وحدت نیوز(آرٹیکل) متکلمین امامیہ نے اپنی کتابوں میں ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی امامت کے بارے میں قرآن و سنت سے بہت سارے نصوص ذکر کئے ہیں کہ جن کی وضاحت کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن ہم یہاں پر بطور نمونہ چند نصوص بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
1۔ آیہ ولایت:
{ إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللّہ ُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوۃَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکَوۃَ وَہُمْ رَاکِعُون}۱تمہاراولی تو صرف اللہ اوراس کا رسول اوروہ اہل ایمان ہیں جونماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔
آیت کریمہ کے مطابق خداوند متعال،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ مومنین جو خاص صفات کے حامل ہیں مسلمانوں پرولایت رکھتے ہیں ۔علاوہ از یں کلمہ{انما} حصر پر دلالت کرتاہے ۔۲ یعنی خدا ،پیغمبر اسلا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بعض مومنین کو مسلمانوں پر ولایت حاصل ہے۔
آیت کریمہ کی شان نزول کے سلسلے میں شیعہ وسنی کتابوں میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں نیزطرفین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔۳بنابریں آیت کریمہ سے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری ثابت ہوجاتی ہیں اگرچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں پر ولایت رکھتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام بھی دوسرے مومنین کی طرح اس آیت {النَّبیِ أَوْلیَ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِہِمْ}کے حکم میں شامل تھےلیکن آپ ؐکی رحلت کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی ولایت شروع ہوتی ہے۔
2۔آیت تبلیغ:
{یايہُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْکَ مِن رَّبِّکَ وَ إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَ اللّہ ُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہ َ لَا يہَدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِين}۴اے رسول!جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیاگیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویاآپ نےاللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اوراللہ آپ کو لوگوں{کے شر}سے محفوظ رکھے گا،بےشک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔آیہ کریمہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے بہت ہی قابل توجہ اور اہم موضوع کے بارے میں اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے اگر وہ کام انجام پذیر نہ ہو تو گویا اسلام کی بنیاد اور رسالت خطرے میں پڑ جائے گی لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موضوع کو بیان کرنے کے لئے مناسب موقع کے منتظر تھے کیونکہ عوام کی طرف سے ممانعت ،رکاوٹ اور خطرے سے ڈرتے تھے ۔یہاں تک خداوند متعال کی طرف سے تاکید کے ساتھ حکم ملا کہ اس کام کو انجام دینے میں تامل نہ کریں اور فورا انجام دیں اور نہ ہی کسی سے ڈریں۔یہ موضوع یقینی طور پر دوسرے احکام کی طرف نہیں تھا کیونکہ ایک یا چند قوانین کی تبلیغ کی یہ اہمیت نہیں ہے کہ ان کی تبلیغ نہ کرنے سے اسلام کی بنیاد اکھڑ جائے گی اور نہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قوانین کے بیان کرنے اور تبلیغ سے خوفزدہ تھے۔بنابریں قرائن و شواہد اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مذکورہ آیت غدیر غم کے مقام پر حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور بہت زیادہ شیعہ اور سنی مفسرین نے بھی اس کی تصدیق کی ہے ۔جیساکہ ابو سعید خدری فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام کی طرف دعوت دی ۔ آپ ؐنے حضرت علی علیہ السلام کے بازو کو پکڑ کر اس قدر بلند کیا کہ آپؐکی بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔{الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضِيتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِينًا}
شیعہ و سنی کتابوں میں نقل ہونی والی متعدد احادیث میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کیاگیاہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کو غدیر خم میں پہنچایا ہے ۔ شیعہ عقائد کے مطابق یہ بات مسلم ہے جبکہ اہل سنت کے متعدد علماء نے بھی آیت کی شان نزول کو حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت قرار دیا ہے اگرچہ یہ افراد ولایت کے معنی میں شیعہ مذہب کے ساتھ متفق نہیں ہیں ۔
علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں اہل سنت کے تیس بزرگ علماء کا نام ذکر کیا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بارے میں غدیر خم میں نازل ہوئی ہے ۔آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں موجود احادیث کے علاوہ خود آیت کریمہ کے ابتداوانتہا اورکلمات پر غور کرنے سے بھی واضح ہو جاتا ہے جیساکہ آیت کریمہ کے ابتدائی حصے میں اس مطلب کو بیان کیاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے نازل شدہ احکام کو لوگوں تک پہنچانے پر مامور تھے اور یہ الہیٰ پیغام اتنا اہم تھا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے انجام نہ دیں تو گویا نبوت و رسالت کی ذمہ داری انجام نہیں دی ہے جبکہ اس جملہ{ وَ اللّہ ُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ}{خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا}سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ اس حکم کو پہنچانے سے خوف محسوس کرتے تھے جس کی بنا پر خدا نے آپ ؐکو تسلی دی اور آپ ؐکی حفاظت کا اعلان فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پیغام کے پہنچانے میں اپنی جان کا خوف نہیں تھا اور آپ ؐاپنی موت و حیات کے بارے میں خوفزدہ نہیں تھے بلکہ آپ ؐدین کے بارے میں خوف محسوس کر رہے تھے کہ کہیں لوگ اس اعلان کے بعد دین کے بارے میں مشکوک اور مرتد نہ ہو جائیں کیونکہ یہ پیغام حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت سے متعلق تھا اور حضرت علی علیہ السلام آپ ؐ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔عرب کے پرانے رسم و رواج کے مطابق منافقین کے لئے یہ بہترین موقع تھا کہ آپ ؐ کے اس اقدام کو عرب کے اس جاہلی آداب و رسوم کے مطابق سمجھ بٹھیں جس کے نتیجے میں دین اسلام کی حقانیت اور اس کے عظیم اہداف خطرے میں پڑ جاتےجبکہ دین اسلام عرب کے اس جاہلی آداب و رسوم کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا چاہتا تھا لہذا خداوند متعال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دی کہ ہم ہر قسم کی ناروا تہمت سے آپ کو محفوظ رکھیں گےاور اس سلسلے میں دین اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔۵
3۔ آیہ اکمال دین:
{الْيَوْمَ يَئسَ الَّذِينَ کَفَرُواْ مِن دِينِکُمْ فَلَا تخَشَوْہُمْ وَ اخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتیِ وَ رَضِيتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِينًا}۶ آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوچکے ہیں،پس تم ان{کافروں} سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور اپنی
نعمت تم پرپوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطوردین پسندکرلیا۔
آیت کریمہ اس دن کی خبر دے رہی ہےکہ جس دن کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا جس سے دو نتیجہ حاصل ہوا:
