وحدت نیوز (آرٹیکل) فضائل کی دوقسمیں ہیں۔ ایک ذاتی فضائل اور دوسری نسبی فضائل ۔  ذاتی فضائل سے مراد وہ کمالات ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجودہوتاہے ۔ فضائل نسبی وہ صفات ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اس کے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا  میں دونوں طرح کی صفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں اور وہ فضائل جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔ اس  مختصر مقالہ میں ہم حضرت  فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے فضائل کا تقابلی جائزہ لینے کی کو شش کریں گے۔

۱۔خاندانی شرافت
قانون وراثت کے مطابق والدین کی صفات جیسے نجابت و شرافت  وغیرہ  فرزند کی طرف منتقل ہوتے ہیں ۔ابن عساکر اور ابن اسحق کے بیان کردہ شجرہ نسب کے مطابق حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے والد گرامی جناب عمران حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے اور بنی اسرائیل کے امام تھے ۔ ان کی خاندانی شرافت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جناب عیسی ٰ علیہ السلام جسے اولوالعزم نبی اس خاندان سے آئے ۔قرآن کریم میں اس خاندان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:{ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحا و آل ابراھیم و آل عمران علی العالمین } بے شک اللہ نے آدم ، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر برگزیدہ فرمایا ۔

جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی خاندانی شرافت تمام مسلمانوں کیلئے روشن ہے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے اس خاندان سے محبت کو  اجررسالت قرار دیا ہے ۔امام رضا علیہ السلام کی روایت کے مطابق اوپر والی آیت میں آل ابراہیم سے مراد خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے ۔ اس کے علاوہ آیت تطہیر میں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں واضح  طور پر فرمایا ہے ۔سورۃ ابراہیم میں اس خاندان کو شجرۃ مبارکۃ  سے تعبیر کیا ہے اسی طرح سورہ انسان اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں نے نازل ہواہے ۔

۲۔والدین   
 جناب مریم سلام اللہ علیہاکے والد گرامی جناب عمران تھے اور ان کا سلسلہ نسب حضرت داؤد علیہ السلام سے ملتا ہے امام صادق علیہ السلام واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ جناب عمران اور جناب زکریا دونوں اپنے دور کے پیغمبروں میں سے تھے ۔  
جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکے والد گرامی محمد بن عبداللہ خاتم انبیاء اور خاتم الرسل ہیں۔ آپ تمام مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ ہیں انہی کی وجہ سے خداوند عالم نے کائنات کو خلق فرمایا : یا احمد ! لولاک کما خلقت الافلاک  اے احمد میں تجھے خلق نہ کرتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا ۔
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی والدہ اپنے زمانے کی عبادت گزار خاتون تھیں اور صاحب اولاد نہیں تھی انھوں نے خدا سے اولاد کی دعا کی تو لطف الہی سے حاملہ ہوئیں ۔ان کی شرافت اتنی تھی کہ خدا ان کی نذر قبول کر کے فرماتا ہے {فتقبلھا ربھا}  اس کے رب نے اسے قبول کیا۔
جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی والدہ گرامی وہ عظیم خاتون ہیں جس کے بارے میں رسول  خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں ۔ {واللہ ما اخلف لی خیرا منھا ، لقد اٰمنت بی اذکفر الناس صدقتنی اذکذبنی الناس ۔۔۔۔۔} خدا کی قسم ! مجھے خدیجہ سے بہتر بیوی عطا نہیں کی گئی ۔ اس نے اس وقت مجھ پر ایمان لایا جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے ۔ اور اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے ۔ دوسری جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب زہراء سلام اللہ علیہاسے فرماتے ہیں { ان بطن امک کالامامۃ و عاء} گویا تیری والدہ کا شکم امامت کے لئے ایک ظرف کی مانند تھا ۔ جناب خدیجہ نے اپنا سارا مال راہ اسلام میں خرچ کئے۔ جناب خدیجہ ان چار خواتین میں سے ہیں کہ بہشت ان کی مشتاق ہے۔  

۳۔اسم گذاری
جناب مریم سلام اللہ علیہاکا نام ان کی والدہ نے رکھاجیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:{ انی سمیتھا مریم }  میں نے اس بچی کا نام مریم رکھا جس کا معنی عابدہ اور خدمتگزارکے ہے ۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکا نام خداوند عالم کی جانب سے معین ہوا ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا کے نزدیک فاطمہ سلام اللہ علیہاکے نو اسماءہیں :فاطمہ ، صدیقہ ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ ، محدثہ اور زہرا  ۔  امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب فاطمہ سلام اللہ علیہاکی ولادت ہوئی تو خدا نے ایک فرشتہ کو بھیجا تا کہ نام فاطمہ کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان پر جاری کرے اور اس طرح آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا۔

۴۔ظاہری حسن
امام باقر علیہ السلام جناب مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں فرماتے ہیں:{ اجمل النساء}  وہ ساری عورتوں سے زیادہ خوبصورت خاتون تھیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن ان عورتوں کے سامنے جو اپنی خوبصورتی کو فساد کا بہانہ قرار دیتی ہیں جناب مریم سلام اللہ علیہاکو پیش کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم مریم سلام اللہ علیہا سے بھی زیادہ خوبصورت تھی ؟  
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرماتے ہیں :{ کانت فاطمۃ سلام اللہ علیہاکوکبا دریا بین النساء العالمین } حضرت زہراء سلام اللہ علیہاعالمین کی تمام عورتوں کے در میان ستارہ ضوفشاں ہیں ۔ بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکو زہرا ان کے نورانی چہرے کی وجہ سے کہا گیا  ہے۔ رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:{ فاطمۃ حوراء الانسیۃ } فاطمہ انسانی شکل میں حور ہیں ۔ مجموعہ روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ جناب سیدہ کے چہرے سے نور پھوٹتا تھا اور وہ چودھویں چاند کی طرح چمکتا تھا جب مسکراتی تھیں تو ان کے دانت موتی کی طرح چمکتے تھے۔
۵۔ایمان کامل
حضرت مریم سلام اللہ علیہااورحضرت زہراءسلام اللہ علیہا دونوں ایمان کامل کے درجہ پر فائز تھے۔ جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں:{ کمل من الرجال کثیر و لم یکمل من النساءالا مریم بنت عمران و آسیۃ امراۃ فرعون و فاطمہ } مردوں میں سے بہت سارے لوگ  ایمان کامل کے درجے پر فائز تھے لیکن عورتوں میں سے سوائے مریم بنت عمران ،آسیہ اور فاطمہ کے کوئی کامل نہیں ۔

۶۔ ظاہری آلودگیوں سے پاک
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو خط نجاشی کو لکھا اس میں جناب مریم سلام اللہ علیہاکو بتول کے نام سے یاد  فرمایا ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مطابق مریم سلام اللہ علیہا اور فاطمہ سلام اللہ علیہادونوں بتول تھیں ۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ بتول سے مراد کیاہے ؟ تو فرمایا :{البتول لم ترحمرۃ قط ای لم تحضن فان الحیض مکروہ فی بنات الانبیاء} بتول یعنی وہ خاتون جس نے کبھی سرخی نہیں دیکھی ہو یعنی کبھی حائض نہ ہوئی  ہوکیونکہ حیض انبیاء کی بیٹیوں کیلئے ناپسند ہے۔ قندوزی نے ینابیع المودۃ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو بتول اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ خداوند عالم نے اسے حیض و نفاس سے دور فرمایا ہے ۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے لئے صفت طہارت کا ہونا قطعی امر ہے جبکہ جناب مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں روایات مختلف ہیں بعض روایات کے مطابق خاص دونوں میں جناب مریم سلام اللہ علیہامسجد سے باہر جایا کرتی تھی ۔  

۷۔کفیل اور سرپرست
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی والدہ گرامی ان کی ولادت سے پہلے ہی فوت ہو چکی تھی ان کی والدہ نے ان کومعبد کے لئے نذر کر چکی تھی جب مریم سلام اللہ علیہا کو معبد منتقل کردی گئی تو معبد کے راہبوں کے درمیان ان کی کفالت کے بارے میں اختلاف ہوا اس لئے قرعہ اندازی ہوئی تو جناب زکریا کا نام آیا جو کہ بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے خالو تھے۔  {و کفلھا زکریا}  
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے کفیل اور سرپرست ان کے بابا حضرت محمد مصطفی  ہیں ۔حضرت زکریا علیہ السلام جب جناب مریم سلام اللہ علیہاکے محراب عبادت میں داخل ہوتے تھےتو غیر موسمی پھل دیکھ کر حیران ہوجاتے تھے لہذا پوچھتے تھے :{کلما دخل علیہا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یا مریم سلام اللہ علیہا انی لک ھذا } اسی طرح بی بی دو عالم فاطمہ سلام اللہ علیہاکی کرامات دیکھ کر اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  جیسے سلمان و ابوذر بی بی حیران ہوجاتے تھے ۔

۸۔عصمت اور طہارت
خداوند عالم نے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو نجاستوں سے پاک فرمایا :{و اذ قالت الملائکۃ یا مریم سلام اللہ علیہا ان اللہ اصطفک و طھرک۔۔۔۔۔}  ( وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا بے شک اللہ نے تمھیں برگزیدہ کیا ہے اور تمھیں پاکیزہ بنایا ہے۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہاکیلئے اللہ تعالی  فرماتا ہے:{ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطہرکم تطہیرا}  اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی پاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ یقینا فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا قطعی طور اس آیت کی مصداق ہیں بہت سارے اہل سنت مفسرین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاجزء اہل بیت اور اس آیت میں شامل ہیں ۔

۹۔تمام خواتین پر فضیلت
جناب مریم سلام اللہ علیہاکو اپنے زمانے کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے جب کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکو تمام زمانوں کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے ۔ خداوند عالم جناب مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرماتا ہے:{ ان اللہ اصطفاک و طہرک و اصطفاک علی نساء العالمین} جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی فضیلت تمام زمانے کے عورتوں پر ہے اور اس کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:{ کانت مریم سیدۃ  نساء  زمانہا اما ابنتی فاطمہ فہی سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الاخرین } جناب مریم   اپنے زمانے کی تمام عورتوں کی سردار تھی لیکن فاطمہ تمام زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہامحراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو ۷۰ ہزار مقرب فرشتے ان کو سلام کرتے تھے اور اور کہتے تھے اے فاطمہ! خداوند عالم نے تجھے چن لیا، پاک کردیا اور تجھے تمام عورتوں پر فضیلت دی ہے ۔  

۱۰۔فرشتوں سے ہم کلام ہونا
جناب مریم سلام اللہ علیہامحدثہ تھی اور جبریل ان پر نازل ہوتے تھے :{ قالت الملائکہ یا مریم سلام اللہ علیہا ان اللہ یبشرک ۔۔۔۔}  جب جناب مریم سے فرشتوں نے کہا اے مریم! خدا تجھے اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ جناب مریم سلام اللہ علیہاسے گفتگو کرتے ہیں:{فقال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا} جناب مریم سلام اللہ علیہاجب حاملہ ہوئیں اور بہت زیادہ غمگین ہوئیں تو آواز آئی اے مریم غمگین نہ ہوجاؤ:{ فناداھا من تحتھا الا تحزنی }  
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا بھی محدثہ تھیں امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو محدثہ کہتے ہیں کیونکہ فرشتے آسمان سے ان پر نازل ہوتے تھے اور اسی طرح ندا دیتے تھے جیسے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو دیتے تھے ۔ مصحف فاطمہ فرشتوں سے فاطمہ سلام اللہ علیہاکی گفتگو کا نتیجہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ ان عندنا مصحف فاطمہ }ہمارے پاس مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہاہے ۔ حضرت زہراء جب اپنے بابا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بہت زیادہ غم و اندوہ سے دچار ہوئیں تو خداوند عالم نے ان کو تسلی دینے کیلئے جبرئیل اور فرشتوں کو بھیجا تا کہ ان کو تسلی دیں ۔ امام خمینی  رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت زہراء کی سب سے بڑی فضیلت  ۷۵ یا ۹۵ دن تک جبرئیل امین کا مسلسل در خانہ زہرا پر نازل ہونا ہے،اوریہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے مخصوص فضیلت ہے ۔

۱۱۔کرامت اور تصرف تکوینی
حضرت مریم سلام اللہ علیہانے خدا کے حکم سے کھجور کے خشک درخت کو ہلا یا تو فورا پھل دار درخت بنا اور تازہ کھجوریں نکل آئے اور جناب مریم سلام اللہ علیہانے اسے تناول کیا ۔ {و ھزی الیک بجذع النخلۃ ۔۔۔۔ جنیا} اس کھجور کے درخت کی ٹہنی کو ہلاؤ تیرے لئے تازہ کھجوریں گریں گی ۔
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہابھی صاحب کرامات تھیں اور آپ کے بہت ساری معجزات آپ کے تصرف تکوینی کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ چکی کا خود بخود چلنا ۔ بچوں کے جھولے کا خود بخود جھولنا  غذا کا آمادہ ہونا وغیرہ ۔یہ آپ کی تصرفات تکوینی کی مثالیں ہیں ۔ حضرت ابوذر غفاری کہتے ہیں : کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نےامام علی علیہ السلام کو بلانے کے لئے بھیجا جب میں امام علی علیہ السلام کے گھر
گیا اور آواز دی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا لیکن میں نے دیکھا کہ چکی خود بخود چل رہی ہے اور گندم آٹے میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔ جب کہ کوئی بھی چکی کے پاس کوئی بھی نہیں ہے ۔ میں واپس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں  نےایسی چیز دیکھی جس کی مجھے سمجھ نہیں آرہی میں حیران ہوں امام علی علیہ السلام کے گھر میں چکی خود بخود چل رہی تھی اور کوئی بھی چکی کے پاس نہیں تھا ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر لحاظ سے خداوند عالم نے میری بیٹی کے دل کو یقین سے اور اس کے وجود کو ایمان سے پر کردیا ہے ۔

۱۲۔بہشتی غذا کا ملنا
 بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہشتی کھانے خدا کی طرف سے ان کو میسر ہوتے تھے:{ کلما دخل علیہا زکریا۔۔۔ وجد عندھا رزقا ۔۔۔۔بغیر حساب}
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکے لئے بھی مختلف مواقع پر بہشتی غذا  میسر ہوئے۔ جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے اور آپؐ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ حسنین بھی بھوکےہیں۔رسول خدا واپس چلے گئےاتنے میں ایک عورت نے دو روٹی اور ایک گوشت کا ٹکڑا جناب حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی خدمت میں لے کر آیا۔آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺکو کھانے پر دعوت دی درحالیکہ حسنین علیہم السلام  اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔آپ ؑنے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺکے سامنے رکھ دیا ۔رسول خداﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹی سے بھرے ہوئے تھے۔پیغمبر اکرم ﷺنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سےسوال کیا بیٹی اسے کہاں سے لائے ہو ؟آپؑ نے فرمایا:{ہو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب} یہ اللہ کی طرف سےہے اور خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔رسول خدا نے فرمایا:{الحمد لله الذی جعلک شبیہۃ سیدۃ نساء بنی اسرائیل} تمام تعرفین اللہ کے لئے جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا ۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ہمسائیوں نےبھی تناول کیا اورخدا نے اس میں برکت عطا کی ۔

۱۳۔مصائب و آلام
مشکلات کمال کے راستے میں ایک موثر عامل اور تقرب الہی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لہذا خداوند عالم کے تمام اولیاء خاص مصائب و آلام کے شکار بھی ہوئے ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ ان اشد الناس بلاء النبیون ثم الوصیون ثم الامثل فالامثل ۔۔۔۔} جناب مریم سلام اللہ علیہابھی بہت سارے مصائب اور مشکلات میں مبتلا ہوئیں پوری زندگی والدین سے جدا ہونا ، بچپن میں بیت المقدس کی خدمتگزاری، تمام تر طہارت کے باوجود لوگوں کے ان کے بارے میں سوء ظن کرنا اور تہمت لگانا ، جناب عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کسی کا پاس نہ ہونا  ، باپ کے بغیر بچے کی پرورش کرنا یہ سارے مصائب و مشکلات  جناب مریم سلام اللہ علیہاپر آئے  ۔
جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے مصائب و   مشکلات بے شمار ہیں۔ جب مادر گرامی کے شکم میں تھیں تب بھی اپنی والدہ کی تنہائی اور پریشانی
کو درک کرتی تھیں جب آپ دنیا میں تشریف لائیں تو اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام تر مشکلات اور اذیتوں کومشاہدہ کیں۔ پیدائش کے چند سال بعد اپنے بابا کے ساتھ شعب ابی طالب میں میں محصور ہوئیں اور  اس کے بعدرسول خدا کے ساتھ ہجرت کی۔ غزوہ احد کے موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک تھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وفات کے بعد زہراء پر مصائب کا ہجوم آیا اور ایک نئی رخ سے مصائب کا آغاز ہوا اور آپ مسلسل گریہ کرتی رہیں ۔ آپ کا پہلو شکستہ ہوگئی آپ کا فرزند محسن شہید ہوا اس قدر مصیبتیں آئی کہ آپ موت کی تمنا کرنے لگیں ۔

۱۴۔موت کی آرزو
جناب مریم سلام اللہ علیہا شدت غم اور لوگوں کے جھٹلانے کی وجہ مرنے کی آرزو کرتی ہیں :{یا لیتنی مت قبل ھذا } اے کاش میں اسے پہلے مرگئی ہوتی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی شدت غم کی وجہ سے مرنے کی آرزو کرتی تھیں اور فرماتی تھیں :{اللہم عجل وفاتی سریعا } خدایا ! جلد از جلد میری موت آئے خداوند عالم نے بھی ان کی دعا قبول کی ۔

۱۵۔ روزہ سکوت
حضرت مریم سلام اللہ علیہانے خدا کے حکم سے نادان لوگوں کی اہانت کے مقابلے میں سکوت کا روزہ رکھا تھا اور ان کے ساتھ بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا تھا { فلن اکلم الیوم انسیا} میں آج کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی ۔
جناب فاطمہ زہرا نے بھی خلیفہ اول و  دوم کے سامنے سکوت اختیار کی اور ان سے بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا اور فرمایا کہ میں ہرگز ان سے بات نہیں کروں گی:{  واللہ لااکلمک ابدا}  خدا کی قسم ! میں تم سے ہرگز بات نہیں کروں گی ۔

۱۶۔پاکیزہ  فرزند
 حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں قرآن میں آیا ہے :{ اللتی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا } مریم بنت عمران نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہیں ہم نے اپنی روح اس میں پھونک دی ۔خداوند عالم نے ان کی پاکیزگی کے نتیجے میں اپنی روح ان میں پھونک دی جس کے نتیجے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ خداوند عالم نے جناب زہراء سلام اللہ علیہاکو ان کی پاکدامنی کے نتیجے میں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام جیسے طاہر فرزند عطا کیے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :{ان فاطمۃ سلام اللہ علیہااحصنت فرجھا فحرم اللہ ذریتھا علی النار} بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہانے اپنی عصمت کی حفاظت کی پس خدا نے ان کی نسل پر آگ حرام کر لیا۔
حسان بن ثابت اسی بات کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے :
و ان مریم سلام اللہ علیہا احصنت فرجھا و جاءت بعیسی علیہ السلام کبدر الدجی
فقد احصنت فاطمۃ سلام اللہ علیہابعد ھا و جاءت بسبطی نبی الھدی۔  
بے شک جناب مریم سلام اللہ علیہانے اپنی عصمت کی حفاظت کی اور چاند جیسے حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں لائیں ۔
فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی اپنی عصمت کی حفاظت کی اور رسول خدا کے دو نواسوں کو دنیا میں لائیں ۔
علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہتےہیں :
                                                               آن یکی شمع شبستان حرم
                                                                حافظ جمعیت خیر الامم
اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ہوتی ہے۔
                                                              تانشیند آتشِ پیکارو کین
                                                              پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین
امام حسین علیہ السلام کے بارے میںعلامہ اقبال کہتے ہیں :
                                                        آن دگر مولائے ابرارِ جہان
                                                        قوتِ بازوئے احرارِ جہان
تمام عالم کے ابراروں کے مولا و سردار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے وہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا  کا بیٹا حسین علیہ السلام ہے۔

۱۷۔عبادت و بندگی
قرآن کریم حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں فرماتا ہے:{ و کانت من القانتین } ان آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہامسلسل اطاعت ، نماز ، طولانی قیام اور دعا میں مشغول  رہتی تھیں ۔ ابن خلدون لکھتا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہانے اس قدر عبادت کی کہ لوگ ان کی مثال دیتے تھے ۔ جناب مریم سلام اللہ علیہا محراب میں خدا کی عبادت میں مشغول رہتی تھی۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی محراب عبادت میں خدا سے راز و نیاز کرتی تھیں امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں :{اذا قامت فی محرابہا    ۔۔ نورھا لاہل السماء} جب وہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو اہل آسمان کیلئے ان کا نور چمکتا تھا۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی اپنی مختصر زندگی میں اس قدر عبادت کی کہ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے شب جمعہ اپنی والدہ کو محراب عبادت میں دیکھا کہ وہ مسلسل رکوع و سجود بجالاتی رہیں یہاں تک کہ صحیح کی سفیدی نمودار ہوئی اور میں نے سنا کہ مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعا کرتی تھیں۔  حسن بصری کہتا ہے کہ اس امت میں فاطمہ سلام اللہ علیہاسے بڑھ کر کوئی عبادت گذار نہیں ملتا اس قدر عبادت میں کھڑی رہیں کہ ان کے پاؤں میں ورم آچکے تھے ۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عبادت و قنوت اس حد تک تھی کہ آپ مصداق آیہ کریمہ  {الذین یذکرون اللہ قیاما و قعوداً} تھیں  ۔

۱۸۔معصوم کے ہاتھوں غسل
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی وفات کے بعد جناب عیسی علیہ السلام نے انھیں غسل دیا ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکو بھی امام علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا ۔مفضل نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا فاطمہ سلام اللہ علیہاکو کس نے غسل دیا تھا  فرمایا : امیر المومنین علیہ السلام نے۔ مفضل کہتا ہے میں یہ بات سن کر حیران ہوا لہذا امام نے فرمایا گویا تم یہ بات سن کر غمگین ہوئے ہو میں عرض کیا جی ہاں میری جان آپ پہ قربان !ایسا ہی ہے ۔ امام نے مجھ سے فرمایا غمگین نہ ہو جاؤ، کیونکہ فاطمہ سلام اللہ علیہاصدیقہ تھیں اور سوائے صدیق کے کوئی غسل نہیں دے سکتا تھا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ مریم سلام اللہ علیہا کو سوائے عیسی علیہ السلام کے کسی اور نے غسل نہیں دیا۔  

حوالہ جات:
   امام حافظ ، عماد الدین ، قصص الانبیاء ، ص ۵۴۰۔
   آل عمران : ۳۳۔
   شوریٰ : ۲۳۔
   طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۳ ، ص : ۱۶۶۔
   الاحزاب : ۳۳۔
  ابراھیم : ۲۴۔
   طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۲ ، ص : ۱۸۴۔
   قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد ، ص : ۶۳۔
   مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ، ج ۱۴، ص ۱۹۴۔
   آل عمران ، ۳۷۔
   محدث اردبیلی، کشف الغمہ ، ج۱، ص ۴۷۹۔
  مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۴۳۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۴۳، ص ۵۳۔
   آل عمران : ۳۶۔
   طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۳ ، ص : ۱۷۳۔
   محدث اردبیلی ، کشف الغمہ ، ج:۱ ، ص ۴۳۹۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج۴۳، ص : ۱۳۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ج۱۴ ، ص ۲۰۴۔
   یضاً ، ص: ۱۹۲۔
   بحرانی، ھاشم بن سلیمان، البرھان فی تفسیر القرآن ، ج۴ ، ص : ۶۶۔     
  قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد ، مترجم الطاف حسین  ص ۲۳۱۔
   ایضاً ، ص : ۱۸ ۔
   سیوطی ، عبدالرحمن ، الدر المنثور ، ج۲ ، ص : ۲۳۔
   آیتی ، عبدالمحمد، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ص ۴۳۴۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۴۳، ص : ۱۴۔
   قندوزی ، سلیمان، ینابیع المودۃ، ص : ۳۲۲، حدیث : ۹۳۰ ۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ص ۱40، ص ۱۹۷۔
   حافظ، عماد الدین ، قصص الانبیاء، ص : ۵۴۰۔
   آل عمران ، ۳۶۔
   آل عمران : ۳۷۔
   آل عمران : ۴۲۔
   الاحزاب :۳۳۔
   طبرسی، جامع البیان فی تفسیر القرآن ، ج: ۲۲، ص : ۷، سیوطی ، عبدالرحمن ، الدرالمنثور، ج۵، ص : ۱۹۸، قندوزی، سلیمان، ینابیع المودۃ ، ج۱،ص :۳۱۹۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار، ج۴۳، ص : ۲۲، ۲۴، ۷۸۔
   مکارم شیرازی، زہراء برترین بانوی جہان۔
   ایضاً، ص : ۴۹۔
   آل عمران : ۴۵۔
   مریم : ۱۹۔
   مریم : ۲۴۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ج۴۳، ص ۷۸۔
   مجلسی ،محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص ۷۹۔
   مریم : ۲۵۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۲۹۔
   ایضاً : ص: ۴۵۔
   ایضا:ص :۳۰۔
   آل عمران :۳۷۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص ۲۷، ۳۱ اور ۷۷۔
   زمحشری نے کشاف میں اور سیوطی نے در المنثور میں سورۃ آل عمران کی آیت 37 کی تفسیر میں اس واقعے کو نقل کئے ہیں ۔
   خمینی رحمۃ اللہ علیہ  ، روح اللہ ، چہل حدیث ص : ۲۰۳۔
   مجلسی ، محمدباقر ، بحارالانوار ج ۴۳، ص : ۴۳۲۔
   نجمی محمد صادق ، سیری در صحیحین ، ص ۳۲۴۔
   ایضاً ، ص : ۳۲۵۔
   مریم : ۲۳۔  
   دشتی ، محمد، فرھنگ سخنان حضرت زھرا، ص : ۱۷۷۔
   مریم : ۲۶۔
   قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد، ص : ۵۷۱۔
   تحریم : ۱۱۔
   شافعی ، ابراہیم ، فرائد السمطین ، ج۲ ، ص ۶۵۔
   مجلسی ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۵۰ ۔
   تحریم : ۱۲۔
   آیتی ، عبدالحمید، تاریخ ابن خلدون ، ج:۱، ص : ۱۶۰۔
  ابن بابویہ، محمد بن علی ، علی الشرائع ص : ۱۸۱۔
   ابن بابویہ ، محمد علی، علل الشرائع ، ص : ۱۸۲۔
   مجلسی ، محمد باقر ،بحارالانوار ، ج ۷۶، ص : ۸۴۔
   ٓل عمران : ۱۹۱۔
   ابن بابویہ ، محمد علی ، علل الشرائع ص : ۱۸۴۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (آرٹیکل) دین اسلام میں عقل اور تفکر عقلی کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے  یہاں تک کہ اسلام کے منابع میں سے ایک عقل کو قرار دیا گیا ہے۔عقل کی حجیت کی واضح دلیل یہی ہےکہ خود وجود خدا اور ضرورت دین عقلی تفکر اور عقلی استدلال  پر موقوف ہیں ۔
قرآن کریم اور تفکر عقلی :
قرآن کریم میں اکثر مقامات پر تفکر عقلی پر زور دیا گیا ہے جیساکہ ارشادہوتا ہے :بے شک زمین وآسمان کی خلقت اورروز وشب کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ۔جولوگ اٹھتے ،بیٹھتے اورلیٹتے ہوئےخدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں ،کہ خدایا تو نے یہ سب بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔ تو پاک و بے نیاز ہے۔تو ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔۱
قرآن کریم نظام خلقت کے بارے میں غوروفکر کرنے والےافراد کی تعریف کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کی مذمت کرتاہےجو دنیا کےحقایق کی شناخت کے لئے اپنی عقل سے استفادہ نہیں کرتے تا کہ خدا شناسی کے مرحلے تک پہنچ جائیں۔جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔۲
اسی طرح ایک اورمقام پرارشاد ہوتا ہے : اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قراردیتاہے جوعقل سے کام نہیں لیتےہیں۳۔ اس کےعلاوہ قرآن کریم دینی عقائدکے اثبات کے لئے برہان اور عقلی استدلال سے استفادہ کرتا ہے ۔جیسے توحید خداوند کے بارے میں فرماتا ہے ۔ا گر زمین وآسمان میں اللہ کےعلاوہ اور خدا ہوتے توزمین وآسمان دونوں برباد ہوجاتے ۔۴۔ اسی طرح قیامت کےاثبات پراس دلیل کا ذکر کرتا ہے۔کیاتمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نےتمہیں بیکار پیداکیا ہےاور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاؤگے؟ ۔۵۔ اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کی اطاعت کے لاز م ہونے کے بارے میں استدلال کرتا ہے ۔اورکیا جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابل اتباع ہے یا وہ جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے ؟  آخر تمہیں کیاہوگیا ہے اور تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟۔۶۔
ان کے علاوہ اوربھی بے شمار نمونے موجود ہیں۔قرآن کریم مشرکین اور کفار سے ان کے عقائد کے بارے میں دلیل طلب کرتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تواپنی دلیل لے آوٴ۔” اس کے بعد صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ یہ اپنے ظن پرعمل کرتے ہیں اور اہل یقین نہیں ہیں ۔۷۔یہ صرف گمان کا اتباع کرتےہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۸۔قرآن کریم کی نظر میں مشرکین و کفار کی سوچ یہی تھی کہ وہ اپنے آباءواجداد کی روش پر چلتے تھے حالانکہ ان کی روش غیر عاقلانہ تھی۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے  :جب ان سے کہا جائے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس  روش کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ و دادا کو پایا  ہے ۔کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بےعقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہےہوں؟۹۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے حکمت ،موعظہ حسنہ اور جدال احسن کے ذریعے لوگوں کو توحید اور دین کی دعوت دینےپر مامور تھے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتاہے:آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین ہو۱۰۔ اس عقلی روش کے مختلف مراحل ہیں۔موعظہ حسنہ پہلامرحلہ ہے، جدال درمیانی مرحلہ ہے  جبکہ حکمت آخری مرحلہ ہے۔
پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی عقائدکےبیان میں ان تین طریقوں سے استفادہ فرمایا ہے جیسا کہ اس کے کچھ نمونے قرآن کریم ، احادیث اورتاریخ کی کتابوں میں مذکورہیں ۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوالات کئے ۔ الف:خداوند متعال کہاں ہے ؟ ب:خداوند متعال کا  وجودکیسا ہے ؟آپ ؐنے اس کے جواب میں فرمایا:
الف: خداوند متعال کے لئے خاص جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ محدود نہیں ہے لہذا وہ ہر جگہ موجود ہے ۔
ب:خدا وند متعال کو کیفیت کے ذریعے بیان نہیں  کیا جا سکتاکیونکہ کیفیت خود مخلوق ہے اور ہم مخلوقات کے ذریعے اس کی صفات بیان نہیں کر سکتے ۔۱۱۔اسی طرح ایک اور یہودی عالم نے آپ ؐسے مختلف چیزوں کے بارےمیں سوال کیا تو آپ ؐنے تمام سوالوں کے جوابات دیے۔
پہلا سوال :آپ وجود خداوند متعال کو کس طرح ثابت کریں گے ؟آپ ؐنے فرمایا:اس کی نشانیوں اور آیات کے ذریعے۔
دوسراسوال:تمام انسانوں کو اسی نے خلق کیا ہے ۔پھر صرف بعض افراد کو رسالت کےلئے کیوںمنتخب کیا ہے ؟
آپ ؐنے فرمایا : کیونکہ یہ افراد دوسروں سے پہلے خداوند متعال کی ربوبیت پر ایمان لائے تھے ۔
تیسرا سوال:خداوند متعال کیوں اور کس لئے ظلم نہیں کرتا؟
حضور ؐنے فرمایا:کیونکہ وہ ظلم کی قباحت کو جانتا ہے اور ظلم سےبے نیاز ہے ۔{لعلمہ بقبحہ و استغنائہ عنہ}۱۲۔علمائے عدلیہ عدل الہی کو اسی دلیل کے سےثابت کرتےہیں چنانچہ محقق طوسی تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں:{و علمہ و استغناوہ یدلان  علی انتفاءالقبح عن افعالہ}۱۳علم خدا اور اس کی بے نیازی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے فعل قبیح سرزد نہیں ہوتا ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کے یہاں مختلف فرقے موجود نہیں تھے۔صرف  بت پرستوں اور اہل کتاب کے ساتھ کلامی و اعتقادی بحث و گفتگو ہوتی تھی لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں بہت سارے فرقے نیز مختلف فکری و کلامی مکاتب وجود میں آچکےتھے ۔ایک گروہ قرآن و حدیث کےظواہر پر عمل کرتاتھا اور ہر قسم  کی عقلی بحث و گفتگو کو ممنوع سمجھتا تھا۔یہ اہل حدیث کا گروہ تھا۔دوسرا گروہ تمام معارف و احکام کو اپنی عقل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتاتھا۔یہ معتزلہ کا گروہ تھا ۔لیکن ائمہ اطہارعلیہم السلام درمیانی راستے کو منتخب کر کے لوگوں کو ہر قسم کے افراط و تفریط سے منع فرماتے تھے ۔حضرت علی علیہ السلام خدا وند متعال کی شناخت میں عقل کے کردار کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :{لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ و لم یحجبہا عن واجب معرفتہ}۱۴اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت سے مطلع نہیں کیا اور بقدرضرورت معرفت حاصل کرنے کی راہ میں پردے بھی حائل نہیں کیے ۔
ائمہ اطہارعلیہم السلام کے نزدیک عقل اصول دین اور مبادی دین کی شناخت کےلئے کافی ہے لیکن احکام کی تفصیل جاننے کے لئے اسےوحی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اسی وجہ سے خدا نے دو چیزوں کے ذریعے انسانوں پرحجت تمام کیاہے ۔ان میں سے ایک عقل  ہےاور دوسری وحی ۔امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان لله علی الناس حجتین:حجۃ ظاہرۃو حجۃ باطنۃ،اماالظاہرۃ ، فالرسل والانبیاءوالائمہ واماالباطنہ فالعقول}۱۵خدا نےلوگوں پرحجت کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک ظاہری حجت ہےاور دوسری باطنی حجت۔ظاہری حجت انبیاء ورسل اور ائمہ اطہارعلیہم السلام ہیں جبکہ باطنی حجت عقول ہیں ۔
مکتب اہل بیت علیہم السلام میں عقل اور وحی ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کیونکہ ایک طرف سے انبیائےالہی وحی الہی کے ذریعے انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں تودوسری طرف سے انسانی عقل حجت الہی کی تائید کرتی ہے  ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : بعثت انبیاءکا  ایک فلسفہ یہ ہے کہ انبیاء انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں۔ اس کےبعد آپ ؑفرماتےہیں :{ولیثیروا  لہم دفائن العقول}۱۶وہ عقل کے دفینوں کوابھارتے ہیں۔اسی طرح امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان الله تبارک وتعالی،اکمل للناس الحجج بالعقول}۱۷خداو ند متعال نے عقول کے ذریعے اپنی حجت کو انسانوں پر تمام کیا ہے۔
شیعہ علماءاور تفکر عقلی :
شیعہ علماء قرآن و سنت سے الہام لیتےہوئے معرفت دینی میں عقل کے لئے خاص مقام کے قائل ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف شیعہ متکلمین حسن و قبح عقلی کی حمایت کرتے ہوئے عدل الہی کو اسی کے ذریعہ ثابت کرتےہیں تودوسری طرف سےفقہائےامامیہ احکام شرعیہ کے استنباط میں عقل کو قرآن و سنت کے برابر قراردیتے ہوئے قاعدہ تلازم کو ثابت کرتےہیں۔یعنی ان کے مطابق حکم عقل اور حکم شرع کے درمیان تلازم ہے کیونکہ قرآن و سنت کو سمجھنے میں عقل وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے نیز قرائن عقلی مفسرین اور مجتہدین کے لئے {قرآن کی تفسیر اور احکام الہی کے استنباط میں}رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ رہناچاہیے کہ انسانوں کے لئے جوچیز وحی کی طرح حجت الہی شمار ہوتی ہے وہ مستقلات عقلیہ اور ملازمات عقلیہ ہیں  نہ کہ وہ ظنون جو قیاس واستحسان پر مشتمل ہو ں۔اسی وجہ سے مکتب اہل بیت علیہم السلام اور فقہ امامیہ میں شرعی احکام کے استنباط میں عقل کو ایک محکم وپایدار راستےکی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ قیاس و استحسان {جوظن و گمان پر مشتمل ہوتےہیں}کی پیروی ان کے ہاں سخت ممنوع ہیں ۔
امام جعفرصادق علیہ السلا م نے ابان ابن تغلب سے مخاطب ہو کر فرمایا :{ان السنۃ لا تقاس ، الا تری ان المراۃتقضی صومہا و لا تقضی صلاتہا یا أبان ان السنۃ اذا قیست محق الدین}۱۸سنت {شریعت الہی}میں قیاس {تشبیہ وتمثیل}کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔{یہ حجت نہیں}اسی لئے ماہانہ عادت کی وجہ سےاگرعورت روزہ نہ رکھے اورنماز نہ پڑھے تو اس پر روزے کی قضا واجب ہے لیکن نماز کی قضا واجب نہیں{حالانکہ اسلام میں نماز کی اہمیت روزے سے زیادہ ہے۔ }اے ابان: سنت کوقیاس سے ثابت کیاجائے تو دین  الہی برباد اور نابود
ہوجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ عقل کا دین شناسی اور معرفت دینی میں بہت زیادہ کردار ہے ۔جن میں سےبعض یہ ہیں:
1۔ عقل دین کی بنیادی باتوں کو ثابت کرتی ہے جیسے وجود خدا ، بعض صفات الہی اورضرورت دین وغیرہ ۔
2۔عقل، وحی کی طرح بعض احکام شرعیہ کا استنباط کرتی ہے اور استنباط احکام کا ایک منبع شمار ہوتی ہے ۔
3۔عقل قرآن و سنت کو سمجھانے میں چراغ کا کام کرتی ہے  اور خود ان میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتی۔
4۔عقل محدود پیمانے پرفلسفہ احکام دین کو بیان کرتی ہے لیکن عبادات میں عقل کا کردار بہت ہی کم ہے۔ معرفت علمی اورتفکر عقلی کے ذریعے فلسفہ یا حکمت احکام الہی کے بارے میں جوکچھ کہاجا سکتا ہےانہیں اکثر اوقات احکام الہی کی علت اصلی کے طور پر اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ لہذا کسی موضوع کے حکم کو دوسرے مشابہ موضوعات کے لئے بھی قیاس کے ذریعے ثابت کرنابہت مشکل او ردشوار ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔آل عمران ،190 – 191۔
۲۔انفال ،22۔
۳۔یونس،100۔
۴۔انبیاء،22 ۔
۵۔مومنون،115۔
۶۔یونس،35۔
۷۔بقرۃ ،111 ۔
۸۔انعام ،ص 116۔
۹۔بقرۃ،170۔
۱۰۔نحل ،125 ۔
۱۱۔وحید صدوق ،ص310،فصل 44،حدیث 1۔
۱۲۔توحید صدوق ،ص397،باب 61۔
۱۳۔کشف المراد،تیسرا حصہ،تیسری فصل۔
۱۴۔نہج البلاغۃ،خطبہ 49۔
۱۵۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۶۔نہج البلاغہ،خطبہ ،1۔
۱۷۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۸۔وسائل الشیعۃ ،ج18،ص25۔

تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (آرٹیکل) حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کےبارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں اس عظیم شخصیت کےبارے میں گفتگو کرنےکے لئے صاحب عصمت اور عالی بصیرت کا حامل ہونا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر آپؑ کے وجود کو کوئی درک نہیں کر سکتا ۔آپ کے فضائل اور مناقب خدا وندمتعال،  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماورائمہ معصومین علیہم السلام ہی بیان کر سکتے ہیں  ۔
 کتاب فضل تراآب بحر کافی نیست
         کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم

سمندرسیاہی، درخت قلم اور جن و انس لکھنے والے بن جائے تب بھی آپ ؑ کے فضائل بیان نہیں کر سکتے۔ علامہ اقبال انہیں افراد میں سے تھے جنہیں خدا نےعالی بصیرت عطا کی انہوں نے حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی شان میں ایک نظم کہہ کر  اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے یہاں ہم اسی نظم کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
آپؑ کی والدہ ملیکۃ العرب تھی لیکن آپؑ نے کبھی آرام کی زندگی پسند نہیں کیا ۔آپ ؑہمیشہ اپنےکردار کو نمونہ عمل بنا کر رکھا۔والد مختار کائنات تھے لیکن کبھی آپ ؑنے اس رشتے سے فائدہ نہیں اٹھایا اور تمام زندگی ہر طرح کی مصیبت و زحمت  برداشت کرتی رہی۔شوہر مشکل کشاء تھے لیکن آپؑ نے تمام زندگی کسی طرح کی فرمائش نہیں کی اور ہمیشہ شوہر کی خدمت کرنے کے بعد وقت آخر معذرت طلب کی کہ اگر کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو معاف کر دے۔ آپؑ کے فرزند جنت کے جوانوں کےسردار تھے ۔آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں جنہیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا ۔آپؑ وہ ممدوحہ ہیں جس کی مدح سورۃ کوثر ،آیت تطہیر اور سورۃ دہر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔آپؑ  وہ عبادت گزار ہیں جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا ۔آپؑ وہ  صاحب سخاوت ہیں جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نہیں جانے دیا ۔آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رہا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سےبھی پردہ فرمایا۔آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟تواس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بہتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی  کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔{خیر لهن ان لا یرین الرجال و لا یرو نهن}

رسول خداﷺ آپ ؑکے بارے میں فرماتے ہیں :{ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک} بےشک خدا آپ کے غضبناک ہونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سےخوش ہوتا ہے ۔انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ہو جائے۔اگر عصمت کبری یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پہنچ جائے کہ مطلقا خدا کی رضا پر راضی ہو اور غضب الہی پر غضبناک ہو تو فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقا آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو کامل ترینانسانوں کے لئے باعث حیرت ہے ۔ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کےانوار کا سر چشمہ ہے ،وہ کتاب ہدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں ۔

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں جو نسل اسماعیل میں اول امام کی شریک حیات اور گیارہ ائمہ کی ماں ہیں ۔جن کے متعلق توریت کے سفر تکوین کے سترہوں باب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اطلاع دی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاوہ ہیں جو یوحنا کے مکاشفات میں ایک عظیم علامت کے طور پر آسمان پر ظاہر ہوئیں ۔آپؑ لیلۃ مبارکۃ کی تاویل ہیں ۔آپ ؑشب قدر ہیں ۔ آپ ؑنسائنا کی تنہا مصداق ہیں۔آپ ؑ زمانے میں تنہا خاتون ہیں جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباہلہ کے دن خاتم النبین کے ہم رتبہ قرار دیا ۔آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں جن کے سر پر{انما نطعمکم لوجه الله} کا تاج مزین ہے ۔وہ ایسا گوہر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:{ لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم.. } اور اس گوہر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا:{انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر}بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔

حضرت فاطمہ زہراءعلیہا السلامعلامہ اقبال کے کلام میں:
 علامہ اقبال نے حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامکو بطور اسوہ پیش کیاہے یہ  اقبال کی بصیرت کی علامت ہے یعنی اقبال کی نظر میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکی شخصیت بشریت کے لئے اسوہ ہے۔خداوند تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو واسطہ فیض قراردیا ہے اور تمام فیوضاتِ ظاہری اور معنوی اُنہی ہستیوں کے ذریعےمخلوق تک پہنچ جاتےہیں کیونکہ یہ وسائطِ فیضِ خدا ہیں انکی ذات سے مخلوق تک جو فیض پہنچتے ہیں ان میں سے ہدایت، معرفت اور علم ہےجو مقصدِ بعثت اور مقصدِ خلقتِ معصومین ہے۔ قرآن مجید میں رسول اللہ  ﷺکو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بطورِ اسوہ پیش کیا ہے{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ الله اُسْوَة حَسَنَة حضرتابراہیم اور دوسرے انبیاءعلیہم السلام کو بھی  خداٰ نے بعنوانِ اسوہ پیش کیا۔علامہ اقبال نے بھی حضرت زہراسلام اللہ علیہاکو پوری انسانیت مخصوصا خواتین کے لئےایک بہترین نمونہ عمل کے طور پیش کیا ۔علامہ اقبال سے پہلے ائمہ معصومین علیہم السلام نے انسانوں کی ہدایت  کے لئے  پہلے ہی فرمایا تھا چنانچہ امام زمان عجل اللہ تعالی الشریف فرماتے ہیں :{في إبنَةِ رسُولِ اللهِ (ص) لِي أسوَهٌ حَسَنَهٌ} بے شک رسول خداﷺکی بیٹی میرے لئے نمونہ عمل ہے۔

اقبال کی نظر میں بھی پنجتن پاک کا گھرانہ مقدس و مطہر ہےاس لئےاس گھر کی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں ۔علامہ اقبال پر خدانے یہ لطف کیا ہے کہ اُنہیں غیر معمولی بصیرت عطا کی ہے یہبصیرتیں خدا نے سب کیلئے رکھی ہوئی ہیں لیکن خدا اُن کو دیتاہے جو اس کےقدردان ہوں، جو اپنی ابتدائی بصیرت کو دُنیاکے چھوٹے اُمور میں صرف کردیں تو خدا  عالی بصیرت ان کو نہیں دیتا لیکن جو اپنے اندر اسگوہر کے قدردان ہوتے ہیں، خدا اُنہیں بصیرتِ عظیم عطا کرتاہے۔تاریخ بشریت میں انگشت شمار لوگ ہیں جو بصیرتِ برتر کے مالک ہیں۔ علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کی بارگاہ میں عقیدت کااظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
مریم از یک نسبتِ عیسیٰ  عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا  عزیز

جنابِ مریمؑ بہت باعظمت اورپاکیزہ خاتون ہیں۔علامہ اقبال کی نظر میںحضرت مریمسلام اللہ علیہا اسوۂ ہے، خدا نے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو بعنوانِ اسوہ متعارفکروایا ہے۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نےقصہ مریم بتانا شروع کردیا کہ مریم پیدا کیسے ہوئی، دُنیا میں کیسے آئی؟انسانیت کے درجات ہیں اگرایک شخصیت اعلیٰ درجےفائز ہو تو اس کے معانی یہ نہیں ہیں کہ چھوٹے یا نچلے درجے پر جو ہے وہ ناقص ہو۔ حضرت مریم سلام اللہ علیہا  اسوۂ کاملہ ہیں۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکا اسوہ ہونا حضرت مریم سلام اللہ علیہا سے برتر ہونے کی وجہ سے ہےنہ یہ کہ حضرت مریم  سلام اللہ علیہامیں کوئی نقص ہے،بلکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہامیں فراوان کمالات ہیں، لہٰذا پہلے اقبال اسے بطور اسوۃ  پیشکرتا ہےجسےقرآن نے پیش کیا ہے۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکی عظمت اور مقام بیان کرنے کیلئے اقبال نے ایک مسلم قرآنیوالٰہی اسوہ پہلے چنا ہے اور ان کو پیش کرکے کہا کہ مریم  کے بارے میں کسیکو شک وشبہ نہیں ہے کہ اسوہ ہےکیونکہ جناب مریمسلام اللہ علیہا  وہ ہستی ہیں جن کی عصمت پر قرآنمیں اور آسمانی کتابوں میں گواہی دی گئی ہے۔ حضرتزکریا علیہ السلامجن کو خدا نے حضرت مریم سلام اللہ علیہاکا کفیل بنایا۔  جناب مریم سلام اللہ علیہا نوجوانی میں اس قدر پاکیزہ اور باکمال ہیں کہ حضرت زکریا علیہ السلام مریم  سےمتاثر ہیں اور مریم  سے الہام لیتے ہیں،رسول خداجناب مریم  سلام اللہ علیہاسے الہام لیتے ہیں۔قرآنکا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں داخل ہوئے اگرچہ کفیلاور ذمہ دار تھے، دیکھتے ہیں کہحضرت مریم سلام اللہ علیہاکے پاس بہت ساری چیزیں موجود ہے۔حضرت زکریاعلیہ السلامحضرت مریمسلام اللہ علیہاسے سوالکرتا ہےکہ یہ سب کہاں سے آیاہے؟ حضرت مریم سلام اللہ علیہا   نے فرمایا کہ یہ سب خدا کی طرف سےآیا ہےخدا جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔

{كلُّمَادَخَلَعَلَيْهَازَكَرِيَّاالْمِحْرَابَوَجَدَعِندَهَارِزْقًاقَالَيَامَرْيَمُأَنىَ‏لَكِهَاذَاقَالَتْهُوَمِنْعِندِاللَّهِإِنَّاللَّهَيَرْزُقُمَنيَشَاءُبِغَيرْحِسَاب} جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں جاتے تو اس کے پاس طعام موجود پاتے ،پوچھا:اے مریم!یہ {کھانا}تمہارے پاس کہاں سےآتا ہے؟ وہ کہتی ہے : اللہ کے ہاں سے، بے شک خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے ۔

پس مریم  ایک اسوۂ کاملہ ہیں لیکن حضرتزہرا ء  برتر اسوہ ہیں یعنی مقاماتِ حضرت زہراء سلام اللہ علیہامقاماتِ حضرت مریمسلام اللہ علیہا  سےبرتر ہیں۔جناب مریم اپنے زمانے کے عورتوں کی سردار تھیں لیکن حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   تمام عورتوں کی سردار ہیں ۔ رسول خدا فرماتے ہیں :{ کانت مریم سیدة نساء زمانها اما ابنتی فاطمه فهی سیدة نساء العالمین من الاولین و الاخرین} جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے اور آپؐ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا ۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ حسنین بھی بھوکےہیں۔رسول خدا واپس چلے گئےاتنے میں ایک عورت نے دو روٹی اور ایک گوشت کا ٹکڑا جناب حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی خدمت میں لے کر آیا۔آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺکو کھانےپردعوت دی درحالیکہ حسنین علیہم السلام اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔آپ ؑنے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺکے سامنے رکھ دیا ۔رسول خداﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹی سے بھرے ہوئے تھے۔پیغمبر اکرم ﷺنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سےسوال کیا بیٹی اسے کہاں سے لائے ہو ؟آپؑ نے فرمایا:{هو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب} یہ اللہ کی طرف سےہے اور خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔رسول خدا نے فرمایا:{الحمد لله الذی جعلک شبیهة سیدة نساء بنی اسرائیل}تمام تعرفین اللہ کے لئے جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا ۔حضرت زہراءسلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ہمسائیوں نےبھی تناول کیا اورخدا نے اس میں برکت عطا کی ۔  

 خداوند متعال حدیث قدسی میں پیغمبر اکرمﷺ اور امام علی علیہ السلام  کے وجود مبارک کو جناب فاطمہ زہراء علیہا السلامکے وجود  کی مرہون منت قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :{ لولاک لما خلقت الافلاک ولو لا علی لما خلقتک و لو لا فاطمه لما خلقتکما} اےرسول آپ کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا اور  علی کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو آپ کو خلق نہ کرتا اور فاطمہ کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتاتو آپ دونوں کو خلق نہ کرتا۔جب فرشتوں نے کساء کے اندر موجود افراد کے بارے میں سوال کیا تو خالق کائنات نے جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام کو مرکزیت قرار دیتے ہوئے آپ کے ذریعے تعارف کرایا:{هم فاطمة وأبوها و بعلها وبنوها} جناب فاطمہ زہراء علیہا السلامکائنات کی واحد شخیتا ہے جس کاوجود جنت کے پھل کے ذریعے تیار ہوا اسی لئے رسول خداﷺ بار بار آپ کو بوسہ دیتے اور جنت کے پھل  کی خوشبو آپ سے سونگھتے۔ رسول خدا ﷺ فرماتےہیں:{فاذا اشتقت لتلک الثمار قبلت فاطمة فاصبت من رائحتهاجمیع تلک الثمار التی اکلتها} جناب مریم علیہا السلام کے بارے میں ایسا ذکر  نہیں ہواہے لیکن جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام   کی ولادت کے بارے میں فرماتے ہیں :{فولدت فاطمة{ع}فوقعت علی الارض ساجدة}  جناب فاطمہ زہراء علیہا السلام ولادت کے وقت ہی خداکے حضورسجدہ ریز ہوئیں۔

علامہ اقبال نے حضرت مریم   سلام اللہ علیہاکی ایک نسبت جبکہ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کے لئے تین نسبتیں بیان فرمائی ہیں۔ علماء جب فضائل کو تقسیم کرتے ہیں توفضائل کی کئی قسمیں بیان کرتے ہیں، ایک فضائل نفسی اور دوسری فضائلنسبی ۔ فضائل نفسی وہ سے مراد وہ فضائل ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجودہوتاہے۔فضائل نسبی وہ صفات ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اسکے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلاماور حضرت مریمسلام اللہ علیہا  میں دونوں طرح کیصفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں یہ بھی حقیقی فضائل ہیں اور وہ فضائل بھیپائے جاتے ہیں جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔جناب مریم سلام اللہ علیہاکو اگر ایک  حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے نسبت دے کر دیکھیں تو مریم  بہت باعظمت ہے۔ اسلئے کہ نبی خدا کی ماں ہونا ایک صفت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ منسوب کرنےسے حضرت مریم سلام اللہ علیہا  میں آئی ہے۔ درحقیقت  حضرت مریمسلام اللہ علیہا جناب  عیسیٰ علیہ السلام  کی ماں بنے کی وجہ  سے باکمال خاتون نہیں بنی بلکہ پہلے مریم   میں کمالات رکھےتاکہ جناب عیسیٰ کی ماں بننے کے قابل ہوجائے، پہلے کمالاتِ نفسی اورکمالاتِ ذاتیمریم  میں آئے، ان کمالات کے نتیجے میں نسبی کمالات پیدا ہوئے، یعنی ہرخاتون عیسیٰ  کی ماں بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی حضرت مریمسلام اللہ علیہا  کے اندر موجود کمالاتِ نفسیہ نے حضرتمریم   کو اس قابل بنایا کہ وہ عیسیٰ  کی ماں بنے۔جناب حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامکی عظمت کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت والدِ گرامی، دوسری جانب بحیثیت ماں ملیکتہ العرب حضرت خدیجتہ الکبریٰ تیسری اور چوتھی جانب مولائے کائنات علی مرتضیٰ بحیثیت شوہر اور سردارانِ جنت بحیثیت اولادتھے۔علامہ اقبال نے جناب سیدہ کی ان نسبتوں کا ذکر کرکے یہ ثابت کر دکھایاکہ آپ کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع بیٹی، بہترین زوجہ اور عظیم ترین ماں ہیں۔ وہ ماں جس کی آغوش میں ایسے فرزند پروان چڑھے جو سرمایۂ دین اور حاصلِ پیغمبراسلام تھے۔
نورِ چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین وآخرین

حضرت زہراء سلام اللہ علیہارسول خداؐ کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں، نورِ چشم ِ رسول اللہؐ ہیں.یہ بہت خوبصورت تعبیر ہےکہ آپؐنے فرمایا:{فاطمة بضعة منی و هی نور عینی و ثمرة فوادی و روحی التی بین جنبی و هی الحورا ء الانسیة} فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے ، میری آنکحوں کی ٹھنڈک ہے اور میری روح کا حصہ ہے ،وہ انسانی شکل میں ایک فرشتہ ہے۔رسول اللہﷺکا نفس کوئی احساساتی نفس نہیں ہے بلکہ آپؐ انسانِ کامل ہیں یعنی وہ ذات جس پر احساسات غلبہ نہیں کرتے۔ رسول خدا جب بیٹی کو دیکھتاہے تو آنکھوں میں ٹھنڈک آجاتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ احساساتِ پدرانہ نہیں ہیں۔
آنکہ جان درپیکر گیتی دمید
روزگارِ تازہ آئین فرید

وہ رسول اللہﷺؐجس نے اس جہان کے اندر ایک تازہ روح پھونک دی، مردہ عالم کے اندرآکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔
بانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰ
مرتضیٰ  مشکل کشاء  شیرِ خدا

دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہرا   اس تاجدار کی زوجہ ہے جس کے سر پر تاجِ ہل أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے۔ہمسری یعنی ہم پلہ ہونا،ہم پلہ ہونے سے مراد صرف جسمانیت نہیں ہے بلکہ ہم پلہ یعنی کمالات اور فضائل جو امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات میں ہیں ان کا ایک نمونہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہامیں ہونا ضروری ہے ورنہ ہم پلہ، ہمسر اور کفو نہیں بن سکتے۔
پادشاہ و کلبہ ایوان او
یک حسام ویک زرہ سامان او

استاجدار کا قصرِ بادشاہی ایک کلبہ اور جھونپڑا ہےاور تمام سامانِ زندگیایک شمشیر اور ایک زرہ ہے۔ علامہ اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فضیلتِ انسانی ان اُمور سے حاصل نہیں ہوتی ۔ایکمصنف کاجملہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین شخصیات مادّی دُنیا کے لحاظ سے غریب ترین گھر یعنی جھونپڑے میں پیدا ہوئے اور آج دُنیا کی عظیم ترین عمارتوں کے اندر گھٹیا ترین لوگ پیدا ہورہے ہیں۔
مادرِآن مرکزِ پرکارِ عشق
مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق

 جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہاپرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہے، عشق کا مرکز  امام حسین علیہ السلامہیں اور  امام حسین کی ماں حضرت زہراء سلام اللہ علیہاہیں یعنی اس کاروانِ عشق کے سالار کی ماں ہے۔ کربلامیدانِ عشق ہے، حسین ـ امامِ عشق ہے بہت چیدہ چیدہ اور انگشت شمار لوگوں کوہی کربلا اور امام حسین علیہ السلام سمجھ میں آیا ہے۔
علامہ اقبال ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
         حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق
           یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب

 علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتےہوئے  کہتےہیں :
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم

ایک بیٹا مرکزِ پرکارِ عشق اور سالارِ کاروانِ عشق ہے اور دوسرا شمعِ شبستانِ حرم ہے۔اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ہوتی ہے۔
تانشیند آتشِ پیکارو کین
پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین

امام حسن مجتبی علیہ السلام  نے تاج ونگین اور اقتدارکو ٹھکرادیاتاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہ باقی رہے۔
آن دگر مولائے ابرارِ جہان
قوتِ بازوئے احرارِ جہان

تمامعالم کے ابراروں کے مولا سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، ان سب کے حوصلہ، جوش، ولولہ کے اندر جس زور اور توانائی آجاتی ہے اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے جس کے ذکر سے ان کے اندر قوت آتی ہے وہ بھی جناب فاطمہسلام اللہ علیہا  کا بیٹا ہے۔ ابرارِ جہاں اور احرارِ جہاں حسین علیہ السلامکی ذات ہے، جتنے بھی دُنیا میں حریت پسند ہیں انہوں نےحریت کا سبق حسین  سے سیکھا ہےاسی لئے شاعرکہتاہے :
انسان کو بیدار توہو لینے دو
             ہرقوم پکاری گی ہمارےہیں حسین

علامہ اقبال امام حسین علیہ السلام کے بارےمیں مزید فرماتے ہیں:
در نوائے زندگی سوز از حسین
اہلِ حق حریت آموز از حسین

آغوشِ فاطمہ کے دوسرے پروردہ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنی ماں کی تربیت کا مظاہرہ میدان کربلا میں کیا۔ دلبندِ زہراء امام حسین علیہ السلامنے میدانِ کربلا میں جو تین دن انتہائی گرسنگی اور تشنگی کے عالم میں گزارے۔ اس کی مشق حضرت زہراء سلام اللہ علیہانے انہیں بچپن میں کروائی تھی۔ جس ہستی نے بچپن ہی میں ایک سائل کی خاطر بارہا بھوک برداشت کی ہو اس کے لیے یہ امر کافی آسان ہے کہ اسلام کی بقاء کی خاطر مع اہل و عیال اور احباب و اصحاب مصائب و آلام کا پہاڑ دوش صبر پر اٹھائے۔
این حسین کیست که عالم همه دیوانه ی اوست
این چه شمعی است که جانها همه پروانه ی اوست

علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہاکو بطور ماں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سیرتِ فرزندھا از اُمّھات
جوہرِ صدق وصفا از اُمّھات

ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’کسی قوم کی تہذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے۔  اگر عورت ذلیل ہے تو سمجھ لیجئے کہ قوم بھی ذلیل اور تہذیب سے عاری ہے۔ مائیں جس قدر بالغ نظر، پاکدامن اور تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گیں اُسی قدر قوم میں دور اندیش، صالح خصلت اور صاحبِ فراست افراد پیدا ہوں گے۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوۂ کامل بتول

 عظیم ماؤں سے محروم قوم عظیم فرزندوں سے بھی تہی دست ہوتی ہیں۔ نتیجتاً یہ قومیں زوال آمادہ ہو جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ فنا کے گھاٹ اترتی جاتیں ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہاماوٴں کیلئے اسوۂ کاملہ ہیں، مائیں اتنی پاکیزہ ہوں، ان کا وجود اتنا آمادہ ہو تاکہ اس جیسا پھل ماوٴں کے شجرۂ وجود پر لگے۔
برن محتاجی دلش آن گونہ سوخت
بہ یہودی چادرِ خود را فروخت

ایک ضرورت مند کی خاطر اتنا حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہاکا دل جلتا ہےکہ اپنی شادی کے لباس کو بھی بخش دیتی ہے۔اسی طرح ایک سائل کی مشکل کوحل کرنے کی خاطرحضرت زہراءسلام اللہ علیہانے اپنی چادر حضرت سلمانکو یہ کہہ کر دے دیاسے گروی رکھ کر سائل کی شکم سیری کا اہتمام کر دو۔
نوری وہم آتشی فرمانبرش
گم رضائش دررضائش شوہراش

 حضرت فاطمہسلام اللہ علیہا  کی رِضا اپنے شوہر کی رِضا میں فانی ہے،حضرت علیعلیہ السلام کی بات کے آگے ان کی کوئی بات نہیں ہے، حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلاماس چیز پر راضی ہیں جس پر  حضرت علیعلیہ السلامراضی ہو۔
آن ادب پروردۂ صبر ورضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا

حضرت زہراء سلام اللہ علیہاادب پروردۂ رسول خداﷺہیں یعنی رسول اللہﷺنے آپ  کی تربیت کی اور صبر ورِضا کے ادب سے مؤدب کیا، اس لئے تو آپ  مقامِ رِضا پر فائز تھیں۔ اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی تھیںیہ باعظمت بی بی اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہے اور چکی کےدوران زبان پر شکوہ بھی نہیں ہے کہ چکیاں چلا چلا کر ہاتھوں پہ چھالے پڑ گئے ہیں بلکہ چکی چلاتی ہے اور ہمیشہ زبان پر قرآن کا ورد ہے۔

ابو نعیم اصفہانی نقل کرتے ہیں :{لقد طحنت فاطمة بنت رسول الله حتی مجلت یدها ،وربا،و اثر قطب الرحی فی یدها} آپ ؑفرماتی ہیں :{حبب الی من دنیاکم ثلاث: تلاوة کتاب الله و النظر فی وجه رسول و الانفاق فی سبیل الله} تمہاری دنیا میں میری پسندیدہ چیزیں تین ہیں :

1- تلاوت قرآن
2- رسول خدا (ص) کیے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا
3- خدا کی راہ میں انفاق و خیرات کرنا.

حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اپنے گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں، اس وقت گھر کا سخت ترین کام چکی چلانا ہوتا تھا، لوگ غلاموں سے چکی چلواتے تھے اور تاجدارِ ھل اتیٰ کے گھر میں ملکہ قصر حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامخود چکی چلارہی ہیں اور ساتھ قرآن پڑھ رہی ہیں ۔
گریہ ہائے او زبالین بے نیاز
گوہر افشاندی بہ دامانِ نماز

حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام نماز میں روتی تھیں.عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا سیدۂ کونین شب و روز اس قدر عبادتِ الہٰی میں مشغول رہتیں کہ کہ والدِگرامی کی مانند آپکے پائے مبارک متوّرم ہو جاتے۔امام خمینی ؒ فرماتے ہیں: میں نے حضرت مریمؑ  کے بارے میں نہیں دیکھا کہ آپؑ کے پائے مبارک عبادت الہی میں مشغول رہنے کی وجہ سے متورم ہو گئے ہوں لیکن حضرت زہراءسلام اللہ علیہا  کے قدم مبارک  کثرت عبادت الہی کی وجہ سے متورم ہو جاتے تھے۔ عبادت میں ہمشہء دوسروں کو دعا کرتے یہاں تک کہ حسنینعلیہم السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا: {الجار ثم الدار} پہلے ہمسایےاس کے بعد گھر والے۔
اشک او پرچید جبرئیل  از زمیں
ہمچو شبنم ریخت برعرشِ بریں

جبرئیل امین آسمان سے زمین پر آتے تھے اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا     کے آنسو اکٹھے کرتے اور عرشِ بریں پر جاکر ان کو شبنم کی طرح بکھیرتے تھے لہٰذا  علامہ اقبالکے نزدیک عرشِ بریں کا معطر ہونا حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  کے آنسووٴں سے تھا۔عرشِ بریں جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے آنسووٴں سے معطر اور منور ہے۔امام خمینی ؒ فرماتے ہیں : حضرت زہراءعلیہا السلام کی  سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد جبرئیل امین آپ ؑکے پاس تشریف لاتے اور آپؑ کو تسلیت پیش کرتے اور آئند رونما ہونے والے واقعات سے آپ کو آگاہ کرتے۔

آخر میں علامہ اقبال کی اس والہانہ عقیدت کا اندازہ ذیل کے دو اشعار کے ذریعے کر سکتا ہے:
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جنابِ مصطفےٰ  است
ورنہ گرد تربتش گر دید مے
سجدہ ھا بر خاک او پاشید مے

آئینِ حق میرے پاوٴں کی زنجیر بنا ہوا ہے اور مجھے اسلام اجازت نہیں دیتا اوراسی طرح جنابِ رسول خداﷺکے فرمان کا مجھے پاس ہے اور فرمانِ مصطفےٰ ﷺاگر مانع نہ ہوتا تو میں ساری عمر آپؑ کی قبر کے گرد طواف کرتا اور میراایک ہی کام ہوتا کہ میں تربتِ پاکِ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلامپر فقط سجدہ کرتا۔
کاش علامہ اقبالاپنے  اس خوبصورت اشعار میں نام نہاد مسلمانوں  کے   اس کردارکی  بھی عکاسی کرتا جو انہوں  نے بعد از رحلت رسول خدا ﷺ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   کے ساتھ انجام دئے۔ ان مشکلات اور مصیبتوں کا تذکرہ  جناب حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا  اپنے اشعار میں  یوں بیان کرتی ہیں :
ما ذا علی من شم تربة احمد                   الا یشم مدی الزمان غوالیا
صبت علی مصائب لو انها                 صبت علی ایام صرن لیالیا

 اے بابا!آپ کے بعدمجھ پر اتنے ستم ڈھائے گئےکہ اگر  یہ روشن دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتوں میں بدل جاتے۔
آیۃ اللہ اصفہانی کمپانی کے چند اشعار کے ذریعے اس مقالہ کو ختم کرناچاہتا ہوں تاکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  پر ڈھائی گئی مصیبت کا کچھ اندازہ ہو۔
   ماأجهل القوم فان النار                       لا تطفی نور الله جل و علا

 یہ لوگ کس قدر جاہل اور ناداں تھے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ نور خدا  کوآتش کے ذریعے خاموش نہیں کر سکتے۔
الباب و الدماء و الجدار  شهود صدق ما بها خفاء

دروازہ ،خون اور دیوار یہ سب گواہ ہیں ان چیزوں پر جسے دنیاچھپانا چاہتے ہیں۔
و لست أدری خبر المسمار                  سل صدرها خزانة الاسرار
دروازے میں موجود کیل کا مجھے کوئی علم نہیں  اگر جاننا چاہتے ہو تو جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا   کے سینہ اطہر سے پوچھ لو جو اسرار الہی کا خزانہ ہے ۔
خداوند و متعال ہمیں  مقام حضرت زہراء سلام اللہ علیہا  کو سمجھنے اور انہیں  اپنی زندگی میںاسوہ قرار دینے کیتوفیقدے۔
{السّلام علیک أیّتها الصدّیقة الشهیدة الممنوعة إرثُها، المکسور ضلعها، المظلومبعلها، المقتولِ وَلَدُها}


تحریر ۔۔۔ محمد لطیف مطہری کچوروی

Page 9 of 9

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree