The Latest

مسئلہ فلسطین ، آغاز سے اب تک

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہم سب سے پہلے قارئین کو یہ بتانا چاہیں گے کہ وہ لوگ جنہوں نے اہلِ فلسطین پر شب خون مارا اور بیت المقدس پر قبضہ کیا، انہیں اصطلاحی طور پر صہیونی کہا جاتا ہے۔

جب ہم صہیونزم یا صہیونی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ صہیون یروشلم کا ایک پہاڑ ہے۔ جس پر حضرت داود کا مزار بھی ہے۔ ابتداء میں یروشلم کا شہر یروشلم کے گرد واقع دوبلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں بسا تھا۔

یہ دونوں پہاڑ آج بھی یروشلم کے گرد مشرق و مغرب میں باہم مقابل واقع ہیں۔ ان میں سے مشرقی پہاڑ موریہ کہلاتا ہے جبکہ مغربی پہاڑ کو صہیون کہتے ہیں۔ صہیون اپنی قامت میں موریہ سے بلند تر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان ؑ کے زمانے سے ہی یہودیوں کے درمیان تقدس اور احترام کی علامت ہے۔

 یہودیوں نے 27 اگست 1897ء میں سوئزر لینڈ میں صہیونیت کو منظم تحریک کی صورت دینے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ہوم لینڈ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے اور اس مقصد کیلئے کانفرنس نے کچھ قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی۔

بعد ازاں انجمن محبّین صہیون کے نام سے ایک تنظیم بنا کر اپنے منصوبے پر یہودیوں نے باقاعدہ کام شروع کیا اور بالآخر یہ گروہ فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

 چنانچہ جب صہیون کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد تمام یہودی نہیں ہوتے بلکہ صرف وہ یہودی مراد ہوتے ہیں جو انجمن محبّین صہیون سے مربوط یا اُن کے ہم فکر ہوتے ہیں۔

 یہودیوں نے اسرائیل کی صورت میں فلسطین پر قبضے کی خاطر جو انجمن بنائی اُس کا نام اُنہوں نےانجمن  محبّین صہیون اس لیے رکھا چونکہ صہیون کا پہاڑ عرصہ قدیم سے یہودیوں کے لئے محترم ہے اور اس طرح وہ اپنی انجمن کو صہیون پہاڑ کی طرف نسبت دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم اور ایک نظریئے یعنی محبتِ صہیون پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔

 کتب تواریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی بطور ِقوم خدا کی نعمتوں کو ٹھکرانے کے باعث اور انبیاءِ خدا کو ناحق قتل کرنے کے علاوہ اپنی اخلاقی ابتری اور باطنی مکر و فریب کے باعث زوال کا شکار ہوئے تھے۔

 فرعون کے زمانے میں جب یہ شاہی استبداد کا نشانہ بن رہے تھے تو خدا نے حضرت موسٰی کی صورت میں ان کیلئے نجات دہندہ بھیجا۔ حضرت موسٰی نے فرعون کے سامنے قطعی طور پر دو ہی مطالبے رکھے کہ اوّلاً تو اللہ تعالٰی کی ربوبیت اور حاکمیت کا اعتراف کرے اور ثانیاً بنی اسرائیل پر اپنے مظالم بند کرے۔

 حضرت موسٰی ایک طرف تو بنی اسرائیل کی خاطر فرعون سے ٹکرا رہے تھے جبکہ دوسری طرف بنی اسرائیل کی مکاریوں اور عدم تعاون سے روز بروز مسائل میں گرفتار ہوتے جا رہے تھے۔

 چنانچہ حکم خداوندی سے آپ نے اسرائیلیوں کو ایک قافلے کی صورت میں بحیرہ احمر کے راستے کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم سنایا۔

 حضرت موسٰی کی قیادت میں یہ قافلہ روانہ ہوا تو فرعون بھی اس کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اذنِ خداوندی سے حضرت موسٰی نے اپنا عصا دریا نیل کے سینے پر مار کر بنی اسرائیل کو دریا عبور کرایا اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اسی نیل میں غرق آب ہوگیا۔

 دریا عبور کرکے بنی اسرائیل حضرت موسٰی کے ہمراہ کوہ سینا تک پہنچے اور اسی مقام پر تورات مقدس کے متعدد احکامات بھی نازل ہوئے، اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک سال بعد حضرت موسٰیؑ پر یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل کے ہمراہ فلسطین کو فتح کرلو کہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے۔

 جس کے بعد آپ نے فلسطین کا جائزہ لینے کیلئے دشتِ فاران کا رخ کیا اور پھر دشت فاران سے ایک وفد کو فلسطین کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کیلئے بھیجا۔

اس زمانے میں فلسطین کے باشندے کفر و شرک اور گمراہی میں مبتلا تھے، چنانچہ حضرت موسٰی کی قیادت میں بنی اسرائیل کے ذریعے سے ایک الٰہی حکومت کے نفاذ کی خاطر اہلیان فلسطین کی اصلاح کی خاطر اور خود بنی اسرائیل کے عزت و وقار اور مقام و مرتبے کی بلندی کی خاطر حضرت موسٰی کو یہ حکم دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل نے حضرت موسٰی سے صاف کہہ دیا کہ اے موسٰی، تم اور تمہار رب دونوں جاو اور لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔

حضرت موسٰی کی دل آزاری کرکے بنی اسرائیل نے غضبِ خداوندی کو للکارا، جس کے بعد 40 برس تک اکرام خداوندی نے اُن کی طرف سے منہ پھیرے رکھا اور وہ دشت فاران و صین میں خاک چھانتے رہے۔

 40 سال  کےبعد حضرت موسٰی نے بنی اسرائیل کو پھر سے یکجا کیا اور موآب، حسبون اور شطیم کے علاقے فتح کئے اور یہیں کہیں کوہِ عباریم پر حضرت موسٰی وصال فرما گئے۔ ان کے بعد حضرت یوشع ان کے خلیفہ بنے، جنہوں نے دریائے اردن کو عبور کرکے فلسطین کے شہر اریحاً کو فتح کیا اور یہ اریحاً ہی فلسطین کا پہلا مفتوحہ شہر ٹھہرا۔

اریحاً کو سب سے پہلے مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل رفتہ رفتہ پورے فلسطین میں پھیل گئے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فلسطین پر بنی اسرائیل کو قبضہ دلانے کا مقصد الٰہی حکومت کا قیام تھا لیکن اپنے متعصبانہ رویے کی بناء پر بنی اسرائیل الٰہی حکومت کے نفاذ کیلئے متحد ہونے کے بجائے قبائلی دھڑوں میں منقسم ہوکر فلسطین کے گمراہ باسیوں کے ساتھ مخلوط ہوگئے۔

 اس اختلاط سے بنی اسرائیل کی بطور ملت قوت کمزور ہوگئی اور فلسطین کی غیر مفتوحہ اقوام نے بنی اسرائیل کی درگت بنانی شروع کر دی۔

 چنانچہ بنی اسرائیل مجبور ہوگئے کہ وہ مختلف دھڑوں کے بجائے مل کر ایک مضبوط حکومت قائم کریں۔ اس طرح ایک اسرائیلی ریاست کی بنیاد پڑی، جس پر حضرت طالوت، حضرت داود اور حضرت سلیمان نے حکومت کی۔

حضرت سلیمان کے بعد اسرائیلیوں کی رگِ شیطنت پھر سے پھڑکی اور انہوں نے آپس میں شب خون مار کر اس ریاست کے دو ٹکڑے کر دیئے ایک ٹکڑا سلطنت اسرائیل کہلایا اور دوسرے کا نام سلطنت یہود ٹھہرا۔

بعد ازاں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کرکے سلطنت یہود کو، اور آشور کے حکمران سارگون نے حملہ کرکے سلطنت اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بابل کی سلطنت کو زوال آیا اور ایرانی فاتح خسرو نے بابل کو مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو دوبارہ اپنے وطن میں آباد ہونے کی اجازت دیدی۔

98 قبل مسیح میں شام کی سلوقی سلطنت کے فرمانروا نے فلسطین پر شب خون مارا، جس کے بعد یہودیوں نے سلوقی حکمرانوں کے خلاف ”مکابی“ نامی بغاوت برپا کرکے سلوقیوں کو فلسطین سے بے دخل کر دیا۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومن فاتح جنرل پومپی نے بیت المقدس پر حملہ کرکے یہودیوں کو مغلوب کرلیا لیکن چونکہ رومن براہِ راست فلسطین پر حکومت کے خواہاں نہ تھے، اس لئے اُنہوں نے فلسطینیوں کے ذریعہ سے ہی فلسطین کے انتظامات چلانے کی سعی کی اور اسی کوشش میں فلسطین کی سلطنت ڈگمگاتی ہوئی ہیرود اعظم کے ہاتھ لگی جو ایک مکار یہودی تھا۔

 64ء اور 66ء کے درمیانی عرصے میں یہودیوں نے رومن کے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔

 رومنی حکومت نے یہودیوں کو اس طرح بغاوت کی سزا دی کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک یہودی کہیں یورش برپا نہ کرسکے۔

 بعد ازاں 667ء میں شر انگیزیوں کے باعث اُنہیں حجاز سے باہر نکالا گیا۔ حجاز کے بعد اُنہوں نے شام کا رخ کیا، جہاں سے 890ء میں ان کے فتنوں کے باعث انہیں بے دخل کر  دیا گیا، پھر یہ معتوب قوم پرتگال میں گھسی، جہاں سے انہیں 920ء میں نکال دیا گیا۔

 پھر یہ سپین میں داخل ہوئے جہاں سے انہیں 1110ء میں فرار ہونا پڑا۔ سپین کے بعد انہوں نے انگلینڈ کو مسکن بنایا۔ جہاں سے انہیں 1290ء میں نکالا گیا، پھر یہ فرانس میں آٹپکے، جہاں سے انہیں 1306ء میں بھاگنا پڑا۔ پھر انہوں نے بیلجیئم میں داخل ہوکر بیلجیئم کے آرام و سکون کو غارت کیا، جہاں سے انہیں 1370ء میں بھگایا گیا۔

پھر یہ ذیگوسلاویہ میں آدھمکے، جہاں سے انہیں 1380ء میں نکال دیا گیا اور پھر یہ دوبارہ فرانس میں داخل ہوگئے، جہاں سے انہیں 1434ء میں دوبارہ نکال دیا گیا۔

 پھر انہوں نے ہالینڈ کا رخ کیا، جہاں سے انہیں 1442ء میں باہر دھکیلا گیا۔ جس کے بعد یہ روس میں داخل ہوئے، جہاں سے 1510ء میں انہیں جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا، پھر یہ اٹلی میں گھسے 1540ء میں اٹلی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا، پھر اٹلی سے بھاگ کر جرمنی پہنچے، لیکن 1551ء میں جرمنی نے بھی ان پر شب خون مارا پھر یہ ترکی میں گھسے، اہلیان ترک نے اسلامی رواداری اور مذہبی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودیوں کو ہر طرح کا تحفظ اور حقوق فراہم کئے۔

 چنانچہ ترکی کو مسکن بنانے کے بعد یہودیوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر 17ہویں صدی میں انہوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کو وی آنا میں مرکزیت دی اور پھر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مسلسل منظم اور فعال ہوتے چلے گئے۔ لیکن اس سارے دورانئے میں انہوں نے انتہائی رازداری اور خفیہ حکمت عملی کا سہارا لیا اور اس طرح فلسطین پر اپنے دوبارہ قبضے کی خواہش کو منظر عام پر آنے سے روکے رکھا۔

فلسطین پر یہود کے دوبارہ قبضے کی فکری تحریک اُس وقت منظر عام پر آئی جب 1862ء میں ایک جرمن یہودی موسٰی ہیٹس کی کتاب ”روم اور یروشلم“ مارکیٹ میں آئی۔

 اس کتاب میں لکھا گیا کہ یہودیوں کی عالمی حکومت کا مرکز یہوا کی بادشاہت کا اصل وطن فلسطین ہے۔ اس کتاب کے بعد اسی موضوع پر یہودی مفکرین نے دھڑا دھڑ کتابیں لکھ کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین پر قبضے کی تشویق دلائی۔

 1896ء میں ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرزل نے ریاست یہود کے نام سے ایک کتاب لکھی البتہ بعض محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُس نے ریاست یہود کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا۔

اس کتاب یا رسالے میں اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی اور نظریاتی بارڈرز کے خدوخال ابھارے۔ اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی بارڈر کوہِ یورال سے نہر سویز تک پھیلایا اور نظریاتی طور پر یہودیوں کی راہنمائی اس طرح کی کہ اوّلاً یہودی ایک علاقے میں جمع ہوجائیں اور ثانیاً یہ کہ دیگر ممالک یہودیوں کی خودمختاری اور ان کے لئے علیحدہ وطن کی ضرورت کو تسلیم کریں۔

 انگلینڈ میں مقیم یہودی کمیونٹی کے سربراہ لارڈ اتھس چائلڈ نے اس صحافی کی بھرپور مالی اعانت کی، جس کے باعث ہرزل 1897ء میں سوئزرلینڈ میں صہیونیوں کی کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کانفرنس نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔

 یہ صحافی اپنی موت سے پہلے صہیونی آبادکاری بینک اور یہودی بیت المال جیسے ادارے بنانے میں بھی کامیاب ہوگیا اور اس طرح یہود نے فلسطین کو لقمہ تر کی طرح نگلنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔

 ڈاکٹر ہرزل کے بعد صہیونی تحریک کا صدر مقام کولون منتقل ہوگیا اور صہیون نے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انجمن محبّین صہیون کے ذریعے عملی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔

 اس وقت ساری دنیا صہیونیوں کے ان اقدامات پر خاموش تماشائی بنی رہی اور اس خاموشی کی اہم وجہ صہیونیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی عالمی خواہش تھی، چونکہ صہیونی باری باری متعدد اقوام کو ڈس چکے تھے۔

 یہ لوگوں کے بچوں کو اغوا کرکے نہ صرف قربانیوں کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے بلکہ سازش اور مکر کے میدان میں اتنے جری تھے کہ پانی کے چشموں اور تالابوں میں زہر بھی ملا دیتے تھے۔

 چنانچہ ساری عالمی برادری ان سے چھٹکارا اور نجات چاہتی تھی، اس لئے تمام اقوام نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ یہودیوں کو عربوں کے درمیان گھسنے دیا جائے، تاکہ ان کا تمام مکر و فریب عربوں تک محدود ہوجائے۔

 چنانچہ یورپ نے یہودیوں کی خصوصی اعانت کی اور ان کو عرب ریاستوں کے مرکز میں گھسا دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے جرمنی کے خلاف برطانیہ سے معاہدہ کیا، جس کی رو سے برطانیہ نے اعلان ِ باالفور میں صہیونی اغراض و مقاصد کی حمایت کا وعدہ کیا۔ یہودیوں کی اس طرح کی ساز باز مختلف نوعیتوں میں پورے یورپ سے جاری رہی، یہاں تک کہ 1948ء میں اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر وجود مِل گیا۔

 مسئلہ فلسطین اس وقت بین الاقوامی سطح پر ابھرا جب 1948ء میں برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو قانونی رنگ دینے کے لئے اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل کو اجلاس منعقد کرنے کے لئے خط لکھا۔

اقوام متحدہ نے آسٹریلیا، کنیڈا، یوگو سلاویہ، ہند، ہالینڈ اور ایران سمیت چند دیگر ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا، اس کمیشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سرزمین فلسطین کا دورہ کرکے وہاں کے مقیم یہودیوں اور فلسطینیوں کا موقف سنے، نیز نزدیک سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیکر اقوام متحدہ کو اپنی رپوٹ پیش کرے۔ فلسطین کا دورہ کرنے کے بعد یہ کمیشن کسی مشترکہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا اور یوں دو دھڑوں میں بٹ گیا۔

ایک دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو داخلی طور پر عربی اور یہودی دو حکومتوں میں تقسیم کیا جائے، جبکہ مرکزی حکومت، بیت المقدس میں متمرکز ہو کر کام کرے۔

دوسرے دھڑ ے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو مستقل طور پر یہودی اور عربی نامی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہودیوں نے دوسرے دھڑے کی رائے کو سراہا اور ایک مستقل یہودی ریاست کے قیام کے لئے کھل کر میدان سیاست و میدان جنگ میں اتر آئے۔ اقوام متحدہ نے بھی یہودیوں کو مایوس نہیں کیا اور تقسیم فلسطین کے فارمولے کو منظور کر لیا۔

 اسی سال برطانیہ نے فلسطین سے نکلتے ہوئے اپنا تمام تر جنگی ساز و سامان یہودیوں کے حوالہ کر دیا۔ یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا اور پے در پے مسلمانوں کی املاک پر قابض ہوتے چلے گئے، اس شب خون اور قتل و غارت کے نمایاں نمونے دیر یاسین، اور ناصرالدین نامی علاقے ہیں۔

 اسی لمحے کہ جب برطانیہ نے یہودیوں سے ملی بھگت کرکے فلسطین سے باہر قدم رکھا تو یہودیوں نے بھی ْاسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔

 اِدھر اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونا تھا، اُدھر اُس وقت کے امریکی صدر "ٹرومن" نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا۔

برطانیہ، امریکہ اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لئے اسی سال مصر، اردن، لبنان، عراق، اور شام پر مشتمل عرب افواج کے دستوں نے فلسطین میں اپنے قدم رکھے اور لمحہ بہ لمحہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑکتے گئے، مسئلہ فلسطین عالمی برادری کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔

عرب ریاستوں نے اپنے عربی مزاج کے مطابق  ، اس مسئلے میں بھی عربی و عجمی کی تقسیم کو باقی رکھا اور سب سے پہلے تو اسے عربوں  کا مقامی اور داخلی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی،  اور اس مسئلے کو عرب ممالک کا مسئلہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔

امریکہ و اسرائیل نے اس کے بعد  عرب حکمرانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور عربوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کیلئے  بھرپور کام کیا۔

 سامراج کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب حکمراں تحریک آزادی فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو فراموش کرکے اپنی اپنی سلطنت کے استحکام اور جاہ و حشمت کی خاطر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔

اسرائیل نے بھی دن بدن عرب ریاستوں کو اپنی طاقت و وحشت سے خوف و ہراس میں مبتلا کئے رکھا اور فلسطینوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہا، یہاں تک کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے سورج نے طلوع کیا۔

تحریک آزادی فلسطین کے سلسلے میں 1979ء تک فرزندان توحید خون کی قربانیاں تو پیش کر رہے تھے لیکن عرب ریاستوں نے ان کی مدد کرنا چھوڑ دیا تھا۔  ایران میں اسلامی انقلاب نے فلسطین کو عربی مسئلے کے  بجائے اسلامی مسئلے طور پر اٹھایا،  جس کے بعد مسئلہ فلسطین دوبارہ ایک اسلامی مسئلے کے طور پر ابھرا اور مسلمانوں نے از سرِ نو بیت المقدس کو یہودیوں سے آزاد کرانے  کے لئے سوچنا شروع کر دیا۔

 ایران میں اسلامی انقلاب کے بانیوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو یوم قدس کے طور پر منانے کی دعوت دی۔ اس کے بعد دنیائے اسلام نے  یوم القدس  کو بھرپور طریقے سے منعقد کرنا شروع کر دیا اور یوں فلسطینیوں کو نئی ہمت اور حوصلہ ملا، یہی وجہ ہے کہ اب فلسطینی سعودی عرب یا خلیجی ریاستوں کی مدد اور امریکہ و اسرائیل کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے۔ آج اس وقت جب ساری خلیجی ریاستیں امریکہ و اسرائیل کی گود میں جا کر بیٹھ گئی ہیں، اس کے باوجود فلسطینی بچے پتھر لے کر ٹینکوں سے لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی   ٹینکوں پر   پتھر  برسانا  در اصل طمانچہ ہے ان ممالک کے منہ پر جو فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ کر امریکہ و اسرائیل کی دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ بلاشبہ فلسطینی  ، غلامی کے باوجود آزاد اور بہادر  ہیں  جبکہ  فلسطینیوں سے غداری کرنے والے آزادی کے باوجود غلام  اور بزدل ہیں۔

اسرائیل مردہ باد۔۔۔ فلسطین زندہ باد


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ امریکا، اسرائیل اور اس کے عرب حواریوں کو جائے پناہ نہیں ملے گی، فلسطین و قبلہ اول کی آزادی ناگزیر ہے۔وہ کراچی میں آئی ایس او پاکستان کے تحت نکالی جانے والے یوم القدس کی ریلی کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے، جمعۃ الوداع عالمی یوم القدس کی مرکزی آزادی القدس ریلی کراچی میں نمائش چورنگی تا تبت سینٹر تک نکالی گئی جس میں ہزاروں حریت پسندو ں نے شرکت کی اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اپنے اسرائیل مخالف جذبات کا اظہار کیا۔شرکائے ریلی نے ہاتھوں میں پاکستان اور فلسطین کے جھنڈوں سمیت القدس کے جھنڈے اور سروں پر اے القدس ہم آ رہے ہیں سمیت لبیک خامنہ ای کی سرخ اور سبز پٹیاں باند رکھی تھیں، ریلی میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد سمیت جوانوں اور بزرگوں سمیت علمائے کرام اورزندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔

شرکائے القدس ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستا ن کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری کاکہنا تھا کہ امریکا دہشت گردی کا بانی اور موجد ہے جبکہ لاکھوں مظلوم فلسطینیوں کا خون بھی امریکی ہاتھوں پر ہے،امام خمینی ؒکا اعلان کردہ یوم القدس آج مستکبرین کے مقابل مستضعفین کی ایک عالمی تحریک کی صورت اختیار کرگیا ہے ،آیت اللہ خامنہ ای  کی رہبری میں مقاومتی بلاک کی عظیم فتوحات کا زمانہ جاری ہے، جو ملک بھی اس کے ساتھ چلے گا نجات پائے گا، انہوں نے کہا کہ اسرائیل مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کر رہاہے جبکہ امریکا اسرائیل کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فوجی مدد کے نام پر دے کر مظلوم انسانیت کے قتل عام کا مرتکب ہو رہاہے، ان کاکہنا تھا کہ امریکی سربراہی میںنام نہاد مسلم حکمرانوں کو اکھٹا کرکے اسرائیل کا تحفظ کرنے کے لئے اتحاد تشکیل دئیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مظلوم فلسطینی اور مسلمانوں کا اہم مقدس مقام قبلہ اول آزادی کے انتظار میں ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ چھ برس تک شا م اور عراق سمیت دیگر مقامات پر داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کے بعد امریکا اور اسرائیل نے اب براہ راست مسلم امہ کے حکمرانوں کو اپنے چنگل میں پھنسانے کا ارادہ کر لیا ہے اور اب نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایران کے بعد قطر کو دشمن ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا گیا ہے جبکہ وہ وقت بھی دور نہیں کہ یہی امریکی عرب حواری پاکستان کے خلاف سازشو ں کا جال بنانا شروع کر دیں۔ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کا تقاضا ہے کہ پاکستان امریکی و اسرائیلی قیادت میں بنائے جانے والے نام نہاد اسلامی ملٹری الائنس سے فی الفور باہر آ ئے ۔

راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ تکفیری جماعتیں پاکستان کی سالمیت کے درپے ہیں اور یہ خارجی روزانہ پاکستان کی مظلوم عوام کیے خون سے ہولی کھیلتے ہیں انہوں نے آج کوئٹہ اور پاراچنار میں ہونے والے خود کش بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایسے امریکہ و اسرائیل کی کاروائی قرار دیا اور ان واقعات میں شہید ہونے والے افراد اظہار ہمدردی کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا تکفیری جماعتوں کی سر پرستی ختم کرکے ان ظالموں کے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے ۔علامہ ناصر عباس جعفری کاکہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکی عرب حواریوں کے ہاتھوں امت کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے پوری مسلم امہ کو متحد ہو کر جد وجہد کریں تا کہ امت مسلمہ کے دیرینہ مسائل کا حل ممکن ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی ناگزیر ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسرائیل کی نابودی اور فلسطین کی آزادی کو نہیں روک سکتی۔ اس موقع پر شرکاء نے امریکا مردہ باد ، اسرائیل نا منظور، فلسطین کی آزادی تک جنگ رہے گی، اسرائیل کی نابودی تک جنگ رہے گی ، پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے اور امریکی و اسرائیلی پرچم سمیت برطانوی پرچم بھی نذر آتش کئے گئے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور روابط ملک اقرار حسین کی والدہ محترمہ مختصر علالت کے دوران قضائے الہیٰ سے انتقال کرگئیں ، مرحومہ کی نماز جنازہ آج بعد نماز ظہرین ان کے آبائی شہر جہلم میں مجلس وحد ت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی زیر اقتداءادا کی جائے گی، مرحومہ کی رحلت پر ایم ڈبلیوایم کے مرکزی قائدین علامہ راجہ ناصرعباس جعفری، علامہ احمد اقبال رضوی، ناصر عباس شیرازی ، علامہ شفقت حسین شیرازی، علامہ ہاشم موسوی، علامہ اعجاز بہشتی، علامہ باقر عباس زیدی، علامہ مختارامامی، علامہ عبدالخالق اسدی، علامہ اصغر عسکری، نثار علی فیضی، مہدی عابدی، علی احمر زیدی، علامہ مبارک موسوی، علامہ مقصودڈومکی، علامہ برکت مطہری، علامہ اقبال بہشتی، علامہ آغا علی رضوی سمیت دیگر نے پسماندگان بالخصوص مرحومہ کے فرزندان علامہ غلام حر شبیری، ملک اسرارحسین ، ملک ابرارحسین  اور ملک اقرار حسین سے دلی تعزیت اورہمدردی کا اظہار کیا ہے  اور مرحومہ کی مغفرت اور ان کی جوار سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا میں جگہ کے حصول کیلئے خصوصی دعا کی ہے ۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نے پاراچنار میں عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے یکے بعددیگرے دخودکش حملوں کے نتیجے میں50سے زائد   قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر شدید افسوس کا اظہار اور سانحہ کی پر زور الفاظ میں مذمت کی ہے، انہوں نے اعلان کیا کہ مجلس وحدت مسلمین اس المناک سانحے پر ملک بھرمیں تین روزہ یوم سوگ منائیگی، جب کہ کل ملک بھر میں پر امن یوم احتجاج ہوگا اور عید الفطر کے روز یوم سیاہ منایا جائےگا، تمام محب وطن شہری سانحہ پاراچنار اور کوئٹہ میں بے گناہ مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کے خلاف نماز عید الفطر کی ادائیگی کے دوران بازوں پر سیاہ پٹیاں باندہیں  اور تکفیری دہش گردوں کی بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران پاراچنارمیں پے در پے دہشت گردی کے چار بڑے سانحات کا رونما ہونا حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں کے منہ پر تماچہ ہے، ان تمام سانحات میں سینکڑوں شیعہ پاکستانی شہری تکفیری دہشت گردوں کی وحشی گری کا نشانہ بنے ، افسوس کا مقام ہے ہمارے سکیورٹی ادارے پاراچنار کا چھوٹا سا علاقہ دہشت گردی سے محفوظ بنانے میں یکسر ناکام ہیں ، ستم بالائے ستم کے ایک جانب داعش اور دیگر ہم خیال تکفیری دہشت گرد گروہ شیعہ نسل کشی میں مصروف ہیں تو دوسری جانب ہمارے ریاستی اداروں میں موجود انسان نما بھیڑیے دہشت گردوں کا رہا سہا کام نہتے شہروں پر گالیاں برسا کرپورا کردیتے ہیں ، آج کے اس سانحے میں جہاں درجنوں شہری سر عام بازارمیں لقمہ اجل بنے وہیں ایف سی کے متعصب اہلکاروں نے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر پرامن مظاہرین پر گالیوں کی بوچھاڑ کرکے 7محب وطن پاراچناری شیعہ شہریوں کو شہید کردیا ، انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے ایسا سفاکانہ طرز عمل ملت جعفریہ کے جذبات کو بری طرح مجروح کررہا ہے ، اگر مقتدر اداروں میں موجود سرکردہ شخصیات نے ایف سی کی جانب سے تیسری بار نہتے شہریوں پربلاجواز گولیاں برسانے کا نوٹس نا لیا ملوث اہلکاوں کو انصاف کے کٹہرے میں نا لائے توملک گیر احتجاج کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔

علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا کہ افسو س کامقام ہے کہ ہمارے صاحبان اختیار واقتدار آج تک محب وطن اور ملک دشمن میں تمیز نا سیکھ سکے، ہزاروں جنازے اٹھانے کے باوجود، ہزاروں زخمی دینے کے باوجود کبھی سبز ہلالی پرچم گرنےنا دیا ، پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں پاراچنارہی وہ واحد علاقہ ہے جہاں قومی پرچم پوری آب وتاب کے ساتھ لہراتا ہے ، جہاں کبھی پاک افواج پر حملے نہیں ہوتے جہاںمسلح دہشتگرد جتہے نہیں بنائے گے، اس کے باوجود وہاں کے عوام کے ساتھ ریاستی اداروں کا سوتیلی ماں جیسا سلوک قابل مذمت ہے ، انہوں نے مذید کہا کہ ایک طرف جہاں دہشتگردوں نے ہمارے وطن کاچین وآرام برباد کررکھاہے وہیں ہمارے نا عاقبت اندیش حکمرانوں نے بھی اسے کے خلاف سازشوں کے خوب جال بنیں ہیں ، ہمارا اپنا وطن آگ وخون میں غلطاں ہے اور ہماری پاک افواج کا سابق سپہ سالار غیروں کے گھر کی آگ بجھانے چلا گیا ہے ، داعش کا فتنہ شام وعراق سے شکست کھانے کے بعد افغانستان او ت پاکستان کا رخ کرچکا ہے اور پاراچنار داعشی درندوں کی ہٹ لسٹ پر ہے کیوں کے یہ علاقہ پاکستان کے دفاع کی فرنٹ لائن ہے جسے کمزور کرکے پورے ملک میں مضبوط نیٹ ورک قائم کیا جائے گا۔

علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے سانحہ پاراچنار میں شہید ہونے والوں کےاہل خانہ سے دکھ ورنج کے اس عظیم موقع پر اپنی اور مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے دلی ہمدردی اور تعزیت کااظہارکیا، انہوں نے کہا کہ اس المناک  گھڑی میں ایم ڈبلیوایم کا  ایک ایک کارکن شہداءکے پسماندگان کے غم میں برابر کا شریک ہے، وارثان شہداء اس ظلم وجبر کے خلاف قیام کریں انشاءاللہ پورا وطن آ پ کے ہم آواز ہوگا اور ان ظالموں کو ذلیل ورسوا کرے گا، خداوند متعال مادر وطن کے استحکام کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی اس قربانی کو قبول فرمائے او ر انہیں اپنی بارگاہ میں عظیم اجر ومنزلت کا حقدار قرار دے ۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) آئی جی آفس کوئٹہ کے باہرسفاک دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر مجلس وحدت مسلمین نے شدید غم وغصے اور افسوس کا اظہار کیا ہے، مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری مذمتی بیان میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر ملک دشمن عناصر نے ریاستی رٹ کو چیلنج کیا ہے، کوئٹہ میں دہشت گردانہ کاروائی آپریشن رد الفسادکی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے،گرفتار بھارتی جاسوس  کلبھوشن یادیوکی جانب سے کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں دہشت گرد حملوں میں راءکے ملوث ہونے کے دعوے کے باوجود اس طرح کا سنگین حملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ، بلوچستان میں موجود راءکا نیٹ ورک اب بھی پاکستان دشمن کاروائیوں میں ملوث جن میں کالعدم مذہبی جماعتوں کے کارندے سر فہرست ہیں ، دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں اچھے برے اپنے پرائے کی تفریق کسی صورت وطن عزیز کو اس کا کھویا ہوا امن واپس نہیں لوٹا سکتی ۔

علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے آئی جی آفس کوئٹہ کے باہر قومی سلامتی کے دشمنوں کے بے رحمانہ حملے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع بالخصوص  شہید ہونے والے درجن بھر  سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کے شہادت کو قومی نقصان قرار دیا ، انہوں نے شہداء کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین رنج وغم کے اس سنگین موقع پر آپ کے دکھ درد میں برابر کی شریک ہے، انہوں نے شہداء کی مغفرت اور پسماندگان کیلئے صبر جمیل کی خصوصی دعا بھی کی۔

وحدت نیوز(لاہور) پنجاب بھر کے تمام اضلاع کی جامع مساجد سے بعد از نماز جمعہ القدس ریلیاں نکالی جائے گی،بیت المقدس کی آزادی اور مظلوم فلسطینیوں کیساتھ اظہار یکجہتی ہمارے ایمان کا حصہ ہے،ہم جمعتہ الوداع کو مظلومین جہاں کیساتھ یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے قائم مقام سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین نقوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی بقا کے لئے امریکہ پوری مسلم امہ کیخلاف ساشوں میں مصروف ہے،ہمارے عرب حکمرانوں کو سب سے پہلے قبلہ اول کی آزادی کے لئے اتحاد بنانا چاہیئے،اگر اسرائیل ہی کا وجود اس دنیا سے ختم ہوجائے تو پوری دنیا میں امن قائم ہوگا،عالم اسلام کے تمام مشکلات اور مسائل کا ذمہ دار امریکہ ہے،ہم انشااللہ ان سامراجی قوتوں کیخلاف اپنے خون کے آخری قطرے تک جدو جہد جاری رکھیں گے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری جنرل محترمہ سیدہ زہرا نقوی  نےعالمی  یوم القدس کے حوالے سے خواتین کے نام اپنے پیغام میں  کہا  کہ حضرت امام خمینی قدس سرہ الشریف نے فرمایا قدس کا دن ایک عالمی دن ہے،ایسا دن نہیں جو صرف قدس سے مخصوص ہو، مستکبرین سے مستضعفین کے مقابلے کا دن ہے ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعفین کو مسلح ہونا چاہئے تاکہ استکبار کی ناک زمین پر رگڑ دیں۔ یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس دن مستضعف قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ہو اور مستکبرین کے مقابلے میں مستضعف قومیں اپنے وجود کا اعلان کریں۔امام خمینی (رح) نے اسی ابتدا سے ہی اسلامی تشخص اور اسرائیل کے ساتھ جہاد کے اعتقادی پہلو کو، فلسطین کے مظلوم عوام کو آمادہ کرنے، اور پوری امت مسلمہ سے فلسطینوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ کارساز روش قرار دیا اور اس کے علاوہ نیشنلسٹ اور غیر اسلامی نظریات کو قدس کی آزادی کے لئے انحراف سے تعبیر کیا۔

انہوں نے کہاکہ فلسطین کے مسئلے پر حضرت امام خمینی (رح) کی تاکید عالم اسلام کے لئے اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ہے۔صہیونیزم کی فکر، دین یہود کی تعلیمات سے جدا ایک فکر، اور اس آسمانی دین سے منحرف ایک فرقہ ہے۔ یہ فکر اور اس سے وجود میں آنے والا اسرائیل، مسلمانوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے اور مشرق وسطی پر تسلط کے لئے،استعمار کا ساختہ پرداختہ ہے۔ حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہیں اسرائیل مغرب اور مشرق کی استعماری حکومتوں کی ہم آہنگی اور ہم فکری سے وجود میں آیا اور آج اسے تمام استعماری طاقتوں کی حمایت و پشپناہی حاصل ہے۔ برطانیہ اور امریکہ، اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں سے مسلح کرکے اور اسے فوجی اور سیاسی لحاظ سے مضبوط بنانے کے ذریعے مسلمانوں اور عربوں کے خلاف جارحانہ کاروائیاں انجام دینے پر اسے ورغلاتے رہتے ہیں۔ صہیونی حکومت مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کے ذریعے مشرق وسطی میں اپنی دائمی بقاءکے لئے ایک پرامن ٹھکانے کے درپے ہے۔ کیوں کہ اسرائیل نے اپنے وجود کے وقت سے ہی مشرق وسطی میں لڑاو حکومت کرو کی پالیسی اختیار رکھی ہے۔ اسی لئے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشرق وسطی میں تکفیری گروہ کس طرح سے شام اورعراق میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا بدترین حالت میں قتل عام کررہے ہیں لیکن غاصب اور جارح اسرائیل کے خلاف کوئی موقف نہیں اپنا رہے ہیں۔ یہ کیا اندھیر ہے کہ جو اسلامی احکام پر عملدرآمد کے مدعی ہیں وہی اسلام کے سب سے واضح اصول یعنی مسلمانوں اور مستضعفوں کی حمایت کو ذرا بھی اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تمام چیزیں اس بات کی غماز ہیں کہ تکفیریوں کی جارحیت، عالمی استکبار اور صہیونی امنگوں سے ہم آہنگ ہے اور ان جارحانہ کاروائیوں کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے جبکہ بعض رپورٹوں اور خبروں سے تکفیری گروہوں اور صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ لیکن وہ چیز جو امت مسلمہ کے درمیان نا اتفاقی پیدا کرنے اور فلسطین پر قبضہ جاری رہنے کے لئے صہیونی حکومت کی سازشوں کو ملیا میٹ کردیتی ہے، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہے۔ لہذا یہ غاصب اور کھوکھلی حکومت اپنی طاقت کے مظاہرے کے لئے گاہے بگاہے بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں پر بموں اورمیزائیلوں کی بوچھار کردیتی ہے۔ یہ نا اہل اور ناجائز حکومت، بچوں اور مظلوموں کا خون بہا کر یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی ان وحشیانہ کاروائیوں سے مسلم قوموں اور مجاہدوں کے دلوں پر خوف و دہشت طاری کردے گی۔ لیکن جتنا زیادہ خون بہہ رہا ہے مزاحمتی حلقوں کے حوصلے اور بلند ہورہے ہیں اور مسلمانوں میں مزید اتحاد بڑھتا جارہا ہے۔ اور انشااللہ وہ دن دور نہیں جب اسرائیل اور اسکے اتحادی ذلت و رسوائی کا سامنا کریں گے اور شکست اور زلت انکا مقدر ہیں۔انشااللہ وہ ادن امت مسلمہ جلد دیکھے گی جب القدس آزاد ہوگا ۔

وحدت نیوز(فیصل آباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین فیصل آباد کی جانب سے مختلف علاقوں میں ماہ مبارک رمضان میں بیتی پروگرامز منعقد کیے گئے جس میں تربیتی نشست،شب دعا و مناجات ،مجالس اعمال شب قدر اورمختلف موضوعات پر درس شامل ہیں۔ یوم القدس کے حوالے سے منعقد کیے گئے سمینار میں خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین فیصل آباد کی سیکرٹری جنرل محترمہ فرجانہ گلزیب کا کہنا تھا کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو عالمی یوم القدس قرار دیا تھا اور اس کا مقصد فلسطین کی مظلوم قوم کا دفاع اور صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کرنا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے فلسطینیوں کی حمایت کا اعادہ کیاجاتاہے۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ یوم القدس کی ریلیوں میں وسیع پیمانے پر شرکت کریں اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگائیں اور یہ جان لیں کہ ان کا یہ اقدام، عالمی سطح پر غیر معمولی اثرات کا حامل ہو گا۔ اس لئے کہ عالمی یوم القدس فلسطین کی مظلوم قوم کے ساتھ یکجہتی اورصیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے اور اس کی جارحیتوں کے خلاف تمام مسلم قوموں کے متحد ہونےکا دن ہے اور یہ سال ایک منفرد خصوصیت کا حامل ہے۔ اس لئے کہ داعش دہشت گرد گروہ اپنی دھشتگردانہ کارروائیوں کے سبب مسلمانوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کئے ہوئے ہے اور وہ غاصب اسرائیل کے جارحانہ اقدامات سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دراصل بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ نے اپنی دور رس اور گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کےلئے یوم قدس کا اعلان فرمایا تھا۔امام خمینی کی جانب سے ماہ مبارک رمضان کے جمعہ الوداع کو عالمی یوم قدس قراردینے سے صیہونی حکومت اور اسکے حامیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے میں ملت فلسطین کی جدوجہد اور عالم اسلام کی پائداری کی تاریخ میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ ہے اور بیت المقدس پر صیہونی حکومت کا قبضہ ہونے سے وہ مکمل فلسطین پر قابض ہوجائے گا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں اور فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ بیت المقدس کی حمایت کو اولین ترجیح دیں۔ آج کے حالات میں عالمی یوم قدس سے ملت فلسطین اور مسلمانوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ قدس پر توجہ دے کر عملی طور سے قدس کو فراموش کرانےکی صیہونی سازشوں کو ناکام بنادیں۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام جمعة الوداع عالمی یوم القدس کے حوالے سے کیتھولک گارڈن سولجر بازار میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس سے تحریک انصاف کراچی کے صدر فردوس شمیم نقوی، مجلس علمائے شیعہ پاکستان کے مرکزی صدر مولانا مرزا یوسف حسین، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر اسداللہ بھٹو، آئی ایس او پاکستان کی مرکزی نظارت کے رکن مولانا ڈاکٹر عقیل موسی، ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سیکریٹری سیاسیات علی حسین نقوی، جمعیت علماء پاکستان سندھ کے صدر علامہ سید عقیل انجم قادری، متحدہ علماء محاذ کے صدر امین انصاری، آل پاکستان سنی تحریک کے چیئرمین مطلوب اعوان قادری، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل صابر ابو مریم و دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر پاک سرزمین پارٹی کے رہنما عادل صدیقی، جماعت اسلامی سندھ کے رہنما مجاہد چنا، جے یو پی کے رہنما شکیل قاسمی، ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علامہ علی انور جعفری، علامہ مبشر حسن، علاماہ صادق جعفری، میر تقی ظفر و دیگر بھی موجود تھے۔ اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کراچی کے صدر فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ تحریک انصاف ہمیشہ سے فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف اور ان کی جدوجہد کی حمایت میں رہی ہے، امت مسلمہ کو فلسطین کی آزادی کے لئے مل کر آواز اٹھانا ہوگی، یوم القدس فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کا دن ہے، جس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور عوام کو بھرپور انداز میں شرکت کرنی چاہیئے۔

مولانا مرزا یوسف حسین نے کہا کہ اسرائیل کا وجود عالم اسلام کے قلب (قبلہ اول) میں خنجر کی مانند ہے، جمعتہ یوم القدس کے روز سب مل کر فلسطینیوں کے حق میں ملک گیر احتجاج کرینگے، کراچی سمیت ملک بھر میں یوم القدس کے موقع پر فول پروف سیکیورٹی انتظامات یقینی بنائے جائیں، حکومت جمعتہ الوداع یوم القدس کے دن کو سرکاری سطح پر منائے اور عام تعطیل کا اعلان کرے، اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لئے امریکا ورلڈ آرڑر دیتا ہے، حساس علاقوں میں تکفیریت کے ذریعے تفریق پیدا کی جارہی ہے، یہودی ہمارے دشمن ہیں یہ قرآن کہتا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر اسداللہ بھٹو نے کہا کہ فلسطین اور اسرائیل کے ایشوز دنیا بھر کے لئے توجہ کے طلب گار ہیں، فلسطین پر ہونے والے مظالم کی مذمت کرتے ہیں، یوم القدس پر امت مسلمہ کو مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز اٹھانی چاہیئے، فلسطین پر کیا گیا محاصرہ ختم کیا جانا چاہیئے، جمتعہ الوداع کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کیا جائے، فلسطین سے اظہار یکجہتی کرنا کسی ایک مسلک کا مسئلہ نہیں تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔

علی حسین نقوی نے کہا کہ قبلہ اول بیت المقدس پر اسرائیلی یلغار کے پیچھے امریکہ، برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک کی سازشیں کار فرما ہیں، استعماری قوتیں ہماری وحدت کو پارہ پارہ کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہیں، یوم القدس مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کا دن ہے، جسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، غزہ کے محاصرے اور مظلوم مسلمانوں کے آئے روز قتل عام پر خاموشی امت مسلمہ کی غیرت و حمیت پر بدنما داغ ہے، قائداعظمؒ نے فلسطینیوں کی حمایت کرکے پاکستان کا موقف واضح کر دیا تھا، یوم القدس کو مظلوم فلسطیینوں کی حمایت میں گھروں سے نکلنا ہر شخص کا شرعی فریضہ ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی نظارت کے رکن مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ نے کہا کہ ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی یوم القدس بھر پور طریقے منایا جائیگا، کراچی میں مرکزی القدس ریلی نمائش تا تبت سینٹر نکالی جائے گی، تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اس میں بھرپور شرکت کریں گی، آج وقت آگیا ہے کہ مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے خلاف آواز بلند کریں، فلسطین کے مظلوموں کی آواز دنیا بھر کے مسلمانوں کو پکار رہی ہے۔

جمعیت علماء پاکستان سندھ کے صدر علامہ سید عقیل انجم نے کہا کہ عالم اسلام کے تمام حکمران اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، یوم القدس کسی ایک مسلک یا ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے، جلد وہ وقت آئے گا کہ جب یوم القدس میں سارے مسلمان جمع ہونگے۔ متحدہ علماء محاذ کے صدر امین انصاری نے کہا کہ امام خمینی نے مسلمانوں کو عالمی استعمار کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے کی ہمت دی۔ آل پاکستان سنی تحریک کے چیئرمین مطلوب اعوان قادری نے کہا کہ قبلہ اول کے حوالے سے منعقدہ پروگرام میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کو چاہیئے کہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اسرائیل کے مظالم کی پاکستانی قوم کو بھرپور مذمت کرنی چاہیئے۔ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل صابر ابو مریم نے کہا کہ مسلمانوں کے ازلی دشمن اور قبلہ اول پر قابض اسرائیل کی نابودی کیلئے امت مسلمہ کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلمانوں کے سارے اتحاد عالم اسلام کی پسپائی کیلئے وجود میں آتے ہیں، مگر اسرائیل کی ننگی جارحیت کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کیلئے بھی تیار نہیں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ قرآن کہتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کے پاس جاؤ گے تو ان جیسے ہوجاؤ گے، امام خمینی نے خطے میں ان چار ستونوں میں سے ایک ستون کو گرا دیا جو استعماری مقاصد کے آلہ کار تھے، انہوں نے تہران میں اسرائیل کا سفارت خانہ ختم کرکے اسکی عمارت فلسطین کے حوالے کر دی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے زیر اہتمام قومی سیمیناربعنوان یوم آزادی پاکستان ویوم القدس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آخری جمعے کو قدس کی آزادی کےلیے باہر نکلیں، عالم اسلام کا یہ حال ہے کہ مختلف عرب ملکوں کی جنگیں اسرائیل کے ساتھ ہوئی ہیں، کسی نے آج تک اسرائیل کو نشانہ نہیں بنایا۔ حماس اور فلسطین کے عوام کے سوا کسی نے اسرائیل پر حملہ نہیں کیا، جو امریکیوں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں گے اور رقص کریں گے وہ کبھی فلسطین کو آزاد نہیں کروا سکتے۔ آج امریکہ شکست کھا رہا ہے۔ 41ممالک کا اتحاد امریکہ و اسرائیل کو بچا رہا ہے، ہم کسی ایسے الائنس کا حصہ نہیں بنیں گے جو امریکی مقاصد کو پورا کرے۔ ملی یکجہتی کونسل مبارک باد کی مستحق ہے، جس کے تحت قبلہ اول کی آزادی کے لیے پاکستان کے تمام مسلمان اکٹھے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree