The Latest
اسلم رئیسانی ہٹ دھرمی سے باز آجائیں ہاشم موسوی کوئٹہ میں نماز جمعہ کے خطبے سے خطاب کرتے ہوئے رکن شوری عالی علامہ سید ہاشم موسوی نے سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان حکومت کی نااہلی کے حوالے سے فیصلہ پر گفتگو کرتے ہو ئے کہا کہ اسلم رئیسانی کو ہٹ دھرمی کے بجائے سپریم کورٹ کا فیصلہ مان لینا چاہیے
انہوں نے کہاکہ جب سپریم کورٹ کے فیصلے سے وزیر اعظم گھر جا سکتا ہے تو وزیر اعلی کیوں نہیں جا سکتا ؟
انہوں نے کہا کہ اسلم رئیسانی کے پاس اب کوئی قانونی حثیت نہیں رہ جاتی ،بلوچستان حکومت کا احتساب ہونا چاہیے
خاص طور پر بد امنی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بلوچستان حکومت جوابدہ ہے انہوں نے کہا بلوچستان حکومت کے دور میں کرپشن تارگٹ کلنگ اغوا برائے تعاوان مسخ شدہ لاشیں ایسے مسائل ہیں جن سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں اہل تشیع ھزارہ کا منظم قتل عام کی تحقیقات میں بلوچستان حکومت کی ناہلی کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہیے انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ جتنی جلدی ہوسکے گورنر راج قائم کیا جائے تاکہ مزید حالات خراب نہ ہوں
یوم آزادی گلگت بلتستان کی مناسبت سےمجلس وحدت کی جانب سے موٹر سائیکل ریلی کا اہتمام
یوم آزادی گلگت بلتستان کی مناسبت مجلس وحدت مسلمین گلگت کی جانب سے ایک موٹر سائیکل ریلی نکالی گئی جو شہر کے مختلف اہم شاہراہوں پر آزادی کے حق میں نعرے لگاتی رہی
اس ریلی کااہتمام مجلس وحدت مسلمین شعبہ جوان گلگت نے کیا تھا جس کی قیادت علامہ شیخ عاشق حسین ،غلام عباس ،سعید الحسین،اور محمد حسین نے کی ۔
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے زیراہتمام پنجاب بھر میں یوم غدیر عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ لاہور میں جشن غدیر مختلف مقامات پر ہوئے محلہ شیعیان اندرون موچی دروازہ میں علامہ حیدر الموسوی نے خطاب کیا۔ امام بارگاہ کاروان ابوطالب ایجرٹن روڈ میں علامہ محمد علی جوہری نے جشن غدیر کے اجتماع سے خطاب کیا۔ اسی طرح اقبال ٹائون صوبائی سیکرٹریٹ میں علامہ حسنین عارف نے جشن غدیر کے سلسلے میں منعقد تقریب سے خطاب کیا اور کہا کہ اسلام میں آج کے دن کی اہمیت کو تمام مکاتب فکر کے مسلمہ اور مصدقہ تاریخ کتب میں درج ہیںاور اعلان ولایت پر تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔ مریدکے میں جشن غدیر کے اجتماع سے علامہ ابوذر مہدوی ، علامہ محمد فاضلی ، علامہ سر فراز حسینی مسئول شعبہ تربیت حوزہ علمیہ دمشق اور علامہ حسن ہمدانی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ضلع شیخوپورہ نے خطاب کیا اور غدیر کی اہمیت سے اہل اسلام کو آگاہ کیا ۔رانا ٹائون ، حیدر روڈ مسجد علی شیخوپورہ ، ننکانہ صاحب ، فیصل آباد میں بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوئے جس میں مقررین نے مولائے کائنات حضرت علی ؑ کے اعلان ولایت پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ سیالکوٹ میں بھی سب سے بڑ ا اجتماع واپڈا گرائونڈ میں منعقد ہوا جس میں ہزاروں فرزندان ولایت شریک ہوئے ۔ اسی طرح قصور میں جشن غدیر کے اجتماع حاجی صبح صادق سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ضلع قصور کی صدارت میں منعقد ہوا۔ سرگودھا میں علامہ عبدالخالق اسدی صوبائی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب نے اجتماع سے خطاب کیا۔ جشن غدیر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے خواتین اور بچوں کے لئے عید غدیرفیسٹول اور چراغاں کا اہتمام کیا گیا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے عید غدیر کی مناسبت سے سالانہ جشن عید غدیر و چراغاں کا انعقاد علامہ رشید ترابی پارک انچولی سوسائٹی میں کیا گیا۔ پروگرام میں بچوں کی تفریح کے لئے تفریحی گیمز اور جھولے بھی موجود تھے، جبکہ اس موقع کھانے پینے کے اسٹال بھی لگائے گئے تھے۔ پروگرام میں میدان غدیر کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے پالان کا منبر بھی بنایا گیا اس موقع پر پورے پارک میں چراغ روشن کئے گئے۔ بعد ازاں وسیم الحسن عابدی سمیت دیگر منقبت خوانوں نے امام علی (ع) کی شان میں اپنے کلام پیش کئے جبکہ مولانا میثم خوئی نے اختتامی دعا کرائی، اختتامی دعا کے بعد بچوں میں عیدی بھی تقسیم کی گئی۔ پروگرام میں مومنین و مومنات نے اپنی فیملی کے ہمراہ بڑی تعداد میں شرکت کی
عمران خان جب اپنی سیاسی تحریک کو سونامی کہتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب یہ قاتل لہریں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو فورا ہی پیچھے ہٹنے لگتی ہیں – مجھے ڈر ہے کہ شاید ان کی پاکستان تحریک انصاف بھی ایک سال پہلے اپنے بلند ترین نشان کو چھوچکی ہے اور اب اس کا اتار شروع ہو چکا ہے .
ابھی صرف ایک سال پہلے ہی جب عمران خان نے لاہور میں اپنی بڑی ریلی نکالی تو ہماری یہ سونچ کہ یہ پاکستانی سیاست میں تبدیلی کا لمحہ ہے قابل معافی تصور ہونا چاہئے- احساس یہ تھا کہ عمران خان اور ان کے نوجوان حامیوں کے سامنے لامحدود امکانات روشن ہو گئے ہیں- ریلی کے موقع پر جوش و خروش اور توانائی سے بھرپور جذبہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا -
مجھ جیسے سخت نکتہ چیں بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم ایک نئی قوت کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں جو ہمارے ضمیر فروش سیاسی نظام میں ایک نیے آدرش کو جنم دیگی جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے .
لیکن جس طرح مکھیاں شہد پر لپکتی ہیں اسی طرح کامیابی بھی موقع پرستوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے- چنانچہ چند ہفتوں بعد ہمیں کراچی کی ریلی میں وہی سارے پرانے چہرے نظر آے جنھیں ہم اپنے سیاست کے میدان میں برسہا برس سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں- انھیں غالبا یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اقتدار کی دیوی عمران خان پر مہربان ہے .اور شاید انہوں نے ہمارے مطلق العنان انٹلیجنس ایجنٹوں کی گمراہ کن سرگوشیاں بھی سن لی تھیں .سو انہوں نے جرات سے کام لیتے ہوے اپنی قسمت کی باگ ڈور اس ابھرتے ستارے کے ساتھ باندھ دیں-
ان میں سے بعض اب اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں – کم از کم دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئ کی ایک امیدوار اس بات پر بر افروختہ ہیں کہ عمران خان نے انھیں دوسروں کے سامنے شرمندہ کیا- انھیں وثوق کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا رہنما سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریگا چنانچہ انہوں نے علاقے کے ممتاز اکابرین کو ان سے ملنے کے لئے مدعوکر لیا .
عمران خان نے آخری لمحے اپنا دورہ منسوخ کر دیا جس کی وجوہات خاصی بودی تھیں- پارٹی کے مقامی حامیوں کو بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور جیسا کہ ہمارا معاشرہ ہے اس قسم کی بے توقیری شدید ناراضگی کا سبب بنتی ہے- اگرچہ عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ آزاد خیال لوگوں کے مقابلے میں دیہی معاشرے کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں ، یہ واقعہ تکبر کی بد نما مثال ہے .
گو کہ اس واقعہ کو اپنی نوعیت کی واحد مثال دیکر نظرانداز کیا جا سکتا ہے، پی ٹی آئ کے سربراہ سالہا سال سے دوسرے لوگوں کے نظریات کی جانب جو انکی طرح قد آور نہیں ہیں مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہارکرتے آے ہیں- انکا یہ یقین کہ وہ ‘ اور صرف وہی’ راست باز ہیں ٹی وی کے ہر شو میں واضح نظر آتا ہے- لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایسے لوگوں کی کمی نہیں -
اور جب انھیں غلط ثابت کیا جاتا ہے تو مجھے ابھی تک یہ سننے کا اتفاق نہیں ہواکہ انہوں نے اپنی غلطی کا کبھی اعتراف کیا ہو- مثلا جب ٢٠٠٩ میں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو عمران خان نے فورا اپنی انگلی کا اشارہ سرحد کے اس پار کر دیا، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ قاتل کبھی پاکستانی نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم سب کرکٹ سے محبت کرتے ہیں اور کبھی خواب میں بھی سونچ نہیں سکتے کہ ہم مہمان ٹیم کے اراکین کو ہلاک کرنے کی کوشش کرینگے- لیکن جب یہ واضح ہو گیا کہ قاتلوں کا تعلق پنجابی طالبان سے تھا تو عمران خان نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا کہ وہ غلط تھے-
اپنی تحریک کا مقابلہ پی پی پی کی اس تحریک سے کرنا انہیں بہت مرغوب ہے جس نے 1970 کے انتخابات کو بھاری اکثریت سے جیتا تھا- بنیادی فرق یہ تھا کہ بیالیس سال پہلے ذوالفقارعلی بھٹو نے بہت سے گمنام چہروں کو اپنی پارٹی کے امیدواروں کی حثییت سے متعارف کروایا تھا. چنانچہ وہ روٹی ، کپڑا اور مکان کے نیے نعرے کو، جو ان کی پارٹی کا بنیادی نظریہ تھا آلودہ نہیں کر پاۓ تھے.
گو کہ عمران خان نے ایک نئی سمت دکھائی ہے لیکن جو ٹیم انہوں نے اکٹھا کی ہے وہ بڑی حد تک اسی پرانے ، فرسودہ نظام سے تعلق رکھتی ہے جسے وہ مٹا دینا چاہتے ہیں .
چنانچہ وہ لوگ بھی جو ان کے حامی ہیں، مایوس ہونے میں حق بجانب ہیں- ان کا ہیرو یہ کہکر ان پرانے چہروں کے انتخاب کی مدافعت کرتا ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے حلقوں سے ” منتخب ” ہو سکتے ہیں .
ہو سکتا ہے یہ لوگ واقعی اگلے انتخابات میں منتخب ہو جاییں،لیکن کیا یہ مناسب ہوگا کہ محض چند نشستوں کی خاطراپنے حامیوں کی کثیر تعداد کو نظرانداز کر دیا جاۓ؟ کیا یہ زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ کوشش کرتے اور نیے چہروں کے ساتھ انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتتے؟ جیسا کہ بھٹو نے 1970 کے انتخابات میں کیا تھا- نہ کہ محض دس بارہ محفوظ نشستوں پر اکتفا کرتے؟
درایں اثنا شاید پی ٹی آئ کے جانبازوں کو یہ بات بری لگے لیکن پی ٹی آئ کو غالبا کم و بیش دس سے لیکر پندرہ تک نشستیں مل سکتی ہیں -سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین سے بات چیت کے بعد اسی پر سب کا اتفاق راۓ نظر آتا ہے- لاہور کی پرجوش ریلی پر پلٹ کر نظر ڈالی جاۓ تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئ کی مقبولیت میں اتنی تیزی سے کمی آئ ہے.
حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں تک عمران خان کے متضاد نظریات کا تعلق ہے تو میں ان سے بہت کم اتفاق کرتا ہوں- یقینا میں اس بات پر خوش ہوں کہ انہوں نے نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو سیاست میں دلچسپی لینے کا راستہ دکھایا ہے- جب تک انکا یہ پیغام سامنے نہیں آیا تھا نوجوان پاکستانی مکمل طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے، کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا یہ وہ کھیل ہے جسےعمررسیدہ سیاستدان اپنے مفاد میں کھیل رہے ہیں-
یقینا میری خواہش تھی کہ عمران خان اپنی منفرد صلاحیت اور شخصی کشش کو استعمال کرتے ہوۓ نوجوان نسل کو ایک ترقی پسند نئی راہ دکھاتے نہ کہ شدید مغرب دشمنی اور قدامت پسندی کی راہ، جو انکی راہ ہے- میں اپنے ملک کی سیاسی پارٹیوں اور انکی ناکام پالیسیوں پر انکی تنقید سے بڑی حد تک اتفاق کرتا ہوں لیکن افسوس کہ جو متبادل راہ وہ پیش کرتے ہیں وہ میرے لئے کشش نہیں رکھتی .
ایک اور بات جسے عمران خان محسوس نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نظام انتخاب میں ( فرسٹ – پاسٹ – دی پوسٹ الیکٹورل سسٹم یعنی ووٹنگ کا ایسا نظام جس میں جیتنے والے امیدوار کے لئے ضروری ہے کہ وہ دیگر تمام امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کرے لیکن ڈالے جانے والے ووٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کرنا ضروری نہیں) شخصی مقبولیت کا مطلب قطعا یہ نہیں کہ پارٹی کثیر تعداد میں نشستیں جیت لے- ہو سکتا ہے شہری حلقوں میں وہ ریکارڈ اکثریت سے جیت جاییں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں بہ حثیت مجموعی کامیابی حاصل ہوگی .
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اندازہ ہے کہ اگلے انتخابات میں انہیں ویسی کامیابی نہ ہوگی جس کا انہوں نے وعدۂ کیا ہے- چنانچہ اپنی مدافعت میں ” پول سے پہلے کی دھاندلی” کی باتیں شروع کرکےوہ اپنے لئے زمین تیار کر رہے ہیں-
ان کی ان باتوں میں ہمیں اصغرخان کے اس دعوے کی باز گشت سنائی دیتی ہے کہ 1977 کے انتخابات میں پی این اے کامیاب ہوگی اور اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ قابل قبول نہ ہوگا- جب اصغر خان نے پی پی پی اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے معاہدے کے پرخچے اڑا دئے تو پی پی پی کی حکومت کو گرانے کی پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں ضیا کو فوجی بغاوت کرنے کا موقع ملا.
لوگوں کی بڑی تعداد کو عمران خان کی متبادل قیادت پرکشش نظر آئ تو اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اصولوں پر سودے بازی سے انکار کر دیا تھا – لیکن اب وہ خود مصا لحت کرنے پر اسی طرح تیار نظر آتے ہیں جیسے کوئی راہ چلتا عام سا عیارسیاست دان-
مثال کے طور پر ابتدا میں تو انہوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ کسی قسم کا لین دین کرنے سے انکار کر دیا تھا- بلکہ وہ تو بہت سی دستاویزات لیکر اسکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس گئے تھے جس میں انہوں نے مجوزہ طور پر الطاف حسین کو مختلف جرائم میں ملوث دکھایا تھا – اب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب ماضی کی بات تھی اور انہیں ایم کیو ایم سے اب کوئی مسئله نہیں ہے.
لیکن اپنی پوزیشن میں ان تبدیلیوں سے بدتر انکی وہ کوششیں ہیں جو وہ متواترداییں بازو کی مذہبی پارٹیوں کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا ہے – تاہم اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود مجھے ان تمام امکانات کے ضا یع ہونے کا گہراافسوس ہے جس کی علامت عمران خان کی گھٹتی ہوئی مقبولیت ہے
کراچی۔ملت جعفریہ پاکستان 18اٹھارہ ذوالحج تا24چوبیس ذوالحج ہفتہ ولایت مناے گئی۔ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکرٹری جنرل مولانا صادق رضا تقوی ،اور دیگر رہنماؤں نے مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام عید غدیر کی مناسبت سے منعقدہ محفل چراغاں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماؤں کاکہنا تھا کہ عالم اسلام کو عید غدیر کے با مسرت موقع پر پورے عالم اسلام کو مبارک باد دیتے ہیں اور 18اٹھارہ ذوالحج تا24چوبیس ذوالحج ہفتہ ولایت منانے کا اعلان کرتے ہیں۔ رہنماؤں کاکہنا تھا کہ حج الوداع کے روز پیغمبر اکرم کے توسل سے خدا نے دین کو مکمل کر دیا اور حضرت محمد ﷺ نے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں ولایت حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سپرد کی گئی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنماؤں کاکہنا تھا کہ اٹھارہ ذوالحج کی مناسبت سے عید غدیر کے عنوان سے ملک بھر کی طرح کراچی شہر میں بھی چراغاں ،سیمینارز،لیکچرز،اور دیگر تربیتی پروگرام سمیت محافل میلاد کا انعقاد کیا جائے گا اور جس میں اٹھارہ ذوالحج کی اہمیت کے عنوان پر علماء اور اسکالرز خطابات کریں گے اور اس عظیم عید کی اہمیت کو اجاگر کریں گے۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ مسلم امہ کے اتحاد اور یگانگت کے لئے عید غدیر کا موقع انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاہم تمام مسلمانوں کو چاہئیے کہ اس موقع پر غدیر اور ولایت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔جبکہ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما مولانا علی انوار ،مولانا کریمی ۔اصغر زیدی ، ،آصف رضوی ،آغامبشیر حسن ،میثم عابدی ، بھی ہمراہ موجود تھے
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ شیعان حیدر کرار ملکی بقاء کے ضامن ہیں، جو وطن عزیز کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ تاہم بدقسمتی سے ملک دشمن قوتوں کو ان کا یہ ایثار اور جذبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے فیصل آباد میں ’’عزاداری اور عزاداروں کے تحفظ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ شیعہ نسل کشی ملک دشمنی کے مترادف ہے، جس کو روکنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے وزیر قانون دہشتگردوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔
سیکرٹری سیاسیات نے صوبائی اجلاس میں کابینہ کو
بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب بھر میں سیاسی مہم کو تیز تر کیا جائے اور اس مہم کو گلی محلے کی سطح تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے اپنے دورہ چنیوٹ،سرگودھا اور فیصل آباد کے بارے میں بھی صوبائی کابینہ کے ارکان کو آگاہ کیا اور بتایا کہ سرگودھا، چنیوٹ اور فیصل آباد میں ضلعی ارکان اور مذہبی و سیاسی شخصیات کے اجتماعات سے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیاسی کلچر کو بدل کر اسلام محمدی (ص) کی اقدار کو زندہ کرے گی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے چنیوٹ میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور عدالتی فیصلوں پر عمل نہ ہونا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بدترین ناکامی اور نااہلی کا واضح ثبوت ہے، جس کی وجہ سے ملک دشمن قوتوں کو پاکستان میں کھلا کھیل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے، پاکستان میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت پاکستان کی مشکلات کا اصل سبب بن رہی ہیں، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے۔
سیکرٹری شعبہ فلاح و بہبود اور انچارچ خیر العمل فاونڈیشن نثار فیضی کا اسلام ٹائمز کے لئے دیے گئے انٹریو کے کچھ اقتباسات
۔۔ملت تشیع کے لیے فلاحی کاموں کو زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ شعبہ فلاح و بہبود کے بھی تین مزید شعبے ہیں، جن میں ایک ہنگامی یا حادثاتی واقعات سے نمٹنے کے لیے ہے جو کہ ڈیزائسٹر مینجمنٹ شعبہ کہلاتا ہے۔ دوسرا شعبہ ترقیاتی کاموں کا ہے اور ہمارا تیسرا شعبہ ہیومن رائٹس کے حوالے سے ہے۔ مجلس وحدت مسلمین جو پورے پاکستان کے اندر اپنا وجود رکھتی ہے، اسی لیے ہمارا پہلا شعبہ انہی کاموں کے لیے بنایا گیا کہ ملک میں خدانخواستہ کوئی آفت آتی ہے تو اس کی صحیح معلومات اور اس نقصان کا صحیح طور پر اندازہ لگایا جائے، تاکہ مزید نقصان کو روکا جائے اور ان مسائل کے حل کے لیے اپنے جوانوں کی توانائی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ ہمارے دوسرے شعبہ کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں تمام ترقیاتی کاموں کو بخوبی نمٹایا جائے اور اس سلسلے میں ملک کے دیگر ادارے جو ترقیاتی کاموں میں مصروف ہیں، ان سے بھی استفادہ کیا جائے۔ اسی طرح ہمارے تیسرے شعبے کا کام انسانی بنیادوں پر دکھی انسانیت کی مدد کرنا ہے اور ان کے حقوق دلوانا ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان پورے ملک میں ثقافتی، نظریاتی، فرہنگی کام بھرپور کر رہی ہے اور ایم ڈبلیو ایم نے تمام کاموں کا مرکز مسجد کو قرار دیا ہے۔ پس خیرالعمل فاؤنڈیشن نے مساجد کی تعمیر کو پورے پاکستان میں شروع کیا۔ اس وقت ہم تین بڑی مساجد مکمل طور پر تعمیر کرچکے ہیں۔ کچھ مساجد تعمیراتی مراحل میں ہیں اور کچھ ہی عرصے میں وہ بھی مکمل ہو جائیں گی۔ یہ سارا کام ہمارا پہلا مرحلہ تھا۔ گزشتہ دنوں میں خود سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرکے آیا ہوں، اب انشاء اللہ ہم نے ان علاقوں میں مساجد بنانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔ جس کو ہم جلد ہی عملی جامہ پہنائیں گے۔
ہمارے پاس مساجد کی تعمیر کی تین کیٹگریاں ہیں، ان میں سے ایک تو وہ مسجد ہے جس میں نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے اور اس مسجد میں زیادہ تعداد میں لوگ نماز ادا کرتے ہیں، دوسری مسجد وہ جس میں نماز جمعہ تو ادا نہیں کی جاتی لیکن لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مسجد میں نماز ادا کرتی ہے، جب کہ مسجد کی تیسری کیٹگری وہ ہے جو چھوٹی مسجد ہے اور ایک محلہ میں تعمیر کی ہے۔ C کیٹگری کی مسجد ہم نے سندھ اور بلوچستان میں بہت تعمیر کرائی ہیں۔ D کیٹگری اس سے چھوٹی مسجد ہوتی ہے جس میں دو کمرے ہوتے ہیں اور اس مسجد میں 60 سے 70 افراد کے نماز ادا کرنے کی جگہ ہوتی ہے۔ ہماری بڑی مسجد تقریباً 700 افراد کی نماز ادا کرنے کی جگہ پر محیط ہوتی ہے
ہم نے آغاز میں سندھ اور بلوچستان میں تقریباً 270 رہائشی کمرے بنائے تھے۔ اس دفعہ ہم انشاءاللہ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے لوگوں کے لیے 2000 رہائشی کمرے بنائیں گے۔ اسی طرح ہم نے صوبہ خیبر پختونخوا کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی کا اعلان کیا ہے، جس میں تقریباً 200 مکمل گھر ہوں گے۔ ہم انشاءاللہ راجن پور میں ایک بڑا ہسپتال تعمیر کریں گے۔ جس کا سنگ بنیاد عنقریب ہی رکھا جائے گا۔ راجن پور میں پہلے الخدیجہ کے نام سے میڈیکل سینٹر چل رہا ہے، اس میڈیکل سینٹر کو ہم عنقریب انشاءاللہ ایک بڑے ہسپتال میں تبدیل کر رہے ہیں۔ مخیر حضرات سے ہماری بات طے ہوگئی ہے، تقریباً ابتدائی مرحلہ طے پا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم عنقریب یتیم خانہ بھی کھولیں گے، جس میں یتیم بچوں کی کفالت کی جائے گی۔ جس میں ابتدائی مرحلے میں گلگت بلتستان، کشمیر اور سندھ سے یتیم بچوں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا جائے گا۔