1۔ کفار ہمیشہ کے لئے اسلام کی تباہی سے مایوس ہوگئے۔2۔دین اسلام اپنے کمال کو پہنچا اور خداوند متعال کی نعمتیں پوری ہوئیں اور وہ دین اسلام سے راضی ہو گیا ۔ یہاں یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کون سا دن تھا ؟ اور کون سا عظیم واقعہ رونما ہوا؟
شیعہ و اہل سنت ذرائع سے نقل ہونے والی متعدد احادیث کے مطابق آیت کریمہ حجۃ الوداع اور روز غدیر خم 18 ذی الحجۃ سن10ہجری کو نازل ہوئی یعنی جب پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاجیوں کے جمع غفیر میں اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری کا اعلان فرمایا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ بات شیعہ روایات کےمطابق مسلم ہے۔ اہل سنت کی روایات میں بعض اصحاب جیسے ابو سعید خدری ،جابر بن عبد اللہ انصاری ، زید بن ارقم اور ابو ہریرہ وغیرہ نے مذکورہ آیت کو واقعہ غدیر سے مربوط جانا ہے ۔
مسئلہ امامت، دین اسلام کی حفاظت اور احکام کےنفاذ و ابلاغ میں امام او ررہبرکے اہم کردار کو مد نظر رکھنےسے واضح ہو جاتا ہےکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت اسلامی کے رہبر کے انتخاب یعنی حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے اعلان کے بعد کفار مایوس ہو گئے کیونکہ یہ لوگ اسلام کی نابودی کے لئے ہمیشہ سازش میں مصروف رہتےتھے لیکن کبھی کامیاب نہ ہو سکے گرچہ ان کی آخری امید یہی تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلام کے خلاف عملی قدم اٹھاسکتے ہیں کیونکہ آپ ؐکا کوئی بیٹا نہیں ہے۔لہذا وہ اس دن کے منتظر تھے تاکہ دین اسلام کے خلاف اپنی دشمنی کو برملا کریں لیکن پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کے سامنے قانونی اور عمومی طور پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرما کر ان کی امیدوں کو ناامیدی میں تبدیل کیا. جب رہبر و امام کا اعلان ہوا تودین عروج و کمال کو پہنچا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام جیسا رہبر مسلمانوں کو ملاجو قرآن و سنت کی صحیح تفسیر کرتے ہیں اور جن کا کلام حق و باطل کی پہچان کا معیار بنا جس کے نتیجے میں دین وشریعت تحریف سے محفوظ رہیں۔ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں مسلمانوں پر خدا کی نعمتیں بھی کامل ہوگئیں اور اس قسم کے آئین پرعمل کرنے کے نتیجے میں رضایت الہی بھی حاصل ہوگی۔
لہذا خدا کی حکیمانہ تدبیر کو جسےپیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں واضح فرمایا جس سے دین اسلام ،کفار کی سازشوں سے محفوظ رہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سلسلہ میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیےلیکن جو چیز پریشانی کا باعث ہے وہ مسلمانوں کے اپنے اعمال ہیں کیونکہ اگر وہ اس عظیم نعمت کا انکار کریں تو یقینا یہ الہی نعمت ان کے ہاتھوں سے چھن جائے گی کیونکہ الہی سنت یہ رہی ہے کہ وہ کسی قوم یا فرد کو نعمت عطا کرنے کے بعد واپس نہیں لیتا مگر یہ کہ کفران نعمت کرے اور اپنے ہاتھوں سے الہی نعمت کے زوال کا اسباب فراہم کرےچنانچہ ارشادرب العزت ہے :{ذَالِکَ باَنَّ اللّہ َ لَمْ يَکُ مُغَيرِّا نِّعْمَہً أَنْعَمَہَا عَلیَ قَوْمٍ حَتیَ يُغَيرِواْ مَا باَنفُسِہِمْ}۷ایسا اس لئےہواکہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے۔ آیت اکمال دین کا یہ جملہ {فَلَاتخَشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ}{پس تم ان{کافروں} سے نہیں مجھ سے ڈرو}اسی الہی ٰقانون کی طرف اشارہ ہے ۔۸
حوالہ جات:
۱۔مائدۃ،55۔
۲۔مختصر المعانی ،ص82،باب القصر۔
۳۔المیزان ج6ص16 – 20۔تفسیر ابن کثیر،ج2ص597۔تفسیر قرطبی،ج6س221۔شواہد التنزیل،حسکانی،ج1ص161۔اسباب النزول ، واحدی ، ص 132۔الریاض النضرۃ،طبری،ج3،ص208۔ المیزان ج6،ص 35۔المراجعات ،ص 161۔
۴۔مائدۃ، 67 ۔
۵۔المیزان،ج6،ص 45 – 52۔
۶۔مائدۃ،3۔
۷۔انفال،53۔
۸۔المیزان، ج5، ص178 – 179۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز (آرٹیکل) مقدمہ:حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کےبارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں آپ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں ۔آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ۔آپؑ وہ ممدوحہ ہیں جس کی مدح سورۃ کوثر ،آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔آپؑ وہ عبادت گزار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا ۔آپؑ وہ صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا۔آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سےبھی پردہ فرمایا۔ آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟تواس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔{خیر لہن ان لا یرین الرجال و لا یرو نہن}۱۔رسول خدا ﷺ آپ ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :{ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک}۲۔
بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔ انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔ آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔ آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر{انما نطعمکم لوجہ الله}۳۔ کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:{ لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم۔۔ }۴
اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:{انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر}بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ اس مختصر مقالہ میں ہم سیرت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں موجود چند تربیتی نمونوں کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
لغت میں سیرۃ ،رفتار کے معنی میں آیا ہے۔ "حسن السیرۃ؛ یعنی خوش رفتار یا اچھی رفتار۔"۵ ۔
ابن منظور کے مطابق سیرۃ سے مراد: "سنت" اور "طریقہ"ہے۔ جیسے" السیرۃ:السنۃ؛ سیرت یعنی سنت اور راہ وروش کے معنی میں ہے۔سار بہم سیرۃ حسنہ"یعنی ان کے ساتھ اچھا رویہ اور سلوک کے ساتھ پیش آیا۔اصطلاح میں سیرہ سے مراد کسی انسان کی زندگی کے مختلف مراحل اور مواقع میں چھوڑے ہوئے نقوش اور کردار کے مجموعہ کو" سیرۃ کہا جاتا ہے جسے دوسرے انسان اپنے لئے نمونہ عمل بنایا جاسکے ۔۶
صاحب مفردات کے مطابق "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ۷صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے اور نقائص کو تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔ ۷۔بنابر این اگر اس کا ريشہ(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب" سے ہو تو نظارت ، سرپرستي و رہبري اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔
شہید مرتضی مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔۸
سیرہ تربیتی ہر اس رفتار کو کہا جاتا ہے جو دوسروں کی تربیت کی خاطر انجام دی جاتی ہے۔اس بناء پر انسان کا ہر وہ رفتار جو وہ دوسروں کے احساسات ،عواطف، یقین و اعتقاد اورشناخت پر اثرانداز ہونے کےلیے انجام دیتا ہے ،سیرت تربیتی کہا جاتاہے۔۹
سیرت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں موجود چند تربیتی نمونے
الف۔گھریلو اور ازدواجی نمونہ
زندگی ایک ایسا مرکز هے جس میں نشیب وفراز پائے جاتے ہیں زندگی میں کبھی انسان خوش ، کبھی غمگین ، کبھی آسائش اور کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا هے اگر میاں بیوی با بصیرت اشخاص هوں تو سختیوں کو آسمان اور ناہموار کو همورا بنادیتے ہیں۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اس میدان میں ایک کامل اسوہ نمونہ ہیں آپ بچپن سے ہی سختی اور مشکل میں رہی اپنی پاک طبیعت اور روحانی طاقت سے تما م مشکلات کا سامنا کیا اورجب شوہر کے گھر میں قدم رکھا تو ایک نئے معرکہ کا آغاز هوا اس وقت آپ کی شوہرداری اور گھریلوزندگی کے اخلاقیات کھل کر سامنے آئے ۔
ایک دن امام علیؑ جناب فاطمہؑ سے کھا نا طلب کیا تا کہ بھوک کو برطرف کرسکیں لیکن جناب فاطمہؑ نے عرض کیا میں اس خدا کی قسم کھاتی ہوں جس نے میرے والد کو نبوت اور آپ کو امامت کے لیے منتخب کیا دو دن سے گھر میں کافی مقدار میں غذا نہیں ہےاور جو کچھ غذا تھی ویہ آپ اور آپ کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ کو د هی ہے امام نے بڑی حسرت سے فرمایا اے فاطمہ آخرمجھ سے کیوں نہیں فرمایا میں غذا فراہم کرنے کے لیے جاتا توجناب فاطمہؑ نے عرض کیا: اے ابوالحسن میں اپنے پروردگار سےحیا ءکرتی هوں کی میں اس چیز کا سوال کروں جو آپ کے پاس هنہ ہو۔۱۰۔
ب۔ سیاسی نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ؑکے سیاسی اخلاقیات کو درج ذیل عناوین کے تحت دیکھا جاسکتا هے جیسے امام اور حجت خدا کا دفاع، امامت اور رہبری کی کامل پیروی اور فدک کے متعلق مختلف میدانوں میں مقابلی اور جنگ وجہاد کے بندوبست میں خوشی اور دلسوزی سے حاضر رہنا ۔سب سے پہلے آپ نے غصب شدہ حق کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی آیات سے دلیلیں قائم کیں۔
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا خلیفہ کےپاس تشریف لے گئیں اور فرمایا:۔تم کیوں مجھے میرے بابا کے میراث سے منع کر رہا ہے اور تم کیوں میرے وکیل کو فدک سے بے دخل کردیا هہے حالا نکہ الله کے رسول نے الله کے حکم سے اسے میری ملکیت میں دیاتھا۔"۱۱۔
اسی طرح جب خلافت کا حق چھینا گیا تو دفاع امامت میں پورا پورا ساتھ دیا اور آپ حسن وحسین کا هاتھ پکڑکر رات کے وقت مدینہ کے بزرگوں اور نمایاں شخصیات کے گھرجاتے اور انہیں اپنی مدد کی دعوت دیتے اور پیغمبر کی وصیت یا ىد دلواتے ۔۱۲
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا فرماتیں ہیں اے لوگو!کیا میرے والد نے علی ؑکو خلافت کے لیے معین نہیں فرمایا تھا کہا ان کی فداکاریوں کو فراموش کربیٹھے ه ہوکیامیرے پدر بزرگوار نے ہی نہیں فرمایاتھا کہ میں تم سے رخصت ه ہو رہا ہوں اور تمہارے درمیان دو عظیم چیزین چھوڑے جارہا هہوں اگر ان سے تمسک رہوگے توہرگز گمراہ نہیں هہوگے اور وہ چیزیں ایک الله کی کتاب اور دوسرا میری اہل بیت ۔
ج۔ اقتصادی نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اقتصادی اخلاقیات میں بھی همارے لیے اسوہ کامل ہیں سخاوت کے میدان میں آپ اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلتی تھیں ۔ آپ نے اپنے بابا سے سن رکھاتھا" السخی قریب من الله" سخی الله کے قریب هہوتا هہے ۔
جابر بن عبد الله انصاری کا بیان هے کہ رسو ل خدا نےہمیں ه عصر کی نماز پڑھائی جب تعقیبات سے فارغ هوگئے تومحراب میں هہماری طرف رخ کرکے بیٹھ گئے لوگ آپ کو هر طرف سے حلقہ میں لیے هہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا جس نے بالکل پرانا کپڑہ پہنا هہوا تھا یہ منظر دیکھ کر رسول خدا نے اس کی خیرت پوچھی اس نے کہا:ا ے الله کے رسول میں بھوکا هہوں لہذا کچھ کو دیجئے میرے پاس کپڑا بھی نہیں ہیں مجھے لباس بھی دیں۔ رسول خدا نے فرمایا فی الحال میرے پاس کوئی چیز نہیں هے لیکن تم اس کے گھر جاؤ جو الله اور اس کے رسول سےمحبت کرتاہے اورالله اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں جاؤ تم فاطمہ کی طرف اور بلال سے فرمایا تم اسے فاطمہ کے گھر تک پہنچا دو۔فقیر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے دروازہ پررکا بلند آواز سے کہا نبوت کے گھرانے والو تم پر سلام ۔شہزادی کونین نے جواب میں کہا تم پر بھی سلام هہو ۔تم کون ہو ه؟کیا میں بوڑھا اعرابی ہوں آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا لیکن رسول خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ میں فقیرہوں مجھ پر کرم فرمائے خدا آپ پر اپنیرحمت نازل فرمائے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے اپنا هہار یا گردن بند جو آپ کو حضرت حمزہ کی بیٹی نےہبہ کیا تھا اتار کر دے دیا اور فرمایا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذریعے بہتر چیز عنایت فرمائے ۔
اعرابی ہارلے کر مسجد میں آیا حضور مسجد میں تشریف فرماتھے عرض کیا اے رسول خدا: فاطمہ زہرا نے یہ ہار دے کر کہا اس کو بیچ دینا حضور یہ سن کر روپڑے اس وقت جناب عمار ىاسر کھڑے هوئے عرض کیا یارسول الله کہا مجھے اس ہا رکے خریدنے کی اجازت ہے رسول خدا نے فرمایا خرید لو جناب عمار نے عرض کی اے اعرابی یہ ہار کتنے میں فروخت کرو گے اس نے کہا اس کی قیمت یہ هہے کہ مجھے روٹی اور گوشت مل جائے اور ایک چادرمل جائے جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جس کے ذریعے میں گھر جاسکوں۔ جناب عمار اپنا وہ حصہ جو آپ کورسول خدا نےخیبر کے مال سے غنیمت میں دیا تھا قیمت کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہا :اس ہارکے بدلے تجھےبیس دینار،دوسو درہم ٬ ایک بردیمانی ٬ ایک سواری اور اتنی مقدار میں گیہوں کی روٹیاں اور گوشت فراہم کررہا هہوں جس سے تم بالکل سیرہوجاؤ گے۔جب یہ سب حاصل کیا تو اعرابی رسول خدا کے پاس آیا ۔رسول خدا نے فرمایا کیا تم سیرہوگئےہو؟ اس نے کہا میں آپ پر فدا ہوجاؤں بے نیازہو گیا ہوں۔جناب عمار نے هہار کو مشک سے معطر کیا اپنے غلام کو دیا اور عرض کیا ا س ہار کو لو اور رسول خدا کی خدمت میں دو اور تم بھی آج سے رسول خدا کو بخش دیتا ہوں۔ غلا م ہار لے کر رسول خدا کی خدمت میں آیا او رجناب عمار کی بات بتائی رسول خدا نے فرمایا یہ ہار فاطمہ کو دو اور تمہیں فاطمہ کو بخش دیتا ہوں۔ غلام هہار لی کر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں آیا اور آپ کو رسول خدا کی بات سے آگاہ کیا ۔
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے و ہ ہار لیا اور غلام کو آزاد کردیا۔ غلام مسکرانے لگا ۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے وجہ پوچھی تو غلام نے کہا مجھے اس ہا ر کی برکت نےمسکرانے پر مجبور کیا جس کی برکت سے بھوکا سیرہو ها اوربرھنہ کو لباس اور غلام آزادہوگیا پھر بھی یہ ہا هر اپنے مالک کے پاس پلٹ گیا۔۱۳۔
خلاصہ یہ کہ حضرت زہراؑ منصب امامت کے لحاظ سے تو اگرچہ پیغمبر گرامیﷺ کی جانشین نہیں تھیں لیکن وجودی کمالات اور منصب عصمت و طہارت کے لحاظ سے کوئی دوسری خاتون اولین و آخرین میں سے ان جیسی نہیں ہے۔ جناب سیدہ ؑ علمی ،عملی ،اخلاقی،اور تربیتی حوالے سے نمونہ عمل ہیں۔ انسان کی دینی و دنیاوی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ان ہستیوں سے متمسک رہے جنہیں اللہ نے"اسوہ حسنہ"قرار دیا ہے۔بنابرین حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ہمارے لئے زندگی کے ہر شعبے میں نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے ۔
{السّلام علیک أیّتہا الصدّیقۃ الشہیدۃ الممنوعۃ إرثہا، المکسور ضلعہا، المظلوم بعلہا، المقتولِ وَلَدُہا}
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
۱۔حلیۃ الاولیاء ج2ص40۔
۲۔ المستدرک علی الصحیحین ، ج3 ص154
۳۔ انسان،9۔
۴۔ آل عمران،164۔
۵۔ فیروز آبادی، القاموس المحیط، بیروت، دارالکتاب العربیہ ، ۱۴۳۲ھ ،ص۴۳۹۔
۶۔ محمد بن مکرم ابن منظور،لسان العرب،بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۴ق، ج۴ ، ص۳۸۹؛ فخرالدین محمد طریحی ، مجمع البحرین ، تہران:مرتضوی، ۱۳۷۵، ج۳، ص۳۴۰۔
۷۔ معجم مقاييس اللغہ، ص378؛ لسان العرب، ج2، ص1420؛ مجمع البحرین، ج2، ص63؛ محمدمرتضي حسینی زبيدي، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت،دارالفکر، ۱۴۱۴ق ،چ اول ،ص459 و460.
۸۔مرتضیٰ مطہری، تعلیم و تربیت در اسلام ، تہران: صدرا، ، ۱۳۳۷ش۔ ، ص۴۳ ۔ ۔ مرتضیٰ
۹۔محمد داؤدی، سیرہ تربیتی پیامبر و اہل بیت ، تربیت دینی ، بی تا،ج ۲، ص۲۳۔
۱۰۔باقر مجلسی مجلسی بحار الانوار مؤسس الوفا بیروت 1404ق ج43 ٬ص59۔
۱۱۔قزوینی،محمد کاظم، مترجم الطاف حسین ٬فاطمہ زہرا من المہدی الی الحد، قم قزوینی فاونڈیشن ، 1980،ص343۔
۱۲۔ابراہیم امینی، ،اسلام کی مثالی خاتون،(مترجم،اخترعباس)،دارالثقافہ اسلامیہ ،1470 ھ، ص191۔
۱۳۔ محمد باقر بحار الانوارج43 فص56و57۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) خداوند متعال کی حکمت کاتقاضا ہے کہ کائنات کی خلقت با ہدف اور بامقصد ہو کیونکہ فاعل حکیم سے کسی بھی فعل کاکسی مقصداورمعقول ہدف کےبغیر سرزد ہونا محال ہے۔قرآن مجید کی آیتوں سےیہ بات واضح طور پر ثابت ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنہَمَا لَاعِبِين}1اور ہم نے آسمان ،زمین اور ان کے درمیان کی تما م چیزوں کو کھیل تماشے کے لئے نہیں بنایاہے ۔{وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنہَمَا بَاطِلا}2اور ہم نےآسمان ،زمین اوران دونوں کے درمیان کی مخلوقات کو بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔مذکورہ آیات نیز ان سے مشابہ آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نےکائنات کو بیہودہ خلق نہیں کیا ہے بلکہ کائنات کی تخلیق حکیمانہ طور پر ہوئی ہے ۔ قرآن کریم کی بعض آیتوں میں صراحتا بیان ہوا ہے کہ کائنات کی خلقت انسانوں کے لئے ہوئی ہے جیساکہ ارشاد ہوتاہے : {ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُم مَّا فی الْاَرْضِ جَمِيعًا}3خدا وہ ہے جس نے زمین کے اندرموجود تمام ذخیروں کوتم ہی لوگوں کے لئےپیدا کیا ہے جب کہ انسان کی خلقت کا مقصد آخرت ہے ۔ جیساکہ ارشاد ہوتاہے :{أَ فَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَ أَنَّکُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُون}4کیا تم نےیہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں بیکارپیدا کیا ہےاورتم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاوٴ گے؟جبکہ کمال مطلوب، خدا کی عبادت و بندگی کے نتیجے میں حاصل ہوتاہے:{وَ مَا خَلَقْتُ الجْنَّ وَ الْانسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون}5میں نے جنات اور انسانوں کوصرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔
خداوند متعال کی حکمت اور عدل کا تقاضا ہے کہ انسان پرجن کاموں کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ان میں وہ آزاد وخود مختار ہوکیونکہ انسان پر ایسے کاموں کی ذمہ داری ڈالنا جواس کی طاقت اور توان سے باہر ہو ،غلط ہے جیساکہ کسی کو ایسے کام کی سزا دینا جس کے ترک کرنے پر وہ قادر نہ ہو۔ یہ سزا دینےکے معاملے میں عدل خداوند ی کے ساتھ منافات رکھتا ہے ۔قرآن کریم اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے :{إِنَّا ہَدَيْنَاہُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاکِرًا وَ إِمَّا کَفُورًا}6یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے۔ چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے ۔ انسان شکر گذار بنے یا کفران نعمت کرنےوالا یہ انسان کے آزاد و خود مختار ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام ان لوگوں کے غلط تصور کے بارے میں جو قضا وقدر الہیٰ کو مستلزم جبر قرار دیتے تھے ،فرماتے ہیں :{ و لو کان کذلک لبطل الثواب و العقاب،والامروالنہی، ولسقط معنی الوعدوالوعید}7اگر انسان کوکسی کام پر مجبور کیاجائے تو اس صورت میں امر و نہی، وعد و عید اور جزا و سزا سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گے ۔
کسی شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سےپوچھا : کیا خدا نے انسان کو مختلف کاموں پر مجبور کیا ہے ؟امام ؑنے فرمایا:خداوند متعال عادل ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو کسی کام پر مجبور کرے پھراسے اس کی سزا بھی دے ۔8
انسان کے مختار ہونے کو درک کرنے کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر کی مختلف حالتوں پر غور و فکر کرےنیز دیکھے کہ وہ اپنے کاموں کے بارے میں خود فیصلہ کرتا ہے کیونکہ انسان کاضمیر اس امر کی گواہی دیتاہے کہ وہ کسی کام کے انجام دینے یا ترک کرنےمیں سےکسی ایک کا انتخاب کر سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود وجودی لحاظ سے وہ خود مختار نہیں ہے بلکہ اپنے وجود میں محتاج ہے ۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایتوں میں مذکورہ مطالب { یعنی انسان کے آزادا ور مختارہونے نیز وجودی لحاظ سے وابستہ ہونے}کی تعبیر {امر بین الامرین} سے ہوئی ہے ۔ امرین سے مراد ایک طرف سےنظریہ جبر اور دوسری طرف سے نظریہ تفویض ہیں ۔یعنی نہ انسان کے مجبور ہونے کا عقیدہ صحیح ہے اورنہ تفویض کا بلکہ صحیح نظریہ [الامربین الامرین] کا نظریہ ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{لاجبرولا تفویض بل امر بین الامرین}9نہ جبردرست ہے اور نہ تفویض بلکہ ان دو امور کے درمیان ایک تیسری چیز۔ انسان کی آزادی و اختیار ایک واضح سی حقیقت ہے جسے مختلف طریقوں سے درک کیا جا سکتا ہے ۔
الف: ہر انسان کا ضمیر و وجدان اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ وہ کسی بھی فعل کو انجام دینے یا ترک کرنے میں سے کسی ایک کو انتخاب کر سکتا ہے اوراگر کوئی شخص اس واضح و مسلم ادراک کے بارے میں بھی شک و شبہ کرے تواسے کسی بھی واضح حقیقت کو قبول نہیں کرنا چاہیے ۔
ب:انسانی معاشرے میں مختلف افراد کے سلسلے میں کی جانی والی تعریف و تمجید یا ملامت و مذمت {دینی و غیر دینی} اس بات کی دلیل ہے کہ تعریف یا مذمت کرنے والا شخص فاعل کو اس کے افعال میں مختار جانتاہے ۔اگر وہ کسی کام پر مجبور ہو تو تعریف اور مذمت کرنے کاکوئی معنی نہیں بنتا۔
ج: اگر انسان کی آزادی و اختیار کی حقیقت کونظرانداز کیا جائے توشریعت کا نظام بیہودہ و بے ثمر ہو گا کیونکہ اگر انسان اس امر پر مجبور ہو کر وہ اس راہ پر چلے جواس کے لئے قبل از وقت معین ہو چکی ہے اور اس سے ذرہ برابر تجاوز اور خلاف ورزی نہیں کر سکتا تو اس صورت میں امر و نہی،وعد ووعید اور جزا و سزا سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گے ۔
د:تاریخ انسانیت میں ہمیں ایسے انسان ملتےہیں جنہوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی معاشرے کی اصلاح کے لئے جدوجہد کی ہے اور اس کے نتائج بھی حاصل کئے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ امر انسان کے مجبور ہونے کے ساتھ موافقت نہیں رکھتا ،کیونکہ جبر کی صورت میں یہ ساری جد و جہد بیہودہ و بیکار ہوں گے ۔بنابریں انسان ہر کام اپنے اختیارو ارادہ کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ 10
لغت میں قضاحتمیت و قطعیت اور قدر اندازہ و مقدارکے معنی میں ہے ۔11
قضا وقدر اسلام کے قطعی اور ناقابل تنسیخ عقائد میں سےایک ہے جس کاذکر قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ آیا ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :{ إِنَّاکل كُ شَیءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَر}12
بےشک ہم نے ہر شئے کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے ۔
کبھی یہ خیال کیا جاتاہے کہ قضاو قدرپر عقیدہ رکھنا انسان کے مختار و آزاد ہونے کے ساتھ منافات رکھتاہے لیکن اس مسئلے پر غور وفکر کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ قضا و قدر کا لازمہ انسان کا مجبور ہونا نہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ انسان کا مختار و آزادہونا خود قضا وقدر کی تجلی ہے کیونکہ قدر الہیٰ یہی ہے کہ وہ ہر موجود کو کچھ خاص شرائط اور اندازے کے ساتھ خلق کرتا ہے جبکہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں کے انتخاب اور انجام دینے میں آزاد ومختار ہے ۔قرآن کریم اس بارےمیں ارشاد فرماتا ہے:{ وَ الَّذِی قَدَّرَ فَہدَی}13
جس نے تقدیر معین کی اور پھر ہدایت دی”۔ یعنی تقدیر الہیٰ کا لازمہ ہدایت ہے اور انسان ہدایت تکوینی کے علاوہ ہدایت تشریعی کا بھی حامل ہے جبکہ ہدایت تشریعی کی بنیاد انسان کے مختار اور آزاد ہونے پر ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{إِنَّا ہَدَيْنَاہُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاکِرًا وَ إِمَّا
کَفُورًا}14
یقینا ہم نےاسے راستے کی نشاندہی کی ہے چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والابن جائے ۔
قضائےالہیٰ سے مراد یہ ہے کہ کائنات پر کچھ اٹل ،ناقابل تغییراور قطعی قوانین حاکم ہیں جبکہ انسان کی زندگی پر حاکم دائمی اور حتمی نظام یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں اپنے علم وارادےسے انجام دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب انسان کسی کام کے کرنے کےبارےمیں قطعی فیصلہ کرتا ہےاور اس حوالےسےکوئی مانع بھی نہ ہوتو وہ کام حتما انجام پاتا ہے۔لہذا یہ قطعیت انسان کےاپنےاختیار سے وجود میں آئی ہے جو کسی بھی طریقے سے قضاءکے ساتھ منافات نہیں رکھتی ۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :قدر کے معنی کسی چیز کا بقاء و فنا کے لحاظ سے اندازہ کرنا ہے اور قضا سےمرادکسی چیز کی قطعیت و حقیقت حاصل ہونا ہے ۔15
مذکورہ مباحث سے واضح ہوا کہ علم ازلی اور ارادہ ازلی دونوں قدرت و خالقیت الہیٰ کی طرح کسی بھی طریقے سے انسان کےمختار ہونےکے ساتھ منافات نہیں رکھتے۔کیونکہ خدا کا ازلی ارادہ اور علم،انسان کے ان افعال سے تعلق پیدا کرتےہیں جنہیں وہ اپنی مرضی سے انجام دیتا ہے ۔خداوند متعال کی خالقیت و قدرت حکیمانہ و عادلانہ ہیں جو کبھی بھی انسان کے اختیاری نظام کو تبدیل نہیں کرتیں کیونکہ یہ عدل و حکمت الہیٰ کے مطابق ہے ۔ قضا وقدر اور ان جیسے مسائل کی جزئیات کی وضاحت ان افراد کےلئے جو ایسے سخت مسائل کو درک کرنےیاسمجھنے کی صلاحیت وقدرت نہیں رکھتے، ضروری نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایسےافراد اپنےعقیدے کے بارے میں غلط فہمی اور شک و تردید سے دوچار ہوجائیں ۔اسی بناپر حضرت علی علیہ السلام ایسےافراد سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :{طریق مظلم فلا تسلکوہ ،وبحرعمیق فلا تلجوہ وسر الله فلاتتکلفوہ}یہ ایک تاریک راستہ ہے اس پر نہ چلیں،یہ ایک عمیق سمند ر ہے اس میں غوطہ زن نہ ہو جائے یہ ایک سرالہی ہے اسے کشف کرنے کے لئے اپنےآپ کو زحمت میں نہ ڈالے ۔16
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔انبیاء ،16۔
2۔ص،27۔
3۔بقرۃ،29۔
4۔مومنون،115۔
5۔ذاریات،56۔
6۔انسان،3۔
7۔توحید شیخ صدوق ،باب قضاوقدر ،روایت 28۔
8۔توحیدشیخ صدوق ،باب نفی جبر و تفویض،روایت 6۔
9۔بحار الانوار ،ج5،ص57۔
10۔جعفر سبحانی ،عقائد امامیہ ،ص 151۔
11۔مقائیس اللغۃ ج2 ص63۔مفردات راغب ،مادہ قضا و قدر۔
12۔قمر،49۔
13۔اعلی ، 3۔
14۔انسان،3۔
15۔اصول کافی،ج1،ص 158۔
16۔نہج البلاغۃ،کلمات قصار،287۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) قیامت، خدا کی رحمت ،حکمت اور عدل کی جلوہ گاہ ہے ۔قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتاہے :{کَتَبَ عَلیَ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَيَجْمَعَنَّکُمْ إِلیَ يَوْمِ الْقِيَامَۃِ لَا رَيْبَ فِيہ}1اس نے رحمت کواپنے اوپر لازم کر دیا ہے، وہ تم سب کو قیامت کے دن جس کے آنےمیں کوئی شک نہیں ضرور جمع کرے گا۔ خداکی صفات کمالیہ میں سےایک صفت رحمت ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ خدا موجودات کی حاجتوں کوپورا کرتاہے اور ان میں سے ہر ایک کی ہدایت کرتا ہے نیز انہیں کمال مطلوب تک پہنچاتا ہے ۔2
انسان کی خلقت اوراس کی خصوصیات ایک جاودانی زندگی کے وجود پر دلالت کرتی ہے لہذا ایک ایسا عالم ہونا چاہیے جہاں انسان جاودانی زندگی گزار سکے۔قیامت حکمت الہیٰ کے تقاضوں میں سےایک ہےاوراس عالم کی کسی ایسی جگہ انتہا ہونی چاہیے جہاں ثبات و سکون حاکم ہوں تاکہ یہ عالم اپنی غرض و غایت تک پہنچ جائے ۔خدا حق مطلق وحکیم ہے اور اس سے کوئی بھی فعل بغیر مقصدو ہدف کے سرزد نہیں ہوتا ۔ قرآن کریم فرماتاہے :{ أَ فَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَ أَنَّکُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُون}3کیا تم نے یہ خیال کیا تھاہے کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیاہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاوٴ گے؟قرآن کریم زمین و آسمان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے کہ خدا نے انہیں فضول اور بیہودہ خلق نہیں فرمایا ہے۔ اسی طرح قیامت کے بارے میں فرماتا ہے :{ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُہُمْ أَجْمَعِين}4یقینا فیصلےکا دن ان سب کے لئےطے شدہ ہے۔
قیامت کا ایک فلسفہ یہ ہےکہ عدل الہی اچھے اور برےافراد کے درمیان نیز کفار اورمومنین کے درمیان مکمل طورنافذ ہو کیونکہ دنیا میں انسان کی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے جس کی بنا پر سزاء وجزاء کے مقام پر عدل الہی کا مکمل نفاذ ممکن نہیں ہے ۔ اسی لئے ایک اور عالم کا ہونا ضروری ہےتاکہ عدل الہی مکمل طور پر نافذہوجیساکہ قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے:{ أَمْ نجَعَلُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ کا لْمُفْسِدِينَ فیِ الاَرْضِ أَمْ نجَعَلُ الْمُتَّقِينَ کا لْفُجَّار}5کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یااہل تقوی کو بدکاروں کی طرح قرار دیں؟ اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتاہے :{فَنَجْعَلُ المْسْلِمِينَ کالمْجْرِمِينَ ما لکم کیف تحَکُمُون}6کیا ہم مسلمانوں کو مجرمین جیسابنا دیں گے؟۔تمہیں کیا ہوگیا ہے؟تم کیسے فیصلے کرتے ہو ؟
معادعود سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی بازگشت یعنی لوٹنا ہے ۔شرعی اصطلاح میں قیامت کے دن بدن میں روح کی بازگشت کا نام معاد ہے۔لہذا معاد روح اور جسم دونوں سے مربوط ہے یعنی معاد،جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی ۔ آخرت میں ملنے والی جزائیں ا و رسزائیں دو قسم کی ہیں ۔بعض جزائیں او رسزائیں عقلانی اور روحانی ہیں جن کو درک کرنے کے لئے حواس کی ضرورت نہیں ہے جیسے گنہگار افراد کاجان لیوا غم و اندوہ اور متقی افراد کا خدا کی رضا و خوشنودی کو درک کرنا۔
قرآن کریم اس جان لیوا غم و اندوہ کے بارےمیں فرماتا ہے:{ کَذَالِکَ يُرِيہِمُ اللّہ ُ أَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيہْم}7اس طرح اللہ ان کےاعمال کو سراپا حسرت بنا دکھائے گا۔ اسی طرح خدا کی خوشنودی کو درک کرنےکے بارے میں فرماتا ہے:{ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّہ أَکْبر}8اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے۔ بعض جزائیں ا ور سزائیں جسمانی اور قابل حس ہیں جن کو درک کرنے کے لئے بدن کی ضرورت ہے ۔قرآن کریم اور روایات میں اس قسم کی جزاء و سزاء کی تفصیل بیان ہوئی ہے جنہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے بدن اور قوائے حسی کی ضرورت ہے ۔
معاد جسمانی پر صریحاً دلالت کرنے والی آیات کے علاوہ اور بھی بہت ساری آیتیں معاد جسمانی پر دلالت کرتی ہیں ۔اس سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں منکرین معاد کی باتوں کا تذکرہ کیا گیاہے ۔ان آیات کے مطابق جس چیز کو منکرین معاد بہت بعید سمجھتے ہیں وہ انسان کے مرنے اور اس کےبدن کےگل سڑ کر مٹی میں تبدیل ہو جانےکے بعد دوبارہ زندہ ہو جانا ہے۔قرآن کریم اس کےجواب میں خدا کی وسعت علمی اور قدرت مطلقہ کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔9{قُلْ يحُيِيہَا الَّذِی أَنشاَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَ ہُوَ بِکلُ خَلْقٍ عَلِيم }یسین،79۔آپ کہہ دیجئے جس نے اسےپہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کو بہتر جاننے والا ہے ۔{أَ وَ لَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللّہ َ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ وَ لَمْ يَعْی بخِلْقِہِنَّ بِقَدِرٍ عَلیَ أَن يُحِیَ الْمَوْتی بَلیَ إِنَّہُ عَلیَ کلُ شیٍَ قَدِير}کیا انہوں نے نہیں دیکھا جس نےزمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور ان کی تخلیق سے عاجز نہیں تھا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے کہ یقینا وہ ہر شئی پر قدرت رکھنے والا ہے۔
لہذا اگر معاد جسمانی لازم نہ ہوتی تومنکرین معاد کے لئے سادہ جواب معاد جسمانی سے انکار کرنا تھااور منکرین معاد کے شبہات کے جواب میں خدا کی قدرت مطلقہ ، نامحدود علم اور پہلی خلقت کی نسبت دوسری خلقت کے آسان ہونے نیز بہت ساری مثالوں کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔بنابریں مذکورہ نکات پر دلالت کرنے والی آیات ہر گز قابل تاویل نہیں ہیں اور جو لوگ معاد جسمانی پر دلالت کرنے والی آیات کی تاویل کرتےہیں ایسی تاویلیں قابل قبول نہیں ہیں ۔ محقق طوسی معاد جسمانی پر دلالت کرنے والی آیات کے متعدد ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :{و اکثرہ مما لا یقبل التاویل}اس کے بعد وہ بعض آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں ۔10
انسان کی دنیوی زندگی مرنے کےبعد ختم ہو تی ہے اور انسان مرنے کے بعد دوسرے عالم یعنی برزخ کی طرف منتقل ہو تا ہے اور آخر میں وہ عالم آخرت کی طرف منتقل ہو تا ہے جہاں اسے اپنے اعمال کی جزاء و سزاء کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لہذادرحقیقت انسان تین قسم کی زندگی گزارتاہے :1۔ دنیوی زندگی 2۔برزخی زندگی 3۔اخروی زندگی۔
انسان کی دنیوی زندگی میں مختلف مراحل پائے جاتے ہیں جن میں سےاہم ترین مرحلہ بلوغ کا زمانہ ہے ۔ اس مرحلے میں وہ اپنی اخروی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ وہ صالح و پرہیزگار افرادکی صف میں شامل ہوگا یا گنہگار و بد کار افرا د کی صف میں!اہل جنت میں سے ہوگایا اہل دوزخ میں سے!
قیامت کے دن انجام پانے والے بعض اہم امور حسب ذیل ہیں:
1۔حساب و کتاب:
قیامت کے دن لوگوں کے اعمال کا حساب ایک خاص طریقے سے ہوگااور اس کے بعد ان کے بارے میں فیصلہ سنایا جائے گا۔اس عمل کا
ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر انسان کے ہاتھ میں اس کا نامہ اعمال دیا جائے گا تاکہ وہ خود اپنے اعمال کے حساب و کتاب سے آگاہ ہو سکے ۔{وَ کُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَائرِہُ فیِ عُنُقِہِ وَ نخُرِجُ لَہُ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ کِتَابًا يَلْقَائہ مَنشُورًا۔ اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْيَوْمَ عَلَيکَ حَسِيبًا } اور ہم نے ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں آویزاں کر دیا ہےاور روز قیامت اسے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح پیش کر دیں گے۔ 11۔علاوہ ازیں انبیاء و ائمہ اہلبیت علیہم السلام اور فرشتے ان کے اعمال کے بارے میں گواہی دیں گے۔12
قیامت کے دن عدل و انصاف کا میزان قائم ہوگاجس میں انسان کے اعمال کا عادلانہ وزن کیا جائے گا اور کسی نفس پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا .
13قیامت کےدن انسان کے اعضاء و جوارح بھی گواہی دیں گے
۔14اسی طرح قیامت کے دن انسان کے اعمال مجسم ہوں گے جو سب سے زیادہ دقیق حساب ہوگا۔15
2۔صراط:
اسلامی روایات کے مطابق قیامت کےدن ایک خاص راستہ ہو گا جس سے ہر ایک کو گزرنا ہوگا ۔روایت میں اس مخصوص راستے کا نام{ صراط }ذکر ہوا ہے ۔صراط جہنم کے درمیان یا اس کے اوپر سے گزرنے والا راستہ ہے اور جو بھی اس راستے سے گزر جائے گا وہ جنت میں داخل ہو گا لیکن جو اس راستے کو طےنہیں کر سکے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ مفسرین نے سورہ مریم کی آیت 71،72 کو بھی اسی کی دلیل قرار دیا ہے۔16
3۔ اعراف:
جنت اور جہنم کے درمیان موجود ایک مقام کا نام اعراف ہے ۔اس مقام پر کچھ بزرگ ہستیاں ہوں گی جو بہشتیوں اور جہنمیوں کو ان کے چہروں سے پہچان لیں گی ۔یہ افراد میدان قیامت میں فیصلہ کرنے والے ہیں ۔یہ عظیم ہستیاں انبیاء اوران کےاوصیاء ہوں گی۔17
4۔لواء الحمد:
جب لوگوں سے حساب و کتاب لینےکا کام مکمل ہوجائے گا اور بہشتیوں اور جہنمیوں کی قسمت واضح ہو جائے گی تو خدا وند متعال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک پرچم دے گا جس کانام لواء الحمد ہو گا اور آپ ؐ بہشتیوں کے آگے آگے بہشت کی طرف بڑھیں گے ۔18
5۔حوض کوثر:
اسلامی احادیث کے مطابق میدان محشر میں ایک بڑاحوض ہو گا جو حوض کوثر کے نام سے مشہور ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے اس حوض پر پہنچیں گے اور ا مت کے نجات یافتہ افراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے ہاتھوں اس حوض سے سیراب ہوں گے ۔
تحریر : محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1۔انعام،12۔
2۔المیزان،ج7،ص25۔
3۔مومنون ،115۔
4۔دخان،40۔
5۔ص،28۔
6۔قلم ،35،36۔
7۔بقرۃ،167۔
8۔توبہ،72۔
9۔احقاف،33۔
10۔تلخیص المحصل،ص394۔
11۔اسراء،13 -14}
12۔نحل،89۔ بقرۃ،143۔ ق ،18- 21 ۔زلزال،۴.
13۔انبیاء،47۔
14۔فصلت20.
15۔توبہ،34،35۔ ۔زلزال،6- ۔ کہف، 49.
16۔مریم ،71،72
17۔اعراف،46۔
18۔بحار الانوار ،جلد،8باب،18،احادیث 1،12۔مسند احمد،ج3،ص144۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) قیامت کےدن انجام پانےوالے اہم امورمیں سےایک بعض گنہگار افراد کے حق میں شافعین کی شفاعت ہے ۔یہ افراد شفاعت کرنے والوں کی سفارش کی بدولت رحمت الہیٰ کے حقدار ہو کر بہشت میں داخل ہوں گے ۔شفاعت کا عقیدہ تمام مذاہب اسلامی کے نزدیک ایک مسلم عقیدہ ہے کیونکہ قرآن کریم اور سنت نبوی میں اس بارے میں صراحت ہوئی ہے۔ قرآن کریم مسئلہ شفاعت کو مسلم قرار دیتا ہے اور اس کے بعض احکام کو بیان کرتا ہےچنانچہ ارشاد فرماتا ہے کہ شفاعت صرف اور صرف اذن الہیٰ کے ساتھ ہی انجام پائے گی۔{مَن ذَا الَّذِی يَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِاِذْنِہ}1کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضورسفارش کر سکے ؟ ایک اور مقام پر فرماتا ہے :{مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِہ}2کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قرآن کریم مشرکین اور بت پرستوں کے عقیدے {بتوں سے شفاعت طلب کرنے}کو باطل قرار دیتا ہے کیونکہ مشرکین اپنے معبودوں کی الوہیت کے قائل تھےاور وہ شفاعت کے نفاذ میں کسی قسم کےقید و شرط کےقائل نہیں تھے۔قرآن کریم ان کے اس عقیدے کو مردود قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :{وَ يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہ ِ مَا لَا يَضُرُّہُمْ وَ لَا يَنفَعُہُمْ وَ يَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ شُفَعَؤُنَا عِندَ اللّہ ِ قُلْ أَ تُنَبِّونَ اللّہ َ بِمَا لَا يَعْلَمُ فیِ السَّمَاوَاتِ وَ لَا فی الاَرْضِ سُبْحَانہُ وَ تَعَالیَ عَمَّا يُشْرِکُون } 3 اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور{پھربھی}کہتے ہیں : یہ خدا کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں کہہ دیجئے: کہ تم خداکو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اورنہ زمین۔ وہ پاک و پاکیزہ اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے ۔لہذا قرآن کریم کی ان آیات کےتناظر میں بتوں کی شفاعت کی نفی ہوتی ہے ۔اسلام میں اصل شفاعت سے انکار کرنا کھلم کھلا مغالطہ ہے کیونکہ اسلام نہ شافعین کی الوہیت کا قائل ہے اور نہ ہی کسی قید و شرط کےبغیر انہیں شفاعت کی اجازت دیتا ہے۔یعنی شافعین کی شفاعت کو اذن الہیٰ میں منحصرکیا ہےاور اسلام کی نظر میں شافعین خدا کے مقرب بندے ہیں ۔ قرآن کریم فرشتوں کو شافعین میں سےقرار دیتا ہے جو صرف ان افراد کی شفاعت کریں گے جنہیں خدا پسند کرتا ہے ۔جیسے ارشاد ہوتا ہے:{بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُونَ. لَا يَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَ ہُم بامْرِہِ يَعْمَلُونَ. يَعْلَمُ مَا بَينْ أَيْدِيہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضی}4بلکہ یہ تواللہ کے محترم بندے ہیں۔وہ تواللہ{ کے حکم }سے پہلے بات {بھی} نہیں کرتےاور اسی کے حکم کی تعمیل کرتےہیں۔ اللہ ان باتوں کوجانتا ہےجو ان کے رو برو اور جوان کے پس پردہ ہیں اوروہ فقطان لوگوں کی شفاعت کر سکے ہیں جن سےاللہ راضی ہے۔5
قرآن کریم کےمطابق پیغمبراسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام محمود پرفائزہوں گے ۔ مفسرین متعدد روایتوں سے استناد کرتےہوئے مقام محمود کو شفاعت سے تعبیرکرتےہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:{ عَسیَ أَن يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا محَّمُود}6امید ہےکہ آپ کا رب آپ کو مقام محمودپر فائز کرے گا ۔طبرسی لکھتےہیں:مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ مقام محمود سےمراد شفاعت ہے ۔یعنی قیامت کے دن پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرچم {لواء الحمد}کو ہاتھ میں اٹھائیں گے اور تمام انبیاء اس پرچم تلے جمع ہوں گے ۔ آپ ؐ پہلے شافع ہوں گے جس کی شفاعت قابل قبول ہوگی ۔7 مسلمانوں کے نزدیک شفاعت کرنےوالوں سے شفاعت طلب کرنا ایک جائز کام ہے خواہ ان کی حیات میں ہو یا مرنےکے بعد۔ شفاعت دو طریقے سےطلب کی جا سکتی ہے :
پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان خدا وند متعال سے براہ راست پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرےافراد جنہیں شفاعت کا اختیار حاصل ہے کے واسطے سے شفاعت طلب کرے مثلا یہ کہے :{اللہم شفع لی محمدؐ}خدایا !میرے حق میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے افراد سےشفاعت طلب کرے مثلاً کہے:{یامحمد ؐاشفع لی عند الله ، کن لی شفیعا عند الله}اے رسول !خدا کےحضور میرے حق میں شفاعت کیجئے ۔وہابی صرف پہلی صورت کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کےنزدیک دوسرا طریقہ ناجائز اور شرک کاباعث بنتاہے ۔
شافعین سے شفاعت طلب کرنا حقیقت میں شفیع سےدعا طلب کرنا ہے اور اس میں کوئی شک و تردید نہیں ہےکہ غیرخدا سے دعا طلب کرنا نہ مطلقا حرام ہے اور نہ شرک کا باعث بنتا ہے ۔مسلمانوں سے مدد طلب کرنا ایک جائز کام ہے اور مسلمانوں پر اپنی وسعت کے مطابق دوسرےمسلمان کی مدد کرنا واجب ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے:{من سمع مناد ینادی یا للمسلمین و لم یجبہ فلیس بمسلم}جو شخص کسی محتاج کی آواز کو سنے جو مسلمانوں سےمدد طلب کر رہا ہو اور وہ اس کی مدد نہ کرے تووہ مسلمان نہیں ہے ۔اصولی طور پر اگرایک عمل کسی کے لئے جائز ہو تواس شخص سے اس عمل کی درخواست بھی جائز ہوگی ۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے شافعین کے لئے قیامت کے دن شفاعت کرنا جائز ہے پس ان افرادسے شفاعت طلب کرنا بھی جائز ہوگا۔
شفاعت سے مراد شفیع کا خدا کی بارگاہ میں شفاعت کی لیاقت رکھنے والے افراد کے حق میں دعا طلب کرنا ہے ۔نیشاپوری اس آیت{ مَّن يَشْفَعْ شَفَاعۃً حَسَنَۃً يَکُن لَّہُ نَصِيبٌ مِّنہْا وَ مَن يَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئۃً يَکُن لَّہُ کِفْلٌ مِّنْہ}8{جوشخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتاہےوہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اورسفارش کرتاہےوہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے گا }کی تفسیرمیں مقاتل سے نقل کرتے ہیں: خداوند متعال کی بارگاہ میں شفاعت طلب کرنے سے مراد مسلمانوں کے حق میں دعاکرنا ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :{من دعالاخیہ المسلم بظہر الغیب استجیب لہ و قال لہ الملک:و لک مثل ذلک}جو شخص اپنےمسلمان بھائی کے حق میں اس کی غیرموجودگی میں دعا کرے تواس کی دعا قبول ہوجائے گی اور فرشتہ اس سےکہے گا کہ تمہارے حق میں بھی ایسا ہو ۔ لہذا مذکورہ آیت میں نصیب کا معنی وہی ہے جو اس حدیث میں آیاہے یعنی جو دعا انسان کسی دوسرے مسلمان کے حق میں کرتا ہے وہ اس کے حق میں بھی قبول ہوتی ہے ۔پس جس طرح انسان ہر مسلمان سے دعا طلب کرسکتا ہے اسی طرح غیر خدا سےشفاعت بھی طلب کر سکتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ صرف ان افراد سے شفاعت طلب کی جا سکتی ہے جو مقام شفاعت پر فائز ہوں جیسے انبیاء ،ائمہ اہل بیتعلیہم السلاممومنین اورفرشتے ۔
فخر الدین رازی نے فرشتوں کا مومنین کے حق میں استغفار9کرنے کو شفاعت سے تعبیر کیا ہے ۔وہ اس سلسلےمیں لکھتےہیں کہ اس آیت سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ فرشتوں کی شفاعت صرف گنہگار افراد سے مخصوص ہے اور اس بارےمیں معتزلہ کا نظریہ صحیح نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ فرشتوں کی شفاعت نیک افراد کے لئے ہے تاکہ ان کے درجات میں اضافہ ہو سکے نہ گنہگار افراد کے گناہوں کی بخشش کے لئے ۔ابن عباس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےایک حدیث نقل کرتےہیں جس میں آپؐ فرماتےہیں:اگر کوئی مسلمان مر جائےاورچالیس مومن موٴحد اس کے جنازے پر نماز پڑھیں تو خدا ان کی شفاعت کو اس کے حق میں قبول کر تا ہے۔10نماز میت مومن کے حق میں دعا کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔لہذادعاایک قسم کی شفاعت ہے اور مومنین سے دعا طلب کرنا اور یہ کہنا {ادع لی}کسی شک و شبہ کےبغیر جائز ہے ۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی سیرت اس کےجائز ہونے پر گواہ ہے ۔ جیسے ترمذی ، انس بن مالک سےنقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس کا بیان ہےکہ میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں ۔11قرآن کریم میں چند موارد ذکر ہوئےہیں جو دوسروں سے دعا طلب کرنے کے جواز پر دلالت کرتےہیں ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کےفرزندوں نے اپنے باپ سے درخواست کی کہ وہ خدا سے ان کی بخشش کی سفارش کریں۔12۔ قرآن کریم گنہگاروں کے لئے یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ خودبھی مغفرت طلب کریں اورپیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی درخواست کریں کہ آپ ؐبھی ان کے حق میں دعا کریں ۔13
وہابی اورتکفیری گروہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ ؐ سے دعا طلب کرنے کو شرک قرار دیتے ہیں اگر یہی کام شرک ہو تو دونوں حالتوں میں شرک ہوگا یعنی اگر زندوں سے شفاعت طلب کرنا شرک نہیں ہے تو مردوں سے شفاعت طلب کرنا بھی شرک نہیں ہے ۔علاوہ ازیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت آپ ؐ کے جسم کے ساتھ وابستہ ہے جبکہ آپؐ کی روح زندہ ہے اور دعا و شفاعت کی درخواست کو سننا اور ان کی اجابت کرنا روح سےمتعلق ہے نہ جسم سے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی رحلت کے بعد آپ ؐ پردرود وسلام بھیجنے کے بارے میں نقل شدہ بہت ساری احادیث میں یہ بات صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود وسلام کو سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ۔14
پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیار ت کے آداب میں یہ بات نقل ہوئی ہےکہ زائر جب آپؐ کی قبرمبارک کے پاس دعا کرتا ہے تو آپؐ سےمخاطب ہو کر اس طرح سےکہنا چاہیے:{جئنالقضاء حقک والاستشفاع بک فلیس لنایارسول الله شفیع غیرک فاستغفر لنا واشفع لنا}یا رسول اللہ:ہم آپؐ کے پاس اپنے حوائج کی برآوری اور شفاعت طلب کرنے کے لئے آئے ہیں۔آپ ؐکےسوا ہمارا کوئی شفیع نہیں ہے۔آپؐ ہماری مغفرت کےلئے دعا کریں اور ہماری شفاعت کریں ۔اہل سنت کے بہت سارے علماءنے اپنےمناسک کی کتابوں میں یہ بات ذکرکیا ہے کہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے وقت آپ ؐسے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے ۔ 15قرآن کریم حق شفاعت کو خدا کے ساتھ منحصر کرنے کےعلاوہ خدا کے اذن سے اسےانبیاء،اولیاء اور فرشتوں کے لئے بھی ثابت کرتاہے۔ لہذامقام شفاعت صرف خدا کا حق ہے لیکن شافعین کی شفاعت رضائے الہی پر منحصر ہے۔لہذا آیت کریمہ{ قُل لللہ الشَّفَاعَۃُ جَمِيعًا}{کہہ دیجئے:ساری شفاعت اللہ کےاختیار میں ہے} نہ دوسرے شافعین کی شفاعت کی نفی کرتا ہے اور نہ ان افراد سے شفاعت طلب کرنے کی نفی کرتا ہےکیونکہ شفیع سے شفاعت طلب کرنے کا مطلب یہ ہےکہ وہ بارگاہ الہی میں ان کے گناہوں کی بخشش کے لئے دعاکریں نہ یہ کہ وہ اپنی طرف سے ان کےگناہوں کو بخش دیں ۔
زمحشری اس آیت{قُل لِّلَّہِ الشَّفَاعَۃ جَمِيعًا}“کہہ دیجئے:
سا ری شفا عت اللہ کے اختیار میں ہے اور کوئی کسی دوسرے کے بارے میں شفاعت نہیں کر سکتا مگر دو شرائط کے ساتھ :
1۔شفاعت ان کی ہوگی جو شفاعت کی لیاقت رکھتے ہوں۔2۔ شفیع کے لئے یہ مقام خدا کی طرف سے حاصل ہواہو یعنی خدا نے شفاعت کرنے کا اختیار انہیں عطا کی ہے جبکہ یہ دو شرائط مشرکین اور ان کے شافعین کے بارے میں موجود نہیں ہیں ۔16 بنابرین شفاعت خدا کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے اس لئے ذاتا ًیہ حق اسی کےساتھ مخصوص ہے لیکن یہ مطلب انبیاء و اولیاء کے لئے مقام شفاعت کے قائل ہونےکےساتھ منافات بھی نہیں رکھتاہے کیونکہ ان افراد کی شفاعت مستقل نہیں ہے بلکہ ان افراد کی شفاعت اذن الہی پر منحصر ہے ۔
حوالہ جات:
1۔بقرۃ،255۔
2۔یونس،3۔
3۔یونس،18۔
4۔انبیاء،26،28۔
5۔نجم،26۔
6۔اسراء،79۔
7۔مجمع البیان،ج3،ص435۔تفسیر برہان،ج2،ص440۔
8۔نساء،85۔
9۔غافر،7۔
10۔صحیح مسلم،ج3،ص54۔
11۔صحیح ترمذی ،ج4،ص42۔
12۔یوسف،97۔
13۔نساء،64۔
14۔سنن ابوداود ،ج2،ص218۔کنز العمال،ج10،ص381۔طبقات الشافعیۃ،ج3،ص406۔
15۔کشف الارتیاب، ص320 میں احمد بن زینی دحلان کی کتاب خلاصۃ الکلام سےنقل ہوا ہے ۔
16۔تفسیر کشاف،ج4،ص30۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(آرٹیکل) حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی، امام علی رضا علیہ السلام کی بہن اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں، انہیں کے پر مہر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔ اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یہی کافی ہے کہ امام وقت نے تین بار فرمایا:{فداھا ابوھا} یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ کتاب "کشف اللئالی" میں مرقوم ہیں کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جن کا جواب وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عمر بہت کم تھی لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔
مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی رہ اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی قبر کا جگہ معلوم کرنے کے لئےایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا:{علیک بکریمۃ اھل البیت} یعنی تم کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں"۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر ہے"۔ پھر فرمایا:"کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے ۔
امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے۔ حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔ اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں ۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے ، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کواہل قم نے گلبارن کرتے ہوئےموسیٰ بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے۔
بی بی مکرمہ نے 17 دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے ۔ جس جگہ آج حرم مطہر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا ہے یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ س کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کر کے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ س کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں : {من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی } یعنی جس نے قم میں معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی۔ حضرت معصومہ کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں.امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ إنَ لِلّہِ حَرَماً وَ ہُوَ مَکَہُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ (ص) حَرَماً وَ ہُوَ الْمَدِینَۃُ وَ إِنَ ِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ ہُوَ الْکُوفَۃُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ ہُوَ بَلْدَۃٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیہَا امْرَأَۃٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَۃَ فَمَنْ زَارہَا وَ جَبَتْ لَہُ الْجَنَۃ} خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے، اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے۔ اور عنقریب میری اولاد میں سے موسی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ ایک اور بیان کے مطابق آپکی زیارت کا اجر بہشت ہے۔ امام جوادعلیہ السلام نے فرمایا: جو کوئی قم میں پوری شوق اور شناخت سے
میری پھوپھی کی زیارت کرے گا وہ اہل بہشت ہو گا.حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے"۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعہم} یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔
منابع:
1۔ منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸.
2۔ کریمہ اہل بیت، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی.
3۔دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹ ۔
4۔زندگانی حضرت معصومہ / آقائے منصوری : ص/ ۱۴ ، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی ۔
5۔دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی : ص/۱۲ ، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری ۔
6۔تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳ ۔
7 ۔مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹.
8۔ ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵.
9۔ کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶.
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی