وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعیت کی سیاسی اوراجتماعی تاریخ کی ابتداء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سے شروع ہوئی جو امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت تک جاری رہی اور اس عرصے کی ابتدا میں ہی امامت وخلافت کا مسئلہ ایک اہم سیاسی اور دینی مسئلے کے طور پر جہان اسلام میں پیش ہوا اور اس سلسلے میں بہت سارے اختلافات رونما ہو ئے جن میں سے شیعہ امامت کے مسئلے میں نص اور نصب نبی کا عقیدہ رکھتاتھا۔ جبکہ دوسری طرف انصار ومہاجرین میں سے بعض افراد جانشین پیغمبراور امت اسلامی کے رہبر کےانتخاب کے لئے سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہوگئے تھے۔طویل گفت و شنید کے بعد ان کی اکثریت نے ابو بکر کے ہاتھوں پربیعت کی اور یوں ابوبکر نے زمام امورسنبھال لیا اور تقریبا دو سال سات مہینے بر سر اقتدار رہے۔اس عرصے کی ابتدامیں حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور مختلف اور مناسب مقامات پراپنے عقیدے کی وضاحت کی ۔
ابن قتیبہ کی روایت کے مطابق جب ابوبکر کے حکم سےحضرت علی علیہ السلام کو لایا گیا اور انہیں بیعت کرنے کا حکم دیا گیا تو آپنے فرمایا :{ انا احق بھذا الامر منکم ، لا ابایعکم و انتم اولی بالبیعۃ لی } میں تم سےزیادہ خلافت و امامت کے لئے شایسۃ اور حقدار ہوں ،میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا تم لوگ میری بیعت کرنےکے لئےزیادہ سزاوارہو ۔ عمر اور ابو عبیدۃ بن جراح نےحضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کچھ کہنے کے بعد اور آپ ؑکو ابو بکر کی بیعت کرنےکو کہا لیکن آپ ؑنے دوبارہ اسی بات کی تکرا رکی اور فرمایا :{فو الله یا معشر المہاجرین ، لنحن احق الناس بہ ، لانا اہل البیت و نحن احق بہذا الامر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله ،الفقیہ فی دین الله ، العالم بسنن رسول الله ،المضطلع بامر الرعیۃ، المدافع عنہم الامور السئیۃ، القاسم بینہم بالسویۃ ، والله انہ یفینا فلا تتبعوا الہوی فتضلوا من سبیل الله ، فتزدادوا من الحق بعدا}
اے مہاجرین خدا کی قسم ہم اہل بیت امت اسلامی کی رہبری اور خلافت کے لئے لوگوں میں اس وقت تک سب سے زیادہ حقدار اور سزاوار ہیں جب تک ہمارے درمیان قاری قرآن ،فقیہ ،سنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگاہ ،لوگوں کی رہبری کےلئے قدرتمند ،برے کاموں سے دفاع کرنے والا اور بیت المال کو مساوات سے تقسیم کرنے والا موجود ہے اور خداکی قسم ایسا صرف خاندان رسالت میں موجود ہے ۔لہذا تم خواہشات نفسانی کی پیروی چھوڑ دو کیونکہ اس سے تم گمراہ اور حق سے دور ہوجاو گے۔
حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں نےبھی ابوبکر کےسامنے صاف و شفاف الفاظ میں حضرت علی علیہ السلام کی امامت بلافصل پر اپنے عقائد بیان کئے تھے۔شیخ صدوق نے انصار و مہاجرین میں سے ان بارہ افراد { مہاجرین سے خالد بن سعید بن عاص،مقداد بن اسود ،عمار بن یاسر ،ابوذر غفاری ،سلمان فارسی ،عبداللہ بن مسعود ،بریدہ اسلمی جبکہ انصار سے خزیمۃ بن ثابت ،سہل بن حنیف ،ابو ایوب انصاری ، ابو الہیثم بن تیہان اور زید بن وہب تھے }کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے دلائل و برہان کے ذریعے ابوبکر کے سامنے احتجاج کیا۔البتہ ان کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج کرنےوالے افراد اس سے بھی زیادہ تھے چونکہ مذکورہ افراد کے ذکر کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں :{وغیرہم}اور آخر میں زید بن وہب کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہیں{فقام جماعۃ بعدہ فتکلموا بنحوہا هذا} اس کے بعد ایک گروہ نے بھی انہیں مطالب کی طرح گفتگوکیا ۔ البتہ اس گروہ نے پہلے آپس میں مشورہ کیا اور ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ ابوبکر کو منبر سے نیچےاتاراجائے لیکن بعض نےاس روش کوپسند نہیں کیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ کیاجائےچنانچہ آ پؑ نے لڑائی جھگڑے سے انہیں روکا اور فرمایا:اس کام میں مصلحت نہیں ہے اس بنا پر آپ ؑنے انہیں صبر وتحمل سے پیش آنے اور مسجد میں جا کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سنانےکاحکم دیا تا کہ لوگوں پر خداکی طرف سےحجت تمام ہو ۔یہ لوگ آپ ؑ کےحکم پرعمل کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے اور یکے بعد دیگرے کھڑے ہو کر ابوبکر کےسامنے احتجاج کرنا شروع کیا ۔چونکہ یہاں تفصیل سے ان دلائل کو بیان نہیں کر سکتے لہذا اختصار کے ساتھ کچھ نکات بیان کرتے ہیں:
1۔خالد بن سعید نے کہاپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{ان علیا امیرکم من بعدی و خلیفتی فیکم ان اہل بیتی هہم الوارثون امری و القائلون{القائمون}بامر امتی} بے شک علی علیہ السلام میرےبعدتمہارے درمیان امیر اور خلیفہ ہے اور میرے اہل بیت میرے امور کے وارث اور میری امت کے امور کو بتانے والے ہیں۔
2۔ابوذر غفاری نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{الامرلعلی بعدی ثم الحسن و الحسین ثم فی اہل البیتی من ولد الحسین } خلافت وامامت میرے بعد علی، انکے بعد حسن و حسین اور ان کےبعد حسین کی نسل سے میرے اہل بیت کا حق ہے ۔
3۔ سلمان فارسی نےکہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{ترکتم امر النبی {ص}و تناسیتم وصیتہ ، فعما قلیل یصفوا الیکم الامر حین تزورواالقبور...}تم لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش پر عمل نہیں کیا اور ان کے فرامین کو فرموش کر دیا لیکن جلد ہی تمھارے کاموں کا حساب لیاجائےگا جب قبروں میں جاو ٴگے ۔
4۔مقداد بن اسود نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{قد علمت ان هذا الامر لعلی علیہ السلام و هو صاحبہ بعد رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم}{ اے ابوبکر} تم خود جانتے ہو کہ خلافت علی علیہ السلام کے لئے ہے اور وہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلیفہ و امام ہیں ۔
5۔بریدۃ اسلمی نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{ یا ابا بکر اما تذکر اذا امرنا رسول الله ص و سلمنا علی علی علیہ السلام بامرہ المومنین } اے ابو بکر کیا تمہیں یاد نہیں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے علی علیہ السلام کو امیر المومنین کی حیثیت سےسلام کیا تھا ۔
6۔عبد اللہ بن مسعود نے کہا پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{علی ابن ابی طالب ع صاحب هذا الامر بعد نبیکم فاعطوہ ما جعلہ الله لہ و لا ترتدوا علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین}تمہارے نبی کےبعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام خلافت کا حقدار ہے لہذا جس چیز کو خدا نےاس کے لئے قرار دیا ہے اسے اس کے سپردکردینااور اپنے سابقہ آئین کی طرف پلٹ نہ جانا ٔ کہ بہت نقصان اٹھاوٴ گے ۔
7۔عمار بن یاسر نے کہاپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{یا ابابکر لا تجعل لنفسک حقا ، جعل الله عزوجل لغیرک} اے ابو بکر جس
حق کو خداوندمتعال نے کسی دوسرے سےمخصوص کیا ہے اسے اپنےسےمخصوص نہ کرو۔
8۔خزیمہ بن ثابت نے کہاپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{انی سمعت رسول الله یقول اہل بیتی یفرقون بین الحق و الباطل و ہم الائمۃ الذین یقتدی بہم}میرے اہل بیت حق و باطل کو جدا کرنے والے ہیں اور یہی پیشوا و رہبر ہیں جن کی اقتداء واجب ہے ۔
9۔ ابو الہیثم نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :{قال النبیﷺ اعلموا ان اہل البیت نجوم اہل الارض فقدموہم ولا تقدموہم}جان لو میرے اہل بیت اہل زمین کے لئے روشن ستارے کے مانند ہیں ان کی اطاعت و پیروی کرنااور ان سے آگے نہ بڑھ جانا۔
10۔سہل بن حنیف نے کہا:{انی سمعت رسول الله قال : امامکم من بعدی علی ابن ابی طالب و هو انصح الناس لامتی}میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا میرے بعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام تمہارا امام ہے جو میری امت کے لئے سب سے زیادہ خیر خواہ ہے ۔
11۔ابو ایوب انصاری نے کہا :{قد سمعتکم کما سمعنا فی مقام بعد مقام من نبی اللهﷺ انہ علی اول بہ منکم}پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےکئی بار سن چکےہو جس طرح ہم نے سنا ہے کہ وہ {حضرت علی علیہ السلام} خلافت کے لئے تم سے زیادہ حقدارہے۔
12۔زید بن وہب کی گفتگو کے بعد ایک گروہ نےبھی اسی طرح کی گفتگو کی ۔
امیر المومنین علیہ السلام کے پیروکاروں نے جب دیکھا کہ خلافت و امامت کے راستے میں بہت بڑے بڑے انحرافات آ ر ہے ہیں جن کے آثار یکے بعد دیگرے معاشرے میں نمایاں ہو رہےتھے تو موقع سے فائدۃ اٹھاتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری کی تبلیغ شروع کردی مثلا ایک دن ابوذر مسجد میں اہل بیت کے فضائل اس طرح سے بیان کررہے تھے:علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی اور ان کے علم کے وارث ہیں ۔اے پیغمبر کی امت جو ان کے بعد حیران و سرگردان ہو چکی ہے اگر تم اس فرد کو مقدم کرتے جس کو خدا وند متعال نے مقدم کیا تھا اور اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت و وراثت کا اقرار کرتےتو یقینا مادی اور معنوی حالات بہت بہتر ہوتے لیکن چونکہ تم لوگوں نےحکم خدا کے خلاف عمل کیا ہے اس لئے اپنے کئے کا مزہ چکھو۔
امیر المومنین علیہ السلام کے پیروکاروں نے جب سے عثمان نے خلافت سنبھالی اسی وقت سے انہیں انحرافات کا احساس ہونے لگا اسی لئے یعقوبی لکھتاہے :عثمان کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی مقداد بن اسود کو مسجد میں دیکھا جو نہایت غم و اندوہ کی حالت میں کہہ رہے تھے: مجھے قریش پر بڑاتعجب ہوا جنہوں نے اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رہبری اورخلافت کو چھین لیا حالانکہ دین خدا سے سب سے زیادہ آگاہ ،سب سے پہلے ایمان لانےوالے یعنی پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ان کے درمیان تھےانہوں نے اس کام میں امت کی بھلائی اور بہتری کو نہیں دیکھا بلکہ دنیا کو اپنی آخرت پر مقدم کر دیا۔ عثمان کے بعد مسلمانوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کےہاتھوں پر امت اسلامی کےرہبر کی حیثیت سے بیعت کی اور حضرت علی علیہ السلا م کوجو خدا کی طرف سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے مقام امامت وخلافت پر فائز ہوئے تھے پچیس سال کے بعد یہ منصب سپرد کیا گیا ۔بعض افراد کی بےتوجہی سے
اتنے عرصے تک مسلمانوں کی رہبری کو آپ ؑسے سلب کیا گیا اور آپ ؑنے بھی اسلام و مسلمین کے مصالح کی خاطر طاقت سے کام نہیں لیا لیکن افسوس اب بہت دیر ہو چکی تھی اور اتنے عرصے میں حکومت و خلافت بہت سارے انحرافات کا شکار ہو چکی تھی اور بہت سارے امکانات مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے اور یوں معاشرے کو قرآن و سنت کےمطابق ہماہنگ بنانا بہت مشکل کام ہو گیا تھا لیکن حضرت علی علیہ السلام جو رضایت خدا اور اسلام و مسلمین کے مصالح کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے لوگوں کی بیعت قبول کرنے پر مجبور تھے ۔
جیسا کہ آپ ؑنے فرمایا :{ لو لاحضور الحاضر و قیام الجۃ بوجود الناصر و ما اخذ الله علی العلماء الا یقاروا علی کظۃ ظالم و لا سغب مظلوم لالقیت حبلہا علی غارباا و اخرہا بکاس اولہا و لالفیتم دنیاکم ہذہ ازہد عندی من عفطۃ عنز} اگر بیعت کرنےوالوں کی موجودگی اورمدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نےعلماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کو اول نے سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابل اعتنا پاتے ۔ لیکن کچھ جاہل ،نادان اور پست فطرت افرادنے کچھ چیزوں کےذریعے عصمت و طہارت کے اس پھلدارتناور درخت کو پھلنے ،پھولنے اور امت اسلامی کی رہبری کرنے نہیں دئیے ۔
1۔ امت اسلامی پر مسلسل کئی جنگیں تحمیل کی گئیں ۔
2۔ حضرت علی علیہ السلام کو شہید کر کےجامعہ اسلامی کو ایک بے بدیل رہبر سےمحروم کر دیا گیا جیساکہ آپ ؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں :{فلما نہضت بالامر نکثت طائفہ و مرقت اخری و قسط آخرون}جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت تور ڈالی اور دوسرا دین سےنکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا ۔یہاں ناکثین سے مراد اصحاب جمل اور مارقین سے مراد خوارج نہروان اور قاسطین سے مراد معاویہ اور اس کے پیروکار ہیں ۔حضرت علی علیہ اسلام اس مطلب کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہ دنیا طلبی کےباعث اتنے فتنے برپا ہوئے فرماتے ہیں :گویا انہوں نے کلام خداکو نہیں سنا تھا جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:{تلْکَ الدَّارُالاَخِرَۃُ نجَعَلُہَالِلَّذِينَ لَايُرِيدُونَ عُلُوًّافیِ الاَرْضِ وَلَافَسَادًاوَالْعَاقِبۃُ لِلْمُتَّقِين} آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لئے بنا دیتے ہیں جو زمین میں بلا دستی اور فساد پھیلانا نہیں چاہتے اور {نیک}انجام تو تقوی والوں کےلئے ہے۔ اس کے بعد آپ ؑفرماتے ہیں :خدا کی قسم ان لوگوں نےاس آیت کوسنا تھا اور یادکیاتھا لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دہج نے انہیں لبھا دیا ۔{ ولکنہم حلیت الدنیا فی اعینہم و راقہم زبرجہا } اس عرصےمیں اگرچہ شیعیان اپنے عقیدے کے اظہار میں آزاد تھے اور اس سلسلے میں حکومتی افراد اور دوسرےلوگوں سے تقیہ نہیں کرتے تھے۔لیکن مذکورہ حوادث و وقایع کی وجہ سے وہ اپنےعقائد کی نشرواشاعت اور اپنے افکار پر مکمل طور پر عمل نہ کرسکے لیکن حضرت علی علیہالسلام نے اس فرصت سے استفادہ کرتےہوئے اپنے معصومانہ رفتارو کردار کے ذریعے حقیقی اسلام کو لوگوں تک پہنچایا اور اس کےعلاوہ آپ ؑنے بہت سارے علوم اور معارف عالیہ بیان فرمائے جو آج بھی دین اسلام کےگرانقدر علمی و دینی سرمایہ اور میراث شمار ہوتےہیں بلکہ بشریت و انسانیت کےلئے ایک فرہنگ و تمدن ہیں ۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔ الامامۃ و السیاسۃ ،ج1 ،ص 18۔
2۔ایضا ۔
3۔شیخ الصدوق ،الخصال ،باب12 ،حدیث 4۔
4۔تاریخ یعقوبی ،ج 12،ص 67 – 68 ۔
5۔ تاریخ یعقوبی ،ج 12،ص 57۔
6۔نہج البلاغۃخطبہ شقشقیہ ۔
7۔ترجمہ نہج البلاغہ :علامہ مفتی جعفر حسین ۔
8۔قصص،83۔
9۔نہج البلاغہ ،خطبہ شقشقیہ،
وحدت نیوز (آرٹیکل) علم کلام کےاہم مباحث میں سے ایک حسن و قبح عقلی کا بحث ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ افعال ذاتی طور پر حسن {اچھے} اور کچھ افعال ذاتی طور پر قبیح{ برے} ہیں ۔ معتزلہ اور امامیہ حسن و قبح عقلی کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ بہت سے کلامی مسائل اس بحث پر موقوف ہیں مثلا انسان کا اپنے اعمال میں خود مختار ہونا،خدا وند متعال کی بعض صفات کمالیہ کا ثبوت جیسے خدا کا عادل ہونا،اسی طرح بعض صفات سلبیہ بھی اسی بحث پر موقوف ہے جیسے خدا سے قبیح کا سرزد نہ ہونا،خداکا ظلم نہ کرنا وغیرہ ۔ جو لوگ حسن اور قبح کے قائل ہیں وہ انسانی افعال میں انسان کو مختار،خدا کو عادل مانتے ہیں جبکہ حسن و قبح کے مخالفین انسان کو مجبور اور خداکی عدالت سے انکار کرتے ہیں ۔حسن و قبح کا مسئلہ یونانی فلسفۂ اخلاق میں موجود تھا کیونکہ وہ اخلاقی اقداروں کی بنیاد حسن و قبح کو قرار دیتے تھے ۔1۔اسی طرح اسلام سے پہلے ثنویہ ، تناسخیہ و براہمہ بھی حسن و قبح ذاتی کے معتقد تھے۔2۔ دوسری صدی میں کلام اسلامی میں حسن و قبح کی بحث کو ایک خاص مقام حاصل ہوا جس کی بنا پر متکلمین عدلیہ اور اشاعرہ وجود میں آئے۔
حسن و قبح کے تین معانی ذکر ہوئےہیں:
الف۔ کمال و نقص
حسن و قبح سے کمال اور نقص مراد لئے جاتے ہیں نیز حسن وقبح افعال اختیاری کیلئے صفت بنتے ہیں ۔ مثلا علم حاصل کرنا حسن جبکہ جہل قبیح ہے۔ یعنی علم حاصل کرنا نفس کیلئے کمال ہے اور جہل نفس کی نسبت نقص ہے۔اس معنی کے لحاظ سے اکثر اخلاقی صفات حسن اور قبیح ہیں یعنی ان کا ہونا نفس کیلئے کمال اور نہ ہونا نقص ہوتا ہے ۔
ب۔ ملائمت نفس یا منافرت نفس
مثلایہ منظر خوبصورت ہےیا یہ منظر خوبصورت نہیں ہے ۔ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں نفس کی طرف لوٹتی ہے یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے ۔اس قسم میں کبھی حسن و قبح کو مصلحت اور مفسدہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔3۔یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے ۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے ۔
ج۔ استحقاق مدح و ذم
عقلا کے نزدیک فعل حسن کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہےجبکہ فعل قبیح کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ بعبارت دیگر حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک بجا لانا چاہئے اور قبیح وہ ہے جسے عقلا کے نزدیک بجا نہیں لاناچاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔ 4۔ پہلے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسرےمعنی کی نسبت عدلیہ کی طرف دیتے ہیں یعنی بعض افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ کلی طور پر اس بات سے انکار کرتے ہیں ۔5
شیعہ مذہب میں عدل الہیٰ کی تفسیر حسن و قبح عقلی کے ذریعےکی جاتی ہے ۔حسن و قبح عقلی سے مراد یہ ہے کہ فاعل مختار سے جو بھی کام سرزد ہوتا ہے وہ حقیقت میں یا مستحسن ہے یا قبیح ،یعنی یا اچھا ہے یا برا ۔انسان کی عقل بعض کاموں کے اچھے اور برے ہونے میں تمیز کر سکتی ہے اگرچہ عقل تمام کاموں کےاچھےاور برے ہونے کی شناخت نہیں کر سکتی جس کی بنا پر وہ وحی الہیٰ کی محتاج ہے ۔بعبارت دیگر حسن و قبح عقلی مقام ثبوت اور نفس الامر میں عمومیت رکھتےہیں لیکن مقام اثبات میں افعال کے حسن و قبح کی شناخت کا دائرہ عام نہیں ہے۔یہاں انسان کی عقل محدود پیمانے پر افعال کے حسن و قبح کو درک کرتی ہے ۔ قرآن کریم کی آیات سے مذکورہ مطالب واضح طورپر سامنے آتے ہیں جیساکہ قرآن کریم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ماموریت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :{ يَأْمُرُہُم بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنہاہُمْ عَنِ الْمُنکَر}6۔وہ نیکیوں کا حکم دیتاہے اور برائیوں سے روکتاہے ۔ اس آیت کے ظاہر سےیہی معلوم ہوتا ہے کہ افعال حقیقت میں دو قسم کے ہیں جن میں سے بعض معروف { حسن }اور بعض منکر {قبیح}ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معروف کا حکم دیتے اور منکرات سےنہی کرتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام اپنی وصیت میں امام حسن مجتبی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :{انہ لم یامرک الا بحسن ولم ینہک الا عن قبیح}7۔اس نے تجھے حکم نہیں دیا مگر اچھی چیز کا اور تجھے منع نہیں کیا مگر بری چیز سے ۔قرآن کریم میں بہت سارے مقامات پر خداوند متعال انسانی عقل و ضمیر کو فیصلے کی دعوت دیتاہے یعنی انسانی عقل بعض افعال کے {خواہ وہ نظری ہوں یا عملی } کےحسن و قبح کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہےجیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{ ہَلْ جَزَاءُ الْاحْسَانِ إِلَّا الْاحْسَان}8۔کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے ؟{ قُلْ ہَلْ يَسْتَوِی الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُون}9۔کہہ دے کہ کیا وہ لوگ جوجانتے ہیں ان کےبرابر ہیں جو نہیں جانتے ۔
{أَ فَمَن يہَدِی إِلیَ الْحَقّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يہَدِّی إِلَّا أَن يہُدَی فَمَا لَکمُ کَيْفَ تحَکُمُون}10۔اور جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ قابل اتباع ہے یا وہ جو ہدایت کرنے کے قابل نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی ہدایت کی جائے ؟تو آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے اور تم کیسے فیصلے کررہے ہو؟{ أَمْ نجَعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ كاَلْمُفْسِدِينَ فیِ الاَرْضِ أَمْ نجَعَلُ الْمُتَّقِينَ كاَلْفُجَّار}11۔کیاہم ایمان لانےوالوں اور نیک عمل کرنےوالوں کو زمین میں فسادبرپا کرنے والوں جیسا قرار دیدیں یا صاحبان تقوی کو فاسق و فاجر افراد جیسا قرار دیدیں؟
اگر ہم حسن و قبح عقلی کو قبول نہ کریں توہم حسن وقبح شرعی کوبھی ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ حسن و قبح شرعی کوہم اس وقت ثابت کر سکتے ہیں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور عصمت ثابت ہو جبکہ شرعی دلیل سے ان دونوں کو ثابت کرنے سے دور لازم آتا ہے جوکہ محال ہے ۔ اگر ہم عقل کے اس حکم کو قبول کریں {جو یہ ہے کہ کسی جھوٹے شخص کو معجزہ دینا نیز کسی ایسے شخص کو لوگوں کی ہدایت کےلئےمنتخب کرنا جو خود خطا کارا و رگناہگار ہو ،قبیح ہے جبکہ خداوند متعال ہر قسم کے قبیح کاموں سے منزہ ہے }تو پھرہم نبوت اور شریعت کو ثابت کر سکتے ہیں نیز اسی طریقے سے حسن و قبح شرعی کو بھی ثابت کر سکتے ہیں ۔ تجرید الاعتقاد میں محقق طوسی لکھتےہیں :اگر حسن و قبح کو ثابت کرنے کا راستہ شرع تک محدود رہے تو افعال کا حسن و قبح کلی طور پر منتفی ہوگا اور شرع و عقل دونوں سے ثابت نہیں ہوگا ۔12۔حسن و قبح عقلی کی اثبات کے بارے میں متعدد دلائل میں سے نمونے کے طور پرتین دلیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف: یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص عدل و انصاف کی خوبی ،ظلم و ستم کی بدی، عہد وپیمان پر پابند رہنےکی اچھائی ،عہدشکنی کی برائی اور نیکی کاجواب نیکی سے دینے کودرک کرتا ہے۔ تاریخ بشریت کا مطالعہ اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے اور آج تک اس امر کا مشاہدہ نہیں ہوا کہ کسی عاقل انسان نے اس حقیقت کا انکار کیا ہو ۔
ب: اگر فرض کریں کہ عقل تمام افعال کے حسن و قبح کو درک کرنے میں کلی طور پر ناتواں ہے اور انسانوں کو تمام افعال کے حسن و قبح جاننے کے لئے شریعت کی طرف رجوع کرناچاہیے توہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ حسن و قبح شرعی بھی قابل اثبات نہیں کیونکہ خود شریعت کے ذریعہ شریعت کو ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے دورلازم آتاہے جوکہ محال ہے۔اس کے علاہ قرآنی آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ انسانی عقل بعض افعال کے حسن و قبح کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اس بنا پر خداوند کریم ،انسانی عقل و ضمیر کوفیصلہ کی دعوت دیتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{افنجعل المسلمین کالمجرمین ۔مالکم کیف تحکمون}13۔کیاہم اطاعت گذاروں کو مجرموں جیسا بنا دیں؟تمہیں کیا ہوگیا ؟ کیسا فیصلہ کر رہے ہو ۔14
ج:اگر حسن اور قبح عقلی نہ ہو بلکہ شرعی ہو تو اس صورت میں شارع حسن کو قبیح اور قبیح کو حسن قرار دے سکتا ہے۔اس صورت میں لازم آتا ہے کہ احسان کرنا حسن ہونے کی بجائے قبیح اور برے اعمال قبیح ہونے کی بجائے حسن میں تبدیل ہو جائے جبکہ یہ بدیہی طور پر باطل ہے کیونکہ انسان کی وجدان اور ضمیر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محسن کی مذمت کرنا صحیح نہیں اسی طرح برے انسان کی مدح کرنا بھی درست نہیں ہے ۔15
حسن و قبح کے منکرین اپنی دلیل اس طرح سے پیش کرتے ہیں:
الف:انسان اپنے افعال میں مجبور ہے ۔جو انسان اپنے افعال میں مجبور ہو وہان عقل حسن اور قبح کا حکم نہیں لگاسکتی ہے ۔ 16
ب:اگر جھوٹ بولنے میں ذاتی قباحت موجود ہو تو بعض اوقات بعض مصالح کی خاطر جھوٹ بولنے کو قبیح تصور نہیں کیا جاتا ہے جبکہ جو چیز کسی چیز کی ذات یا لازم صفت ذات ہواس کا جدا ہونا ممکن نہیں ہے۔مثلا جھو ٹ بول کر نبی کی جان کو ظالموں سے بچائے ۔اگرجھوٹ بولنے میں ذاتی قباحت ہوتی تو اس مقام پر جھوٹ بولنےکو قبیح ہوناچاہئے تھا ۔بنابرین حسن و قبح ذات کا حصہ نہیں ہیں یا ذات کے صفات لازم میں سےنہیں ہیں۔17
حسن و قبح کے منکریں کے لئے جواب یہ ہے کہ انسان اپنے افعال و اعمال میں خود مختار و آزاد ہے ۔اسی طرح اگر کسی اہم مصلحت کی خاطر جیسے نبی کی جان بچانا اگر جھوٹ بولنے پر موقوف ہو تو اس سے جھوٹ کی ذاتی قباحت ختم نہیں ہوتی بلکہ صرف اس اہم مصلحت کی خاطر اس شخص کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے۔18
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1. محمد کاظم عماد زادہ،مقالہ بررسی تطبیقی حسن و قبح وثمرات آن در اندیشہ شیعہ ،معتزلہ ، اشاعرہ و ماتریدیہ۔
2. شہرستانی، محمد، نہایہ الاقدام، ص۳۷۱
3. شیخ مظفر ،اصول الفقہ ، ج 2 ص 274 با حوالۂ قوشجی ،شرح التجرید،ص338 ۔ایجی، المواقف ج 3 ص 262۔
4. شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ؛ میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص262؛قاضی جرجانی ، شرح المواقف،ض8 ص 181۔
5. جعفر سبحانی،الٰہیات،ض 231۔
6. اعراف،157۔
7. نہج البلاغۃ ،نامہ،31۔
8. الرحمن،60۔
9. زمر،9
10. یونس،35۔
11. ص،28۔
12. تجرید الاعتقاد،محقق طوسی۔
13. قلم،35- 36۔
14. جعفر سبحانی ،عقائد امامیہ، ص 140۔
15. جعفرسبحانی،الہیات ص 246
16. قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ج8 ص185۔ایجی،المواقف ج3 ص 262
17. قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ج8 ص189۔ایجی،المواقف ج3 ص 262
18۔ علامہ بہبہانی الفوائد الحائریہ، ص 372۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) مہدی موعود{عج} کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے ۔اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فردقیام کرے گا جو آپ ؐکا ہم نام ہوگا اوراوراس کا لقب مہدی ہو گا جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔ امام مہدی {عج}کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف شیعہ حضرات ہی نہیں رکھتے بلکہ اہل سنت کےبہت سےمشہور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ{عج} کی ولادت باسعادت سےمتعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں جیسے: ابن حجر ہیثمی { الصواعق المحرقہ}سید جمال الدین{روضۃ الاحباب}ابن صباغ مالکی {الفصول المہمۃ}سبط ابن جوزی{تذکرۃ الخواص }۔۔۔۔۔ وغیرہ۔امام زمانہ{عج}کی غیبت کےمنکرین کا اعتراض ہے کہ امام غائب کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے امام کاان کے درمیان موجود ہوناضروری ہے تاکہ امام تک لوگوں کی رسائی ہو ۔
ہم یہاں منکرین غیبت امام زمانہ عج کے اعتراض کا اجمالا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
پہلا جواب:امام زمانہ{عج}کی غیبت اور آپ{عج}کا شیعوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کےدرمیان کوئی ملازمہ نہیں ہیں ۔ قرآن کریم انسان کے اولیاء خدا سےبہرہ مند ہونے کی داستان کو حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے ۔ بنابریں عصرغیبت میں بھی امام زمانہ{عج}کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ {عج}کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ {عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی چیزمانع نہیں ہے ۔ امام زمانہ {عج} کالوگوں کےامور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں جو آپ {عج}کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔محقق طوسی تجرید الاعتقاد میں لکھتےہیں :{وجودہ لطف و تصرفہ لطف آخر و عدمہ منا}امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا ایک اور لطف اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے ۔ {یعنی امام زمانہ {عج}بھی حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں انہیں بھی کوئی نہیں پہچانتا تھا لیکن پھربھی وہ امت کے لئے فائدہ
مند ہیں}
دوسراجواب: امام{عج} کے پیروکاروں کا امام{عج}کے وجود سے کسب فیض کرنے کےلئے ضروری نہیں کہ آپ{عج}تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ہو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ{عج}کےساتھ رابطہ قائم کر سکتا ہو اور وہ آپ{عج}کےوجود سےفیض حاصل کرے تو دوسرے لوگ بھی ان افرادکے ذریعے آپ{عج} کےوجودکے تمام آثار و برکات سےبہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہ مطلب شیعوں کے بعض نیک اورشائستہ افراد کی آپ{عج }کےساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے ۔
تیسرا جواب: امام اور پیغمبر کے لئے حتی ان کے ظہور کے وقت بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت براہ راست اوربلا واسطہ انجام دیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعےسے یہ کام انجام دیتے تھے ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے دور میں دوسرے شہروں کے لئے اپنےنمائندے معین فرماتے تھے جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا کام انجام دیتے تھے۔اور یہ روش صرف رہبران الہیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا ۔ اسی وجہ سے امام زمانہ{عج}بھی اپنے نمائندوں کے ذریعہ لوگوں کی رہبری کرتےہیں جیساکہ غیبت صغری کے زمانے میں آپ {عج} نواب اربعہ {نیابت خاصہ}کے ذریعے اور غیبت کبری کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقہاء و مجتہدین {نیابت عامہ}کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتےہیں۔
چوتھا جواب: شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الہیٰ ہے اور اس سے مرادیہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔بے شک یہ اعتقاد{ کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں گرچہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں پہچانتےلیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں نیز آپ {عج} کسی وقت بھی ظہور کرسکتے ہیں کیونکہ آپ{عج} کے ظہور کا وقت معلوم نہیں ہے } انسان کی ہدایت و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
پانچواں جواب:امامت کے اہداف میں سےایک ہدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ہدایت ہے ۔امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنےوالے افراد کو اپنی طرف جذب کر کے انہیں کمال تک پہنچاتے ہیں۔واضح ہے کہ انسان کا اس طرح ہدایت سے ہمکنار ہونےکے لئےضروری نہیں کہ وہ امام کے ساتھ ظاہری رابطہ برقرار کرے ۔ گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ {عج}کو بادل کے پیچھے پنہان روشن آفتاب سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے ۔اگرچہ بادل کے پیچھے پنہان سورج سے انسان مکمل طور بہرمند نہیں ہوتا ہےلیکن اس کا ہرگزمطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتاہے ۔بہر حال امام زمانہ{عج} کے وجود کے آثاروبرکات سے بہرہ مند نہ ہونےکا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کافراہم نہ کرنا ہے جس کی وجہ سےلوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام،کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سےاس سلسلے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔
خواجہ نصیر الدین طوسی آپ {عج} کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں:{واما السبب غیبتہ فلایجوز ان یکون من الله سبحانہ و لا منہ کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظہوریجب عند زوال السبب} لیکن یہ جائزنہیں کہ امام زمانہ{عج} کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ{عج} کی طرف سے ہوجیسا کہ آپ جان چکے ہیں پس اس کی وجہ خود عوام {لوگ }ہیں کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرناہی اس کا سبب ہےاور جب بھی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی توظہور واجب ہو جائے گا ۔ گذشتہ بیانات امام زمانہ{عج}کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثا رتھےلیکن حجت الہیٰ کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ہونا ہے۔ یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں ۔اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بے معنی ہے۔ اسی بنا پر روایات میں موجودہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر ایک لحظہ کےلئےبھی زمین حجت خدا سے خالی ہوتووہ اپنے اہل سمیت نابود ہو جائے گی۔ {لو لا الحجۃ لساخت الارض باہلہا}یہاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہےجو کہ بعض دعاوٴںمیں موجود ہے:{بیمنہ رزق الوری و بوجودہ ثبتت الارض و السماء}امام زمانہ{عج}کے وجود کی برکت
سے ہی موجودات رزق پا رہے ہیں
اورآسمان و زمین بر قرار ہیں ۔
امام اور حجت خدا واسطہ فیض الہیٰ ہیں ،خدا اور بندگان کے درمیان واسطہ ہیں ،جن برکات و فیوض الہیٰ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی ہیں امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوںتک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔لہذا امام زمانہ{عج}کی طولانی عمر اور ظہور سے صدیوں قبل آپ{عج} کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہےکہ اس طویل مدت میں کبھی بندگان خدا الطاف الہیٰ سے محروم نہ رہیں اور امام کے وجود کے جو برکات ہیں وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتے رہیں ۔
تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد ،بحث امامت ۔
2۔کمال الدین ،شیخ صدوق ،باب 45۔ حدیث 4 ،ص485۔
3۔الرسائل،سید مرتضی،ج2،ص297 – 298۔
4۔اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ۔
5۔اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ۔
6۔نوید امن و امان،آیۃ اللہ صافی گلپایگانی،ص 148 ۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) اسلام ایک عالمی اورابدی دین ہے جس میں انسان کی فردی و اجتماعی ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔انسان کی فطری ضرورتوں میں سے ایک ازدواج ہے ۔یہ ضرورت اس وقت پوری ہوگی جب وہ کسی سےشادی کرے ۔قرآن کریم نےمرد و عورت کی تخلیق کو خدا کی نشانی اور ان کے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کو مودت و رحمت قرار دیا ہے ۔ارشاد رب العزت ہو رہاہے:{ وَ مِنْ ءَايَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکمُ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُواْ إِلَيْہَا وَ جَعَلَ بَيْنَکُم مَّوَدَّۃً وَ رَحْمَۃً إِنَّ فیِ ذَالِکَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفکَّرُون}1اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاراجوڑا تمہیں میں سے پیدا کیا ہےتاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قراردی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس آیہ کریمہ میں شادی کی بعض حکمتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ازداوجی زندگی سے منسلک ہونے کے بعد انسان کو فکری و روحی سکون مل جاتاہے ۔ شادی کرنے سےنسل انسانی جاری رہتی ہے اور انسانی معاشرے وجود میں آتے ہیں ۔قرآن اس سلسلے میں کہتاہے :{وَ اللّہ ُ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکمُ أَزْوَاجًا وَ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَزْوَاجِکُم بَنِينَ وَ حَفَدَۃً وَ رَزَقَکُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ} 2 اور اللہ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں اور اس نےتمہاری ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کیےاور تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں ۔شادی کرنےسےعقلی و معنوی مقاصد حاصل ہونےکےساتھ ساتھ انسان کی نفسانی خواہشات بھی پوری ہو تی ہیں۔چنانچہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا:{من تزوج فقد احرزنصف دینہ}جس نےشادی کی اس نے اپنا نصف دین بچا لیا ۔ آپ ؐ نے شادی کو بہترین عمل قرار دیا اور فرمایا:{ما بنی فی الاسلام بناء احب الی الله من التزویج}خدا کےنزدیک اسلام میں سب سےبہترین بنیاد ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے۔
اگرہم انسان کی زندگی کا مطالعہ کریں توہم اس حقیقت کو درک کر سکتے ہیں کہ انسان کےلئے دو قسم کی شادیوں کی ضرورت ہے ایک دائمی شادی اور دوسری موقتی شادی۔دائمی شادی عام حالتوں کےلئے ہےجبکہ موقتی شادی غیر معمولی حالات کے پیش نظر جیسے اگرکوئی طولانی مدت کےلئےسفر میں جائےاور بیوی ساتھ نہ ہو ۔اسی طرح جنگ اور مختلف حوادث میں جو عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں ۔علاوہ ازیں دائمی شادی کے لئےبہت زیادہ اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ موقتی شادی کے لئے اتنےاخراجات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔انسان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کےلئےاسےشادی کرنےکی ضرورت ہے اگرموقتی شادی کےذریعے اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو تو وہ ناجائز روابط کے ذریعے اسےپوری کرنےکی کوشش کرے گا جس سے انسانی معاشرے میں اخلاقی برائی پھیل جائی گی اور معاشرہ تباہ و بربادہو جائے گا۔
دین مقدس اسلام نے انسان کی اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے دو قسم کی شادیوں کو جائز قرار دیا ہے ۔ایک دائمی شادی اوردوسری موقتی شادی۔ دائمی شادی کے بارے میں قرآن کریم کہتاہے :{ وَ إِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فیِ الْيَتَامی فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنیَ وَ ثُلَاثَ وَ رُبَاعَ فاِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃ}3اور اگر یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کر سکنےکا خطرہ ہے تو جو عورتیں تمہیں پسند ہیں دو،تین ،چار ان سےنکاح کر لو اور اگر ان میں بھی انصاف نہ کر سکنے کا خطرہ ہے تو پھر ایک ہی عورت {کافی ہے}۔
قرآن کریم عقد موقت یا متعہ کےبارے میں کہتاہے:{ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنہنَّ فَاتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِيضۃ}4
پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطورفرض ادا کرو ۔لفظ متعہ عرف،شرع اور شیعہ وسنی فقہاء کےنزدیک نیز روایات میں عقد موقت کے معنی میں ہے۔مشہور مفسر جناب طبرسی مجمع البیان میں اسی آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:اس آیت کے متعلق دو نظریےپائے جاتے ہیں :1۔ بعض لوگوں نےاستمتاع سےمراد لذت جوئی لیا ہے اور بطور دلیل بعض اصحاب اور تابعین کے عمل کو پیش کیا ہے ۔2۔ بعض لوگوں نے استمتاع سےمراد عقد موقت لیا ہے اور بطوردلیل ابن عباس، سدی ،ابن مسعوداور تابعین کی ایک جماعت کو پیش کیا ہے جو استمتاع کوعقد موقت سے تفسیر کرتے تھے۔ ان دو نظریوں میں سے دوسرےنظریے کی صحت واضح ہے اس لئے کہ عرف و شرع میں متعہ اور استمتاع سے مراد عقدموقت ہے ۔اس کے علاوہ مہر کا ادا کرنا لذت اٹھانے پر منحصر نہیں ہے۔ بنابرین آیہ کریمہ متعہ پر دلالت کرتی ہے کیونکہ :1۔ اس آیت سے پہلی والی آیتوں میں عقد دائمی اور اس کے مہریہ کا حکم بیان ہوا ہے لہذا اسےدوبارہ تکرار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔2۔دائمی شادی میں جونہی صیغہ عقد جاری ہو مہر شوہر پر واجب ہوتا ہے اور اگر عورت ہمبستری سے پہلے اس کامطالبہ کرے تو مہر دینا واجب ہے جبکہ مذکورہ آیت کےمطابق شوہر پر مہر اس وقت واجب ہوگا جب اس نے اپنی بیوی سے ہمبستری کی ہو لہذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب عورتوں سے ہمبستری کرنا تو ان کا مہر ادا کرنا۔5اس نظریہ پر یہ اعتراض ہے کہ :مہریہ کاا دا کرنا عقد پرمنحصر ہے یعنی جیسےہی عقد پڑھ لیاگیا ،عورت اپنا تمام مہر مانگ سکتی ہے اور اس میں ہمبستری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ اگر دخول سے پہلے طلاق ہو جائے تونصف مہر دینا ہو گا ۔
ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث 6کےعلاوہ اہل سنت نے بعض اصحاب اور تابعین سےوقتی شادی کےبارےمیں احادیث نقل کی ہیں۔ابن عباس،ابی بن کعب ،سعید بن جبیر اورسدی آیہ کریمہ کی تلاوت اس طرح کرتے تھے:{فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنہْنَّ ُإلی اجل مسمی فَاتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِيضَۃ}مجاہد کا کہنا ہے:مذکورہ آیہ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔7.فخر الدین رازی لکھتے ہیں :مسلمانوں نےابی کعب اور ابن عباس کی قرائت سےانکار نہیں کیا ہے ۔یہاں سےمعلوم ہوتاہے کہ ان دونوں کی قرائت کے صحیح ہونے کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ متعہ کےجائزہونے کے بارے میں بھی مسلمانوں کا اجماع ہے ۔8اہل سنت کے علماء نے یہ ادعا کیا ہے کہ یہ آیہ نسخ ہوئی ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں بعض آیات کے علاوہ صحاح اور مسانید میں منقول احادیث سے استدلال کیاہے ۔بعض افراد نے آیہ کریمہ {وَ الَّذِينَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ.إِلَّا عَلیَ أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَيْمَانہُمْ فاِنہَّمْ غَيرْ مَلُومِين َ.فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاءَ ذَا لک ِفاُوْلَئکَ ہُمُ الْعَادُون}۹{اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، مگر اپنی بیویوں اورکنیزوں سے پس ان پر ملامت نہیں ہے، جو لوگ اس کے علاوہ کی خواہش کریں وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں }کو حکم متعہ کےمنسوخ ہونے کی دلیل قرار دیاہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کےمطابق صرف دو طریقوں سے عورتیں مرد پر حلال ہوجاتی ہیں ۔ ایک زوجیت اور دوسرا ملکیت جبکہ اس آیت میں متعہ کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے ۔ متعہ کا ملک یمین نہ ہونا واضح ہے اسی طرح متعہ شادی کی قسم بھی نہیں ہے کیونکہ اس میں شادی کےاحکام جیسے ارث ،نفقہ اور حق قسم {شب خوابی}نہیں ہیں ۔اس غلط تصور کا جواب یہ ہے کہ
پہلا: عقد موقت {متعہ}کیفیت کےلحاظ سے عقد دائمی جیسا ہے ۔اس قسم کے ازدواج کے شرعی ہونےمیں کوئی انکار نہیں کرتا۔ان دونوں کےدرمیان بعض احکام مشترک اور بعض احکام ان میں سے ہر ایک مخصوص ہیں۔
دوسرا:سورۃ مومنون کی آیت مکی آیات میں سے ہے جبکہ عقد موقت پر دلالت کرنےوالی آیت مدنی ہے ۔ مسلمانوں کا اجماع ہےکہ آیۃ متعہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے جبکہ ناسخ کو زمان کے اعتبار سےمنسوخ کے بعد ہونا چاہیے ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جب ان سےکہا جاتاہے کہ سورۃ مومنون کی اس آیت نےکنیزوں سے شادی کرنے کے حکم کو کیوں نسخ نہیں کیاہے؟ چنانچہ ارشاد ہوتاہے :{وَ مَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنکُمْ طَوْلاً أَن يَنکِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُم مِّن فَتَيَاتکُمُ الْمُؤْمِنَات}10{اور جس کےپاس اس قدر مالی وسعت نہیں ہے کہ آزاد مومنہ عورتوں سے نکاح کرے تو وہ کنیز مومنہ عورت سے عقد کرے}تو جواب دیتے ہیں کہ سورہ مومنون کی آیت مکی ہےلیکن مذکورہ آیت { جس میں کنیزوں سے شادی کاحکم ہوا ہے }مدنی ہے ۔مکی آیتیں مدنی آیات کے لئے ناسخ نہیں بن سکتیں ۱۱جبکہ اسی بات کو متعہ کے بارے میں کہنےسےگریزکرتے ہیں ۔{والذین ہم هلفروجہم حافظون}یہ آیتیں سورہ معارج میں بھی موجود ہیں جبکہ سورہ معارج بھی مکی ہے ۔
بعض روایات کےمطابق متعہ کا حکم اضطراری حالات کے لئے تھالہذا جب اضطرار ی حالات ختم ہوگئے تو متعہ کاحکم بھی منسوخ ہوا ہے ۔ 12جبکہ اضطراری احکام، اضطراری حالتوں کے تابع ہیں اور اضطراری حالات صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےسے مخصوص نہیں ہیں جیسے مجبوری کی حالت میں مردار کا گوشت کھانا جائز ہے اور یہ حکم صرف صدر اسلام سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آج بھی اس قسم کی کوئی حالت پیش آجائے تومردارکا گوشت کھانا جائز ہے ۔اس قسم کی روایتوں کے مقابلے میں اوربھی روایات موجود ہیں جو خلیفہ دوم کےزمانے تک متعہ کے جائز ہونےپر دلالت کرتی ہیں ۔ عمران بن حصین سےبخاری نےنقل کیا ہے کہ اس نےکہا : آیہ متعہ کتاب خدا میں نازل ہوئی ہے ہم نے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس پر عمل کیا ۔اس کےحرام ہونے کے بارے میں کوئی دوسری آیت نازل نہیں ہوئی ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنی وفات تک اس سے منع نہیں فرمایا ۔ اس کےبعد ایک شخص نے اپنی رائے کی بنا پر اس سلسلے میں حکم صادر کیا ۔13اس قسم کی روایتوں کو مسلم نےچند واسطوں سے جابر بن عبد اللہ انصاری سےنقل کیا ہے۔۱۴متعہ کے منسوخ ہونے پر دلالت کرنے والی روایتیں ایک واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ان روایتوں میں بہت زیادہ ضد و نقیض باتیں ہیں جوان کے جعلی ہونے کو ثابت کرتے ہے۔۱۵ مثلا بعض روایات کے مطابق یہ حکم فتح مکہ کے سال منسوخ ہوا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ فتح خیبر کے سال یہ حکم منسوخ ہوا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر یہ حکم نسخ ہوا ہے جبکہ بعض کےمطابق جنگ تبوک میں یہ حکم نسخ ہوا ہے۔16ان اقوال کا لازمہ یہ ہے کہ ایک حکم چند سالوں میں متعدد بار مباح اور متعدد بار نسخ ہو اہو۔یہ نہ علم و حکمت خداوندی سے سازگار ہے اور نہ اسلام میں اس قسم کی کوئی روش پہلے سے موجود تھی۔واضح رہےکہ اتنے اختلافات اور تعارض کےہوتےہوئے ان روایات سےایک قطعی حکم کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔علاوہ ازیں یہ روایتیں دوسری روایتوں سے{جو متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں}تعارض رکھتی ہیں۔ابن عباس کہتے ہیں :{ماکانت المتعۃ الارحمۃ رحم الله بہا امۃ محمد{ص}لو لا نہیہ{یعنی عمر}عنہا ما احتاج إلی الزناء الاشقی}17
متعہ ایک رحمت تھی خدا نے اس کے ذریعے پیغمبر کی امت پر رحمت کی۔اگر عمربن خطاب متعہ سے منع نہ کرتا تو سوائےشقی کے کسی اور کو زنا کی ضرورت نہ پڑتی ۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہےکہ متعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعےمنسوخ نہیں ہوا بلکہ خلیفہ دوم نے اس سےمنع کیا ہے ۔یہ حدیث جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہونے والی حدیث کی موٴید ہے ۔
طبری اور ثعلبی آیہ کریمہ{فمااستمتعتم بہ منہن}18کی تفسیرمیں حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتےہیں کہ آپؑ نےفرمایا : {لو لا ان عمرنہی عن المتعۃ مازنی الاشقی}19اگرعمر نےمتعہ سےمنع نہ کیا ہوتاتو شقی کےسوا کوئی زنا نہ کرتا۔اسی بات کو دوسرے ائمہ اہلبیت علیہم السلام نےبھی متواتر طریقوں سےآپؑ سے نقل کیا ہے۔یہ حدیث بھی جابربن عبداللہ انصاری کی حدیث کی موٴید ہے ۔ جناب جابر ابن عبد اللہ انصاری کا بیان ہے :ہم رسول خداؐ کے زمانےمیں بطور مہر مختصر کھجور اورآٹے پر چند دنوں کے لئے متعہ کیا کرتےتھے اوریہ کام ابوبکرکےزمانے تک انجام دیا لیکن عمر نے عمرو بن حریث کےواقعے کےبعد اس سے منع کردیا۔ 20
6۔خلیفہ دوم کا یہ قول مشہور ہے {متعتان کانتا علی عہد رسول الله{ص}و انا انہی عنہما و اعاقب علیہما: متعۃ الحج و متعۃالنساء}21دو متعے جو رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانےمیں رائج تھے میں ان سےمنع کرتاہوں اور جو ان کا مرتکب ہو ااسے سزا دوں گا: متعۃ النساء اور حج تمتع۔خلیفہ دوم کے اس قول سے واضح ہو جاتاہے کہ متعہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےمیں منسوخ نہیں ہوا تھابلکہ انہوں نے اپنی طرف سے منع کیا تھا ۔ فریقین کی روایتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا ہے بلکہ خلیفہ دوم نےاس حکم پر عمل کرنے سے روکاہے وہ کہتا ہے :{ایہا الناس ثلاث کن علی عہد رسول الله.انا انہی عنہن و احرمہن و اعاقب علیہن وہی ه متعۃ النساء و متعۃ الحج و حی علی خیرالعمل} اےلوگو:تین چیزیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانےمیں رائج تھیں میں ان سےمنع کرتا ہوں اور انہیں حرام قراردیتا ہوں ۔ جس کسی کو ان کا مرتکب پاوَں گا اسےسزا دی دوں گا وہ تین چیزیں یہ ہیں :عورتوں سے متعہ کرنا ،حج تمتع اور حی علی خیر العمل۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پہلے اور تیسرے مسئلے میں خلیفہ کی ممانعت ابھی تک باقی ہے لیکن حج تمتع کوخلیفہ دوم کی مخالفت کےباوجود مسلمان بجا لاتے ہیں ۔22
عقد موقت کے مخالفین اس بارے میں بہت سےشبہات پیش کرتےہیں جو عموما نکاح موقت سے آشنائی نہ رکھنےکی وجہ سے ہے۔ ہم یہاں عقد موقت کےسلسلے میں کئےگئے دو اعتراضات کا مختصراجواب دینے کی کوشش کرینگے ۔
1۔شادی کا مقصد ازداجی زندگی اور نسل کو باقی رکھناہے جبکہ یہ ہدف صرف عقد دائمی کےذریعےحاصل ہوتا ہے کیونکہ متعہ یا عقد موقت کرنےکا مقصد صرف جنسی خواہشات کو بجھانا ہے ۔ 23
جواب:اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شادی کرنےکا ایک مقصد نسل کو باقی رکھنا اور ازدواجی زندگی کوقائم کرنا ہے لیکن شادی کرنے کا مقصد
صرف یہی نہیں بلکہ جنسی لذتوں کو جائز طریقے سے پورا کرنا اور معاشرے کو فساد اور برائیوں سے پاک رکھنا بھی شادی کے اہم اغراض میں سے ہے۔لہذا جب عقد دائمی کےلئےراستہ ہموارنہ ہو تو ان اہداف کو حاصل کرنے کا معقول اور جائز طریقہ عقد موقت ہے ۔ علاوہ ازیں بہت سارے افراد تولیدنسل کی خاطر اس قسم کی شادی کرتے ہیں کیونکہ متعہ اور دائمی شادی سےپیدا ہونےوالےبچوں کے احکام مشترک ہیں۔
2۔متعہ عورت کی شرافت و کرامت کے ساتھ منافات رکھتاہے کیونکہ یہ ایک قسم کی جسم فروشی ہے ۔ عورت کی عزت وکرامت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ کچھ چیزوں کی خاطر اپنے آپ کو ایک اجنبی مرد کے سپرد کرے ۔
جواب:متعہ اوردائمی شادی کے درمیان ماہیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔جو کچھ عورت مرد سے لیتی ہے وہ مہر ہے۔ان دونوں قسموں میں مرداپنی بیوی سے لذت اٹھانے کا حق رکھتا ہےجس کے مقابلےمیں مردپرعورت کا مہر واجب ہوتا ہے۔عقد موقت اور دائمی کوئی مالی تجارت نہیں بلکہ یہ ایک مقدس عہد وپیمان ہے جو معقول اور جائز طریقے سے شوہر اور بیوی کے درمیان انجام پاتا ہے ۔یہ بات بہت تعجب آور ہے کہ جو لوگ اس قسم کی شادی پر اعتراض کرتے ہیں یہیں افراد اس دور میں جہاں کچھ شیطان صفت افراد اپنے جنسی خواہشات کو پوری کرنے کے لئےعورتوں کو مختلف طریقوں سے شکار کرتے ہیں اور انہیں اپنی جنسی پیاس بجھانے کا ایک وسیلہ سمجھتے ہیں اسے جدید دور کے تہذیب و تمدن کے طور پر قبول کرتے ہیں ۔یہ کیسےممکن ہے کہ اگرایک عورت اپنی مرضی سے کسی کےساتھ متعہ کرےتو یہ عورت کی شرافت کے خلاف ہو لیکن اگر ایک عورت چند پیسوں کی خاطر کسی لہوو لعب کی محفل میں یا کسی نائٹ کلب میں ہزاروں عیاش مردوں کے سامنےان کی جنسی خواہشات کو ابھارنے کی خاطر ہر قسم کی حرکتیں انجام دے اور چند افرادکے ہاتھوں اس کی عزت لٹ جائے تویہ عورت کی کرامت و شرافت کے خلاف نہ ہو۔ 24
بہت افسوس کی بات ہے کہ بعض مسلمان مردوں اور عورتوں کی طرف سے متعہ جیسےاسلامی احکام کی بے حرمتی ہوئی ہے۔ بعض خود خواہ مردوں اور عورتوں نے اس اہم اسلامی قانون کے فلسفےکو پاوٴں تلے روندتے ہوئے اسے صرف لذت اٹھانے کا وسلیہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے کچھ موقع پرست نادان افراد کو موقع مل گیا تاکہ وہ اسی بہانے سے اس حکم شرعی کو ایک فعل قبیح کےطورپر پیش کریں۔ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے اسی لئےشادی شدہ افراد کو متعہ کرنےسےمنع فرمایا اس کے باوجود انہوں نےہمیشہ اس حکم شرعی کی اہمیت کے پیش نظر اہل سنت کے نظریے کی سختی سے مخالفت کی اور اس بارے میں تقیہ اختیار کرنے کو جائز قرار نہیں دیا ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جن موضوعات میں تقیہ نہیں کروں گا ان میں سے ایک متعہ ہے ۔25
امام موسی کاظم علیہ السلام نے علی بن یقطین کو{ جنہوں نے متعہ کیا تھا }سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: تمھیں متعہ کرنے کی کیا ضرورت ہے خدا نے تمہیں اس کام سے بے نیاز کیا ہے ۔ آپ ؑکسی اورمقام پر فرماتےہیں:یہ کام اس شخص کےلئے مناسب ہےجو شادی شدہ ہونے کے باوجود خدا نے اسے اس کام سے بے نیاز نہیں کیا ہے۔جو شخص شادی شدہ ہے وہ اس وقت متعہ کر سکتا ہے جب اس کی بیوی اس کے پاس نہ ہو یعنی اس تک رسائی نہ ہو۔26
بہر حال جو کچھ واضح ہے وہ یہ کہ شارع کی طرف سے اس شرعی حکم کو صادر ہونےاورائمہ اہلبیت علیہم السلام کا اس مسئلے کے بارے میں رغبت دلانے کا مقصد یہ نہیں کہ چند ہوسران اورشیطان صفت افراد اس کے ذریعے اپنی جنسی لذتیں پوری کریں یا اس کے ذریعے چند سادہ لوح عورتوں اور بےسرپرست بچوں کو مشکلات میں گرفتا ر کریں ۔27
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
۱۔روم،21۔
۲۔نحل،72۔
۳۔نساء،3۔
۴۔نساء،24۔
۵۔مجمع البیان ،ج3ص60۔ ناصر مکارم شیرازی،شیعہ پاسخ می گوید،ص 114 ۔
۶۔وسائل الشیعۃ ،ج14،ابواب المتعۃ،باب1۔
۷۔تفسیر ابن کثیر،ج2، ص244۔
۸۔مفاتیح الغیب،ج10ص52۔
۹۔مومنون ،5 – 7۔معارج،29 – 31۔
۱۰۔نساء،25۔
۱۱۔سید شرف الدین عاملی ،الفصول المہمۃ ،ص75۔
۱۲۔صحیح بخاری ،ج3،ص246۔صحیح مسلم،ج2،ص1027۔
۱۳۔صحیح بخاری،ج6ص27۔
۱۴۔صحیح مسلم،ج2ص1023۔
۱۵۔سید محسن امین ، نقض الوشیعۃ ،ص 303۔شرف الدین عاملی ،مسائل الفقیۃ ،ص69۔ علامہ امینی ،الغدیر،ج6ص225۔،شیخ محمد حسین کاشف الغطاء،اصل الشیعۃ و اصولہا،ص171۔
۱۶۔شرح صحیح مسلم،نووی ،ج9،ص191۔
۱۷۔ابن اثیر،نہایۃ،ج2،ص488۔
۱۸۔نساء،24۔
۱۹۔سیدشرف الدین عاملی،الفصول المہمۃ ،ص79۔
۲۰۔ صحیح مسلم ، ج 2 ،ص131۔
۲۱۔فخر الدین رازی ،مفاتیح الغیب،ج10،ص52۔
۲۲۔ جعفرسبحانی،عقائدامامیہ ،ص367۔
۲۳۔تفسیرالمنار۔
۲۴۔مرتضی مطہری،نظام حقوق زن دراسلام،ص67۔
۲۵۔نظام زن در اسلام،ص82۔
۲۶۔ایضاً،ص82۔
۲۷۔ایضاً۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) لغت کی کتابوں میں لفظ" تربیت" کے لیے تین اصل اور ریشہ ذکر ہوئے ہیں۔ الف:ربا،یربو زیادہ اور نشوونما پانےکے معنی میں ہے۔ ب: ربی، یربی پروان چڑھنا اور برتری کے معنی میں ہے۔ج: رب،یرب اصلاح کرنے اور سرپرستی کرنے کے معنی میں ہے۔1صاحب مفردات کا کہنا ہے کہ "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ 2
صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے ، نقائص کو تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔3
بنابر این اگر اس کا ريشہ(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب سے ہو تو نظارت ، سرپرستی و رہبري اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔
اسلامی علوم اوردینی کتابوں میں تربيت کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں :
1۔ قصد اورارادہ کے ساتھ کسی دوسرے افراد کی رشد کے بارے میں ہدایت کرنے کو تربیت کہا جاتا ہے۔4
2۔ تعليم و تربيت سے مرادوہ فعاليت اور كوشش ہے کہ جس میں بعض افراد دوسرے افراد کی راہنمائی اور مدد کرتے ہیں تاکہ وہ بھی مختلف ابعاد میں پیشرفت کرسکے۔ 5
3۔ تربيت، سعادت مطلوب تک پہنچنے کے لئے انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا نام ہے تاکہ دوسرے لوگ اپنی استعداد کو ظاہر کرےاور راہ سعادت کا انتخاب کرے۔6
4۔ ہر انسان کی اندرونی استعداد کو بروئے کارلانے کے لئے زمینہ فراہم کرنا اور اس کے بالقوہ استعداد کو بالفعل میں تبدیل کرنے کے لئے مقدمہ اور زمینہ فراہم کرنے کا نام تربیت ہے۔
۴۔شہید مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔7
۵۔تربیت سے مراد مربی کا متربی کےمختلف جہات میں سے کسی ایک جہت{ جیسے جسم، روح ،ذہن،اخلاق،عواطف یا رفتار وغیرہ} میں موجود بالقوۃ صلاحیتوں کو تدریجی طور بروئے کار لانایا متربی میں موجود غلط صفات اور رفتا رکی اصلاح کرنا تاکہ وہ کمالات انسانی تک پہنچ سکے۔8
عقیدتی تربیت
*اعتقادی تربیت سے مراد والدین یامربی کا متربی کے لئے ضروری اعتقادات کا سکھانا اسی طرح وہ تمام اقدامات جن کے سبب متربی ان اعتقادات کو دل سے قبول کرے، ان اعتقادات پر ایمان رکھے اور عملی میدان میں ان اعتقادات پر پابند ہو۔
1۔ماں باپ {اس کے بعد دادا دادی اور سرپرست شرعی} پر واجب ہے کہ اپنے بچوں کی عقیدتی تعلیم و تربیت کے لئے راستہ ہموار کرے تا کہ بچے ضروری عقائد کی تعلیم حاصل کرسکے۔
2۔بچوں کے لئے لازی عقائد کے علاوہ دیگر عقائد کی تعلیم دینامستحب ہے۔
3۔والدین پر بچوں کی عقیدتی تربیت بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے یا سن تمیز یعنی غلط اور صحیح کی شناخت حاصل ہونے کے عمر میں واجب اور لازم ہے۔
4۔والدین پر بچوں کی اعتقادی تربیت اس شرط کے ساتھ واجب ہے کہ وہ ذہنی اورنفسیاتی طور پر اس تعلیم کے قابل ہو اوروہ اس تربیت کو درک کر سکیں۔
5۔والدین کے لئے مستحب ہے کہ وہ بچوں کی عقیدتی تربیت کے لئے کار آمد تر اور مناسب روش اپنائےجیسے ارشاد،تذکر،ترغیب، امر و نہی اور موعظہ اورنصیحت وغیرہ۔
6۔اگر بچوں کی اعتقادی تربیت کے لئے والدین کو علمی اور عملی تربیت کی ضرورت ہو تو اس صورت میں والدین پر واجب ہے کہ وہ علمی اورعملی طور پر تیار ہو جائے تا کہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکے۔
7۔والدین پر بچوں کی اعتقادی تربیت کرنا واجب عینی ہے لیکن اگرکوئی اوراس عمل کو انجام دے تو اس صورت میں والدین سے یہ شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔اس طرح والدین میں سے کسی ایک کے کامل طور پر اس فریضہ کو انجام دینے سے دوسرے ا فراد سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔
8۔والدین عقیدتی میدان میں اپنے اولاد کے لئے ایک بہترین نمونہ اورآئیڈل بننے کی کوشش کریں۔
عبادی تربیت
* عبادی تربیت سے مراد والدین یامربی کا متربی کے لئےعبادات کاطریقہ سکھانا اورمتربی کے اندر عبادت و بندگی کا شوق پیدا کرنا ہے تاکہ وہ ان عبادات کو انجام دینے میں پابند ہو ۔
9۔والدین پر واجب ہے کہ وہ اپنے اولاد کی عبادی تربیت کرے۔
10۔ بچوں کے لئےمستحب اعمال کی تعلیم دینا اورانہیں اس چیز کی طرف ترغیب دلانا مستحب ہے۔
11۔والدین پر بچوں کی عبادی تربیت ان کے بالغ ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے تا کہ بالغ ہونے کے بعد وہ اپنی اختیار اور بڑےذوق و شوق کے ساتھ خالق حقیقی کے سامنے رازو نیاز کرے۔
12۔ نماز اورروزہ کے احکام بچوں کو سکھانا والدین پر واجب ہے۔
13۔ معتبر روایات کے مطابق بچوں کے لئے ۶یا۷ سال کی عمر میں نماز سکھانا چائیے۔اسی طرح معتبر روایات کے مطابق والدین پر واجب ہے کہ اپنے بیٹوں کو ۹ سال کی عمر میں روزہ کے بارے میں بتائیں۔
14۔ والدین پر بچوں کی عبادی تربیت کرنا واجب عینی ہے لیکن اگر کوئی اوراس عمل کو انجام دے تو اس صورت میں والدین سے یہ شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔اس طرح والدین میں سے کسی ایک کے کامل طور پر اس فریضہ کو انجام دینے سے دوسرے فرد سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔
15۔ بچوں کے اندر نماز سے عشق اور محبت کا جذبہ پیدا کرےاور اپنے بچوں میں ایمان کو تقویت دے۔
16۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے لئے دعا کریں۔
17۔امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے بچوں کو جلد از جلد اسلامی احادیث سکھائیں اس سے قبل کہ مخالفین تم پر سبقت لے جاتے ہوئے اپنے غلط عقائد اور نظریات سے تمہارے بچوں کے دلوں کو پر کر دے۔
18۔والدین گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح سے پیش آجائے اورایسی تربیت کرے کہ اسے ایک راستگو اورسچا انسان بنا دے۔ جس بچے کو سچ بولنا سکھایا جاتا ہے وہ انصاف کرنا سیکھتا ہے۔
19۔گناہ سے نفرت اوراس کی برائی کو بچوں کو سمجھائیں تاکہ وہ اس چیز سے دوررہے۔
20۔بچوں پر والدین کی نصیحت اس وقت اثر کرتا ہےجب والدین خود ان باتوں پر عمل کرتا ہو۔اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہیے کہ بچوں کی تربیت اس طرح سے نہیں ہوتے جس طرح سے ہم چاہتے ہیں بلکہ بچوں کی تربیت اس طرح سے ہوتے ہیں جس طرح سے ہم ہیں ۔
21۔بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے اور نو سال کی عمر میں روزہ رکھنے کا حکم دے۔
22۔اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دے۔
23۔ والدین کے وظائف میں سے ایک وظیفہ اپنےاولاد کی تربیت اورانہیں واجبات کی تعلیم دینا ہے اور جو شخص ان وظائف پر عمل نہیں کرتا اسلام میں اس کی سخت مذمت ہوئی ہے۔
24۔والدین عبادی میدان میں بھی اپنے اولاد کے لئے ایک بہترین نمونہ اورآئیڈل بننے کی کوشش کریں۔
عاطفی تربیت
*عاطفی تربیت سے مراد والدین یا مربی کا متربی میں موجود انسانی عواطف کو بروئے کار لانا اورانہیں کمال تک پہنچاننے کے لئے مدد کرنا۔ اسی طرح متربی میں موجود غیر عاطفی رفتار کی اصلاح کرنا ہے۔
25۔والدین کے اوپر لازم ہے کہ بچوں کے معاملے میں عدالت و انصاف سے پیش آجائے خاص طور پر اولاد کے درمیان پیار و محبت کے اظہار کرنے میں بھی عدالت و انصاف کی رعایت کریں۔
26۔اولاد کی نسبت والدین کی بے توجہی اور ان سے اظہار محبت نہ کرنا ان کےلئے جسمانی یا روحی ضرر یا گمراہی اور فساد کا باعث بنتا ہو تو اس صورت میں والدین پر واجب ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ اظہار محبت کرے۔
27۔والدین کے لئے بچوں پر رحم کرنا اور ان کے اوپر احسان کرنا مستحب عمل ہے۔
28۔بچوں کو شخصیت دینا اور ان کا احترام کرنا مستحب ہے۔
29۔بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح سے پیش آنا بھی مستحب ہے۔
30۔ ہدیہ اورتخفے پہلے بیٹی کو دینا چاہیے۔
31۔بچوں کو رونے کی خاطر نہ ماریں کیونکہ کچھ مدت تک ان کا رونا خدا کی وحدانیت اوررسول کی رسالت کی گواہی اوراسی طرح والدین کے لئے دعا ہے۔
32۔اپنے بچوں کابوسہ لیا کرے کیونکہ ہر دفعہ بچوں کا بوسہ لینا بہشت میں ایک درجہ بڑھنے کا باعث بنتا ہے۔
33۔اپنے بچوں کو سلام کر کے انہیں شخصیت دے۔
34۔بچوں سے اگر کوئی وعدہ کیا ہو تو وعدہ خلافی نہ کریں بلکہ اسے ضرور انجام دے۔
35۔ بچوں کے ساتھ حد سے زیادہ محبت کرنا انہیں ایک کمزور اور بزدل بنا دیتا ہے۔
36۔ اپنےبچوں کو تحقیر کا نشانہ مت بنائیں کیونکہ جس بچے پر ہر وقت تنقید کی جاتی ہے وہ ہر چیز کو رد کرنا سیکھتا ہے۔
37۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو نصیحت کرتے وقت آرام اورنرمی سے بیان کریں ۔
38۔اگر کوئی بچہ اپنے گھر میں قابل احترام قرار پائے تو وہ والدین کی نافرمانی سے گریز کرتا ہے۔
39۔بچوں میں خود اعتمادی بڑھانے اور ان کی شخصیت کو پروان چڑھانے کے بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ والدین کا اولادسےاحترام سے پیش آنا اوران سے محبت اورنیک رفتار کرنا ہے۔
40۔بہترین مربی وہ ہے جو بچوں کی ضروریات کو درست طریقے اور صحیح رویے کے ذریعہ ہموار کرتا ہے۔
41۔اپنے بچوں کو نہ ڈارئیں کیونکہ خوف اورترس بچوں کی شخصیت کو ختم کر دیتا ہے اور یہ چیزروحی اورنفسیاتی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔
42۔بچوں کے نفسیاتی اورروانی غذا میں سے ایک والدین کی طرف سے بچوں کے لئے پیار و محبت ہے اس لئے بچوں کو یہ غذا مناسب اور کافی مقدار میں ملنی چاہئیے۔
43۔امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: حد سے زیادہ ملامت اور سرزنش لجاجت اور ضد کی آگ کو بھڑکاتا ہے۔
44۔دوسرے افراد کی باتوں کو ہمیشہ اس کے سامنے دہراتےنہ رہیں اور نہ ہی کسی اور کواس کے ساتھ مقایسہ کریں۔
45۔بہت سارے اچھے مفاہیم کو کہانی کی شکل میں بچوں تک پہنچائیں ۔
46۔بچے کا کم عمری میں شرارت کرنا بڑے ہو کر اس کی ذہانت میں اضافہ کی علامت ہے لہذا انہیں ڈانٹ کرروکنے کی کوشش نہ کرے۔
47۔بچوں کو جھٹلانے سے پرہیز کریں کیونکہ جس بچے پر اعتبار نہیں کیا جاتا وہ دھوکہ دینا سیکھتا ہے۔
48۔ والدین بچوں کے مختلف سوالات کا حوصلے سے جواب دیا کریں۔
49۔جس بچے کو ہر وقت مار پیٹ کا سامنا ہوتا ہے اس کی تمام صلاحتیتیں دب جاتی ہے۔
50۔جس بچے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اس میں اعتماد بڑھتا ہے۔
51۔ جس بچے پر شفقت برتی جاتی ہے وہ محبت کرنا سیکھتا ہے۔
52۔ جس بچے کی بی جا خواہشات پوری کی جاتی ہیں وہ سرکش اور خود سر ہو جاتا ہے۔
53۔جس بچے کا ہمیشہ مذاق اڑایا جاتا ہے وہ بزدل بن جاتا ہے۔
54۔والدین اور مربی کو چاہئے کہ وہ بچوں کے لئےمددگا ر ثابت ہو اور انہیں غصہ کرنے یاڈارنے اور دھمکانے کے بجائے،صبر و تحمل،حوصلہ اور محبت کے ساتھ پیش آ جائے تا کہ بچوں کے اندر خود اعتمادی کے علاوہ ان میں موجود ذاتی صلاحیتیں نکھر سکیں۔
55۔والدین کو عاقلانہ رفتا ر انجام دیتے ہوئے بچوں کے درمیان حسادت کو روکنا چاہیےمثلا گھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے چھوٹے بچے کے ساتھ پیار و محبت کرنے اورصرف اسی کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہونے کے بجائے بڑے بچے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ پیش آ جائے اس کے بعد چھوٹے بچے کے پاس جائے۔
جسمانی تربیت
*جسمانی تربیت سے مراد والدین کا بچوں کی جسمانی نشوو نما اوردوسرے طبیعی اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زمینہ سازی کرنا ہے۔
56۔بچوں کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنا والدین پر واجب ہے۔
57۔ بچوں کی جسمانی اور غیر جسمانی ضروریات جیسے نان و نفقہ کا دینا باپ پر واجب عینی ہے لیکن اگر کوئی اور ان اخراجات کو ادا کرے تو باپ کی شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائی گی۔
58۔ماں کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے۔
59۔اگر ماں کادودھ نہ دینا بچہ کے لئے جسمانی طور پر خطرہ کا باعث ہو تو اس صورت میں ماں پر واجب ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے۔
60۔ جب تک بچہ مالی اورفکری طور پر مستقل نہ ہو باپ پر واجب ہے کہ اس کے اخراجات ادا کرے لیکن بیٹی کے شادی کرنےے کے بعد اس کا نان و نفقہ اور دیگر اخراجات باپ پر واجب نہیں ہے۔
61۔والدین کواپنے بچوں کے ساتھ بچہ بن کر کھیلنا چاہئیے۔
62۔والدین کو چاہئے کہ بچوں کو گھروں میں آزادانہ طور پر کھیلنے کی اجازت دے۔
63۔والدین بچوں کے غیر متوقع رفتار کو ممکنہ حد تک تحمل کریں۔
64۔ مادی لحاظ سے بچوں کے ساتھ افراط تفریط سے پیش آنے سے پرہیز کریں کیونکہ یہ دونوں بہت خطرناک ہے۔
65۔والدین بچوں کے جسمانی نشو و نما کے لئے حلال غذا فراہم کرے کیونکہ اس چیز کا اپنا وضعی اثر ہے۔
اجتماعی تربیت
* اجتماعی تربیت سے مراد والدین یا مربی کا متربی کے افکار و رفتار میں مثبت تبدیلی کی خاطراقدامات انجام دینا ہے تا کہ اجتماعی حوالے سے اس کے افکار و رفتار مثبت ہو۔
66۔ اجتماعی امور میں بھی بچوں کی کما حقہ تربیت ہو اور اجتماعی طور پر بھی وہ تکامل کے راستہ کو طے کرے اس لئے والدین کو ان امور کی طرف توجہ رکھنا چاہئے۔
67۔والدین کوشش کرے کہ بچہ مستقل اور خود اعتماد ہو۔
68۔والدین بچوں کو اپنے امور کے متعلق فیصلہ کرنے میں آزاد رکھے اسی طرح دوسروں کے نظریات سے بھی استفادہ کرنے کا حق دے۔
69۔بچوں کو مختلف کاموں کی ذمہ داری سونپا جائے تا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو بہتر طریقہ سے انجام دے۔
70۔والدین بچوں کو مستقبل کے بارے میں سوچنے اورفکر کرنے کی بھی تعلیم دے۔
71۔والدین بچوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کے ساتھ پیش آجائے تاکہ بچے بھی دوسروں کے ساتھ نرمی اور آسانی کے ساتھ پیش آئے۔
72۔والدین بچوں کو اجتماعی اورگروہی کاموں کی طرف ہدایت اوررہنمائی کرے۔
73۔والدین بچوں کو دوسروں کے ساتھ بہتر اور مناسب طریقہ سے پیش آنے کا طریقہ سکھائیں۔
74۔والدین بچوں کو مثبت اورپائیدار چیزوں کی تعلیم دے جو ان کی نشو و نما کا باعث بنتا ہے۔
75۔والدین بچوں کو انتقاد پذیر اور ان میں موجود کمزوریوں کی اصلاح کی تعلیم دے۔
76۔والدین کبھی بھی بچوں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑااور غیر منطقی گفتگو نہ کریں۔
77۔والدین بچوں کی خدادادی صلاحیتوں اور استعدادوں کو پہچان لیا کریں اور انہیں پروان چڑھانے میں ان کی مدد کریں۔
78۔بچوں کی عقلانی اورجسمانی رشد و نشوونما کے ساتھ ساتھ انہیں آزادی اور اپنے اختیار پہ چھوڑدیں۔
اگر بچوں کے سامنےوالدین سے خطا یا غلطی سر زد ہو جائے تو وہ اس کا اعتراف کریں تا کہ بچے بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی جرات پیدا کرے۔
79۔والدین بچوں کے سامنے کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ جھوٹ نہ بولیں کیونکہ اگر والدین اس چیزکی رعایت نہ کریں تو بچہ بھی خود بخود جھوٹ بولنے کی عادت پیدا کریں گے۔
80۔والدین بچوں کو ہمیشہ اچھے کاموں کی تشویق و ترغیب کرے۔
81۔والدین اور مربی بچوں کو ان کی استعداد ،صلاحییت اور عمر کے تقاضوں کے مطابق ذمہ داری سونپے۔
82۔بچوں کو اچھے کاموں کی عادت تمرین اور تکرار سے ہی حاصل ہوجاتی ہے اوراچھے عادات تدریجا برے عادات کی جگہ لیتی ہے لہذا والدین اور مربی کو اس بات کی توجہ رکھنی چاہیے ۔
83۔والدین بچوں سے یہ امید نہ رکھے کہ وہ پہلی دفعہ ہی مطیع محض اوراچھے و مطلوب رفتار کے مالک بن جائے ، بلکہ ان مطالب کو سمجھنے اوردرک کرنے میں انہیں وقت درکا رہے ۔
جنسی تربیت
*جنسی تربیت سے مراد والدین یامربی کا بچے کی جنسی خواہشات کو صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرنا اور اسے مختلف انحرافات سے بچانا تاکہ بچےبالغ ہونے کے بعد جنسی خواہشات کو پورا کرنے میں انحرافات کا شکار نہ ہو۔
84۔بچوں کی جنسی تربیت کے لئے والدین پہلے اپنے بچوں کو یہ سکھائے کہ وہ والدین کے کمرے میں آتے وقت اجازت لے کر آئیں اور اچانک بغیر اجازت کے اندر نہ آئیں ۔
85۔والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک بچوں کی جنسی طور پر تربیت کرنا ہے اور والدین کو چاہئے کہ بچوں کے بستر کو جدا کرے۔
86۔بچوں کے بستر کو جدا نہ کرنا بچوں کے جلدی بلوغ اور جنسی تحریک کا باعث بنتا ہے۔
87۔والدین بچوں کو محرم اور نامحرم کے حوالے سے آگاہ کریں ۔
88۔والدین نامحرم افراد کے سامنے پردے کی رعایت کریں اوراس سلسلے میں سہل انگاری اور سادہ اندیشی سے پرہیز کریں۔
89۔والدین بچوں کے سامنے عشق و عاشقی سے پرہیز کریں۔
90۔والدین بچوں کو اس چیز کی تعلیم دے کہ انسان کے بعض اعضاء اس کی ذاتی اورشخصی حریم کی حثییت رکھتی ہے اس لئے ان کی طرف نگاہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
91۔ماوں کو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ بچوں کی جسمانی صفائی کرتے وقت کوئی اوربچہ اس کی طرف نہ دیکھ رہا ہو۔
92۔والدین پر واجب ہے کہ وہ بچوں کی جنسی تربیت کرے اوران کی جنسی خواہشات کو صحیح سمت کی طرف راہنمائ کرے۔
93۔بچوں کی جنسی تربیت کے وجوب کا حکم ان کی بلوغت سے پہلے ہے لیکن آیہ وقایہ اور رسالہ حقوق امام سجاد علیہ السلام کے مطابق اس کی انتہا کے لئے کوئی وقت معین نہیں ہے۔
94۔بیدار اورہوشیاربچوں کے سوتےہوئے مجامعت کرنا سخت مکروہ ہے لیکن اگر ماہرین تربیت کی نظر میں بیدار اور ہوشیاربچوں کے ہوتے ہوئے مجامعت و ہمبستری بچوں کے مستقبل میں انحراف کا باعث بنتا ہو تو { ولاتعاونوا علی الاثم }کے عنوان سے حرام ہے یا آیہ وقایہ کے مطابق ان سے چپھا کر اس عمل کو انجام دینا واجب ہے۔
95۔والدین پرنابالغ بچوں کو والدین کے کمرے میں اجازت لے کر آنے کا طریقہ سکھانا مستحب ہے لیکن بالغ اوربڑے افراد کے لئےیہ طریقہ سکھانا واجب ہے ۔
96۔بچوں کی جنسی تربیت کرنا والدین پر واجب عینی ہے اگرچہ ماں یا باپ میں سے کسی ایک کی طرف سے یہ ذمہ داری کامل طور پر ادا ہو جائے تو دوسرے فرد سے ساقط ہو جائے گی۔
97 ۔نامحرم انسان چھ سال کی لڑکی کو اپنی آغوش میں نہ لیں اسی طرح اس کا بوسہ بھی نہ لیں۔
98۔چھوٹی بچیوں کے جسم دوسروں کے سامنے عریان نہیں ہونا چاہیے۔
99۔بچوں کے سونے کی جگہ یعنی بسترچھ سال کے بعد جدا ہونا چاہیے۔
100۔والدین ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت اورعشق و عاشقی کرتے وقت اس بات کی طرف توجہ رکھے کہ بچے گھر میں ہمیشہ ان کے اعمال اوررفتار کے نظارہ گر ہیں ، لہذا اس چیز سے غافل نہ رہے۔
حوالہ جات:
1۔طلال بن علی متی احمد، مادۃ اصول التربیۃ الاسلامیہ،مکہ مکرمہ، جامعہ ام القری، الکلیہۃ الجامیہ ، ۱۴۳۱ھ ، ص۸۔
2۔ معجم مقاييس اللغۃ، ص378؛ لسان العرب، ج2، ص1420؛ مجمع البحرين، ج2، ص63؛ محمدمرتضي حسینی زبيدي، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت،دارالفکر، ۱۴۱۴ق ،چ اول ،ص459 و460.
۳۔ حسن مصطفوي ، التحقيق في کلمات القرآن الکريم،بیروت ،دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۳۰ق ،چ سوم ،ج4، ص20.
۴۔ فلسفہ تعليم و تربيت، ص32 .
۵۔ ایضا، ص 42۔
۶۔ محمد بہشتي، مباني تربيت از ديدگاہ قرآن، ص 35.
۷۔مرتضیٰ مطہری، تعلیم و تربیت در اسلام ، تہران: صدرا، ، ۱۳۳۷ش۔ ، ص۴۳ ۔
۸۔اعرافی علی رضا، سید نقی موسوی،فقہ تربیتی،ص ۱۴۱،موسسہ اشراق قم۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) متکلمین امامیہ نے اپنی کتابوں میں ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی امامت کے بارے میں قرآن و سنت سے بہت سارے نصوص ذکر کئے ہیں کہ جن کی وضاحت کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن ہم یہاں پر بطور نمونہ چند نصوص حدیثی بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
1۔حدیث غدیر:
حدیث غدیر خم اسلام کے متواتراحادیث میں سے ہے جسے ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے اصحاب سے نقل کیا ہے اور یہ تعداد تعجب آور نہیں کیونکہ غدیر خم میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شریک تھے ۔۱۔غدیر خم کا واقعہ تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعات میں سے ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناسک حج انجام دینے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ، غدیر خم کے مقام پر پہنچنے کے بعد تمام حاجیوں کو جمع ہونے کا حکم دیا ۔جو لوگ آگے بڑھ چکے تھے واپس آئےاور جو پیچھے رہ گئےتھے وہ بھی پہنچ گئے آپ ؐنے نماز ظہر باجماعت ادا کی اور اس کے بعد ایک منبر بنانے کا حکم فرمایا ۔منبر پر تشریف لے گئے اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنےپاس بلایا ۔ خدا کی حمد و ثنا نیز چند اہم نکات بیان کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں اس کے بعد فرمایا:{من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ } جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علی بھی مولیٰ ہیں۔
شیعوں کے نزدیک مولی ٰسے مراد زعامت اور امت اسلامی کی رہبری ہے کیونکہ لفظ مولی ٰ کا ایک معنی دوسروں کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے حدیث کا معنی یہ ہوگا جو بھی مجھے بطورمولیٰ دوسروں کے امور میں تصرف کرنے کا حتی کہ ان کے اپنے نفس کی نسبت زیادہ حقدار سمجھتا ہے ان سب کا {علی}بھی مولیٰ ہے ۔بعبارت دیگر حضرت علی علیہ السلام بھی دوسروں پر ایسی ہی ولایت رکھتے ہیں ۔
اس نظریہ کی اثبات کے لئے بہت سارےعقلی و نقلی قرائن موجود ہیں جن میں سےچند قرائن بطورمختصر ذکرکرتے ہیں :
1۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطاب کی ابتدائی حصہ میں مسلمانوں پر اپنی اولویت کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:{النبی اولی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسہِمْ}۲بے شک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ہے”۔ آیت کا یہ حصہ حدیث میں موجود لفظ {مولیٰ} کے لئے واضح قرینہ ہے ۔جیساکہ آپ ؐنے بعد میں فرمایا :{من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ}جسے اکثر راویوں نے اس مقدمے کو حدیث غدیر کے ساتھ نقل کیا ہے ۔۳
2۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملہ{من کنت مولاہ ۔۔} کو بیان کرنے سے پہلے اسلام کے تین بنیادی اصول توحید،نبوت اور معاد کا ذکر فرمایا اور لوگوں سے اس سلسلے میں اقرار بھی لیا اس کے بعد آپ ؐنے فرمایا:تمہارا مولیٰ کون ہے ؟ مسلمانوں نے جواب دیا :خدا اور اس کا رسول ۔اس وقت آپ ؐنے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو بلند کیا اور فرمایا: جس کا خدا اور اس کا رسول مولیٰ ہے یہ {علی }بھی اس کامولیٰ ہے ۔اس پیغام کے اصول دین کے اقرار سےمربوط ہونے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں ولایت سے مراد امت اسلامی کی رہبری اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح مسلمانوں پر ولایت حاصل ہونا ہے ۔
3۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے{من کنت مولاہ ۔۔}کو بیان کرنے سے پہلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ؐمسلمانوں کی رہبری کے بارے میں فکر مند تھے اور اس بارے میں کوئی مناسب فیصلہ کرنا چاہتے تھے ۔
4۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر میں آیت کریمہ{الْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لکُمْ دِينَکُمْ۔۔}کی تلاوت کے بعد اللہ اکبر کہہ کر دین اسلام کے کامل ہونے اور مسلمانوں پر خدا کی نعمتوں کے تمام ہونےنیز خداوند متعال کا آپؐ کی رسالت اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر راضی ہونے پر خوشی کا اظہار فرمایا۔واضح رہے کہ ولایت کو رسالت کے ساتھ ذکر کرنے کا مطلب امت اسلامی کی رہبری کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ۔
5۔پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ عقلمند،حکیم اور مہربان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مومنین کے دوست ہیں یا مومنین پر واجب ہے کہ آپ ؑسے محبت و دوستی کریں - جسے ایک عام مسلمان بھی سمجھ سکتا ہے کیونکہ مومنین کا ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنا ایمان کےضروریات میں سے ہے۔بنابریں اس واضح مسئلےکو اس غیرمعمولیٰ حالات میں اور وہ بھی گرم ترین علاقے میں اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنا حکیمانہ نہیں ہے۔جبکہ ہمیں تاریخ اسلام کے واقعات کی اس طرح سے تفسیر نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و تدبیر پر حرف آجائے لیکن امت اسلامی کی رہبری کا مسئلہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ایسے سخت حالات اور تمہید کے ساتھ اس نکتے کی وضاحت کرنا عاقلانہ و حکیمانہ ہے ۔
غدیر کے واقعہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجاج بیت اللہ کے کاروان کو شدید گرمی کے دنوں میں دوپہر کے وقت ایک بنجر اور بے آب و گیاہ سر زمین پر ٹھہرنے کا حکم فرمایا ۔گرمی کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے اپنی عبا کے آدھے حصے کو اپنے سروں پر اوڑھ لیا تھا اور باقی آدھے حصے کو اپنے نیچے فرش کے طور پر بچھایا تھا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس تمہید و اہتمام کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ایسا کلام فرمانا ہوگا جو امت کی ہدایت میں کلیدی اہمیت کے حامل اور تقدیر ساز ہو۔حقیقت میں مسلمانوں کے جانشین کے تقرر کے علاوہ کونسی چیز کلیدی اور تقدیر ساز ہو سکتی تھی؟ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام الہی کے پہنچانے کے بعد حاضرین سے چاہا کہ اس خبر کو غائبین تک پہنچائیں ۔لہذا یہ قرائن و شواہد دلالت کرتی ہےکہ آپ ؐنےغدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرمایا تھا ۔ 5
2۔حدیث منزلت:
صحاح و مسانید کے موٴلفین و مصنفین نے تحریر کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی مرتبہ فرمایاکہ حضرت علی علیہ السلام کا مقام آپ ؐکی نسبت وہی ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسی علیہ السلام کی نسبت تھا صرف اس فرق کے ساتھ کہ آپ ؐکےبعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔حدیث منزلت کی عبارت یہ ہے :{یا علی انت منی بمنزلۃ هہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی}“اےعلی آپ کو مجھ سےوہی نسبت ہے جوہارون کو موسی سےحاصل تھی ہاں بے شک میرے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا۔” حدیث منزلت سند کے اعتبار سے متواتر اورقطعی ہے جسےشیعہ محدثین کے علاوہ اہل سنت کے محدثین نے بھی بیس سےزیادہ اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنقل کیا ہے ۔۱۴اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام کی نسبت جو بھی مقام حاصل تھےوہ سب حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت حاصل تھے سوائے نبوت کے ۔ آیات قرآنی کے مطابق حضرت ہارون علیہ السلام مندرجہ ذیل مقام پر فائز تھے۔
1۔وزارت:{ وَ اجْعَل لیّ وَزِيرًا مِّنْ أَہْلی. ہَارُونَ أَخِی}اور میرے کنبے میں سے میراایک وزیر بنا دے۔ میرے بھائی ہارون کو۔
2۔مددگار و پشت پناہ:{ اشْدُدْ بِہِ أَزْرِی}اسے میراپشت پناہ بنا دے۔
3۔نبوت و رہبری میں مشارکت:{ وَ أَشْرِکہُْ فیِ أَمْرِی}6اور اسے میرےامر{رسالت} میں شریک بنا دے۔
4۔خلافت وجانشینی:{ وَ قَالَ مُوسیَ لاَخِيہِ ہاَرُونَ اخْلُفْنیِ فیِ قَوْمِی}7اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا۔
لہذا حضرت علی علیہ السلام بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت {وزارت،مددگار ،خلیفہ وجانشین اور امامت ورہبری میں مشارکت} جیسے منصب پر فائز تھے۔ یعنی آپ ؑپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں انکے وزیر و مددگار تھےجبکہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد امت اسلامی کے رہبر اور جانشین تھے ۔ یہاں یہ اعتراض کیا گیاہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام حضر ت موسی علیہالسلام کی زندگی میں خاص مورد میں جانشین مقرر ہوئے ۔یعنی جب حضرت موسی علیہ السلام چالیس دن کے لئےکوہ طور چلے گئے تو اس وقت حضرت ہارون علیہ السلام آپ کےجانشین تھے ۔جیساکہ حضرت علی علیہ السلام بھی غزوہ تبوک کے موقع پرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مدینہ میں آپ ؐکے جانشین تھے تا کہ آپ ؑمدینہ میں مسلمانوں کی رہبری کریں ۔لہذا اس حدیث سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد جانشینی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ہرحکم اپنے موضو ع اورمقام کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے ۔8
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اصولی قواعد اور عقلی قانون کے مطابق انسانوں کے کلام میں مورد مخصص نہیں ہوتا بلکہ ظاہر لفظ معیار ہوتا ہے۔یعنی جب بھی ظاہر کلام عمومیت و اطلاق رکھتا ہو اس وقت اس عموم و اطلاق پر عمل کیا جاتا ہے اگرچہ وہ کسی خاص مورد کےلئے استعمال کیوں نہ ہو اہو ۔اس مطلب پرشاہد یہ ہے کہ اگر حضرت موسی علیہ السلام ایک دفعہ پھر اپنی قوم کو چھوڑ دیتے اور کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ کرتے تو اس وقت حضرت ہارون علیہ السلام کی ذمہ داری تھی کہ وہ امت کی رہبری کرے اورلوگوں پر بھی ان کی اطاعت واجب تھی۔ اگرحضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے بعد بھی زندہ رہتے تو اس وقت بھی ان کا مقام یہی ہوتاکیونکہ بنی اسرائیل کو اب بھی کسی رہبر کی ضرورت تھی۔ بنابریں حقیقت میں حکم کا موضوع نبی کی عدم موجودگی میں لوگوں کا رہبر کی طرف محتاج ہونا ہے لہذا آپ ؑکا چالیس دن کے لئے میقات پر جانا اور کچھ مدت تک ان کے پاس نہ رہنے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے کہ حکم اسی کے ساتھ مختص ہو ۔
یہ اعتراض کہ حضرت موسی علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں حضرت ہارون علیہ السلام کی رہبری حضرت موسی علیہ السلام کے جانشین ہونے کی بنا پر نہیں تھی کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام خود نبی تھے اور وہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کی رہبری میں شریک تھے اور یہ بات کہ حضرت موسی علیہ السلام نے انہیں اپنا جانشین اور خلیفہ مقررکیا ہےیہ تاکید کی خاطرہے۔9
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام اگرچہ مقام نبوت پر فائز تھے لیکن قرآنی آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں امت کی رہبری اور امامت صرف آپ ؑکے ساتھ مخصوص تھی اور حضرت ہارون علیہ السلام صرف ایک وزیر کی حیثیت سےان کے ساتھ شریک تھے۔اہل سنت کے مفسرین نےبھی اس آیت کی تفسیر میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے جیساکہ صاحب المنار لکھتے ہیں:جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پر جا رہے تھے تو اپنے بڑے بھائی ہارون کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقررکیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرےاور ان کے امور کو سنبھالے کیونکہ امت کی امامت اوررہبری حضرت مو سی علیہ السلام کے ذمہ داری تھی اور حضرت ہارون علیہ السلام صرف ان کے وزیر تھے۔10
اصولاًیہ آیت مقام نبوت اور مقام امامت و رہبری کے جدا ہونےپر دلالت کرتی ہے یعنی اگر حضرت ہارون علیہ السلام مقام نبوت کے ساتھ مقام امامت و رہبری پر بھی فائزہوتے تو انہیں خلیفہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن حضرت موسی علیہ السلام نے انہیں اپنا خلیفہ و جانشین معین کیا لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام اس مقام پر فائز نہیں تھے ۔11
3۔حدیث دار:
حضرت علی علیہ السلام کی امامت بلا فصل پردلالت کرنےوالےنصوص میں سے ایک حدیث دارہے ۔{پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےدعوت ذو العشیرہ کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کےبارے میں فرمایا:{ان هذا اخی و وصیی و خلیفتی فیکم}12بے شک یہ تمھارے درمیان میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہے ۔}اس حدیث کی وضاحت گزرچکی ہے اس لئے دوبارہ تکرار کرنے سےصرف نظرکرتے ہیں ۔
4۔حدیث ائمہ اثنا عشر:
صحاح ، مسانید اوردوسری کتب احادیث میں مختلف سند کے ساتھ جابربن سمرۃ سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرےبعد بارہ خلفاء مسلمانوں کی رہبری کریں گے جو سب قریش سے ہوں گے ۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث اس عبارت کے ساتھ نقل ہوئی ہے {۔۔۔ یکون اثنا عشر امیرا، فقال کلمۃ لم اسمعہا فقال أبی أنہ قال : کلہم من قریش}13پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرےبعد بارہ امیر ہوں گے پھر آپ ؐکوئی ایسی بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ نے فرمایا: کہ سب کےسب قریش سے ہوں گے ۔ اسی طرح صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے جیسے
:1۔{ان ہذا الامر لاینقضی حتی یمضی فیہم اثناعشرخلیفہ کلہم من قریش}یہ امر خلافت اس وقت تک ختم نہیں ہوگایہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء گزر جائیں کہ سب کےسب قریش سے ہوں گے۔
2۔{لا یزال امر الناس ماضیا ما ولیہم اثنا عشر رجلا ، کلہم من قریش}لوگوں کا معاملہ یعنی خلافت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ان میں بارہ خلفاء ان کے حاکم رہیں گے اور یہ سب خلفاء قریش سے ہونگے۔
3۔{لایزال الاسلام عزیزا الی اثنی عشرخلیفۃ ، کلہم من قریش}اسلام بارہ خلفاءکے پورے ہونے تک عزیز{غالب}رہے گا کہ سب قریشی
ہوں گے۔
4۔{لا یزال هذاالامر عزیزا الی اثنی عشرخلیفۃ ، کلہم من قریش}دین اسلام بارہ خلفاء کے پورے ہونے تک غالب رہے گا جو قریشی ہوں گے۔
5۔{لایزال هذا الدین عزیزا منیعا الی اثنی عشر خلیفۃ ، کلہم من قریش}یہ دین ہمیشہ بارہ خلفاء کے پورے ہونے تک غالب و بلند رہے گا کہ سب قریش کے خاندان سےہوں گے۔
6۔{لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعۃ اویکون علیکم اثنا عشرخلیفۃ ، کلہم من قریش}14دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے یا تم پر بارہ خلفاءحاکم ہوجائیں اور وہ سب قریشی ہوں گے ۔
5۔ حدیث نقباء بنی اسرائیل:
بارہ خلفاء کی خلافت پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک ،حدیث نقباء بنی اسرائیل ہے ۔ احمد بن جنبل نے اپنی مسند میں اس حدیث کو مسروق سے نقل کیا ہے :ہم عبد اللہ ابن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے لئے قرآن کی تلاوت کر رہا تھا ۔اتنے میں ایک شخص نے اس سے پوچھا کیا تم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھاہے کہ اس امت پر کتنے خلفاء رہبری کریں گے؟ عبد اللہ بن مسعود نےکہا : ہاں پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا:بنی اسرائیل کےنقباء کے برابر بارہ خلفاءہوں گے۔15
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء کی تعداد بارہ ہے اور ان کی خلافت بھی منصوص ہے کیونکہ بنی اسرائیل کے نقباء خداوند متعال کی طرف سے برگزیدہ تھے۔ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ لَقَدْ أَخَذَ اللّہ ُ مِيثَاقَ بَنیِ إِسرْ ءِيلَ وَ بَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنیَ عَشرَ نَقِيبًا}16اور اللہ نےبنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیبوں کا تقرر کیا”۔
جو خلفاء لوگوں کے انتخاب یا اپنی سعی و کوشش سے مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں ان کی تعدادمعین نہیں ہوتی اور یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں کہ اصحاب اس بارے میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کریں ۔بنابریں یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان خلفاء کے بارے میں سوال کیا تھا جو خدا کی طرف سے امت اسلامی کی رہبری کے لئے منصوص تھے ۔17
6۔حدیث ثقلین:
شیعوں کے منابع کی بحث میں اس حدیث کے بارے میں تفصیلا بحث گزر گئی اور وہاں یہ مطالب بیان ہوئے کہ حدیث ثقلین ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے جس کےنتیجے میں ان کی علمی مرجعیت او ر رہبری بھی ثابت ہو جاتی ہیں۔ یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے بارے میں مختلف شواہد موجود ہیں جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیاسی رہبری پر دلالت کرتی ہیں ۔پہلا شاہد یہ ہے کہ حدیث ثقلین کی بعض عبارتوں میں جوکہ مختلف ذرائع سے نقل ہوئی ہیں لفظ {خلیفتین} استعمال ہواہے جیسے:{انی تارک فیکم خلیفتین: کتاب الله،حبل ممدود من السماء ﺇلی الارض،وعترتی،اہل بیتی، فانہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض}18میں تم
میں دو خلیفہ و قائم مقام چھوڑے جاتا ہوں کتاب خدا ، جو آسمان سے زمین تک لٹکی ایک رسی کی مانندہیں اور دوسری میری عترت یعنی اہلبیت اور یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔
دوسرا شاہد یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاس حدیث کوبیان کرنے سے پہلے اپنی قریب الوقوع رحلت کی خبر دی اور آپ ؐنے فرمایا:{یوشک أن یاتینی رسول ربی فاجیب}عنقریب میرے پروردگار کا پیغام رسان میرےپاس آئے اور میں اس کا جواب دوں”۔ واضح ہے کہ جب بھی کوئی رہبر اپنی موت کے بارے میں لوگوں کو خبر دیتا ہے اور لوگوں کو کسی فرد یا افراد کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو یقینا اس سے مراد معاشرے کی سیاسی رہبری ہے ۔ علاوہ از ایں مسلم 19کے نقل کے مطابق پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین کو غدیر کے دن بھی ارشاد فرمایاجیساکہ بعض نسخوں میں یہ جملہ {من کنت مولاہ فعلی مولاہ} بھی موجود ہے جبکہ اس جملے کو پیغمبراسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن فرمایا ہے ۔ بنابریں غدیر خم کے دن دو مطالب بیان ہوئے:1۔ حضرت علی علیہ السلام کی امامت بطورخاص بیان ہوئی 2۔باقی ائمہ اطہار علیہم السلام کی امامت بطور عام بیان ہوئی ۔
یہاں اگر ہم اس فرض کو بھی قبول کریں کہ حدیث ثقلین ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی علمی رہبری ا ورمرجعیت کو بیان کرتی ہے تب بھی تمام مسائل میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے نظریے پر عمل کرنا چاہیے ۔حتی امت کی رہبری اور امامت کےبارے میں بھی ان کی رائے معیار ہونا چاہیے جبکہ ائمہ علیہم السلام ہمیشہ اموی و عباسی حکمرانوں کےخلافت کوناجائز قرار دیتےتھے اور اپنی حقانیت پر تاکید فرماتے تھے۔20
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
۱۔السیرۃ الحلبیۃ ،ج3 ،ص283۔تذکرۃ الخواص الامۃ،ص 18۔دائرۃ المعارف ،فرید وجدی،ج3،ص543۔
۲۔احزاب،6۔
۳۔المراجعات ،مراجعہ 54۔ الغدیر ،ج1،ص371۔
۴۔المراجعات ،ص201 -204۔الغدیر، ج1،ص 382۔
۵۔عقائد امامیہ ،جعفرسبحانی ،ص230۔
۶۔المراجعات ،مراجعہ 28 ،30۔
۷۔طہ،29 – 32 ۔
۸۔اعراف،142 ۔
۹۔شرح المواقف ،ج8،ص 363۔
۱۰۔ایضا ً، ص 275۔
۱۱۔المنار ،ج9 ،ص 121۔تفسیر المراغی ،ج9،ص 56۔
۱۲۔مجمع البیان۔
۱۳۔مسند احمد ۔ تاریخ طبری ،ج2ص 206۔تفسیر طبری و جامع البیان ج9 ص 75۔
14۔صحیح بخاری،ج4 ،ص 248۔کتاب الاحکام ،باب استخلاف ۔
15۔صحیح مسلم ،ج3،کتاب الامارۃ ،باب اول۔
16۔مسند احمد بن حنبل،ج1 ،ص398۔ینابیع المودۃ ،ص445۔
17۔مائدۃ ،12۔
18۔دلائل الصدق، ج12،ص489۔
19۔مسند احمد بن حنبل ،ج5 ،ص122۔
20۔صحیح مسلم،ج4،ص1873،باب فضائل علی ابنابی طالب ،حدیث 2408۔دلائل الصدق،ج12،ص 477۔