پیکر وفا

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب بھی زبانوں اور کانوں میں لفظ وفا آتا ہے ایک ہی لمحے میں ذہن ایک پیکر وفا کی طرف جاتا ہے ،جس نے صحیح معنوں میں وفا کے مفہوم کودنیا والوں کو سمجھا دیا۔وہ پیکر وفا جس نے وفا کا اصلی روپ دکھایا وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا بہادر اور شیر دل فرزند عباس ہے ۔ حضرت عباس علیہ السلام کی قدر و منزلت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ  روز قیامت تمام شہداء حضرت عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے۔عباس اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے لیکن مقام و منزلت میں اتنے کم بھی نہیں تھے ،عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کر ینگے۔

عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیہما السلام کے بھائی چار شعبان سن ۲۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۶۱ ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال تھی۔چودہ سال اپنے بدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام  کے زیر تربیت گزارے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں جن کی کنیت ام البنین ہے۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کو دس برس ہوچکے تھےایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا {کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے } اور کہا: ہمارے لیے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو تا کہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین علیہ السلام کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھاجس کے آباؤواجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھی۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا۔ اور بعد میں ام البنین کے نام سے شہرت پاگئی۔ جناب عقیل رشتہ کے لیے اس کے باپ کے پاس گئے اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعدآپ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر  تشریف لائی اور بچوں  کی دیکھ بال  اور ان کی خدمت شروع کی۔جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو کبھی تمہارے لیے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہوجائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔

اللہ نے  آپ کوچار بیٹوں سے نوازا: عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان اور یہ چاروں بھائی کربلا میں شہید ہو گئے۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دی جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام  پر قربان ہونے خاص تاکید کی اور ہمیشہ جولوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے ان سے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کےبارے میں سوال کرتی تھیں۔
امام سجاد علیہ السلام اپنے چچا عباس علیہ السلام کو اس طرح توصیف کرتے ہیں:{رَحِمَ اللَہُ عَمِیَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلی وفَدی أَخاہُ بِنَفْسِہ حَتَّی قُطِعَتْ يَداہُ فاَبْدَلَہُ اللَّہُ عَزَّوَجَلَّ مِنہُما جِناحَيْن يَطيرُ بِہِما مَعَ الْمَلائِکَۃِ فی الْجَنَّۃِ کَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبی طالِبْ عليہ السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّہِ تَبارَکَ وَتَعالی مَنْزِلَۃٌ يَغبِطَہُ بہا  جَميعَ الشُّہدَاءِ يَوْمَ القِيامَۃِ}

خدا میرے چچا عباس کو رحمت کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کی اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا اور اپنے بھائی پر فدا ہو گئے۔   یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہو گئے پس خدا نے انہیں دو پر دیے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے۔

امام صادق علیہ السلام جناب عباس علیہ السلام کی توصیف میں فرماتے ہیں:{کانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصيرَۃِ، صَلْبَ الْأيمانِ، جاہَدَ مَعَ أَبی عَبْدِاللَّہِ عليہ السلام وَأَبْلی بَلاءً حَسَناً وَمَضی شَہيدا}ہمارے چچا عباس علیہ السلام اہل بصیرت تھے مستحکم ایمان کے مالک تھے ابا عبد اللہ علیہ السلام کے رکاب میں جہاد کیا اور اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور آخر کار مقام شہادت پر فائز ہوئے۔

جناب عباس علیہ السلام کے بچپنے کے بارے میں تاریخ کے اندر زیادہ معلومات نظر نہیں آتی۔صرف اتنا نقل ہوا ہے کہ ایک دن اپنے بابا امیر المومنین کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹا کہو ایک۔ حضرت عباس نے کہا ایک۔ پھر آنحضرت نے کہا: کہو دو۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا اس سے دو کہتے ہوئے شرم آتی ہیں۔

آپ کی دوران جوانی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپ جنگ صفین میں موجود تھے ۔بعض نے ابوالشعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے قتل کی آپ کی طرف نسبت دی ہے۔ خوارزمی نے لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب کریب نامی ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے آیا تو آپ نے جناب عباس کا جنگی لباس پہنا اور اس کے ساتھ جنگ کی۔

حضرت علی علیہ السلام کو ایک ایسے بہادر فرزند کی تمنا تھی جو اپنے بعد اسلام کی حفاظت کر سکے اور حسین بن علی علیہ السلام  کے لئے مددگار بنے۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی دعا عباس کی شکل میں پوری ہوئی،حسین علیہ السلام کے محافظ نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عقیل کے ذریعے عرب کے بہادر قبیلے کی بہادرخاتون ام البنین کے ساتھ عقد کیا۔ام البنین سیرت و کردار میں نہایت باکردار خاتون تھیں۔ یوں علی ابن ابی طالب کے نامور فرزند عباس کی شکل میں دنیا میں تشریف لائے جس نے ایک دفعہ پھر جنگوں میں اپنے بابا کی یاد تازہ کر دی ۔

عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں عجین ہونے کا نام ہے عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔ صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی جس کی ہیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جاکر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی( ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا : اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں تاکہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہو گیا تیسرے کو بھیجا چھوتے کو یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو گئے۔

معاویہ کی فوج میں زلزلہ آگیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا : اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں آخر کار اس نو جوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسے واپس بلا لیا اورنقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ یہ قمر بنی ہاشم شیر خدا کا فرزندتھا۔

قمر بنی ہاشم ہمیشہ  امام حسین علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ رہے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گذار دیا۔ بنی ہاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ہاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ہمیشہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رہتے تھے۔ اور اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کے مرنے کے بعد یزید کی بیعت کے لیے امام کو دار الخلافہ بلایا  اس وقت بھی جناب عباس تیس جوانوں کو لے کر امام کےساتھ دار الخلافہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق حکم جہاد کا انتظار کرتے ہیں۔ تا کہ اگر ضرورت پڑے تو فورا امام کا دفاع کرنے کو حاضر ہو جائیں۔

حضرت عباس علیہ السلام عرب کے عظیم بہادروں میں شمار ہوتے تھے کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا لیکن ایک مقام پر جب اسلام کوخطرے میں دیکھا،نانا محمد[ص] کے دین کو سرے سے نابود ہوتے دیکھا، تو عباس سے برداشت نہ ہوسکا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا عظیم  فرزند حسین علیہ السلام اور علی کی شیر دل بیٹیاں یزیدی فوجیوں کا سامنا کریں اس لئے عباس[ع] نے حسین علیہ السلام کی فوج سے اسلام کا علم بلندکیا وہی علم جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے خیبر میں علی علیہ السلام کے سپرد کیا تھا اسی علم کو حسین بن علی علیہ السلام نے کربلا میں حضرت عباس کو عطا کیا.
مجھے جب حکم ملا عنوان وفا لکھنے کا
میں نے عباس لکھا اور قلم توڑ دیا

تعداد میں بہتر جان نثاروں کے سپہ سالار اور جرنیل  تھےعباس علمدار  لیکن یہی بہترافراد یزیدی افواج  سے مقام و منزلت میں بالا درجوں پر فائز تھے۔حضرت عباس[ع] نے اس مشکل وقت میں اسلام کو بچانے کے لئے جان کی پروا نہ کی اور دنیا والوں کو وفائے عباس دکھا دی ۔یزیدی فوجوں نے عباس کو امان نامہ پیش کر کے راہ مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کی تا کہ قمر بنی ہاشم حسین علیہ السلام کا ساتھ نہ دیں اور وہ اکیلے میدان میں رہ جائیں لیکن قمر بن ہاشم نے ایسا عملی نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کے لئے اسوہ بن گیا۔
عباس کبریا کا عجب انتخاب تھا
طفلی میں بھی علی کا مکمل شباب تھا

حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشناترین اور مشہورترین القاب میں سے ہے۔ حضرت عباس علمدارعلیہ السلام کو دو جہت سے باب الحوائج کہا جاتا ہے ایک یہ کہ آپ واقعہ کربلا میں اہل بیت اطہار کی ہر مشکل گھڑی میں ان کا سہارا تھا اور ہر ایک کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ دوسری علت یہ ہے کہ آپ کا روضہ آج بھی لوگوں کی مشکلات اور حاجت روائی کا مرجع ہے جہاں سے ہزاروں لاکھوں حاجت مند آپ کے روضے سے اپنی مرادیں پوری کرکے واپس ہوئے ہیں اس بنا پر بھی آپ کو باب الحوائج یعنی مرادیں پوری کرنے والا در کہا جاتا ہے۔

سلام ہو اس عظیم غازی پر ،حسین[ع] کے علمدار پر،سقائے سکینہ پر ،جس نے فرات کے پانی پر حوض کوثر کے پانی کو ترجیح دی اور نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بابا علی مرتضی علیہ السلام کے ہاتھوں سیراب ہونے کے لئے اسلام پر قربان ہوئے ۔عباس علمدا رنہ صرف حسینی فوج کےعلمدار تھے بلکہ سقائے سکینہ بھی تھے اس لئے مشک اٹھا کر علقمہ کا رخ کرتے ہیں ۔یزیدی فوج فرزند علی علیہ السلام سے بخوبی واقف تھے کہ کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس لئے عباس کو گھیرے میں لینے کا حکم ہوا اور یوں عباس اشقیاء کے گھیرے میں آگئے۔
شجاعت کا صدف مینارہ الماس کہتے ہیں
غریبوں کا سہارا بے کسوں کی آس کہتے ہیں
یزیدی سازشیں جس کے علم کی چھاوں سے لرزیں
اسے  ارض و سماء  والے  سخی  عباس کہتے  ہیں

عباس علیہ السلام جو سکینہ سے پانی لانے کا وعدہ کر کے آئےتھے اس لئے مشک پانی سے بھر کر جلدی سے خیمے کا رخ کرتے ہیں۔ یزیدی افواج کو یہ بات ناگوار گزری کہ خیمے کے اندر پانی پہنچ جائے اور حسین علیہ السلام کی معصوم بچیاں سیراب ہوں ،اس لئے ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع کردی لیکن عباس علیہ السلام نےامام وقت کی دفاع کرتے ہوئے فرمایا:
وَاللَّہِ إِنْ قَطَعْتُمُ يَمينی
إنّی أُحامِی أبَداً عَنْ دينی
وَعَنْ إمامٍ صادِقِ الْيَقينِ
نَجْلِ النَّبیِّ الْطَّاہِرالا مين

خدا کی قسم اگر میرا دائیں ہاتھ قلم کیا جائے تب بھی میں دین کا دفاع کرتا رہوں گا اور اپنے سچے امام کی حمایت کروں گا جو پاک اور امین نبی کا فرزند ہے۔پیکر وفا نے اپنے دونوں ہاتھ اوراپنی  قیمتی جان اسلام اور وقت کے امام پرقربان کیا ۔
جنہیں بھی حق نے بنایا تھا کربلا کے لئے
وہ سب کے سب ہی نمونہ تھے دوسروں کے لئے
مگر یقین ہے قائم کہ حضرت عباس
بطور خاص بنائے گئے وفاء کے لئے

امام  جعفرصادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اَلسَّلامُ عَلَيْکَ اَيُّہَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للہِ وَلِرَسُولِہِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّی اللہ عَلَيْہِمْ وَسَلَّمَ  ۔سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے اے اللہ، اس کے رسول، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین علیہم السلام، کے اطاعت گزار و فرمانبردار۔

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف شہدائے کربلا کو سلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"السلام علی ابی الفضل العباس بن أمير المؤمنين، المواسي أخاہ بنفسہ، الآخذ لغدہ من أمسہ، الفادي لہ، الواقي الساعي إليہ بمائہ المقطوعۃ يداہ ۔ سلام ہو ابوالفضل العباس بن امیرالمؤمنین پر، جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نچھاور کردی، دنیا کو اپنی آخرت کا ذریعہ قرار دیا وہ جو محافظ تھے اور لب تشنگانِ حرم تک پانی پہنچانے کی بہت
کوشش کی اور ان کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ۴ ہجری میں شعبان المبارک کی تین تاریخ کو مدینۃ النبیﷺ میں تاریخ بشریّت کے ایک ایسے بچے نے جنم لیا،  جس نے  مفکرین کے افکار اور دنیا کی اقدار کو بدل دیا، اس نے فتح و شکست، اور بہادری و بزدلی کے پیمانے تبدیل کر دئیے۔اس نے  مقتول کو قاتل پر،مظلوم کوظالم پر،پیاسے کو سیراب  پر،اسیر کو آزاد پر اور محکوم کوحاکم پر غلبہ عطا کردیا۔ یہ نومولود  اس لیے بھی انوکھا تھا کہ بظاہر شہنشاہِ دو عالم ﷺ کا نواسہ تھا لیکن اس کی فضیلت فقط اسی پر ختم نہیں ہوتی، یہ مولود کعبہ کا لخت جگر تھا، خاتونِ قیامت کے دل کا ٹکڑا تھا، حسنِ مجتبی ٰ ؑ کا بھائی تھا لیکن نہیں نہیں پھر بھی اس کی فضیلت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت رسولِ خدا ﷺ نے خود دی،  بعض روایات کے مطابق ولادت کے ساتویں روز حضرت جبرائیل ؑ نے  حضور اکرمﷺ سے فرمایا کہ اس بچے کا نام حضرت ہارونؑ کے چھوٹے بیٹے شبیر کے نام پر رکھیں جسے عربی میں حسین کہا جاتا ہے، [1]   سات سال تک یہ بچہ رحمۃ للعالمین ﷺ  کے سائے میں پروان چڑھا،  سائے میں نہیں بلکہ سینے پر پروان چڑھا، ان سات سالوں میں رسول اعظم ﷺ بار بار یہ اعلان کرتے رہے، میں حسینؑ سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے۔

ہمارے رسول کی آغوشِ تربیت کا کمال دیکھئے کہ جو بھی اس آغوش میں پروان چڑھا وہ دنیا میں بے نظیر و بے مثال بن گیا، اگر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو پروان چڑھا یا تووہ کل ایمان ٹھہرے، اگر سیّدہ فاطمہ کو پروان چڑھا یا تو  وہ  سیّدۃ النسا العالمین ؑ قرار ، پائیں اگر امام حسن مجتبیؑ کو پروان چڑھا یا تو  سیرت و کردار میں  شبیہ پیغمبر بنے اور اگر حسین ابن علی کو اپنی آغوش میں لیا تو جنت کے سردار بنے۔

ان مذکورہ شخصیات میں سے ہر شخصیت نے  عالم بشریت کی ہدایت  کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔

تعلیمات اسلام کی روشنی میں اور سیرت نبوی کے آئینے  میں یہ سب رسول گرامی ﷺ کی تربیت کا نتیجہ ہی ہے کہ ان ہستیوں کی  مادی زندگی اور معنوی زندگی میں کوئی فرق نہیں، بلکہ ان کی مادی زندگی ہی عین معنوی زندگی ہے، ان کی سیاست ہی عین دین ہے ، ان کی زندگی کے آداب، قرآن مجید کی آیات کی  عملی تفسیر ہیں اور ان کے فرمودات ، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا ہی تسلسل ہیں۔

دنیا میں اگر آج تک ان کے فضائل کا ڈنکا     بج رہاہے تو یہ در اصل رسولِ اسلام کی فضیلت کا ڈنکا ہے چونکہ ان کی تعلیمات عین تعلیمات رسالت ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے متعدد احادیث میں ان کے فضائل کو بیان کیا ہے اور اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، ان کا دشمن میرا دشمن ہے اور ان کا دوست میرا دوست ہے ، اللہ کے رسولﷺ نے کئی مرتبہ ان کے دشمنوں پر لعنت اور بیزاری کا اظہار کیا ہے۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ رسول گرامی ﷺ کی ان ہستیوں سے محبت  ، محض جذباتی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ یہ ہستیاں اپنے عمل و کردار کے اعتبار سے  اس قابل تھیں   کہ ان سے رسولِ دوعالم اسی طرح والہانہ محبت کرتے۔

کفر کی ظلمت میں رسولِ اسلام ﷺ نے توحید کے جس نور کی شمع جلائی تھی اسے رسولﷺ کے بعد انہی ہستیوں نے اپنے عمل و کردار سے فروزاں رکھا ۔ ۶۱ ھجری میں جب ان ہستیوں میں سے اس دنیا میں فقط حسین ابن علی ؑ باقی رہ گئے تو رسول اکرم ﷺ کی تریبت کا تقاضا یہی تھا کہ حسین ابن علی ؑ ، سیرت رسولﷺ اور پیغام رسالتؑ کے اجرا کے لئے ، اپنی ماں، باپ اور بھائی کی طرح میدان عمل میں کھڑے رہیں۔

 چنانچہ ۶۱ ھجری میں  جب  یزید کے سامنے  پورا عالمِ اسلام سرنگوں ہو گیا تھا ،اس وقت فقط حسین ابن علیؑ شہکار ِ رسالت کے طور پر ابھرے۔ جس طرح رسولِ خدا نے زمانہ جاہلیت کے معیاروں کو بدلا تھا اسی طرح حسین ابن علی نے بھی اسی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے  جہالت و نادانی کے خلاف قیام کیا۔ جس طرح عرب سرداروں اور دنیا کے بادشاہوں کے منصوبوں کو نبی اکرمﷺ نے خاک میں ملایا تھا اسی طرح حسین ابن علیؑ نے بھی  سرداروں اور بادشاہوں کے منصوبے ناکام کر دئیے۔ یعنی حسین ابن علی ؑ کے پیکر میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تربیت  اپنے کرشمے دکھا رہی تھی۔

حکام وقت کے منصوبے کے مطابق، معرکہ کربلا کو وہیں کربلا کے صحرا میں  دفن ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہ واقعہ، سیرت النبیﷺ کے واقعات کی طرح  دفن ہونے کے بجائے ہروز زندہ اور روشن ہوتاجارہاہے۔ یوں تو تاریخ عرب جنگوں سے بھری پڑی ہےلیکن ان جنگوں میں اور اس معرکے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ظاہری اعدادوشماراورغلبےکو فتح کا معیار سمجھاجاتا تھاجبکہ یہاں ظاہری قلت کو حقیقی فتح کا درجہ حاصل ہے،یہاں بظاہر مرجانے والا درحقیقت فاتح ہے۔ارباب فکرکے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر وہ کونسی شئے ہے جس نے لاو لشکر کے باوجود یزید کو سرنگوں کردیا  اور تہی دست ہونے کے باوجود امام حسین  عالی مقام کو سربلند بنادیا۔

ہمارے سامنے تاریخ بشریت، دانش مندوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اورعلم و دانش کا سلسہ اولاد آدم کے درمیان ابتداء آفرینش سے ہی چلتا آرہا ہےمگر تاریخ بشریّت شاہد ہے کہ کسی بھی دانشور یا مفکّرنے اپنے علم ودانش سے امام حسینؑ جیسا کام نہیں لیا ۔  ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ امام حسین  کا قیام ظاہری حکومت کے لیے تھا چنانچہ امام حسین  عالی مقام کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی حکومت کو گرانے کے لئے جو تحریکیں چلیں انہوں نے خونِ حسین  کے انتقام کا نعرہ لگایا اور ان تحریکوں نے امام حسین  عالی مقام کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا لیکن اس ضمن میں ہم یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ کیاامامؑ عالی مقام نے جناب محمّد بن حنفیّہ کے نام وصیّت نامےمیں طلب حکومت سے انکار نہیں کیا تھا؟

 کیا امام حسین  نےمکّے میں روز عرفہ کو یہ نہں فرمایا تھا کہ میں فقط امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے نانا کی امّت کی اصلاح کے لیے نکل رہاہوں؟ اسی وصیت نامے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میری سیرت میرے جد محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے۔

 اگر امامؑ کاقیام حکومت کےلیے تھا تو خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے گئے؟ اگرامامؑ کی کوشش فقط حکومت کےلیے تھی توجب آپؑ کوسامنے شکست نظر آرہی تھی تو صلح کیوں نہیں کی یا جنگی سازوسامان کا بندوبست کیوں نھیں کیا؟ اور جو انتقامی  تحریکیں اپنے آپ کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکیں وہ امام حسین  عالی مقام کو کیا فتح عطا ء کر سکتی ہیں۔

    یہ بھی ممکن ہے کوئی شخص یہ کہےکہ یہ دوشہزادوں یادوخاندانوں یا دو قبیلوں یعنی بنی ہاشم اور بنی امیّہ کی جنگ تھی,چنانچہ بنی ہاشم کی سیاست بنو امیہ پر غالب آگئی اور یہ شکست فتح میں بدل گئی  تواس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ کسی انسان کا یہ سوچنا ہی اسلام فہمی سے دوری کی علامت ہے۔چونکہ جس شخص کوذراسی بھی اسلامی معارف سے آگاہی ہو اس پر یہ واضح ہے کہ امام حسین  محبوب رسول اور سردارِ جنّت کا درجہ رکھتے ہیں،لہٰذاحضرت امام حسین  سے بغض اور لڑائی کسی شہزادےیا قوم یا قبیلے کے ساتھ لڑائی نہیں بلکہ رسولِ خدا ﷺ کی سیرت و کردار کے  ساتھ جنگ ہے۔

 کربلا میں ظالم پر مظلوم کی فتح کے حقیقی سبب کو جاننے کے لئے ضروری  ہے کہ  ہم تحریکِ کربلا کا تحلیلی مطالعہ کریں اور جب ہم تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسین  عالی مقام نے کتابِ کربلا کے ورق ورق کو سیرت النبیﷺ کے  ساتھ مرتب کیا ہے۔

بلاشبہ کربلاکی عسکری جنگ کا نقشہ یزید اور اس کے حواریوں نے تیار کیا تھا لیکن کربلا کی فکری جنگ کا نقشہ امام عالی مقام نے تیار کیا ہے۔آپ نے مدینے میں حاکم مدینہ کی طلب بیعت سے لے کر قیام ِ مکہ تک اور قیامِ مکہ سے لے کر میدان کربلا تک لمحہ بہ لمحہ واقعات کو اپنے جد رسولِ خداﷺ کی طرح ، حسنِ تدبر کے ساتھ ترتیب دیاہے۔حاکم مدینہ کے دربار میں آپ کی گفتگو اور اس کے بعد شہادت تک کے تمام تر خطبات اور واقعات کو سامنے رکھ کر تجزیہ و تحلیل کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ  وہ شئے جس نے کربلا کو ایک ابدی فتح میں تبدیل کردیا وہ  امام عالی مقام کا خدا کی ذات اور رسولِ اسلام ﷺ سے عشق اور لگاو تھا، اور    اسی عشق نےاس تحریک کو جاویداں بنا دیا ہے۔ آج اگرہم مسلمان دنیا میں ناکام ہیں تو اسکی ایک اہم وجہ سیرت النبیﷺ  سےگریز ہے۔

اپنی زندگیوں میں سیرت النبیﷺ کے  عملی نہ ہونے کے باعث آج ہم یزیدان عصر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ٹکرانے کے بجائے آپس میں ٹکرا رہے ہیں،دین کی خاطر جان نثاری اور فدا کاری کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے جان نثاری کے جذبے سے، اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطاں کررہے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ خلوص دل کے ساتھ امام حسینؑ کی طرح اپنے پیغمبرﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی باطل قوت مسلمانوں کو  شکست نہیں دے سکتی اور ،ہم آج بھی عددی قلت اور وسائل کی کمی کے باوجود  فاتح بن سکتے ہیں۔

حضرت امام حسین مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے رہبر یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ  آپ اپنے نانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی مانند  پورے عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل ہیں، آپ کی عظیم شخصیت شہکار رسالت ہے لہذا شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کو زندگی کے تمام پہلووں میں آپ ؑ کی ذات کا طواف کرتے رہنا چاہیے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(گلگت ) ڈی سی کسٹم سوست پورٹ پر تعینات ماتحت آفیسروں کے ذریعے گلگت بلتستان کے چھوٹے کاروباریوں کو بے روزگار کرنے پر تلا ہوا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے غیر ملکی سیاحوںکو گلگت بلتستان میں داخلے پر بے جا پابندیاںعائد کرنا اس خطے کے عوام کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔وفاقی حکومت ایک طرف غیر ملکی سیاحوں پر بے جاپابندیوں کے ذریعے سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد کو بیروزگار کررہی ہے تو دوسری طرف غیر مقامی بڑے تاجروں کے ایماء پر بیگیج پر پابندی عائد کرکے بارڈر ٹریڈ میں مصروف ہزاروں افراد کو بیروزگار کیا جارہا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکریٹری سیاسیات غلام عباس نے وحدت ہائوس گلگت میں تاجروں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہا کہ مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے عوام کے جائز حقوق کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔پاک چائنہ سرحد ٹریڈکی بنیاد ہی گلگت بلتستان کے مقامی تاجروں نے رکھی ہے ،اس سرحدی تجارت سے گلگت بلتستان میں بیروزگاری کی شرح کسی حد تک کم ہوگئی ہے ،مقامی تاجروں پر پابندی سے بیروزگاری کا طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے برسوں قبل بھی گلگت بلتستان کے تاجر چائنہ کیساتھ تجارت کرتے تھے اور ابتدائی طور پر اس تجارت کو فروغ دینے کیلئے مقامی حکومت اور چائنہ حکام کے مابین بارڈر ٹریڈ کے کئی معاہدے کئے گئے ہیں ،حکومت اور کسٹم حکام ان معاہدوں کے پابند ہیں۔کسٹم حکام کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جائیگی کہ وہ بڑھے مگرمچھوں سے ساز باز کرکے چھوٹے تاجروں کا روزگار چھیں لیں۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پرائیویٹ سیکٹرز کی عدم موجودگی سے پہلے ہی بیروزگاری عروج پر ہے اور بارڈرٹریدمیں چھوٹے کاروباریوں پر ناجائز پابندیاں عائد کرکے بیروزگار کیا گیا تو یہ اقدام علاقہ دشمنی کے مترادف ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان حسین قدرتی مناظر کی وجہ سے غیر ملکی سیاحوں کیلئے پرکشش علاقہ ہے ،حکومت کی بیجا مداخلت سے سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوگا ۔انہوں نے جی بی اسمبلی کے اراکین کی جانب سے غیر ملکی سیاحوں پر بے جا پابندیوں کے خلاف قرارداد پیش کرنے پر اسمبلی اراکین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈی سی کسٹم کے علاقہ دشمن پالیسیوں کا نوٹس لیکر ہزاروں افراد کو بیروزگار ہونے سے بچائیں۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید میثم رضا عابدی و دیگر رہنماو ں نے کہا ہے کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں کچرے سے لیکر دہشتگردی کے مراکز کے خاتمے میں سندھ حکومت ناکام ہو چکی ہے، عوامی مسائل کے خاتمے، بنیادی عوامی حقوق کی بازیابی، شہر میں کالعدم تنظیموں کی آزادانہ فعالیت اور دہشتگردی کے مراکز کے خلاف جلد شہر بھر میں عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا جائے گا، جس کے ذریعے عوام کے ساتھ ملکر نااہل حکمرانوں کو انکی ذمہ داریاں نبھانے پر مجبور کرینگے، ان خیالات کا اظہار رہنماو ¿ں نے وحدت ہاو ¿س کراچی میں ڈویژنل کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر علامہ مبشر حسن، علامہ صادق جعفری، علامہ علی انور،علامہ اظہر نقوی، علامہ سجاد شبیر رضوی، علامہ احسان دانش، تقی ظفر و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

 کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رہنماو ¿ں نے کہا کہ 70ءاور 80ءکی دہائی میں پاکستان کا ماڈل شہر کراچی حکمرانوں کی نااہلی اور غفلت کے باعث اب کچرے اور دہشتگردی کا ماڈل بن چکا ہے، ملک کو 70 فیصد ریوینیو دینے کے باوجود کراچی کے شہری بنیادی حقوق اور سہولیات تک سے محروم ہیں، ناقص صفائی ستھرائی، گندگی، سیوریج کے مسائل، بغیر فلٹر گندا پانی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، دہشتگردی سمیت کئی بحرانوں نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے، جس کی تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، جن کی تمام تر توجہ کرپشن کرنے اور ذاتی مفادات کے حصول پر مرکوز ہے اور وہ عوامی و علاقائی مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں یکسر نظر انداز کر چکے ہیں۔ رہنماو ں نے کہا کہ حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے سے بدحالی کی شکار عوام کو سہولیات فراہم کرے اور عوامی مسائل کو حل کرے، لیکن کرپٹ نااہل حکمران عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی بجائے ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور مزید بدترین کرپشن میں مصروف ہیں، جس کے خلاف ایم ڈبلیو ایم جلد کراچی میں عوامی رابطہ مہم کا آغاز کریگی، تاکہ حکمرانوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ عوامی مسائل کے حل، بنیادی عوامی حقوق و سہولیات کی فراہمی، کالعدم تنظیموں اور دہشتگردی کے مراکز کے خلاف کارروائی کے حوالے سے اپنی اولین اور بنیادی ترین ذمہ داریاں نبھائیں، اب حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہونگی۔

وحدت نیوز(منڈی بہاوالدین) علامہ راجہ ناصر عباس جعفری مرکزی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک روزہ دورے پر ملکوال پہنچے جہاں سے وہ رکن تشریف لے گئے اور باوا پیر ہادی شاہ صاحب کی طرف سے منعقد کی گئی مجلس عزا سے خطاب کیا رکن پہنچنے پے باوا ہادی شاہ اور ضلعی مجلس وحدت مسلمین کی ٹیم نے آغا کو خوش آمدید کہا رکن میں سنی شیعہ عوام کی کثیر تعداد سے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے خطاب کیا جسکے بعد بکھی شریف کے انتہائی معزز ہمارے بھائی اور مجلس وحدت مسلمین کویت کے سیکرٹری جنرل عرفان شاہ صاحب کے والد محترم مرحوم کا جنازہ پڑھایا جسکے بعد قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب 16 چک کراڑی والا خطاب کے لیئے پہنچے جہاں کثیر تعداد میں سنی و شیعہ افراد استقبال کے لیئے منتظر تھے ۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے 16 چک پہنچنے پر فضا لبیک یا حسین ع کے نعروں سے گونج اُٹھی 16 چک کراڑی والا خطاب میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری  کا کہنا تھا کہ سنی و شیعہ تمام حسینیوں کو مل کر اس معاشرے کو حسین ع کا پسندیدہ معاشرہ بنانا ہو گا ہمیں اگر فلاح پانی ہے تو حسین ع کا عملی پیروکار بننا ہو گا حسین ع نے بھی وقت کے ظالم جابر اور فاسق شخص کے خلاف قیام کیا تھا اور ہمارے لیئے بھی یہی کربلا کا درس ہے کہ ہم حسین ع کے عاشق اس وقت کے ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف آواز حق بلند کریں تا کہ اس ملک کو نقصان پہنچانے والے طالبان ظالمان اور لشکروں کا خاتمہ ہو سکے اور یہ پاکستان ہمارا وطن قائد اعظم و اقبال رح کا حقیقی پاکستان بن سکے۔

وحدت نیوز(سکردو)  پاکستان کی وفاقی حکومتیں ہر بار مختلف وعدے وعید لیکر گلگت بلتستان پر حکمرانی کرتے آئے ہیں لیکن ستر سالوں سے یہاں کے عوام کو بنیادی آئینی و انسانی حقوق سے جان بوجھ کر محروم رکھا ہے۔ الیکشن کے دوران بلند و بانگ دعوئے اور ہر پراجیکٹ کا کئی کئی بار افتتاح کرکے حکومت بنانیوالی جماعت سے اس خطے کے لاکھوں کی آبادی کیلئے ایک سڑک بنانے کی اہلیت نہیں تھی، اور افسوسناک بات یہ کہ یہاں کے منتخب نمائندے ہی اپنے عوام کی نمائندگی کی بجائے پارٹی کی نوکری کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار شہداء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سکریٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی، مرکزی رہنماعلامہ اعجاز بہشتی، صوبائی سکریٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی، مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان سرفراز نقوی اور دیگر مقررین نے چنداہ سکردو میں کیا۔

 مقررین نے سوال اٹھایا کہ جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز میں سے کچھ نے مجرم اور کچھ نے ملزم قرارد ے دیا تو ایسے میں وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے چمٹے رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں رہتا، اور انہی کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے سامنے انکوائری  کسطرح سے شفاف اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے؟ اسلئے تھوڑی سی بھی غیرت باقی ہے تو میاں صاحب کو چاہئے کہ استعفیٰ دیکر گھر جائیں جب تک انکوائری مکمل ہوکر سپریم کورٹ سے باقاعدہ فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ناپیدگی پر تشویش کا اظہا رکرتے ہوئے مرکزی صدر آئی ایس او نے کہا کہ سمجھ میں نہیں آتی یہاں کی حکومتیں اپنے عوام کو کیوں جان بوجھ کر اندھیروں میں رکھنا چاہی ہے۔ جب دنیا جہان سے لوگ اس جنت نظیر خطے کو دیکھنے آتے ہیں، ہر قدرتی وسائل سے یہ خطہ مالامال ہے، اور کسی بھی بد امنی سے پاک ہے تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہاں ترقی کا دور دورہ ہوتا، عوام خوشحال ہوتا ، تعلیم ، صحت اور دیگر ضروریات زندگی کیلئے ترس نہیں رہے ہوتے، لیکن ان معاملات میں بدترین صورتحال کو دیکھ کر یہی سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں کے عوامی نمائندے عوام سے مخلص ہے نہ اپنے خطے سے،بلکہ صرف شہوت اقتدار ہی ان کا اوڑھنا بچھونا لگتا ہے۔

آغا سید علی رضوی اورعلامہ اعجاز بہشتی نے کہا کہ صوبائی حکومت کی نا اہلی کی بدترین مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کیلئے حصہ لے سکی،کئی بار افتتاح کے باوجود سکردو روڈ بنا سکی،وعدوں کے باوجود بلتستان یونیورسٹی کیلئے کام ہوا نہ بجلی لوڈشیڈنگ پر قابو پاسکی بلکہ ان کا سارا ہم و غم سیاسی انتقام کیلئے دہشت گردی ایکٹ کا استعمال،عوامی فنڈز پر ٹھیکہ دار نوازی ،اقربا پروری اور جھوٹے وعدے ہی ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد اسکینڈل میں عوام کے منہ پر کالک ملنے والے بھی ہاتھ میں تسبیح لیکر جھوٹے بیانات دیتے نہیں تھکتے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree