The Latest

وحدت نیوز (بھٹ شاہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور تبلیغات علامہ شیخ اعجاز حسین بہشتی نے بھٹ شاہ میں حلقہNA-218سےضمنی الیکشن میں ایم ڈبلیوایم کے نامزدامیدوار سید فرمان علی شاہ کاظمی کےانتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ   غریبوں اور ناداروں کافرعونوں کے مقابل صاحب اقتدارہونا وعدہ الہٰی ہے،حضرت موسی علیہ السلام نے عظیم جدوجہد کی اور زمانے کا فرعون سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غریب لوگ موسی علیہ السلام کی قیادت میں اسے شکست سے دوچارکریں گے،لیکن اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کے ولایت تکوینی کاامتحان بھی لینا تھا کہ  فقیرانہ لباس اور ایک لاٹھی کے ساتھ کس طرح زمانے کی سپرد طاقت کو خاک میں ملایا جاتا ہے،جس کے بعدغریب و نادار لوگوں نے طاقت اور حکومت اپنے  ہاتھ میں لی۔

علامہ اعجاز بہشتی نے کہا کہ سندھ کے محروم عوام بھی وقت کے فرعونوں کے مقابل سینہ سپر ہوجائیں ،اپنی کمر کس لیں ،خدا مظلوموں کے حقوق غصب کرنے والوں کو کسی صورت نہیں بخشے گا، عوام کو ان کا حق مل کرہی رہے گا،یہ ایک طویل جدوجہد سے ہی ممکن ہے، اخلاص ، تقویٰ الہٰی اور توکل الاللہ شرط ہے،ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں موجود سیاسی فرعونوں نے قیام پاکستان سے لے کراب تک غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی، انکے منہ کے نوالے چھینے ایک دن آئے گا کہ کہ جب یہ انسان دشمن حکمران عذاب الہٰی کا شکار ہوں گے، انہوں نے کہا کہ بھٹ شاہ کی عوام اپنے پیر ومرشد حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے فکر وفلسفے پر عمل کرتے ہوئے غریبوں، لاچاروں،محروموں کے غم گذارفرمان شاہ کو ووٹ دیکر کامیاب بنائیں ۔

وحدت نیوز (ہالا) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے  حلقہ این اے 218 کے ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم کے سلسلے میں تحصیل بهٹ شاہ میں انتخابی جلسےسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنائج کی پرواکیئےبغیر ایک مرتبہ پھر تکفیریت کے مقابل ہالا میں سیاسی میدان میں اترے ہیں ،پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی عوامی حقوق کی ترجمان جماعت ہوا کرتی تھی یہ وقت آگیا ہے کہ مخدوم امین فہیم کی خالی نشست پر اسلام دشمن تکفیری انتہا پسند کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا ہے، انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیوایم شیعہ و سنی محروم عوام کی مشترکہ زبان ہے، ہم نے ہر جگہ تکفیریت کا تعقب کیا ہے انشاءاللہ ہالا سمیت وطن عزیزکے چپے چپے میں انہیں رسوا کرتے رہیں گے، سندھ کے جاگیر دار، وڈیرے اب ہوش کے ناخن لیں وہ وقت گزر گیا جب تم غریبوں پر ظلم کرتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا اب ہم سیاسی میدان میں حاضر ہیں اور تمہیں بے نقاب کرتے رہیں گے، انشاءاللہ ہالا کے عوام اپنا مقدر سنوارنے کیلئے فرمان شاہ کو خیمے کے نشان پر ووٹ دیکر کامیاب بنائیں گے۔

جلسےسے مجلس وحدت مسلمین کے امید وار حلقہ NA-218 سید فرمان علی شاہ، مرکزی سیکرٹری تربیت علامہ احمد اقبال رضوی , مرکزی سیکریٹری تبلیغات علامہ اعجاز حسین بہشتی ، رکن شوری عالی علامہ  حیدر علی جواری،تحریک  منہاج القرآن کے مرکزی ناظم اعلیٰ سید فرحت شاہ، مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی برادر یعقوب حسینی ،صوبائی سیکریٹری جنرل  علامہ مختار امامی ، مولانادوست علی سعیدی اور دیگر عمائدین نے بھی خطاب کیا۔

گلگت بلتستان ایک تاریخی موڑ پر

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی اسٹریٹجک علاقہ ہے جو پاکستان کو چین سے جوڑتا ہے۔

(1)سنگلاخ پہاڑی سلسلوں اور دسونں قدرتی خوبصورت مناظر سےآراستہ ر یہ علاقہ اپنے  بینظیرقدرتی حسن کے  باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

اس خطے میں 7ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلندترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جبکہ دنیا کے تین بڑے  گلیشیئر بھی اسی خطے میں ہی واقع ہیں۔

 (2)دیوسائی جیسا دنیا کا بلند ترین اور خوبصورت ترین  میدان بھی یہاں  واقع ہے۔یہاں بے پناہ معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ان سے اگر بھرپور استفادہ کیا  جائے تو گلگت بلتستان کا  کوئی گھرانہ حدغربت سے نیچے نہیں رہے گا۔ یہاں اتنے آبی ذخائر ہیں کہ اگر ان کو بروئے کار لایا جائے تو پورے پاکستانکے لیے  وافر مقدار میں بجلی  پیدا کی جاسکتی ہے۔ دفاعی حوالے سے یہ علاقہ پورے پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان کا سب  سے بڑا دریا،  دریائے سندھ بھی یہاں سے گزرتا ہے۔

یہاں کی عوام بہت ہی شریف النفس،دیندار، بااخلاق، بامروت، شجاع،  ایک دوسرے کے کام آنے والے، ہمدرد اوربہت ہی ایماندارہیں،یہاں کے لوگ اچھے مسلمان اور مہمان نواز  بھی ہیں۔ جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

(3) جس کا واضح ثبوت یہاں کے جیلوں میں مجرموں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔ پورے پاکستان میں پر امن ترین یہیعلاقہ سمجھا جاتا ہے۔ بلتستان میں تو  آج تک کوئی ایک  شخص بھی  فرقہ واریت کی بھینٹ نہیں چڑھا۔  یہاں تمام مکاتب فکر کے لوگ برادرانہ زندگی گزارتے ہیں۔یہاںپر  ایک  سوال ذہن میں آسکتا ہے کہ کیا یہ  سب کچھ خود بخود ممکن  ہوا؟ نہیں نہیں  بلکہ یہ سب کچھ علماء کی محنتوں اور ان کی کاوشوں  کا نتیجہ ہے۔انھوں نے لوگوں کے دلوں میں حقیقی اسلام کی روح پھونکی اور ایک دوسرے کے حقوق بیان  کیے۔جس کا پھل آج ہمیں امن و امان اور باہمی محبت کی صورت میں مل رہا ہے۔

۱۹۶۵کی جنگ ہو یا ۱۹۷۱ کا معرکہ ۱۹۹۹ کی گارگل وار ہو یا شمالی وزیرستان آپریشن، اکبر بکٹی کو گرفتارکرنے کا معاملہ ہو یا لال مسجد سے تکفیری دہشتگردوں کو شکست دینے کا مرحلہ،غرض ہرمشکل موڑ پریہاں کے جوانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے  سے کبھی  دریغ نہیں کیا اورآخری دم تک دشمن کے مقابلے میں مردانہ وار سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ملک کا دفاع کرتے رہے اور کبھی  بھی کسی دشمن کے مقابلے میں شکست تسلیم نہیں کی۔

یہاں کی عوام نے( اپنی دینی حمیت  اور ملی جذبے کی خاطر) اپنی مدد آپ کے تحت ۱۹۴۸ء میں خود لڑ کر آزادی حاصل کی ۔( پاکستان کے اسلام کے نام سے موسوم  ہونے اور دینی بنیاد وں پر استوار ہونے کے باعث، اسی  دینی جذبےکے تحت  بغیر کسی شرط کے) اور اپنی مرضی سے  پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔(4) بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسے خوش آئند قرار دے کربہ سر چشم تسلیم  کرلیالیکن   ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہماری تقدیر کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی بانی پاکستان انتقال کرگئے۔شاید آج بھی وہ اپنی قبر میں ہماری مظلومیت کا رونا رو رہے ہوں۔اس کے بعد سے ہماری مظلومیت  کا ایک نیا دور  شروع ہوا۔ نہ ہمیں ۱۹۷۳ء کے آئین میںکوئی قانونی حیثیت دی گئی اور نہ ہی بعد کے ادوار میں ہم اپنا تشخص پاسکے۔ جبکہ73ءکے آئین میں  کشمیریوں  کو اپنا مستقل حق مل گیا ۔البتہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں کے لوگوں کو کچھ ریلیف اور مراعات ملی لیکن قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے انھوں نے بھی کوئی  ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔  ہمیں نظرانداز کرنے کا یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے جاری رہاپھر بھی  ہم مملکت خداداد پاکستان سے اپنی دلی ہمدردی  اور محبت کا اظہار کرتے رہے لیکن ایوان اقتدار پرقابض  حکمران مسلسل ہماری محبت کو ٹھکراتے  ہی رہے۔ ہماری مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ جب کارگل وار میں ہمارے جوانوں نے شجاعت حیدری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پار کرکے کارگل کے بہت بڑے ایرئیے کو اپنے قبضے میں لیا ۔صلح کے بعد فوجی تبادلے کی باری آئی تو ہمارے وہ فوجی جوان  جو انڈین فوج کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، تو اس وقت کے  وزیر اعظم نے(جو اس وقت بھی وزیر اعظم ہیں) ان جوانوں  کے  پاکستانی فوجی ہونے سے انکار کرکے انیںن کشمیری مجاہدین  قرار دے دیا۔ بعد ازاں  جب ان کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور پرویز مشرف یہاں کے حکمران ہوئے تب انھوں نے ہمارے جوانوں کی شجاعت و بہادری اور قربانی کے جذبے کا مشاہدہ  کرکے انھیں مکمل رجمنٹ کی حیثیت دے دی اور انں ح کے دور میں  گلگت بلتستان کونسل کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ بھی  ملا۔ (البتہ صرف نام کی اسمبلی رہی لیکن کوئی اختیار انہیں بھی حاصل نہیں ہوا) بالفاظ دیگر پرویز مشرف بھی ہمیں قانونی حیثیت دینے میں ناکام رہے بلکہ ان کے دور میں بھی کچھ متنازعہ باتیں چلیں لیکن ہماری عوام کی بیداری کے باعث وہ بھی ہمیں متنازعہ قرار نہیں دے پائے۔ بعدازاں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تب انھوں نے آئینی حیثیت دینے کا نعرہ  بلند کیا۔آخر کار 9/اگست ۲۰۰۹پاکستان کے صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدد سے اس علاقے کو خودمختاری دی گئی اور شمالی علاقہ جات کی جگہ اب گلگت بلتستان نام دے دیاگیا۔(5) لیکن پھر بھی وہ ہمیں قومی اسمبلی میں سیٹیں دے سکے اور نہ ہی سینیٹ میں  کوئی  نمائندگی  اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آخر ہماری شرافت کا امتحان کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے خلوص کو کب تک ٹھکرایا جاتا رہے گا؟ ہمیں کب تک آئینی حیثیت سے محروم رکھا جائے گا؟

جوں جوں ۲۰۱۵ کے انتخابات قریب ہوتے گئے سارے سیاسی حلقوں میں گہما گہمی  پیدا ہوتی گئی۔ بڑے بڑے ایجنڈے بھی پیش کیے جانے لگے، بہت سارےسبز باغ بھی  دکھائے جانے لگے۔ بالخصوص موجودہ حکومت نے یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ مسلم لیگ  (ن) جیتنے    کی صورت میں ہم آپ کو مکمل  آئینی حق دیں گے۔ ہماری عوام پرامید تھی لیکن  ان کے برسراقتدارآنے کے بعدبھی  سناٹا چھا گیا۔  اتنے میں پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہوا۔ تب چینی  حکومت نے اس  معاہدے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے مشروط قرار دیا۔ اس طرح  آئینی حیثیت کا تعین موجودہ  حکومت کی ایک مجبوری بن گئی۔ ہماری صوبائی اسمبلی نے آئینی حیثیت کے لیے اپنی طرف سے مسودہ تیار کرکے وفاق کو بھی ارسال کردیا تھا اور  ہماری سادہ لوح عوام اور نمائندے بھی پر امید بیٹھے تھے اتنے میں استور سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالسمیع نے ایک حقیقت سے پردہ فاش کیا کہ" گلگت بلتستان کو تقسیم کرنے کی وزیر اعلی نے تجویز پیش کردی  ہے" ﴿6﴾ اب یہاں  پر چند  سوالات جنم لیتے ہیں:

کیا ہمارے سیاسی نمائندوں کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کے وزیر اعلی اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا گیا تھا  اس سے وزیر اعلی بے خبر تھے؟  کیا وزیر اعلی نے اپنے پارٹی ممبران کو بھی  اعتماد میں نہیں لیا تھا؟ ہماری سیاسی پالیسی قانون ساز اسمبلی میں بنتی ہے یا کہیں اور؟ کیا ان کو گلگت بلتستان کا وزیر اعلی ہونے کے حوالے سے ہماری نمائندگی میں دشمن کے خلاف ہمارا دفاع کرنا چاہیےتھا یا کشمیری اور بعض مذہبی حلقوں کا  ایجنٹ بن کر  ہمارا فریق ؟ اس وقت جب گلگت بلتستان کی تقدیر کا فیصلہ ہونے جارہا ہے تو ایسے حساس موڑ پر ان کا یہ  بیان دینا " داریل تنگیر میں طالبان چھپے ہوئے ہیں"﴿7﴾اور ان کا یہ کہنا کہ " گلگت بلتستان کے کچھ علاقے متنازعہ نہیں انہیں آئینی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا" ﴿8﴾ یہاں ان کی مراد کیا ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے کسی ہمدرد شہری سے ایسا بیان صادر ہوسکتا ہے؟

اب یہاں مزید چند سوالات جنم لیتے ہیں:  کیا  یہ اس کی اپنی فکر اور سوچ ہے یا وفاق اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ شاید حکومت چاہتی ہو کہ صرف چیناور یہاں کی عوام کو ٹرخانے کی خاطر ایک مختصر پیکیج گلگت بلتستان کو دے کر عوامی مخالفت کو روک سکے۔یعنی عوامی توجہ اصل مسئلے سے ہٹاکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ یوں عوام بھی خاموش ہوجائیں اور انہیں آئینی حق بھی دینا نہ  پڑے ۔دوسرا حتمال یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ جناب وزیر اعلی پر  سیاسی عہدے سے زیادہ مسلکی تعصب  حاکم ہے لہذا وہ اپنے ہم مذہب دھڑوں کو خوش کرنے کی خاطر گلگت بلتستان کا سودا کر رہے ہیں۔ تیسرا احتمال  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عوامی جذبات اور بیداری کا امتحان لینا ہو تاکہ اسی کے مطابق آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکیں۔ بنابریں اس حساس مرحلے میں ہمارے علماء، دانشور، سیاسی نمائندے اور عوام سب کو نہایت ہی گہری سوچ کے ساتھ مل کرقدم  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اب اتنےحقائق سامنےآنےکےبعدوزیر اعلی خود سے انکی تائید کریں  یا تکذیب، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ہرصورت میں اتنا توضرورواضح ہوگیاکہ یہ شخص کسی صورت گلگت بلتستان کاوزیراعلی قرارپانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔البتہ  کسی کا ایجنٹ تو ضرورہوسکتا ہے۔حقیقت میں  جو بھی ہو ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فورا  اس متعصب وزیر اعلی کو ہٹاکر کسی ہمدرد اور  قومی  و ملی جذبے سے سرشار شخصیت کو اس کی جگہ مقرر کرے ۔ علاوہ ازیں ہم حکومت وقت کو یہ بھی  آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ  ہمارے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ ہم ۶۷ سال غیرآئینی وقت گزار چکے ہیں  اب مزید غیر قانونی رہنا ہمارے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔  پھر بھی اگر حکومت وقت ہمیں مکمل آئینی حق کے طور پر مکمل صوبے کی حیثیت نہ دے  تو اگلے مرحلے  میں عوام  ایک جداگانہ ریاست کے لیے قدم بڑھانا شروع کرسکتی ہے۔ تب  اس سیلابی ریلے کو روکنا حکومت  کےبس سے باہر ہوگا ۔ لہذا آئینی حیثیت کے بغیر اب ہمارا زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی کا زندہ رہنا۔ہم امید رکھتے ہیں کہ ایوان اقتدار پر قابض افراد ہماری ان باتوں پر ہمدردانہ غور  و فکرکرکے ہماری آئینی حیثیت کا تعین کریں۔

آج تو کشمیر اسمبلی میں بھی گلگت بلتستان صوبے کے خلاف قرارداد منظور ہوگئی۔ (9)جب بھی ہم کسی اہم موڑ پر پہنچ جاتے ہیں تب کشمیری حکومت ہماری راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے جبکہ ہم نے ان کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ اگر  آپ ہمیں کشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں  تو 73 کے آئین میں اپنا حق لیتے وقت  ہمیں بھی ذرا یاد کرکے وہاں ہمارا نام بھی شامل کرتے۔ہم نے ان کے حقوق کے خلاف نہ اس وقت آواز اٹھائی اور نہ ہی آج اٹھارہے ہیں کیونکہ شروع سے ہی وہ اور ہم   الگ  الگ ہیں۔ ان کی بے جا مخالفتوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے حقوق پر ڈاکہ اور ہمارے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔


حوالہ جات:
1: ڈیلی کے ٹو، 19-4-2015
2: روزنامہ آج،4ستمبر2009
3: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات
4: روزنامہ جنگ، 11ستمبر2009
5: ویکپیڈیا شمالی علاقہ جات، ڈیلی کے ٹو، 19۔4۔2015
6: ڈیلی کے ٹو، ۱۱جنوری۔2016
7:ڈیلی کے ٹو ۱۲ جنوری۔2016
8:ایضا
9:ڈیلی کے ٹو، 13جنوری2016

 

 

تحریر۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (کراچی) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین کراچی ڈویژن کی جانب سے گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی جشنِ الصادقین کی مناسبت سے جشنِ عید میلاد النبیﷺ و جشنِ ولادتِ امامِ جعفرِ صادق[ع]  کا اہتمام کیا گیا جسمیں خواتین اور بچوں نےبھر پور انداز میں شھر کے مختلف علاقوں سے شرکت فرمائی.اس پروگرام میں شرکت کے لئے خصوصی طور پہ بحیثیت مہمانِ خصوصی خانوادہ شھداء کو دعوت دی گئ تھی.اسکے علاوہ ایک جانب شھداء کارنرترتیب دیا گیا تھا جہاںشھداءِ ملتِ جعفریہ کی تصاویر پھولوں پہ آویزاں کی گیں تھیں.جبکہ خانوادہِ شھداء کا استقبال بھی پھولوں کے ساتھ کیا گیا تھا.

دیگر مہمانانِ خصوصی میں مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما  علامہ اعجاز حسین بہشتی ،خواہر سیما منظور، فاضلہ قم،مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی کوآرڈینیٹرخواہر زہرہ نقوی کو دعوت دی گئ تھی.

پروگرام کا باقائدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک اورحدیثِ کساءسے کیا گیا.جسکا شرف خواہر ثروت عسکری سیکرٹری شعبہ سیاسیات نے حاصل کیا.جسکے بعد حمد و نعتِ رسولِ مقبولﷺ پیش کرنے برادر امیر حیدر تشریف لائے.پروگرام کے آغاز سے قبل ہی شھیدِ انسانیت و عظیم وعالی مرتبت رہنما  آیت الللہ باقر النمرؒ کی مظلومانہ شھادت کی خبر، انتہائی غم کی صورت موسول ہو چکی تھی لہذا پوری محفل آپ کی شھادت سےمضموم کر دی گئ.اس عظیم سانحہ ہر آنکھ اشکبار تھی.بارگاہِ امامِ زمانہ[ع] میں اور تمام مومنین و مومنات کو اس سانحہ پہ تعزیت پیش کی گئ اور تمام شھداء ملتِ جعفریہ کےبلندیِ دراجات کے لیے فاتحہ خوانی بھی کرائی گئ.

 تمام خطباءنے اپنے خطابات میں انتہائی تفصیل کے ساتھ آیت الللہ باقر النمرؒکی زندگانئ و جدوجہدِ مسلسل کو بیان کیا اور رمزِ شھادت پر خصوصی روشنی ڈالی.اور اس بات کی اہمیت کی نشاندہی کی کہ فی زمانہ اس میثمِ زماںؑ کی طرح دار پہ بھی حق بات کے لئے آواز بلند کرنی ہےاور ظالم کی نابودی کے لیے ظلم سے ٹکرا کر اسوہِ حسینی[ع]پر عمل کرکے دیکھانا ہے.درحقیقت ہی اسوہِ زینبی[ع] بھی ہے.

دورانِ پروگرام بارگاہ رسالت مآبﷺ اور بارگاہِ معصومین[ع] میں مسلسل دورد بھی پش کئے جاتے رہے.جبکہ پروگرام کے باقائدہ اختتام پر برائے تعجیلِ ظہورِ امامِ[ع]  منقبت بارگاہِ امامِ زمانہ[ع] میں پیش کی گئ جسکی سعادت کا شرف خواہر رجاء اور خواہر ایلیاء نے حاصل کیااسکے بعد مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی کوآرڈینیٹر خواہر زہرہ نقوینے دعائے سلامتی امامِ زمانہ[ع]کے دعا کروائی  اور ملک و ملتِ جعفریہ کےلئے دعا کا اہتمام کیاگیا.

وحدت نیوز (گلگت) مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف پورے گلگت بلتستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔آج کی اس ہڑتال کی کال انٹی ٹیکس مومنٹ کی جانب سے دی گئی تھی جس کی تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول عوامی ایکشن کمیٹی نے بھرپور حمایت کا یقین دلایا تھا۔آج کی یہ علامتی ہڑتال کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام نے لیگی حکومت کو ہری جھنڈی دکھادی ہے کہ وہ کسی بھی ظالمانہ اقدام کے خلاف خاموش نہیں رہینگے۔

یاد رہے کہ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گلگت بلتستان میں انکم ٹیکس کا نفاذ عمل لایا گیا تھا جبکہ موجود حکومت نے اس ٹیکس میں مزید اضافہ کیا گیا ۔یہ بھی یاد رہے کہ گلگت بلتستان 68 سالوں سے آئینی حقوق سے محروم ہیں اور حکومت پاکستان کے نااہل حکمرانوں نے تاحال گلگت بلتستان کو اپنے آئین کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ یہاں کے عوام کا شروع دن سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرکے اسے ملک کا پانچواں صوبہ قرار دیا جائے اور تمام تر اختیارات جو وفاق نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں گلگت بلتستان کے عوام کو دئیے جائیں لیکن عوام کے خواہشات کے برعکس پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایک ڈی فیکٹو صوبائی سٹیٹس کا لولی پاپ دیکر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی لیکن تمام تر اختیارات اپنے پاس رکھ لئے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ اگر یہ علاقے پاکستان کا حصہ نہیں اور حکومت پاکستان ان علاقوں کو آئینی حقوق دینے سے مقصر ہے تو پھر بین الاقوامی قوانین کے مطابق متنازعہ خطے کے تمام حقوق دئیے جائیں جو کہ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو دیئے ہیں۔حال ہی میں مسلم لیگ نواز نے گلگت بلتستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر مکمل آئینی صوبے کا مطالبہ کیا تھا۔اسی طرح سابقہ صوبائی اسمبلی اور موجودہ اسمبلی کے اراکین نے متفقہ طور ایک قرارداد کے ذریعے حکومت پاکستان سے ایک مکمل آئین صوبے کا مطالبہ کیا ہے۔

حکومت پاکستان کو پاک چین اقتصادی راہداری کی خاطر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو واضح کرنا ضروری ہوگیا ہے جس کے بغیر چائنہ اس راہداری پر کام کرنے کو تیار نہیں ۔دوسری طرف نواز لیگ کا وزیر اعلیٰ آج کل گلگت بلتستان کی تقسیم کے پیچھے لگ گیا اور انہوں نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ استور اور بلتستان کشمیر کا حصہ ہیں جبکہ گلگت دیامر ہنزہ نگر اور غذر کا پاکستان سے الحاق ہوچکا ہے اور یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں۔ان کے بقول استور اور بلتستان کے علاقے کشمیر کا حصہ ہیں۔ان حالات میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کو آگے چل کر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا چونکہ بلتستان اور استور کے عوام نے وزیر اعلیٰ کی اس تقسیم کے حوالے سے سخت مذمت کرتے ہوئے حفیظ الرحمن کو مجیب الرحمن کے مشابہ قرار دیا ہے۔اسی طرح گلگت ،ہنزہ نگر،غذر اور دیامر کے سیاسی قائدین نے بھی حفیظ الرحمن پر سخت تنقید کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی تقسیم کی سخت مخالفت کی ہے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سکرٹری علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اے آر وائی چینل پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ہاوس سے چند منٹ کی مسافت پر دہشت گردی کا یہ واقعہ ملکی سلامتی کے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں دہشت گردی کا یہ واقعہ حکومت کی طرف سے داعش اوران کے سہولت کاروں کے خلاف کاروائی میں مسلسل تساہل برتنے کا نتیجہ ہے۔اگر حکومت داعش اور اس سے فکری ہم آہنگی رکھنے والی شخصیات پر ہاتھ ڈالنے سے اسی طرح گریزاں رہی تو پھر ان مذموم عناصر کے حوصلے مزید بلند ہوں گے۔پاکستان دشمن قوتیں اپنے آلہ کاروں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرا کے پاکستان میں داعش کے وجود کو ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں جس سے ملکی سلامتی اور خودمختاری کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ آزادی صحافت کو دبانے کی ایک مذموم سازش ہے جس کے خلاف ہم صحافی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک بھر بالخصوص اسلام آباد میں دہشت گردوں کے خلاف فوری طور پر ایک جامع اور موثر آپریشن کیا جائے اور دہشت گردوں سمیت ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنے میں کسی مصلحت یا دباو کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ ) مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا رضوی (آغارضا)نے ایک بیان میں پاک چین اقتصادی راہداری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اس منصوبے میں صوبہ بلوچستان کو نظر انداز کر رہی ہے، جو فیصلہ کیا گیا تھا اس سے مکرنا کسی بھی سیاسی جماعت کو زیبا نہیں دیتا۔ اقتصادی راہداری منصوبے میں اول تو مشرقی روٹ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا تھا جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اعتماد کا اظہار کیا تھا مگر بعداً مشرقی روٹ مترف کروایا گیا اور کسی بھی سیاسی جماعت سے مشورے کے بغیر وفاقی حکومت نے اپنی من مانی کی۔

ان کاکہناتھا کہ وفاقی حکومت کے اعمال سے ایسا لگتا ہے جیسے یہ حکومت وفاقی نہیں بلکہ صرف پنجاب کی حکومت ہے اور جسکا مقصد پاکستان کی ترقی نہیں بلکہ پنجاب کی ترقی ہو۔ صوبہ پنجاب کے علاوہ باقی تمام صوبے اقتصادی راہداری منصوبے میں بلوچستان اور خیبر پختونخواں یعنی مغربی روٹ کی حمایت کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے اور ایسے اقدامات اٹھائے جس پر سب راضی ہو اور جس سے ملک و قوم کو ترقی ملے۔

انہوں نے کہاکہ جس منصوبے کو دنیا کا سب سے بڑا منصوبے کہا جا رہا ہے اور جو پاکستان کی قسمت بدلنے والا ہے اس پر تنازع قابل افسوس ہے۔اللہ تعالیٰ نے صوبہ بلوچستان کو ترقی کا موقع دیا ہے ، ایسے حالات میں حکومت کی منمانی ملکی سیاست میں دشواریاں پیدا کر رہی ہے اور اگر اصولاً بات کی جائے تو اس منصوبے سے بلوچستان کو زیادہ فائدہ پہنچنا چاہئے۔ بلوچستان کے عوام کسی میٹرو بس جیسے منصوبوں سے جتنا دور ہے اتنا ہی دیگر غیر ضروری چیزوں کے طلبگار بھی نہیں ہیں مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنے حق تلفی پر بھی خاموش رہیں گے۔ ان کا مذید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے ن لیگ کے مرکزی قیادت اور وفاقی حکومت سے بات کرے اور بلوچستان کو ترقی کی راہ میں گامزن کرنے والے اس منصوبے سے بلوچستان کو فائدہ دلائے۔

وحدت نیوز (ڈیرہ مراد جمالی) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے سانحہ چھلگری کے متاثرین اور وارثان شہداء و زخمیوں کے ہمراہ ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ چھلگری کو تین ماہ کا طویل عرصہ گذر گیا مگر آج بھی وارثان شہداء انصاف کے منتظر ہیں ۔نصیر آباڈویژن سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس اور سہولت کار موجود ہیں جن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا رہی۔سانحہ کے زخمیوں کے لیے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ رقم نہیں دی گئی جبکہ یادگار شہداء ٹاور کی تعمیر کا کام بھی شروع نہیں ہوا ۔نیشنل ایکشن پلان کے با وجود بلوچستان میں کالعدم دہشت گرد جماعتوں کی نفرت انگیز سر گر میاں ،بیانات سوالیہ نشان ہیں؟انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں تکفیری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ وارثان شہداء کو اس سانحے اور کیس سے متعلق پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا جارہا جبکہ ڈپٹی کمشنر بولان نے ابھی تک متا ثرہ امامبارگاہ اور مسجد کی سیکیورٹی کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان حکومت نے مسائل حل نہ کیے تو وارثان شہداء احتجاجی تحریک چلائیں گے اور شہداء کے معصوم بچے وارثان شہداء علماء کرام اور اکابرین کے ہمراہ اس نا انصافی کے خلاف بھر پور احتجاج کریں گے۔

اس موقع پر شہداء کے وارث مختیار علی چھلگری ،مولانا برکت علی چھلگری،سید ظفر عباس شمسی،ایم ڈبلیو ایم کے رہنما مولانا تجمل عباس جعفری و دیگر ان کے ہمراہ تھے۔

وحدت نیوز (گلگت) گلگت بلتستان کی تقسیم کی بات کرکے وزیر اعلیٰ حق حکمرانی کھو چکے ہیں ،فوری طور پر اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے وزیر اعلیٰ کا محاسبہ کیا جائے۔اس متنازعہ بیان کے پیچھے یا تو کوئی گہری سازش چھپی ہوئی ہے یا پھر وزیر اعلیٰ کا ذہنی توازن بگڑ چکا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور ممبر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ڈاکٹر حاجی رضوان علی نے کہا ہے کہ مجیب الرحمن اور حفیظ الرحمن کی سیاست میں مماثلت پائی جاتی ہے ،ایک نے بنگلہ دیش کو پاکستان سے جدا کردیا تو یہ صاحب استور اور بلتستان کو ہم سے جدا کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔وزیر اعلیٰ کے متنازعہ بیان کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ کارفرما ہے اس سازش کے پیچھے اصل محرکات کا پتہ لگاکر حقائق کو منظر عام پر لایا جائے اور وزیر اعلیٰ پر علاقے سے غداری کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے۔وزیر اعلیٰ کا یہ اقدام اراکین اسمبلی کی توہین کے ساتھ ساتھ اس متفقہ قرار داد کی نفی بھی ہے جس کی حال ہی میں اراکین اسمبلی نے متفقہ طور پر حمایت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اگرحفیظ الرحمن کی منطق کو صحیح تسلیم کیا جائے تو پھر یہ علاقے کسی زمانے میں ڈوگرہ راج اور سکھوں کی عملداری تھے ،اسی طرح خود کشمیری مہاراجہ گلاب سنگھ کی عمل داری میں بھی رہے ہیں۔انہیں چاہئے کہ جو جوعلاقے جس جس کی عملداری میں رہے ہیں ان سب کو لوٹادیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو کشمیری ہی کیوں یاد آرہے ہیں کیا 16 دنوں تک گلگت بلتستان ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں رہا،موصوف میں ہمت ہے گلگت بلتستان کی آزاد حیثیت کا مطالبہ کیو ں نہیں کرتے؟کیوں اس خطے کی ایک بڑی آبادی کو کشمیر کی جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مقتدر حلقوں کو تجویز پیش کی کہ اگر تووزیر اعلیٰ کی یہ حرکت دانستہ ہے تو ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے اور اگر نادانستہ ہے تو پھر انہیں کسی مینٹل ہسپتال میں داخل کیا جائے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری سیاسیات کامران حسین ہزارہ نے گوادر کاشغر معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ پہلے تو وفاقی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا اور گوادر سے کاشغر تک کے روٹ کا فیصلہ کردیا جس پر دیگر جماعتوں نے حکومت پر کااعتماد کا اظہار کیا مگر بعداً وفاق نے اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے مشرقی روٹ معترف کروایا جو کہ پورے ملک کے ساتھ وعدہ خلافی کے مترادف ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں یہی چاہتے ہیں کہ مغربی روٹ کو تعمیر کیا جائے اور گوادر سے کاشغر تک کے راستے کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا ں سے گزارہ جائے مگر وفاق صرف اس لئے اس روٹ کو تعمیر نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس میں پنجاب کو کم فائدہ ہوگا اور پنجاب کے بجائے بلوچستان اور خیبر پختونخوا ں کے عوام زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔ اس وقت وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ ملکی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دے۔

بلوچستان اور خیبر پختونخواں بھی وطن عزیز پاکستان کا حصہ ہے، ان صوبوں کے عوام کو انکو حق سے محروم نہیں رکھنا چاہئے بلکہ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسا کام کر جائے کہ آئیندہ بھی لوگ ان پر اعتماد کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت چاہے جو کہے مگر حقیقت یہی ہے کہ اس منصوبے پر اتفاق رائے ختم کردیا گیا ہے اور حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی مرضی پر عمل کر رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ناراضگی خوش آئیند نہیں،وفاق مغربی روٹ پر کام شروع کرکے اپنی ذمہ داریوں اور اپنے وعدوں کو پورا کرے تاکہ روشن مستقبل کا خواب حقیقت میں تبدیل ہوجائے۔ بیان کہ آخر میں کہا گیا کہ گوادر کاشغر روٹ کے تکمیل سے ملک کو بہت سے فوائد ہونگے اور وطن عزیز جنوبی ایشیاء میں اپنی ترقی کے باعث مقبولیت حاصل کر لی گی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree