وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف پوری قوم متحد ہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوجائے، دہشتگردی پوری امت کیخلاف فتنہ ہے، پھانسی کے منتظر تمام دہشتگردوں کو بلاتاخیر تختہ دار پر لٹکایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرمی پبلک اسکول کے دورہ کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، ان کا کہنا تھا کہ آرمی پبلک سکول کے بچوں کا قتل عام سفاکی اور بربریت کی انتہاء ہے، اس واقعہ نے ہر درد دل رکھنے والے شخص کو خون کے آنسو رلا دیا ہے، اس واقعہ کا درد پوری پاکستانی قوم نے محسوس کیا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم یکسوئی کیساتھ متحد ہوکر دہشتگردی کیخلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوجائے، اور ایک ہی ہدف ہو کہ ہم نے اپنے ملک اور اسلام کو دہشتگردوں سے بچانا ہے، مذہبی شخصیات کو معاشرے میں قیام امن کیلئے اپنا مثبت کردار اد اکرنا ہوگا، ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انسانیت، اسلام اور پاکستان کے دشمن دہشتگردوں کو سرعام پھانسی دی جائے، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کسی خاص مجرم کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے باقی سزایافتہ مجرموں کو پھانسی نہ دی جائے، دہشتگردی پوری امت کیخلاف فتنہ ہے، اس فتنہ کیخلاف جو جتنی تاخیر سے اٹھے گا اسے اتنی ہی زیادہ قربانی دینا پڑے گی۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بغیر کسی مسلکی تفریق کہ اب تمام مساجد، عبادت گاہوں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے یہ پیغام عام کرنا ہوگا کہ ہمیں اپنی سرزمین کو ان شدت پسندوں سے بچانا ہے، شدت پسندی نے اگر اسلام کا لباس پہنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ مسلمان ہیں،بلکہ وہ اسلام کے حقیقی دشمن ہیں، دہشتگردوں نے سانحہ پشاور کے ذریعے اسلام کے چہرے کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ہمیں بھائی چارے، اخوت اور امن کا درس دیتا ہے، اور ان دہشتگردوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درد دیتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت ملکی جیلوں میں ایک ہزار سے زائد دہشتگرد پھانسی کے منتظر ہیں، فوری طور پر ان تمام دہشتگردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے، اس کے علاوہ جو بھی عالم دین فرقہ وارانہ فضاء بنانے اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرے اس پر بھی آہنی ہاتھ ڈالا جائے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے دہشت گردوں کو پھانسی دینے کی عمل کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک سزا و جزا کے قانون کو فعال نہیں کرتے دہشت گردوں پر قابو پانا ممکن نہیں انہوں نے فیصل آباد میں دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے عمل کو عین شرعی قرار دیتے ہوئے اسے انصاف کی راہ میں پہلا قدم قرار دیا اور حکمرانوں سے امید ظاہر کی کہ وہ ان سفاک دہشت گردوں کا آخری حد تک پیچھا کریں گے ، انہوں نے مذید کہاکہ دہشت گردوں کو سر عام پھانسی دی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، جب تک پوری قوم سزا کے ایسے مناظر براہِ راست نہیں دیکھتی ملک سے قتل و غارت گری کے واقعات میں کمی نہیں آئے گی، جن ممالک میں سر عام پھانسی دینے کا قانون موجود ہے ان ممالک میں جرائم کی شرح انتہائی معمولی ہے، ہم اعلیٰ عدالتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سفاک دہشت گردوں کو سر عام پھانسی دینے کیلئے جلد قانون سازی کی جائے،علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے دہشت گردوں کیخلاف آپریشن ضرب عضب کو ملک بھر میں پھیلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ناسور سے نجات کے لئے ان سفاک قاتلوں کی نرسریاں ختم کی جائیں جہاں ان کو مذہب کی آڑ میں تکفیریت اور درندگی کا درس دیا جاتا ہے انہوں نے کہا قوم اپنی سکیورٹی فورسسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور انشااللہ یہ ملک دشمن اور اسلام دشمن گروہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر رہیں گے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) سانحہ پشاور پر ہر پاکستانی شہری غم و غصہ کی کیفیت میں ہے اور مختلف شخصیات کے مذمتی بیانات آ رہے ہیں ۔ ان شہداء کے خون نے پاکستانی ملت کے لئے راستے کا تعین کرنا آسان کر دیا ہے اب بھی اگر کوئی ان دہشتگردوں کے نرم گوشہ رکھتا ہے تو شائد وہ طالبانی سوچ کو پروان چڑھانا چاہتاہے۔ اور پھر شائد ہم اور لاشیں گرتی ہوئی دیکھیں گے اور معصوم قتل ہوتےہوئے دیکھیں گے۔ آئے روز اسی نوعیت کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ الحمدللہ معصوم ننھے شہداء کے خون کے اثر سے آج تمام سیاسی جاعتیں اور عسکری ادارے اکٹھے ہو گئے اور دہشتگردوں کے خلاف اقدامات کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئین صورتحال ہے۔ لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ اپنی دفاعی پالیسی کس طرح کی مرتب کرنا ہوگی۔ اور ہمیں کن کن محاذوں پر ان دہشتگردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کی سالمیت اور تشخص کو مزید نقصان نہ ہو۔اس وقت ہمیں تین محاذوں پر پاکستان کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے جو کہ حسب ذیل ہیں۔

 

(1)۔ عسکری محاذ

(2) نظریاتی محاذ

(3) سیاسی محاذ

 

1- عسكری محاذ : الحمد للہ پاکستان آرمی عسکر ی محاذ پر ضرب عضب کے ذریعے ان دہشتگردوں کا قلہ قمعہ کر رہی ہے اور حالیہ آرمی چیف کا دورہ افغانستان اس کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہوگا ۔اور پاکستان آرمی کے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ ان دہشتگرد گروہوں کو شکست دے کر پاکستان کے اندر امن پیدا کر سکتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام امن وامان كے ذمہ دار تمام اداروں کی بھی یہ ذمہ اری بنتی ہے  كہ وه اپنا منصبی, وطنی اور انسانی فريضہ ادا كرتے ہوئے ان درندوں كو کچلیں.خواه انكا ظاہری نام جو کچھ بھی ہو. انكو فقط انکی تنظیموں اور گروہوں كے نام سي نہیں بلكہ انكو انكی فكر وافعال سے بهی پہچانیں،ہمارے حساس اداروں ميں اتنی صلاحيت هے كہ وه ہر دہشتگرد كو پہچانتے ہیں ليكن كيونكہ افسر شاہی ,سياستدان اور با اثر لوگ انہیں پناہ دیتے ہیں .اب وقت آ گیا ہے كہ ان باثر افراد پر بھی ہاتھ ڈالا جائے اور انہیں انصاف كی کٹہرے ميں لا كهڑا كيا جائے اور قوم كو انكے بهيانک جرائم اور منحوس چہروں سے مطلع كيا جائے.اور ياد رهے كہ ان ہشتگردوں کے سربراہوں نے كی نقاب پہن ركهے ہیں. اپنی منافقانہ روش اور جھوٹ وشبہات كا سہارا  ليكر لوگوں كو فقط اپنا شريف حلیہ دكهاتے ہیں.

 

2- فكری ونظرياتی محاذ :لیکن کیا صرف عسکری جنگ کافی ہے ان کے مقابلے کے لئے یا ہمیں بطور پاکستانی قوم کچھ اور محاذوں پر بھی جنگ لڑنی ہے۔ جن میں سے دوسرا محاذ فكری ونظرياتي محاذ ہے . يہ وه نظریاتی محاذ ہے كہ جس کے ذریعے دشمن ہماری صفوں میں نفوذ کررہا ہے اور اپنے ہم فکر گروہ تشکیل دے رہا ہے۔ یعنی پاکستان کے اندر موجود وہ شخصيات اور گروہ جو طالبانی نظریہ کے حامل ہیں ہمیں ان سے بھی جنگ کا سامنہ ہے جس کی مثالیں آج نظر آ رہی ہیں ۔پورے پاکستان نے سانحہ پشاور پر مذمت کی لیکن لال مسجد کے خطیب مولوی عبدالعزیز صاحب نے مذمت کرنے سے بھی انکار کردیا بلکہ  وه برملا طالبان اور داعش كی وكالت کرتے ہوئے کہ رہے ہیں  كہ ہمیں دونوں طرف سے مذمت کرنی چاہیے اور كچھ شخصيات نام نہاد ثقافت قتال وجہاد كی مہم چلانے کی بات كر رہے ہیں اور اس کے نزدیک آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے یہ سانحہ ہواہے ۔ اور یہی موقف طالبان كا بھی ہے۔ ان دونوں ميں مشترک چیز انكی تكفيری اور وہابی سوچ ہے ليكن آج انكے در سے كوئی وہابیت كي بات نہیں كرتا اور نہ ہی آل سعود كی كردار كی بات كرتا ہےلیکن کیا آپریشن ضرب عضب سے پہلے پاکستان کے اندر اس نوعیت کی وارداتیں نہیں ہورہی تھیں۔ کیا یہ دہشت گرد پاک آرمی کے جوانوں کے سروں کے ساتھ فٹ بال نہیں کھیلتے رہے کیا ان درندوں نے آرمی ہیڈ کوارٹر پر حملہ نہیں کیا۔ کیا ان سفاک لوگوں نے سوات کے اندر لوگوں کو ذبح نہیں کیا۔؟ کیا ہماری ریاستی اداروں پر حملے نہیں ہوئے۔ ؟ کیا آئے روز ٹارگٹ کلنگ نہیں ہورہی تهی ؟ تو کیا اس سے ان انسان نما درندوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے کہ وہ پاکستان کے اندر اپنی من مانی کرتے پھریں؟ لہذا ہمیں دفاعی پالیسی کے اندر ایسی سوچ رکھنے والوں کے خلاف بھی اقدامات کرنے کے لئے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ انكے مدارس كي مانيٹرنگ كرنا ہوگی اور دہشت كردی اور تكفيريت كا درس دينے والے مدارس كو بند كرنا ہوگا اور نفرت آميز لٹیریچر اور تكفیری اجتماعات اور مظاہروں كو كچلناہو گا،کیونکہ جب تک یہ نظریہ پاکستان کے اندر موجود ہے تب تک طالبان کو افرادی قوت مہیا ہوتی رہے گی۔ لہذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ایسی تکفیری سوچ رکھنے والے عناصر چاہے وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں موجود ہوں ان کے خلاف قانونی کاروائی کرے۔

 

3- سياسی محاذ : اور تیسرا محاذ ہے ان سیاسی قوتوں کی حوصلہ شکنی کرنا جو ان دہشت گردوں کی سیاسی طور پر حمایت کرتی ہیں اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ یعنی جن کا یہ موقف ہے کہ آپریشن ضرب عضب ختم کر دیا جائے کیونکہ یہ سانحات اس کا رد عمل ہیں۔ دراصل وہ سیاسی قوتیں جن کا یہ موقف ہے وہ ان دہشتگردوں کو بچانا چاہتی ہیں کیونکہ یہ ان کے اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں اور یہ دہشت گرد  همارے حكمرانوں كے بھی اسٹریٹیجک پارٹنررہے ہیں اور اب بهی بعض سياسی قوتيں ان سے اپنے مفادات اٹھاتی رہیں ہیں.ہمارے حكمرانوں کے پالے ہوئے سانب ہیں  اورآج همارے ننھے پھول جیسے بچوں كو ڈس رہے ہیں. اب انكو آہنی هاتهوں سے نمٹنا ہو گا . اس وقت حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہر سانحہ کے بعد جو لائحہ عمل اپناتی ہے کہ تمام اداروں کی سکیورٹی سخت کر دیں۔ بلکہ اس لائحہ عمل کی بجائے ان دہشت گردوں کی کمین گاہوں اور پناہ گاہوں اور تربيت گاہوں کو  تلاش کر کے ختم کیا جائے جہاں سے یہ پروان چڑھتے ہیں اور عسکری و نظریاتی ٹریننگ حاصل کر تے ہیں ۔ آج ہمیں مستقل بنیادوں پر لائحہ عمل کی ضرورت ہے نہ کہ عارضی طور پر سکیورٹی بڑھا دینے سے حكومت كے مسائل اور بڑھیں گے اور  یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ دراصل تکفیریت کے خلاف جنگ ہے اسے مذہبی جنگ کا نام نہ دیا جائے یہ دہشتگرد کسی فرقہ یا مذہب ومسلک  سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ پاکستان کے دشمن ہیں اور پاکستان کو اندھیری گلی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری ملت پاکستان باہم یکجا ہو کر ان عناصر کے خلاف متحد ہو جائے اور پاکستان آرمی اور امن وامان قائم كرنے والےاداروں کا ساتھ دیں اور ملک كے شیعہ، بریلوی ، وہانی اور اہلسنت علماء اس تکفیری سوچ کی حوصلہ شکنی کريں۔ تاکہ ہم پھر کسی ناگہانی سانحہ کی طرف نہ جائیں اور یہ حقائق ہر پاکستانی تک پہنچنے چاہیں تاکہ پاکستان کا ہر شہری ان محاذوں پر اس پاک دہرتی کا دفاع کرے۔

 

تحریر:ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی
سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان

وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری سانحہ آرمی پبلک اسکول کے زخمی طلباء کی عیادت کیلئے پشاور پہنچ گئے ہیں ،ان کے ہمراہ مرکزی رہنما علامہ شیخ اعجاز بہشتی، صوبائی رہنما ارشاد بنگش اور عدیل عباس بھی موجود ہیں ، علامہ ناصر عباس جعفری نے وفد کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زخمی طلباء کی عیادت کی اور ان کی خدمت میں پھولوں کے گلدستے پیش کیئے، علامہ ناصرعباس جعفری نے سانحہ میں زخمی طلباء کے بلند حوصلوں ،جواں امنگوں اور مضبو ط ارادوں کو خراج تحسین پیش کیا، اس موقع پر زخمیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ تعلیم یافتہ معاشرہ ہی جہالت اور مذہبی انتہاپسندی کا تدارک کر سکتا ہے، تعلیم دشمن طالبان نے علم کے چراغ کو بجھانے کی کوشش کی لیکن آپ کے شہید ساتھیوں نے اپنے پاکیزہ لہوسے ا س چراغ کی لو کو مذید روشن کر دیا ہے۔بعد ازاں علامہ ناصر عباس جعفری نے ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول کا دورہ بھی کیا جہاں سفا ک طالبان دہشت گردوں نے 142بے گناہ طلباء اور اساتذہ کو بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا ۔

وحدت نیوز( کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی اپیل پر سانحہ پشاور میں معصوم بچوں کی شہادت کیخلاف ملک کے دیگر شہروں کی طرح سندھ بھر میں اور کراچی میں مختلف مقامات پر احتجاج اور چراغاں کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق نوابشاہ، حیدرآباد، سکھر، ماتلی، خیرپور ناتھن شاہ، دادو، ٹنڈو محمد خان سمیت کراچی میں جعفر طیار سوسائٹی، راشد منہاس روڈ اور نمائش چورنگی پر احتجاجی مظاہرہ و چراغاں کیا گیا ۔ احتجاج مظاہروں سے خطاب علامہ مختار امامی، مولانانشان حیدر، علامہ مبشر حسن، علی حسین نقوی، سید رضا جلالوی، احسن عباس رضوی،عالم کربلائی اور آصف صفوی سمیت دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔

 

اپنے خطاب میں رہنماؤں نے کہا کہ سانحہ پشاور ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے،پشاور میں ہونے والے ظلم و بربریت پر انسانیت بھی شرماگئی ہے، اس سنگین سانحے نے عالمی سطح پر اسلام ، پاکستان اورمسلمان کا چہرہ داغ دار کیا، پشاور اسکول پر حملے میں وہی سوچ ،نظریہ اور کردار ملوث ہے جو چودہ سوسا ل قبل کربلا میں موجود تھا، معصوم ، نہتے اور بے قصور بچوں پر حملوں کی ابتدا میدان کربلا سے ہوئی، سانحہ پشاور میں شہید ہونے والوں کا بچوں کا نہ تو کوئی سیاسی و مذہبی شناخت نہیں تھی، ان کی شناخت حسینی اور ان کے قاتلو ں کی شناخت یزیدی ہے۔ انہوں نے مذید کہا کہ حکومت پر سے عوام کا اعتبار مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے، اٹھارہ کروڑ عوام کا اگر خدا کے بعد کسی پر بھروسہ اور تحفظ کی امید ہے تو وہ فقط پاک فوج ہے، پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ در اصل پاکستان کے دفاع پر حملہ ہے،شہید ہونیوالے بچے پاکستان کا مستقبل اور معمار تھے۔ دشمنان اسلام امت مسلمہ میں جہالت کے قائل ہیں، اس سانحے میں شہیدہونے والے اساتذہ کا جرم معاشرے سے جہالت کا خاتمہ اور علم کے نور کا پھیلاؤ تھا۔ آخر میں انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وطن عزیزاور اس کے غیرت مند بیٹوں کے خون سے آلود چہروں کا بے نقاب کیا جائے اور جلد از جلد سر عام ان سفاک دہشت گردوں کو سر عام اسی انداز میں واصل جہنم کیا جائے جیسے انہوں نے معصوم بچوں اور بیگناہ شہریوں کو درندگی کا نشانہ بنایا۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) پشاورسانحہ میں معصوم طالبعلموں کے قتل سے طالبان نے بربریت کی سیاہ تاریخ رقم کردی ان کے اس اقدام نے ثابت کردیا کہ یہ انسانیت کے دشمن ہیں اور جہالت ان کی میراث ہے ۔ علم کے گہوارے میں پروان چڑھنے والے معصوم طالبعلموں کو موت کی نیند سلاکر ان انتہا پسندوں نے ثابت کیا کہ ان کے خمیرمیں سفاکیت او ر گمراہی رچی بسی ہے۔کہاں ہیں اسلام کے وہ نام نہاد ٹھیکیدارسیاست دان جو ان کی وکالت میں ان سے بھی زیادہ آگے نکل جاتے ہیں آج ان کی زبانیں کیوں بند ہیں ۔ ان خیالات کا اظہارنثارعلی فیضی مرکزی سیکرٹری فلاح بہبود مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اپنے ایک مذمتی بیان میں کیا۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ افواج پاکستان کو اس بزدلانہ حملے کا نہایت دندان شکن جواب دیتے ہوئے ان کی تمام نرسریز کے خلاف آپریشن کرنا چاہیے ۔ پوری قوم اس وقت سوگوار ہے اور اس واقعے پر اشک بار ہے یقیناًیہ ننھے پھول واپس تو نہیں آسکتے اور ان کی ماؤوں کے کلیجے میں ٹھنڈک تو نہیں پڑسکتی لیکن فورسز کی فیصلہ کن آپریشن کے نتیجے میں ان کے زخموں پر مرحم ضرور رکھا جاسکتا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اس قومی سانحہ پر تمام سوگوار خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree