وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویڑن کے سکریٹری جنرل عباس علی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ معزور افراد معاشرے کا مفید شہری بننے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اگر وہ جسمانی طور پر کسی ایک عضو سے معزور ہیں تو خدا وند عالم ان کے دیگر اعضاء کو دگنی صلاحیت عطا کرتا ہے لہذا انھیں کسی صورت دوسروں سے کم نہیں سمجھنا چاہیئے جس طرح عام انسانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلیے مناسب ماحول اور سہولیات کی ضرورت ہے اسی طرح معزور افراد کی صلاحیتوں کو بروئیکار لانے کیلئے بھی مناسب ماحول کی ضرورت ہے جسے مہیا کرنا حکومت کی زمہ داری ہے دنیاکے تمام مہزب و ترقی یافتہ ممالک نے معزوروں کو انکے حقوق دیکر انہیں معاشرے کا مفید شہری بنا لیا ہے بد قسمتی سے اسلام کے نام پر بننے والی مملکت عزیز پاکستان میں آج تک ان سپیشل افراد کو فعال ومفید بنانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی نہ ہی بے حس حکمرانوں نے اس طرف کوئی توجہ دی جس کی وجہ سے معاشرے کے یہ افراد در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھیر رہے ہیں حد تو یہ ہے جب یہ بیچارے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں تو ان پر بھی لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں امید ہے آج ہونے والے معزوروں کے دھرنے پر حکومت بلوچستان لاٹھیاں نہیں برسائے گی. آواز معزوران کی جانب سے آج معزوروں کے حق کے لیے دیئے جانے والے دھرنے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے حکومت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سرکاری نوکریوں کے لیے معزور افراد کیلئے مناسب کوٹہ مختص کیا جائے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مفت و معیاری تعلیم کا انتظام کیا جائے اور ان کی تیکنکی تربیت کے لئے مخصوص ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر کا قیام عمل میں لایا جائے بلوچستان میں معزوروں کو سپورٹس کے شعبے میں بھی سہولیات فراہم کی جائے۔
وحدت نیوز (ملتان) حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہے،جنوبی پنجاب کے عوام بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات سے محروم ہے،میٹرو کے نام پر اربوں روپے کا ضیاع کیا گیا،نشتر ہسپتال اور چلڈرن ہسپتال میں مریضوں کا پرسان حال نہیں،صحت اور تعلیم کا شعبہ ابتری کا شکارہے،جس شہر کے ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین تین مریضوں کا علاج ہو رہا ہو وہاں میٹرو کے نام پر 29 ارب روپوں کا ضیاع کرنا کہاں کی دانشمندی ہے،ہر دور کے حکمرانوں نے جنوبی پنجاب کے محروم عوام کا استحصال کیا، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس نے ملتان میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں کالعدم جماعتوں کیخلاف کاروائی نہ ہونے کے برابر ہے،نیشنل ایکشن پلان کے نام پر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جارہا ہے،جمہوری اقدار کو فراموش کر دیا گیاہے، فوجی عدالتیں سپیڈی ٹرائل کیلئے بنائی گئیں لیکن وہ نتائج نہیں دے سکیں۔
علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں بھی دہشتگردوں کے سہولت کار موجود ہیں جو کارروائی نہیں ہونے دیتے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایساملک بن چکا ہے جس کی دیواریں نہیں، جوچاہتا ہے گھس آتا ہے اور دوسرے ممالک کیلئے یہاں احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر شعبہ میں کرپشن ہے، پاکستان کی کمزوری کی وجہ جمہوریت پر شب خون مارنا ہے، یہاں قدم قدم پر جمہوریت کا گلہ گھونٹا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا آئین یہ کہتا ہے کہ ملک میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اسے بطور امانت استعمال کریں گے، لیکن یہاں حکمران آئین کے آرٹیکل 62اور 63پر پورا نہیں اترتے، انہوں نے اپنی اولادیں تیار کی ہوئی ہیں کہ وہ ان کے بعد اقتدار سنبھالیں گی۔
علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ حکمران عوام کو دھوکادے کر اقتدار میں آتے ہیں، پارلیمنٹ میں جھوٹاخطاب کرتے ہیں، یہ اخلاقی طور پر کمزور لوگ ملک کو بحرانوں سے نہیں نکال سکتے، انہوں نے کہا کہ ہمارے بہت سے کارکن ایک طویل عرصے سے لاپتہ ہیں، لیکن کوئی ان کے بارے میں نہیں بتا رہا، یہ کس قسم کا قانون ہے، ڈی آئی خان سے ایک نوجوان کو غائب کیا گیا، پانچ برس گزر گئے ہیں ناصر حسین کا کوئی علم نہیں کہ زندہ ہے یا مار دیا گیا ہے،پنجاب سے ہمارے علماء اور پڑھے لکھے پرامن نوجوانوں کو غائب کیا گیا ہے،جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں،یاد رکھیں حکومتیں کفر سے تو باقی رہ سکتی ہیں مگر ظلم سے نہیں،ہمارے چوبیس ہزار شہداء کے ورثا کو تو انصاف نہیں دے سکے لیکن دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کی خوشنودی کے لئے ہم پر ریاستی جبر جاری ہیں،علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ انسان کی طرح وطن کی بھی ناموس ہوتی ہے، ملک کے دشمن ، عوام کے بھی دشمن ہوتے ہیں لیکن یہاں ملک کے دشمنوں کو گھربلایا جاتا ہے، مودی بنگلہ دیش میں کھڑے ہوکر تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان توڑنے میں اس کا کردار تھالیکن نوازشریف اسے گلے لگاتا ہے،۔ انہوں نے کہا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہو گئی ہے، لیکن یہ پارا چنار میں پھر دھماکہ ہو گیا، معصوم بچے بھی نشانہ بنے قبائلی علاقوں میں واحد کرم ایجنسی ہے جس کے لوگ سب سے زیادہ محب وطن ہیں، انہوں نے پاکستان کے جھنڈے لگا رکھے ہیں، لیکن ان کا جیناحرام کر رکھا ہے، پولیٹکل انتظامیہ بھی انہیں ریاستی تشدد کا نشانہ بنارہی ہے اور دہشت گردبھی انہی پر حملے کررہے ہیں۔ راستے میں درجنوں چیک پوسٹیں ہیں پھر بھی دہشت گردوہاں پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ناکام ہو چکا ہے، ملک میں دہشتگردوں کیلئے کوئی روک ٹوک نہیں، وہ سرعام دندناتے پھر رہے ہیں۔
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور رابط ملک اقرار حسین نے ملتان میں منعقدہ دو روزہ تنظیمی وتربیتی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ شعبہ روابط مجلس وحدت مسلمین کے دیگر تمام شعبہ جات کو باہم مربوط کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے، ایم ڈبلیو ایم میں شعبہ روابط کی حیثیت جسم میں نروس سسٹم جیسی ہےجو اگر چہ ظاہری شکل نہیں رکھتا لیکن اس کی عدم موجودگی یا اس میں تعطل پورے جسم میں تعطل کا باّعث بنتا ہے،ہمیں تسلسل کے ساتھ پروفیشنل انداز میں منظم و مرتب تربیتی نشستوں کا انعقاد کرنا چاہیےتاکہ معاشرے کو ایک تربیت شدہ افرادی قوت کے حوالے کرکے اختلاقی ، سماجی اور سیاسی گراوٹ کو دور کیا جاسکے۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ سیاسی جدوجہد بہت کٹھن اور مشکل راستے سے گذرنے کا نام ہے، یہ ایک طولانی جنگ ہے جس میں کمزور اعصاب کے مالک افراد جلد شکست کھا جاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مغل ہزارہ گوٹھ کراچی میں ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی عہدیدارو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار شہید عالم ہزارہ، شہید صفدر عباس اور شہید سید علی شاہ کی برسی کے موقع پر منعقدہ تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر علامہ مبشر حسن، علی حسین نقوی، علامہ صادق جعفری، علامہ اشرف علی منتظری سمیت علماء و عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملت جعفریہ نے ملک کی بقاء کی خاطر سیکڑوں ڈاکٹر ،وکلاء،پرو فیسرزو،انجینئرز،تاجر اورعلما ء و اکابرین کی قربانیاں دی،عالمی استعماری طاقتیں دہشتگرد القائدہ،طالبان،کے بعداب خطہ میں داعش کو پروان چڑھا رہی ہیں ملک میں داعش کا وجود کالعدم جماعتوں اور ان کے سیاسی سہولت کاروں کے زریع قائم ہے حکمران خواب غفلت سے جاگیں ،کالعدم جماعتوں کے خلاف کاروائی سے ملک میں مذید امن قائم ہوگا انہوں نے کہا کہ انبیاء، آئمہ، اولیاء، اوصیاء، شہداء، صالحین اور صدیقین کا راستہ دینی سیاسی نظام کے احیاء کا راستہ ہے، آئمہ کی ولایت کی گواہی دینا آسان لیکن آئمہ کی سیاسی قیادت کا اعلان کرنا مشکل ہے، دشمن ہماری مذہبی شناخت سے نہیں سیاسی شناخت سے خوف کھاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی جدوجہد بہت کٹھن اور مشکل راستے سے گذرنے کا نام ہے، یہ ایک طولانی جنگ ہے جس میں کمزور اعصاب کے مالک افراد جلد شکست کھا جاتے ہیں، ہمیں واجبات اور مستحبات میں تمیز سیکھنا ہوگی، اس راہ کے ہمارے ساتھی شہید عالم ہزارہ، شہید صفدر عباس اور شہید سید علی شاہ نے بھی ولایت کے اصل معنیٰ کو سمجھ کر سیاسی میدان میں قدم رکھا تھا جو دشمن کو کسی صورت گوارہ نہ تھا، عالمی سطح پر جہاں جہاں شیعہ مکتب نے سیاسی و اجتماعی میدان میں قیام کیا وہاں وہاں تشیع سرخرو ہوئی، یہاں تک کہ نائیجیریا جیسے پسماندہ علاقہ میں بھی شیعہ کی صداقت اور ایمان کی گواہی دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہاملک میں اتحاد بین مسلمین ہمارا اولین ایجنڈاہے اور مجلس وحدت مسلمین نے ملک میں اتحاد بین المسلمین کیلئے مثالی کام کئے اور اس راہ میں بہت سی ایسی قربانیاں پیش کی جن سے قومی نقصان ہوا انہوں نے مذید کہا کہ ملک میں بد امنی پھیلانے والوں اور قوم و ملت کو تقسیم کرنے والوں کی اس وطن اب کوئی گنجائش نہیں شہید عالم ہزارہ، شہید صفدر عباس اور شہید سید علی شاہ کی عظیم قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) ایک آدمی کو بات کرنے والا طوطا بہت پسند تھا ایک دن وہ پرندہ فروش کے پاس گیا اور ایک خوبصورت بات کرنے والا طوطا خرید لایا ایک دن گزر گیا لیکن طوطے نے ایک حرف نہیں بولا اگلے دن وہ دوکاندار کے پاس آیا اور کہنے لگا بھائی صاحب جو طوطا میں خرید کے لے گیا تھا وہ تو ایک حرف بھی نہیں بولتا اور تم تو کہہ رہے تھے کہ وہ بات کرتا ہے؟ دکاندار نے پوچھا کیا طوطے کے پنجرہ میں آئینہ ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں کیوں؟ دکاندار نے کہا طوطہ جب آئینہ میں اپنا عکس دیکھتا ہے تو بات کرنے لگتا ہے۔ خریدار ایک آئینہ لے کر گیا اور ایک روز بعد پھر واپس آیا کہنے لگا بھائی آئینہ نصب کردیا تھا طوطہ پھر بھی بات نہیں کرتا۔ دکاندار نے کہا کیا پنجرہ میں سیڑھی ہے؟ اس نے کہا نہیں دکاندار نے کہا بے وقوف طوطا تو سیڑھیوں کا عاشق ہے اسی لئے وہ کچھ نہیں بول رہا۔ خریدار کچھ غصے کی حالت میں واپس گیا اور آگلے دن پھر غصے کی حالت میں واپس آیا، دکاندار نے جب خریدار کو دیکھا تو اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا فورا سوال کر ڈالا کیا طوطے کے پنجرہ میں جھولا ہے؟ اس نے غصے میں جواب دیا نہیں، دکاندار نے کہا بس مسلۂ ہی حل ہوگیا طوطا تو جھولا جھولتے ہوئے بات کرتا ہے، خریدار کچھ کہہ نہ سکا اور ایک جھولا خرید کر واپس ہوا۔ چوتھے روز خریدار روتے ہوئے دکاندار کے پاس گیا اور کہنے لگا طوطا مرگیا میرا طوطا مر گیا۔۔۔ دکاندار نے جب اس کی حالت دیکھی تو دلاسہ دیتے ہوئے پوچھا کیا تمھارے طوطے نے مرتے ہوئے بھی کوئی بات نہیں کی؟؟ اس نے روتے ہوئے جواب دیا کیوں نہیں اس نے بات کی۔ دکاندار نے پوچھا کیا بات کی ، طوطے نے کیا بولا؟؟ خریدار نے کہا طوطے نے مرنے سے پہلے انتہائی ضعیف آواز میں مجھ سے پوچھا کیا اُس دکان پر طوطوں کے لئے کھلونوں کے علاوہ کوئی کھانے پینے کی چیزیں نہیں تھی ۔۔۔؟!
وطن عزیز میں بھی عوام اور حکمرانوں کے درمیان کچھ ایسے ہی رشتے قائم ہیں۔ قومی اسمبلی میں وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ایک دستاویز کے زریعے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 29.5 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ جو تعداد کے تناسب سے تقریبا ساڑھے پانچ کروڑ افراد بنتی ہے۔ دستاویز ات کے مطابق اس طریقے کار کے تحت پاکستان میں غربت کی لکیر کو ہر فرد کے ماہانہ خرچہ 3030 روپے مقرر کیا گیا جس کے تحت اگر کسی شخص کی ماہانہ آمدن 3030 روپے سے کم ہے تو اس کا شمار خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں ہوگا۔اس حساب کے مطابق جن لوگوں کی روزانہ آمدن ایک ڈالر سے زیادہ ہے انہیں غربت کی لکیر سے اوپر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی معیار کے حساب سے بات کی جائے تو 3030کے بجائے 5000 یا تقریبا 600 روپے ماہانہ کمانے والے افراد غربت کی لکیر سے باہر ہونگے اور اس لحاظ سے پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔اب غربت کی وجہ سے ایک فیملی پر کیا کیا اثرات پڑھتے ہیں یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں،کھانے پینے سے لیکرتعلیم،شادی غرض ہر چیز پر ہی اثر انداز ہوتی ہے یہاں تک کہ زندگی اور موت کا بھی مسئلہ بن جاتی ہے، لوگ اپنے لخت جگر کو چند پیسوں کے عوض بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، قابل لائق اور زہین بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔۔۔اور ایسی ہی ناجانے کتنی مشکلات سامنے آتی ہیں ۔۔ھر قدم پھونک پھونک کے اٹھانا پرھتا ہے۔۔اور آج کل کے حالات میں بین الااقوامی خط غربت کے حساب سے بھی پاکستان میں کوئی کماتا ہے تو وہ صرف 12گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے آنے والے بل کی نظر ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس غربت سے صرف بچوں کی زندگیوں پر پڑھنے والے اثرات کو دیکھیں توہماری انکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ملکی آبادی کا 69فیصد حصہ غذا کے حوالے سے غیر محفوظ ہے اور عام طور پر لوگوں کی غذا کا بڑا حصہ روٹی پر مشتمل ہوتا جب کہ گوشت ،پھل،ڈیری مصنوعات کا استعمال بہت کم ہوتا ہے، یوں ملک کی تقریبا ستر فیصد آبادی کو صحت مند قرار نہیں دیا جاسکتا۔اُوپر سے لوگوں کی بڑی تعداد ایسی گندم کا استعمال کر رہی ہے جس میں بیکٹریا موجود ہیں اور اس سے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں "خواتین اور بچوں کی نصف آبادی غذا میں وٹامن موجود نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا شکار ہیں، اور بچوں میں ہونے والی اموات میں سے 45فیصد اموات نامکمل غذا کی وجہ بتائی جاتی ہے"۔ یہ غربت کی وجہ سے پڑھنے والے اثرات پر ایک چھوٹی سی رپورٹ ہے۔
اب اگر ہم اپنے حکمرانوں کی جانب دیکھیں تو عوام کی بھوک ،پیاس،غربت کے حقیقی درد سے کوسوں دور وزیر اعظم صاحب ملتان میں میٹرو کا افتتاح کرتے ہوئے کہتے ہیں " میٹرو بنے سے قبل طالب علم، نوجوان اور غریب افراد کتنی مشکل سے سفر کرتے تھے اور کتنا کرایہ دے کر جاتے تھے ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے۔۔۔!! "
بلکل صحیح فرمایا ہے جناب وزیر اعظم صاحب (میں بذات خود میٹرو کا مخالف نہیں۔۔لیکن اہم مہم بھی کوئی چیز ہے۔۔اور میٹرو۔۔!کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں کچھ نہ ہونے سے میٹرو ہی صحیح) آپ ابھی یہ سوچ رہے ہیں اور ہم تو سوچ رہے تھے کہ تین دفعہ وزیر اعظم بنے کے بعد تو ملتان کیا پاکستان بھر سے غربت کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا، آپ تو سفر کی مشکلات کا ذکر کر رہے ہیں ہم تو وی آئی پی پروٹوکول سے کوئی غریب بیمار زندہ بچ کے ہسپتال پہنچ جائے تو شکر ادا کرتے ہیں،آپ تو کرایوں کی بات کرتے ہیں ہم تو 24گھنٹوں میں ایک وقت کی عزت کی روٹی مل جائے اور زندہ رہے تو خوشی خوشی میلوں پیدل چلنے کو تیار ہیں۔آپ تو کہتے ہیں پاکستان کے ہر شھر کو خوبصورت بنائیں گے، بلکل درست بات کی آپ نے لیکن ہم کہتے ہیں اس شہر کو خوبصورت بنانے سے پہلے یہاں بسنے والوں کو خوبصورت بنے کے موقعے فراہم کیے جائیں، آپ بیروزگاروں کا کچھ سوچیں تو ہم خود اپنے اپنے گلی کوچوں ،سڑکوں اور شہروں کو خوبصورت بنائیں گے۔ آپ نے 28 ارب 88 کروڑ کی لاگت سے ملتان میٹرو تعمیر کروایا ہے یقیناًبڑی رقم ہے قابل تعریف ہے آپ کا بہت بہت شکریہ لیکن اگر آپ اس میں سے صرف دس ارب ملتان کے جوانوں اور بچوں کی تعلیم پرخرچ کرتے، دس ارب غریب عوام پراور پانچ ارب سے ٹرانپورٹ کا نظام درست کرواتے تو یہ شھر جنت بنتا اور 3 ارب 88 کروڑ بھی آپ کی آف شورز ایکاونٹز میں جمع ہو جاتا یوں عوام بھی خوش ہوتے اور آپ کو بھی فائدہ پہنچتا کم از کم اگلے الیکشن میں آپ ملتان میں پیسے بہانے اور گلوبٹ کو میدان میں اتارنے کی زحمت سے بچ جاتے ۔۔۔
تحریر۔۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن
وحدت نیوز (ہری پور) مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام ہری پور میں سانحہ پاراچنار اور کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں صوبائی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ اقبال بہشتی نے خصوصی شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء نے حکومت اور دہشتگردوں کیخلاف بھرپور نعرہ بازی کی، اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی رہنماء علامہ سید وحید عباس کاظمی، علامہ ذوالفقار حیدری، نیئر عباس جعفری اور دیگر نے شرکت کی۔ علامہ اقبال بہشتی نے شرکائے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تلک ظلم ہو گا، ہم صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں گے، پاراچنار میں ہونے والے وحشیانہ قتل عام کیخلاف آج ساتویں روز بھی خیبر پختونخوا کے بعض شہروں میں مجلس وحدت مسلمین کی کال پر عوام نے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