The Latest

وحدت نیوز(آرٹیکل) پہلے تومیں بتانا ضروری سمجھتا ہوں کے میں ایک سچا پاکستانی ہوں اورجرنلزم کا طالب علم ہوں۔۔۔۔دوسری بات میں صرف مسلمان ہوں اور میرا کسی مسلک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ،، تیسری بات میں اپنی فوج کااحترام کرتا ہوں لہذا مجھے کسی کا ایجنٹ یا کارندہ نا سمجھا جائے  ،اب میں اپنی جان کی امان پاوّں تواپنی تحریر کی طرف آتا ہوں

پارہ چنار کرم ایجنسی میں واقع ہے اور یہ پاکستان کا حصہ ہے سرسبز پہاڑوں میں جنت کی وادی کہا جائے تو غلط نا ہو گا غریب محنت کش اور پاکستان کی محبت میں سرشار لوگ یہاں بستے ہیں لیکن کچھ بین اقوامی پاکستان دشمن ایجنڈے اور کچھ اپنے اندر کے غداروں نے اس علاقے کو غزہ بنا دیا ہے 2000سے لیکر 2017تک ہزاروں پاکستانی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جنکا ریکارڈ موجود ہے ، 27رمضان المبارک کو پارہ چنار کے مین بازار میں جب لوگ عید کی شاپنگ میں مصروف تھے پہلے ایک خود کش نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑایا دس سے پندرہ لوگ شہید ہوئے اور جیسے ہی چار پانچ سو لوگ اکٹھے ہوئے گاڑی میں موجود خود کش نے بارود سے بھری گاڑی کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 110شہید 3سو زخمی جبکہ 70ابھی بھی لاپتہ ہیں اس وادی میں کوئی گھر ایسا نہیں جس کا کوئی رشتے داراس دہشت گردی سے متاثر نا ہوا ہو کشمیر میں انڈیا اور غزہ میں اسرائیل کی دہشتگردی پر چیخنے والواس وقت وادی پارہ چنار میں موبائل سروس انٹرنیٹ سروس بند ہے خوارک اور دوائی کا قحط پڑھ چکا ہے وہ لوگ اپنی درد کی کہانی کس کو سناہیں کوئی ہے صلاالدین ایوبی کوئی ہے محمدبن قاسم ان مظلوم مسلمان پاکستانیوں کی آواز سننے والا ؟؟؟حضور یہ وہ علاقہ ہے جہاں جب سے جنوبی وزیرستان کا آپریشن شروع ہوا ہے وہاں پاکستانی پرچم لہرارہا ہے وہاں فوجی افسران بغیر سیکورٹی کے اپنی نقل و حرکت کرتے ہیں وہ محب وطن پاکستانی ہیں ،، پارہ چنار کے محب وطن پاکستانی نوجوانوں نے منگل باغ ، بیت اللہ مسعود ،القاعدہ ، طالبان سے لڑے اور علاقے کو پرامن بنایا

اب چند حقائق جو میں نے بڑی محنت سے اکٹھے کیے ہیں وہ غور طلب ہیں اس وادی میں کرم ملیشیاء کے نام سے رضا کار فورس کام کرتی تھی پاک آرمی کے زیر سایا انکو 5ہزار روپےماہانہ دیے جاتے تھے اسلحہ انکا اپنا ہوتا تھا جبکہ سہولیات برائے نام تھیں کچھ ماہ قبل پاک آرمی نے کرنل عمر نامی فوجی افسر کو یہاں تعنیات کیا اس نے آتے ہی یہ فورس ختم کی اور اسلحہ جو قبائلیوں کا زیور ہوتا ہے جمع کروانے کا حکم دیا تمام لوگوں نے بغیر کسی مزاحمت کے سارا اسلحہ دے دیا وہاں سیکورٹی پر ایف سی کو تعنیات کردیا گیا پورے پارہ چنار کے اردگرد وہاں کے رہایشیوں کی مدد سے خندق کھودی گئی اور چند مخصوص راستے رکھے گئے جہاں ایف سی کی بھاری نفری 24گھنٹے تعنیات کردی گئی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے صرف چند مخصوص راستوں سے بارود سے بھری گاڑی اندر کیسے چلی گئی دو خودکش جیکٹ پہن کر بازار میں کیسے پہنچ گئے کیونکہ خندق کی وجہ سے شہر میں گاڑی داخل ہی نہیں ہوسکتی چیک پوسٹ سے گاڑی کو اندر کس نے جانے دیا یقنناایف سی کی ذمہ داری تھی جو پوری نہیں کی گئی  پچھلے پانچ ماہ میں پارہ چنار میں پانچ دھماکے ہوچکے ہیں لیکن افسوس کے فوج کے سربراہ نے ابھی تک کرنل عمر سے وضاحت لینا بھی ضروری نہیں سمجھا سانحہ بہاولپور پر چیخنے والے فوجی اور سول حکمران کہاں گم ہیں بہاولپور تو آرمی چیف اور وزیر اعظم صاحب بھی پہنچ گئے فوج نے ہیلی کاپٹر بھی مہیا کردیا کیا پارہ چناروالے پاکستانی نہیں تھے پارہ چنار دھماکے میں تین سو افراد زخمی ہیں جن میں پندرہ سے بیس لوگ سیریس ہیں اور بہت سارے معذور ہوچکے ہیں ان کی قیمت صرف 3لاکھ لگائی گئی ہے کیا آرمی چیف صاحب کرنل عمر کی نااہلی پر اسکا کورٹ مارشل کریں گے، کیا وزیر اعظم صاحب پارہ چنار کے پاکستانیوں کے وزیر اعظم نہیں ہیں کیا وہ ان مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھیں گے ،، میرے ملک کے سول اور فوجی حکمرانوں آخر کب تک منافقت کی پالیسی پر عمل پیرا رہو گے ،،، بقول خواجہ آصف ،،، کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے ،،،

قارئین اب میں آپ کو پارہ چنار کے بارے کچھ اور معلومات دیتا ہوں پارہ چنار سے 20کلومیٹر افغانستان کا علاقہ ہے تورا بورا جہاں پر داعش نے طالبان کو بھاگا کر قبضہ کر لیا ہے پارہ چنار کے عقب میں زیڈان پہاڑی پر اگر آپ کھڑے ہوں تو تورا بورا آپ کو نظر آجائے گا ،، اسرائیل ، امریکہ ، افغانستان ، انڈیا داعش کی مدد کر رہا ہے تاکے 2018 تک پاکستان میں داعش کے ذریعے دہشت گردی کروائی جائے اور سی پیک منصوبے کو روکا جا سکے پارہ چنار کو غزہ بنانا بین الاقوامی منصوبہ ہے اس وادی میں شعیہ برادری زیادہ آباد ہے تاریخ گواہ ہے شعیہ ہمیشہ امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں ایران میں صرف شاہ ایران امریکہ حامی تھا جسکو اس کمیونٹی نے خیمنی کی قیادت میں مار بھاگیا لیکن افسوس ہماری حکومت اور ادارے اس ایجنڈے کو سمجھ نہیں رہے یا سمجھنا نہیں چاہتے ،،، اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کے اگر پارہ چنار کے ہمارے پاکستانی بھائی اگر اپنے حقوق کے لیے احتجاج کریں تو ہماری ایف سی ان پر سیدھی فائرنگ کرتی ہے وہاں کے مقامی باوثوق ذرائع کے مطابق اب تک ایف سی کی فائرنگ سے 15افراد شہید ہوچکے ہیں ، فوج کی یہ رویش وہاں کے لوگوں کو طالبان بنا دے گی یاد رکھنا ابھی بھی وقت ہے ہمارے حکمران ، سنی ، شعیہ ،وہابی ،بریلوی ، دیوبندی، پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، پٹھان کی تفریق سے نکل کرصرف  پاکستانیوں کے حکنران بنیں اور سب کو پاکستانی سمجھیں ،،


تحریر: افضل سیال

وحدت نیوز(پاراچنار) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بزرگ عالم دین اور سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی سے پاراچنار میں ملاقات کی۔ اس موقع پر پاراچنار دھماکے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور جاری احتجاجی دھرنے سے متعلق بات چیت کی گئی۔ دونوں رہنماوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، اس موقع پر علامہ عابد حسین الحسینی نے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا شکریہ ادا کیا۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ہم ہرگز پاراچنار کے مظلومین کو تنہاء نہیں چھوڑیں گے، پاراچنار کے عوام کی آواز پورے پاکستان کی آواز بن چکی ہے۔

وحدت نیوز(کراچی) سانحہ پاراچنار کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر کراچی میں احتجاجی علامتی دھرنا دیا گیا۔ عید کے دوسرے روز نمائش چورنگی پر مرکزی علامتی دھرنے میں ملت تشیع کی کثیر تعداد شریک تھی اور پاراچنار میں انتظامی اصلاحات کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ کراچی دھرنے میں پیپلز پارٹی کے رہنما وقار مہدی اور راشد ربانی، ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی، رکن صوبائی اسمبلی قمر عباس رضوی، کامران ٹیسوری، تحریک انصاف کے فردوس شمیم نقوی، پاک سرزمین پارٹی کے رضا ہارون، ڈاکٹر صغیر اور وسیم آفتاب سمیت مختلف دیگر سیاسی و مذہبی شخصیات و رہنماوں نے اظہار یکجہتی کیا اور سانحہ پاراچنار پر ایم ڈبلیو ایم کے موقف کو اصولی قرار دیتے ہوئے مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاراچنار کے معاملے اور دکھ کی اس گھڑی میں وہ پاراچنار کی عوام اور ایم ڈبلیو ایم کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ کراچی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ حسن ظفر نقوی سمیت دیگر علماء کرام و رہنماوں نے کہا کہ قبائلی علاقہ جات میں پاراچنار وہ واحد علاقہ ہے، جہاں سے وطن عزیز اور افواج پاکستان کے حق میں ہمیشہ آواز بلند ہوتی رہی ہے، یہ علاقہ پورے ملک کا فطری دفاع ہے، ان کی ہر حال حفاظت کرنا ہوگی، عوام کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو پاراچنار کے عوام کا مکمل ساتھ دینا چاہیئے، ان لوگوں کو دانستہ طور پر ریاستی جبر کا شکار بنایا جا رہا ہے تاکہ ان سے ان کی حب الوطنی چھینی جا سکے، دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہداء کے لواحقین سے احتجاج کا بنیادی حق سلب کیا جا رہا ہے، اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں پر ریاستی اداروں کی طرف سے گولیاں برسائی جانا اختیارات کے ناجائز استعمال کی بدترین مثال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاراچنار کے مظلومین کی آواز کو دبانے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا، پاراچنار کی انتظامی تبدیلی اور سیکورٹی کے حوالے سے اہل پاراچنار کے مطالبات پورے ہونے چاہیئے، اس سیکورٹی عملے کے خلاف کاروائی کی جائے جن کی غفلت کے باعث اتنا المناک سانحہ رونما ہوا، پاراچنار کے شہداء کو ملک کے دیگر حصوں کے شہداء سے کسی طور کم نہ سمجھا جائے، ایک حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لئے حکومت کی طرف سے بیس لاکھ روپے فی کس جبکہ پاراچنار کے شہدا کے لئے محض دو لاکھ کا اعلان شہداء کی تضحیک ہے، اس تفریق کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی، پاراچنار کا واقعہ بہت بڑا ظلم ہے، وہاں کے باسیوں کا استحصال تسلسل کے ساتھ جاری ہے، پاراچنار کا حالیہ واقعہ کوئی معمولی نہیں، ان غم ناک ایام کو ہم عید کا نام نہیں دے سکتے۔ درایں اثنا کراچی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے کہا کہ پاراچنار میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ وطن عزیز کی سالمیت پر حملہ ہے، پاراچنار کی عوام کے مطالبات ہمارے مطالبات ہیں، جن کی منظوری کے لئے ملک گیر حمایت جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پارا چنار میں سیکورٹی کے اختیارات ایف سی سے واپس لے کر لوکل سطح پر ملیشیا کو دیئے جائیں، پاراچنار شہداء کے لواحقین کو معاوضے دیئے جائیں۔ کراچی دھرنے میں علامہ مرزا یوسف حسیں، علامہ نثار قلندری، علامہ مبشر حسن، علامہ علی انور، علامہ اظہر نقوی، علامہ صادق رضا، علی حسین نقوی، میثم عابدی، علامہ صادق جعفری، علامہ سجاد شبیر رضوی اور آئی ایس او کراچی کے صدر علی اویس نے بھی خطاب کیا۔

وحدت نیوز(پاراچنار) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے، اس کے پاس عوام کو تحفظ دینے کیلئے کوئی منصوبہ نہیں، اگر حکومت نے پاراچنار کے مظلومین کے مطالبات نہ مانے تو یہ  احتجاجی دھرنے اور مظاہرے ملک بھر میں شروع ہو جائیں گے۔ پاراچنار کی انتظامیہ ناکام ہے، ہمیں یہاں بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے، جب تک شہداء کے ورثا احتجاج پر بیٹھیں ہیں، ہمارا احتجاج جاری رہے گا، پاراچنار میں جاری احتجاجی دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہماری مادر وطن ہے، ہماری لاکھوں جانیں اپنے وطن پر قربان ہوں، وطن کیلئے جان دینا ہمارے نزدیک شہادت ہے، ہماری ملت نے ہر جگہ وطن کی خاطر جانیں قربان کیں۔ پاکستان بنانے کی تحریک سے لیکر آج تک شیعہ اور سنی شانہ بشانہ رہے، قائد اعظم اور علامہ اقبال کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ وطن بنا، قائداعظم شیعہ تھے، علامہ اقبال سنی تھے، دونوں نے ملکر وطن بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے اپنے گھر کے شہید ہیں، پاکستان بننے کے بعد اس کے دفاع میں بھی شیعہ اور سنی اکٹھے رہے، پاکستان کسی تعصب یا فرقہ واریت کے نتیجے میں نہیں بنا، اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ہمیں مسلم پاکستان چاہئے، ہمیں قائداعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وفا جناب عباس (ع) سے سیکھی ہے، ہم اپنی مادر وطن سے کبھی غداری کا نہیں سوچ سکتے۔ ایک سازش کے تحت پاکستان کو کمزور کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سب سے بڑی اکثریت اہلسنت (بریلوی) بھائیوں کی تھی، اس کے بعد دوسری بڑی اکثریت اہل تشیع کی تھی، لیکن ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت طاقت کے اس توازن کو بگاڑا گیا۔ ضیائی اسٹیبلشمنٹ نے اس وطن کے اندر انتہاء پسندوں کو طاقتور بنانا شروع کیا، انہیں سیاسی، معاشی اور معاشرتی اور نظریاتی طور پر سپورٹ کیا اور ان کے ہاتھ میں اسلحہ دیا، یہ منصوبہ امریکہ کا تھا، پیسہ عرب شیخوں کا تھا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں وہ جنگ ہمارے خطہ میں آگئی، یہ قاتل بکنے لگے اور ہمارے وطن میں قتل و غارت گری اور دہشتگردی لے آئے، جس کے نتیجے میں ہم نے 80 ہزار جنازے اٹھائے، بھارت کو بھی اس حوالے سے موقع مل گیا۔ یہ دہشتگرد بکتے ہیںِ، تحریک طالبان، لشکر جھنگوی العالمی، داعش یہ سب افغانستان میں بھارت کے سائے تلے موجود ہیں، ہمارے دشمن ان کو خریدتے ہیں اور یہاں دہشتگردی کرواتے ہیں، ہماری مادر وطن لہو لہو ہوگئی، سب سے زیادہ یہاں اہل تشیع کو نشانہ بنایا گیا، ایک پاکستانی اور شیعہ ہونے کے ناطے۔

انہوں نے بتایا کہ آج میری آرمی چیف سے ملاقات ہوئی، میں نے انہیں کہا کہ ہمیں ہر جگہ نشانہ بنایا جاتا ہے، اسکا حل کیا ہے، یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستان میں شیعہ، سنی لڑائی ہے۔؟ پاکستان میں ہرگز شیعہ، سنی لڑائی نہیں، ہمارا قاتل تکفیری ٹولہ ہے، ان کا بیس کیمپ انڈیا میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوم باشعور اور سمجھدار ہے، ہمارا دشمن چاہتا ہے کہ ہم ڈر کر گھروں میں بیٹھ جائیں، یہ ہمیں خوف کے زندان کا قیدی بنانا چاہتے ہیں، ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم اکٹھے ہو رہے ہیں، ہم ظلم پر گھروں میں نہیں بیٹھیں گے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شوریٰ عالی کے رکن اور امت واحدہ کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ جب تک پاراچنار میں لوگ دھرنے میں بیٹھیں ہیں، ہم بھی بیٹھیں گے، ریاست کے ذمہ دار اور اسٹیبلشمنٹ پارا چنار میں ہونے والے مظالم پر خاموش کیوں ہیں، کیا پارا چنار پاکستان میں نہیں ہے، کیا وہاں کے لوگ پاکستانی نہیں ہیں، پاراچنار والوں کا پیغام ہے ہمیں پاکستان چاہیے، امن چاہیے اور دہشتگردی سے نجات چاہیے، کیا یہ مطالبات غیر آئینی ہیں۔مجلس وحدت مسلمین ضلع اسلام آباد کی جانب سے  سانحہ پاراچنار کے خلاف نیشنل پریس کلب سے چائنہ چوک تک نکالی جانے والی احتجاجی ریلی سے خطاب میں علامہ محمد امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ہم آرمی چیف کے پاراچنار جانے کے فیصلے کو سراہتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ شہداء کے لواحقین کے مطالبات کو سنیں گے اور عمل کروائیں گے۔ علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ جس طرح حکمران فوراً بہاولپور پہنچے اسی طرح ان کو پارا چنار بھی پہنچنا چاہیے تھا، لیکن پاراچنار شائد پاکستان کا حصہ نہیں ہے، اسی وجہ سے وزیراعظم صاحب وہاں نہیں گئے۔ افسوس کا مقام ہے کہ پانچ دن گزر گئے اور وزیراعظم ٹس سے مس تک نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ سنی کو لڑانے والے اسلام کے دشمن ہیں، پاکستان ہمارا ملک ہے اس کے لئے پہلے بھی قربانیاں دیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔ ریاست اور ریاستی ادارے مظلوموں کے صبر کا امتحان نہ لیں۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) مشرق و سطیٰ کے تیزی سے بدلتے حالات، شام و عراق میں خانہ جنگی، داعش کا وجود، السعود کا تحاد، اسرائیل کے عرب ریاستوں سے مضبوط تعلقات، سعودی عرب اور قطر کے بدلتے حالات، ٹرمپ کی ریاض میں بیٹھ کر ایران کو دھمکیاں، یہ سب گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل در آمد ہے۔ دوسری طرف ہم اس کو شام ، عراق ،افغانستان، ایران و سعودی عرب و قطر اور فرقہ وارانہ و مسلکی جنگ سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک و ہ افغانی ہے وہ ایرانی ہے وہ سعودی ہے،یہ ان کی اپنی جنگ ہے ہمیں ان سے کیا لینا دینا۔ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان واقعات و حالات کا باری بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور ان کے ظاہری خدو خال کو چھوڑ کر اندرونی مقاصد کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ ہم کسی بھی رنگ و نسل کے اثر میں آئے بغیر صحیح کو صحیح، غلط کو غلط اور حقیقت کو حقیقت کہہ سکیں۔جب تک انسان میں صحیح و غلط کی تمیز نہیں ہوگی ہم حق و باطل اور ظالم و مظلوم میں فرق نہیں کر سکیں گے۔ آج مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ ہے، قبلہ اول کسی ایک فرقے کا نہیں تمام مسلمانوں کا ہے اور فلسطینی خواہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں وہ مظلوم بھی ہیں اور مسلمان بھی۔

جب سے اسرائیل کے ناجائز وجود کا قیام عمل آیا ہے گریٹر اینڈ سیف اسرائیل کے تصور پر مکمل منصوبہ بندی سے کام جاری ہے۔ امریکہ و اسرائیل کا پہلا مقصدمسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا تھا فرقہ واریت کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں مصروف رکھنا تھا۔ دوسرا مقصد مسلمان ملکوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے کیوں کہ کوبھی طاقتور اسلامی ملک (اسی لئے اسرائیل کو ایٹمی اور پر امن و مستحکم پاکستان برداشت نہیں)کسی بھی وقت اسرائیل کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا سکتا ہے، چاہے مسلمان ہزار سال رستے سے بھٹکے لیکن جس دن ان کا رہنما مخلص اور با ایمان ہوگا مسلمان متحد ہونگے اور مظلوموں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونگے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کے ناجائز وجود اور عربوں کی شکست کے بعد مسلمان ممالک خصوصا عرب ریاستوں نے صیہونیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ لیکن اسرائیلی اس بات سے مطمئن نہیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کا ہر ملک کمزور اور ٹکڑوں میں بٹ جائے اور تمام وسائل پر اس کا کنٹرول ہو۔

اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودی شروع سے ہی مکار، چالاک اور سرکش لوگ ہیں ان کی ایک مثال ہمیں اسلام کی آمد سے پہلے سر زمین عرب میں بنو اوس و خزرج کی لڑائی میں ملتی ہے۔ قبیلہ اوس و خزرج ایک ہی جد کی اولاد تھے لیکن ان کے درمیان شروع ہونے والے فتنے نے اس قدر زور پکڑ ا کہ رہتی دنیا تک ایک مثال بن گیا، ان کے درمیان کبھی تلوار نیام میں نہیں رہتی تھی، جب ایک قتل ہوتا تھا تو مقتول کے لواحقین قسم کھاتے تھے کہ جب تک اس کا بدلہ نہیں لیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے اسی طرح یہ جنگ صدیوں جاری رہی۔اوس و خزرج کی لڑائی میں اہم کر دار وہاں کے یہودیوں کا تھا۔ چونکہ اس وقت یہودی ثروت مند تھے اور دیگر تمام قبیلوں کا جھکاو یہودیوں کی جانب رہتا تھا جس کا یہودی بھر پور فائدہ اٹھاتے تھے۔یہودی یہ سمجھتے تھے کہ جب تک عرب میں اوس و خزرج کی جنگ ہے، یہودی سکون میں ہیں لہذا ان کے درمیان کبھی بھی جنگ نہیں رکنی چاہئے، جس دن ان کے درمیان امن ہوگا یہ یہودیوں کے لئے جنگ کا پیغام ہے۔ یہودی لوگ، اوس و خزرج دونوں کو جنگ کے لئے مالی امداد بھی دیتے تھے اور سود بھی کئی گنا لیتے تھے، اسی طرح دونوں قبیلوں کو اپنا محتاج بنایا ہوا تھا۔ پھر ہر وقت دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتے بھی تھے جب کبھی کچھ عرصہ امن سے گزرتا تھا تو وہ یہودی اپنے غلاموں کے ذریعے امن کو خراب کرتے تھے۔

ایسا ہی حال اسرائیل کے وجود کے بعد سے مسلم ممالک کے درمیان ہے، اسرائیلیوں نے سب سے پہلے عربوں کو اپنی طاقت سے دبانے کی کشش کی جس میں ان کو توقع سے زیادہ کامیابی ملی۔ عربوں پر اسرائیل کا رعب و دبدبہ بر قرار رہا یہاں تک کہ اسرائیلیوں کو لبنان سے نکالا گیا اور حزب اللہ کے ہاتھوں عبرتناک شکست ہوئی ، یہ یہودیوں کو چونکا دینے والی شکست تھی۔ جب اسرائیل نے اپنے ارد گرد گیرا تنگ دیکھا تو عالمی طاقتوں خصوصا مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو فرقہ واریت میں دھکیلنے اور ملکوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے عمل پر تیزی سے کام شروع کیا جن کا پہلا حصہ طالبان و القاعدہ کی صورت میں نظر آتا ہے، جیسا کہ القاعدہ و طالبان کی پیدائش اور نشونما کا عمل سب کے سامنے ہیں۔ ورلڈ ٹریٹ سنٹر پر حملے بھی اسرائیلیوں کی پالیسی کا حصہ تھے، جس کے بہانے سے افغانستان کو تباہ کیا گیا۔ بعد ازاں اسلامی ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے لئے عراق و شام کا انتخاب کیا گیا۔اس کے ساتھ ہی عرب سپرنگ کی موج پر بھی اسرائیل نے خوب سواری کی، لیکن جب شام و عراق میںامریکہ و اسرائیل کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو انہوں نے داعش کے نام سے ایک نیا فتنہ کھڑا کر دیا،جس کو مالی سپورٹ سعودی عرب، قطر اور اسلحے و میڈیکل کی سہولیات اسرائیل، امریکہ و اس کے اتحادی فراہم کرتے تھے اور ہیں۔

اسی حوالے سے ڈاکٹر عبد المجید دشتی کویتی جو کہ کویتی پارلیمنٹ کے سابق ممبر ہیں اپنے آرٹیکل میں ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ ان کا ایک دوست ہے جو الجزائر کا سابق وزیر خارجہ تھا اس کا نام علی بن فلیس ہے۔ وہ وزیر خارجہ کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر بھی فائز رہا ہے اس نے الجزائر سے دہشت گردی کے خاتمے کی تفصیل کچھ اس طرح مجھے بتایا؛علی بن فلیس کہتے ہیں کہ ۹۰ کی دہائی میں الجزائیر میں دہشت گردی عروج پر تھی جیسے ابھی شام و عراق اور دیگر دہشت گردی کے متاثرین ملکوں میں ہیں۔ ۹۰ کی دہائی میں تکفیری گروہوں نے الجزائر کے امن کو تباہ و برباد کر دیا تھا اور لوگوں کا جینا حرام ہوگیا تھا، حکومت پریشان تھی کہ کیسے اس دہشت گردی کی لہر پر قابو پایا جائے مگر ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا۔ ایک مرتبہ اس وقت کے الجزائری صدر نے مجھے یعنی علی بن فلیس کو طلب کیا اور کہا کہ آج کچھ خاص مہمان آئنگے لہذا تمھاری شرکت نہایت ضروری ہے۔علی کہتے ہیں جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ صدر کے ساتھ امریکی سفیر اور تین دیگر لوگ بیٹھے تھے جو امریکن سی آئی اے کے عہدہ دار معلوم ہوتے تھے۔ اس موقع پر امریکی سفیر نے صدر سے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ملک سے دہشتگردی ختم ہو؟؟ صدر صاحب پہلے سے ہی اس صورت حال سے پریشان تھے ، باعث حیرانگی کہنے لگے کیا آپ ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم کر سکتے ہیں؟ سفیر نے کہا جی بلکل مگر کچھ شرائط ہیں! صدر نے کہا قبول ہے، امریکی سفیر نے کہا: اول آپ اپنے ملک کے تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل کی آمدن وغیرہ امریکی اور فرانسیسی بینکوں میں رکھیں گے۔ دوئم فلسطین کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہوگا اور اسرائیلی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا،۔سوئم ایران اور حزب اللہ سے تعلقات ختم کرنے ہونگے۔ پنجم اگر ترکی جیسی اسلامی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا ،وغیرہ۔۔اگر ہماری شرطیں قبول کرتے ہیں تو آپکے ملک سے یہ دہشت گردی ختم کرنے کی ہم ضمانت دیتے ہیں۔ صدر نے کچھ سوچنے کے بعد مطالبات تسلیم کرنے کی حامی بھر دی تو سفیر کہنے لگا ٹھی ہے پھر ہم اپنے شرکا ء اسرائیل، فرانس اور سعودیہ سے بات کریں گے۔ صدر نے پوچھا ان ممالک کا اس سے کیا تعلق ہے امریکی سفیر نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ دہشت گردوں کو زیادہ تر اسلحہ فروخت کرنے والا ملک اسرائیل ہے، اس اسلحے کا خریدار یعنی فنڈز فراہم کرنے والا ملک سعودی عرب اور دہشت گردوں تک اسلحوں کو پہنچانے والا فرانس ہے بالاخر تمام حقائق کو صدر کے سامنے بیان کر دیے گئے ، اس کے بعد ان تین ممالک کی مدد سے دہشت گردوں کی لعنت ہمارے ملک الجزائر سے ختم ہوگئی۔

خلاصہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جو ظاہری دہشت گردی نظر آتے ہیں یہ ایک روبوٹ کی طرح ہے ان کے پیچھے پورا ایک سیسٹم کار فرماہے۔ اسی لئے آج تک کسی دہشت گرد تنظیم نے مسلمانوں کی اتحاد اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کی بات نہیں کی اور انہوں نے اسرائیل کے آس پاس تمام ممالک میں خون کی ندیاں بہادی ہیں۔ حتیٰ کہ ریاض کانفرنس میں بھی ایک حرف تک فلسطین کی حمایت میں نہیں بولا، اس وقت امریکہ و اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ باشعور مسلمانوں کا وجود ہے، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان بکریوں کی ریوڑھ کی طرح ان کی غلامی میں رہیں۔ ہمیں ریوڑھ بنے کے بجائے ایک باشعور ملت بن کر امریکہ و اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ایران کے بابسیرت اور باشعور انقلابی رہنما آیت اللہ خمینی نے صحیح کہا تھا کہ اگر مسلمان متحد ہو کر ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیل پر گرا دیں تو وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ جی ہاں اگر ہم باشعور ہوجائیں اور امریکہ و اسرائیل کی چالوں اور چیلوں کو سمجھ لیں تو اسرائیل کو ختم کرنے کے لئے کسی ایٹم بم کی ضرورت نہیں بلکہ ایک بالٹی پانی کافی ہے۔ انشااللہ وہ دن جلد آئے گا کہ جب اسرائیل کا ناپاک وجود اس دنیا سے ختم ہوجائے گا اور سارے مسلمان بیت المقدس کی زیارت کو آزادانہ جائیں گے۔


تحریر: ناصر رینگچن

وحدت نیوز(اسلام آباد ) چیئرمین خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ (رجسٹرڈ) پاکستان شعبہ فلاح وبہبود مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ سید باقر عباس زیدی نے کہا ہے کہ آج  پارا چنار لہو لہان ہے کربلائے پاراچنار میں ایک ہی صدا ہے کہ کوئی ہےجو ہمارے زخمیوں اور یتیموں کی مدد کرسکے ۔ اب تو لوگوں میں احساس محرومی اس حد تک بڑھ چکا کہ نامیدی میں بدلنے لگا ۔وہ اس لئے کہ غیروں نے تو زخم لگائے اپنوں نے بھی آنکھیں چرالیں ۔ اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شعبہ خیرالعمل ویلفٗیر اینڈ ڈویلپمنٹ ٹرسٹ پاکستان نے  ہمت باندھ لی ہے کہ سب سے پہلے ان زخمیوں کی مالی مدد کی جائے اور انہیں بچایا جائے لہذا اس سلسلے میں خیرالعمل ویلفیئر ٹرسٹ کو آپ کے مالی تعاون کی اشد ضرورت ہے ۔واضح رہے کہ نو برس قبل جب پاراچنار پرطالبان کا  پانچ سالہ محاصرہ تھا تب بھی فقط مجلس وحدت مسلمین ہی تھی جس نے پاراچنار کا پر خطر محاصرہ توڑ کر کروڑوں روپے پر مشتمل امدادی سامان کا قافلہ وہاں پہنچایا تھا جس کے باعث وہاں کے مومنین کے حوصلوں میں اضافہ ہوا تھا اور یہ واقعہ ملت شیع کی تاریخ کے روشن باب میں شامل ہو گیا۔

آئیں! اس کار خیر میں خود بھی شریک ہوں اور اپنے عزیز واقارب کو آگاہ  کرکے اس میں شریک کریں اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر ضرور دے گا  ،مالی تعاون کے لیئے

                            Account Title.
Khair ul Amal Welfare and Development Trust
                  A/C # 5504005000614508
Bank Al Falah, Jinnah Avenue, Islamabad.

وحدت نیوز(اسلام آباد) پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی نے مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی سے فون پر تعزیت کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ دکھ کی اس گھڑی میں ہم پاراچنار کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور مجلس وحدت مسلمین کی اصولی موقف کی مکمل طور پر حمایت کرتے ہیں۔پارا چنار کی انتظامی تبدیلی اور سیکورٹی کے حوالے سے اہل پارا چنارکے مطالبات پورے ہونے چاہیے۔اس سیکورٹی عملے کے خلاف کاروائی کی جائے جن کی غفلت کے باعث اتنا المناک سانحہ رونما ہوا۔پارا چنار کے شہدا کو ملک کے دیگر حصوں کے شہدا سے کسی طور کم نہ سمجھا جائے۔ایک حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے حکومت کی طرف سے بیس لاکھ روپے فی کس جبکہ پارا چنار کے شہدا کے لیے محض دو لاکھ کا اعلان شہدا کی تضحیک ہے۔اس تفریق کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماء وفد کی صورت میں مجلس وحدت مسلمین کے اجتماعات میں شریک ہوں گے۔پارہ چنار کے معاملے میں پاکستان پیپلز پارٹی مجلس وحدت مسلمین کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) برادر نثار فیضی مرکزی سیکرٹر ی تعلیم مجلس وحدت مسلمین نےوارثان شہدائے پاراچنار کی حمایت میں جاری اسلام آباد دھرنے کے دوسرے روز شرکاء دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عزیزا ن ہماری قوم کےپاس آج جو قوت، طاقت اور جذبہ ہے اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔ایک یہ کہ جب تک ہمارے اندرسید الشہداء حضرت امام حسینؑ اور کربلا والوں سے والہانہ عشق اور محبت باقی ہے اور امام عالی مقامؑ کی شخصیت ہمارے لئے آئڈیل ہیں ہم اللہ کی راہ میں شہادتوں سے نہیں ڈرنے والےبلکہ شہادت تو ہمارےمکتب میں شہد سے زیادہ زیادہ میٹھی چیز ہے ۔ دوسرا یہ کہ جب بھی ہم میں سے کوئی شہادت کےعظیم رتبے پر فائز ہو تا ہے یا تو ہم اس شہید کو مشن ،پاکیزہ خون کو مقتل میں گم نہیں ہونے دیں گے اور یہ چیز ہم کو ثانی زہراء (س) سے ملی ہے ۔ حضرت زینب (س) نے اپنے بھائی کی عظیم قربانی اور ناحق خون کو مقتل میں گم ہونے سے بچایا ہے ۔ اس کے لئے دختر امام علیؑ کو بازاروں اور درباروں میں خطبے بھی دینے پڑے ۔اوردین کی خاطر صدائے احتجاج کو پوری دنیا تک پہنچایا آج آپ لوگ جو اپنے گھروں کو چھوڑ کر دھرنے میں تشریف لائے ہیں یہ ایسے نہیں اس میں وہ پاکیزہ جذبہ شامل ہے جس کادرس ہمیں ثانی زہراء (س) کے عظیم مشن سے ملتا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ  آج پارہ چنار کا مسئلہ فرقہ واریت کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے ۔ وہ طاقتیں جو پاکستان کے استحکام و سالمیت کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں وہ پارا چنار میں ان سانحات کے پیچھے ہیں لیکن پاکستان میں ملت تشیع بیدار ہے اور اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھتی ہے ہم پاکستان کے بیٹے ہیں ۔ہمارےشہداء پاکستان کے شھید ہیں۔ ہمارےاسلاف نے پاکستان بنانے کے لئے قربانیاں دیں ہیں ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئےپاکستان بچانے کےلئے قربانیاں دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے ۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مطالبے پر ملی یکجہتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منصورہ میں منعقد ہوا جس کی سربراہی لیاقت بلوچ نے کی، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرشیرازی ، مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات اسد عباس شاہ ،علامہ حسن رضا ہمدانی اور حسن کاظمی سمیت اجلاس میں تمام مذہبی جماعتوں کے مرکزی رہنما شریک ہوئے ۔اجلاس میں پانچ نکاتی فیصلے کی منظوری دی گئی۔فیصلے میں کہا گیا کہ پارا چنار میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ وطن عزیز کی سالمیت پر حملہ ہے۔پارہ چنار کی عوام کے مطالبات ہمارے مطالبات ہیں جن کی منظوری کے لیے ملک گیر حمایت جاری رکھی جائے گی۔ جمعے کے روز پارا چنار کے عوام کی تائید میں ملی یکجہتی کونسل کی طرف سے احتجاج کی کال دے دی گئی ہے جن میں کونسل کے اراکین بھی شریک ہوں گے۔ملی یکجہتی کونسل کے اراکین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پارا چنار میں سیکورٹی کے اختیارات ایف سی سے واپس لے کر لوکل سطح پر ملیشیا کو دیے جائیں۔پارا چنار شہداء کے لواحقین کومعاوضے دیے جائیں۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملی یکجہتی کونسل کا ایک وفد پارا چنار کا بھی دورہ کرے گا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree