اسلام کے چہرے کو بھی حقیقت کے بر عکس  پیش کیا۔معاویہ اوراس کے ظالم بیٹے یزیدنے  خلیفہ رسول خدا کے عنوان سے اسلام کے ساتھ اس طرح سے سلوک کیا جس طرح چنگیز خان نے ایران کے ساتھ سلوک کیا اور اس دین کو جس کی بنیاد وحی پر تھی ایک شیطانی رژیم میں تبدیل کیا۔

ایک اور جگہ امام خمینی رح فرماتے ہیں: سید الشہداء امام حسین علیہ السلام  جانتے تھے کہ معاویہ اور اس کا بیٹا اس عظیم مکتب کو تباہ کر ر ہے ہیں   اوراسلام کے اصلی اورحقیقی چہرے کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں ۔۔۔ وہاں جماعتیں تھیں تو بھی لہو و لعب کی مجالسیں برپا ہوتی تھیں۔ خدا خواہی کا نعرہ لگاتے تھے لیکن خدا و الوہیت کے  خلاف  قیام  کرتےتھے۔ ان کے اعمال اوران کا رویہ شیطانی تھا لیکن  ان کی فریاد خلیفہ رسول خدا کاتھا۔

معاویہ اور یزید کی طرف سے اسلام کو جو خطرہ تھا وہ یہ نہیں تھا کہ خلافت کو غضب کیا گیابلکہ یہ بہت کم خطرہ تھا  لیکن ان کی طرف سے اسلام کو  جوشدید خطرہ تھا وہ  یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کو ایک سلطنت اور شاہی نظام میں تبدیل کرنا چاہتےتھے۔ اسلام کی معنویت کو ایک طاغوت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے اوریہ اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا اور اس خطرے کو امام حسین علیہ اسلام نے دفع کیا اوراگر وہ اس چیز میں کامیاب ہوتے تو  اسلام کا ایک اورنقشہ ہوتا  اوراسلام بھی دو ہزار پانچ سو سالہ شاہی رژیم و سلطنت کی طرح ہوجاتا۔5۔اسی طرح  ایک اورمقام پر فرماتے ہیں :سید الشہداء علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اموی خاندان  اسلامی خلافت کے نام پرمکتب اسلام کو آلودہ کر رہے ہیں  اورہر قسم کے ظلم و ستم کر رہے ہیں جبکہ دوسرے افراد کا  تاثر یہ ہے کہ یہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہیں  اس لئےیہ کام انجام دے رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا وظیفہ سمجھا کہ یزید کے خلاف قیام کریں اوراس راہ میں شہید ہوجائے تا کہ معاویہ اوراس کے بیٹے یزید کے آثار کو ہمیشہ کے لئے  دفن کر دے۔

‏امام خمینی رح فرماتے ہیں:معاویہ اوراس کے بیٹے یزید کے دور حکومت میں مسئلہ یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کر رہے تھے اور خلیفہ المسلمین  اور خلیفہ رسول اللہ کے عنوان سے ہر قسم کی جنایات انجام دیتے تھے اس لئے بزرگان اسلام  کی ذمہ داری  بنتی تھیں کہ  وہ ان کا مقابلہ کرتے ہوئے قیام کرے، دنیا کو ان کی خباثت برملا کرے اور اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرے کیونکہ بہت سے لا علم اورغافل افراد اسی کو ہی اسلامی خلافت سمجھتے تھے ۔6

امام خمینی رح کے ان کلمات میں آپ تحریف کے مسئلہ  پر بہت زیادہ تاکید کرتے ہوئے اسے بہت ہی  زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں  اور اس سے مقابلہ کرنے کو قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف میں سے قرار دیتے ہیں۔اس تحریف کا خطرہ یہ تھا کہ اسلام کے لبادے میں اسلامی تعلیمات کو  جان بوجھ کر لگد مال کئے جاتے تھے اور یہ کام  بھی ان افراد کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو خلیفہ المسلمین کہلاتے تھے۔ بہت ہی کم عرصے میں اسلام سرے سے صفحہ ہستی سے مٹ رہا تھا جبکہ نادان افراد ان کے  اعمال و کردار کو  اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سمجھتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کو جب مروان نے کہا کہ مدینہ کے گورنر کے پیشنہاد پر عمل کرتے ہوئے یزید کی بیعت کرے تو آپ نے کلمہ استرجاع کی تلاوت کی اورفرمایا: «و علی الاسلام، السلام، اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید7۔‎

۲۔ اسلامی معاشرے کی اصلاح
امام حسین علیہ السلام  کےقیام کے اہداف میں سے ایک اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی ۔اور یہی تمام انبیاء و اولیا ءکرام کا ہدف تھا۔امام خمینی رح اس سلسلے میں فرماتے ہیں :تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی ان سب کا مسئلہ یہی تھا کہ فرد معاشرے پر قربان ہو جائے اور یہ فرد جس قدر عظیم  اور بڑا ہی کیوں نہ ہو جب معاشرے کی مصلحت کے ساتھ اس کا ٹکراو ہو تو اسے معاشرے پر اپنے آپ کو فدا کرنا چاہیے۔
ایک اور مقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں:سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے اسی معیار کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے اصحاب  و انصار کو  اسلامی معاشرے کی اصلاح کی خاطر قربان کیا ۔ "و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معہم الکتاب و المیزان، لیقوم الناس بالقسط"8

 اسی طرح آپ فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے اوپر یہ ذمہ داری تھی کہ آپ  قیام کرے اوراپنے پاکیزہ خون کو اسلام پر قربان کرے تاکہ ملت کی اصلاح ہو اورآپ نے ایسا ہی کر دیا۔9۔

امام خمینی رح فرماتے ہیں:امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: انی لم اخرج اشراولا بطرا ولامفسدا ولاظالماانماخرجت لطب الاصلاح فی امتی جدی و اسیر بسیرت جدیوابی علی بن ابی طالبؑ۔10۔اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے علماءدین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے جو عالمانہ خطبہ ارشاد فرمایا   اس میں بھی بنی امیہ کے خلاف اپنی قیا م کو معارف دینی کی ترویج ، اسلامی معاشرے کی اصلاح ، مظلوم افراد کی  فریاد رسی  ،قرآنی تعلیمات اوردستورات اسلامی کا اجرا قرار دیا۔11

3۔ظلم کے خلاف قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی
 امام حسین علیہ السلام  کے قیام کے اہداف  میں سے ایک ہدف بنی امیہ کی طرف سے ہونی والی ظلم  و ستم اور ناانصافی تھی  ۔ امام خمینی رح اس بارے میں فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام اور امام زمان  عج اسی طرح تمام انبیاء کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ ظالم و جابر حکومت کے مقابلہ میں ایک الہی حکومت تشکیل دے۔

اسی طرح فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد شروع سے ہی  عدل کا نفاذتھا  اوراپنی پوری زندگی  ظالم و جابر حکومت کے خاتمہ میں صرف کی۔ایک اورمقام پرآپ فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ سب خدا کی راہ میں قربان کر دیا اوراسلام کی تقویت کی خاطر ظلم کے خلاف قیام فرمایا۔

‏ امام خمینی رح  ایک اورجگہ فرماتے ہیں:سید الشہداء  امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ایک ظالم و جابر جب ایک رعایا پر حکومت کر رہا ہے  تو آپ نے  فرمایا: اگر کوئی ظالم و جابر لوگوں پر حکومت کرے اوران پر ظلم و ستم روا رکھے تو لوگوں کو چاہئے کہ اس کا مقابلہ کرے اور اس کے خلاف قیام کرے۔۔۔۔۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: جو کوئی خاموش تماشائی بن کر بیٹھے اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس کا مقام بھی یزید جیسے جابر و ظالم کا مقام ہے۔ 12

‎‏ امام خمینی رح فرماتے ہیں :ایک اور مقام پر امام حسین علیہ السلام خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: میں موت کو سعادت جبکہ ظالمین کے ساتھ زندگی کرنے کو ننگ و عار  سمجھتا ہوں۔ «انی لا اری الموت الا السعادۃ و الحیاۃ مع الظالمین الا برما»13

امام علی علیہ السلام علماء ربانی کے وظائف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ظالموں کے ظلم اور مظلومین کی آواز پر خاموش نہیں رہنا چاہئے۔14

اسی طرح امام علی علیہ السلام کے اس عہد نامہ میں جسے آپ نے مالک اشتر کے نام لکھا اس میں اس بات کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ انسانی معاشرے میں عدل کا قیام حکمرانوں کے لئے بہترین تخفہ ہے۔15

‏4۔امر بالمعروف و نہی از منکر
 اسلامی معاشرے میں منکرات  اوربرائیوں کا اصلی سبب اموی حکومت تھا اس کے خلاف اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے امام حسین علیہ السلام  نے قیام فرمایا ۔اما م خمینی  رح اس بارے میں فرماتے ہیں :حضرت ابا عبد اللہ  الحسین علیہ السلام نےقلیل افراد کے ساتھ یزیدی حکومت کے خلاف جو قیام کیا  اس بارے میں آپ خود فرماتے ہیں کہ میرا فریضہ ہے کہ میں اس حکومت کے خلاف قیام کروں اور نہی از منکر کروں۔

ایک اورمقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد معروف کو معاشرے میں رائج کرنا اور منکرات کا خاتمہ کرنا تھا ۔توحید کے علاوہ باقی سب چیزیں منکرات ہیں  اور یہ سب انحرافات اسی منکرات کی وجہ سے ہے۔ آپ کے قیام کا مقصد نہی از منکر تھا تاکہ کسی بھی معاشرے میں کوئی برائی اورمنکر موجود نہ رہے۔

سید الشھداء امام حسین علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی منکرات کو ختم کرنے اور  ظالم حکومت  کی وجہ سے پیدا ہونے والےمفاسد کے خاتمے کےلیے صرف کیا۔۔آپ نے محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: {ارید ان آمر بالمعروف و انہی عن‌المنکر} میں امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا چاہتا ہوں16۔آپ علماء دینی کو مخاطب قراردیتے ہوئے اپنے مشہور خطبہ میں  امر بالمعروف و نہی از منکر اوراس الہی فریضہ کو درج ذیل چیزوں کے ساتھ ضروری قرار دیتےہیں۔

1۔لوگوں کواسلام کی دعوت
2۔رد مظالم
3۔ظالم کی مخالفت اوراس کے خلاف قیام
4۔لوگوں کے درمیان  بیت المال  کی عادلانہ تقسیم
5۔زکوۃ کی جمع آوری اور اسے صحیح مصرف میں خرچ کرنا۔
آپ فرماتے ہیں:"ان الامر بالمعروف و النہی عن‌المنکر دعاء الی الاسلام مع ردالمظالم و مخالفۃ‌الظالم و قسمۃ الفی و الغنائم و اخذ الصدقات من مواضعہا و وضعہا فی حقہا"17۔
ایک اورجگہ پر امام حسین علیہ السلام نے فلسفہ قیام کوحق پرعمل نہ کرنے اور باطل سے اجتناب نہ کرنے کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :" الا ترون ان الحق لایعمل بہ و ان الباطل لایتناہی عنہ"18۔کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اورباطل سے اجتناب نہیں کیا جا رہا ۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر کے بارے میں قرآن مجید میں زیاد ہ تاکید ہوئی ہے جیسا کہ :
(۱) ارشاد رب العزت ہے : {ولتکن منکم امۃیدعون الی الخیرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر اولئک ھم المفلحون}19۔ اور تم میں سے
ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے،نیکیوں کا حکم دے،برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔
(2) ایک اور مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :{ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ}20۔ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگون کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ۔
(3)اسی طرح  فرماتا ہے :{ یؤمنون باللہ ویوم الآخرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکرویسارعون فی الخیرات واولئک من الصالحین}21۔یہ اللہ اورآخرت پر ایمان رکھتے ہیں،نیکیوں کا حکم دیتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں کی طرف سبقت کرتے ہیں اور یہی لوگ صالحین اور نیک کرداروں میں ہیں۔
(4) سورہ توبہ میں  ارشادفرماتا ہے :{ التائبون الحامدون السئحون الراکعونالامروبالمعروف والناھون عن المنکر والحٰفظون لحدوداللہ وبشرالمؤمنین}22.یہ لوگ توبہ کرنے والے،عبادت کرنے والے،حمد پروردگار کرنے والے،راہ خدا مین سفر کرنے والے،رکوع کرنے والے،سجدہ کرنے والے،نیکیوں کا حکم دینے والے،برائیوں سے روکنے والے اور حدود الہیہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اے پیغمبر آپ انہیں جنت کی بشارت دیدیں۔
(5)ایک اور مقام پر  ارشاد  ہوتاہے :{فلو لاکان من القرون من قبلکم اولوبقیۃ ینھون عن الفسادفی الارض الاقلیلاممن انجینامنھم}23۔تو تمہارے پہلے والے زمانون اور نسلوں مین ایسے صاحبان عقل کیوں نہیں پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے علاوہ ان چند افراد کے جنہیں ہم نے نجات دیدی۔
(6)اسی طرح  ارشاد  رب العزت ہوتاہے :{ کانوا لا یتناہون عن منکرفعلوہ لبئس ماکانویفعلون}24۔انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے۔
سیدا لشہدؑ ا خو د کو تمام احکام اسلامی خصوصامنکرات اور فحشاء کے مقابلہ میں ذمہ دار سمجھتے تھے جبکہ اسلامی معاشرہ فسق و فجور اور فساد سے بھر چکا تھاخاص کر یزید کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک ہادی، مصلح اور منادی کی قیام کی ضرورت دو چند ان ہو گئی تھی لہذا آپ نے اس فریضہ کے انجام دہی کے لئے قیام فرمایا ۔

5۔حکومت اسلامی کا قیام
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے  اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کا قیام تھا یا نہیں۔ اس حوالے سے دو نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ بعض افراد کا عقیدہ ہے کہ آپ کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کوتشکیل دینا تھا ۔بعض افراد  کے عقیدہ کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں یہ ہدف نہیں ہو سکتی کیونکہ تاریخی شواہد اوربہت ساری روایات کے مطابق امام حسین علیہ السلام اپنی اوراپنے اعوان و انصار کی شہادت کے بارے میں پہلے سے ہی مطلع  و آگاہ تھے۔ لہذا تشکیل حکومت آپ کے اہداف میں سے نہیں ہو سکتا۔
‏ ‏امام خمینی  رح کے کلمات میں یہ دونوں باتیں جمع نظر آتی ہیں۔ یعنی آپ اپنی اوراپنے اصحاب کی شہادت سے آگاہ تھے اور ساتھ ساتھ آپ کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کی تشکیل اورظالم و جابر حکومت کا خاتمہ تھا۔امام خمینی رح فرماتے ہیں : امام حسین علیہ السلام  نے اپنا شرعی وظیفہ سمجھا کہ اس ظالم  حکومت کے خلاف قیام کرے یہاں تک کہ اسی راہ میں شہید ہو جائے۔ آپ  نے  بھی  سب کچھ اسی راہ میں  قربان کیا تاکہ یہ حکومت ہمیشہ کے لئے ذلیل اوررسوا ہو۔  

امام خمینی رح فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ایک جابر حکومت اسلامی معاشرے پر قابض ہے تو آپ نے اس شرائط میں اپنی شرعی ذمہ داری کو تشخیص دیتے ہوئے قیام فرمایا درحالیکہ آپ جانتے تھے کہ  ایک قلیل گروہ اس ظالم حکومت  کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔25
بنابریں مندرجہ بالا  عبارات میں تین نکات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
۱۔ متعدد روایات کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام  اپنی شہادت سے آگاہ تھے۔
۲۔ ظاہری محاسبات سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ امام اورآپ کے انصار و اعوان اموی حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
۳۔ اسلامی معاشرے میں انحرفات اور برائیاں اس قدر پھیل چکی تھی کہ اس کی اصلاح کے لئے ایثار و فدا کاری اورشہادت کی ضرورت تھی۔
امام خمینی رح اسلامی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے فرماتے ہیں:اگر کوئی امام حسین علیہ السلام کے ان خطبات کا مطالعہ کریں جسے آپ نے مدینہ سے نکلتے وقت اور مکہ سے نکلتے وقت بیان فرمائے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ آپ حکومت ا سلامی کی تشکیل چاہتے تھے اور جن کا عقیدہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام  نےحکومت  کی  خاطر قیام نہیں فرمایا یہ صحیح نہیں ہے  بلکہ آپ نے حکومت  اسلامی کی خاطر قیام  فرمایا تھا  ۔ حکومت اسلامی اما م حسین علیہ السلام جیسی شخصیت کے ہاتھوں میں ہونا چائیے۔۔۔۔۔۔۔26


لیکن یہ سوال کہ امام حسین علیہ السلام کو اگر اپنی شہادت کا علم تھا  یا آپ جانتے تھے کہ ظاہری طور پر آپ کو شکست ہوگی اور آپ اسلامی حکومت تشکیل نہیں دےپائیں گے  یعنی  اس مقصد کے عدم حصول  کوبھی جانتے تھے  ۔۔۔  بنابریں اسلامی حکومت کی تشکیل  ایک انسان عاقل کا مطلوب و ہدف نہیں ہو سکتا؟

‏امام خمینی رح  کے کلمات میں غور و فکر کرنے سے  اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ یہ اشکال اس وقت صحیح ہے جب امام کا مقصد اپنے زمانے میں اسلامی حکومت کی تشکیل ہو لیکن اگر امام حسین علیہ السلام کا مقصد یہ ہو کہ مسلمان اس بات کو جان لین کہ اسلامی حکومت کی بھاگ دوڑ ایک صالح انسان اور ایک معصوم ہستی یا اس کے نمائندہ  کے ہاتھ میں ہونا چاہئے جیسے مسلم بن عقیل وغیرہ   اس  وقت یہ مسئلہ پیش نہیں آتا  اور جو کچھ امام  خمینی رح کے کلمات سے سمجھ میں آتا ہے وہ یہی ہے جیسا کہ فرمایا: یہ لوگ حکومت کی خاطر قیام کر چکے تھے اس کے بعد فرماتے ہیں : حکومت اسلامی کو حسین ابن علی علیہ السلام جیسی ہستی اوران کے پیروکاروں کے ہاتھو ں ہونا چاہئے۔

‏6۔ اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی حفاظت
عظیم انسانوں کے ارمان اوراہداف بھی عالی ہوا کرتی ہے ۔امام حسین علیہ السلام کی شخصیت صرف اس زمانے کے  انسانوں کےساتھ
مختص نہیں تھی بلکہ آپ کی شخصیت پوری انسانیت اورقیامت تک آنے والی نسلوں کے ساتھ مختص ہے۔آپ  پوری انسانیت کی فلاح ، بھلائی  اورخیر خواہی چا ہتے تھے  ۔ اور یہ سب دین مقدس اسلام کے مرہون منت ہی محقق ہو سکتی ہے۔

‏ امام خمینی رح فرماتے ہیں: اسی لئے امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک سبب اسلامی معارف کی نشر  اوراسلام کی حفاظت تھی۔ امام حسین علیہ السلام ،اسلام اورمسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے۔آپ چاہتے تھے کہ اسلام آپ کی فدا کاری اورایثار و شہادت کی بدولت دنیا کے تمام انسانوں کے درمیان  پھیل جائے اور اسلامی سیاسی و اجتماعی نظام ہمارے معاشرے میں  رائج ہو اس لئے آپ نے بنی امیہ کی مخالفت کی اورقیام فرمایا27

ایک اورمقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں :سید الشہدا  علیہ السلام  صرف  ثواب  کی حصول کے لئے اپنی جان کوقربان نہیں کیا بلکہ اس مقدس مکتب اور دین کو نجات دلانے  کی خاطراوراسے ایک دفعہ پھر زندہ کرنے کی خاطر اپنی جان کو اسلام پر قربان کیا۔28۔

امام خمینی رح ایک اورمقام پر فرماتے ہیں: امام حسین علیہ اسلام نے اسلام کو  اپنے اعمال کے ذریعےہمیشہ کے لئے حفظ  کیا۔جو اسلام  آج ہم تک پہنچا ہے وہ سید الشہدا علیہ السلام کی قربانی اوربچانے کی وجہ سے ہے۔آپ نے ان پاک جوانوں اورباوفا اصحاب کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کیا اور اپنی جانیں اسلام پر نچھا ور کر دی اوراسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کیا۔

اسی طرح آپ فرماتے ہیں :امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے اسلام کو زندہ کیا ۔آپ خود شہید ہوگئے لیکن مکتب اسلام اسی شہادت کی وجہ سے زندہ ہوگیا۔امام خمینی رح فرماتے ہیں:امام حسین علیہ السلام نے اپنے آپ اوراپنے سارے عزیز و اقارب کو اسلام پر قربان کیا اور یوں ان کی شہادت کے بعد اسلام بہت زیادہ طاقتور ہوا۔29۔

امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری حفظ دین اور حفظ قوانین اسلامی ہے اور سیدا لشہداء ؑ کورسول اللہ ؐاورحضرت علی ؑ نے تربیت دی تھی کہ اسلام کے علاوہ باقی سب کچھ بے فائدہ ہے اگر اسلام ہے تو سب کچھ ہے اگر دین نہیں تو کچھ بھی نہیں لہذا امام ؑ نے دین کو بچانے کے لئے قیام کیا اور عظیم قربانی دی آپؑ کی قربانی نے نہ صرف دین کو بچایا بلکہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بنا: "جاء الحق و زہق الباطل ان الباطل کان زہوقا"30۔
امام حسینؑ شہید ہوئے لیکن آپ ؑ نے اپنے بنی ہاشم ا ور اصحاب کے خون سے اسلام کی آبیاری کر کے دین کو بچا لیا اور باطل بھی مٹ گیا اس کے بعد کسی کو بھی اسلام کومٹانے کے لئے میدا ن میں آنے کی جرات نہ ہوئی اورامام ؑ عالی کاہدف اس عظیم انقلاب ،قیام اورقربانی کا حفظ دین اوربقاء دین کی بہترین دلیل آپؑ کے اپنے کلام اورفرمائشات ہے ۔جیسا کہ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایا :{انی لم اخرج اشراولا بطراولامفسداولاظالماانماخرجت لطب الاصلاح فی امتی جدی و اسیر بسیرت جدی وابی علی بن ابی طالب}ؑ

مدینے سے نکلنے لگے تو روضہ رسول پر تشریف لے گئے اوریوں دعا فرمائی : مالک اس وقت مجھے اپنی ذمہ داری کی طرف راہنمائی فرما ،تا کہ میں اس پر عمل کر سکو ں اور فرمایا :{اللہم ان ہذا قبر نبیک وانا ابن بنت نبیک} مکہ میں آپؑ نے جو خطبہ دیاجس میں اپنی شہادت کا ذکر کے ساتھ اس کے مقصد عظمیٰ اورہدف حقیقی کی طرف بھی اشارہ فرمایا اوراس کے علاوہ ابن عباس کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا : یہ لوگ کہیں مجھے رہنے نہیں دیں گے ۔بہر حال اسلام کلی طورپر خطرے میں تھا اور دشمن کا یہ آخری فیصلہ تھا کہ اسلام کو ختم کرے تو اما م ؑ نے یہ محسوس کیا جب تک قربانی نہیں دینگے دین نہیں بچ سکتا لہذا اپنے سارے کنبہ اور اصحاب کے ساتھ میدان کربلا میں آئے اورشہید ہوئے لیکن اسلام اورتوحید کو بچا لیا۔

7۔الہی ذمہ داری پر عمل کرنا
وظیفہ شناسی اوراپنی شرعی ذمہ داری  پر عمل کرنااعلی ترین اخلاقی و دینی  احساس  ہونے کی علامت ہے۔ اس احساس کو  پروان چڑھانے  کے لئے نفس کی بہت زیادہ  ریاضت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی احساس کے سایہ میں انسان کی روح پائیدار اور مضبوط ہو جاتی ہے۔ اپنے الہی وظائف کی انجام دہی  اوراس راستہ میں آنے والے جتنے ناگوار حوادث اور وقائع  کے ساتھ سختی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اس  کی راہ میں ناکامی ،نا امیدی   اورشکست  نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سخت سے سخت شرائط میں بھی  اپنے آپ کو کامیاب سمجھتا ہے کیونکہ وہ سوائے الہی وظیفہ کے کسی اورچیز کے بارے میں نہیں سوچتا۔
امام خمینی رح خود ایک عظیم انسان تھے جس نے اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوں کو یہ درس  دیا ۔اپنی گفتگو میں ہمیشہ اس بات کی تاکید کی اورہمیشہ لوگوں کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ انسان مومن سوائے الہی وظیفے کے کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی اسی مقصد کی خاطر قیام فرمایا یہاں تک کہ شہادت  جیسے عظیم رتبہ پر فائز ہوگئے۔
ایک اور مقام پر امام خمینی رح فرماتے ہیں: سید الشہدانےاپنا وظیفہ سمجھ کر اموی طاقت کے سامنے قیام فرمایا اورڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا چاہے جو کچھ بھی ہو جائے درحالیکہ  ظاہری اعتبار سے آپ جانتے تھےکہ قلیل تعداد ان  کے کثیر تعداد کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی آپ نے  اپنے الہی ذمہ داری پر عمل کیا۔امام خمینی رح فرماتے ہیں: امام حسین علیہ السلام کی شرعی ذمہ داری تھی کہ اموی حکومت کے خلاف قیام کرے اور اپنا خون اسلام پر قربان کرے تا کہ ملت کی اصلاح ہو۔

اسی طرح فرماتے ہیں :سید الشہداء نے اپنے  اہل بیت اور اصحاب و اعوان  کے ساتھ قیام فرمایا چونکہ یہ قیام اللہ کے لئے تھا اس لئے اس طاغوتی خبیث حکومت کا تختہ پلٹادیا۔جو اللہ کی راہ میں کام کرتا ہے اس کے لئے اس راہ میں شکست نہیں ہے اگرچہ وہ اس راہ میں مر جائے۔امام حسین علیہ السلام بھی شہید ہوگئے لیکن آج بھی زندہ  ہے۔31

بنی امیہ کے مردہ دل سیاستدان اس خیال میں تھے کہ حسین بن علی علیہ السلام کے بعد کام تمام ہو جائے گا ،لیکن زمانے کی گردش نے ان افراد کویہ بتا دیا کہ جس حسین علیہ السلام کو تم شہید کر چکے ہو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

حوالہ جات:
1۔ بحارالانوار،‌ج 43،‌ ص 261، حدیث اوّل.
2۔ سيد هاشم رسولي محلاتي، زندگاني امام حسين (ع)، دفتر نشر فرہنگي اسلامي، ص152.
3۔بحارالانوار، ج 45، ص 50۔
4۔ امام خمینی رح کی گفتگو میں تکرار سے بچنے کے لئے بعض الفاظ حذف کیا گیا ہے لیکن محتوی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔
5۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 29- 35.
6۔سیدبن طاووس، اللهوف، انتشاارت الرضی، قم، ص 10
7۔ملہوف (لہوف)، ص 99 و بحارالانوار، ج 1، ص 184.
8۔سورہ حدید، آیۃ 25 ۔
9۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س) ص 37 و 41.
10۔ بحارالانوار: 44 / 331، مقتل المقرم  /  156۔
۱۰۔تحف العقول، انتشارات بصیرتی، قم، ص 170۔
11۔فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س) . ص 33 -42 ۔
12۔ تحف العقول، ص 174، بلاغة الحسین(ع)، ص 158.
۱13۔نہج البلاغۃ، خطبۃ 3، «اخذالله علی العلماء ان لا یقاروا علی کظۃ ظالم و لا سغب مظلوم».
14۔ نہج البلاغۃ، نامہ 53، فراز 57، «ان افضل قرۃ عین الولاہ، استقامہ العدل فی البلاد».
15۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 33، 38، 39.
16۔لہوف، ص 10.
17۔تحف العقول، ص 168
18۔ مدرک قبل، ص 174، بلاغہ الحسین(ع)، ص 157
19۔ سورہ آل عمران ، آیت۱۰۴ ۔
20۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۱۰ ۔
22۔ سورہ  آل عمران ، آیت ۱۱۴ ۔
23۔ سورہ توبہ  آیت ۱۱۲۔
24۔ سورہ ہود ، آیت ۱۱۶۔
24۔ سورہ مائدہ ،آیت ۷۹ ۔
25۔ فرہنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 40-41.
26۔ایضا، ص 39، 41
27۔ایضا، ص 40-41
28۔ ایضا، ص 42
29ایضا، ص 52 -50
30۔ اسراء؍ ۸۱۔
31۔ ایضا، ص 48 -49۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل)  قرآن تمام مذاہب اسلامی کا مشترکہ منبع ہے جو سب کے نزدیک قابل قبول اور قابل احترام ہے ۔شیعہ امامیہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے قرآن کریم کو پہلا اور اہم ترین منبع سمجھتا ہے جو عقائد ،معارف اور احکام کا سر چشمہ ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{ان الله تبارک و تعالی انزل فی القرآن تبیان کل شی حتی والله ، ماترک الله شیاءً یحتاج الیہ العباد حتی لا یستطیع عبد یقول لو کان هذا انزل فی القرآن ، الا و قد انزلہ الله فیہ}1۔اللہ تعالی نے ہر شےٴ کو قرآن کریم میں بیان کیاہے اور جس چیز کے بندے محتاج تھے ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑا ۔کوئی یہ  کہنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ یہ چیز بھی قرآن کریم میں نازل کی جاتی ، آگاہ ہو کہ خدا نے قرآن کریم میں اس کو ضرور نازل کیا ہے۔ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں:{ما من امر یختلف فیہ اثنان الا و لہ اصل فی کتاب الله عزوجل ، و لکن لا تبلغہ عقول الرجال}2 ۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس میں دو آدمی اختلاف کریں اور اس کےبارےمیں قرآن میں حکم نہ ہو لیکن لوگوں کی عقلیں ان تک نہیں پہنچتیں ۔لہذا قرآن کریم کی تفسیر کے لئے ایک توانمند مفسر کی ضرورت ہے جو حقائق قرآن کو جانتا ہو ۔

آئمہ اہلبیت علیہم السلام کی نظر میں قرآن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ احادیث کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ وہ قرآن کریم کے مطابق ہو اور اگر کوئی حدیث قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو وہ مردود ہے ۔جیسا کہ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: {ما وافق کتاب الله فخذوہ و ما خالف کتاب الله فدعوہ}3۔جو حدیث کتاب خدا کے موافق ہو اسے لے لو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ؑفرماتے ہیں :{ما لم یوافق من الحدیث القرآن فہو زخرف}4۔جو حدیث قرآن کریم کے موافق نہ ہو وہ باطل ہے ۔
کتب آسمانی میں دو طرح کی تحریف ممکن ہے ایک تحریف لفظی اور دوسرا تحریف معنوی ۔تحریف لفظی سے مراد آسمانی کتابوں کی آیتوں اور عبارتوں میں کمی و بیشی کرنا ہے جبکہ تحریف معنوی سے مراد آسمانی کتابوں کی آیتوں اور عبارتوں کی غلط تفسیر و تاویل کرنا جسے اصطلاح میں تفسیر بالرائے کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیتوں میں اضافہ نہ ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔شیعوں کی اکثریت کا نظریہ ہے کہ قرآن کریم میں تحریف لفظی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا اور مسلمانوں کے درمیان موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو خدا وندمتعال نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا تھا۔

شیعہ امامیہ کے بزرگ علماء، متکلمین،مفسرین اور فقہاء ۵نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے قدیم زمانے سے آج تک قرآن مجید کے تحریف سے محفوظ ہونے کی وضاحت کی ہے ان میں سے مندرجہ ذیل شخصیتوں کانام لیا جاسکتا ہے ۔  جیسے شیخ صدوق، شیخ مفید، سید مرتضی ،شیخ طوسی ، امین الاسلام طبرسی ، علامہ حلی،محقق کرکی، شیخ بہائی ، ملا محسن فیض کاشانی ،شیخ جعفر کاشف الغطا،شیخ محمدحسین کاشف الغطا،علامہ سید محسن امین ، شرف الدین عاملی ،علامہ امینی ، علامہ طباطبائی،امام خمینی اور آیت اللہ خوئی وغیرہ نے قرآن کریم کے تحریف سے محفوط ہونے{ اعم از کمی وبیشی}کی تصریح کی ہے ۔

شیخ صدوق اپنی کتاب اعتقادات میں تحریر فرماتے ہیں :ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن وہی ہے جو مسلمانوں کے درمیان موجود ہے اور اس سے زیادہ نہیں ہے اور جو ہماری طرف یہ منسوب کرتا ہے کہ ہم اس سے زیادہ والےقرآن کو مانتے ہیں وہ جھوٹا ہے ۔6۔امام خمینی ؒاس بارے میں لکھتے ہیں : جو بھی قرآن کریم کی حفظ ،قرائت ،کتابت اور نگہداری کے بارے میں مسلمانوں کی خصوصی توجہ اور اہتمام سے آشنا ہو وہ تحریف کے غلط خیال سے آگاہ ہو سکتا ہےکیونکہ جن روایتوں سے قرآن کریم کے تحریف ہونے کو ثابت کیا جاتاہے یا سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جس کی وجہ سے ان سے استد لال نہیں کیا جا سکتا یا  یہ جعلی اور گھڑی ہوئی ہیں۔ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مل بھی جائے تو وہ قرآن کریم کی تاویل اور تفسیر میں تحریف ہونے کو بیان کرتی ہے نہ کہ تحریف لفظی کو ۔7۔ امام خمینی کی عبارت میں دو چیزوں پر خصوصی توجہ ہوئی ہے ،ایک یہ کہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے اوردوسرا  تحریف قرآن کے قائلین کے لئےجواب یہ ہے کہ مسلمان قرآن کریم کی حفاظت میں خصوصی اہتمام کرتے تھےیہاں تک کہ عصر خلفاء میں جمع و تدوین قرآن کے وقت جب عمر بن خطاب نے کسی آیت کو آیت رجم کے نام سے پیش کیا تو مسلمانوں نے اسے قبول نہیں کیا کیونکہ کسی نے بھی اس کی تائید نہیں کی 8۔ تحریف قرآن  کے منکرین ہمیشہ اسی بات پر توجہ دلاتے رہے  جیسا کہ سید مرتضی  تحریرفرماتے ہیں :{ان العنایۃ اشتدت والدواعی توفرت علی نقلہ وحراستہ ..فکیف یجوز ان یکون مغیرا او منقوصا مع العنایۃ الصادقۃو الضبط الشدید}9۔مسلمان قرآن کریم کو نقل کرنے اور اس کی حفاظت میں خاص توجہ رکھتےتھے پس یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر شدیدمحبت اورسخت حفاظت کے ساتھ قرآن میں کمی وبیشی ہو ۔

 یہاں عدم تحریف قرآن کے بارے میں کچھ دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
1۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن مجید میں تحریف واقع ہو جائے جبکہ خداوند متعال نے خود اس کی حفاظت کی ضمانت لی ہے جیسا کہ ارشاد ہو تا ہے :{ إِنَّانحَنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَوَإِنَّا لہُ لحَافِظُون}10۔ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
2 ۔خداوند متعال نے قرآن کریم میں ہر قسم کے باطل کے داخل ہونے کی تردید کی ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{لَّایاْتِيہِ الْبَاطِلُ مِن بَين يَدَيْہِ وَ لَا مِنْ خَلْفہ تَنزِيلٌ مِّنْ حَکِيمٍ حَمِيد}11۔اس کے قریب ،سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم وحمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔ خداوند متعال نےقرآن مجید میں جس باطل کے داخل ہونے کی تردیدکی ہے اس کا مطلب اس قسم کا باطل ہے جو قرآن کی توہین کا باعث بنے چونکہ قرآن کے الفاظ میں کمی و بیشی کرنا اس کی بے احترامی و توہین ہے لہذا اس مقدس کتاب میں ہر گز کسی قسم کی کمی یازیادتی واقع نہیں ہوتی ہے ۔
3۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان قرآن کی تعلیم اوراس کو حفظ کرنے میں انتہائی دلچسپی دکھاتے تھے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں عربوں کے درمیان ایسے قوی حافظ موجود تھے جو صرف ایک بار طولانی خطبہ سننے کے بعد اسے یاد کر لیتے تھے ،اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے قاریوں کے ہوتے ہوئے قرآن مجید  میں کسی قسم کی تحریف ہوئی ہو ۔
4۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی علیہ السلام چند مسائل میں خلفاء سے اختلاف نظر رکھتے تھے اور اپنی مخالفت کو مختلف مواقع پر منطقی طور سے ظاہر بھی کرتے تھے جس کا ایک نمونہ خطبہ شقشقیہ اور ان کے دفاعیات ہیں ۔اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ اسلام نے
اپنی پوری زندگی میں ایک حرف بھی تحریف قرآن کے بارے میں نہیں فرمایا ہے اگر نعوذاباللہ قرآن مجید میں تحریف ہوتی تو آپ علیہ السلام کسی بھی صورت خاموش نہ رہتے اس کے بر عکس آپ علیہ السلام ہر وقت قرآن میں تدبر کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔12۔
تحریف قرآن کے قائلین کچھ حدیثوں سے استدلال کرتےہیں جو ظاہراً ان کے نظریہ پر دلالت کرتی ہے لیکن ان کا جواب یہ ہے کہ
 اولا:یہ حدیثیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں جس کی وجہ سے ان سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
ثانیا:یہ احادیث جعلی یا گھڑی ہوئی ہیں ۔
ثالثا :اگر کوئی صحیح حدیث بھی ہوتو وہ قابل توجیہ و تاویل ہے کیونکہ یہ تحریف معنوی کو بیان کرتی ہیں ۔اس حقیقت کوجو شیعوں کی اکثریت کا نظریہ ہے اہل سنت محققین نے بھی بیان کیا ہے ۔اور وہ مذہب شیعہ کو تحریف قرآن جیسے اتہامات سے مبراء اور منزاء سمجھتے ہیں ۔ شیخ رحمت اللہ ہندی اپنی اہم کتاب اظہار الحق میں تحریر کرتے ہیں :علماء شیعہ کی اکثریت کا نظریہ ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کی تحریفات سے محفوظ ہے اور جو لوگ قرآن کریم میں کمی کا نظریہ رکھتے ہیں اس کو وہ غلط سمجھتے ہیں۔13۔
شیخ محمد مدنی لکھتےہیں :شیعہ قرآن کریم کی آیات یا کسی سورے میں کمی ہونے کے قائل نہیں ہیں اگرچہ اس طرح کی روایتیں ان کی احادیث کی کتابوں میں اسی طرح ہیں جس طرح ہماری کتابوں میں ہیں لیکن شیعہ و سنی محققین ان حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتے اور جو بھی سیوطی کی اتقان کا مطالعہ کرے اسے اس طرح کی روایات ملیں گے جن کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔شیعوں  کے نامور علماء قرآن مجید کے تحریف سے مربوط روایات کو باطل اورغلط سمجھتے ہیں ۔14۔
بنابرین اگر کوئی ان روایتوں کے مطابق تحریف قرآن کے قائل ہوں تو ان کی باتوں کو ان کے  مذہب کے عقیدے کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہیے ۔وہابی  اورتکفیری گروہ ہمیشہ شیعوں کی طرف تحریف قرآن کی نسبت دیتے ہیں اور ہمیشہ انہیں باتوں کے ذریعےعام لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ لوگ قرآن کریم کے عدم تحریف پر موجودشیعہ علماء کے صریح اقوال سے چشم پوشی کرتے ہوئے انصاف کے راستے سےخارج ہو کر دشمنی کے راستے کو طے کرتے ہیں۔15۔

 

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

 

 

حوالہ جات:
1۔صول کافی ،ج1، باب ،الرد الی الکتاب السنۃ ،حدیث 1۔
2۔اصول کافی ،ج1 ،باب ،الرد الی الکتاب السنۃ ،حدیث 6 ،ص60۔
3۔اصول کافی ،ج1 ،باب ،الاخذ  بالسنۃ و شواہد الکتاب،ج1 ۔
4۔صول کافی ،ج1، باب ،الاخذ  بالسنۃ و شواہد الکتاب،ج1 ،حدیث 4۔
5۔عقائد امامیہ ،آیۃاللہ جعفر سبحانی، ص204۔
6۔الاعتقادات فی دین الامامیہ،ص 59۔
7۔تہذیب الاصول ،ج2،ص 165۔
8۔سیوطی ،الاتقان فی علوم القرآن ،ج1 ،ص 244۔
9۔جمع البیان،ص15۔
10۔حجر۔ 9
11۔فصلت :42
12۔عقائد امامیہ ،آیۃاللہ جعفر سبحانی ،ص 207 – 208۔
13۔الفصول المہمۃ،ص 175۔
14۔صیانۃ القرآن من التحریف ،ص84۔مجلہ رسالۃ الاسلام کے نقل کے مطابق ،چاپ قاہرۃ ،شمارہ 44۔ ص 382۔
15۔ مراجعہ کریں: المیزان فی تفسیر القرآن ،ج12 ،ص 114۔ البیان فی تفسیر القرآن، ص 197 – 235۔آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن ،ص 17 – 29۔

وحدت نیوز (آرٹیکل)  لغت میں اعتکاف سے کسی جگہ توقف کرنے کو کہا جاتا ہے۔فقہی اصطلاح میں اعتکاف سے مراد انسان کا عبادت خداوندی کی قصد سے  مسجد میں کم از کم تین دن تک بیٹھنا ہے۔ اعتکاف کے لئے شریعت میں کوئی خاص وقت معین نہیں لیکن احادیث کے مطابق اس کا بہترین وقت ماہ مبارک رمضان اور خاص طور پر اس مہینے کے آخری دس دن ہیں۔ اعتکاف اگرچہ ایک مستحب عمل ہے لیکن دو دن معتکف رہنے کے بعد تیسرے دن کا اعتکاف واجب ہوگا۔ رمضان المبارک کا مہینہ رحمت، برکت اور مغفرت کا مہینہ ہے۔اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کاہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : {عَنِ النَّبِيِّ (ص) قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّۃ بَابًا يُقَالُ لہ: الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْہ الصائمونَ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ لا يَدْخُلُ مِنْہُ أَحَدٌ غَيْرُہُمْ۔۔ }1۔جنت کے ایک دروازے کا نام ریان ہے اورقیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی  جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کسی دوسرے کو اس دروازے سے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ انسان کی خلقت کا ہدف عبودیت اور بندگی ہے اور اعتکاف اس ہدف کے حصول کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے جس کا خداوند نے قرآن کریم میں اور خاصانِ خدا نے احادیث اور اپنے اعمال و کردار میں تعارف کروایا ہے۔ اعتکاف ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنی فطرت کے نزدیک تر ہوتا ہے اور پھر منزل اخلاص پر فائز ہوکر خداوند منان کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب  و کامران ہو جاتا ہے۔اعتکاف کی روح اورحقیقت یہ ہے کہ انسان ہرکام ،مشغلہ ،کاروباراور اہل وعیال کوچھوڑکراللہ کے گھرمیں گوشہ نشین ہو جائیں اورساراوقت اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی اور اس کے ذکر میں گزاریں۔ اعتکاف کی حقیقت توجہ اور حضورِ قلب ہے۔عبادت خواہ نماز یا روزہ ہو، خواہ اعتکاف، روح عبادت توجہ اور حضور قلب کی برکت سے نصیب ہوتی ہے۔ متدین اور دیندار افراد کے لئے خدا سے ارتباط قائم کرنے کے اہم طریقوں  میں سے ایک طریقہ یہی اعتکاف ہے ۔ اعتکاف انسان ساز ہے ، اور جو انسان بن جاتا ہے وہ اجتماع کو بناتا ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:{لا یزال المؤمن فی صلوٰۃ ما کان فی ذکر اللہ عزوجل قائماً کان او جالساً او مضطجعاً }2۔ مؤمن ہمیشہ نماز میں (شمار ہوتا)ہے جب تک وہ اللہ عزوجل کی یاد و ذکر میں رہے چاہے کھڑا ہو یا بیٹھا ہو یا لیٹا ہوا ہو۔ اعتکاف کاثمرہ بھی یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ اوراس کی بندگی کودنیاکی ہرچیز پرفوقیت اورترجیح دے۔

اعتکاف اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی بجالانے کاایک ایسامنفرد طریقہ ہے جس میں مسلمان دنیا سے بالکل لاتعلق اورالگ تھلگ ہوکراللہ تعالیٰ کے گھرمیں فقط اس کی ذات میں متوجہ اورمستغرق ہوجاتاہے۔ اعتکاف کی تاریخ بہت قدیم ہے۔قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کاذکربھی بیان ہوا ہے۔ارشادِخداوندی ہے:{وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَیٰ إِبْرَاہِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَہِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاکِفِينَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ}3۔اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے خانہ کعبہ کو ثواب اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ اور ابراہیم علیہ السّلام و اسماعیل علیہ السّلام سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوں او ر رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنائے رکھو۔
اعتکاف کے عبادی مراسم فقط دین اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام آسمانی والہٰی ادیان میں یہ عبادت موجود رہی ہے۔ بحار الانوار میں منقول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد بیت المقدس میں ایک سال،دوسال،ایک ماہ،دوماہ،کم و بیش اعتکاف میں رہتے تھے۔4۔ علامہ طباطبائی نقل کرتے ہیں کہ :حضرت مریم سلام اللہ علیہا اعتکاف کی خاطر لوگوں سے دور رہتی تھیں۔5
اسی طرح سے دیگر انبیاء واولیاء کے بارے میں بھی یہ ذکر موجود ہے۔ حضرت محمد مصطفيٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اعتکاف جیسی شیرین عبادت کے تذکرے موجود ہیں۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک رمضان کے پہلے عشرے میں معتکف ہوتے تھے،کبھی دوسرے عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے اور پھر تیسرے عشرے میں؛اور بعدازاں حضور کی سنت و سیرت یہی رہی کہ ماہ رمضان المبارک کے تیسرے عشرے میں معتکف رہتے تھے۔

اعتکاف کی فضیلت کے لئےیہی کافی ہے کہ قرآن کی آیات اورخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایات میں اعتکا ف کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:{اعتکاف عشر فی شھر رمضان تعدل حجتین و عمرتین } 6۔ماہ رمضان کے ایک عشرہ میں اعتکاف کرنا (چاہے وہ پہلے عشرہ میں ہو یا دوسرے میں یاتیسرے عشرہ میں ہو) دو حج اور دو عمروں کے برابر ہے
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں{عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّیّ اللہ علیہ وَسَلَّمَ قَالَ۔۔ مَنِ اعْتَکف يَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْہِ اللہ تَعَالٰی جَعَلَ اللہ  ُ بَيْنَہُ وَبَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ}7۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کیلیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہےتو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:{عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہ ِ صَلَّی اللّہ ُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْمُعْتَکِفِ ہُوَ یَعْکِفُ الذُّنُوبَ، وَيَجْرِيْ لَہُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّہَا}8۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی رہتی ہیں جیسے وہ ان کو خود کرتا رہا ہو۔

اسی طرح  ایک اور مقام پرارشاد فرماتے ہیں:{مَنِ اعْتَکَفَ اِیْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ}9۔جس نے اللہ کی رضا کیلیے ایمان و اخلاص کے ساتھ اعتکاف کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اعتکاف کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ اگر کسی سال کسی وجہ سے اس مستحبی عبادت کو انجام نہیں دیتے تھے تو اگلے سال ماہ مبارک رمضان میں دو عشروں میں اعتکاف کرتے تھے ،ایک عشرہ اسی سال کے لئے اور ایک عشرہ قضاء کے عنوان سے اعتکاف کرتے تھے ۔عن ابی عبداللہ (علیہ السلام) قال : کانت بدر فی شھر رمضان فلم یعتکف رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ)فلما ان کان من قابل اعتکف عشرین عشرا لعامہ و عشرا قضاء لما فاتہ }10۔

امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:{اعتکف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فی شھر رمضان فی العشر الاولی ،ثم اعتکف فی الثانیۃ
فی العشر الوسطی ، ثم اعتکف فی الثالثۃ فی العشر الاواخر ،ثم لم یزل یعتکف فی العشر الاواخر} ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کئی برس ماہ رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے ، اگلے سال ماہ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اورتیسرے سال ماہ رمضان کے تیسرے عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے ۔ اور آخری برسوں میں ہمیشہ ماہ مبارک رمضان کے تیسرے عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے ۔11۔

ہر عبادت کی طرح اعتکاف کی صحت و قبولیت کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں۔جیسے:ایمان،عقل،قدرت اور اس کے علاوہ دیگر شرائط میں قصد قربت(نیت)،روزہ،تین دن روزہ دار ہونا،مسجد جامع یا مساجد چہارگانہ میں سے کسی ایک میں ہونا،بغیر کسی عذر شرعی یا ضرورت شرعی کے باہر نہ نکلنا،مسلسل مقامِ اعتکاف میں رہنا،زوجہ شوہر کی اجازت کے ساتھ اورفرزندان  والدین کی اجازت کے ساتھ ہی معتکف ہو نا ۔ اعتکاف کے دوران دنیاداری اورغیر معنوی اشعار سے پرہیز کرنا چاہیے اور اسی طرح ہر وکام جو اعتکاف کے مقدس اہداف کے حصول میں مانع اور رکاوٹ بن سکے اس کو ترک کردینا چاہیے ۔انسان کو زیادہ سے زیادہ  وقت ذکر، صلوات ، دعاؤں،اور تلاوت قرآن کریم میں بسر کرنا چاہیے تاکہ جب معتکف اعتکاف ختم ہو جانے کے بعد مسجد سے باہر آئے تو اس کا ان تمام معنوی امور کے ساتھ اُنس اور دلی لگاؤ بہت زیادہ ہوچکا ہو۔


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل)  وہ بابصیرت خاتون جو عام الفیل سے 15سال قبل اور ہجرت سے 68 سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئیں ۔ وہ یکتا پرست خاتون جو اسلام سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت میں بھی آسمانی کتابوں پر اعتقاد رکھتی تھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں۔ وہ اپنے تجارتی کاروان کو دور دراز ممالک کی طرف روانہ کرتے وقت کعبہ میں جاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خدا سے اپنی تجارت میں برکت حاصل ہونے کی دعا کرتی تھیں۔ وہ با اخلاق خاتون جن کی توصیف عصر جاہلیت میں حضرت ابو طالب اس طرح  سےکرتے ہیں :{ انّ خديجۃَ اِمْرَأَۃکاٌ كمِلَۃٌ مَيمُونۃٌ فاضِلَۃٌ تَخْشَي العار و تَحْذِرُ الشَّنار}1۔بے شک خدیجہ ایک کامل پربرکت اورفاضلہ عورت ہے جو ہر قسم کی ننگ و عار اوربد نامی سے دور ہے۔


وہ خوبصورت خاتون کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام تمام تر کمالات کے باوجوداپنے آپ کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شبیہ قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں :{۔۔وَ کُنْتُ أَنَا أَشْبَہَ اَلنَّاسِ بِخَدِيجَۃَ اَلْکُبْرَی} 2۔ میں خدیجہ کبری سے سب سے زیادہ شباہت رکھنے والاہوں۔ وہ پاکیزہ خاتون جس کی پاکدامنی کی وجہ سےایام جاہلیت میں ہی آپ کو طاہرہ کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ وہ عظیم خاتون جس نے سب سے پہلےرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ادا کی۔ وہ پارسا خاتون جس کی ایمان کی گواہی حضرت علی علیہ السلام دیتے ہوئے  فرماتے ہیں :{لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول الله وخدیجہ واناثالثھا} 3۔ جب روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خدیجہ پر مشتمل تھا اورتیسرا فرد میں تھا۔
وہ مالدار خاتون جوتجارت کرتی تھیں اور اپنے سرمایہ کو مضاربہ اور لوگوں کو تجارت کے لئے استخدام کرنے میں استعمال کرتی تھیں۔ وہ شریف خاتون جس کے لئےخداوند نے خیر اور کرامت کو مدنظر رکھاجو نسب کے لحاظ سے عرب کے ایک متوسط گھرانے سے متعلق تھیں لیکن عظیم شرافت اور دولت کی مالک تھیں۔

وہ پاک طینت خاتون جن کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں۔ ـ
وہ نجیب خاتون جونوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں۔

وہ پاک دامن خاتون جس نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کرکے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اور یوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتادی۔

وہ عفیف خاتون تھیں جنہیں ایسے شوہر کی تلاش تھی جو متقی اور پرہیزگار ہو جب ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب میسرہ  غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو بتائے تو ان کے دل میں امین قریش کیلئے جذبہ محبت والفت بڑھ گیا البتہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذاتی

کمالات اور اخلاقی فضائل تھے۔

وہ باکردار خاتون جس نے خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کا پیغام بھیجا اوراس کا فلسفہ کچھ اس طرح بیان فرمایا: اے میرے چچا زاد بھائی چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف ،دیانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری جانب مائل ہوئی ہوں {اور شادی کے لئے پیغام بھیجا ہے}

وہ  ملیکۃ العرب جن کے بارے میں شیعہ و سنی مورخین کی ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے {ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصفہانی، ابو القاسم کوفی، احمد بلاذری، علم الہدی سید مرتضی کتاب شافی اورشیخ طوسی کتاب تلخیص شافی } کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا

کنواری تھیں اور اس سے پہلے ان کا کوئی شوہر نہیں تھا۔4

وہ دور اندیش خاتون جو ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالکہ ہونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور انسانی فضائل و صفات کو ہرگز نہیں چھوڑا۔

وہ نیک خاتون جس نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت کو قربان کر گئیں اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔
وہ سخی خاتون جس نے اپنی ساری دولت رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخش دی لیکن یہ محسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اپنی دولت آپ کو بخش رہی ہیں بلکہ محسوس کر رہی تھیں کہ اللہ تعالی جو ہدایت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دوستی کی وجہ سے، آپ کو عطا کر رہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر

فوقیت رکھتی ہے۔

وہ کریم خاتون جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: {ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجۃ}5۔کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ (س) کی دولت نے پہنچایا۔

وہ نیک خاتون جو اسلامی تاریخ کی بہت بہترین عورتوں میں سے ایک تھیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ دنیا میں چار بہترین عورتیں گزری ہیں۔1۔ خدیجہ بنت خویلد 2۔فاطمہ بنت محمد3۔ مریم بنت عمران  4۔ آسیہ بنت مزاحم

وہ باوفا خاتون جس کے بارے میں عائشہ کے اس بیان پر{کہ یا رسول اللہ خدیجہ ایک ضعیفہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی جو مرگئی اور خدا نے آپ کو اس سے برتر عطا کردی ہے }رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ و سلم غضبناک ہو کر  فرمایا : {لاوالله ماابد لنی اللہ خیر امنھااٰمنت بی اذکفر الناس وصدقتنی اذکذبنی الناس وواستنی

بھالھااذحرمنی الناس ورزقنی منھاالله ولدادون غیرھامن النساء}6۔خدا کی قسم خدانے مجھے اس سے بہتر عطانھیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ہوئے تھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلارہے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر

چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطافرمائی اورمیری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیا۔

وہ بافضیلت خاتون جس کے لئے خداوند متعال نے اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہے ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:{ قال لي جبرائيل:بشّر خديجۃ ببيت في الجنۃ من قصب لا صخب فيہ و لا نصب فيہ۔يعني قصب الزمرد } جبرئیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ خدیجہ تمہارے لیے بہشت میں ایک قصر ہے اور وہ

قصر زمرد کا بنا ہوا ہے ۔7

وہ جانثار خاتون جس کی اور حضرت ابو طالب علیہما السلام کی جدائی پر رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیااور یہ مصیبت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لئے اتنی سخت تھی کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم خانہ نشین ہو گئے ۔

وہ باحیاء خاتون جو جب تک زندہ رہیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان و سکون کا سبب بنی رہیں۔ دن بھر کی تبلیغ سے تھک کر اور کفار کی ایذا رسانیوں سے شکستہ دل ہوکر جب رسول خدا  صلی الله علیہ وآلہ وسلم گھر میں قدم رکھتے  تو جناب خدیجہ کی ایک محبت آمیز مسکراہٹ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم

کے مرجھائے ہوئے چر ے کو پھر سے ماہ تمام بنا دیا کرتی تھی۔

وہ پرہیز گار خاتون جس نے اسلام اور رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے عجین کیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹھہریں جس میں کہا گیا ہے کہ: {الایمَانُ مَعْرِفَۃٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالاَرْکَانِ} 8۔ ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے۔

وہ باکمال  خاتون جن نے مکہ کی عورتوں کے طعنہ زنی اور ان کےمذاق {کہ انھوں نے کیوں عبداللہ کے یتیم کے ساتھ شادی کی} کے جواب میں بڑی متانت سے فرمایا:کیا آپ لوگ پوری سرزمین عرب میں محمد {ص} جیسے نیک، پسندیدہ خصلت والے اور شرافت  کے مالک کسی دوسرے شخص کو پیدا کرسکتی ہیں؟

وہ اطاعت گذارخاتون  جورسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی من و عن اطاعت کرتی تھیں اور انھیں عملی جامہ پہناتی تھیں۔جن کی وجہ سے آپ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی حیات میں دوسری شادی نہیں کی اور ان  کی وفات کے بعد بھی انہیں فراموش نہ کرسکے اور ان کی نیکیوں کا ذکر فرماتے

رہتےتھے۔

وہ عظمت والی خاتون جنہیں جنت کے جوانوں کے سردار کی نانی بننے کی شرف حاصل ہوئی۔ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم } نے مسجد میں حسن اور حسین { علیہما السلام} کی شان میں فرمایا{:ایھا الناس الا اخبرکم بخیر الناس جدا و جدہ؟} اے لوگو؛ کیا میں تمھیں خبر دے دوں کہ نانا اور نانی کے لحاظ سے کون بہترین

انسان ہیں؟ لوگون نےعرض کی: جی ہاں، یا رسول اللہ ہمیں خبر دیجئے؛ آنحضرت {ص} نے فرمایا:{الحسن و الحسین جدہما رسول اللہ و جد تہما خدیجہ بنت خویلد}9۔وہ حسن و حسین علیہما السلام ہیں کہ ان کے نانا رسول خدا اور ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں۔

وہ بلند مرتبہ خاتون جن کے بارے ائمہ اطہار علیہم السلام فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے، اور ان کو عزت و احترام سے یاد کرتے تھے۔ حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام معاویہ سے مناظرہ کرتے ہوئے اپنی سعادت و خوش قسمتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: معاویہ؛ چونکہ تمھاری ماں " ہند" اور دادی" نثیلہ"

ہے { اور تم نے اس قسم کی پست اور کمینہ عورتوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے} اس لئے تم اس قسم کے برے اور نا پسند اعمال کے مرتکب ہو رہے ہو۔ میرے خاندان کی سعادت، ایسی ماوں کی آغوش میں تربیت پانے کی
وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہما جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن اپنے آپ کو دشمن کے سامنے متعارف کراتے ہوئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:{ أَنْشُدُکُمُ اللّہ َ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدَّتِي خَدِيجَۃُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أَوَّلُ نِسَاءِ ہَذِہِ الاُمَّۃِ إِسْلَاماً قَالُوا اللَّہُمَّ نَعَمْ10{۔ تمھیں خدا کی قسم کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ میری نانی خدیجہ {س} بنت خویلد اس امت کی پہلی خاتون نہیں کہ

جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے؟

امام سجاد علیہ السلام دمشق میں دربار یزید میں شام کے سرداروں اور بزرگوں کے سامنے اپنے مشہور خطبہ میں اپنا تعارف یوں کرتا ہے: {انا بن خدیجۃ الکبری}11۔میں اسلام کی باعظمت خاتون حضرت خدیجہ کبری {س} کا بیٹا ہوں۔

وہ خوش قسمت خاتون جن کی کفن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عباتھی۔آپ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلا فرمایا:" اے میری نور چشم ؛ اپنے باپ، رسول خدا سے کہدو کہ میری ماں کہتی ہیں کہ: میں تدفین کے مراسم کے بارے میں آپ {ص} سے درخواست کر رہی ہوں کہ مجھے اپنی اس عبا کا کفن دے

کر قبر میں دفن کرنا جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کے زیب تن ہوتی ہے۔حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  نےاس بات کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ پیغمبر  خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عبا کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لئے بھیجا اور وہ خوش ہو گئیں۔12

وہ مہربان خاتون جن کی رحلت کے وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بالین پر بیٹھ کر رو رہے تھے۔ اچانک جبرئیل بہشت سے ایک کفن لے کر حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی: یا رسول اللہ خداوند متعال نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خدیجہ نے اپنے مال کو

ہماری راہ میں صرف کیا ہے ہمیں حق ہے کہ ان کے کفن کی ذمہ داری خود سنبھا لیں۔

وہ  مومنہ خاتون جنہیں خداوند متعال اورجبریل امین سلام بھیجتا ہے۔ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ پیامبر خداصلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میں نے معراج کی شب جبرائیل سے پوچھا کہ کیا کوئی حاجت رکھتے ہو ؟جبرئیل امین نے کہا :{حاجتي أن تقرأ علی خديجۃ من الله و مني السلام}میں چاہتا ہوں کہ خدا اور میری طرف

سے خدیجہ کو سلام کہئے۔جب پیامبر خداصلی الله علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو سلام پہنچایا تو ام المؤمنین نے فرمایا:{ إن اللهہو ه السلام، و منی السلام، و إليہ السلام، و علی جبرئيل السلام}بیشک اللہ خود سلام ہے و تمام سلامتی اسی کی طرف سے ہے اور اسی کی جانب پلٹتی ہیں اور جبریل پر سلام ہو۔13


تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

Page 2 of 9

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree