وحدت نیوز(کراچی) نوجوانوں کے زریعے ہی ملک میں تبدیلی لائیں گئے ۔نوجوان ایک بڑی طاقت اور قوت ہیں ۔سازش کے تحت نوجوانوں کو قتل و غارت کی سیاست میں دھکیلا گیا۔پاکستانی نوجوانوں میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے ۔ سیاست دانوں نے نوجوانوں کو اپنی بھٹی کا ایندھن بنایا ،ایم ڈبلیو ایم نوجوانوں کی صلاحیتوں کا تعمیری کاموں میں استعمال کرے گئی ۔یہ بات مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکرٹری سیات علی حسن نقوی نے شہید حسینی ہال ملیر جعفری طیار میں یوتھ کنونش میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے کی ۔اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کراچی ڈویژن کے سیکرٹری جنرل میثم عابد،سیکرٹری یوتھ کراچی ڈویژن یاور عباس ،ضلعی سیکرٹری یوتھ غیور عباس ،کاظم نقوی ،نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پرمختار منگی ،رضا رضوی ،حامد حسین و دیگر موجود تھے ۔

علی حسین نقوی نے کہا کہ نوجوانوں نے ہمیشہ تبدیلی کے لیے اہم کادار ادا کیا ہے ۔پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد 50فیصد سے زیادہ ہے ۔نوجوانوں کی اتنی بری تعداد اور قوت ملکوں میں انقلاب برپا کردیتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ وحدت یوتھ پر عزام ،بہادر اور جرات مند نوجوانوں کا قافلہ ہے ،انہوں نے کہ اکہ نوجوان ملت جعفریہ اپنے اورقوم کے حقوق کے لیے متحدہوجائیں ،اور ظالم قوتوں ڈٹ کر مقابلہ کریں ۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) ہمارے صبر کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، انتظامیہ و حکومت علامہ تصور نقوی پر حملہ کرنے والوں کو فی الفور منظر عام پر لائے، انتظامی و حکومتی بے حسی و سستی ریاست کے امن کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، ریاست کے امن اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ سفاک درندوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کیا جائے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں وکشمیر کے رہنماؤں عابد علی قریشی، مولانا سید حمید حسین نقوی ، سید محسن سبزواری ایڈووکیٹ، سید عمران حیدر، مولانا سید زاہد حسین کاظمی و دیگر نے وحدت ہاؤس مظفرآباد سے جاری مشترکہ بیان میں کیا ۔

 انہوں نے کہا کہ اپنے ہر دلعزیز رہنما اور ان کی اہلیہ پر حملہ ریاستی امن پر حملہ ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو امن کی بقاء کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے ، ریاست میں بسنے والے شہری بالعموم ملت جعفریہ بالخصوص شدید تشویش میں مبتلا ہے، ہم پرزور و بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے ، ورنہ ہم سڑکوں پر نکلیں گے ، حکومتی ایوانوں کو جھنجوڑنے کے لیے راست اقدام سے بھی گریز نہیں کریں ۔

والدین کی خودکشی

وحدت نیوز(آرٹیکل) زندگی ہرجاندار کو پیاری  ہے، انسان  تو اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دیگر جانداروں کی زندگی کے تحفظ کے لئے بھی  پریشان رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انسان جنگلی حیات کی حفاظت کے لئے کانفرنسیں کرتا ہے اور آبی حیات کے تحفظ کے لئے منصوبے بناتا ہے، اسی طرح عالمی برادری کسی قوم کو دوسری قوم پر شبخون مارنے اور جارحیت کرنے کی اجازت نہیں دیتی،  بین الاقوامی برادری ، جنگی قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لئے قوانین وضع کرتی ہے اور سزائے موت کے حقدار افراد کے لئے بھی انسانی حقوق کی پاسداری کی بات کرتی ہے۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے ، جبکہ دوسرا رخ یہ ہےکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کانفرنسیں کرنے والے  وزیر اور مشیر ہی  جنگلی جانوروں کے شوقین نظر آتے ہیں اور حکمران اپنے شوق پورے کرنے کے لئے جنگلی حیات کے قوانین سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہم ماضی کی باتیں نہیں کرتے ، ابھی  دسمبر ۲۰۱۶ کی بات ہے کہ جب میڈیا  کے مطابق کھپرو میں 50کلو میٹر دور اچھڑو تھر کے علاقے رانا ہوٹرمیں متحدہ عرب امارات کے شہزادے شیخ سلطان بن خالد النیہان، شیخ سلطان بن محمد النیہان، شیخ احمد بن سلیم اور شیخ حمدان بن محمد النیہان ذاتی عملے کے ہمراہ تلور کا شکار کرنے رینجرز اور پولیس کے سخت سیکیورٹی میں 20سے زائد خیموں کے شہر میں پہنچ گئے، علاقے میں ایک کلو میٹر سے زائد رقبے پر خیموں کا شہر آباد کرکے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ۔[1] یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ  سعودی شاہی خاندان کے  افراد بلوچستان میں نایاب پرندے تلور کے شکار کی غرض سے دالبندین کے ایئر پورٹ پہنچے،جہاں صوبائی وزراء اور سینیئر سرکاری افسران نے ان کا استقبال کیا۔ یاد رہے  کہ سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے نایاب پرندے تلور کی نسل کو معدومی سے بچانے کے لئے بلوچستان ہائی کورٹ نے نومبر 2014ء میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔[2] ایک نجی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے تلور کا  فقط شکار نہیں کرتے بلکہ  یہ لوگ جن مقاصد کے لیے تلور کھاتے ہیں بعد میں ان مقاصد کی تکمیل کے لیے کچھ اور کام بھی کرتے ہیں.میں جو غیرت اور عزت کی بات کی ہے، آپ سمجھنے کی کوشش کریں میں کھلے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا۔ یہ حامد میر  کے الفاظ ہیں کہ قطری شہزادوں کے پاکستانی میزبان صرف ان کے لیے تلور کے شکار کا بندوبست نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی عزت اور غیرت کے شکار کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔[3]

یہاں قانون سے کھیلنے والے طالبان یا داعش نہیں تھے بلکہ ہمارے   حکمران تھے، اسی طرح طالبان یا داعش کی دہشت گردی کو چھوڑیے اور اپنے تعلیم یافتہ اور روشن فکر کہلانے والوں کی دہشت گردی کی فکر کیجئے،  لاہور میں کتنے ہی عرصے تک  ڈاکٹر حضرات لوگوں کو زبردستی جعلی سٹنٹ ڈالتے رہے ہیں، یہ دکھ اپنی جگہ ابھی باقی ہے کہ  یہ بھی انکشاف ہو گیا ہے کہ  لاہور میں ڈاکٹر حضرات نے لوگوں کو اغوا کر کے ان کے گردے بھی نکال کر بیچنے شروع کر دئیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ۳۰ اپریل ۲۰۱۷ کو ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپہ مارا تو اس وقت دو شہریوں کے گردے نکال کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈالے جا رہے تھے ۔جن دو شہریوں کی گردے نکالے گئے انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے اغوا کرکے زبردستی گردہ نکالا ۔[4]یہ ہیں ہماری یونیورسٹیاں اور ان سے پڑھ کر نکلنے والے مسیحا۔

اس سے ہمیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل کرنے کا اصلی سہرا انہی  روشن فکر لوگوں کے سر جاتا ہے جو اپنے مفادات کے لئے دینی مدارس کو بھی استعمال کرتے ہیں۔

   اس کے بعد  شبخون مارنے اور جارحیت کے حوالے سے آج ہم  فلسطین اور کشمیر کی بات نہیں کریں گے بلکہ  اپنے ہاں مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کی ویڈیو ہی دیکھ لیجئے ، اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اپنے آپ کو مہذب کہنے اور سمجھنے والے دوسروں کے خلاف کس طرح طاقت کا ستعمال کرتے ہیں،  اب تک کی اطلاعات کے مطابق  مشال خان قتل کیس میں پولیس نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے لیکن اس سے پہلے با اثر لوگوں اور ان کے بچوں اور عزیزوں  کے نام کیس سے خارج ہو چکے ہیں۔مشال خان کیس میں اب زیادہ تر کرائے کے قاتل ہی رہ گئے ہیں۔

ہمارے تعلیمی ا داروں میں صرف صرف مشال خان جیسے لوگ ہی نہیں مارے جاتے  بلکہ یہ  فروری ۲۰۱۷ کی بات ہے کہ  کیڈٹ کالج لاڑکانہ کے 14 سالہ طالب علم محمد احمد کو استاد نے  اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ  مکمل ذہنی صلاحیت سے  محروم ہوگیا ۔یہ کسی عام ادارے کی بات نہیں بلکہ ایک کیڈٹ کالج کی روداد ہے۔

بات کیڈٹ کالج کی ہوئی ہے تو کچھ ذکر سولجر بورڈ کا بھی کر لیتے ہیں، اس ادارے کا ایک اہم کام ریٹائرڈ  فوجی حضرات کے بچوں کو سکالر شپ دینا بھی ہے۔ریٹائرڈ ہونے والےچھوٹی سطح کے فوجی حضرات کے بچوں کے نصیب میں سکالرشپ فارم آتے ہی نہیں۔ انہیں کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ  ابھی فارم ختم ہوگئے ہیں اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اب تو تاریخ ختم ہو گئی ہے۔خصوصا آزاد کشمیر میں تو  کسی بڑے افیسر کی سفارش کے بغیر کسی عام فوجی کے بچے کا سکالرشپ لگ ہی نہیں سکتا۔

اب جہاں تک انسانی حقوق کی پاسداری کی بات رہ گئی ہے تو  تحریک طالبان پاکستان  اور جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان کو ہی اپنے سامنے رکھ لیں۔ احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں  کوئی نئی بات نہیں بتائی ،موصوف نے وہی کچھ کہا ہے کہ  جو سب کو پتہ ہے، ویسے بھی اس کے پاس ایسی کوئی بات نہیں جو ہمارے سیکورٹی اداروں کو پتہ نہیں۔۔۔

 احسان اللہ احسان جیسے لوگ تو نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں ۔ اصل میں تو وہ لوگ حقیقی دہشت گرد ہیں  جودہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں اور ان کے لئے اسمبلیوں اور سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر سہولت کاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں،   اس وقت ہماری حکومت، احسان اللہ احسان کو خواہ مخواہ ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے دہشت گردوں کو اسمبلیوں تک پہنچانے کے لئے زور لگا رہی ہے۔

 یہ خود ہمیں سوچنا چاہیے کہ دہشت گردوں نے آخر پاکستانیوں کی ایسی کیا خدمت کی ہے کہ جس کی وجہ سے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہاہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ احسان اللہ احسان کو سزائے موت یا فلاں سزا  دی جائے  بلکہ میں آپ کی توجہ اس طرف دلانا چا رہاہوں کہ جو کچھ ہماری سادگی کے ساتھ ہو رہا ہے۔

راقم الحروف کے مطابق احسان اللہ احسان جیسے لوگوں کا جرم فقط دہشت گردی نہیں ہے بلکہ توہینِ اسلام اور توہین رسالت ان کا اصلی جرم ہے ، انہوں نے  مساجد میں نمازیوں کو شہید کر کے اور بے گناہ لوگوں کو دھماکوں میں اڑا کر  دنیا میں اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات کو عملی طور پر مسخ کر کے شانِ رسالت میں عظیم  گستاخی کی ہے۔ حقیقی معنوں میں توہین رسالت تو یہ ہے جو احسان اللہ خان اور ان کے  ہمنوا کرتے چلے آرہے ہیں۔

جس طرح یہاں لاکھوں روپے کے نادہندگان اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قاتلوں اور توہینِ رسالت و توہین اسلام کرنے والوں  کے لئے بھی ہماری اسمبلیوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں  اور کرپشن کرنے والوں کے سہولت کار سرکاری پوسٹوں پر بیٹھ کر بڑے آرام سے اپنا کام انجام دے دے رہے ہیں۔

اب  دوسری طرف  ہمارے ہاں پائے جانے والے دینی شعور کا اندازہ بھی لگائیے! بڑی بڑی مساجد اور دینی مدارس سے مزیّن، ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات  اور دینی شعور کا یہ عالم ہے کہ ایک فرقے یا مسلک کا آدمی اب دوسرے فرقے یا مسلک کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔

 عید فطر کے موقع پر صدقہ و خیرات کے ریکارڈ قائم کرنے والے ملک میں اور عید قربان کے ایام میں دل کھول کر قربانیاں دینے والے دیس میں،  صرف چند روز پہلے طارق نامی شخص، حالات سے تنگ آکر  اپنے پانچ بچوں سمیت زہر کھا کر خود کشی کر لیتا ہے۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے بچوں میں 4 بچیاں اور 1 بچہ شامل ہے جن کی عمریں 5 سے 12 سال کے درمیان ہیں۔

طارق کی بیوی صائمہ ایک سال قبل خلا لے کر اپنے میکے چلی گئی تھی اور اس نے دوسری شادی کر لی تھی،طارق خود اپنے بچوں کی کفالت کرتا تھا اور بچوں کی وجہ سے فکر مند رہتا تھا۔ طارق کی اہلیہ نے ایک سال قبل اس سے خلع لی تھی جس کی وجہ سے گھر میں ناچاقی تھی، دوسری جانب محمد طارق کا اپنے بھائی اور بھابھیوں سے بھی جھگڑا رہتا تھا جبکہ اس کے مالی حالات بھی ٹھیک نہیں تھے۔

ہر مہینے میں ہمارے معاشرے میں کئی طارق خودکشیاں کرتے ہیں، یہ خود کشیاں دینی مدارس و مساجد اور یونیورسٹیوں  کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔  ان خود کشیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی ادارے  خواہ مدارس ہوں یا یونیورسٹیاں، عوام میں محبت، اخوت، بھائی چارہ ، صلہ رحمی ، برداشت اور صبر و تحمل پیدا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

بدقسمتی سے بعض تعلیمی اداروں  نے لوگوں کو اچھا انسان اور مسلمان بننے کے بجائے ،  اسلحے سے مسلح کیا ،عدمِ برداشت سکھائی اور پیسہ کمانے کی مشین بنا دیا۔

جس معاشرے میں  لوگوں کے ساتھ ہر طرف فراڈ ہو رہا ہو، پارٹیوں کے انتخابی منشور فقط الفاظ تک محدود ہوں، میرٹ کے بجائے رشوت سے نوکریاں ملتی ہوں اور دھونس دھاندلی سے کام چلتا ہو، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہو، حکمران خود قانون سے کھیلتے ہوں!  پانامہ کیس کی طرح ، عدالتیں بڑے لوگوں کے خلاف فیصلے سنانے میں احتیاط سے کام لیتی ہوں، معصوم بچوں کو کرائے کے قاتلوں میں تبدیل کیا جاتا ہو اور دہشت گردوں کو پروٹوکول ملتا ہو، سفارش کے بغیر کسی کو سکالر شپ تک نہ ملتا ہو،  جہاں لوگوں  کے بچے دینی مدارس میں دینی تعلیم و تربیت کے لئے جائیں  لیکن  انہیں خودکش بمبار اور دہشت گرد بنا دیا جائے اور اگر  یونیورسٹیوں میں جائیں تو  ان کی یونیورسٹیوں کا اسٹاف ہی  کرائے کے قاتلوں سے انہیں قتل کروا دے، ، جہاں کیڈٹ کالجوں میں بھی بچوں پر وحشیانہ تشدد کیا جائے اور تعلیمی نظام بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو۔۔۔

  اس ملک میں  تو والدین  خود کشی  سے پہلے ہی مر جایا کرتے ہیں ، خود کشی تو صرف ان کی بے بسی کا اعلان کیا کرتی ہے۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی سربراہی میں ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی کابینہ کا ایک اہم اجلاس وحدت ہاوس سولجر بازار کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں 21 مئی کو نشتر پارک کراچی میں استحکام پاکستان و امام مہدی (عج) کانفرنس کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت و بقاء ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، جو قوتوں پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، انہیں بہت جلد اپنے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ قومی تاریخ میں ہم ایک نیا باب رقم کرنے جا رہے ہیں، اس ملک کو کرپشن اور بدحالی سے نجات دلانے کے لئے مختلف سیاسی و مذہبی قوتوں کے ساتھ مل کر بھرپور جدوجہد کی جائے گی، بددیانت حکمرانوں نے وطن عزیز کو بے دردی سے لوٹا ہے، جب تک ان خیانت کاروں سے نجات حاصل نہیں ہوتی، تب تک قوم اضطراب، بے یقینی اور معاشی بدحالی کا شکار رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت امت مسلمہ اور وطن عزیز دونوں ہی استعماری طاقتوں کے نشانے پر ہیں، دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کو انتہاء پسند قوتوں اور کالعدم مذہبی جماعتوں کے ذریعے مسخ کرکے پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ اسلام کے روشن چہرے کو بدنما ظاہر کیا جا سکے، اسلام دشمن قوتیں امت مسلمہ کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے منحرف کرنے کے لئے عقیدے پر ضرب لگانا چاہتی ہیں، امام مہدی علیہ السلام کی ذات مقدسہ پر مسلمانون کے تمام مسالک کا اجماع اور مکمل ایمان ہے، قرب قیامت کی علامات میں امام مہدی علیہ السلام کا ظہور مستند کتابوں میں مذکور ہے، امام برحق کے خلاف بات کرنا احادیث نبوی ﷺ کو صریحاََ جھٹلانے کے مترادف ہے، جو توہین رسالت ہے، ایسے شخص کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں، استحکام پاکستان اور امام مہدیؑ کانفرنس میں مدعو مختلف مسالک کے علماء اس حوالے سے اپنا مذہبی نکتہ نظر پیش کریں گے۔

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ حکومت پانامہ لیکس کے بعد ڈان لیکس میں بُری طرح پھنس چکی ہے، حکومتی وزراء کی جانب سے سیکیورٹی اداروں کے خلاف بیانات حکومت کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے، حکومت ایک بار پھر ڈان لیکس معاملے میں اصل کردار کو بچانے کے لیے کوشاں ہے، رائو تحسین کی قربانی دے کر اصل مجرم کو تحفظ دیا گیا ہے، ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ملتان میں صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد عباس صدیقی، غلام اصغر تقی، صوبائی سیکرٹری سیاسیات مہر سخاوت علی، محمد علی زیدی اور ثقلین نقوی موجود تھے۔ علامہ اقتدار نقوی نے مزید کہا کہ سیکیورٹی اداروں کے خلاف بیانات اور محاذ عوام کسی صورت قبول نہیں کرے گی، بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستانی طلباء کے ساتھ ناروا سلوک کے بعد حکومتی موقف حیران کن ہے، کشمیر میں طلباء اور عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر حکومتی خاموشی، بھارتی ایجنٹ جنڈال کی پُراسرار ملاقات قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے، حکومت پانامہ لیکس میں جے آئی ٹی کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے لیکن عوام اسے بے نقاب کرے گی۔ حکومت جعلی تختیوں کی نقاب کشائی کر کے عوام کو دھوکے میں نہیں ڈال سکتے، اگر وزیراعظم پاکستان میں اخلاقی جرات ہوتی تو کب کا استعفی دے چکے ہوتے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں گزشتہ روز فاشسٹ پارٹی کی جانب سے مجلس وحدت مسلمین پر لگائے جانے والے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک نسل پرست فاشسٹ پارٹی کے غیر ذمہ دار کونسلر نے ایک رکشہ ڈرائیور کی توہین اور گالم گلوچ کرتے ہوئے اس حملہ پر کر دیا اور رکشہ کی چابی زبردستی اپنے قبضے میں لیکر رکشہ کو نقصان پہنچایا،جبکہ رکشہ ڈرائیور کو زخمی کر دیا ۔جس پر حلقہ نمبر14کے نسل پرست کونسلراور رکشہ ڈرائیور کے درمیان معمولی جھگڑا ہوا ،چاقو ئوں کا جھوٹا الزام لگا کر فاشسٹ کونسلر نے علاقے میں اپنے آپ کو بد نام کردیا تا ہم اس دوران معمولی جھگڑے کو حل کرنے کیلئے کونسلر کربلائی رجب علی اور کونسلر سید مہدی نے رکشہ ڈرائیور کو فاشسٹ کونسلر کیخلاف ایف آئی آر کرانے سے روکا اور شر پسند پارٹی کے کونسلر کے آفس گئے ،ہزارگی اور قبائل روایات کے مطابق جب کوئی کسی کے گھر پر جاتا ہے تو مسئلہ وہی حل ہوجاتا ہے،لیکن شر پسند کونسلر یقین دہانی کے باوجود ہزارگی روایات کو پیروں تلے روندا اور رکشہ ڈرائیور کے خلاف جھوٹی ایف آر درج کرائی اور بعد میں اسے اخباری بیان کے ذریعے اسے دو پارٹیوں کا جھگڑا بناکر ہزارہ قوم میں فساد پھیلانے اور قوم کے جوانوں کو آپس میں دست و گریباں کرنے کی مذموم سازش کی جا رہی ہے۔ان اقدامات سے فاشسٹ ٹولہ کا اصل چہرہ قوم کے سامنے مزید بے نقاب ہوگا،شر پسند پارٹی کے پاس نفر ت کی سیاست اور ہزارہ قوم کو آپس میں دست و گریباں کرنے کے علاوہ پارٹی کو بچانے کا اور کوئی راستہ نہیں بچا۔فاشسٹ پارٹی اپنے ان پست اقدامات کے ذریعے ہزارہ قوم کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ہزارہ قوم اپنے اتحاد و اتفاق کے ذریعے اس شر پسند فاشسٹ ٹولہ کو پہلے ہی کی طرح ایک بار پھر مسترد کریگی۔  

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree