The Latest
وحدت نیوز (قم) مجلس وحدت مسلمین قم کابینہ کا اجلاس گزشتہ روزوحدت ہاوس قم میں منعقد ہوا، اجلاس میں تنظیمی امور اور پالیسیوں کے علاوہ حضرت عیسیٰ ؑ اور قائداعظمؒ کے حوالے سے بھی اہم گفتگو کی گئی۔ اس موقع پر مرکزی سیکرٹری امور خارجہ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت شیرازی نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے یوم ولادت حضرت عیسی علیہ السلام کی مناسبت سے جہان اسلام ومسیحیت کو مبارکبادیتے ہوئے کہا کہ عالمِ بشریت کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام مینارہِ نور اور شمع ہدایت ہیں۔اس کے ساتھ انہوں نے 25دسمبر روز ولادت بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمدعلی جناح کی ولادت کی نسبت سے بھی تمام حریت پسند انسانوں کو مبارک بادد ی اور کہا کہ اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لئے قائد اعظم کے ہمہ گیر اور عالمگیر افکارہمارے موجودہ قومی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بہترین ذریعہ ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ایک منظم سازش کیساتھ افکار قائد اعظم اور پاکستان کے حقیقی محسنوں کے حقیقی کردار کو نظر انداز کرکے ان لوگوں کے افکار کوسکولوں ، کالجز اور یونیورسٹیوں کی درسی کتابوں اور نصاب میں شامل کردیا گیا ہے جو قیام پاکستان اور قائداعظم کے سخت مخالف تھے۔انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص لابی جو قیام پاکستان کے ہی خلاف تھی اور آج بھی آئین پاکستان کو نہیں مانتی ، اس لابی کے لیڈروں کو پاکستان کے قومی ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے محب وطن پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں قائداعظم کے دشمنوں اور مخالفین کے نظریات کو پڑھائے جانے کا سختی سے نوٹس لیں، انہوں نے باشعور طبقے سے اپیل کی کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں سے پاکستان اور قائد کے مخالف لوگوں کے افکار و شخصیات کو حذف کرکے نسلِ نو کو محب وطن پاکستانی بنایا جا ئے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد کا پاکستان بنانے کی کوشش کی جائے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کے زیر اہتمام مھدی برحق ؑ تنظیمی و تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہو ئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ خواتين کسی ملک يا قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود ميں برابر کردار ادا کر سکتی ہيں ۔کسی بھی ملک کی تعمير و ترقی ميں عورتوں کا مردوں کے برابر حصہ ہوتا ہے ، مردوں کے ساتھ عورتيں بھی سماجی اور اقتصادی ميدان ميں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے آگے بڑھ سکتی ہيں ۔ انسان ہونے کے ناطے تو مرد اور عورت دونوں مساوی ہيں ،تمدن کی تعمير اورتہذيب کی تشکيل اور انسانيت کی خدمت ميں دونوں برابر شريک ہيں ۔ضرورت اس بات کی تھی کہ ’’مساوات مرد وزن‘‘ کے کھوکھلے نعرے کے بجائے تمدن کی فلاح کيلئے دونوں کی دماغی تربيت اورعقلی وفکری نشونماکے مواقع بہم پہنچائے جاتے کيونکہ ہر تمدن کا فرض ہے کہ سماج کا يہ نصف حصہ اپنی فطری استعداد اور صلاحيتوں کے مطابق سماج کی ترقی ميں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرے عزت نفس کا بھی بہترين شہري صفات کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام دنيا کا پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو مرد کے برابر مقام ديا ہے بلکہ سماج کی تشکيل ميں عورت کو مرد سے زيادہ اہميت دی ہے، اسلام کی نظر ميں عورت معمار اول کا درجہ رکھتی ہے، عورت اور مرد انسانيت کی گاڑی کے دو پہيے ہيں ، کسی ايک پہيے کے بغير انسانيت کی ترقی و عروج کا تصور نہيں کيا جا سکتا، قرآن حکيم نے عورت کے حقوق اور معاشرہ ميں اس کی اہميت پر بہت زور ديا ہے اور جو بھی احکامات دئیے ہيں ، ان ميں عورت اور مرد دونوں برابر کے شريک ہيں ، ایک موقع پر اردو کے معروف اسکالر اور شاعر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ قرآن کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کيا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ميں عورتوں کے حقوق اور ان کی اہميت پر اتنا زور ديا گيا ہے کہ گويا يہ کسی عورت کا کلام ہو، ان حقوق و اختيارات کی لسٹ کافی طويل ہے جن کے عنوانات پر ہی نظر ڈال لينا کافی ہو گا، اسلام نے مرد اور عورتوں ميں حقوق کی مساوات رکھی ہے، عورت کی مستقل حيثيت کو تسليم کيا ہے، سزا اور معافی ميں مرد اور عورتوں کو برابر رکھا ہے، عورت کو اپنے شوہر کے انتخاب کے ساتھ ساتھ وراثت ميں بھی حق حاصل ہے، جو اسے ماں باپ اور شوہر دونوں کی طرف سے ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامی معاشرے میں مرد و زن کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ اسلامی احکامات ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلامﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ " من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم" ( جو شخص شب و روز گزارے اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں اور اس کے لئے اقدام کریں، کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی، جو بچپن میں اور مدینہ منورہ کی جانب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے بعد مدینے میں اپنے والد کو پیش آنے والے تمام معاملات میں، اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایک نمونہ ہے جو اسلامی نظام میں عورت کے کردار اور فرائض کو ظاہر کرتا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک آيت کہتی ہے کہ اسلام ہو، ایمان ہو، قنوت ہو، خشوع و خضوع ہو، صدقہ دینا ہو، روزہ رکھنا ہو، صبر و استقامت ہو، عزت و ناموس کی حفاظت ہو یا ذکر خدا ہو، ان چیزوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی وہ سرگرمیاں بالکل جائز، پسندیدہ اور مباح و بلا اشکال ہیں جو اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے انجام دی جائيں۔ جب معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اس دور کے مقابلے میں دگنی ہوگی جس میں تعلیمی سرگرمیاں صرف مردوں سے مخصوص ہوکر رہ جائیں۔ اگر معاشرے میں عورتیں تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گی تو معاشرے میں اساتذہ کی تعداد اس دور کی بنسبت دگنی ہوگی جس میں یہ فریضہ صرف مردوں تک محدود ہو۔ تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی سرگرمیوں، منصوبہ بندی، فکری عمل، ملکی امور، شہر، گاؤں، گروہی امور اور ذاتی مسائل اور خاندانی معاملات میں عورت و مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے فرائض ہیں جن سے ہر ایک کو عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔
انہوں نے مذید کہا کہ اگر اسلامی معاشرہ عورتوں کو اسلامی تربیت کے نمونوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت اپنے شایان شان مقام و منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اگر معاشرے میں عورت علم و معرفت اور روحانی و اخلاقی کمالات پرفائز ہو جائے جو اللہ تعالی اور ادیان الہی نے تمام انسانوں، بشمول مرد و زن، کے لئے یکساں طور پر معین کئے ہیں تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی، گھر کی فضا زیادہ پاکیزہ اور محبت آمیز ہو جائے گی، معاشرہ زیادہ ترقی کر سکے گا، زندگی کی مشکلات زیادہ آسانی سے برطرف ہوں گي۔ یعنی مرد اور عورت دونوں خوشبخت ہو جائیں گے۔ مقصد عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں صف آرا کرنا نہیں ہے، مقصد عورتوں اور مردوں کی معاندانہ رقابت نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ عورتیں اور لڑکیاں اسی عمل کو دہرا سکیں جس کو انجام دے کر مرد ایک عظیم انسان میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ ممکن بھی ہے اور اسلام میں اس کا عملی تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ انتہائی اہم چیزوں میں ایک، گھر کے اندر کے فرائض یعنی شوہر اور بچوں سے برتاؤ کی نوعیت کے تعلق سے عورتوں کو صحیح طریقوں سے آگاہ کرنا ہے۔ ایسی عورتیں بھی ہیں جو بہت اچھی ہیں، ان میں صبر و تحمل، حلم و بردباری، درگزر اور رواداری کا جذبہ اور اچھا اخلاق پایا جاتا ہے لیکن وہ بچوں اور شوہر کے سلسلے میں اپنا رویہ درست نہیں کرتیں۔ یہ رویہ اور روش با قاعدہ ایک علم ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسانی تجربات کے ساتھ روز بروز بہتر ہوئی ہیں اور آج اچھی صورت حال میں موجود ہیں۔ بعض لوگ ہیں جن کے پاس بڑے گرانقدر تجربات ہیں۔ کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے جس سے یہ عورتیں گھر کے اندر رہتے ہوئے ان روشوں اور طریقوں سے آگاہ ہو سکیں اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔
مرکزی سیکرٹری شعبہ خواتین ،خواہر زہراء نقوی نے خطاب کیا اور تنظیم کے ثمرات اور افادیت کے بارے میں بتایا، انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے بھی ہمیشہ خواتین کو پاکستانی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے میدان فراہم کیا ہے ۔ اور ذمہ داریاں سونپی ہیں لہذا ہماری پاکستان کی تمام خواہران سے گزارش ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور مجلس وحدت مسلمین کا حصہ بن کراپنا بھر پور کردار ادا کریں ۔قائد وحدت اور ان مخلص کابینہ نے ہمیشہ خواتین کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ اور خواتین کے ساتھ تعاون کیا ہے ۔
ورکشاپ کے دوسرے مقررعلامہ سید حسنین گردیزی نے خطاب کیا اور امت مسلمہ کے مسائل اور ان کے حل کیلئے نہج البلاغہ کی نظر میں ان کا حل بتایا،گروپ ڈسکشن کی گئی جس میں انتظار امام ؑ کیسے کیا جائے اور اس میں ہماری ذمہ داری بتائی گئی۔سید حسنین گردیزی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مردوں کے ساتھ عورتوں کو شانہ بشانہ ساتھ چلنا ہو گا۔اور اپنے مسائل کا حل نہج البلاغہ سے لیناتلاش کرنا ہو گا اس وقت معاشرے کو تعلیمی پسماندگی ، جہالت،کمزور معیشیت، فقرو ناداری اورتفرقہ، دین میں تحریف و بدعت ۔ان سب کا حل نہج البلاغہ بآسانی لیا جا سکتا ہے۔تعلیم کو عام کیا ہے۔ جہالت کا خاتمہ علم ایک زندگی ہے۔ غربت و افلاس کو ختم کیا جائے۔
ورکشاپ کے آخر میں پنڈی ڈویژن کی خواتین کی سرگرمیوں سے متعلق سید قندیل کاظمی نے روشنی ڈالی ۔ انتظار امام اور اُس کی تیاری پرخواہر نگین نقوی صاحبہ نے سیر حاصل گفتگو کی اس ورکشاپ میں تنظیمی خواہران ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اور خواہران اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی وکشاپس کا انعقادتنظیمی خواتین کی صلاحیتیوں کو بڑھانے کےلئے ازحد ضروری ہیں ۔ ان ورکشاپس کے انعقاد سے ہمیں کام کرنےکی روش کے علاوہ اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا حوصلہ اور جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے اور ایک معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ایک نئی جہت ملتی ہے جس سے بنحو احسن ہم اس الہی تنظیم میں اپنا رولادا کر سکتی ہیں ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی اینٹی ٹیکس موومنٹ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اسے تسلیم کیا جائے اورخطے کے عوام کے دیرینہ مطالبات پورے کیے جائیں۔گلگت بلتستان کے لوگوں کا سی پیک میں جو حق بنتا ہے اس میں کسی بھی قسم کی بد دیانتی ناقابل قبول ہے۔جو سازشی عناصر اس خطے میں بسنے والوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان اور فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق سے دور رکھنا نا انصافی ہے۔ کسی بھی ملک میں بسنے والے افرادکو سیاسی و معاشرتی اعتبار سے یکساں حقوق کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔قبائلی علاقہ جات اور گلگت بلتستان کی عوام کا حصول پاکستان کے لئے جدوجہد میں اہم اور نمایاں کردار رہا ہے۔انہیں سیاسی دھارے سے دور رکھنے کی کوشش کرنے والے ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ فاٹا میں ایف سی آر کے کالے قانون سے چھٹکارا دلانے اور آئینی حقوق دینے کے لیے اصلاحات پر عمل درآمد میں تاخیر افسوس ناک ہے۔ملک کے محب وطن افراد میں مایوسی پیدا کی جا رہی ہے جو قومی وحدت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اس اہم مسئلے کو پارلیمنٹ میں عوامی امنگوں کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے مسئلے پر سیاست چمکانے کی بجائے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت فیصلہ سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ملک دشمن طاقتیں عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ارض پاک میں چھوٹے چھوٹے ایشوز کو پہاڑ بنا کر پیش کر رہی ہیں تاکہ پاکستان کو ایک غیر مستحکم ریاست ثابت کیا جا سکے۔ایسی صورتحال میں مقتدر اداروں کو دانشمندی اور بصیرت کا ثبوت دینا ہو گا۔عوام کے مسائل اور مطالبات کودانستہ نظر انداز کرنے کا مطلب ان قوتوں کو خوش کرنا ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کو اضطراب میں دیکھنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلگت کے عوام کا آئینی حق دیے بغیر ٹیکسز کے نفاذ پر احتجاج اصولی ہے۔معدنی ذخائر و دیگر اعتبار سے گلگت بلتستان میں بے پناہ وسائل موجود ہیں۔جن سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے گلگت بلتستان کی بھی حصہ داری ہونی چاہیے۔ دنیا بھر کی مختلف ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ۔گلگت بلتستان دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جو گزشتہ ستر سالوں سے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کر رہا ہے۔لیکن سیاسی حکومتیں اس الحاق کے لئے راہ ہموار کرنے کی بجائے مسلسل رکاوٹیں پیدا کرتی آئی ہیں۔جو سراسر زیادتی ہے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے مطالبات کی منظوری ان کے حب الوطنی میں اضافے کا باعث ہو گی اور یہ پاکستان کے لیے دفاعی ،معاشرتی اور معاشی طور پر بھی نفع بخش ثابت ہو گا۔
وحدت نیوز (مشہد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ مشہد مقدس کے زیراہتمام بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کے موقع پر دفتر ایم ڈبلیو ایم میں صمیمی نشست کا اہتمام کیا گیا، اس موقع پر مشہد مقدس کے سیکرٹری جنرل حجتہ الاسلام والمسلمین عقیل حسین خان، حجتہ الاسلام والمسلمین عارف حسین تھہیم، حجتہ الاسلام والمسلمین خواجہ محمد سلیم، آغا ظہیر حسین مدنی اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ نشست سے خطاب کرتے ہوئے حجتہ الاسلام خواجہ محمد سلیم نے قائداعظم محمد علی جناح کی جہد مسلسل سے مزین زندگی کے پہلوئوں پر روشنی ڈالی، بعدازاں نشست سے خطاب کرتے ہوئے حجتہ الاسلام والمسلمین عقیل حسین خان کا کہنا تھا کہ قائداعظم ایک مقتدر، آزاد، اسلامی اور قرآنی اُصولوں پر اُستوار پاکستان چاہتے تھے، جس میں ہر مذہب اور مسلک کے لوگ آزادی کے ساتھ رہ سکیں، دشمن پاکستان عناصر نے بانی پاکستان کے تفکر کو پس پشت ڈال کر ملک اغیار کی جھولی میں ڈال دیا ہے، آج بھی اگر ہم دنیا میں ممتاز اور نمایاں حیثیت حاصل کر نا چاہتے ہیں تو ہمیں قائد اُصولوں کو اپنانا ہوگا، بانی پاکستان کی فکر کو فراموش کرنے والے ملک دوست نہیں بلکہ ملک دشمن ہیں اور بدقسمتی سے آج وہی لوگ اس ملک پر مسلط ہیں، بعدازاں بانی پاکستان کی روح کی شادمانی کے لیے قرآن خوانی کی گئی اور کیک بھی کاٹا گیا۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) گزشتہ پانچ دنوں سے میرا خطہ گلگت بلتستان ایک بار پھر احتجاجات اور ہڑتالوں کی زد میں ہیں اس سے قبل گزشتہ ماہ منتخب نمائندوں کے وعدے پر احتجاجات کے سلسلے کو روک دیا گیا تھالیکن پورے ایک مہینے کے قریب صبر کرنے اور بھرپور موقع فراہم کرنے کے باوجود وزیر اعظم پاکستان اور ان کے مقامی معتمدین اپنے وعدے وفا نہیں کر سکے۔
علاقہ ستر سالوں سے بنیادی شہری حقوق اور آئینی تحفظ کی ڈیمانڈ کرتی رہی ہےاور ہر بار عوام اسی لئے نمائندوں کو ووٹ دیکر منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کو انکے جائز حقوق دلانے کیلئے کوشش کریں. اہم مسئلہ کشمیر کا ہے جس کیساتھ نتھی کرکے اس خطے کو تا حال نہ تین میں نہ تیرہ میں رکھاگیا. کشمیر کے پاکستانی حصے کو تو نیم خودمختار حیثیت دے چکا, اور وہاں کے عوام اس کو بھی غنیمت سمجھتی ہے, لیکن ہم گلگت بلتستان والے نہ تو کسی صوبے کا حصہ ہے, نہ خودمختار. اور لاکھوں عوام کے کے پاس شناختی کارڈ ہونے, بلا روک ٹوک کے آنے جانے اور دیگر شہریوں کی طرح شناخت ہونے کے باوجود اس موجودہ سیٹ اپ کو کسی طرح سے آئینی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے،اس طرح یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جو کسی قانون کے تحت کسی ملک کا باقاعدہ حصہ نہیں. پاکستان اور چائنہ کے درمیان اقتصادی راہداری(سی پیک) منصوبے کو یوں تو حکومت پاکستان اپنے لئے معجزہ سمجھتی ہےاور یہ راہداری منصوبہ آغاز ہی گلگت بلتستان سے ہوتا ہے جس کو اب تک پاکستانی آئین اپنا حصہ نہیں سمجھتی،ظاہرا گلگت بلتستان کے عوام نے بھی اسوقت تک اس اہم ترین ایشو پر کوئی تحریک چلائی نہ اس میں اپنا حصہ مانگا، بلکہ جو وفاقی حکومت چاہتی ہے وہی کچھ ہوتا رہا ہے اور شاید ایسا ہی ہوتا رہے. ان کو بخوبی معلوم ہیں اس خطے کے عوام شریف ہیں، ان کے اوپر یس سر کے عادی لوگوں کو حکمران بنوائے ہوئے ہیں جو کہ وفاقی سکریٹری تک سے کیوں کہنے کی جرات نہیں رکھتےایسے میں حکمران اشرافیہ کی بیوقوفی کہیں یا کچھ اوراس اہم ترین خطے کے عوام کو زیادہ سے زیادہ مراعات دیکر خوشحال بنانے کی بجائے گزشتہ حکومت کی جانب سے لایا ہوا ٹیکس ایڈاپٹیشن ایکٹ 2012 کو بھی لاگو کرکے یہاں کے عوام کو تحریک چلانے پر مجبور کر دی۔
ہماری عوام کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے اور اگر نہیں تو ہونی چاہئے کہ اب تک کسی بھی سرکاری کاغذات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کیلئے بھی کوئی منصوبہ رکھا ہو. بلکہ خبر ہے کہ پہلے سے موجود سوست پورٹ کو بھی یہاں سے اٹھا کر حویلیاں منتقل کی جارہی ہے. دوسری طرف اس خطے کی متنازعہ حیثیت کو بھی دو لخت کرکے عوام کو لڑانے کی تیاریاں بھی اندرونی طور پر ہورہی ہیں. ان باتوں سے یہی سمجھ آتی ہے کہ چین کی طرف سے پاکستان کو معاشی مفادات ملنے سے جن قوتوں کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھ رہی ہیں وہی قوتیں پاکستان کے اداروں میں بیٹھے اپنے ہمدوروں کو بہتر استعمال کر رہے ہیں. گلگت بلتستان میں افراتفری کے ممکنہ فائدے انہی قوتوں کو ہی ہوسکتے ہیں جو جنوبی ایشیا میں اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنا چاہتی ہے۔
معاملہ اتنا گھمبیر نہ ہوتا اگر مقامی اسمبلی میں بیٹھے ایک سکریٹری کے اشاروں پر ناچنے والوں میں سے ایک دو ہی جرات کا مظاہرہ کرتے. انکے آقاوؤں سے کہتے کہ جی اس خطے کو امن و امان میں رکھنا نہ صرف ہماری سیٹوں اور حکومت کی بقا کیلئے ضروری ہے, بلکہ سی پیک سمیت پاکستان کو معاشی طور پر فایدہ ملنے والے منصوبوں کے دوام کیلئے بھی بے حد ضروری ہے۔۔۔۔۔۔لیکن جسطرح بیرونی اشاروں پر ناچنے والے وفاق کے کرتا دھرتا مفادات کیلئے یس سر کہنے سے نہیں چوکتے, انہی کو مچھلیاں اور خشک میوہ جات بھیجنے والے مقامی بھی ان کی خوشنودی کیلئے اپنی سیاسی موت کا سامان ثابت ہونیوالی بیوقوفیوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
اگر مقامی منتخب نمائندوں کے پاس عقل و شعور ہوتے تو ٹھٹھرتی سردی میں ہزاروں عوام کی مسلسل احتجاج, اور چار دنوں سے پہیہ جام شٹر ڈاون ہڑتال کے بعد کم از کم بلتستان کے نمائندے اپنی وزارتوں کی کرسی کو لات مار کر عوام کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوجاتے یقین کریں کم سے کم اگلے الیکشن میں سیٹ انکی پکی ہوجاتی, اور انکی نسلیں ان کے اوپر فخر کرتے۔۔۔۔لیکن اپنے ہی ووٹرز کو اپنی نا اہلیوں پر چیختے چلاتے اور مردہ باد کے نعرے لگاتے دیکھ کر بھی یہ طفل تسلیوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایک نا اہل سے وفاداری اور اسکی نمک حلالی پر تلے ہوئے ہیں. ان کو گزشتہ حکومت کا حشر بھی یاد ہے, اپنے قائدین کی نا اہلی تو تازہ تازہ واقعہ ہے, جس سے پتہ کسی اندھے کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کئی بار وزارت عظمیٰ پر رہنے کے باوجود بھی سڑکوں پر آکر اپنی نا اہلی کے خلاف رونا پیٹنا پڑجاتا ہے۔
اس لئے ان لوگوں کو یاد دہانی کیلئے بقول شاعر۔۔۔۔
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
میں ان سطور کی توسط سے مقامی رہنماؤں کو بھی یہ بات باور کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارا مسئلہ نہ پچھلی حکومت کیدور والا گندم کا ایشو تھا, نہ اب صرف ٹیکس ہے. گندم سبسڈی بھی ہمارا حق تھا اور ٹیکس کی مخالفت بھی ہمارا حق ہے, لیکن ان ایشوز کیساتھ حکومتیں آتی رہیں گی, ہم یوں ہی اپنے عوام کو لیکر نکلتے رہیں گے... لیکن اصل مسئلہ جو ہماری بنیادی شہری حقوق کا ہے, آئینی حیثیت یا خود مختار علاقے کے قیام کا, جب تک یہ طے نہ ہوجائے ہمیں بھینس کے آگے بینڈ بجاتے رہنا پڑیگا. ہماری آواز بہت زیادہ اٹھی تو وزیر اعلیٰ کی طرفسے سکریٹری اور سکریٹری کی طرف سے وعدے تک ٹلتا رہے گا اور بہت زیادہ بڑھ جائے تو شاید وزیر اعظم تک پہنچ جائے جو خود ایک نا اہل شدہ بندے کے اشاروں پر چلتا ہیاور اپنی کوئی حیثیت و شخصیت نہیں رکھتا،کم سے کم اس حالیہ تحریک سے جو نتیجہ نکلنا چاہئے وہ ٹیکس کے خاتمے کے ساتھ مقامی اسمبلی کے انتخابات کو وفاقی الیکشن کے ساتھ منعقد کرنے کو یقینی بنانے کی صورت میں نکلنا چاہئےتاکہ آئندہ کیلئے وفاقی حکومت کے زیر تسلط ہونیوالے الیکشن کے خمیازے سے بچ سکیں کیونکہ وفاق میں موجود حکومت کی وجہ سے ہی مقامی لوگ مفادات کیلئے ضمیر فروشی کرنے سے لیکر عوام کو سبز باغ دکھا کر ناجائز فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
تحریر : شریف ولی کھرمنگی
وحدت نیوز(لاہور) پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے باوجود بھارت کی لائن آف کنٹرول پر جارحیت اور نوجوانوں کی شہادت کھلی دہشتگردی ہے،بھارت کیخلاف پوری قوم متحدہے،اور انکے کے ناپاک عزائم سے بھی ہم باخبر ہیں،وقت آگیا ہے کہ وطن دشمنوں کو پوری طاقت کیساتھ جواب دیا جائے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر افتخارحسین نقوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت ایل اوسی پر جارحیت اور مودی کے یار ملک میں اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں،قوم متحد ہو کر وطن دشمنوں کیخلاف میدان عمل میں نکلیں،ہم اپنی جان مال اولاد قربان کردینگے لیکن کسی کو مادر وطن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دینگے،انہوں نے کہا کہ وطن کادفاعی عین شرعی فریضہ ہے،دنیا کی کوئی بھی طاقت اس شہید پرور قوم کو زیر نہیں کر سکتی،پاکستان ہمارے آباو اجداد نے بے مثال قربانیاں دے کر بنایا تھا اور اسے بچانے کے لئے بھی کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی ہدایت پر یوم ولادت حضرت عیسیٰ ؑاور قائد اعظم محمد علی جناحؒ انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ منایاگیا، مرکزی سیکریٹریٹ سمیت چاروں صوبوں، آزادجموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے صوبائی اور مختلف اضلاع کےدفاتر میں قرآن خوانی،سیمینارز، کیک کٹائی کی تقریبات منعقد ہوئیں جبکہ جشن ولادت پیغمبر خداحضرت عیسیٰ ابن بریم ؑ (کرسمس)کے پر مسرت موقع پر مختلف شہروں میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں پر مشتمل وفود نے گرجاگھروں (چرچ) میں جاکر مسیحی رہنماوں اور برادری سے اظہار یکجہتی کیا ، انہیں کیک اور پھولوں کے تحائف کے ساتھ حضرت عیسیٰ ؑکے روز ولادت کی مبارک باد پیش کی، اس موقع پر مسیحی برادری اور ان کے مذہبی رہنماوں کی جانب سے مجلس وحدت مسلمین کے وفود کا شکریہ ادا کیا گیا اور وطن عزیز میں بھائی چارگی، اتحاد ویگانگت سمیت قومی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں کی گئیں ۔
کرسمس کےپرمسرت موقع پر مجلس وحدت مسلمین ضلع چکوال کے وفدنے پریسٹیرین چرچ (Presbyteria Church) کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے مسیحی رہنماوں سے ملاقات کی اور انہیں کرسمس کی خوشیوں کی مبارکباد اور پھول پیش کئے،مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کے ایک وفد نےضلعی رہنما مولانا غلام محمد فاضلی کی سربراہی میں مسیحیوں کے چرچ میں جا کر کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کو مبارک باد پیش کی اور کیک بھی کاٹ گیا، اس موقع پر مسیحی برادری کے رہنماؤں نے ایم ڈبلیوایم کے وفد کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وفد کا شکریہ ادا کیا. آخر میں دونوں رہنماؤں نے ملکی سلامتی کے لئے دعا کی،مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کےزیر اہتمام بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت کے موقع پر ڈویژنل سیکریٹریٹ میں قائد وحدت علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی ہدایت پر منعقدہ تقریب بعنوان"ہمیں قائد اعظم کا پاکستان چاہئے" سے ڈویژنل سیکرٹری جنرل علامہ صادق جعفری،علامہ اظہر حسین نقوی،علامہ سجادشبیر رضوی،علامہ احسان دانش، میر تقی ظفر نے خطاب کیااور قائد اعظم کی عظیم قیادت کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی بعد ازاں کیک بھی کاٹا گیا،مجلس وحدت مسلمین ضلع لاہور شادمان یونٹ کے زیراہتمام 25 دسمبر یوم ولادت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مناسبت سے مسجد قصر بتول شادمان میں ان کی بلندئ درجات کے لیئے قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، مجلس وحدت مسلمین ضلع سکردوکےزیر اہتمام بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت کے موقع پر ڈویژنل سیکریٹریٹ میں قائد وحدت علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی ہدایت پر منعقدہ تقریب بعنوان"ہمیں قائد اعظم کا پاکستان چاہئے" سے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ آغا سید علی رضوی،ضلعی سیکریٹری جنرل مولانا فدا علی ذیشاننے خطاب کیا اس موقع پر بڑی تعداد میں کارکنان نے شرکت کی،ٹنڈو الہیا ر میں بھی ایم ڈبلیوایم کے زیر اہتمام قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کے موقع پر تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور کیک بھی کاٹا گیا ،مجلس وحدت مسلمین ضلع جیکب کےزیر اہتمام بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت کے موقع پر منعقدہ تقریب سے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی،ضلعی سیکریٹری جنرل مولانا سیف علی حیدری و دیگر نے خطاب کیا، تقریب کے اختتام پر کیک بھی کاٹا گیا،مجلس وحدت مسلمین ضلع لاڑکانہ کےزیر اہتمام بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت کے موقع پر ضلعی سیکریٹریٹ میں منعقدہ تقریب سے ضلعی سیکریٹری جنرل مولانا محمد علی شرنے خطاب کیا، اس موقع پر بڑی تعداد میں کارکناننے شرکت کی اور آخر میں کیک بھی کاٹا گیا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی باضابطہ دعوت قبول کرتے ہوئے شرکت کی یقین دہانی کروادی ہے، تفصیلات کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاون پر جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے اجراءکے بعد ملزمان کی عدم گرفتاری اور انصاف کے حصول میں رکاوٹوں کے خلاف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی زیر صدارت 30دسمبر ،بروز ہفتہ ، منہاج سیکریٹریٹ میں آل پارٹیز منعقد کی جارہی ہے جس میں ملک کی تمام قومی سیاس ومذہبی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت شرکت کررہی ہے، ایم ڈبلیوایم کی مرکزی پولیٹیکل کونسل کے کوآرڈینیٹر آصف رضا ایڈوکیٹ نے وحدت نیوز سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکریٹری جنرل خرم نواز گنڈہ پور نےخود فون کرکے علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کو آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کرلیاہے، واضح رہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان سانحہ ماڈل ٹاون میں چودہ بے گناہ خواتین ، بزرگوں اور جوانوں کے بہیمانہ قتل عام کے خلاف انسانی ہمدردی اور اتحاد بین المسلمین کی بنیادپر روز اوّل سے پاکستان عوامی تحریک کے شابہ بشانہ کھڑی ہے اور شہداءکو انصاف ملنے تک مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کی مخالفت کااپنا فریضہ انجام دیتی رہے گی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی، امام علی رضا علیہ السلام کی بہن اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں، انہیں کے پر مہر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔ اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یہی کافی ہے کہ امام وقت نے تین بار فرمایا:{فداھا ابوھا} یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ کتاب "کشف اللئالی" میں مرقوم ہیں کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جن کا جواب وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عمر بہت کم تھی لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔
مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی رہ اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی قبر کا جگہ معلوم کرنے کے لئےایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا:{علیک بکریمۃ اھل البیت} یعنی تم کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیہا کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں"۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قبر ہے"۔ پھر فرمایا:"کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے ۔
امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے۔ حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔ اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں ۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے ، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کواہل قم نے گلبارن کرتے ہوئےموسیٰ بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے۔
بی بی مکرمہ نے 17 دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے ۔ جس جگہ آج حرم مطہر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا ہے یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ س کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کر کے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ س کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔
امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں : {من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی } یعنی جس نے قم میں معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی۔ حضرت معصومہ کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں.امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ إنَ لِلّہِ حَرَماً وَ ہُوَ مَکَہُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ (ص) حَرَماً وَ ہُوَ الْمَدِینَۃُ وَ إِنَ ِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ ہُوَ الْکُوفَۃُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ ہُوَ بَلْدَۃٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیہَا امْرَأَۃٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَۃَ فَمَنْ زَارہَا وَ جَبَتْ لَہُ الْجَنَۃ} خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے، اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے۔ اور عنقریب میری اولاد میں سے موسی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ ایک اور بیان کے مطابق آپکی زیارت کا اجر بہشت ہے۔ امام جوادعلیہ السلام نے فرمایا: جو کوئی قم میں پوری شوق اور شناخت سے
میری پھوپھی کی زیارت کرے گا وہ اہل بہشت ہو گا.حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے"۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:{تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعہم} یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔
منابع:
1۔ منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸.
2۔ کریمہ اہل بیت، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی.
3۔دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹ ۔
4۔زندگانی حضرت معصومہ / آقائے منصوری : ص/ ۱۴ ، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی ۔
5۔دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی : ص/۱۲ ، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری ۔
6۔تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳ ۔
7 ۔مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹.
8۔ ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵.
9۔ کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶.
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز (مظفرآباد) تفصیلات کے مطابق ملت جعفریہ کی جملہ تنظیمات پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس دفتر مجلس وحدت مسلمین مظفرآباد میں منعقد ہوا۔اجلاس کی صدارت سرپرست اعلی علامہ مفتی سید کفایت حسین نقوی نے کی۔ اجلاس میں چیئرمین کمیٹی سید شبیر حسین بخاری سربراہ جعفریہ سپریم کونسل آزاد کشمیر،علامہ سید فرید عباس نقوی وائس چیئر مین جعفریہ سپریم کونسل آزاد کشمیر، مولانا طالب حسین ہمدانی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر،مولانا سید معصوم علی سبزواری صدر شیعہ علماء کونسل ضلع مظفرآباد،سید شجاعت علی کاظمی کوآرڈینیٹرانسداد دہشت گردی ایکشن کمیٹی،سید راشد علی نقوی صدر انجمن جعفریہ جہلم ویلی ،سید تصور عباس موسوی،نمائندہ آئی او،نمائندہ آئی ایس اوکے علاوہ دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں علامہ تصور جوادی کیس پر انتظامی کارکردگی پر سخت مایوسی کا اظہار کیا گیا،انتظامی اداروں کی اس کیس پر عدم پیش رفت ایک مجرمانہ فعل ہے اور ناقابل معافی عمل ہے۔ شرکاء اجلاس نے کہا کہ ایس ایس پی مظفرآباد کی کارکردگی صفر ہے، پولیس آفیسر مجرمان کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے۔ 15فروری 2017کے واقعہ کے بعد آزادکشمیر میں بالعموم اور مظفرآباد ڈویژن میں بالخصوص کالعدم تنظیموں کی فعالیت عروج پر پہنچ چکی ہے جسکی بارہا نشاندہی کی گئی لیکن انتظامیہ نے بات گول کر دی۔مقررین نے کہا کہ اب اس کیس کا فیصلہ سڑکوں پر ہو گا اور حالات کی تمام تر زمہ داری انتظامیہ پر ہو گی۔ کوآرڈینیٹرکمیٹی سید طالب حسین ہمدانی کے کہا کہ ہم انتظامیہ کے ساتھ امذید ملاقاتیں نہیں کریں گے بلکہ اب انتظامیہ کو ہمارے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ 15فروری 2018کو مظفرآباد ڈویژن میں دما دم مست قلندر ہو گا،اور اسی طرح کا احتجاج ہو گا جیسا اْس سانحہ کے روز ہوا تھا۔اب کی بار احتجاج چارٹر آف ڈیمانڈ مکمل ہونے تک جاری رہیگا۔ شرکاء اجلاس نے بہت جلد ایک تفصیلی پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا جس میں آئندہ کا لائحہ عمل پیش کیا جائے گا۔اجلاس میں اس بات کا بھی فیصلہ ہوا کہ جلدازجلد وزیراعظم آزادکشمیر سے ایک آخری ملاقات کی جائے گی اور اپنے تحفظات و آئندہ کا لائحہ عمل سامنے رکھا جائیگا۔