The Latest

سانحہ پاراچنار اور ہماری بے حسی

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاراچنار کرم ایجنسی کا دارلخلافہ ہے اور فاٹا کا سب سے بڑا شہر ہے جو پشاور سے جنوب کی طرف افغان صوبے پکتیا کی جانب ہے۔ یہ پاکستان سے افغان دارلحکومت کا بل تک کا نزدیک ترین علاقہ ہے، اس کی سرحدیں القاعدہ کی مشہور پناہ گاہ تورا بورا کے پہاڑوں سے بھی ملتی ہیں۔ پاراچنار اسلام آباد سے362 کلومیٹر دور تقریبا 8 سے 9 گھنٹے کا راستہ ہے۔ اَسی کی دہائی سے پہلے پاراچنار خوبصورت اور پُر امن ترین علاقہ تھا لیکن اَسی کی دہائی کے بعد سے یہاں پر آہستہ آہستہ فرقہ واریت کا بازار گرم ہونا شروع ہوگیا کیونکہ باہر سے آنے والے مہاجرین نے اپنے ایجنڈے پر کام شرع کر دیا تھا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان دہشت گرد جہادیوں کی فیکٹریاں لگا دی گئی جہاں پر سادہ لوح لوگوں کو لیجایا جاتا تھا پھر یہ مجاہد بن کر نکلتے تھے ان میں ایک مشہور مدرسہ جو ہمیشہ سے مشکوک رہا ہے وہ نوشہرہ میں واقع مولاناسمیع الحق کے زیر انتظام چلنے والا دارلعلوم حقانیہ ہے جن کو طالبان کی نرسری بھی کہا جاتا ہے۔ بحر حال ان فیکٹریوں کی کہانی اور ان سے وطن عزیز کی سالمیت کو پہنچنے والے نقصانات کی لمبی فہرست موجود ہے۔

تو میں بات کر رہا تھا کرم ایجنسی کی خوبصورت وادی پاراچنار کی ، پاراچنار کے باسیوں نے اَسی کی دہائی کے بعد سے کچھ ماہ بھی امن و سکون سے نہیں گزارے، آئے روز طالبان و تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے ظلم و بر بریت کا نئی داستان کھل جاتی، کبھی پاراچنار پر چاروں طرف سے لشکر کشی کی جاتی تو کبھی راستے میں بسوں سے اتار اتار کر شناخت کر کے قتل کر دیے جاتے، کبھی فوجی کانوائی میں بھی لوگوں کے قافلوں کو لوٹ لیا جاتا اور جوانوں کو اغوا کر کے ان کے لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ پاراچنار پانچ سال تک غزہ بنا رہا جہاں پر پاکستان آنے والے تمام راستوں کو طالبان نے سیل کر دیا تھا۔ اس مشکل دور میں بھی پاراچنار کے غیور اور محب وطن پاکستانیوں نے اپنے بل بوتے پر ملک دشمن، را و موساد کے ایجنٹوں سے مقابلہ کیا اور ان دہشت گرد تکفیری گروہوں کے ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ملک دشمن عناصر کا یہ خیال تھا کہ وہ فاٹا کے دارلخلافہ سے وطن کی حفاظت کرنے والوں کا صفایا کر کے اس پورے خطے کو اپنے کنٹرول میں لیں گے لیکن ان کی راہ میں ہمیشہ سے پاراچنار کی عوام رکاوٹ بنتی تھی۔ پاراچنار کی عوام پانچ سال محسور رہی، تمام زمینی راستے پشاور سے منقطع ہونے کے باوجود وہ لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے افغانستان کے راستے پشاور پہنچتے تھے اور یہاں سے اشیاء خوردونوش لے کر پھر اسی راستے سے پاراچنار جاتے تھے مگر انہوں نے اس سخت ترین دور میں بھی تکفیری دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ جاری رکھا اور بلا آخر دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 80 کی دہائی سے اب تک تقریباں تین ہزار پاراچنار کی عوام دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے لیکن آج تک ان کی حب الوطنی میں کوئی کمی نہیں آئی، پاراچنار کی عوام کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان دہشت گردوں کو یہاں مصروف نہیں رکھتے تو ان کے لئے فاٹا پر قبضہ کر کے پشاور اور اسلام آباد پہنچنا مشکل کام نہیں تھا۔ دوسری طرف پاراچنار کی عوام نے افغان صوبے پکتیا، قندھار اور سب سے اہم تورا بورا کی پہاڑیوں سے آنے والے طالبان و القاعدہ کے دہشت گردوں کا راستہ بھی روکا اور وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔

عید الفطر سے دو دن پہلے جمعۃ الوداع کے دن وطن عزیز کے دشمنوں نے پھر سے ان محب وطن شہریوں پر عید کی خریداری کے دوران حملے کئے جس کے نتیجہ میں سے سے اوپر عام شہری شہید اور 150 کے قریب زخمی ہوئے، بعص زخمیوں کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے روز بہ روز اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔لیکن ستم ظریفی دیکھیں کہ بم دھماکوں کے بعد شہدا کے لواحقین اور شہریوں نے اپنے جائز مطالبات یعنی جان و مال کے تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا تو ایف سی کے اہلکاروں نے عوام کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ کر دی جس کی زد میں آکر مزید سات بے گناہ شہید ہوئے۔ پاراچنار کی عوام کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے بھی مظاہرین پر ایف سی کی فائرنگ سے کئی شہری شہید ہوچکے ہیں اور اتفاق سے ان دونوں واقعات کے دوران وہاں کی ایف سی کے ذمہ دار کرنل عمر تھے جن کے آرڈر پر یہ کاروائی ہوئی۔ اس سے بھی بڑھ کر ستم یہ ہوا کہ پانچ دن گزرنے کے باوجود وزیر اعظم میاں نواز شریف یا دیگر اعلی ذمہ داران کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ کوئی ان شہدا کے یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے نہیں آیا یہاں تک کہ کسی ذمہ دار نے ہمدردی کا اظہار تک نہیں کیا۔ کیا پاراچنار میں شہید ہونے والے بے گناہ پاکستانی نہیں تھے؟ کیا ان کا اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا جرم تھا؟ سو لاشیں گرنے اور لواحقین کے دھرنے کے باوجود اس ملک کے ذمہ داروں کو کیسے سکون سے نیند آتی ہے؟ اگر ان کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے تو کیا وہ اسی طرح کا رویہ اپنائیں گے؟ چلو مانا کہ آپ عید کی تیاریوں میں مصروف تھے یا آپ مظلوم عوام کی فریاد نہیں سننا چاہتے تھے تو ٹھیک تھا مگر ان مظلوموں کی حمایت کرنے والوں کو ڈرانا دھمکانا کہاں کا انصاف ہے؟ایک ذمہ دار شخص ہو نے کے باوجود غیر ذمہ دارانہ اور یک طرفہ بیان دینا کہاں کا انصاف ہے؟ چوہدری صاحب کہتے ہیں " حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات کو ملک دشمن عناصر جان بوجھ کر فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں" جناب یہ حال کا واقعہ نہیں ہے یہ توعوام 38 سالوں سے بھگت رہے ہیں اور ہر دفعہ ایسے واقعات کے پیچھے غیر ملکی ایجنٹوں کا ہاتھ ہی سن رہے ہیں۔

دوسری بات جناب ان مظلوم لوگوں نے تو کبھی فرقہ وارانہ رنگ دیا ہی نہیں کیونکہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو بے گناہوں کا قتل عام کرتے ہیں اُس کا کسی فرقے سے تعلق ہی نہیں ہو سکتا یعنی اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ دین اسلام کبھی کسی بے گناہ کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا اور اس بات کو ہم سب بھی تسلیم کرتے ہیں مگر پھر بھی یہ کہنا کہ" سانحہ پاراچنار کے بعد کی صورت حال پر نظر رکھی ہوئی ہے جس کو پاکستان مخالف ایجنسیاں فرقہ وارانہ اور نسلی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہیں" سمجھ سے بالا تر ہے۔لیکن یہ بات خوش آئیند ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے یقین دلایا کہ "پاراچنار واقع کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹھرے میں لایا جائے گا جبکہ متاثرین کو بلا امتیاز داد رسی کی جائے گئی" بلکل پاک افواج کے سپہ سالار نے عوام کے دلوں کی بات پانچ دن بعد ہی صحیح لیکن بات درست کی ہے اور عوام کی ترجمانی کی ہے۔ محب وطن پاکستانی بھی یہی چاہتے ہیں کہ صرف پاراچنار نہیں ملک بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی ظلم زیادتی ہو اس کے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزادی جائے اور متاثرین کے ساتھ بلا امتیاز سلوک کیا جائے، خصوصا سانحہ پاراچنار میں ملوث عناصر کے خلاف فوری کاروائی کی جائے اور چھ دن سے دھرنا دیے ہوئے مظلومین کے جائز مطالبات کو فوری تسلیم کیا جائے۔مگر وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے سانحہ پاراچنار کے شہدا کو دس دس لاکھ، زخمیوں کو پانچ پانچ لاکھ اور سانحہ بہاولپور میں ہلاک ہونے والوں کوبیس بیس لاکھ، مستحقین کو سرکاری نوکری دینے کے اعلان نے وطن عزیز میں متاثرین کی بلا امتیاز داد رسی کی رہی سہی کسرپوری کر دی ہے۔

تحریر: ناصر رینگچن

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین نے سانحہ پارہ چنار کے خلاف جمعہ کے روز ملک بھر میں یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ہے، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی کے مطابق بعد از نماز جمعہ ملک کے مختلف شہروں میں اجتماعات منعقد کیے جائیں گے جن میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی وصوبائی رہنماؤں سمیت مختلف سیاسی ومذہبی شخصیات شریک ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ پارا چنار کے عوام کو حب الوطنی کی سزا دی جا رہی ہے۔جو شر پسند طاقتیں ملک کو تفرقہ بازی کا شکار کرنا چاہتی ہیں ان کے ہاتھ سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں آئے گا۔پارا چنار کی عوام کے مطالبات جب تک منظور نہیں ہوتے تب تک ہمارے احتجاج کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔جو عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بے جا دباؤ یا اختیارات کے ناجائز استعمال سے دبانا ممکن ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، پرامن احتجاج پر گولیاں چلانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں جب تک انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچا دیا جاتا تب تک ہماری قانونی و آئینی جدوجہد جاری رہے گی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) سانحہ پارہ چنار کے خلاف پریس کلب اسلام آباد کے سامنے دھرنے کے چوتھے روز پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید نیئر بخاری ،سابق وزیر داخلہ سینٹر رحمن ملک ،فرحت اللہ بابر،تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینئر سیاستدان میاں  افتخار حسین، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا،اقلیتی برادری کے نمائندے،سپریم کورٹ بار کے وکلاء اور ہیومن رائٹس کے نمائندوں کی بڑی تعداد نے کیمپ میں آکر اظہار یکجہتی اور شرکاء سے خطاب کیا۔

اس موقعہ پر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ارض پاک کو دانستہ طور پر سانحات کا ملک بنا جا رہا ہے جہاں روز نیا زخم ملتا ہے۔عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس اور لاقانونیت نے حکمرانوں کی نالائقی کو ثابت کر دیا ہے۔اپنی اس نالائقی کو چھپانے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔پارہ چنار میں احتجاج کا آئینی حق استعمال کرنے والوں پر ریاستی اداروں کی طرف سے گولیاں چلانا کہاں کا انصاف ہے۔ہم اس ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ہمارے اس جدوجہد میں دن بدن شدت آتی جائے گی جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ تھک جائیں گے وہ نادان ہیں۔ہمارا جدوجہد تکفیریت کے خلاف ہے جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔ ملکی یکجہتی کونسل اور سنی اتحاد کونسل کی طرف سے ہماری تائید اس امر کی دلیل ہے کہ ہم پاکستان میں شیعہ سنی کوئی جھگڑا نہیں۔ شیعہ سنی کا اگر جھگڑا ہے تو وہ ان تکفیری قوتوں سے ہے جو ملک دشمنوں کے پے رول پر ہیں اور ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتی ہیں۔پارہ چنار کے لوگ باہمت اور ثابت قدم ہیں۔ان کے مطالبات ہر لحاظ سے اصولی اور جائز ہیں جن کا فائدہ پاکستان کے امن و امان کے لیے ہے۔حکومت تکفیریت کی سرپرستی چھوڑ کر اس ملک کی بقا و سالمیت کے لیے اقدامات کرے۔ ریاست کی طاقت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔پاکستان کے دشمن وہ لوگ ہیں جن کے اجداد نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی۔شیعہ سنی اتحاد ہمارا جبکہ تکفیریت کا خاتمہ حکومت کا کام ہے۔پارا چنارا وطن کے دفاع کی فرنٹ لائن ہے پاکستان کی حفاظت کے لیے اسے مضبوط کیا جائے۔

پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنمانیئر بخاری نے حکومت سے مطالبہ کیاکہ پارا چنار دھرنے کے شرکاء کے مطالبات فوری طور پر تسلیم کیے جائیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاراچنار میں ریاستی ادارے تحفظ کی فراہمی میں ناکام ہو چکے ہیں فوج کی نگرانی میں کرم ملیشیاء کو پاراچنا ر واپس لایا جائے تاکہ حفاظتی انتظامات مضبوط ہوں۔ آرمی چیف کو پارا چنار جا کر متاثرین کے مطالبات کی منظوری دینی چاہئے۔سنیٹر رحمان ملک و سابقہ وزیر داخلہ نے کہاکہ مجھے پارا چنار جانے سے روک دیا گیا ہے۔ جو ظلم کی انتہا ہے اس سلسلے میں میں ایوان بالا میں قرار داد پیش کروں گامیرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ پارا چنار مظاہرین کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔

تحریک انصاف کے مرکزی رہنما نعیم الحق نے سانحہ پارا چنار کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی راہ میں حائل مصلحت کی جڑ تک جانے کی ضرورت ہے۔نفرتیں پھیلانے والے عناصر کی نشاندہی کرنا ہو گی۔کوئٹہ اور کراچی میں ڈاکٹر ز،انجینئرز اور اعلی صلاحیت یافتہ شخصیات کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے بعد پارہ چنار میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ کون سے عناصر ہے جو بھائی کو بھائی سے لڑا رہے ہیں۔ہم لوگ پارا چنار کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے مطالبہ کیا کہ ایک کمیشن بنایا جائے جو یہ جائزہ لے کہ نیشنل ایکشن پلان کو ناکام بنانے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔تما م لشکروں کے اور کالعدم مذہبی جماعتوں کے سربراہان اور نواز شریف ایک دوسرے کے حامی ہیں۔نیپ ان شخصیات کو شیڈول فور میں ڈالنے کے لیے بنایا گیا ہے جو حکومت کے منفی اقدامات کے خلاف کھل کر بولتی ہیں۔عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی میں حکومت ناکام ہو چکی ہے۔شیعہ سنی اتحاد سے پاکستان کے دشمنوں کو شکست دیں گے۔ارض پاک کو یمن ،لبیا یا شام نہیں بننے دیا جائے گا۔پارا چنار کے سانحے پر سنی اتحاد کونسل مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ کھڑی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ پارا چنار میں یہ واقعہ پہلا نہیں۔حکومت اگر بروقت اقدامات کرتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا مگر افسوس کہ حکومت نے اپنی پالیساں درست کرنے کی بجائے الزام تراشی کو شعار بنا رکھا ہے۔اس واقعہ کے بعد وزیر اعظم ،وزیر داخلہ اور آرمی چیف کو پارا چنار جانا چاہیے تھا۔سیکورٹی میں ہمارے ملیشیا کی ڈیوٹی اس لیے نہیں لگائی جا رہی تاکہ ہم لوگ نہتے رہیں اور دہشت گردوں کو کھل کر کاروائیوں کا موقعہ مل سکے۔معاوضوں کی جب بات ہوتی تو بھی ہمارے خون کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔وزیر اعظم کو بہاولپور اور پارہ چنار کے لوگ میں فرق نہیں کرنا چاہیے تھا۔پاکستان کی سالمیت کے لیے موجودہ پالیسیوں کو بدلنا ازحد ضروری ہے۔ہم نے پالیسی نہ امریکہ کے لیے بنانی ہے اور نہ سعودیہ کے لیے ہم۔نے پاکستان کے لیے پالیسیاں بنانی ہیں۔

عوام اور عوام صرف عوام

وحدت نیوز(آرٹیکل) عید کا دن غم میں ڈوب گیا،ان چند دنوں میں  کوئٹہ میں تیرہ ، کراچی میں چار، پارہ چنار میں ایک سو سے زائد اور بہاولپور میں ایک سوچالیس افراد کا خون ناحق بہہ گیا۔

کس حادثے میں کون کتنا قصوروار ہے ، اب اس پر بحثیں ہوتی رہیں گی، سیاستدان بیانات داغتے رہیں گے اور ٹسوے بہاتے رہیں گے ، میڈیا نت نئی سرخیاں منتشر کرتا رہے گا اور  یہ سلسلہ  یونہی چلتا رہے گا ،یہانتک کہ تھک ہار کر لوگ اپنے گھروں کو سدھار جائیں گے اور پھر کسی نئے واقعے کا انتظار کریں گے۔

  آئیے سب سے پہلے  بہاولپور  چلتے ہیں  جہاں ایک سو چالیس انسان جل کر خاکستر ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ ایک الٹے ہوئے  آئل ٹینکر  سے بہنے والا تیل بالٹیوں اور برتنوں میں بھر کر لے جا رہے تھے، اس دوران ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا  اور  ۔۔۔

جہاں پر  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا   آج کے دور میں بھی موٹر وے  پولیس اتنی بے خبر ہے کہ اسےٹینکر الٹنے کی خبر نہیں ہوئی اور یا پھر پولیس نے  حسبِ عادت موقع پر پہنچ کر حفاظتی اقدامات نہیں کئے؟

وہیں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا  وہاں کوئی ایک بھی سمجھدار شخص نہیں تھا جو لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتا۔افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد  موت کے منہ میں چلی گئی لیکن  شاہراہِ عام پر کسی نے انہیں نہیں  روکا ۔

بعض ذرائع کے مطابق وہاں موٹر وے پولیس کے اہلکار لوگوں کو منع کرتے تھے لیکن لوگوں نے نہیں توجہ نہیں دی ، اگر ایسا ہے تو یہ سانحہ مشال خان کے قتل کے بعد دوسرا انسانیت سوز واقعہ ہے جو پاکستان پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

دوسری طرف یہ بھی خبر ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے سانحہ احمد پور شرقیہ میں انسانی جانوں کے ضیاع کے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر دورہ برطانیہ مختصر کردیا ہے۔ وہ آج وطن پہنچتے ہی بہاولپور تحصیل احمد پور شرقیہ جائیں گے۔  یہ  ایک اچھی خبر ہے تاہم وزیراعظم کو فوری طور پر پارہ چنار بھی جانا چاہیے  جہاں گزشتہ چار دن سے لوگ  دھرنا دئیے ہوئے ہیں۔

پارہ چنار میں  شہدا اور زخمیوں کے لواحقین کے مطالبات میں سے سر فہرست  مطالبہ یہ ہے کہ کرنل عمر اور    کرنل اجمل ملک  سمیت ان سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے ، جنہوں نے شہدا  کے ورثا پر گولیاں چلا کر مزید لوگوں کو شہید کیا ہے۔

پارہ چنار کے عوام علاقہ کا کہنا ہے کہ  موجودہ سیکورٹی فورسز میں  دہشت گردوں کے  سہولت کار موجود ہیں، اس لئے ان کے بجائے مقامی ملیشیا اور رضاکار فورسز کو متعین کیا جائے ۔

لوگوں کے مطابق  ریڈزون  اور خندقیں صرف  دکھاوے کے لئے اور مقامی لوگوں کو تنگ کرنے کے لئے ہیں، اگر ان کا مقصد عوام کی سہولت اور حفاظت ہے تو انہیں شہر سے باہر نکالا جائے۔

 لوگوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ملیش خیل بارہ ہزار کنال اراضی پر حکومتی قبضے کو فوری ختم کرکے فی الفور اصل مالکان کے حوالے کیا جائے اور  پارہ چنارکو تقسیم کرنے کی کوششیں ترک کی جائیں۔

عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت ، مقامی مسائل کو  پولیٹیکل ایجنٹ کے مراعات یافتہ عناصر کے بجائے مقامی اور حقیقی رہنماوں  کے مشوروں سے حل کرے۔

یہاں پر انتہائی افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ  دھماکے کے بعد سے اب تک لوگوں کو محصوررکھنے  کے لئے پارا چنار میں ہر طرح کی کمیونیکیشن  سروس معطل ہے۔   عوامی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پارہ چنار کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں بیرون ملک اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں مقیم ہے۔ اس وقت دیگر ممالک اور علاقوں سے  لوگ اپنے عزیزوں کی خیروعافیت جاننے کے لئے بے قرار ہیں لیکن بے حس انتظامیہ  ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔

ہماری انسانیت کے نام پر وزیراعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے اپیل ہے کہ فوری طور پر کمیونیکیشن سروسز بحال کی جائیں اور عوام علاقہ کے مطالبات منظور کئے جائیں۔

اس وقت ہمیں عوام کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ جو سیاست دان  اور ادارے مسائل پیدا کرتے ہیں ، اور مسائل پیدا کرنے کی وجہ سے جن کی سیاست اور نوکریاں چلتی ہیں ، ان سے مسائل  حل کرنے کی امید رکھنا عبث ہے۔

اگر ہم نے اس ملک کو بحرانات سے نکالنا ہے تو  ہمارے مسائل  کا حل صرف اور صرف  یہی ہے کہ  ہمارے باشعور   اور پڑھے لکھے لوگ  بطور عوام ، عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، عوام کوپارٹیوں،   فرقوں، علاقوں، زبانوں اور قبیلوں میں تقسیم نہ ہونے دیں، عوام کو  اسلامی ، پاکستانی اور انسانی بنیادوں پر متحد کریں، لوگوں کو سیاسی وڈیروں اورحکومتی  اداروں کے مقابلے میں تنہا نہ چھوڑیں،عوامی ایشوز پر سمجھوتہ نہ کریں، عوامی مسائل کو اجاگر کریں اور  عوام کو عوام کی مدد کرنے کے لئے میدان میں لا ئیں، عوام کو آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاووے کے بجائے  ظالموں کو پہچاننا اور ان کے  خلاف بولنا  سکھائیں۔

عوام بیدار ہو جائیں  تو ایران کی طرح اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کو روند سکتے ہیں اور  دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں ایک آزاد  اور نیا ملک بنا سکتے ہیں،  لیکن اگر عوام سو جائیں تو وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی حکمرانوں اور اداروں کے ہاتھوں لٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ممالک اور اقوام کی  تاریخ کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ بیدار اور باشعور عوام ہی  اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔

تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(اسلام آباد) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں سانحہ پاراچنار میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور حکومتی مجرمانہ خاموشی کے خلاف آج پنجاب اسمبلی میں مذمتی قرار داد پیش کی گئی جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کرلیا، بعد ازاں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات اسد عباس شاہ نے میاں محمود الرشید کو ٹیلی فون کرکے سانحہ پاراچنار اور مظلوموں کے حق میں ایوان میں آواز اٹھانےپر شکریہ ادا کیا ۔

بدعت قرآن و سنت کی روشنی میں

وحدت نیوز(آرٹیکل) بدعت کا لغوی معنی کسی نئے اوربےسابقہ کام کو انجام دیناہے اور عام طور پر بدعت ہر اس نئے کام کو کہا جاتا ہےجو فاعل کے حسن و کمال پر دلالت کرتا ہے۔اگر خدا  کے لئے لفظ بدیع استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ خدا وند متعال نے کائنات کو آلات و  وسا یل  اور کسی سابقہ چیز کو دیکھے بغیرخلق کیا ہے ۔ بدیع کبھی اسم فاعل {مبدِع}اور کبھی اسم مفعول {مبدَع}کے معنی میں استعمال ہوتاہے  اور آیۃ کریمہ { قُلْ مَا کُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُل}کہہ دیجئے : میں رسولوں میں انوکھا {رسول} نہیں ہوں،میں ہر دو معنی کا احتمال دیا گیا ہے ۔

روایات میں لفظ بدعت شریعت وسنت کےمقابلے میں استعمال ہواہے اور اس سے مراد اسلام اور سنت نبوی  کے خلاف کوئی کام کرنا ہے۔حضرت علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:{انما الناس رجلان متبع شرعۃ و مبتدع بدعۃ}لوگ دوقسم کے ہوتےہیں یاوہ جو شریعت کی پیروی کرتےہیں یا وہ جو بدعتوں کو ایجاد کرتے ہیں۔ آپ ؑایک اور مقام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بارے میں فرماتے ہیں:{اظہر بہ الشرائع المجعولۃ و اقمع بہ البدع المدخولۃ}آپ  ؐ کےذریعے غیر معروف شریعتوں کو ظاہر کیاہےاور مہمل بدعتوں کا قلع و قمع کر دیاہے ۔اسی طرح آپ ؑفرماتے ہیں :{ و ما احدث بدعۃ الا ترک بہ سنۃ}کوئی بدعت اس وقت تک ایجاد نہیں ہوتی جب تک کوئی سنت ترک نہ ہوجائے۔

فقہاء و محدثین نےبدعت کی مختلف عبارتوں میں تعریف کی ہے یہاں ہم چند نمونے ذکر کر تے ہیں :
{البدعۃ مااحدث مما لا اصل لہ فی الشریعۃ یدل علیہ واما ما کان لہ اصل من الشرع یدل علیہ وفلیس  ببدعۃ شرعا و ان کان بدعۃلغۃ}بدعت وہ چیزہےجس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اگر شریعت میں اس کے لئے کوئی دلیل موجود ہو تو وہ شرعا بدعت نہیں ہےاگرچہ لغت میں اسے بدعت کہا جاتا ہے ۔
{البدعۃ مااحدث و لیس لہ اصل فی الشرع،وما کان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس بدعۃ}بدعت وہ چیزہےجو{پیغمبر اسلام کےبعد} ایجاد ہوئی ہواور اس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اور جس چیز کا دین میں کوئی اصل موجود نہ ہو ۔

{البدعۃزیادۃفی الدین او نقصان منہ من اسناد الی الدین}بدعت شریعت میں دین کےنام پر کمی یابیشی کرنا ہے ۔
{البدعۃ،الحدث فی الدین و ما لیس لہ اصل فی کتاب ولاسنۃ}بدعت سےمراددینمیںکسی چیز کا اضافہ کرناہے جس  کے جواز پر کتاب وسنت میں کوئی دلیل موجود نہ ہو ۔

{البدعۃ فی الشرع ماحدث بعد الرسول و لم یرد فیہ نص علی الخصوص و لایکون داخلا فی بعض العمومات أو ورد نہی خصوصا أو عموما}شریعت میں بدعت وہ چیز ہےجو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبعد ایجاد ہوئی ہو اوراس کے جواز میں کوئی خاص یاعام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔

علماء کی اصطلاح میں بدعت سےمراد دین میں کسی حکم  کا زیادہ یا کم کرنا ہے ۔یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانے میں غیر موجودکسی حکم کودین میں شامل کرنا جبکہ اس کےجوازپر کوئی خاص یا عام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔ لہذا جب بھی کوئی حکم سابقا موجودنہ ہو لیکن کتاب و سنت سےاستنباط کیا ہو تو وہ بدعت نہیں ہے اگرچہ کتاب وسنت سے استنباط کرنےمیں غلطی ہونا ممکن ہے لیکن اجتہاد کرتے ہوئے کوئی غلطی سرزد ہوجائےتو اس پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے ۔

دین میں بدعت گذاری گناہان کبیرہ میں سے ہے ۔کتاب و سنت ،عقل اور اجماع  مسلمین اس کی حرمت  پر دلالت کرتی ہے ۔ عقلی اعتبارسے قانون گزاری کا حق صرف خدا کو حاصل ہے  اور خدا کے اذن و مشئیت کےبغیر کسی کو دین میں قانون گزاری کا حق حاصل نہیں ہے  ۔قرآن کریم یہودیوں کی سرزنش کرتا ہے کیونکہ وہ دینی علماء کی بےچون وچرااطاعت کرتے تھےاور انہیں  ارباب قرار دیتے تھے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ اتخَّذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ الله}انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماءاور راہبوں کواپنا رب بنا لیا ہے۔”یہودی علماءلوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ یہ لوگ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال قرار دیتے تھے اور لوگ بے چوں و چرا ان کی اطاعت کرتے تھے گویا یہ افراد حقیقت میں  ان کی پرستش کرتے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعت کےبارے میں فرماتے ہیں:{کل بدعۃ ضلالۃوکل ضلالۃ فی النار}ر بدعت گمراہی ہےاور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔حضرت علی علیہ السلامبدعت گزاروں کو خدا کےنزدیک مبغوض ترین افراد میں سےقرار دیتےہیں جنہیں خدا نے اپنی حالت پر چھوڑدیا ہے۔ یہ لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ہیں اور دین میں بدعت ایجاد کر کے لوگو ں کو گمراہی کی طرف دعوت دیتے ہیں چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :{إن أبغض الخلائق إلی الله رجلان:رجل وکلہ الله الی نفسہ فہو جائر عن قصدالسبیل،مشغوف بکلام بدعۃودعاء ضلالۃ}بےشک پروردگار کی نگاہ میں بد ترین خلائق دو طرح کے افراد ہیں: ایک وہ شخص جسے پروردگار نے اسی  کےرحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو اور وہ درمیانی راستے سےہٹ گیا ہے ۔جوصرف بدعت کا دلداہ اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے۔اس قسم کے افراد اپنے برے اعمال کی سزا پانے  کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد{جنہیں گمراہ  کیا ہے} کا بھی بوجھ اٹھانے والے ہیں۔
 حضرت علی علیہ السلام بدعت ایجاد کرنےکو فتنوں کی ابتدا قرار دیتے ہوئے فرماتےہیں :{انما بدءوقوع الفتن احکام تبتدع و اہواءتتبع،یخالف فیہا کتاب الله ویتولی فیہارجال رجالا علی غیردین الله}فتنوں کی ابتداء ان خواہشات سےہوتی ہےجن کی پیروی کی جاتی ہے اوران جدیدترین احکام  سےہوتی ہے جو گڑھ لئے جاتے ہیں اور کتاب خدا کےبالکل خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سےالگ ہوجاتے ہیں ۔

بدعت اجتماعی زندگی میں نمایاں ہونےوالے گناہوں میں شمار ہوتی ہے جو معاشرے کو گمراہی ا ور فساد کی طرف دھکیل دیتی ہے  لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نہی عن المنکر کرتےہوئے بدعت گزاروں کے ساتھ مقابلہ کریں۔ اگرچہ علماء پر اس حوالے سےسنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اسلامی روایتوں میں اس سلسلے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :{من أتی ذا بدعۃ فعظمہ فانما یسعی فی ه  ہدم الاسلام}اگر کوئی صاحب بدعت کےپاس آئے اوراس کی بزرگی کا اقرار کرے تو اس نے اسلام کو تباہ کرنےکی کوشش کی ہے۔آپؐ ایک اور حدیث میں فرماتےہیں:{اذا رایتم اہل الریب و البدع من بعدی فاظہروا البراءۃ منہم}جب تم میرے بعد اہل شک و اہل بدعت کو دیکھو تو ان سےبرائت کا اظہار کرو ۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :{لا تصحبوا اہل البدع ولاتجالسوہم}اہل بدعت کےساتھ نہ تعلقات رکھو اور نہ  ہی ان کےپاس بیٹھو۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اور حدیث میں  فرماتے ہیں:{اذاظہرت البدعۃ فی امتی فلیظہرالعالم علمہ فمن لم یفعل فعلیہ لعنۃالله}جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہوں توعالم دین کو چاہیے کہ وہ اپنےعلم کا اظہار کرے اورجوایسا نہ کرے تو اس پر خدا کی لعنت ہے  ۔

بدعت کے مصادیق کی پہچان سب سے اہم مسئلہ ہے کیونکہ تاریخ اسلام میں مختلف مذاہب  کے پیروکار ایک دوسرے کو بدعت گذار قرار دیتے تھے ۔بدعت سے مرادکسی حکم کو دین کی طرف منسوب کرنا جبکہ اس پر دلالت کرنے کے لئے کتاب و سنت اور عقل سے کوئی دلیل [عام و خاص ،مقید و مطلق}موجود نہ ہو لیکن اگر کوئی ان منابع پراستناد کرتا ہواکسی چیز کے بارے میں حکم دے تواسےبدعت نہیں کہہ سکتےاگرچہ دوسروں  کے نزدیک یہ حکم غلط ہی کیوں نہ ہو ۔ اس دور میں وہابیت اور تکفیری گروہ مسلمانوں کو بدعت گزار قرار دیتےہیں ۔ان کی نظر میں مسلمانوں  کےاکثر اعمال بدعت اور حرام ہیں جیسے اذان و اقامت  کےدرمیان یا اذان و اقامت سےپہلےیا بعد میں پڑھنے والے اذکار ،میناروں پر بلند آواز سے قرآن پڑھنا ،اذان کے بعد اور شب جمعہ کو پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوات بھیجنا،رمضان المبارک کی راتوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا ،عید میلا النبی منانا،بلند آواز میں نعت رسول مقبول پڑھنا ،تشیع جنازہ کے وقت بلند آواز سے اکٹھے لا الہ الا اللہ پڑھنا۔

مذکورہ موارد میں سے کوئی ایک بھی بدعت شمار نہیں ہوتا بلکہ یہ سب مستحبات شرعیہ ہیں اور ان مستحبی اذکار کا ہر وقت پڑھنا ایک نیک عمل ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کےمیلاد کےدن جشن و سرور کی محفلوں کا انعقادکرنا اور ان کی شہادت کے ایام میں مجالس عزا کا انعقاد کرنایہ سب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کےاہل بیت سے اظہار محبت ہے جو شریعت کی رو سے ممدوح اور پسندیدہ ہے ۔قرآن کریم اہلبیت علیہم السلام کی مودت کے بارے میں فرماتاہے: کہہ دیجیے: کہ میں اس {تبلیغ رسالت}پر تم سےکوئی اجرت نہیں مانگتا سوائےقریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےانصار کی عورتوں کو اپنےشہیدوں پر گریہ و زاری کرنےسے منع نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے حضرت حمزہ علیہ السلام پر گریہ و زاری نہ کرنےپر ان سے نارضگی کا اظہار فرمایا :{ولکن حمزۃ لابواکی}لیکن کوئی حمزہ پرگریہ نہیں کرتا ہے۔جب انصار نے یہ احساس کیا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنےچچا  کے لئے مجلس عزا منعقد کرنے کے خواہاں ہیں تو انہوں نے مجلس عزاء برپا کر کےحضرت حمزہ علیہ اسلا م پر گریہ وزاری کیں۔رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےان کے اس عمل کا شکریہ ادا کیا اوران کے حق میں دعا کی اور فرمایا:{رحم الله الانصار}خدا انصار پررحمت نازل فرمائے۔

حوالہ جات:
1.    احقاف،9۔
2.    مفرادات راغب ،کلمہ بدع۔
3.    نہج البلاغۃ،خطبہ 161۔
4.    ایضاً،خطبہ161۔
5.    ایضاً،خطبہ145۔
6.    ابن رجب ،الحنبلی ،جامع العلوم الحکم،ص 160۔
7.    ابن حجرعسقلانی ،فتح الباری ،ج17،ص9۔
8.    الشریف المرتضی ،الرسائل ،ج2،ص264۔
9.    الطریحی ،مجمع البحرین ،ج1،کلمہ بدع۔
10.    علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج74،ص203۔
11.     توبہ،31۔
12.    اصول کافی ،ج2،باب الشرک،حدیث 3،تفسیرطبری،ج10،ص81۔
13.    اصول کافی ،ج 1،باب البدع،حدیث12۔ابن اثیر ،جامع الاصول،ج5 ،حدیث 3974۔
14.    نہج البلاغۃ،خطبہ،17۔
15.    ایضاً،خطبہ 50۔
16.    اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 3۔
17.    ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 4۔
18.    ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 3۔
19.    اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 4۔
20.    شوری ،23۔
21.    سیرت ابن ہشام، ج1،ص99۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلین آزاکشمیر کے زیراہتمام سنٹرل پریس کلب مظفرآباد کے سامنے پاراچنار میں جاری دھرنے کی حمایت میں علامتی احتجاجی د ھرنادیا گیا۔ علامتی احتجاجی د ھرنےمیں شہریان مظفرآباد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ دھرنےسے معروف عالم دین مولانا احمد علی سعیدی،سید طالب ہمدانی،حافظ کفایت نقوی،تصور موسوی،محسن رضا اور سید حمید حسین نقوی نے خطاب کیا۔مقررین نے کہا کہ پاراچنار کے مظلوم عوام کئی روز سے اپنے جائز مطالبات کو لیکر سڑکوں پر بیٹھے ہیںلیکن نام نہاد وزیر اعظم نواز شریف کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ان کے پاس جا کر اظہار ہمدردی کرے اور ان کی بات کو سنے،پاراچنار سخت سکیورٹی کے حصار میں ہے اور وہاں دہشتگردوں داخل ہو کر نہتے مظلوم عوام کو نشانہ بنانا اس بات کی دلیل ہے کی ایف سی میں موجود کچھ کالی بھیڑیں دہشتگردوں کو سپورٹ فراہم کر رہی ہیں۔ ایف سی کا کرنل عمر وقت کا ابن زیاد ہے جو مظلوم عوام پر گولیاں چلاتا ہے۔

علامتی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلین آزاکشمیر کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید طالب ہمدانی کہا کہ پا کستان میں اگر کسی چیز کی کوئی قیمت نہیں تو وہ ملت جعفریہ کے محب وطن شہداء کے خون ہیں،ہماری نسل کشی ہو رہی ہے ریاستی ادارے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، وزیراعظم صرف پنجاب میں کے علاقہ احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر سے تیل چوری کرنیوالوں کے ساتھ اظہار ہمدردی میں مصروف ہے اور فاٹا کی مظلوم عوام کے ساتھ اسے کوئی سروکار نہیں کیونکہ وہ ان کے ووٹرز نہیں۔ پاراچنار کے مظلومین گذشتہ روز سے جنازوں کے ہمراہ سڑکوں بیٹھے ہیں،لیکن ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں،سکیورٹی فورسز اور پولیٹیکل ایجنٹ ہر دھماکے کے بعد دہشتگردوں کی ٹارگٹ سے بچے لوگوں کو فائرنگ کا نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں،پارچنار کے ہر سانحے میں نہتے عوام پر پہلے دہشتگرد حملہ آور ہوتا ہے بعد میں سکیورٹی فورسسز اور پولیٹیکل ایجنٹ عوام کو سیدھی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں،ہم حیران ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان میں بانیان پاکستان کے اولادوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے،ہمیں ہر تہوار پر لاشوں کا تحفہ دینا ہمارے محافظوں نے روایت اپنا لی ہے۔

سید طالب ہمدانی نے کہا کہ کرم ایجنسی میں مقامی رضا کار فورس کو ہٹانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ یہاں دہشتگردوں کو مسلط کیا جائے،اور یہ کام بخوبی سرانجام دینے میں حکمران اور سکیورٹی ادارے کامیاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مذید کہا کہ ہم حکومت آزاد کشمیر کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر انہوں نے علامہ تصور جوادی اور ان کی اہلیہ پر حملہ کرنیوالے ملزمان کو فی الفور گرفتا ر نہ کیا تو ہم بھی نہ صرف پورے آزادکشمیر بلکہ پاکستان کی سڑکوں پر نکلیں گے ا وراس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے جب تک اس سانحہ میں مرتکب ملزمان گرفتار نہیں ہو جاتے۔ اگر حکومت کی یہ سوچ ہے کہ وہ اس معاملہ کو لٹکا کر ٹائم پاس کر لے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔ہم نے انتظامی اداروں کو عید تک مہلت دی تھی جو اب ختم ہو گئی ہے۔ علامتی احتجاجی دہرنا کے اختتام پر شھداء پاراچنار کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ کی گئی اور ان کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے شمعیں روشن کی گئیں۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین لاہور کے زیراہتمام لاہور پریس کلب کے باہر پاراچنار سانحے اور اس کے بعد کرم ایجنسی میں جاری دھرنے کی حمایت میں علامتی دھرنا دیا گیا۔ دھرنے میں خواتین، بچے، نوجوان اور بزرگ افراد کی کثیر تعدا نے شرکت کی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی نے بھی اظہار یکجہتی کیلئے دھرنے میں شرکت کی۔ دھرنے کے شرکاء حکومتی بے حسی کیخلاف شدید غم غصے کا اظہار کرتے رہے۔ دھرنے کی قیادت مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی اور سیکرٹری جنرل لاہور علامہ حسن ہمدانی نے کی۔ دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ناصر شیرازی نے کہا کہ یہ ہمارے ملک بھر میں علامتی دھرنے ہیں، جو چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں جاری ہیں، پاراچنار کے مظلومین کی حمایت میں لندن، امریکہ سمیت پورپی ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے شروع ہو چکے ہیں، اگر مطالبات میں من و عن منظوری و عملدرآمد نہ ہوا تو بعید نہیں یہ مظاہرے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں شہر شہر گاؤں گاؤں شروع ہو جائیں۔

انہوں نے کہا ہم پاراچنار کو غزہ اور مقبوضہ کشمیر نہیں بننے دینگے، پاراچنار میں دھماکے پاکستان کی دفاعی فرنٹ لائن پر حملہ ہیں، پاراچنار کو کمزور کرنیوالے دراصل پاکستان کی سلامتی کے دشمن ہیں، نواز شریف نے پاراچنار کے مظلومین کو نظر انداز کر کے 5 کروڑ پاکستانی ملت جعفریہ کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے، ہم اپنے مطالبات سے کسی بھی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، مظلومین کی داد رسی تک سڑکوں پر بیٹھے رہیں گے، ہم نے پاکستان بنایا تھا اور ان شاءاللہ اس مادر وطن کو ہم ہی بچائیں گے، ملک دشمنوں کو بے نقاب کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ علامہ حسن ہمدانی نے کہا کہ ن لیگ نے شیعہ قوم کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ ہم تمہاری نسل کشی میں قاتلوں کیساتھ کھڑے ہیں، ہم ان شاءاللہ اس کا جواب عوامی طاقت سے آنیوالے الیکشن میں ووٹ کے ذریعے دینگے، نواز شریف وفاق میں اور شہباز شریف پنجاب میں ہم سے انتقام لے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگی ظالم حکومت سن لے مکتب اہلیبیت ؑ کو یزید جیسے ظالم و فاسق فاجر حکمران ختم نہیں کر سکا تو تم اور تمھارے سرپرست آل سعود ان شاءاللہ جلد رسوا ہو جائیں گے، ملت تشیع پر پاکستان میں ہونیوالے مظالم کے ذمہ دار آل شریف اور آل سعود ہیں، ہم سعودی پراکسی وار کو مادر وطن میں امپورٹ نہیں کرنے دینگے، آل شریف اس وقت سے ڈریں کہ مظلومین کے ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچیں گے، اس وقت نہ کوئی قطری بچا سکے گا نہ ہاؤس آف سعود، پھر فیصلہ عوام کا ہوگا، ہم پُرامن اور مہذب انداز میں اپنی مظلومیت کا اظہار کر رہے ہیں، ہمیں راست اقدام اُٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا ہم علامہ راجہ ناصر عباس کے حکم کے منتظر ہیں، وہ پاراچنار میں مظلومین کیساتھ سڑک پر بیٹھے ہیں، ان کے حکم کے بعد پورے ملک میں دمادم مست قلندر کرنے کیلئے ہم کمر بستہ تیار ہیں، ہم پاراچنار کے مظلومین کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔

وحدت نیوز(لاہور) مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے سانحہ پارا چنار کو نظر انداز کر کے قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔حکومت ملک میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے میں ناکام ہے ۔ ہم ملت جعفریہ اور پاراچنار کے شہدائ کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔یہ باتیں انہوں نے مجلس وحدت مسلمین کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہیں جنہوں نے سید ناصر شیرازی کی قیادت میں اُن سے ملاقات کی ۔ سید ناصر شیرازی نے سانحہ پارا چنار اور ایم ڈبلیو ایم کے دھرنے کے حوالے سے انہیں آگاہ کیا۔ اس موقع پر چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ حکومت دھرنا ختم کرانے میں سنجیدگی سے مذاکرات کرے اور پارا چنار کے متاثرین کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ نوازشریف نے سانحہ پارا چنار کونظر اندازکرکے قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے جو سراسر زیادتی اور ظلم ہے۔

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی جگہ جگہ شہدائے پاراچنار اور لواحقین شہداء کیساتھ اظہار ہمدردی کیلئے عید الفطر کے روز سے مسلسل احتجاجی مظاہروں، علامتی دھرنوں اور شمعیں روشن کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں اسکردو میں  یادگار شہداء پر شمعیں روشن کی گئیں، جس میں کثیر تعداد میں نونہالوں نے شرکت کیں۔ شرکاء کیلئے باجماعت نماز مغربین کا اہتمام کیا گیا جس کی امامت صوبائی سربراہ آغا علی رضوی نے کی۔ اس موقع علامتی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم جی بی کے سربراہ سید علی رضوی، آئی ایس او کے ڈویژنل صدر سید اطہر موسوی، اور جی بی یوتھ الائنس کے سربراہ شیخ حسن جوہری نے خطاب کیا۔ آغا علی رضوی نے اپنے خطاب میں وزیراعظم کی جانب سے شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کیلئے ایک بیان تک جاری نہ ہونے پر شدید الفاظ میں مذمت کی اور قرار دیا کہ موجودہ حکومت بے حسی اور لاپرواہی کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ انہیں عوامی فنڈز پر لوٹ مار کرنے سے فرصت نہیں۔ ان کے ساتھ ان کو قائد کہنے والے بھی صرف اور صرف ملک کو لوٹنے کے ایجنڈے پر ہیں اور ملکی سالمیت اور عوام کی جان و مال کی کوئی پرواہ نہیں۔

دوسری طرف تحصیل گمبہ اسکردو کی جانب سے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس سے ضلعی سربراہ شیخ علی محمد کریمی و دیگر نے خطاب کیں۔ اس میں شہداء کو خراج تحسین کرنے کے ساتھ ساتھ پاراچنار میں دیئے دھرنے کے مطالبات پر اظہار یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ ضلع کھرمنگ میں بھی احتجاجی مظاہرے اور علامتی دھرنے دیئے گئے، جن سے مجلس وحدت کے ضلعی سربراہ شیخ اکبر رجائی اور دیگر تنظیمیوں سے مربوط علماء وعمائدین نے خطابات کیں۔ کھرمنگ خاص کے علاوہ ضلعی صدر مقام طولتی میں احتجاجی دھرنے سے مجلس وحدت کے صوبائی رہنماء کاچو ولایت علی خان اور دیگر نے خطابات کئے اور حکومت و قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کھرمنگ مہدی آباد، منٹھوکھا اور مادھوپور میں بھی عوام کی کثیر تعداد نے پاراچنار کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے اور حکومت اور سکیورٹی اداروں خصوصا ایف سی کے نا اہل ذمہ داران کے خلاف احتجاج کیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree